Tag: یوم وفات

  • یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھیں جداگانہ اسلوب کا حامل اور ایسا تخلیق کار مانا جاتا ہے جس کے موضوعات کی انفرادیت اور اظہار کا سلیقہ قابلِ توجہ ہے۔

    اردو کے معروف شاعر اور ادیب عزیز حامد مدنی کا انتقال 23 اپریل 1991 کو کراچی میں ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے چند بہترین براڈ کاسٹروں میں ہوتا ہے۔ ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نقاد کی حیثیت سے بھی پہچان بنائی۔

    عزیز حامد مدنی کا تعلق رائے پور (یوپی) سے تھا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے والے عزیز حامد مدنی نے قیام پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور ریٹائرمنٹ تک ان کی یہ وابستگی برقرار رہی۔

    ان کے شعری مجموعوں میں چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں شامل ہیں۔ عزیز حامد مدنی کا ایک شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

  • دلوں کے فاتح معین اختر کی یادگار تصاویر

    دلوں کے فاتح معین اختر کی یادگار تصاویر

    اسٹیج پرفارمنس سے فلم کے پردے تک معین اختر نے خود کو ہر روپ میں باکمال اور منفرد آرٹسٹ ثابت کیا۔ سنجیدہ اور مزاحیہ اداکاری کے علاوہ مختلف شوز کی میزبانی کرتے ہوئے انھوں نے اپنی پرفارمنس سے نہ صرف لوگوں کو محظوظ کیا بلکہ انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    لیجنڈ اداکار اور کمپیئر معین اختر ایک گلوکار، صدا کار، اسکرپٹ رائٹر اور تخلیقی جوہر سے مالا مال نقال تھے۔
    کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے اس فن کار کی نویں برسی پر ان کی چند تصویریں دیکھیے۔

     

  • ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز فن کار معین اختر نے آج ہی کے روز اس دنیا سے ناتا توڑا تھا، اور مداح آج ان کی نویں برسی منارہے ہیں۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر جیسے فن کار صدیوں میں‌ پیدا ہوتے ہیں۔ اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک معین اختر نے ہزاروں روپ بدلے، سیکڑوں کردار نبھائے اور وہ سبھی لازوال اور ذہنوں پر نقش ہیں۔

    انھیں ایک ایسے ورسٹائل آرٹسٹ اور باکمال فن کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس نے اس نگری کے ہر شعبے میں تخلیقی اور شان دار کام کیا۔ اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے سنجیدہ کردار بھی نبھائے۔ صدا کار، ادا کار، مختلف پروگراموں کے کام یاب میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی معین اختر نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں 24 دسمبر، 1950 کو آنکھ کھولی۔ اس بے مثال اداکار نے 2011 کو اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    معین اختر سولہ برس کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت مقبول ہوا۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جسے ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن کہا جاتا ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر پاکستان کے ان آرٹسٹوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے دلوں پر راج کیا اور کبھی، کسی بھی روپ میں ان کے مداحوں کو ان کی پرفارمنس سے مایوسی نہیں ہوئی۔ معین اختر کے ساتھ فنِ نقالی اور اسٹیج پرفارمنس کا گویا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔

  • یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    معروف ترقی پسند ادیب اختر حسین رائے پوری کی رفاقت اور ان کے طفیل اپنے وقت کے جید اور باکمال لکھاریوں سے ملنے، صاحبِ طرز ادیبوں اور شعرا کو پڑھنے اور ان سے ملاقاتوں کا موقع ملا تو بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کو بھی لکھنے کی تحریک ملی۔ ادب پڑھنے کا شوق انھیں بہت پہلے سے تھا، کیوں کہ ان کے والد بھی جاسوسی رائٹر تھے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی جس کا مرکزی موضوع، ان کے شوہر اختر حسین رائے پوری ہیں، سامنے آئی تو اسے سبھی نے منفرد قرار دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کی ہر قدم پر راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جس نے ان کے اندر موجود تخلیق کار کو ابھرنے کا موقع دیا۔

    ان کی پیدائش 1918 کی ہے۔ بیگم حمیدہ نے 1935 میں اختر حسین رائے پوری سے شادی کی جو اردو کے نام ور نقاد، محقق اور ادیب تھے۔ ان کے اتنقال کے بعد بیگم حمیدہ اختر حسین نے ادبی سفر شروع کیا اور اپنے اسلوب کے سبب اہم لکھاریوں میں شمار ہونے لگیں۔ خود نوشت سوانح عمری اور خاکوں کے دو مجموعے ان کی یادگار تخلیقات ہیں۔ اس کے علاوہ ناول اور دیگر کتب بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 20 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔ بیگم حمیدہ حسین کراچی میں مدفون ہیں۔

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    پاکستان کی نام ور علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی ایک سال پہلے آج ہی کے روز اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    18 اپریل 2019 کو انتقال کر جانے والے ڈاکٹر جمیل جالبی کی اردو زبان اور ادب کے لیے خدمات اور تحقیقی کاوشیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مختلف اہم اور بعض ادق موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت، علمی استعداد کو منواتے ہوئے محنت اور مستقل مزاجی سے کام کیا اور کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    پاکستان میں انھیں ایک نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہا‌ں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور کام یابیاں سمیٹتے رہے۔

    جالبی صاحب نے کہانی سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ دیگر تصانیف و تالیفات میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

  • ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    تعلیم و تدریس کے شعبے میں خدمات، علمی و تحقیق کاموں اور ادب کے حوالے سے پری شان خٹک کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے ہیں۔ آج 16 اپریل کو پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا تھا۔

    پروفیسر پری شان خٹک کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 1932 کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    پری شان خٹک نے پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور یہی وجہ تھی کہ بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں میں منتظم مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا اور علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک وہند کےعظیم گلوکار محمد رفیع کا 39 واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے، رفیع کے گائے سینکڑوں گیت آج بھی بے انتہا مقبول ہیں، ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنرلے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل ، قوالی اوربھجن گا کربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی ، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516، نان ہندی 112 اور 328 پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے ، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے، کیا ہوا تیرا وعدہ ، بہارو پھول برساؤ، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے، یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے ، لکھے جوخط ، احسان تیرا ہوگا ،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6 بارفلم فیئرایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ ان کے انتقال کے 20 برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    محمدرفیع 31جولائی 1980ء کوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے، آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • 17 رمضان: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یوم وفات

    17 رمضان: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یوم وفات

    آج ام المومنین صدیقہ عالم جناب عائشہ کا یوم وفات ہے۔ آپؓ نے 17 رمضان 58 ہجری، بروز منگل 66 سال کی عمر میں اس دار فانی سے پردہ فرمایا تھا۔

    حضرت عائشہؓ پیغمبر اسلام ﷺ کی صغیر سن زوجہ تھیں اور آپ نے انہیں شرف زوج اپنے دوست اور صحابی حضرت ابو بکرؓ کے احترام میں عطا کیا تھا۔

    ولادت

    حضرت عائشہؓ کی تاریخ ولادت کے متعلق تاریخ و سیرت کی تمام کتابیں خاموش ہیں۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

    ان کا لقب صدیقہ تھا، ام المومنین ان کا خطاب تھا جبکہ نبی مکرم محمد ﷺ نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے اور کبھی کبھار حمیرا کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔

    کنیت

    عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے۔ چونکہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔

    ایک دفعہ آنحضرت محمد ﷺ سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اورعورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر رکھ لو، چنانچہ اسی دن سے ام عبد اللہ کنیت قرار پائی۔

    نکاح

    ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ ہجرت سے 3 برس قبل حضور اکرم ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور 9 برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔

    وفات

    سن 58 ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہؓ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنینؓ اور رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔

    ماہ رمضان کی 17 تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہؓ نے وفات پائی۔ آپؓ 18 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں اور وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

    حضرت عائشہؓ اوراحادیث نبوی

    ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت و امانت میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔

    حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔ حضرت عائشہ نے 2 ہزار 2 سو 10 احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

    دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہ محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ صدیقہؓ سے 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری و مسلم میں ہیں۔