Tag: یوم وفات

  • ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    آج اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ وہ 15 ستمبر 2012 کو کراچی میں‌ وفات پا گئی تھیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ مسرور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں‌ لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے جو 17 جنوری 1929 کو پیدا ہونے والی ہاجرہ مسرور کو کم عمری میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد کنبے کی کفالت کی ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ یوں اس خاندان اور ہاجرہ مسرور نے سخت اور مشکل حالات دیکھے۔ ہاجرہ مسرور کی بہن خدیجہ مستور بھی اردو کی معروف ادیب تھیں۔

    پاکستان میں ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ ہاجرہ مسرور نے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شایع کرنا شروع کیا جب کہ کے ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    ہاجرہ مسرور نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئیں۔ بعد میں‌ ہاجرہ مسرور کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    کنور آفتاب احمد کا نام پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں شامل ہے جو‌ 10 ستمبر 2010 کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کنور آفتاب احمد 28 جولائی 1929 کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے لندن اسکول آف فلم ٹیکنیک سے تعلیم حاصل کی۔

    کنور آفتاب نے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر 1958 میں‌ اپنی پہلی فلم جھلک پیش کی تھی جو ناکام رہی جس کے بعد 1964 میں ملک میں‌ ٹیلی وژن نشریات کے آغاز پر اس میڈیم سے وابستہ ہوگئے۔

    کنور آفتاب احمد نے اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو ٹیلی ویژن کے لیے آزمایا اور اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال جیسی شخصیات کے ساتھ اردو ڈراما کو بامِ عروج دیا۔ کنور آفتاب احمد کی مشہور ٹیلی وژن سیریلز اور سیریز میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد کو نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ 10 ستمبر کو وفات پانے والے کنور آفتاب احمد لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کُشتی کے تمام مقابلوں کا فاتح پاکستانی پہلوان حاسدین سے ہار گیا‌

    کُشتی کے تمام مقابلوں کا فاتح پاکستانی پہلوان حاسدین سے ہار گیا‌

    کشتی یا پہلوانی ہندوستان کا ایک مقبول کھیل رہا ہے جسے اکھاڑے میں فتح و شکست سے ہٹ کر بھی جسمانی صحت، طاقت، چستی و پھرتی برقرار رکھنے کا ذریعہ اور نہایت مفید و مثبت سرگرمی تصور کیا جاتا تھا۔ اس کھیل میں پاکستان سے کئی کھلاڑی نام ور ہوئے اور دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ محمد زبیر عرف جھارا پہلوان انہی میں‌ سے ایک ہیں‌ جن کی آج برسی ہے۔

    10 ستمبر 1991 کو لاہور میں‌ پاکستان کے اس مشہور پہلوان کا انتقال ہوگیا تھا۔ جھارا پہلوان 1960 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اس خاندان کے چشم و چراغ تھے جو پہلوانی اور اکھاڑے میں‌ اترنے کے لیے مشہور رہا۔ جھارا، اسلم پہلوان کے بیٹے، بھولو پہلوان کے بھتیجے، امام بخش پہلوان کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔

    27 جنوری 1978 کو پہلا مقابلہ لڑنے کے لیے اکھاڑے میں اترنے والے جھارا نے گوگا پہلوان کو چت کرکے فتح اپنے نام کی تھی۔ اگلے برس 1979 جاپان کے مشہور پہلوان انوکی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کشتی کے پانچویں رائونڈ کے بعد جاپانی پہلوان نے جھارا کے ہاتھ کو اوپر اٹھائے اور اسے فاتح قرار دے دیا۔

    جھارا پہلوان نے 60 کے قریب مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور ہر بار فتح اپنے نام کی۔ فخرِ پاکستان اور رستمِ پاکستان کے خطابات پانے والے جھارا پہلوان کی ان کام یابیوں‌ نے حاسدوں کو سازش پر آمادہ کیا اور انھوں نے جھارا کو منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ بدقسمتی سے جھارا پہلوان زندگی کی فقط 31 بہاریں‌ دیکھ سکے۔

  • جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
    لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں

    9 ستمبر 1996 کو کراچی میں اردو کے معروف شاعر ثروت حسین ٹرین کے ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں‌ نے خود کُشی کی تھی۔ ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بدایوں‌ سے ہجرت کرکے کراچی میں‌ آبسے جہاں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثروت حسین نے شعبہ تدریس سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ زندگی کے آخری دنوں‌ میں‌ وہ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج ملیر میں اپنے فرائض‌ انجام دے رہے تھے۔

    ثروت حسین کو اردو زبان میں‌ ان کے جداگانہ اسلوب اور غزل جیسی صنفِ سخن کو ایک نئے مزاج، خوب صورت طرز اور لفظیات سے روشناس کرانے والا شاعر مانا جاتا ہے۔ انھوں‌ نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔

    ثروت حسین کا پہلا مجموعہ آدھے سیارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ دوسرا مجموعہ کلام خاک دان ان کی موت کے بعد 1998 میں شایع ہوا۔

    ثروت حسین کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل
    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
    بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا
    کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
    پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا
    مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
    اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا
    وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
    اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
    سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
    دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

  • 9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    دنیائے سخن میں‌ اختر شیرانی شاعرِ رومان مشہور ہیں۔ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے اختر شیرانی نے 9 ستمبر 1948 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج اردو کے اس معروف شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    اختر شیرانی اردو زبان و ادب کے نام وَر محقق حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ 4 مئی 1905 کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہونے والے اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا اور وہیں‌ مدفون ہیں۔

    اختر شیرانی متعدد ادبی جرائد کے مدیر رہے۔ وہ اپنی نظم نگاری کے لیے زیادہ مشہور ہوئے اور روایتی رومانوی مضامین کے باوجود ان کا براہِ راست محبوب سے خطاب ان کی شہرت کا ایک سبب ہے۔

    اختر ایک رندِ بلاخیز تھے اور اسی کثرتِ شراب نوشی نے انھیں‌ زندگی سے محروم کردیا۔انھوں نے اپنی نظموں‌ کا موضوع اپنی محبوب شہناز، ریحانہ، عذرا، سلمیٰ کو بنایا اور ان سے براہِ راست خطاب کرنے کے ساتھ منظوم خطوط سے بھی دل دہی اور دل داریاں‌ کیں۔

    اختر شیرانی کی نظموں‌ میں‌ خوب صورت استعارے اور تراکیب ملتی ہیں‌ اور شعری لطافتوں اور نزاکتوں کا اہتمام بھی نظر آتا ہے۔ اختر نے رباعیاں اور ماہیے بھی کہے اور غزل بھی جن کے مضامین خمریات سے بھرے ہیں۔

    اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیورِ آوارہ اور لالۂ طور شامل ہیں۔

  • اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    آج دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات اور نئے زاویوں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922 کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956 میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول ثابت ہوا جریدہ ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین "نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا اور اسی طرح انشائیے بھی کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کے متعدد شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    7 ستمبر 2010 کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گائوں میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے نام ور ادیب، دانش ور، افسانہ نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی ہے۔ 22 اگست 1925 کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہونے والے اشفاق احمد 7 ستمبر 2004 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ لاہور کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

    دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ اشفاق احمد نے تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ جیسے ادبی رسائل کی ادارت کی اور کئی برس اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے ان کے پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ اشفاق احمد کو ایک صوفی، حکیم و دانا کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اخلاقی لیکچرز اور علمی و ادبی انداز میں‌ بیان کردہ واقعات اور قصّوں‌ پر مشتمل مضامین کے مجموعہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ "ایک محبت سو افسانے” بھی بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسی طرح توتا کہانی ان کی ایک مشہور تخلیق ہے۔

    ریڈیو پر اشفاق احمد نے صدا کاری کے ساتھ ایک یادگار ڈرامے "تلقین شاہ” کا اسکرپٹ بھی لکھا جب کہ پاکستان ٹیلی وژن سے ان کے متعدد ڈراما سیریل نشر ہوئے جنھیں‌ بہت پزیرائی ملی۔ اشفاق احمد کے مضامین، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈراموں کو پاکستان بھر میں‌ بڑی تعداد میں قارئین اور ناظرین نے پڑھا، دیکھا اور انھیں سراہا۔

    اشفاق احمد کو حکومت نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیے۔ ان کی فکرانگیز تحریر سے ایک پارہ پیش ہے۔

    اشفاق احمد کہتے تھے میرے پاس ایک بلّی تھی، اس کو جب بھی بھوک لگتی تھی میرے پاﺅں چاٹ لیتی اور میں اسے کھانا دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلّی مجھ سے بہتر ہے۔ اس کو پکا یقین ہے کہ اپنے مالک کے پاس سے اس کی ہر طلب پوری ہو گی، لیکن انسان کو ایسا یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ ان کاموں میں بھی جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے۔

  • ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    سید حسن عسکری نے اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے شہرت اور مقام حاصل کیا۔ آج اردو کے اس ترقی پسند ادیب، معروف شاعر اور صحافی کی برسی ہے۔ حسن عابدی 6 ستمبر 2005 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کی ایک ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ مینا شوری کی برسی ہے۔ 2 ستمبر 1989 کو سرطان جیسے مہلک مرض کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ جانے والی مینا شوری کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921 میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں مینا شوری کی شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔ فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے انھیں مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 83 فلموں میں کام کیا۔

    مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • آج عظیم قوال اور موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی برسی منائی جارہی ہے

    آج عظیم قوال اور موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی برسی منائی جارہی ہے

    دنیا بھر میں‌ قوال کی حیثیت سے شناخت کیے جانے والے، عظیم موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی خان 2007 میں‌ آج ہی کے روز اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    فیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد آبسا تھا۔

    نصرت فتح علی خان نے فنِ قوالی، موسیقی اور گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے اور وہ عروج حاصل کیا کہ آج بھی دنیا بھر میں‌ انھیں ان کے فن کی بدولت نہایت عقیدت، محبت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ نصرت فتح علی خان کا کارنامہ ہے کہ انھوں‌ نے قوالی کو مشرق و مغرب میں مقبول بنایا اور خاص طور پر صوفیائے کرام کے پیغام کو اپنی موسیقی اور گائیکی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ انھوں‌ نے اپنے فن کے ذریعے دنیا کو امن، محبت اور پیار کا درس دیا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔

    16 اگست 1997 کو پاکستان کے اس نام وَر موسیقار اور گلوکار کا لندن کے ایک اسپتال میں زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔

    کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے میدان میں‌ ان کے والد اور تایا بڑا نام اور مقام رکھتے تھے اور انہی کے زیرِ سایہ نصرت فتح علی خان نے اس فن سے متعلق تمام تربیت مکمل کی تھی۔

    ابتدائی زمانے میں‌ پرفارمنس کے دوران ان کا انداز روایتی قوالوں کی طرح رہا، مگر جب انھوں‌ نے اس فن میں کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک کے ملاپ کا تجربہ کیا تو ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک غیرملکی فلم کا سائونڈ ٹریک تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تو شاید خود وہ بھی نہیں‌ جانتے تھے کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی کن انتہاؤں‌ کو چھونے جارہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    "دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُو” کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جب کہ ان کی آواز میں‌ ایک حمد، "کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے” کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔

    نصرت فتح علی خان فیصل آباد میں‌ ابدی نیند سو رہے ہیں۔