Tag: یوم وفات

  • ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کی زندگی کا سفر 6 دسمبر 1982ء کو تمام ہوا تھا اور گویا ان کے ساتھ ہی پاکستان میں‌ کلاسیکی گائیکی کا باب بھی بند ہوگیا۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، نیلا پربت سمیت کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں لازوال گیت ریکارڈ کروائے۔

    روشن آرا بیگم 1917 میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں اور تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی جہاں گلوکاری کے میدان میں انھوں نے نام و مقام بنایا۔ کلاسیکی موسیقی کی اس نام ور گلوکارہ نے اس فن کی تربیت اپنے قریبی عزیز اور استاد عبدالکریم خان سے لی تھی۔

    انھوں نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کردیا۔ ان میں انیل بسواس، فیروز نظامی اور تصدق حسین کے نام شامل ہیں۔

    پاکستانی فلمی صنعت اور کلاسیکی موسیقی کے دلداہ روشن آرا بیگم کا نام بے حد عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔

    پاکستان بننے سے پہلے بھی وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے لاہور کا سفر کیا کرتی تھیں، جب کہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی انھیں فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

    روشن آرا بیگم کی تان میں اُن کے کیرانا گھرانے کا رنگ جھلکتا ہے۔ کہتے ہیں ‌اُن کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

    آج جہاں‌ کلاسیکی موسیقی کو فراموش کیا جاچکا ہے، بدقسمتی سے اس فن میں نام ور اور باکمال گلوکاروں کو بھی بھلا دیا گیا ہے اور ان میں سے اکثر کا ذکر بھی نہیں‌ کیا جاتا۔

    روشن آرا بیگم نے کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ایک پولیس افسر احمد خان سے شادی کی تھی اور لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

  • اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    اولیا اور صوفیا کے ارادت مند عزیز میاں قوال کی برسی

    6 دسمبر 2000ء کو دنیا بھر میں فنِ‌ قوالی اور اپنے مخصوص انداز میں‌ صوفیانہ کلام گانے کے لیے مشہور عزیز میاں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آج ان کی بیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا اور وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ دنیا بھر میں قوالی کے شیدا غیر مسلم بھی عزیز میاں کے دیوانے ہیں۔ اس کا سبب ان کا منفرد انداز اور حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گاتے ہوئے جذب و مستی کا وہ اظہار تھا جو حاضرین اور سامعین کو روحانی سکون اور طمانیت کے احساس سے سرشار کردیتا تھا۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ آنکھ کھولنے والے عزیز میاں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی۔ حکومت نے انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ جیسا مشہور کلام عزیز میاں کی آواز میں آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    انھوں نے کئی حمدیہ اور نعتیہ کلام، منقبت اور مشہور شعرا کی شاعری کو بھی اپنی آواز اور انداز دیا۔

    ‘‘ نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں نہایت عقیدت اور محبت سے سنا جاتا ہے۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

  • پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کا یومِ وفات

    پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کا یومِ وفات

    آج عوامی شاعر استاد دامن کی برسی ہے۔ وہ پنجابی زبان کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ استاد دامن کی شاعری ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کے خلاف عوامی جذبات اور امنگوں کی ترجمان ہے۔ استاد دامن 3 دسمبر 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ عالمی ادب پر بھی ان کی توجہ تھی۔ ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی مشہور ہے۔ چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ کتابوں کے درمیان زندگی گزارنے والے استاد دامن کی جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی مثال دی جاتی ہے۔

    وہ کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار تھے جنھیں پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    استاد دامن مصلحت سے پاک، ہر خوف سے آزاد تھے۔ انھوں نے فیض و جالب کی طرح جبر اور ناانصافی کے خلاف عوامی لہجے میں اپنی شاعری سے لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن نے عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام سے بے حد مقبولیت اور پزیرائی حاصل کی۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ صلے اور ستائش سے بے نیاز ہوکر حق اور سچ کا ساتھ دینے والے استاد دامن 1910ء کو پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں اپنے والد کے ساتھ کپڑے سینے کا کام کرتے رہے۔ انھوں نے خیاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس کا باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھال لیا اور تعلیمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔

    پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب انھیں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور مشاہیر سمیت ہر دور میں اہلِ علم پنجابی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ انھیں لاہور میں مادھولال حسین کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔

  • مشہور اداکار ایم اسماعیل کا یومِ وفات

    مشہور اداکار ایم اسماعیل کا یومِ وفات

    ایم اسماعیل پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک مشہور نام ہے جنھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل بننے والی فلموں سے اداکاری کا آغاز کیا اور تقسیم کے بعد لاہور کے نگار خانوں کی کئی کام یاب فلموں میں نظر آئے۔ 22 نومبر 1975ء کو ایم اسماعیل وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اداکار ایم اسماعیل کا تعلق خطاطی کے فن میں مشہور گھرانے سے تھا۔ وہ 6 اگست 1902ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ خطاطی اور مصوّری انھیں ورثے میں ملی تھی۔ 1921ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے جن کا تعلق ان کے محلّے سے تھا، انھیں اداکاری کی طرف راغب کیا اور ایم اسماعیل یہ شوق پورا کرنے کے لیے بمبئی چلے گئے۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ تاہم جب لاہور میں فلمیں بننے لگیں تو ایم اسماعیل یہاں لوٹ آئے۔ ان کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، آوارہ رقاصہ اور ہیر رانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ آخرُ الذکر فلم میں کیدو کا مشہور کردار ایم اسماعیہ نے نبھایا تھا۔

    ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو انھیں یہی کردار حورِ پنجاب اور ہیر سیال نامی فلموں میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایم اسماعیل نے خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں جیسی کام یاب فلموں میں اداکاری کی۔

    پاکستان میں ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ایم اسماعیل نے مجموعی طور پر 156 فلموں میں‌ کام کیا۔

    فلمی دنیا کے اس مشہور اداکار نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر میں‌ مدفون ہیں۔

  • علی بخش ظہور: آواز خاموش ہوگئی، طلسم نہ ٹوٹا

    علی بخش ظہور: آواز خاموش ہوگئی، طلسم نہ ٹوٹا

    پاکستان کے نام ور گلوکار علی بخش ظہور 18 نومبر 1975ء کو راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ علی بخش ظہور غزل اور فلمی گیتوں کی گائیکی کے لیے مشہور ہیں، لیکن اس میدان میں ان کی مقبولیت وہ کافیاں اور سلطان باہو کے ابیات(مخصوص صنفِ سخن) ہیں‌ جنھیں‌ گانے میں‌ انھیں‌ کمال حاصل تھا۔

    علی بخش ظہور 11 مئی 1905ء کو پیدا ہوئے۔ موسیقی اور گلوکاری کے فن میں‌ اپنے زمانے کے استاد، برکت علی گوٹے والا کے شاگرد ہوئے اور بعد میں استاد عاشق علی خان سے اس فن میں‌ استفادہ کیا۔

    قیامِ پاکستان سے قبل انھوں‌ نے ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ علی بخش ظہور کو غزل اور گیت کے علاوہ ٹھمری، کافیاں اور سلطان باہو کے ابیات گانے میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنی اس دسترس کے سبب گلوکاری کے میدان میں خاص پہچان رکھتے تھے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد انھوں‌ نے فلمی صنعت میں‌ قدم رکھا اور خوب نام کمایا۔ اس وقت کی کئی کام یاب فلموں کے گیت علی بخش ظہور کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ نیّر سلطانہ کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ علی بخش ظہور نے پاکستان کی پہلی فلم "تیری یاد” کے لیے بھی پسِ پردہ گلوکاری کی۔

    دِل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
    ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ

    اس دوگانے کے علاوہ اس زمانے کا گیت "او پردیسیا بُھول نہ جانا” بھی بہت مشہور ہوا۔ اسے علی بخش ظہور کے ساتھ منّور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

  • علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری اور ندوۃُ العلما کے قیام نے ہندوستان میں بڑے مقام و مرتبے سے سرفراز کیا جب کہ ادبی میدان میں بھی ان کی تصانیف نے انھیں اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ آج اردو کے اس نام ور ادیب کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت نہایت پاکیزہ ماحول اور اس دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔

    1882ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہو گئے۔ یہاں سرسیّد احمد خان اور دوسرے صاحبانِ علم و فن کی صحبت میں‌ بیٹھنے کے علاوہ مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ رسم کا موقع ملا جس نے ان کی فکر کو وسعت دی اور ذوق کو نکھارا اور سیرت و سوانح نگاری کے ساتھ متعدد علمی اور ادبی موضوعات پر ان کی کتب سامنے آئیں۔

    سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب، انشا پرداز، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقق اور صحافی غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تعلق رکھنے والے مولانا غلام رسول مہر کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد چند برس حیدرآباد (دکن) میں ملازمت کی اور دوبارہ لاہور چلے آئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے صحافت کا آغاز زمین دار اخبار سے کیا۔ وہ اپنی فکر و اور قلم کے زور پر ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے اور صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب جاری کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے اور ان کی سو کے لگ بھگ کتب منظرِ عام پر آئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔

  • پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    فیروز نظامی پاکستان کے نام ور موسیقار تھے جن کی آج برسی ہے۔ فیروز نظامی 65 سال کی عمر میں 15 نومبر 1975 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    فیروز نظامی 1910 کو لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہوئے۔ اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کے دوران انھوں‌ نے موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ اس کے لیے وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے اور خود بھی اس فن میں‌ استاد کا درجہ حاصل کیا۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں، باریکیوں اور اس فن پر اپنے علم اور تجربات کو کتاب میں بھی محفوظ کیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا۔ ان کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔ فیروز نظامی کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    نام ور الغوزہ نواز مصری خان جمالی 10 نومبر 1980ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج پاکستان کے اس معروف سازندے کی برسی ہے جس نے پاکستان کی لوک موسیقی اور ایک مقامی ساز کو بجانے کی روایت کو تاعمر زندہ رکھا اور اس فن کی بدولت دنیا میں‌ پہچان بنائی۔

    مصری خان جمالی 1921ء میں جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے سندھ کے شہر نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اسی دوران الغوزہ بجانے میں‌ ان کی مہارت کے سبب ریڈیو تک رسائی ممکن ہوئی۔ یہ بانسری نما ساز ہے جسے منہ سے بجایا جاتا ہے۔ بعد میں ان کا یہ فن انھیں ٹیلی وژن تک لے گیا۔ وہ نوجوانی ہی میں الغوزہ بجانے کے لیے مشہور ہوچکے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی کے دوران ان کی دھنوں اور اس ساز کا چرچا بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔

    مصری خان جمالی اپنے دور کے ایک مقبول الغوزہ نواز تھے جنھوں نے اپنی دل نواز دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کیا اور اس ساز سے محبت اور اس کی خدمت کرتے رہے۔1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ وہ نواب شاہ میں قبرستان حاجی نصیر میں آسودۂ خاک ہیں۔

    جدید سازوں‌ اور موسیقی کے بدلتے ہوئے انداز نے جس طرح‌ کئی آلاتِ موسیقی کو مٹا دیا، اسی طرح پاک و ہند کی لوک موسیقی کا مقبول ترین ساز الغوزہ اور اس کے بجانے والے بھی اب نہیں‌ رہے۔

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی 9 نومبر 1994 کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ انھوں‌ نے 4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہاں ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔

    محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن سے ناتا جوڑا تو محشرؔ تخلص کیا اور بدایوں کی نسبت سے محشر بدایونی کہلائے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں اس کے مدیر ہوئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرکے خود کو شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں متعارف کروایا اور اپنے کلام و انداز کے سبب پہچان بنائی۔ محشر بدایونی کا یہ شعر زبان زد عام ہوا:

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    کراچی میں انتقال کرنے والے اردو زبان کے اس شاعر کو سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ہے:

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    مِلائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے