Tag: یوم وفات

  • شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    اردو ادب میں جدید نظم کے شعرا میں اختر حسین جعفری ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ بعض نقادوں نے بیدل کے بعد انھیں بلند پایہ تخلیق کار شمار کیا ہے۔

    اختر حسین جعفری کی زندگی کا سفر تین جون 1992 کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، اختر حسین جعفری نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔ ان کا کلام جدید اردو شاعری کا سرمایہ افتخار ٹھہرا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2002 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا جب کہ ان کی تصنیف آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا تھا۔

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

  • اپنے گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم!

    اپنے گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم!

    نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    2 جون کو کراچی میں وفات پانے والے مجیب عالم کا تعلق ہندوستان کے شہر کان پور سے تھا جہاں وہ 1948 میں پیدا ہوئے۔

    ان کی آواز بے حد سریلی تھی جس سے متاثر ہو کر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے لیے ان کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے، مگر بدقسمتی سے یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔

    مجیب عالم کی آواز سنیما بینوں تک فلم مجبور کے ذریعے پہنچی۔ 1966 میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967 میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا۔ اس نغمے کے بول تھے: وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں کے لیے مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ان کے کئی نغمات نہایت مقبول ہوئے۔

    ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔

    یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے گیتوں کو اپنی آواز دے کر جاودانی عطا کرنے والے مجیب عالم کراچی کے سخی حسن قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    "میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ گیت ہے جو بے حد مقبول ہوا اور آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔

  • کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    پاکستان میں اسٹیج سے لے کر ریڈیو تک اپنی فن کاری اور صدا کاری کی صلاحیتوں کا خوبی سے اظہار کرنے کے بعد سبحانی بایونس نے ٹیلی وژن اسکرین پر اپنی پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتے اور نام و مقام بنایا۔ آج اس باکمال اور اپنے فن میں‌ یکتا اداکار کی برسی ہے۔

    مشہور فن کار سبحانی بایونس 31 مئی 2006 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن( اورنگ آباد) سے تھا جہاں انھوں نے 1924 میں آنکھ کھولی۔

    انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں خواجہ معین الدین جیسے عظیم ڈراما نگار کے ساتھ انھیں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے متعدد ڈراموں میں سبحانی بایونس نے لازوال کردار ادا کیے جن میں مشہور ترین ڈراما "مرزا غالب بندر روڈ پر” تھا، اسی طرح "تعلیمِ بالغاں” میں ان کا کردار آج بھی کئی ذہنوں‌ میں‌ تازہ ہے۔

    سبحانی بایونس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، تاریخ و تمثیل، قصہ چہار درویش، رشتے ناتے، دو دونی پانچ، رات ریت اور ہوا، دائرے، وقت کا آسمان، با ادب باملاحظہ ہوشیار اور تنہائیاں میں بھی اپنی اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔

    پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں ان کا نام آج بھی نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ناصرہ جس نے "رانی” بن کر لاکھوں دلوں پر راج کیا

    ناصرہ جس نے "رانی” بن کر لاکھوں دلوں پر راج کیا

    پاکستان کی فلم نگری اور سنیما کے شائقین ناصرہ کو رانی کے نام سے پہچانتے ہیں جو 27 مئی 1993 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج فلم اور ٹیلی ویژن ڈراموں کی اس مشہور اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1962 میں ہدایت کار انور کمال پاشا نے انھیں رانی کے نام سے اپنی فلم محبوب میں کاسٹ کیا جس کے بعد متعدد ناکام فلمیں رانی کے حوصلے پست کرتی رہیں، مگر پھر ایک پنجابی فلم نے کام یابیوں کا دروازے کھول دیے۔

    فلم دیور بھابی، بہن بھائی، انجمن، شمع، ایک گناہ اور سہی اور کئی دوسری فلمیں یادگار ثابت ہوئیں۔

    رانی نے 168 فلموں میں کام کیا جن میں 103 فلمیں اردو میں اور 65 پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔ ان کی آخری فلم کالا طوفان تھی جو 1987 میں پردے پر سجی تھی۔ تین نگار ایوارڈز سمیت بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والی رانی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی اداکاری کرکے لوگوں کے دل جیتے۔

    رانی اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور کی بیٹی تھیں اور مختار بیگم ہی نے ان کی تربیت بھی کی۔

    اداکارہ رانی نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام رہیں، اپنے وقت کی یہ مشہور اداکارہ لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، محقق اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔

    آج شاہد احمد دہلوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے جو علم و ادب کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو کا باوقار جریدہ ساقی جاری کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور ادبی دنیا میں متحرک رہے۔

    وہ باکمال نثر نگار اور انشا پرداز تھے۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ مختلف تذکروں اور واقعات کو بھی ادبی پیرائے میں‌ ڈھالا اور کتابی شکل دی۔ دلی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔

    ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔

    27 مئی 1966 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    عبید اللہ علیم کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ 1998 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج عبید اللہ علیم کا یومِ وفات ہے۔

    1939 کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبید اللہ علیم کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد عبید اللہ علیم نے پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کر لی، مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اختلافات کے بعد انھو‌ں نے استعفیٰ دے دیا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا، نگارِ صبح کی امید میں شامل ہیں۔

    عبید اللہ علیم کی یہ مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

    کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
    پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

    جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
    تم باد صبا کہلاؤ تو کیا

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا
    اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

    تم آس بندھانے والے تھے
    اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

    دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
    پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

    میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
    تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

    جب دیکھنے والا کوئی نہیں
    بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

    اب وہم ہے یہ دنیا اس میں
    کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

    ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

  • ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    آج اردو زبان کے نام ور ادیب، محقق، نقاد سید ابوالخیر کشفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 15 مئی 2008 کو انتقال کرجانے والے ابوالخیر کشفی اپنی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932 کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے ان کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

    وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی شروع کرنے کے لیے انھوں نے تدریس کا سہارا لیا اور کالج سے لے کر جامعہ کراچی تک اپنے علم و کمال سے نسلِ نو کو سنوارا۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    اردو ادب میں سبط علی صبا کی شناخت اور پہچان غزل گوئی ہے۔ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے دیگر شعرا کے مقابلے میں‌ وہ ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کا‌ ایک ہی شعر ان کی شہرت کا سبب بن گیا۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    1935 میں پیدا ہونے والے سبطِ علی صبا نے فوج اور بعد میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں کام کیا۔ اس دوران مشقِ سخن جاری رکھی اور ادب کی دنیا میں‌ اپنی تخلیقات سے خوب نام پیدا کیا۔ ان کے لہجے میں تازگی اور خیال میں ندرت جھلکتی ہے۔

    زندگی نے سبطِ علی صبا کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیا اور وہ 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 14 مئی 1980 کو انتقال کرجانے والے سبطِ علی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شایع ہوا۔

    آج اس خوش فکر شاعر کی برسی ہے۔ سبطِ علی صبا کی یہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
    آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے

    وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
    جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے

    اتنی پُر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
    شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے

    رہ روِ منزلِ مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
    جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

  • مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات ہی کی وجہ سے منفرد نہیں بلکہ ان کا تخیل اور تخلیقی جوہر ان کی شاعری کا حسن ہیں اور انھیں‌ اپنے عہد کے دیگر شعرا میں نمایاں کرتے ہیں۔

    متنوع موضوعات اور لب و لہجے کی انفرادیت کے ساتھ مجید امجد کی بعض نظمیں آج بھی ہمیں‌ اپنی گرفت میں‌ لے لیتی ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں شب رفتہ، شب رفتہ کے بعد، چراغ طاق جہاں وغیرہ شامل ہیں۔ 11 مئی کو مجید امجد کی برسی منائی جاتی ہے جب کہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش بھی آج ہی ہے۔

    مجید امجد نے ایک نظم "منٹو”‌ کہی تھی جو اس دن کی مناسبت سے آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    "منٹو”
    میں نے اس کو دیکھا ہے
    اجلی اجلی سڑکوں پر، اک گرد بھری حیرانی میں
    پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
    جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
    ”دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے”
    دنیا اس کو گھورتی ہے
    شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
    انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
    کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
    بام زماں پر پھینکا ہے
    کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
    روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
    لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
    عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
    کون ہے یہ گستاخ
    تاخ تڑاخ!

  • منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جہاں کئی فن کار اپنی لاجواب اداکاری کے علاوہ اپنے منفرد لب و لہجے اور آواز و انداز کی وجہ سے پہچانے گئے ان میں منصور بلوچ کا نام بھی شامل ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے منصور بلوچ تین مئی 1994 کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ آج ٹیلی وژن اور فلم کے اس باکمال فن کار منصور بلوچ کی برسی ہے۔

    منصور بلوچ 1942 میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق نواب شاہ سے تھا۔ اسی ضلع نواب شاہ کے ایک گاؤں بچھری میں انھیں‌ سپردِ خاک گیا گیا۔

    منصور بلوچ نے متعدد سندھی فلموں اور ڈراموں میں‌ کام کیا۔ ان کے فنی سفر کا آغاز ہی سندھی زبان میں بننے والی فلم سے ہوا تھا، بعد میں پاکستان ٹیلی وژن پر ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھانے ملا اور انھوں نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

    منصور بلوچ نے ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراما سیریل دیواریں اور جنگل میں کردار نبھا کر خوب شہرت حاصل کی۔ ڈراما سریل دیواریں میں‌ ان کی جان دار اداکاری اور شان دار پرفارمنس یادگار ٹھہری اور پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازے گئے۔