Tag: یوم وفات

  • یومِ وفات: بابائے اردو مولوی عبدالحق کی زندگی اور خدمات پر ایک نظر

    یومِ وفات: بابائے اردو مولوی عبدالحق کی زندگی اور خدمات پر ایک نظر

    آج برِصغیر پاک ہند کے نام وَر ماہر لسانیات، ادیب، محقق اور معلم مولوی عبدالحق کی برسی منائی جارہی ہے جنھیں بابائے اردو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق نے 20 اپریل 1870 کو برطانوی راج میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1894 میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ انھیں علی گڑھ میں سر سید احمد خان کی صحبت میسر رہی جن کے افکار اور نظریات کا مولوی عبدالحق پر بھی گہرا اثر پڑا۔

    1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب، تاریخ و فلسفہ کے شوق نے انھیں‌ مطالعہ کی طرف راغب کیا اور عبدالحق نے کتابوں سے گہری دوستی کرلی جس نے انھیں غور و فکر اور مشاہدے کے ساتھ نثر اور شاعری کو پرکھنے، تحقیق و تنقیدی نظر سے دیکھنے کا عادی بنایا اور خود ان کے تخیل نے قلم کے ذریعے صفحات پر اترنا شروع کیا۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی تحقیقی اور لسانی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ اردو کا عظیم محسن کہا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق کا ایک کارنامہ انجمن ترقیِ اردو ہے جسے انھوں‌ نے فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسی انجمن کے زور پر اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج قائم کیے گئے۔

    مولوی عبدالحق نے حیدرآباد دکن میں اسکول و کالج‌ کے لیے خدمات اور سلطان العلوم نظام میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ جامعہ عثمانیہ جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا، کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اردو لغت، فنون و سائنسی اصطلاحات کے تراجم اسی زمانے میں‌ ہوئے۔

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیفات متعدد ہیں تاہم چند ہم عصر(خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہمیت کی حامل ہیں‌ اور کئی کتب کو انھوں‌ نے تحقیق و حواشی کے ساتھ شایع کیا۔

    بابائے اردو مولوی عبدالحق 16 اگست، 1961 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

  • ساغر صدیقی: "بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے”

    ساغر صدیقی: "بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے”

    اردو ادب میں ساغر صدیقی کو ایک درویش، خلوت پسند اور فقیرانہ بود و باش والا شاعر کہا جاتا ہے جو 19 جولائی 1974 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اردو کے اس نام ور شاعر کا اصل نام محمد اختر تھا۔ 1928 میں انبالہ میں پیدا ہونے والے محمد اختر کو کم عمری ہی سے شعر و شاعری سے شغف پیدا ہو گیا تھا۔

    شاعری کا آغاز کیا تو ناصر حجازی تخلص کرنے لگے اور بعد میں ساغر صدیقی کے نام سے شہرت کا سفر شروع کیا۔

    ساغر صدیقی نے درد و غم، رنج و الم، حسرت و یاس کے مضامین کو نہایت خوب صورتی سے اپنے شعروں‌ میں باندھا۔ وہ زود گو تھے اور کئی فلموں کے لیے نغمات بھی تخلیق کیے، مگر بدقسمتی سے‌ جذباتی اور ذہنی انتشار نے انھیں نشے کی طرف دھکیل دیا اور وہ سبھی سے کنارہ کش ہوگئے۔

    ساغر صدیقی قبرستان یا کسی مزار پر پڑے رہتے اور اس ماحول میں نشے کی وجہ سے صحت خراب ہوتی چلی گئی اور یوں 46 برس کی عمر میں لاہور میں‌ یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

    ساغر صدیقی کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں خشتِ میکدہ، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور زہر آرزو شامل ہیں۔ ان کی ایک غزل کے دو شعر:

    بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں، مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں، خضر نہیں، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں، مجھے یاد کیجیے

    اور یہ شعر دیکھیے
    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

  • معروف کامیڈین البیلا کی برسی

    معروف کامیڈین البیلا کی برسی

    ٹیلی ویژن، اسٹیج اور فلم کے معروف اداکار البیلا 17 جولائی 2004 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اس فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    البیلا کا اصل نام اختر حسین تھا۔ وہ 1941ء میں پیدا ہوئے تھے۔ کوچہ فن و ثقافت میں‌ قدم رکھنے والے البیلا نے تھیٹر اور اسٹیج کے بعد پہلی فلم ’’فرشتہ‘‘ کا ایک چھوٹا سا کردار نبھا کر اپنی صلاحیتوں کا خوبی سے اظہار کیا اور فلمی دنیا میں‌ جگہ بناتے چلے گئے۔

    البیلا کا مضبوط حوالہ اسٹیج ہے جہاں انھوں‌ نے کامیڈی کرکے لوگوں‌ کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ تاہم انھو‌ں نے بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ کردار ادا کرکے خود کو منوایا تھا۔ وہ اپنی پرفارمنس اور برجستہ مکالموں کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    اس فن کار نے 215 فلموں میں اداکاری کی جن میں شہید، عشق نچاوے گلی گلی، بڑے میاں دیوانے، سہرے کے پھول، تیس مار خان، انسانیت کے دشمن کے نام سرِفہرست ہیں۔

    البیلا نے سیکڑوں اسٹیج ڈرامے کیے اور اپنے وقت کے نام ور فن کاروں کے ساتھ ان کی پرفارمنس سے حاضرین اور ناظرین کو محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ اسٹیج کی دنیا میں‌ معروف کامیڈین امان اللہ کے ساتھ ان کا کام خاص طور پر شائقین نے پسند کیا۔

    البیلا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔

  • مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

    یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

    جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

    ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

    زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

    زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔

  • ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کی برسی

    ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کی برسی

    اردو زبان کے نام ور افسانہ نگار، شاعر، محقق اور ناقد احمد ندیم قاسمی کی آج 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ وہ 20 نومبر 1916 کو پیدا ہوئے 10 جولائی 2006 کو لاہور میں انتقال کیا۔

    احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے جنھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کے افسانوں، شعری تخلیقات اور تنقیدی مضامین پر مجموعے اور شخصی خاکوں کی کتابیں‌ منظر عام پر آئیں۔ احمد ندیم قاسمی کا شمار انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں ہوتا تھا۔

    وہ صحافی بھی تھے اور کئی اہم ادبی جرائد کے مدیر رہے جن میں فنون بھی شامل ہے۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ تین مرتبہ آدم جی ادبی انعام اور کمال فن ایوارڈ بھی اپنے نام کیا، انھیں پنجاب کا پریم چند بھی کہا جاتا تھا۔

  • خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج اردو اور ہندکو کے اسی نام ور شاعر اور ادیب کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    7 جولائی 2008 کو خاطر غزنوی وفات پاگئے تھے۔ وہ پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 25 نومبر 1925 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے کیا۔ بعدازاں اپنے شہر کی یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

    1984 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

  • حسام قاضی جو زندگی کی صرف 42 بہاریں دیکھ سکے

    حسام قاضی جو زندگی کی صرف 42 بہاریں دیکھ سکے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار حسام قاضی 3 جولائی 2004 کو کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1961 میں‌ پیدا ہونے والے حسام قاضی کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انھوں نے بیالیس سال کی عمر پائی۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے کرنے والے حسام قاضی کو کاظم پاشا کے ڈراما سیریل "چھائوں” سے پاکستان بھر میں شہرت ملی۔

    حسام قاضی نے زمانہ طالبِ علمی میں‌ اسی کی دہائی سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ کامرس میں‌ ماسٹرز کرنے کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں لیکچرر تعینات ہوئے، ساتھ ہی اداکاری بھی جاری رہی۔ ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز کے چند نمایاں‌ اور قابلِ ذکر فن کاروں‌ میں‌ ایک نام حسام قاضی بھی تھا۔

    ان کے معروف سیریلز میں ماروی، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیر تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔

  • سنتوش کمار: فلم انڈسٹری کے باکمال اداکار کی برسی

    سنتوش کمار: فلم انڈسٹری کے باکمال اداکار کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار سنتوش کمار کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 11 جون 1982 کو ہوا تھا۔

    سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ انھیں فلمی دنیا اور ان کے مداح ایک باکمال اداکار ہی نہیں‌ بلکہ بااخلاق اور نہایت شائستہ و مہذب انسان کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔

    رومانوی کرداروں کو اپنی اداکاری سے یادگار بنا دینے والے سنتوش کمار نے کئی اداکارائوں کے ساتھ کام کیا، لیکن صبیحہ خانم فلم انڈسٹری کا وہ نام ہیں جن کے آگے سنتوش نے اپنا دل ہار دیا اور وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔

    سنتوش کمار نے جہاں فلمی دنیا پر اپنی پرفارمنس سے راج کیا، وہیں اپنے کردار سے ہر دل میں جگہ بنائی اور وہ عزت اور مقام حاصل کیا جو بہت کم اداکاروں کو نصیب ہوا۔

    1950 سے 1982 تک انھوں نے 84 فلموں میں اداکاری کی۔ انتقال کے وقت سنتوش کی عمر 56 سال تھی۔

    سنتوش کمار کی کام یاب فلموں میں گھونگھٹ، رشتہ، دامن، سیما، سفید خون، بیس دن، آزاد، چنگاری جیسی فلمیں شامل ہیں۔

  • گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    اردو زبان و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں اور علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں ایک نام مجنوں گورکھپوری کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مجنوں‌ گورکھپوری 1988 میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، محقق، مترجم، شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ 10 مئی 1904 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے مجنوں گورکھپوری ماہرِ تعلیم بھی تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد وابستہ رہے۔

    مجنوں گورکھپوری اردو کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے اور ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    مجنوں‌ گورکھپوری نے جہاں اردو ادب کو تنقید سے مالا مال کیا اور اسے نکھارنے کے لیے دماغ سوزی کی، وہیں انگریزی ادب کو بھی اردو تراجم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔

    شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو مجنوں گورکھپوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا جو ان کا بڑا کام ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کی آخری آرام گاہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔