Tag: یوم وفات

  • شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    آج شہرہ آفاق مصوّر، خطاط اور نقّاش صادقین کا یومِ وفات ہے، وہ 10 فروری 1987ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا جنھیں فن کی دنیا میں‌ صادقین کے نام سے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔

    20 جون 1930ء کو پیدا ہونے والے صادقین 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ یہاں وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے لیے پہچان بنانے لگے۔ ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایرپورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔

    کچھ عرصے کے بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں اپنے فن کے نمونے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصورانہ خطاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یوں انھوں نے اسلامی خطاطی میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی اور ان کی مصوری اور خطاطی کے نمونے گیلریز کا حصّہ بنے۔ 1986ء میں کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن ان کی اچانک موت کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔

    صادقین ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنف تھی۔ صادقین نے اپنی شاعری کو بھی مصورانہ انداز میں‌ پیش کیا ہے۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    10 فروری 2016ء کو تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی پانچویں برسی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں اور 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آبسا تھا۔ ان کا پورا گھرانہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہے۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا اسی گھرانے کے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ آج بھی ان کے تحریر کردہ ڈرامے بلاامتیازِ جنس و طبقہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرہ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی فنّی مہارت سے اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں بجیا ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئی تھیں۔

  • معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    آج معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی ہے۔ وہ 8 فروری 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نہال عبداللہ کا تعلق ہندوستان کی ریاست جے پور سے تھا جہاں وہ 1924ء میں قصبہ چڑاوا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا سُر اور ساز کے حوالے مشہور تھا۔ نہال عبداللہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اللہ دیا سارنگی نواز اور اپنے بھائی استاد جمال خان سارنگی نواز سے حاصل کی تھی۔

    اس فن کار کی وابستگی اور شہرت کا اہم میڈیم ریڈیو رہا۔ وہ‌ 1948ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تھے۔ نہال عبداللہ نے 1951ء میں پاکستان کے قومی ترانے کی کمپوزنگ میں حصّہ لیا اور 1953ء میں جب یہ قومی ترانہ ریکارڈ ہوا تو اس میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔

    نہال عبداللہ نے ایک فلم چراغ جلتا رہا کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس کے ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں انھوں نے نفیس فریدی کا لکھا ہوا گیت ’’پاکستانی بڑے لڑیا، جن کی سہی نہ جائے مار‘‘ گا کر بے حد شہرت حاصل کی تھی۔ معروف شاعر عزیز حامد مدنی کی ایک غزل ’’تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی‘‘ بھی ان کی کمپوزنگ میں بہت مشہور ہوئی۔ اسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

  • فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی ہے وہ 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔

    4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی بیگم خورشید مرزا کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ خورشید جہاں 17 برس کی عمر میں اکبر حسین مرزا سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئی تھیں‌ جو پولیس افسر تھے۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں نے ہندوستان میں فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کی اور ایک صدا کار کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے بیگم خورشید مرزا کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شایع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔

    بیگم خورشید مرزا لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام ور اداکارہ سورن لتا کا یومِ وفات

    نام ور اداکارہ سورن لتا کا یومِ وفات

    8 فروری 2008ء کو برصغیر پاک و ہند کی نام ور اداکارہ سورن لتا وفات پاگئی تھیں۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ سورن لتا تعلیم یافتہ اور باشعور عورت تھیں جنھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور اس حوالے سے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے ہوا تھا۔

    1943ء میں انھوں نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ سورن لتا کی اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی نذیر کے ساتھ کام کیا تھا۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور شائقین نے سنا کہ سورن لتا نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی ہے۔ ان کا اسلامی نام سعیدہ بانو رکھا گیا۔ تاہم فلم نگری میں وہ سورن لتا ہی کے نام سے پہچانی گئیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی۔ اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کا کردار انہی دونوں نے ادا کیا۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر تھے اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کی زبردست کام یابی کے بعد نذیر اور سورن لتا کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں نذیر ولن کا کردار ادا کیا تھا۔

    1953ء میں سورن لتا کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ چند مزید فلمیں کرنے کے بعد سورن لتا فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئیں اور خود کو اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود کرلیا۔ وہ آخر وقت تک اس کی سربراہ رہیں۔

  • ممتاز شاعر و ادیب صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    ممتاز شاعر و ادیب صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    اردو ادب کی ممتاز اور ہمہ جہت شخصیت صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 7 فروری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو، فارسی اور پنجابی زبانوں شاعر، ادیب اور نقّاد کی حیثیت سے نام وَر ہوئے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ‌ تبسّم ادیب و شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی اپنی علمی و ادبی کاوشوں کے لیے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ ان کا ایک نمایاں حوالہ بچّوں کا ادب ہے جس میں انھوں نے مضامین و تراجم کے علاوہ خاص طور پر اپنی نظموں سے بچّوں کو لطف اندوز ہونے کے ساتھ علم و عمل کی طرف راغب کیا۔ بچّوں‌ کے لیے ان کی تخلیقات کو بے حد مقبولیت ملی۔ ٹوٹ بٹوٹ انہی کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جو آج بھی ہمارے ذہن پر نقش پر ہے اور اب بھی یہ نظمیں‌ بچّے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں جس کی بدولت صوفی تبسّم کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا جب کہ حکومتِ ایران نے نشانِ سپاس عطا کیا تھا۔ صوفی غلام مصطفٰی تبسّم لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    درجنوں سریلی اور سدا بہار دھنوں کے خالق، موسیقار ایم اشرف 4 فروری 2007ء کو یہ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں جیسے درجنوں لازوال گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے ایم اشرف یکم فروری 1938ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے اور موسیقار اختر حسین کے شاگرد تھے۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر انھوں نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کیں۔ ایم اشرف نے اپے کیریئر میں 400 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ انھوں نے متعدد گلوکاروں کو بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا جن میں ناہید اختر، نیرہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ وہ 60 اور 70 کے عشروں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔

    ایم اشرف کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں‌ بچھا دوں جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے مقبولِ عام بنایا اور یہ فلمیں‌ بھی اپنے گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ آج بھی اس زمانے کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ یہ گانے ہمارے کانوں‌ میں‌ رس گھولتے ہیں اور انھیں نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سید، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے اُن کے مرتب کردہ گیت گائے۔

    ان کی مشہور فلموں میں سپیرن، ماں کے آنسو، تیس مار خان، جمیلہ، عورت کا پیار، آئینہ، سوسائٹی، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، میرا نام ہے محبت، آئینہ اور صورت، شبانہ، گھرانہ اور قربانی شامل ہیں۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کے نگار ایوارڈز حاصل کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • یکتائے روزگار شاعر یاس یگانہ چنگیزی کی برسی

    یکتائے روزگار شاعر یاس یگانہ چنگیزی کی برسی

    اردو کے نام ور شاعر یاس گانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ وہ 17 اکتوبر 1884ء کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو یاس تخلص رکھا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچان بنائی۔ 1904ء میں لکھنؤ ہجرت کرگئے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    اس دور میں لکھنؤ میں مشاعروں اور ادبی محافل کا انعقاد عام تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ یگانہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، حتّیٰ کہ مرزا غالب جیسے شاعر پر بھی اعتراض اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ تاہم اس سے یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن و تخلیق کی اہمیت کم نہیں‌ ہوتی۔ یگانہ نے بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کیا اور اپنے طرزِ‌ بیان سے اس صنفِ سخن کو جدید رنگ میں‌ ڈھلنے کا راستہ دکھایا۔

    یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    یگانہ لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

  • مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    آج اردو کی معروف ناول نگار، افسانہ اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ راجہ گدھ ان کا وہ ناول ہے جس کا شمار اردو کے مقبول ترین نالوں میں ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد ڈرامے لکھے جنھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو زبان کی معروف ادیب بانو قدسیہ کا تعلق مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے تھا جہاں انھوں نے 28 نومبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ انھوں نے کنیئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وہ پاکستان کے مشہور و معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں۔

    بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری کے طور پر جانی جاتی ہیں جنھوں نے 1981 میں ’راجہ گدھ‘ لکھا تھا۔ اس مقبولِ عام ناول کے چودہ سے زائد ایڈیشن شایع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو درجن سے زیادہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جن میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح شامل ہیں۔ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل اور حاصل گھاٹ جیسی کہانیاں ان کی پہچان بنیں۔ بانو قدسیہ نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘, ’خانہ بدوش‘, ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

    ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے بانو قدسیہ کو تمغۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ وہ چار فروری 2017ء کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔

  • اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    مشرقِ وسطیٰ میں گلوکارہ اُمِّ کلثوم کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطابات اور متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 3 فروری 1975ء کو اس عظیم گلوکارہ نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق مصر سے تھا جہاں انھوں نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے عرب کلاسیکی موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ عرب دنیا کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ایک پروگرام نشر ہوا اور اس کے بعد ان کی آواز عرب دنیا میں گونجنے لگی۔

    امِّ کلثوم نے بدوئوں اور دیہاتیوں کے لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اور ثقافت سے آشنا تھیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عرب کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کیا اور قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیتوں کو اپنی آواز میں‌ یوں پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔

    امِّ کلثوم نے ان گیتوں کی بدولت لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے مداحوں میں مصر ہی نہیں عرب دنیا کے خاص و عام اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔ اس گلوکارہ کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    اس گلوکارہ نے علامہ اقبال کی نظموں شکوہ، جوابِ شکوہ کا عربی ترجمہ بھی گایا تھا جس پر حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس عظیم گلوکارہ کے جنازے میں‌ لاکھوں افراد شریک ہوئے۔