Tag: یوم وفات

  • بابا چشتی کا یومِ وفات

    بابا چشتی کا یومِ وفات

    پاکستان کے نام ور فلمی موسیقار بابا جی اے چشتی کا انتقال 25 دسمبر 1994ء کو ہوا تھا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام غلام احمد چشتی تھا۔ وہ 1905ء میں متحدہ ہندوستان کے ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔

    بابا چشتی نے اپنے فنی سفر کا آغاز آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے کیا۔ ان کی وفات کے بعد ایک ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوگئے، لیکن بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ‘دنیا’ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی میں بھی گزارا۔

    1949ء میں وہ پاکستان آگئے۔ انھوں نے 17 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ پاکستان ہجرت کے بعد یہاں‌ بابا چشتی نے فلمی صنعت میں ‘شاہدہ’ کے ذریعے کام کا آغاز کیا۔ اس فلم کے علاوہ مجموعی طور پر انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں نغمات کی دھنیں‌ تخلیق کیں۔

    بابا چشتی کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، دلا بھٹی، لختِ جگر، مٹی دیاں مورتاں، عجب خان اور چن تارا کے نام شامل ہیں۔

    بابا چشتی نے ملکہ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی جیسے گلوکاروں‌ کو فلمی صنعت میں‌ متعارف کروایا۔

    انھیں لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ پاکستان میں‌ بابا چشتی کے شاگردوں‌ نے بھی اپنے فن میں‌ نام و مرتبہ حاصل کیا۔

  • معروف فلمی ہدایت کار قدیر غوری کا تذکرہ

    معروف فلمی ہدایت کار قدیر غوری کا تذکرہ

    قدیر غوری پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار تھے جن کی آج برسی ہے۔ 22 دسمبر 2008ء قدیر غوری وفات پاگئے تھے۔ انھیں موسیقی اور فلم سازی میں‌ شروع ہی سے دل چسپی تھی اور اسی فن میں انھوں نے اپنی پہچان بنائی۔

    وہ 4 مئی 1924ء کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ استاد فیاض خان سے موسیقی اور منشی دل سے ہدایت کاری کی تربیت حاصل کی۔

    1955ء میں قدیر غوری کو ہالی ووڈ کی اس ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو برطانوی ہند کے تاریخی پس منظر میں فلم بھوانی جنکشن بنانے کے لیے پاکستان آیا تھا۔ قدیر غوری نے اس وقت امریکی ہدایت کار جارج ککر کے فرسٹ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ فلم کی تکمیل کے بعد جارج ککر نے ان کی بے حد تعریف کی۔

    قدیر غوری کی ہدایت کاری میں جو فلمیں بنیں ان میں ناجی، غالب، دو راستے، موسیقار، دامن، جانِ آرزو، انسان، دنیا گول ہے، نیکی بدی اور گلیاں دے غنڈے شامل ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار نے فلم دامن پر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ انھوں نے جہاں سیٹ پر اپنی مہارت اور کمال دکھایا، وہیں‌ اسے نئے آرٹسٹوں تک منتقل کرنے کے لیے ایک کتاب بھی لکھی جس میں اس فن سے متعلق تکنیک اور مہارت و مسائل کا ذکر ہے۔ قدیر غوری لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی برسی

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی برسی

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    حفیظ جالندھری نے غزل اور نظم کے علاوہ اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا اور خوب نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے جنھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری سمویا۔ انھوں نے بچّوں کے لیے بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ غزل، نظم اور گیت نگاری کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شایع ہوا۔ یہ ان کی وہ بامقصد اور اصلاحی تخلیق ہے جس نے انھیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں کیا۔ حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام لکھ کر اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسیِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    حفیظ جالندھری اپنے لکھے ہوئے قومی ترانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اور سوزوساز شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ بھی شایع ہوا جب کہ بچوں کی نظموں پر مشتمل کتاب بھی شایع ہوئی۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982ء کو لاہور میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ انھیں مینارِ پاکستان کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    پاکستانی فلم نگری اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز 18 دسمبر 2018ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج اس فن کار کی دوسری برسی ہے۔ علی اعجاز کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔

    علی اعجاز نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان میں‌ تھیٹر ایک پسندیدہ میڈیم تھا۔ لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج پر پیش کیے جانے والے شائقین میں بہت مقبول تھے۔

    لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو سلسلے وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ پیش کیا جانے لگا جس کے تین مرکزی کرداروں میں سے ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ اس زمانے میں ہر ایک کی زبان پر ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کا صلح مارتا ہے!‘ چڑھا ہوا تھا۔ اس کردار نے انھیں مقبولیت دی۔ انھوں نے زیادہ تر مزاحیہ کردار نبھائے۔

    اس دور میں فلمیں‌ بھی بنائی جارہی تھیں اور سنیما پر نئے چہرے جگہ پارہے تھے۔ علی اعجاز نے فلموں میں چند معمولی نوعیت کے کردار نبھائے اور پی ٹی وی پر بھی مصروف رہے۔ ان کی شہرت میں‌ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ نے بھی اضافہ کیا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام سے ایک فلم 1980ء میں ریلیز ہوئی جس کے بعد علی اعجاز کو دھڑا دھڑا فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔

    1980ء کی دہائی میں اداکار خاور رفیع (ننھا) کے ساتھ ان کی جوڑی فلموں میں‌ بہت مقبول ہوئی۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    علی اعجاز نے مختلف سیریلوں اور ڈراما سیریز میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ جوان، بوڑھے، مختلف عمر اور لہجوں اور بولیوں‌ والے ان کرداروں‌ کو نہایت خوبی سے نبھاتے رہے اور اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوایا۔ پوپلے منہ والا، توتلے شخص، نیم مخبوط الحواس بوڑھا اور خبطی یا جھکّی انسان والے کرداروں میں انھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

    علی اعجاز کا ایک کردار خواجہ اینڈ سنز میں ایسے ہی بوڑھے کا تھا جو آج بھی ناظرین کو یاد ہے۔

    فلموں‌ کی بات کی جائے تو علی اعجاز نے سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں، سدھا رستہ، بادل، مسٹر افلاطون، نوکر تے مالک، باؤ جی، اندھیر نگری، چور مچائے شور اور اردو و پنجابی زبان کی متعدد فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا۔

  • ‘خدا کی بستی’ اور ‘جانگلوس’ کے خالق شوکت صدیقی کی برسی

    ‘خدا کی بستی’ اور ‘جانگلوس’ کے خالق شوکت صدیقی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر ناول و افسانہ نگار، صحافی اور کالم نویس شوکت صدیقی 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج شوکت صدیقی کی برسی ہے۔ خدا کی بستی ان کا وہ مشہور ناول ہے جسے ڈرامائی تشکیل کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پیش کیا گیا تھا۔

    شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ خدا کی بستی ان کا معرکہ آرا ناول سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کو 1960ء میں پہلا آدم جی ادبی انعام بھی ملا تھا۔ اس ناول پر بنائے گئے ڈرامے کو تین بار ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا اور یہ 42 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ شوکت صدیقی کا ایک اور مشہور ناول جانگلوس ہے اور اسے بھی پاکستان ٹیلی وژن پر ڈرامے کی صورت پیش کیا گیا۔ تاہم اس زمانے میں بعض پالیسیاں رکاوٹ بن گئیں اور یہ ڈراما مکمل نشر نہ کیا جاسکا۔

    شوکت صدیقی کی دیگر تصانیف میں افسانوں کے مجموعے راتوں کا شہر، رات کی آنکھیں، کوکا بیلی، کیمیا گر، شریف آدمی جب کہ ناول چار دیواری اور کمین گاہ شامل ہیں‌۔ ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ بھی شایع ہوا۔

    صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور روزنامہ مساوات کے مدیر رہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2002ء میں انہیں کمالِ فن ایوارڈ دیا جب کہ 2004ء میں انہیں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    شوکت صدیقی کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان کے معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات ہے۔ ان کا خاندانی نام بال مکند تھا اور عرش تخلص جنھیں‌ دنیائے ادب میں عرش ملسیانی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ملسیان ان کا آبائی علاقہ ہے اور یہ ان کے نام سے جڑا رہا

    ستمبر 1908ء میں‌ جالندھر کے ایک قصبے ملسیان میں آنکھ کھولنے والے بال مکند کے والد بھی شعروسخن کی دنیا میں ممتاز تھے۔ ان کے والد جوش ملسیانی اپنے وقت کے نام ور اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ یوں‌ شاعری اور لکھنے پڑھنے کا شوق عرش ملسیانی کو گویا ورثے میں ملا۔

    عرش پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور محکمۂ نہر سے وابستہ رہے۔ بعد میں لدھیانہ کے ایک اسکول میں ملازم ہوئے۔ عرش کو افتادِ طبع دہلی لے آئی جہاں وہ ادبی رسالے ’’آج کل‘‘ کے نائب مدیر بنے۔

    اس ادبی پرچے کو جوش جیسے شاعر اور بڑے لکھاری نے سنبھال رکھا تھا اور یوں کوئی سات سال وہ جوش ملیح آبادی کے رفیقِ کار کی حیثیت سے جمع و تدوین اور ادارت کا کام دیکھتے رہے۔ جوش نے تقسیم کے بعد پاکستان کا رخ کیا تو عرش ملسیانی آج کل کے مدیر بنائے گئے۔

    عرش ملسیانی تخلیقات میں شاعری کے علاوہ تراجم اور مزاحیہ مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے عمر خیّام کی رباعیوں کا ترجمہ کیا اور یہ ہست و بود کے نام سے شایع ہوا۔

    ’ہفت رنگ‘ اور ’رنگ و آہنگ‘ کے نام سے عرش کے شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے جب کہ ان کے مزاحیہ مضامین ’پوسٹ مارٹم‘ کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

    عرش کی ایک غزل دیکھیے۔

    دل میں ہر وقت یاس رہتی ہے
    اب طبیعت اداس رہتی ہے

    ان سے ملنے کی گو نہیں صورت
    ان سے ملنے کی آس رہتی ہے

    موت سے کچھ نہیں خطر مجھ کو
    وہ تو ہر وقت پاس رہتی ہے

    دل تو جلووں سے بد حواس ہی تھا
    آنکھ بھی بد حواس رہتی ہے

    دل کہاں عرشؔ اب تو پہلو میں
    ایک تصویرِ یاس رہتی ہے

    عرش ملسیانی 1979ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کی برسی ہے۔ حاجی محمد شریف 9 دسمبر 1978ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    حاجی محمد شریف 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ شہرت رکھتے تھے اور پٹیالہ کے درباری مصوّر تھے۔ یوں‌ انھیں‌ مو قلم اور رنگوں کا شوق بچپن ہی سے ہو گیا۔

    حاجی محمد شریف کو مصوّری کا فن ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شائو رام اور استاد محمد حسین خان نے سکھایا۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور انھیں زبردست پزیرائی ہوئی۔ انھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا گیا۔

    1945ء میں وہ لاہور آگئے اور میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے لگے۔ 1965ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوئے اور طویل عرصہ تک مصوّری سکھاتے رہے۔

    حاجی صاحب کے فن کا شہرہ اتنا تھا کہ صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل تھے۔ حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوّری میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حاجی محمد شریف کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    حاجی محمد شریف لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • مشہور مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    مشہور مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    9 دسمبر کو نرالا جن کا اصل نام سید مظفر حسین زیدی تھا، اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ نرالا پاکستانی فلموں‌ کے مشہور مزاحیہ اداکاروں میں‌ سے ایک ہیں۔

    نرالا 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے 1960ء میں فلمی سفر کا آغاز کیا تھا، نرالا کی پہلی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ تھی جس میں‌ ان کی اداکاری پسند کی گئی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کے دوران لگ بھگ سو فلموں میں‌ کام کیا اور شہرت پائی۔ فلم’ارمان‘ میں بہترین پرفارمنس پر انھیں‌ نگار ایوارڈ دیا گیا۔

    اداکار نرالا کی یادگار فلموں میں مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، ہونہار، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، گھر داماد، راجہ، اجالا، انجانے راستے، السلام علیکم، نصیب اپنا اپنا، دشمن، اسے دیکھا اسے چاہا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم کا نام چوروں کا بادشاہ تھا۔

    1990 میں‌ کراچی میں وفات پانے والے نرالا کو مقامی قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • عالمِ دین، محقق اور مصنّف علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی برسی

    عالمِ دین، محقق اور مصنّف علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی برسی

    آج علّامہ غلام مصطفٰی قاسمی کا یومِ‌ وفات ہے جو پاکستان کے نام ور عالمِ دین، محقق اور مصنّف تھے۔ 9 دسمبر 2003ء کو وفات پانے والے علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کا تعلق سندھ کے مشہور شہر لاڑکانہ سے تھا جہاں وہ 24 جون 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    ابتدائی تعلیم مولانا فتح محمد سیرانی اور مولانا خوشی محمد میرو خانی سے حاصل کی اور درسِ نظامی مکمل کیا جس کے بعد انھیں مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حسین احمد مدنی سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی نے حدیث، فقہ، تفسیر اور منطق پر عبور حاصل کیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ مسلم کالج کراچی، سندھ یونیورسٹی اور مدرسہ مظہر العلوم کراچی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

    وہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد کے ڈائریکٹر اور سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کی تحقیقی اور علمی تصانیف کی فہرست میں ‘مفید الطلبہ’ بھی شامل ہے جو انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں علم منطق پر لکھی تھی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کتاب مختلف مدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا۔

    علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی تصانیف میں سیرتِ رسول اور قرآن پاک کی چند سورتوں کی تفسیر بھی شامل ہے۔ عام علوم اور علمی و تحقیقی کام کی بات کی جائے تو انھوں نے سندھی کی بنیادی لغت اور بنیادی کاروباری لغت بھی مرتب کی۔

    حکومتِ پاکستان نے علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کو حیدرآباد میں غلام نبی کلہوڑو کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی حیات و خدمات پر سندھی اور اردو میں کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور مقالے لکھے گئے ہیں۔

  • مقبول ترین قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کی برسی

    مقبول ترین قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کی برسی

    مشیر کاظمی کا شمار پاکستان کے نام وَر نغمہ نگاروں میں‌ ہوتا ہے جو 8 دسمبر 1975ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    مشیر کاظمی 1915ء میں ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ فلموں میں ان کی نغمہ نگاری کا سلسلہ ‘دوپٹہ’ سے شروع ہوا جو پاکستان کی پہلی اردو فلم تھی جس کے نغمے ملکہ ترنم نور جہاں نے گائے تھے۔

    اس فلم کے تقریباً سبھی نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے اور مشیر کاظمی اس وقت کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگاروں میں شمار ہونے لگے۔ مشیر کاظمی نے لاتعداد فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جن میں میرا کیا قصور، زمین، لنڈا بازار، دلاں دے سودے، ماں کے آنسو، آخری چٹان اور دل لگی سرفہرست ہیں۔

    1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشیر کاظمی کا نغمہ ‘اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ بے حد مقبول ہوا۔

    لاہور میں وفات پانے والے مشیر کاظمی کو مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔