Tag: یوم وفات

  • ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    اردو کے نام ور شاعر عبدالعزیز خالد 28 جنوری 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں شاعری میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا جس نے اس صنفِ ادب میں مشرقی روح اور طرزِ بیاں کو زندہ کیا۔

    عبدالعزیز خالد 14 جنوری 1927ء کو تحصیل نکو در ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے فارغ التّحصیل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں کالج کے مجلّے کی ادارت کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    1950ء میں انھوں‌ نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس افسر مقرّر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ ملازمت کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔

    عبد العزیز خالد کو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اپنی اسی قابلیت کی بنیاد پر انھوں نے غیر ملکی زبانوں کے شعری تراجم بھی کیے۔

    عبدالعزیز خالد کی تصانیف میں ماتم یک شہرِ آرزو، زرِ داغِ دل، خروشِ خم، فارقلیط، غبارِ شبنم، سرابِ ساحل، کلکِ موج، برگِ خزاں، دکانِ شیشہ گر، کفِ دریا، غزلُ الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔

    عبد العزیز خالد کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    پاکستان کے نام وَر سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 27 جنوری 2002ء کو وفات پاگئے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں‌ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف ساز اور سازندوں نے بھی شہرت پائی اور انہی میں‌ ایک نام اللّہ رکھا خان کا تھا جن کی آج برسی ہے۔

    ہندوستانی کلاسیکی سنگیت میں سارنگی وہ ساز تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی آواز سے سب سے زیادہ ملتا ہے۔ آج یہ ساز ہیں‌ اور نہ ہی اس کے بجانے والے موجود ہیں۔ ماضی کے نام ور سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 1932ء میں سیالکوٹ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بچپن ہی میں امرتسر چلے گئے تھے، وہیں اپنے والد استاد لال دین سے سارنگی بجانی سیکھی۔ بعدازاں استاد احمدی خان، استاد اللہ دیا اور استاد نتھو خان جیسے ماہر سازندوں سے استفادہ کیا۔

    1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ 1948ء میں وہ پاکستان آگئے تھے جہاں 1992ء تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔

    استاد اللّہ رکھا خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں‌ نے ایک مرتبہ قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

  • اردو زبان، تاریخ و ادب، مذہب اور صوفیا کی ارادت مند مستشرق این میری شمل

    اردو زبان، تاریخ و ادب، مذہب اور صوفیا کی ارادت مند مستشرق این میری شمل

    ڈاکٹراین میری شمل ممتاز جرمن اسکالر، ماہرِ اقبالیات اور مستشرق تھیں جنھوں‌ نے اردو زبان سے اپنی محبّت اور شعروادب سے لگاؤ کے سبب کئی علمی و ادبی مضامین تحریر کیے اور پاک و ہند کے نام ور ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 19 سال کی تھیں جب ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے انھوں نے ڈاکٹریٹ کی سند لی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنف تھیں جب کہ کئی علمی و ادبی موضوعات پر ان کی تحقیق و ترجمہ شدہ کتب شایع ہوئیں۔ مسلمان ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعروسخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب و تخلیقات کو مطالعہ کیا اور ان میں‌ گہری دل چسپی لی۔

    وہ متعدد بار پاکستان بھی آئیں جہاں انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا اور اس شعبے کی قابل پاکستانی شخصیات سے ملاقات میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ 26 جنوری 2003ء کو این میری شمل وفات پاگئی تھیں۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی ان کی علمی و ادبی کاوشوں اور اردو زبان کے لیے ان کی خدمات کو سراہا گیا اور لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

    ڈاکٹر شمل سنہ 1992 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے اتنی گہرائی سے نہیں لکھا تھا۔ انھیں نہ صرف امریکا بلکہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ ان کے اپنے وطن جرمنی میں بھی بے انتہا پذیرائی ملی۔ انھیں متعدد ایوارڈز اور اعزازی اسناد سے نوازا گیا۔

  • ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    27 جنوری 1997ء کو پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی وفات پاگئے۔ ضیا سرحدی کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ ضیا سرحدی پاکستان سے اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں شہر میڈرڈ میں‌ ان کا انتقال ہوا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند ہیں جب کہ موسیقار رفیق غزنوی ان کے داماد تھے۔

    ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد 1933ء میں بمبئی چلے گئے جہاں معروف ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ 1947ء میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں‌ خود کو آزمایا اور ان کی فلم نادان سامنے آئی۔ بطور ہدایت کار ان کی کام یاب فلموں میں انوکھی ادا، ہم لوگ، فٹ پاتھ اور آواز سرفہرست ہیں۔

    1958ء میں ضیا سرحدی پاکستان آگئے جہاں انہوں نے رہ گزر کے نام سے ایک فلم بنائی جو کام یاب نہ ہوسکی۔ ان کی چند فلمیں‌ "لاکھوں میں ایک، غنڈہ، اور نیا سورج وہ تھیں جن کی کہانی ضیا سرحدی نے لکھی تھی، لیکن ان میں سے بھی دو مکمل نہ ہوسکیں۔

    اسپین میں‌ وفات کے بعد ان کی میّت پاکستان لائی گئی اور انھیں‌ پشاور میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز مصوّر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل شاکر علی 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے فنِ خطّاطی میں‌ تجرید کے لیے بھی شہرت پائی۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلستان سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس کیا۔ شاکر علی نے مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آنے کے بعد لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، انھوں نے اپنایا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر کے فن اور اس حوالے سے ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا اور 1971ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے ممتاز طبلہ نواز استاد شوکت حسین کی برسی

    پاکستان کے ممتاز طبلہ نواز استاد شوکت حسین کی برسی

    25 جنوری 1996ء کو پاکستان کے مشہور طبلہ نواز استاد شوکت حسین وفات پاگئے۔ انھوں نے اس فن میں‌ اپنے کمال و مہارت کے سبب اپنے دور کے تمام نام وَر گویّوں اور مشہور و معروف گائیکوں اور سازندوں کی سنگت میں اپنی جگہ بنائی اور خوب داد وصول کی۔ کلاسیکی موسیقی کے ان عظیم ناموں میں رسولن بائی، استاد عاشق علی خان، بڑے غلام علی خان، استاد امید علی خان، استاد عبدالوحید خان، استاد بھائی لعل محمد سنگیت ساگر، استاد بندو خان، روشن آرا بیگم شامل ہیں۔

    1928ء میں پھگواڑہ، ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے استاد شوکت حسین کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    استاد شوکت حسین کے والد استاد مولا بخش دھرپد گایا کرتے تھے۔ استاد شوکت حسین نے ان سے پکھاوج بجانے کی ابتدائی تربیت حاصل کی۔ بعد میں اپنے بڑے بھائی سے طبلہ بجانے کی تربیت لی۔

    1945ء میں وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں ملازم ہوگئے جہاں ان کی ملاقات استاد گامی خان کے شاگرد ہیرا لال سے ہوئی اور ان سے بھی استفادہ کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے جہاں انہوں نے اپنے زمانے کے ایک نام ور استاد قادر بخش پکھاوجی سے طبلہ بجانے کی تربیت لی۔ ان کے فن کی قدر کی گئی اور بہت نام ہوا۔ یوں وہ اپنے وقت کے بڑے گویّوں کے ساتھ محافل میں شریک ہونے لگے۔ نام ور کلاسیکی گلوکار انھیں‌ ملک اور بیرونِ ملک دوروں پر سنگت کے لیے لے جانا پسند کرتے تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ اس فن میں استاد شوکت حسین کے شاگردوں میں عبدالستار تاری، پیٹرک انتھونی، اظہر فاروق، بشیر احمد کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

  • معروف صدا کار، باکمال اداکار غزالہ رفیق کی برسی

    معروف صدا کار، باکمال اداکار غزالہ رفیق کی برسی

    غزالہ رفیق پاکستان کی معروف فن کارہ تھیں جو 24 جنوری 1977ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں‌۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ غزالہ رفیق خداداد صلاحیتوں‌ کی مالک تھیں جنھوں نے گلوکاری اور صدا کاری کے علاوہ اداکارہ کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    غزالہ رفیق کا اصل نام بلقیس انصاری تھا۔ وہ 1939ء میں قنبر علی خان میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں گھر میں علمی و ادبی ماحول میسر آیا جس کے باعث وہ ابتدا ہی سے لکھنے لکھانے اور گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ 1957ء میں انھوں نے اپنے زمانے کے نام ور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی فرمائش پر ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر کے لیے گانے ریکارڈ کروائے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے انھوں نے کئی اردو پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں صبح دم دروازہ خاور کھلا، سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ اسی دوران کئی ڈراموں میں صداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    غزالہ رفیق نے امرائو بندوخاں اور ماسٹر محمد ابراہیم سے موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں‌ نے ایک سندھی فلم میں بھی کام کیا جب کہ کراچی ٹیلی وژن کے لیے ہدایت کار عبدالکریم بلوچ کے پہلے سندھی سیریل زینت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ متعدد اردو ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ان کے یادگار ڈراموں میں گڑیا گھر، پت جھڑ کے بعد، میں کون ہوں اے ہم نفسو، آخری موم بتی اور مرزا غالب سرفہرست ہیں۔ غزالہ رفیق نے سندھی ڈراموں عمر ماروی، سسی پنوں، نوری جام تماچی میں بھی اداکاری کی۔

  • موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    محمد جمن پاکستان کے نام وَر لوک فن کار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ 24 جنوری 1990ء کو کراچی میں‌ انتقال کرجانے والے اس لوک گلوکار اور موسیقار کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

    محمد جمن 10 اکتوبر 1935ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد زمین دار تھے، مگر شعر و موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔ محمد جمن کے نانا بھی مقامی ساز طنبورہ بجانے پر دسترس رکھتے تھے۔ یوں محمد جمن کو ایسا ماحول ملا تھا جس میں فطری طور پر ان کی طبیعت موسیقی پر مائل ہوئی اور بعد میں انھوں نے گلوکاری کے فن میں‌ نام و مقام بنایا۔

    ابتدائی زمانے میں‌ محمد جمن نے طنبورہ بجایا اور ساتھ ہی گلوکاری بھی کرنے لگے۔ ان کی آواز اور انداز ان کی وجہِ شہرت بنا اور اس میدان میں ان کے کمال اور فن میں مہارت نے انھیں‌ استاد جمن کہلوایا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھیں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور یوں ان کی پہچان کا سفر بھی شروع ہوا۔ محمد جمن پہلے کراچی اور پھر حیدرآباد اسٹیشن سے اپنی آواز کا جادو جگانے لگے۔

    ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستگی کے دوران انھیں‌ موسیقی ترتیب دینے کا بھی موقع ملا۔ محمد جمن کے شاگردوں میں روبینہ قریشی، زیب النسا، زرینہ بلوچ اور محمد یوسف کے نام سرفہرست ہیں۔

    محمد جمن کے گائے ہوئے کئی لوک گیت اور صوفیانہ کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان کی آواز میں‌ صوفیانہ کلام سننے والوں پر خاص رقّت اور جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

    حکومت پاکستان نے 1980ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ محمد جمن کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

  • شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    آج شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ آزاد اردو زبان کے نام ور انشا پرداز، نقّاد، شاعر، مؤرخ اور اخبار نویس تھے۔ ان کی کتاب آبِ حیات کلاسیکی دور کے ادب اور شخصیات کا منفرد تذکرہ اور تنقید ہے جس کا خوب شہرہ ہوا۔ اسی طرح نیرنگِ خیال بھی آزاد کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے۔

    دہلی، آزاد کا وطن تھا جہاں انھوں‌ نے 1830ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑا کام کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران انھیں‌‌ گولی مار دی گئی۔ والد کی موت آزاد کو مشکلات پیش آئیں‌ اور وہ ہجرت کے بعد لاہور چلے آئے تھے۔

    محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پہنچنے والے آزاد نے محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انھیں سرکار نے شمسُ العلما کا خطاب عطا کیا۔

    آزاد نے اردو ادب میں‌ جدید تذکرہ نگاری کے ساتھ مختلف اصناف میں‌ اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو متعارف کروایا۔ انھوں نے لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع بھی روشن کی اور شعرا کو نظم کی طرف مائل کیا۔ آزاد کو جہاں ان کی ادبی خدمات کے سبب بہت پذیرائی ملی، وہیں‌ بعد میں آنے والوں نے ان کی تنقید اور تذکرہ نگاری کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ تاہم آزاد نے کئی اہم اور قابل ذکر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی ادبی خدمات اور مقام و مرتبے کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانیِ تحریکِ جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہرِ تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلٰی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامیِ اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔“

    زندگی کی مشکلات کے ساتھ انھیں کئی صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ان کی بیٹی کی موت کا المیّہ بھی شامل تھا اور اس کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ یہ حالت وفات تک برقرار رہی۔

    آزاد نے 22 جنوری 1910ء کو وفات پائی۔ انھیں‌ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سخن دانِ فارس، دربارِ اکبری، سیرِ ایران، جامع القواعد، نگارستان فارس، قصصِ ہند اور نگارستان شامل ہیں۔