Tag: یوم وفات

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    انسانی آواز سے قریب ترین سمجھی جانے والی سارنگی وہ ساز ہے جس پر روایتی دھنوں میں عوامی شاعری سنانے والے کئی فن کاروں نے ہندوستان بھر میں‌ نام پیدا کیا اور اب یہ ساز اور اس کے ماہر ماضی کی خوب صورت یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    آج استاد حامد حسین خان کی برسی ہے جن کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    مراد آباد سے تعلق رکھنے والے استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز سے ریاست رام پور میں دربار سے وابستہ تھے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا مشہور رہا ہے۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انھیں‌ اس ساز پر مکمل مہارت حاصل تھی۔ وہ نہایت عمدہ سارنگی بجاتے اور مہارت سے دوسرے فن کاروں کی سنگت کرتے تھے۔

    استاد حامد حسین خان نے ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد و تحسین سمیٹی۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت میں نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک اداکاری کے جوہر دکھائے اور نام و مقام حاصل کیا۔ آج سنیما کی اس منفرد اور باکمال اداکارہ کی برسی ہے۔

    نیّر سلطانہ کا اصل نام طیبہ بانو تھا جو 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا نے لاہور میں ملاقات کے دوران انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں وہ نیّر سلطانہ کے نام بڑے پردے پر جلوہ گر ہوئیں۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت بھی تھیں اور فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب میں دل چسپی رکھتی تھیں جس نے انور کمال پاشا کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملا اور وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں نیّر سلطانہ کا کوئی ثانی نہیں تھا اور اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    ممتاز مفتی اردو ادب کا وہ معتبر نام ہے جس نے اپنے ناولوں، افسانوں سے تخلیقی ادب میں اپنی پہچان بنائی اور اپنے سفر ناموں کے سبب مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ خاکہ نگاری اور ڈراما نویسی کے علاوہ ان کے مضامین بھی اردو ادب کا نثری سرمایہ ہیں۔

    اپنی فکر و نظر کی گہرائی سے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف کو نئے موضوعات اور نئی معنویت سے ہمکنار کرنے والے ممتاز مفتی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا سوانحی ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ اور ’’الکھ نگری‘‘ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ اسی طرح ان کے سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی جب کہ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔

    ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب سیّد غلام بھیک نیرنگ کا یومِ وفات

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب سیّد غلام بھیک نیرنگ کا یومِ وفات

    میر غلام بھیک نیرنگ تحریکِ پاکستان کے راہ نما، سیاست داں، ادیب اور شاعر بھی تھے۔ وہ 16 اکتوبر 1952ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    میر غلام بھیک نیرنگ 26 ستمبر 1876ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تحصیلِ‌ علم کے بعد انھوں نے تحریکِ خلافت، تحریک موالات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں‌ متحرک و فعال کردار ادا کیا۔ ان کے دل میں مذہب و ملت سے محبت کی شمع بھی روشن تھی۔

    بی اے کے بعد نیرنگ نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور انبالہ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ سرکاری وکیل بھی رہے، مگر بعد میں ملازمت چھوڑ دی۔ وہ 1936ء میں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے۔

    اردو ادب میں‌ انھیں‌ ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ علامہ اقبال سے ان کی گہری دوستی تھی۔ ایک زمانے میں جب اقبال کے کلام پر اعتراضات ہوئے تو نیرنگ نے ”انبالوی“ کے قلمی نام سے ”مخزن“ اور دوسرے رسالوں میں ان اعتراضات کا جواب لکھا۔

    نیرنگ کے کلام سے منتخب کی گئی ایک غزل پیشِ خدمت ہے

    غزل
    کس طرح واقف ہوں حالِ عاشقِ جاں باز سے
    ان کو فرصت ہی نہیں ہے کاروبارِ ناز سے
    میرے درد دل سے گویا آشنا ہیں چوب و تار
    اپنے نالے سن رہا ہوں پردہ ہائے ساز سے
    ذرہ ذرہ ہے یہاں اک کتبۂ سر الست
    آپ ہی واقف نہیں ہیں رسمِ خطِ راز سے
    دل گئے، ایماں گئے، عقلیں گئیں، جانیں گئیں
    تم نے کیا کیا کر دکھایا اک نگاہِ ناز سے
    آہ! کل تک وہ نوازش! آج اتنی بے رخی
    کچھ تو نسبت چاہیے انجام کو آغاز سے

  • شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان کی 69 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان کی 69 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم خان لیاقت علی خان کی 69 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

    16 اکتوبر 1951 کو ایک جلسے کے دوران قائدِ اعظم کے معتمد اور نہایت قریبی ساتھی، قوم کے عظیم راہ نما، محسن اور ملک کے پہلے وزیرِاعظم کو ایک بدبخت نے ریوالور سے گولیاں برسا کر شہید کردیا۔

    قوم انھیں‌ شہیدِ ملّت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1896 میں مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک نواب خاندان کے فرد تھے جنھوں نے مسلمانانِ ہند اور آزادی کی جدوجہد کے لیے ہر آسائش اور سہولت کو تج دیا اور قیامِ پاکستان کے بعد خلوصِ نیّت اور تن دہی سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں انجام دیں۔

    1918 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیمی سند لینے کے بعد لیاقت علی خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیا۔

    1923 میں ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں‌ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1936 میں انھیں اس کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست تھے اور ان کی وفات کے بعد انھیں ملک کا پہلا وزیرِاعظم بنایا گیا۔

    شہیدِ ملّت کی زبان پر جاری ہونے والے آخری الفاظ تھے“ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘ قوم کے اس عظیم راہ نما کو راولپنڈی کے جس کمپنی باغ میں شہید کیا گیا، بعد میں اسے ’’لیاقت باغ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان کے قاتل کو ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی گولیاں‌ مار کر ہلاک کردیا تھا اور اس قتل کا سبب اور اس کے محرکات آج تک سامنے نہ آسکے۔

    شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • خود کُشی کی ناکام کوشش کرنے والی اداکارہ سلونی کی برسی

    خود کُشی کی ناکام کوشش کرنے والی اداکارہ سلونی کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ سلونی 15 اکتوبر 2010ء کو یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کی برسی ہے۔

    1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اداکارہ نے فلم نگری میں‌ خود کو سلونی کے نام سے متعارف کروایا۔ انھیں مشہور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم میں سائڈ رول کے لیے منتخب کیا تھا، لیکن اس فلم کی ریلیز سے قبل 1964ء میں اداکارہ سلونی کی ایک اور فلم ’’غدار‘‘ سنیما کے پردے پر سج گئی اور یوں یہی فلم اس اداکارہ کا شائقین سے پہلا تعارف ثابت ہوئی۔

    سلونی نے اپنے فلمی کیریئر میں 67 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 36 اردو اور 31 فلمیں تھیں۔ اداکارہ کی مقبول فلموں میں کھوٹا پیسا، عادل، باغی سردار، حاتم طائی، درندہ، چن مکھناں، دل دا جانی، لٹ دا مال، بالم، چھین لے آزادی سرفہرست ہیں۔

    جون 1970ء میں اداکارہ سلونی نے فلم ساز اور ہدایت کار باری ملک کے عشق میں ناکام ہونے پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن ڈاکٹروں نے انھیں موت کے منہ میں جانے سے بچالیا تھا۔ اس واقعے کے بعد باری ملک نے سلونی سے شادی کرلی اور اس جوڑی نے تقریباً 25 برس متحدہ عرب امارات میں گزارے جہاں باری ملک کاروبار کررہے تھے۔

    فلم انڈسٹری کی سلونی نے کراچی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما راجا صاحب محمود آباد کی برسی

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما راجا صاحب محمود آباد کی برسی

    آج تحریکِ پاکستان کے راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ہندوستان کی ایک مشہور ریاست محمود آباد کے والی مہا راجا سَر محمد علی خان کے فرزند تھے۔ 14 اکتوبر 1973ء کو راجا صاحب لندن میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا مدفن مشہد میں ہے۔

    راجا صاحب 5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام امیر احمد خان تھا۔ ان کا شمار تحریکِ پاکستان کے ان نام ور راہ نمائوں میں ہوتا ہے جو آزادی کی تحریک میں‌ ہر محاذ پر پیش پیش رہے اور ہر طرح کی قربانی دی۔ مال و دولت کی فراوانی اور ہر قسم کی آسائش میسر ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اچھی تعلیم و تربیت کے سبب انگریزی اور فارسی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا اور اپنے عمدہ خصائل کی بدولت بھی پہچانے گئے۔

    والد کے انتقال کے بعد راجا صاحب محمود آباد کے والی بن گئے، لیکن بہت جلد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال ہو کر مسلمانوں کی ابتری دور کرنے کی کوششوں اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد میں‌ مصروف ہوگئے۔ وہ مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے مالی امداد بھی کرتے رہے اور اپنے مالی وسائل اور آمدن کو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقف کردیا۔

    1947ء میں راجا صاحب پاکستان چلے آئے اور یہاں کسی منصب اور رتبے کی تمنا کیے بغیر مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں راجا صاحب برطانیہ منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہوئے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی

    بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی

    نوابزادہ نصراللہ خان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’بابائے جمہوریت‘‘ کے نام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نام ور سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان 27 ستمبر 2003 وفات پاگئے تھے اور آج ان کی برسی ہے۔ مجلسِ احرار سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے نوابزادہ نصراللہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور پاکستان میں مختلف سیاسی ادوار میں جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

    نوابزادہ نصراللہ خان 1918 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1933 میں عملی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ عوامی لیگ کی بنیاد رکھی اور بعد میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی۔

    1964 میں نوابزادہ نصراللہ خان نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور اسی سال منعقدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نام زد کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان متعدد سیاسی تحاریک کے ساتھ جمہوری پارٹیوں، مختلف سیاسی گروہوں اور بااثر قبائلی شخصیات پر مشتمل اتحاد کے قیام میں متحرک اور فعال رہے جن میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، جمہوری مجلس عمل، یو ڈی ایف، پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، آل پارٹیز کانفرنس، این ڈی اے اور اے آر ڈی کے نام شامل ہیں۔ انھیں خان گڑھ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    سید مسعود الحسن کو دنیائے ادب میں تابش دہلوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تابش دہلوی 23 ستمبر 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر اور براڈ کاسٹر کی برسی ہے۔

    9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہونے والے تابش دہلوی طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر اور پروڈیوسر وابستہ رہے۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ بھی ان کی وجہِ شہرت ہے۔

    تابش دہلوی کا کلام مشاعروں سے ان کے شعری مجموعوں تک بہت پسند کیا گیا۔ ان کی شاعری نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے مجموعوں‌ میں‌ محفوظ ہے۔ تابش دہلوی نے اپنے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات اور علمی و ادبی واقعات کو خوب صورتی سے صفحات پر اتارا۔ دیدہ باز دید ایک ایسی ہی تصنیف ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • رئیسِ جہانِ علم و ادب، رئیس امروہوی کی برسی

    رئیسِ جہانِ علم و ادب، رئیس امروہوی کی برسی

    22 ستمبر 1988 کو رئیس امروہوی کسی علم دشمن اور سفاک قاتل کی گولیوں‌ کا نشانہ بنے اور ہمیشہ کے لیے زندگی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آج اردو کے اس نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔

    رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ 12 ستمبر 1914 کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ اس کنبے میں رئیس امروہوی کے علاوہ تقی امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا اور اردو زبان میں‌ علم و ادب کے گلشن میں‌ مزید خوش نما اور رنگ برنگے پھول کھلائے۔ رئیس امروہوی نے فلسفہ و نفسیات کے موضوعات، ادب اور صحافت میں نام و مقام بنایا۔

    رئیس امروہوی قیامِ پاکستان سے قبل امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی تو یہاں قطعہ نگاری اور کالم نویسی ان کا حوالہ بنی اور تا دمِ مرگ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔

    ان کے کالم، علمی و ادبی مضامین اور شاعری ان کی متعدد کتب میں‌ محفوظ ہے۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، ملبوسِ بہار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔ نفسیات اور مابعدالطبیعات پر رئیس امروہوی کی ایک درجن سے زیادہ کتب شایع ہوئیں۔ ان کا ایک شعر دیکھیے۔

    خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
    گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم