Tag: یوم وفات

  • یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    21 جنوری 1611ء کو اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جنوبی ہند کے گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکم راں تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 1565ء بتایا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ ہی وہ حکم راں تھے جنھوں نے حیدرآباد (دکن) شہر بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کو فنِ تعمیر سے خاص دل چسپی تھی جس کا ثبوت چار مینار، مشہور مکہ مسجد اور حیدرآباد شہر کی کئی دوسری عمارتیں ہیں۔

    اس باذوق حکم راں کو شعروادب سے خاص علاقہ تھا اور وہ فارسی، دکنی ، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ادب کے مؤرخین و تذکرہ نگاروں نے انھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر لکھا ہے۔ ان کا دیوان ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا تھا جسے 1941ء میں ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شایع کیا۔

    قلی قطب شاہ نے پچاس ہزار سے زائد شعر کہے، سادگی اور شیرینی اس کے کلام کا جوہر ہے۔ تصوف اور عاشقانہ رنگ میں اشعار کہتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرقع نگاری اور مناظرِ فطرت کے بیان کی بنیاد اسی نے رکھی جسے بعد میں آنے والے شعرا نے بھی اپنایا۔

    محمد قلی قطب شاہ نے اس زمانے کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزلیں خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں۔

  • بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر دلاور فگار کی برسی ہے۔ 21 جنوری 1998ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلاور فگار کو بابائے ظرافت بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے شعر سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا تھا، لیکن بعد میں مزاح گوئی کی طرف مائل ہوئے اور یہی کلام ان کی وجہِ شہرت بنا اور دلاور فگار اردو کے اہم مزاح گو شعرا میں شمار کیے گئے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے اور 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں بڑا نام و مرتبہ پایا۔ دلاور فگار نے جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی اور ‌مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ شہر کے باذوق اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو سمجھنے والوں نے انھیں‌ بہت پسند سراہا اور پذیرائی دی۔

    اردو کے اس مزاح گو شاعر کے مجموعہ ہائے کلام انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامتِ اعمال، مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کہا سنا معاف کے نام سے شایع ہوئے۔ دلاور فگار نے امریکی جمی کارٹر کی ایک تصنیف کا اردو ترجمہ بھی خوب تَر کہاں کے نام سے کیا تھا۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ ان کے کئی مزاحیہ قطعات اور اشعار مشہور ہوئے اور اکثر تحریر و تقریر میں اپنے دل کی بات کہنے اور مدعا بیان کرنے کے لیے ان کے کلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کا وہ مشہور قطعہ نقل کررہے ہیں جس میں انھوں‌ نے ہمارے سماج میں جرم کے پھلنے پھولنے اور مجرم کے آزاد گھومنے کا سبب بیان کیا ہے۔

    حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
    میں بتائوں تجھ کو، تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ لے
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    انھو‌ں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کا اسلوب اور موضوع کی تہ داری انھیں جدید دور کے مزاح گو شعرا میں منفرد اور ممتاز بناتا ہے اور ہمیں تبسم و لطافت کے ساتھ سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔

    اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
    زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری

  • علم و ادب میں ممتاز سیّد عابد علی عابد کی برسی

    علم و ادب میں ممتاز سیّد عابد علی عابد کی برسی

    20 جنوری1971ء کو وفات پانے والے سیّد عابد علی عابد علم و ادب کی دنیا میں شاعر، ادیب، نقّاد، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ سیّد عابد علی عابد نے ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور اپنے زورِ قلم کو منوایا۔ ان کی تخلیقات میں تنقیدی مضامین کے علاوہ ڈرامے، افسانے، ناول، شاعری اور تراجم سبھی کچھ شامل ہیں۔

    سیّد عابد علی عابد 17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ وہ دیال سنگھ کالج سے تقریباً 25 برس وابستہ رہے اور اس کالج کے پرنسپل کا عہدہ بھی سنبھالا۔

    کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیِ ادب سے وابستہ ہوئے جس کے سہ ماہی علمی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔ عابد علی عابد اردو ہی نہیں فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات کا علم رکھتے تھے۔

    ان کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں۔ اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِبیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    اداکار نذر کو پاکستانی فلموں کا پہلا ‘کامیڈین ہیرو’ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا اور سنیما بینوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ 20 جنوری 1992ء کو اس مزاحیہ اداکار کا انتقال ہو گیا۔

    نذر کا پورا نام سید محمد نذر حسین شاہ تھا۔ وہ 1920ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی ایک فلم نیک دل سے ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نذر نے یہاں فلم ‘تیری یاد’ میں ایک مزاحیہ کردار ادا کرکے پہلے فلمی کامیڈین کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی اداکاری کا یہ سلسلہ غلط فہمی، پھیرے، لارے، انوکھی داستان، ہماری بستی، جہاد، امانت، اکیلی، بھیگی پلکیں، کنواری بیوہ اور دوسری کئی فلموں تک کام یابی سے جاری رہا۔

    نذر نے مجموعی طور پر 171 فلموں میں کام کیا جن میں 117 فلمیں اردو، 51 پنجابی زبان میں تھیں۔ کوئل وہ فلم تھی جس میں نذر نے ولن کا کردار ادا کرکے خود کو کام یاب ‘کامیڈین ولن’ بھی ثابت کیا۔

  • مدھر آواز میں گیتوں کی بہار مہناز بیگم کو زندہ رکھے گی

    مدھر آواز میں گیتوں کی بہار مہناز بیگم کو زندہ رکھے گی

    پاکستان کی معروف گلوکار مہناز بیگم کو مداحوں سے بچھڑے سات برس بیت گئے۔ 19 جنوری 2013ء کو جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والی مہناز بیگم کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے اور وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    مہناز بیگم پاکستان کی وہ باصلاحیت گلوکارہ تھیں جن کی آواز میں گیتوں نے فلمی پردے کے شائقین، ریڈیو کے سامعین اور ٹیلی ویژن کے ناظرین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

    مہناز 1958ء کو کراچی میں مشہور مغنیہ کجن بیگم کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام کنیز فاطمہ تھا۔

    مہناز بیگم نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور طربیہ و المیہ ہر قسم کے گیت گائے اور غزل کے علاوہ سلام و مرثیہ بھی اپنے مخصوص انداز سے پڑھا اور مقبول ہوئیں۔ ان کے استاد امراؤ بندو خان کے بھتیجے نذیر تھے جنھوں نے انھیں مہناز کا نام دیا۔ گلوکارہ نے موسیقی کی تربیت مہدی حسن خان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے حاصل کی۔

    مہناز بیگم نے ساڑھے فلموں کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ نغمات ریکارڈ کروائے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • حبیبُ الرّحمٰن جن کے روشن مستقبل کی پیش گوئی دھیان سنگھ نے کی تھی

    حبیبُ الرّحمٰن جن کے روشن مستقبل کی پیش گوئی دھیان سنگھ نے کی تھی

    19 جنوری 1984ء کو ہاکی کے مشہور کھلاڑی حبیب الرّحمٰن کراچی میں وفات پاگئے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور حبیب الرّحمٰن اس دور کے کھلاڑی ہیں‌ جب اس کھیل میں پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا۔ ماضی میں پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپک گولڈ میڈل، عالمی کپ، چمپئنز ٹرافی جیسے اعزازات سمیٹ چکی ہے۔

    حبیبُ الرّحمٰن ہاکی کے وہ مشہور کھلاڑی ہیں جنھوں نے کم عمری میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس زمانے کے عظیم کھلاڑی دھیان سنگھ کی توجہ حاصل کی تھی اور دھیان سنگھ نے اس وقت ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی تھی۔

    حبیبُ الرّحمٰن نے قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کے ہیلسنکی، 1956ء میلبرن اولمپکس اور 1958ء کے ٹوکیو کے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

    ملک کے قومی کھیل ہاکی کے اس مایہ ناز کھلاڑی کو انٹرنیشنل امپائر اور پاکستانی ہاکی ٹیم کا کوچ بھی بنایا گیا۔

  • پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کا یومِ وفات

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لالہ سدھیر تاریخ کے مشہور جنگجو اور لڑاکا کرداروں کو نبھانے میں اپنے دور کے ہر اداکار سے آگے نکل گئے اور دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ بلاشبہ انھوں نے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    لالہ سدھیر کو خاص طور پر میدانِ جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے ایسے متأثر ہوئے کہ انھیں ‘جنگجو’ کہنا شروع کردیا۔ آج اس مشہور و معروف اداکار کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا۔ سنیما نے انھیں سدھیر کا نام دیا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے اس باکمال اداکار کو عزت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارا جانے لگا جب کہ شائقین نے انھیں جنگجو ہیرو مان لیا۔ مشہور ہے کہ سدھیر ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔

    سن آف اَن داتا، کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔

    فلموں میں شان دار اداکاری کے لیے نگار ایوارڈز حاصل کرنے والے سدھیر کو ان کی 30 سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    19 جنوری 1997ء کو لالہ سدھیر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • صوفی دانش وَر، شاعر اور ادیب واصف علی واصف کی برسی

    صوفی دانش وَر، شاعر اور ادیب واصف علی واصف کی برسی

    معروف شاعر، مصنف، کالم نویس اور دانش وَر واصف علی واصف 18 جنوری 1993ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھیں ایک صوفی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    واصف علی واصف 15 جنوری 1929ء کو شاہ پور خوشاب میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خوشاب سے حاصل کی اور بعد میں جھنگ سے میٹرک اور بی اے اور بعد ازاں ایم اے انگریزی (ادب) میں داخلہ لیا۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ شان دار رہا جب کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں ہاکی کے بہت اچّھے کھلاڑی رہے۔ زمانہ طالب علمی میں‌ مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور متعدد اعزازات اور انعامات بھی جیتے۔

    واصف علی واصف نے عملی زندگی میں تعلیم اور تدریس کا شعبہ چنا اور ساتھ ہی اپنی فکر اور وعظ کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ایک درویش صفت انسان، صوفی اور روحانیت کے ماہر کے طور پر شہرت حاصل کی۔

    قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقت، دل دریا سمندر، گمنام ادیب، ذکرِ حبیب، دریچے ان کی تصانیف ہیں جنھیں‌ ان کے طرزِ فکر، اسلوب اور صوفیانہ مضامین کے سبب قارئین نے بے حد پسند کیا۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور پنجابی زبان میں‌ بھی ان کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔

    آپ کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے اور ایک معلم کی حیثیت سے اپنی بات یوں‌ پیش کرتے کہ کوئی ان پڑھ یا عام آدمی بھی اسے آسانی سے سمجھ لے اور علم سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس صوفی دانش وَر کی مجالس میں نہ صرف عوام بلکہ مشہور و معروف شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں اور لوگ دانائی اور حکمت سے بھرپور باتیں عقیدت اور نہایت شوق سے سنتے تھے۔ آج بھی ان کی کتابیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    18 جنوری 1978ء اردو کے نام ور نقّاد محمد حسن عسکری کا یومِ وفات ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آئے اور کچھ عرصے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرلی جہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور کراچی میں علمی و ادبی کاموں اور سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا جہاں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

    محمد حسن عسکری نے بطور ادیب ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    ان کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘ ، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔ ایّامِ زیست کے اواخر میں انھوں نے مفتی محمد شفیع‌ صاحب کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا جس کی ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔

    محمد حسن عسکری کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن اور اسٹیج کی معروف فن کار یاسمین اسماعیل 18 جنوری 2002ء کو وفات پاگئیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں ٹی وی اور اسٹیج کی اداکار اور کام یاب ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    یاسمین اسماعیل نے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ راولپنڈی میں 1949ء میں پیدا ہونے والی یاسمین اسماعیل کے والد فوج میں تھے جن کی وفات کے بعد انھو‌ں نے کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی۔

    یاسمین اسماعیل 1960ء کی دہائی کے آخر میں پی ٹی وی سے وابستہ ہوئی تھیں اور تھیٹر کے ڈراموں کے لیے ہدایت کار کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بطور اداکارہ انا، راشد منہاس، تنہائیاں اور تپش میں کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے ثابت ہوئے۔

    انھوں نے غیرملکی زبانوں کے ڈرامے اردو میں منتقل کرکے اسٹیج پر پیش کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔