Tag: یوم وفات

  • شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا یوم وفات خاموشی سے گزر گیا، کوئی شخصیت مزار پر بھی نہ آئی

    شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا یوم وفات خاموشی سے گزر گیا، کوئی شخصیت مزار پر بھی نہ آئی

    لاہور : خودی کا درس دینے والے شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ اقبال کا یوم وفات خاموشی سے گزرگیا، کسی سرکاری شخصیت نے مزار پرحاضری دی نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد ہوئی۔

    خواب غفلت میں سوئی امت کو ہر سو جگانے میں مصروف رہنے والے آفاقی شاعر علامہ محمد اقبالؒ کا یوم اکیاسواں یوم وفات ہفتہ وار تعطیل اور ہماری قومی بے حسی کی نذر ہو گیا۔

    محسن ملت کے یوم وفات کو حکومت اپوزیشن ،سیاسی و سماجی تنظیموں تعلیمی اداروں اور من حیث القوم اس انداز میں منایا گیا کہ جیسے اقبال کبھی تھے ہی نہیں۔

    اپنی بلند پایہ شاعری کے ذریعے نئی نسل کو اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دینے والے علامہ محمد اقبالؒ کا میوزیم جہاں ان کے استعمال کی اشیاء اور دیگر معلومات کا ذخیرہ موجود ہے وہ بھی ویران پڑا رہا نہ والدین اور نہ ہی اساتذہ اپنے بچوں کو اقبال کی زندگی سے آگاہی دینے کے لیے آئے۔

    جاوید منزل اقبال میوزیم میں بھی ویرانی قومی بے حسی کا ثبوت دیتی رہی، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی آزادی کا خواب دیکھنے والے محسن ملت کو سلام عقیدت پیش کرنے ان کے چاہنے والے مزار پر نہ پہنچے۔

    علامہ اقبال کے یوم وفات پر کسی حکومتی عہدیدار نے مزار پر حاضری دینے یا ان کی یاد میں مباحثہ یا سیمینار منعقد کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی اور اقبال یوم وفات قومی بے حسی غفلت اور لاپرواہی کے عالم میں گزر گیا۔

  • میر انیس کی 144 ویں برسی

    میر انیس کی 144 ویں برسی

    ٓج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخن میر ببر علی انیس کا 144 واں یوم وفات ہے، انہوں نے صنف مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803 میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔

    انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنؤی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 سال کی عمر میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291 مطابق 10 دسمبر 1874 کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963 میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    مرزا دبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    یہی شعر ان کے لوح مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

  • جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 34 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔

    مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

  • نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    کراچی :آج اردو کے ممتاز شاعر محسن نقوی کا یوم وفات ہے، ان کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا، اور آپ 5 مئی 1947 کو محلہ سادات ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے ۔

    محسن نقوی نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ  گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق سے پڑھتے تھے۔

     انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

    بعد ازاں تعلیم کو خیر باد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور انیس سو سڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

    چاندنی کارگر نہیں ہوتی
    تیرگی مختصر نہیں ہوتی
    ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
    احتراماً سحر نہیں ہوتی

    ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”

    یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”

    جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا۔

    انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انھیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

    محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہو گیا۔

    اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
    کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
    نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
    حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

    ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

    محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
    شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کر ب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہو سکے گا۔

  • حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    انیس فروری 1275 بمطابق 21 شعبان 673 ھجری سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی تاریخ وفات ہے، ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ (1177تا 1274) آپؒ کا اصل نام عثمان مروند تھا، آپ 1177 عیسوی بمطابق 573ھجری میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔

     ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلۂ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے ہوکر جعفر صادق تک پہنچتا ہے، سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق۔

    آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے "شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں ھضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔ آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا

    آپ کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گز کے قریب ہے۔ ان کا سالانہ عرس اسلامی تقویم کے مطابق 18 شعبان المعظم کو ہوتا ہے۔

  • اردو ادب کی عہد سازشخصیت، سعادت حسن منٹوِ کا آج یوم وفات ہے

    اردو ادب کی عہد سازشخصیت، سعادت حسن منٹوِ کا آج یوم وفات ہے

    کراچی : اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا 61 واں یوم وفات ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

     منٹو 11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے، آپ کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔

    منٹو ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں انہیں علاقے کے اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا۔

    manto-post-01

    انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔

    ابتداء میں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔

    manto-post-03

    سعادت حسن منٹو کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کے اعزاز میں یاد گاری ڈاک ٹکٹ کا بھی اجراء کیا۔

    سعادت حسن منٹو اردو کے واحد بڑے افسانہ نگار ہیں جن کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے ان کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی۔

    manto-post-02

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔ سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955ء کو جگر کی بیماری کے باعث خالق حقیقی سے جاملے ۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    سعادت حسن منٹو کا ایک قول ہے کہ
    جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں ۔ اسی طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے
    (سعادت حسن منٹو)

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    کراچی : قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم وفات آج عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ اس موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی جن میں شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری سنہ 1900 کو پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔ حفیظؔ مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مسجد سے منسلک مدرسے سے حاصل کی، پھرایک مقامی اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    شاعری میں ان کو نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ ہجرت کر کے لاہور منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل حفیظؔ جالندھری 1922ء سے 1929ء تک مختلف ماہناموں کے مدیر رہے جن میں نونہال، ہزار داستان، تہذیبِ نسواں، مخزن جیسے مجلے شامل ہیں۔

     

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "نغمہ ء زار” 1935ء میں شائع ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ "سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ” کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دور میں انہوں نے بہت سے ایسے نغمے اور گیت لکھے جو عوام میں بہت مقبول ہوئے۔

    حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا، اس کے ذریعے انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    jalindhari-post-01

    ان کے شاعرانہ کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ شاہنامہ فردوسی کے انداز میں شاہنامہ اسلام کی تخلیق ہے جس نے ان کی شہرت کو بقائے دوام بخشا۔

    اس طویل نظم میں انہوں نے اسلام کے دورِ زریں کی تاریخ بیان کی ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ہے جسے موسیقار احمد جی چھاگلا نے سُروں سے سجایا ہے۔ اس قومی ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کی شاعری میں پائی جانے والی غنائیت اور مشاعروں میں ان کے ساحرانہ ترنم کی وجہ سے ان کو شعراء میں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ عام طور پر ان کی شاعری میں عشق، مذہب، حب الوطنی اور قدرت کے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے موضوعات برصغیر کے مخصوص ماحول کے تناظر میں چنتے ہیں۔

    ان کی زبان میں اردو اور ہندی کا بڑا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے جو جنوبی ایشیا کی مخصوص ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ حفیظ ؔ مرحوم کو ان کی خدمات کی بنا پر حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغہ ء حسنِ کارکردگی اور ہلال ِ امتیاز سے نوازا گیا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ با، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ قابل ذکر ہیں۔

    ابوالاثر حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں وفات پائی ، وہ مینار پاکستان کے سائے تلے آسودہ خاک ہیں۔

  • آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    امیر کے نام سے شاعری کرنے والے ممتاز غزل گو شاعرامیر احمد مینائی 21 فروری 1829 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے،آپ کا تعلق مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے مینائی کہلائے،آپ علمِ طب،جفر اور علمِ نجوم میں ماہر تھے اسی وجہ سے اپنے معاصرین سے ممتاز تھے۔

    حالاتِ زندگی کے کچھ پر تو

    امیر مینائی کوشعروسخن کا شوق بچپن سے تھا،شروع میں مظفرعلی اسیرسے تلمذ حاصل تھا پھر 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں’’ارشاد السلطان‘‘ اور ’’ہدایت السلطان‘‘ تصنیف کیں۔

    ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد آپ رام پور چلے گئے اور نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں کے استاد مقرر ہوئے اور رام پور میں 43 برس بڑی عزت وآرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔

    نواب کلب علی خان کے انتقال کے بعد آپ اپنے ہم عصر شاعر اور قریبی دوست داغ دہلوی کے ایماء پر امیرمینائی حیدرآباد (دکن) چلے آئے اور اپنے آخری ایام یہی گذارے۔

    سفرِ جہانِ فانی 

    1892 میں امیرؔ مینائی بیمار ہو گئے، حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا،آخر 13 اکتوبر 1900 ء کو 71 برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے جا ملے،مینائی خود فرماتے ہیں کہ

    توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناےٗ امیرؔ

    اور اسی دن درگاہ شاہ یوسف و شاہ شریف میں ابدی نیند سلا دیئے گئے، جہاں ان کا مزار مرجع خلائق ہے،جناب امیر مینائی کے لوحِ مزار پر جلیلؔ رانکپوری کی یہ تاریخ کندہ کی گئی ہے

    امیر کشور معنی امیرؔ مینائی
    خدا کے عاشقِ صادق درِ نبیﷺ کے فقیر
    گےٗ جو خلد بریں کو تو ان کی تربت پر
    جلیلؔ نے یہ لکھا روضہٗ جناب امیرؔ

    جب کہ امیر مینائی کی قبر انور کے لوح مزار کی پشت پرامیرؔ مینائی کا اپنا ہی یہ شعر کنداں ہے جو اہل دنیا کو دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ کرتا رہتا ہے کہ

    ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
    پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

    تاریخ وفات 

    امیرؔ کے انتقال پر دنیائے اردو ادب میں عام طور پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اخبارات و رسائل میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے اور اکثر ہم عصروں شاگردوں اور دوسرے شاعروں نے اردو اور فارسی میں وفات کی تاریخیں کہیں۔

    ان میں مہاراجہ کشن پرشادؔ،داغؔجلالؔ اور جلیل وغیرہ کی تاریخیں خصوصیت کی مالک ہیں۔داغؔ کی تین تاریخوں میں سے ایک تاریخ ملاحظہ ہو۔

     

    کر گئے رحلت امیر احمد امیرؔ
    اب نشاطِ زندگی جاتا رہا
    مل گئی تاریخ دل سے داغؔ کے
    آہ لطفِ شاعری جاتا رہا

    مشہورغزل

    سرکتی جاےٗ ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
    نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
    جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
    حیا لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
    شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
    کبھی فرصت میں کر لینا حساب آ ہستہ آہستہ
    سوال وصل پر ان کو ردو کا خوف ہے اتنا
    دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آ ہستہ آہستہ
    وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
    حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

    چند اور نمونہ شاعری

    کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
    غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
    اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح
    روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
    تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
    حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
    آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر
    اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے


    یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
    خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
    جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
    ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
    حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
    مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
    الٰہی ہے دل جائے آرام غم
    نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں
    کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
    کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں
    وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
    الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں
    زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
    ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں


    ہر غنچہ میں وحدت کا تماشا نظر آیا
    ہر پھول میں رنگِ چمن آرا نظر آیا
    کیا ذکر حرم جا کے جو میخانہ میں دیکھا
    واں بھی تری قدرت کا تمشا نظر آیا
    وہ رند ہوں میں دل کی طرح سینہ میں رکھا
    ساقی جو شکستہ کوئی مینا نظر آیا
    منہ چھاگلوں کے کھول دیے چھالوں نے میرے
    کانٹا کوئی صحرا میں جو پیاسا نظر آیا
    اس بزم میں حیرت کی مری وجہ نہ پوچھو
    آئینے سے پوچھو کہ تجھے کیا نظر آیا
    وہ آپ ہی ناظر وہ ہے آپ ہی منظور
    نظارہ ہی اک بیچ میں پردا نظر آیا
    تارا جسے سمجھا تھا امیرؔ آنکھ کا اپنے
    دیکھا تو وہی داغ جگر کا نظر آیا


    اک ادا سے ،ناز سے، انکار سے
    دل میں وہ آےٗ تو کس تکرار سے
    لوٹ جانا پاےٗ رنگیں پر امیرؔ
    سیکھ لے کوئی حناےٗ یار سے

     

  • اے آئی وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا ایدھی کی یوم وفات کو چیرٹی ڈے قرارد ینے کی تجویز

    اے آئی وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا ایدھی کی یوم وفات کو چیرٹی ڈے قرارد ینے کی تجویز

    کراچی: اے آر وائی کاعبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے،یوم وفات کوچیرٹی ڈے قراردینے کی تجویز پیش کردی۔

    عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں پہلے کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    اپنی سوانح حیات ‘اے میرر ٹو دی بلائنڈ’ میں ایدھی صاحب نے لکھا، ‘معاشرے کی خدمت میری صلاحیت تھی، جسے مجھے سامنے لانا تھا۔

    ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    گزشتہ سالوں میں ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا تھا جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے۔

    اس ادارے کا سب سے ممتاز حصہ اس کی 1500 ایمبولینس ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔

    اپنے کام کے آغاز میں ایدھی صاحب جب اپنی ایمبولینس میں شہر کا دورہ کرتے تو انہیں کثیر تعداد میں نومولود بچوں کی لاشیں ملتی تھیں، جنہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد اس ادارے نے ہر سینڑ کے باہر ایک جھولا لگا دیا ہے جس پر درج ہے ’معصوم بچوں کو قل نہ کریں، انہیں ہمارے جھولے میں ڈال دیں‘۔

    فخر پاکستان، بابائے خدمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اور عبدالستارایدھی کی یاد میں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک نے 8 جولائی کو نیشنل چیریٹی ڈے منانے کی تجویز پیش کی تاکہ پورے معاشرے میں انسانیت کی خدمت کا جزبہ پیدا ہوسکے، اگر آپ بھی ہم سے متفق ہیں تو آئیں اور اس مہم میں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا حصہ بنیں۔

    اپنی پٹیشن دائر کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

    https://www.gopetition.com/petitions/july-08-as-national-charity-day.html