Tag: یوم وفات

  • امانوئل کانٹ: جدید مغربی فلاسفر

    امانوئل کانٹ: جدید مغربی فلاسفر

    کانٹ غالباً وہ پہلا فلسفی تھا جس نے ’تنقید بر عقل محض‘ میں انسان کی ذہنی استعداد کی مکمل پڑتال کر کے یہ بتایا کہ انسانی ذہن کی حدود کہاں تک ہیں اور آیا اِن حدود میں رہتے ہوئے ما بعد الطبیعاتی تصورات کا ادراک کیا جا سکتا ہے یا نہیں! یہ مشہور و معروف تصنیف کئی اعتبار سے نہایت اہم خیال ہے، لیکن ایک تو یہ فلسفے کے ادق موضوع یعنی نظریۂ علم پر بحث ہے اور دوسری طرف کانٹ کا پیچیدہ اور مشکل اسلوب اسے ہر سطح کے قاری کو الجھا دیتا ہے آج کانٹ امانویل کا یومِ‌ وفات ہے

    امانوئل کانٹ 1724ء میں پروشیا میں (جرمنی) میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش ایک منظم مگر ماحول میں ہوئی۔ اس کی ماں ایک راسخ العقیدہ، دیانت دار اور تصوف کی شیدائی عورت تھی۔ کانٹ جو پانچ فٹ کا کمزور اور غیرمتناسب جسم کا مالک تھا، اس میں اپنی ماں کی وجہ سے پرورش اور تربیت میں مذہبی رنگ اور طور طریقے دیکھے اور بڑے ہوکر اس پر رد عمل ظاہر کیا۔ دراصل اس نے ماں کی وجہ سے مدرسہ سے مروجہ کلاسیکی تعلیم اور مذہبی اور اخلاقی تربیت پائی اور سختی بھی دیکھی تھی۔ پھر وہ تقریباً ساری زندگی چرچ سے بیزار رہا۔ کانٹ نے رواج کے مطابق تعلیم کے دوران علومِ فلسفہ اور علومِ طبیعی میں گہری دل چسپی
    لی اور پھر فلسفہ کا سکہ کانٹ کے دل پر بیٹھ گیا۔ 1755ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک یونیورسٹی میں لیکچرار بن گیا۔ تاہم اس نے بہت عرصہ اپنی قابلیت اور معیار سے نچلے درجے پر کام کیا۔ اس عرصہ میں وہ دنیا اور ستائش سے بھی بے نیاز مابعدالطبیعیات پر کام کرتا رہا۔ مگر آگے چل کر اس نے دنیا کو حیران کردیا۔ اس کی پہلی تصنیف تاریخِ طبیعی اور نظریہ فلکیات تھی جس سے اس نے اپنے تبحرِ علمی اور تحقیق کو منوایا۔ وہ کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں گیا مگر پہلی کتاب اور دوسرے مقالہ جات نے اسے اہل علم و دانش اور عوام میں مقبول کردیا۔ وہ علومِ طبیعی سے مختلف موضوعات پر لیکچرر دینے لگا جنھیں سننے کے لیے بہت لوگ آیا کرتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کا باخبر آدمی سمجھا گیا۔ اس وقت کانٹ کے مختلف فلسفیانہ مضامین اور رسائل وغیرہ سلاست، جدت اور تازگی کا نمونہ تھے اور خود کانٹ ایک خوش مزاج شخص جب کہ طبیعت میں بذلہ سنجی بھی تھی، لیکن پھر وہ خالص فلسفہ اور اس کے مسائل کی جانب ایسا متوجہ ہوا کہ اس پر سنجیدگی غالب آگئی۔ ساتھ ہی اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، مگر امانوئل کانٹ اپنی دنیا میں گم رہا اور گہرے، دقیق علمی مسائل اور فلسفہ میں اپنے نظریات کو تحریر کی شکل دیتا رہا۔ کہتے ہیں کہ یہ اس کی زندگی میں ایک بڑا تغیر تھا جس نے اس کی تحریروں کو بھی پیچیدہ، ادق اور مشکل ترین بنا دیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی اہمیت اور حیثیت منواتا رہا۔

    مصنف اور فلسفی امانوئل کانٹ وقت کا پابند اور نہایت منظّم شخص تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جب چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا تو لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت درست کر سکتے تھے۔ اس نے شادی نہیں کی اور ساری زندگی علم کے لیے وقف کر دی۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس دور کے روایتی ماحول میں‌ رہتے ہوئے کانٹ نے مذہب اور سیاست پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس کی مذہب اور خدا پر تحریروں نے جرمنی کے راسخ العقیدہ لوگوں کو اس کا مخالف بنا دیا۔ بہت سے مذہب پرستوں اور پادریوں نے اپنے کتوں کا نام کانٹ رکھ دیا اور یوں اس کی تذلیل کا سامان کرکے اپنی تسکین کی۔

    کانٹ کے دور میں تجربیت پسند فلسفی غالب تھے۔ امانوئل کانٹ نے عقلِ محض پر تنقیدی جائزہ لکھا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محض حسی یا تجرباتی علم ناکافی ہے۔ عقل محض سے کانٹ کی مراد وہ علم یا ادراک ہے جو ہماری پیدائشی فطرت اور دماغ کی وضع سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ وہ علم جو حسیات یا تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ تجربہ علم کو آشکار کرتا ہے اور کسی ایک زاویہ سے اس کی حقانیت جانچتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ علم پہلے سے موجود نہیں تھا، یا اس زاویے کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر یا منطقی زاویہ اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔

    کانٹ کا فلسفیانہ کام سامنے آیا تو اسے شہرت اور مقبولیت بھی ملی اور مغربی فلسفے کے دوسرے دور میں کوئی اس کا مقابل نظر نہیں آتا۔ اس کی کتاب 1781ء میں بعنوان ’’تنقید برعقل محض‘‘ شایع ہوئی تھی اور آج تک اس کی اہمیت برقرار ہے۔ بعد میں آنے والے فلاسفہ اور مابعدالطبیعیات مباحث چھیڑنے والوں نے کانٹ کو سراہا ہے۔

    کانٹ اپنے فلسفیانہ ورثے سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ ڈیکارٹ اور اس جیسے دوسرے عقلیت پسندوں سے آگاہ تھا، جو یہ کہتے تھے کہ عقل علم کی بنیادوں کی تشکیل پذیری کرتی ہے اور وہ تجربیت پسندوں کو بھی سمجھتا تھا جن کا عقیدہ تھا کہ دنیا کا تمام علم حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ کانٹ کائنات کو دیکھنے کے تیسرے نقطۂ نظر کے ساتھ سامنے آیا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں نظریات جزوی طور پر درست ہیں اور غلط بھی۔ عقلیت پسند تجربے کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں اور تجربیت پسندوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ جس انداز میں ہم حسیاتی طور پر دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ کس طرح ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو کر نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھاکہ انسانی دماغ کوئی موم کا ٹکڑا نہیں ہے، جو محض باہر سے حاصل کردہ عکس کا پرنٹ پیش کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس انداز سے ہم دنیا کی تفہیم و تشریح کرتے ہیں، ذہن اس پر اپنی چھاپ لگا دیتا ہے۔

    کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک نئے اور چونکا دینے والے مابعدالطبیعاتی نظام سے بحث کر کے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے گا۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ میں مابعد الطبیعات کے عشق میں مبتلا ہوں، مگر یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں، اس کے ساحل ہیں نہ زیرسمندر روشنی کے مینار، البتہ جگہ جگہ فلسفیوں کے ٹوٹے پھوٹے جہاز بکھرے پڑے ہیں۔

    اس جرمن فلسفی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ سربراہ اس کا تعلیمی خرچ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اس نے ذاتی محنت سے اپنی تعلیم مکمل تھی۔ کانٹ کی تحریروں کو 1760 کے بعد توجہ ملنا شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب جرمن یونیورسٹیوں میں لینبز (G.W.Leibniz) کے افکار چھائے ہوئے تھے۔ کانٹ نے لینبز پر سخت تنقید کی اور دلائل کے اعتبار سے بہت طاقت ور خیالات پیش کیے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ بعد میں‌ کانٹ نے فلسفے کی دنیا میں عقل اور آزادی کو اپنی سوچ کا محور قرار دے کر جو خیالات سامنے رکھے وہ اب بھی علم و عمل کے راستے میں آنے والوں کے لیے مشعلِ را‎ہ ہیں۔

    12 فروری 1804ء کو کانٹ انتقال کر گیا تھا۔

  • قاضی واجد: باکمال فن کار، بے مثال شخصیت

    قاضی واجد: باکمال فن کار، بے مثال شخصیت

    اداکار قاضی واجد کو رفتگاں‌ میں شمار کرنا ایک نسل کے لیے باعثِ رنج و ملال ضرور ہے۔ یاد دریچے سے جھانکتے ہوئے ان کے کئی کردار آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، اور ان کی منفرد آواز میں مکالمے سماعت پر دستک دینے لگتے ہیں۔ قاضی واجد اس پرانی نسل کی حسین یادوں کا حصہ ہیں جس نے پاکستانی ڈرامے کی شہرت کا عروج دیکھا جب پی ٹی وی پر ڈرامہ نشر ہوتا تو گلی محلّے سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اس منجھے ہوئے فن کار کی برسی ہے۔

    قاضی واجد 26 مئی 1930 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز انھوں نے 1956 میں ریڈیو سے بطور چائلڈ صدا کار کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو تفریح کا بڑا ذریعہ تھا اور پروگرام ’قاضی جی کا قاعدہ‘ کو سامعین میں مقبولیت حاصل تھی۔ بعد ازاں قاضی واجد ریڈیو پر ہی اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ صدا کاری کے بعد انھوں نے ٹی وی کا رخ کیا اور ہر دل عزیز بن گئے۔ قاضی واجد نے ایک سو سے زائد مختلف ڈراموں اور ڈرامہ سیریل میں پرفارم کیا۔ ’خدا کی بستی‘ ٹیلی ویژن پر اُن کی پہلی پرفارمنس تھی جس میں ’راجہ‘ کا کردار ان کی شناخت بنا۔ قاضی واجد کے بہترین ڈراموں میں تنہائیاں، دھوپ کنارے، کرن کہانی، ہوائیں، حوا کی بیٹی اور دیگر شامل ہیں۔

    قاضی واجد کا شمار ریڈیو کے ابتدائی زمانہ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے آرٹسٹوں میں ہوتا ہے اور بعد میں وہ پی ٹی وی کے مقبول ترین اداکاروں کی صف میں‌ شامل ہوئے۔ بحیثیت ایک شخص وہ تہذیب و شائستگی اور عاجزی و نرم دلی کی مثال تھے۔ انھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ساتھ تھیٹر اور اسٹیج پر بھی کام کیا۔ قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے مکمل کرنے کے بعد کراچی منتقل ہو گئے۔ قاضی واجد کو 1967ء میں ٹی وی سے وابستہ ہوئے اور تاحیات اس دنیا میں مگن رہے۔ انھوں نے مثبت اور منفی کردار ادا کرکے خوب شہرت پائی۔ 1969ء میں وہ ڈرامہ سیریل ”خدا کی بستی‘‘ سے گھر گھر میں پہچانے گئے۔

    حکومت پاکستان کی جانب سے 1988ء میں قاضی واجد کو ”صدارتی تمغا برائے حسن‘‘ کارکردگی دیا گیا تھا۔ قاضی واجد 11 فروری 2018ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ فن کی دنیا میں ان کا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔

  • رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    فلسفیانہ خیالات کی ترسیل اور وضاحت سے اس کا بیان ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے اکثر بڑے بڑے فلاسفہ اور مفکر بے بس نظر آئے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے فلسفیانہ خیالات کی دوسروں کے لیے وضاحت کریں‌ کہ ہر ایک پر ان کی بات کھل جائے اور وہ اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔ لیکن رینے ڈیکارٹ وہ نام ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو بڑی آسانی سے بیان کیا اور ان کی مکمل تفہیم کرنے میں کام یاب رہا ہے۔

    رینے ڈیکارٹ کو تاریخ ایک سائنس داں، فلسفی اور ریاضی کے ماہر کے طور پر پہچانتی ہے جس نے فلسفہ اور جیومیٹری میں بہت کام کیا۔ اس نے ”خطوط مرتبہ جیومیٹری“ ایجاد کر کے جیومیٹری میں ایک بڑا اضافہ کیا۔

    دوسری طرف ناقدین اسے تضاد کا شکار یا دہری شخصیت کا حامل شخص بھی بتاتے ہیں اور شخصیت کا یہی دہرا پن اس کے فلسفے میں بھی ظاہر ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا دو قسم کی اشیاء ذہن اور مادّہ سے مل کر بنی ہے۔ اب ذہن ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ توسیع شے تصور کیا جاتا ہے جب کہ مادّہ قابلِ تقسیم اور قابلِ توسیع ہے تو پھر ذہن اس جسم کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے جو سائنس کے میکانکی اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؟ ڈیکارٹ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ایک بار اس نے کہا کہ ذہن اور جسم دماغ کے نچلے حصے میں موجود ’’پائی نی ایل گلینڈ‘‘ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے ڈیکارٹ نے اصل سوال کو نظر انداز کر دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ کہاں تعامل کرتے ہیں؟ سوال تو یہ تھا کہ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈیکارٹ کی کام یابی اور اس کے حاصلات سے انکار ناممکن ہے کیوں کہ ڈیکارٹ کا فلسفہ اور اس کا بیانیہ مؤثر ثابت ہوا اور وہ بڑی حد تک اپنی بات کی تفہیم کرتا ہے۔

    فلسفہ کے طالبِ علموں کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ڈیکارٹ وہ فلسفی تھا جس خود کو اس بات پر قائل کیا کہ ایک مضبوط فلسفے کی بنیاد رکھنے کے لیے اسے ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔ اس کے مطابق سب سے کم قابلِ شک اصول و قواعد ریاضی اور جیومیٹری کے ہیں، جیسا کہ دو جمع دو چار یا ایک مربع کے پہلوؤں کی گنتی۔ وہ فلسفے کو بھی ایسے ہی اصول و قواعد کی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔

    اس کے مطابق، ہم ریاضی میں مسلمہ اصولوں سے آغاز کر کے اگلے مرحلے کے قوانین یا مسئلوں پر پہنچتے ہیں، جو مکمل طور پر پچھلے مرحلے کے مسلمہ اصولوں سے اخذ شدہ قرار دیے جاتے ہیں۔ ہم اسی طرز پر مرحلہ وار آگے بڑھتے جاتے ہیں اور مزید پیچیدہ مسئلوں تک پہنچتے ہیں جن کو بھی مسلمہ ہی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرحلے میں ہمارا انحصار صرف مسلمہ اصولوں پر ہی رہا۔

    رینے ڈیکارٹ نے اپنی کتابوں ’’طریقہ کار کا بیان‘‘ (discourse on Method) اور ’’غور و فکر‘‘ (Meditations) میں اپنے فلسفے کی بنیاد ’’شک‘‘ پر رکھی ہے مگر یہ سوفسطائیوں والی تشکیک نہیں تھی بلکہ اس تشکیک کی بنیاد ڈیکارٹ نے سائنس کے اصولوں پر رکھی تھی کہ ہمیں خیال کی دنیا میں سوالیہ ذہن کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔ اسی خیال کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے رینے ڈیکارٹ نے ایک شہرۂ آفاق مقولہ دیا ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس مقولے کی تفہیم میں وہ کہتا ہے کہ جب میں ہر شے پر شک کر رہا ہوں تو کم از کم میں اس بات پر تو شک نہیں کر سکتا کہ میں شک کر رہا ہوں۔ شک کی وجہ سے جب دنیا کی ہر شے غیر یقینی لگ رہی ہو تو ایک ’شک‘ ہی بچتا ہے جس پر یقین کیا جا سکے۔ شک کرنا سوچ کا مظہر ہے۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں، اور سوچ میں تبھی رہا ہوں جب میں واقعی ہوں۔ یہ سوچ ہی میرے وجود کی دلیل ہے۔ اگر سوچ نہ رہے تو وجود کی دلیل بھی نہ رہے گی۔ لہٰذا میری کل فطرت یا روح کا انحصار سوچ پر ہے اور اس روح کو کسی جگہ یا مادّی شے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے روح جسم سے الگ ہے اور یہ اس وقت بھی رہے گی جب جسم نہ بھی رہے۔ اسی دوران ڈیکارٹ کو ادراک ہوا کہ ایک ایسی شے موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے۔ اسی خیال کے ساتھ اس نے جو نتیجہ اخذ کیا اس پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی اور خدا کے وجود کو بھی نہ صرف ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ خدا پر پختہ یقین کا اظہار کیا مگر اسی کو ناقدین نے کلیسا کو خوش کرنے کوشش بتایا ہے۔

    اوپر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈیکارٹ کئی جگہ تضاد کا شکار اور دہری شخصیت نظر آیا اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے خدا پر پختہ یقین کے باوجود اپنے مسودات چھپنے سے پہلے چرچ سے وابستہ ایک دوست مرسینے کو اس نیت سے بھیجے کہ وہ اسے جانچ پرکھ کر بتائے کہ اس کے یہ خیالات کہیں چرچ کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں۔ تماشا یہ بھی ہے کہ بعد میں اسی شخص پر الحاد (Atheism) کا الزام لگا دیا گیا۔ اسے بدعتی کہا گیا اور یہ مشہور ہو گیا کہ رینے ڈیکارٹ مروجہ عقیدوں کے خلاف ہے جو مذہب پرستوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تاہم کسی طرح یہ معاملہ رفع دفع ہوا۔

    ڈیکارٹ 1596ء میں فرانس میں پیدا ہوا تھا۔ اسے جدید فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے جس نے اس دور میں فلسفے کی از سر نو تشکیل کا بیڑا اٹھایا اور اس میں‌‌ اپنی برتری منوانے میں کام یاب رہا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا اور کلیسا کا تعلق خوش گوار رکھنے کے لیے کوشاں رہا۔ مگر پھر بھی بدعتی اور ملحد قرار پایا اور اس پر حملے بھی ہوئے۔

    ڈیکارٹ کی شہرت پورے یورپ میں پھیل چکی تھی۔ وہ تعلیم یافتہ اور دانشور حلقوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افراد میں ایک فلسفی اور مصنّف کے طور پر پڑھا جانے لگا تھا۔ انہی میں سے ایک سویڈن کی ملکہ بھی تھی۔ وہ ایمسٹرڈیم سے بیس میل دور شمال میں سمندر کے کنارے’’ایگمنڈ بینن‘‘ کی چھوٹی سی اسٹیٹ میں مزے کی زندگی گزار رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پیرس کا چکر بھی لگا آتا اور اپنے پرانے دوستوں پاسکل اور ہابس سے تبادلہ خیال کرکے واپس لوٹتا۔ انہی دنوں سویڈن کی ملکہ کرٹینا اس کی ایک کتاب پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سے فلسفے کے باقاعدہ اسباق لے سکے۔ ڈیکارٹ دیر تک سونے کا عادی تھا۔ وہ سہل پسند اور بے فکرا تھا جس کے لیے اسٹاک ہوم کا لمبا سفر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے کئی بار معذرت کی اور ملکہ کی بے جا تعریف کرتے ہوئے کئی خوشامدانہ خط بھی لکھے مگر دھن کی پکی ملکہ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے اپنے ایڈمرل کو بحری بیڑے سمیت ڈیکارٹ کو لانے کے لیے بھیج دیا۔

    آخر وہ ملکہ تک پہنچا اور وہ جنوری کا مہینہ تھا جب اسے بتایا گیا کہ ملکہ ہفتے میں تین روز اس سے فلسفے کی تعلیم حاصل کریں گی، مگر اسے صبح سویرے انھیں پڑھانا ہوگا۔ شدید سردی کے دنوں میں رینے ڈیکارٹ کو علی الصبح اٹھ کر محل پہنچنا پڑا اور دو ہی ہفتے کے اندر ڈیکارٹ پر موسم کی سختی نے برا اثر ڈالا اور اسے نمونیہ ہوگیا۔ 11 فروری 1650ء میں رینے ڈیکارٹ چل بسا۔ سویڈن میں تدفین کے کچھ عرصہ بعد اس کی لاش کو پیرس لایا گیا اور یہاں اس کی تدفین کی گئی۔

  • جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    محبت کرنے والوں کو معروف شاعر جمال احسانی نے ایک نئے انداز سے دیکھنا سکھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں:

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل میں روایتی موضوعات کو بہت خوب صورتی سے نبھانے والے شاعر جمال احسانی کی آج برسی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں سے اپنی شاعری کو تازگی اور دل کشی عطا کرنے والے جمال احسانی 10 فروری 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    اردو کے معروف شاعر جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا۔ شعر و ادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1951ء میں سرگودھا میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جن کے بزرگ متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تعلق رکھتے تھے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازم ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بحیثیت معاون مدیر وابستہ رہے تھے۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں بطور شاعر جمال احسانی نے پہچان بنانا شروع کی اور جلد ان کا شمار خوش فکر شعرا میں ہونے لگا۔ جمال احسانی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    معروف شاعر جمال احسانی کے شعری مجموعے بعنوان ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شایع ہوئے۔

    جمال احسانی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    فاطمہ ثریا بجیا کا نام لبوں پر آتا ہے تو ہماری اقدار، تہذیبی روایات کے ساتھ وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس میں ایک نسل کی تربیت ہوئی اور آج وہ سب ہمارے لیے ایک ماضی بن چکا ہے۔ بجیا کو پاکستان کے ہر گھر میں‌ جو عزّت و احترام اور پیار ملا، وہ شاذ ہی کسی کا مقدر بنتا ہے۔

    بجیا سب کی نظر میں‌ نہایت محترم اور سب کے لیے شفیق ہستی تھیں۔ فاطمہ ثریا کے نام سے بجیا کی عرفیت ایسی جڑی کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی انھیں بجیا ہی پکارنے لگے۔ وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ مصنؑفہ اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے شہرت پانے والی بجیا ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے کی فرد تھیں اور اس خاندان کا ہر فرد علم و فنون اور ادب میں کسی نہ کسی حیثیت میں ممتاز ہوا۔ فاطمہ ثریا بجیا بطور ڈرامہ نگار، ناول نگار اور ادیبہ بے حد مقبول ہوئیں۔

    آج فاطمہ ثریا بجیا کی برسی ہے۔ 10 فروری 2016ء کو بجیا اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لے رخصت ہوگئی تھیں۔ ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے یکم ستمبر 1930ء کو ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد کے ضلع کرناٹک میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آگیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے کبھی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی مگر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اہلِ قلم شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ بجیا اپنے والدین کی بڑی بیٹی تھیں۔ والد اور دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بجیا کے کندھوں پر آگئی۔ انھوں نے تمام بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا اور تعلیم و تربیت کا دور مکمل ہوا تو وہ سب اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھے اور خاص طور فن و ادب کی دنیا میں جداگانہ حیثیت حاصل کی۔ ان میں ایک نام انور مقصود کا ہے، ان کی ایک بہن زہرہ نگاہ معروف شاعر ہیں، زبیدہ طارق کو لوگوں‌ نے زبیدہ آپا کے نام سے کوکنگ ایکسپرٹ کے طور پر پہچانا۔ بجیا نے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی بدولت خوب نام پایا اور اپنی فکر اور نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے مشفقانہ اور پیار بھرے انداز کے لیے مشہور ہوئیں۔ بجیا کے ناولوں کی تعداد آٹھ بتائی جاتی ہے اور ایک ہی ناول کی اشاعت ممکن ہوسکی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی سیریل لکھے اور ان کے مقبول ڈراموں میں عروسہ، شمع، انا، زینت، بابر، افشاں، گھر ایک نگر اور آرزو شامل ہیں۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کے ڈراموں کے سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا 1960ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیں جب ان کی کراچی جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی، اور اتفاقیہ طور پر بجیا نے پی ٹی وی اسلام آباد اسٹیشن کا دورہ کیا جہاں ہدایت کار آغا ناصر نے انھیں ملازمت کی پیشکش کی۔ 1966ء میں بجیا نے آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا لیکن پھر ڈرامہ نگاری کی طرف آگئیں۔ بجیا کا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ مہمان تھا۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی بجیا کو اعزازات دیے گئے۔ 2012ء میں بجیا کی ایک سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی۔

    آج بجیا کو ہم سے بچھڑے نو سال بیت چکے ہیں لیکن ان کی یاد اب بھی دل میں تازہ ہے۔

  • معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    امجد اسلام امجد کا نام اردو دنیا کے مقبول شاعر، بہترین ڈرامہ نگار، نقاد اور کالم نویس کے طور پر لیا جاتا ہے جنھیں ہم سے جدا ہوئے دو سال گزر چکے ہیں۔ امجد اسلام امجد کی نظمیں اور غزلیں جو نغمگی اور آہنگ سمیٹے ہوئے ہیں، یہی نغمگی ان کی شخصیت میں انکسار و عاجزی اور شگفتگی کی صورت میں جھلکتی تھی۔

    10 فروری 2023ء کو امجد اسلام امجد انتقال کرگئے تھے۔ اردو ادب اور پی ٹی وی کو کئی مقبول اور یادگار تحریریں دینے والے امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے 1967ء میں فرسٹ ڈویژن میں ایم اے اردو کیا اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ بعد میں مختلف اداروں‌ میں عہدوں پر تقرری ہوئی۔ انھوں نے ایک مصروف اور متحرک زندگی بسر کی اور آخری وقت تک لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق ہوگیا تھا۔ وہ کتابیں‌ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اشعار موزوں کرنے لگے اور پھر نثر کی جانب بھی متوجہ ہوئے۔ بقو ل امجد اسلم امجد،’’ شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے شاید ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویں جماعت میں مجھے اسکول کے مجلے (میگزین) کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میں لکھ سکتا ہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں۔‘‘

    امجد اسلام امجد کے کئی گیت مشہور گلوکاروں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروائے جو ریڈیو، ٹیلی وژن سے نشر ہوئے اور بہت مقبول ہوئے۔ امجد اسلام امجدکی شاعری کو میڈم نور جہاں، ناہید اختر، نصرت فتح علی خان، مہناز، جگجیت سنگھ، راحت فتح علی خان، عدنان سمیع خان اور ابرار الحق نے بھی گایا۔ ان کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔ ان کی کئی رومانوی اور زندگی کے المیوں کا اظہار کرتی نظمیں بالخصوص نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئیں۔

    ایک نظم "ذرا سی بات” ملاحظہ کیجیے۔

    زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
    وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
    سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
    ہجر کے سمندر میں
    تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
    تم کو جو سنانی ہے
    بات گو ذرا سی ہے
    بات عمر بھر کی ہے
    عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
    درد کے سمندر میں
    ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
    آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
    بات اس دیے کی ہے
    بات اس گلے کی ہے
    جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
    لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
    زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
    راستے میں کیسے ہو
    بات تخلیے کی ہے
    تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
    پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
    ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں

    اطہر شاہ خاں جیدی کی وساطت سے ڈرامہ نگاری کی طرف آنے والے امجد اسلام امجد نے اس فن میں بہت نام کمایا۔ انھوں نے فلم رائٹر کے طور پر بھی ایوارڈ سمیٹا جب کہ 1975ء میں ٹی وی کے لیے ’خواب جاگتے ہیں‘ لکھنے پر انھیں گریجویٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ بعد میں 80 کی دہائی میں انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ڈرامہ’وارث‘ ، ’دن‘، اور ’فشار‘ نے امجد اسلام امجد کو لازوال شہرت دی۔ امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ 1974 میں ’برزخ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ 1976 میں جدید فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم ’عکس‘ کے نام شائع کروائے۔ آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ’ساتواں در‘ 1980 میں، تیسرا شعری مجموعہ ’فشار‘ دسمبر 1982 میں شائع ہوا تھا۔ دیگر شعری مجموعے ’ذرا پھر سے کہنا‘، ’اس پار‘، ’اتنے خواب کہاں رکھوں گا‘،’بارش کی آواز‘، ’ساحلوں کی ہوا‘. ’نزدیک‘ اور غزلوں کی کلیات ’ہم اس کے ہیں‘ کے نام سے شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد سفر نامے بھی امجد اسلام امجد کے قلم سے نکلے اور کئی تراجم کے ساتھ ان کے ڈراموں کو بھی کتابی شکل دی گئی۔

    شاعر و ادیب امجد اسلام امجد نے پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزازات ستارۂ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے کے علاوہ شاعری اور ڈر امہ نگاری پر بھی متعدد ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    امجد اسلام امجد کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے جن کے تنقیدی مضامین نے ایک نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔

    9 فروری 2002ء پروفیسر آل احمد سرور اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ آل احمد سرور کے مطالعہ کی وسعت، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلندی، تجزیاتی سوچ بوجھ اور طرزِ تحریر نے انھیں اردو ادب میں ممتاز کیا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی ترویج و توسیع میں بھی ان کا حصہ رہا اور جب جدیدیت اپنا رنگ جمانے لگی تو سرور صاحب اس کے ہراول دستے میں رہے۔ آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ سرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ از حد وسیع ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں‌ تنقید کی نئی شمعیں روشن کیں۔ نقاد و مصنّف، شاعر اور ماہرِ اقبالیات ہی نہیں بحیثیت ادبی صحافی بھی انھوں نے خوب کام کیا۔ وہ اردو ادب، ہماری زبان اور کئی دوسرے جرائد سے وابستہ رہے۔

    سرور صاحب 9 ستمبر 1911ء کو شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے علاقہ پیلی بھیت کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ایک انٹرویو میں آل احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔ میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔”

    آل احمد سرور کا بچپن اور نوعمری کا دور پیلی بھیت کے علاوہ بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور غازی پور میں گزرا۔ کیونکہ اُن کے والد کرم احمد کو ملازمت کے سلسلے میں مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی اور بعد میں اسکول کی تعلیم مختلف شہروں‌ میں ہوتی رہی۔ غازی پور کے کوئن وکٹوریہ ہائی اسکول سے آل احمد سرور نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔

    سرور نے اپنی خود نوشت سوانح "خواب باقی ہیں” میں اپنے بچپن کے واقعات بیان کیے ہیں۔ جس سے اُن کے عادات و اطوار اور علمی استعداد و مشاغل کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ پڑھائی میں آگے رہتے تھے۔ عام بچوں کی طرح ابتداً کھیل کود سے دل چسپی رہی لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں ہر طرف شعر و ادب کا چرچا تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں مطالعہ اور بیت بازی کا رواج تھا اور اسی کا شوق سرور صاحب میں بھی پیدا ہوگیا۔ وہ کتب بینی کے عادی ہوگئے۔ ان کے والد کی انگریزی اور اُردو کی کتابیں مطالعہ کا ذوق بڑھاتی رہیں۔ بعد میں وہ اپنے چچا کے گھر آگرہ منتقل ہو گئے۔ سینٹ جانسن کالج میں ایف۔ ایس۔ سی (انٹرمیڈیٹ سائنس) میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا اور کالج میگزین میں اپنی تخلیقات شائع کروانے لگے جس نے انھیں ساتھی طالبِ‌ علموں میں‌ ممتاز کیا اور کالج میں ادبی انجمن کے ذمہ دار بنا دیے گئے۔ ایک موقع پر انجمن کے سالانہ مشاعرے میں سرور صاحب کی ملاقات فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، میکش اکبر آبادی سیماب اکبر آبادی، مخمورؔ اکبر آبادی اور مانیؔ جائسی جیسے با کمال شعرا سے ہوئی۔ اسی دوران سینٹ جانسن کالج کے زیر اہتمام انعامی مباحثہ ہوا جس میں سرور صاحب نے حصہ لے کر دوسرا انعام اپنے نام کیا۔ یوں حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر وہ بی- ایس۔ سی کا امتحان درجہ دوم میں پاس کرکے انگریزی میں ایم۔ اے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ دراصل یہاں ان کے والد کا بھی تبادلہ چکا تھا۔ یہاں سرور نے علمی و ادبی مقابلوں اور مذاکروں سبھی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سرور نے جس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اُس وقت سر راس مسعود یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور یونیورسٹی میں اُن کے زیر نگرانی زائد از نصابی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ سرور کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے انھیں علی گڑھ میگزین (اُردو ) کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ انگریزی میں‌ بڑی دستگاہ تھی اور یونیورسٹی میں ہونے والے مباحثوں میں وہ انعامات حاصل کرتے رہے۔ اس بارے میں‌ سرور لکھتے ہیں: "ہر سال ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں آل انڈیا ڈبیٹ ہوا کرتا تھا۔ 1933ء کے آخر میں جب انعامی مقابلے ہوئے تو سب سے زیادہ مجھے اور میرے بعد خواجہ احمد عباس کو انعام ملے۔”

    آل احمد سرور نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد شعبۂ انگریزی میں بہ حیثیت لکچرر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم۔ اے اُردو کیا۔ اور پھر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوئے۔ اسی زمانے میں ریڈیو پر تقاریر کے لیے بلایا جانے لگا۔ سرور کی ریڈیو پر پڑھی گئی تقاریر کافی مقبول ہوئیں۔ بعد میں یہ زیور طباعت سے آراستہ کی گئیں۔ شعبۂ اُردو سے سبکدوشی کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اُردو کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ پھر انہیں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو مقرر کیا گیا۔ وہ بھارت کے کئی شہروں میں آتے جاتے رہے اور اس دوران ان کے تنقیدی مضامین، شاعری اور مقالہ جات اردو دنیا میں ان کی شناخت اور پہچان بنتے رہے۔

    پروفیسر آل احمد سرور کے مضامین کی کتابی شکل اور ان کی دوسری تصانیف میں پہچان اور پرکھ، خواب باقی ہیں (خود نوشت سوانح)، خواب اور خلش (شعری مجموعہ)، خطبے کچھ، کچھ مقالے، دانشور اقبال، ( مجموعہ تنقیدات، اور افکار کے دیے، نئے اور پرانے نظریے، تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ، مسرت سے بصیرت تک، اقبال کا نظریہ اور شاعری، ذوقِ جنوں (شاعری) شامل ہیں۔

    بھارت میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے آل احمد سرور کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی جامعات نے سند و اعزاز سے نوازا جب کہ اتر پردیش اُردو اکیڈمی نے چار مرتبہ اور ساہتیہ اکیڈمی نے ایک انعام ان کو دیا۔ 1992 میں حکومتِ ہند نے آل احمد سرور کو پدم بھوشن کا خطاب دیا تھا۔

  • یونس دہلوی: وہ ناشر جس کے حلقۂ احباب میں فلمی ستارے بھی شامل رہے

    یونس دہلوی: وہ ناشر جس کے حلقۂ احباب میں فلمی ستارے بھی شامل رہے

    اردو دنیا میں ادیب، شاعر اور دیگر اہلِ قلم اپنی تحریروں اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام حاصل کرتے ہیں اور ان کے گزر جانے کے بعد بھی ان کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن بہت کم ناشر و مدیر ایسے ہیں‌ جنھیں یونس دہلوی کی طرح سراہا گیا ہے۔ یونس دہلوی بھارت کے سب سے بڑے اور مقبول ترین اردو رسائل کے سلسلے کے ناشر اور مدیر تھے۔ وہ ایک عام ناشر اور مدیر نہیں تھے بلکہ فلمی دنیا کے کئی ستارے اور اہلِ قلم یونس دہلوی کے حلقۂ احباب میں شامل رہے۔

    یونس دہلوی کی برسی کی مناسبت سے آج یہ تحریر قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ہم آغاز کریں‌ گے عظیم اختر کے یونس دہلوی سے متعلق مضمون کے ابتدائیہ سے جس میں وہ رقم طراز ہیں: "یونس دہلوی نے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں معمّوں کی ابتدا کر کے ایک ماہرِ نفسیات کی طرح مالی بحران اور اقتصادی شکنجوں میں جکڑے ہوئے اردو داں طبقے پر ایک حربہ آزمایا اور معمے بھر کر آسانی کے ساتھ دولت حاصل کرنے کی عام انسانی خواہش کو جگا دیا۔”

    یونس دہلوی جس اشاعتی ادارہ کے مالک تھے، اس کی بنیاد تقسیمِ ہند سے قبل ان کے والد یوسف دہلوی نے رکھی تھی۔ یونس دہلوی کے زیرِ نگرانی شمع پبلشنگ ہاؤس کے تحت مقبولِ عام فلمی رسالہ شمع ہی نہیں کھلونا، بانو، شبستان جیسے رسائل کی اشاعت کئی سال جاری رہی۔ یہ رسائل بھارت کے علاوہ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بھی خریداروں تک پہنچتے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ شمع وہ رسالہ تھا جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھا۔ بالی وڈ کی مشہور شخصیات جن میں دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کمار، آشا پاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج اور فلمی دنیا کے کئی چہرے یونس دہلوی کے احباب میں‌ شامل تھے اور ان کے گھر بھی آنا جانا تھا۔

    ناشر و مدیر یونس دہلوی 2019ء میں آج ہی کے روز اس دارِ‌ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ لیکن ان کا اشاعتی ادارہ 1994ء تک نہایت کام یابی سے چلنے کے بعد خاندان میں اختلافات کے بعد بکھر چکا تھا۔ یونس دہلوی کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ بھارت اور اردو دنیا کی ایک مشہور شخصیت رہے۔ عظیم اختر لکتے ہیں‌کہ رسالہ شمع کی مقبولیت کا راز وہ معّمے اور ذہنی آزمائش کے سلسلے تھے جو یونس دہلوی کے ذہن کی اختراع تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں خطیر رقموں کے انعامات کی پرکشش اور ترغیب دلانے والی پیش کش نے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور شمع کا سرکولیشن چند ہی سالوں میں ایک لاکھ سے تجاوز کر گیا۔ یہ ماہنامہ "شمع” کے شباب کا دور تھا۔ شمع کے اسی دورِ شباب میں یونس دہلوی نے ماہنامہ "ساقی” کے مدیر جناب شاہد احمد دہلوی کی سنتوں کو تازہ کرتے ہوئے نہ صرف "شمع” میں شائع ہونے والی غزلوں، نظموں اور کہانیوں کے تخلیق کاروں کو بلکہ ‘شمع بک ڈپو’ کی طرف سے شائع ہونے والے ناولوں کے ناول نگاروں کو باقاعدہ رائلٹی دینے کا بھی سلسلہ شروع کیا جس کا اس زمانے میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔”

    ماہ نامہ شمع کی اس پذیرائی نے اس دور کے ہر چھوٹے بڑے اور معروف و غیر معروف شاعر اور افسانہ نگار کو شمع کے صفحات میں جگہ پانے کا خواہش مند بنا دیا تھا۔

    "تخلیقی کاوشوں پر رائلٹی اور کثیر الاشاعت رسالے میں چھپنے کی للک نے معمے بازی کی دعوت عام دینے والے ماہ نامہ شمع کو فلمی اور نیم ادبی پرچے کا روپ دے دیا تھا۔ معمے چوں کہ خالص یونس دہلوی کے ذہن کی اختراع تھے، اس لیے معمے کی شکل میں لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو مرتب کرنے کے علاوہ شمع میں چھپنے والی کہانیوں کا انتخاب بھی وہ بذاتِ خود کیا کرتے تھے۔ صرف شعری حصّے کی ترتیب کے لیے وہ ایک عرصہ تک ابّا جی مرحوم حضرت مولانا سلیم اختر مظفر نگری کی مدد لیتے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد شعری حصّے کے انتخاب کے لیے ان کی نگاہِ انتخاب جناب بسمل سعیدی ٹونکی جیسے استاد اور کہنہ مشق شاعر پر پڑی۔ یونس دہلوی بذاتِ خود ایک قلم کار اور ادیب نہیں تھے لیکن وہ فلمی ستاروں کی رومانی کہانیاں اور باہمی تعلقات کے لذّت آمیز قصے پڑھنے والوں اور معموں کے شوقین پروانوں کو ذہنی آسودگی پہنچانے والی کہانیوں کے ایک اچھے پارکھ تھے۔”

    "معمے کی اختراع نے شمع کو چند ہی سالوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا لیکن جب لوگوں کو دولت مند بنانے کی اس سہل سے نسخے پر "جوا ایکٹ” (Gamble Act) کی پرچھائیاں پڑیں تو قانونی مجبوریوں کے تحت معمہ بند کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سرکولیشن بری طرح متاثر ہوئی۔ مالکان کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ شمع کی تمام تر مقبولیت اور بڑھتی ہوئی سرکولیشن صرف معموں کی وجہ سے تھی اور معموں کے بغیر شمع اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ معموں کے شائقین کو معمے بازی کی ڈور میں پرونے کے لیے ادبی معمّوں کا ڈول ڈالا گیا لیکن یہ ادبی معمّے شمع کے ان معمّوں کا بدل ثابت نہ ہو سکے جس کی وجہ سے شمع شہرت و مقبولیت کی تمام حدوں کو پھلانگ گیا تھا۔”

    ان ادبی معمّوں کو جاری رکھنا مالكانِ ‘شمع’ کی کاروباری اور تجارتی مجبوری تھی۔ ہر ماہ غیر معمولی تعداد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے قصۂ پارینہ بن جانے کی وجہ سے اخراجات میں کٹوتیوں کا دور شروع ہوا اور مسلسل نقصان کے نام پر آخر ایک دن اردو دنیا میں اپنے انمٹ اور خوب صورت چھاپ چھوڑ کر خاموشی سے "شمع” بند ہو گیا۔

    ہندوستان، پاکستان کے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ پونے دو لاکھ کی تعداد میں چھینے اور غیر معمولی شہرت و عوامی مقبولیت کے حامل "شمع” کو فلمی اساس کی وجہ سے صرف پاپولر میگزین کے زمرے میں رکھ کر اس کے شعری و نثری حصے سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی گئی۔ حالانکہ یونس دہلوی نے اپنی تمام تر مدیرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمیشہ اچھی خوب صورت شعری و نثری کاوشوں کو شمع کے صفحات میں جگہ دی۔

    شمع میں چھپنے والی بہت سی کہانیاں آج اردو ادب کی بہترین اور نمائندہ کہانیوں میں شامل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح یونس دہلوی کی زیرِ ادارت شائع ہونے والا ہفت روزہ "آئینہ” اردو دنیا میں اپنی طرز کا پہلا ہفت روزہ تھا جو دیدہ زیب گیٹ اپ اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے اردو میں حرفِ اوّل اور حرفِ آخر ثابت ہوا۔

    یونس دہلوی نے اپنی نفاست پسندی اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے شمع کے ادارے سے نکلنے والے دوسرے ماہ ناموں کو بھی خوب صورت بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن بنیادی طور پر چونکہ ایک تجارتی اور کاروباری ذہن رکھتے تھے، اس لیے معموں کے بند ہونے اور آمدنی کے ذرائع سکڑنے کی وجہ سے اس کاروبار کو خیر باد کہہ کر کاروبار کی ایک نئی دنیا آباد کر لی جہاں گم نامی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔

  • ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم

    ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم

    صوفی تبسّم کی وجہِ‌ شہرت ان کا وہ کردار ہے جو گھر گھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ایک نسل اس کردار کے ساتھ گویا تعلیم و تربیت کے عمل سے گزری اور جوان ہوئی۔ یہ کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ 7 فروری 1978ء کو اس کردار کے خالق صوفی تبسم دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسم شاعر اور ادیب تھے جن کی اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ بیک وقت استاد، اداکار، ڈرامہ نگار، مترجم، نقاد، صداکار اور فارسی کے عالم ہی نہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے چیئر مین بھی رہے۔ ادبی دنیا میں وہ اپنی کاوشوں کے سبب ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ ادبِ اطفال بھی ہے اور اپنی شاعری اور مضامین سے بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی۔ انھوں نے بچّوں کو دل چسپ اور پرلطف انداز میں‌ اپنی نظموں سے علم و عمل کی طرف راغب کیا۔ ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں۔

    صوفی تبّسم کے مشہور کردار ٹوٹ بٹوٹ کی بات کی جائے تو اسے بچّوں نے اپنا ساتھی اور دوست سمجھا اور اس کردار کے ذریعے صوفی صاحب بچّوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے انھیں دماغ سوزی پر آمادہ کرتے رہے۔ کئی پہیلیاں، کہاوت کہانیاں اور لطائف بھی صوفی تبسم نے تخلیق کیے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ حکومتِ ایران نے صوفی تبسیم کو نشانِ سپاس عطا کیا تھا۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

    صوفی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امرتسر کا ذکر خوب کیا کرتے تھے۔ ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین ان کے بارے میں‌ لکھتے ہیں: صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“

    صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔

    صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔

    لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔

    صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔

    پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔

  • غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر کی مقبولیت کی وجہ تو اُن کی مزاحیہ اداکاری ہے، لیکن انھوں نے سنجیدہ کردار بھی بہت خوب صورتی سے نبھائے اور ناظرین سے خوب داد و تحسین سمیٹی۔ آج غیور اختر کی برسی ہے۔ غیور اختر 7 فروری 2014ء میں وفات پا گئے تھے۔

    غیور اختر 1946ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی کيريئر کا آغاز ريڈيو پاکستان سے کيا۔ اداکار غیور اختر 1970ء میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں‌ نظر آنے لگے اور جلد ہی ناظرین کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے چند کردار بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’’سونا چاندی‘‘ میں ان کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔ 1980ء میں اس ڈرامے میں وہ ایک ڈرائیور کے کردار میں دکھائی دیتے تھے اور کہانی کے مطابق وہ کسی بات پر چونکتے ہوئے مخصوص تکیۂ کلام اوہو۔۔ہوہوہو ادا کرتے تھے جس نے ناظرین کو بہت محظوظ کیا اور غیور اختر گویا راتوں رات مشہور ہوگئے۔ بعد میں غیور اختر نے ڈرامہ خواجہ اینڈ سن اور راہيں ميں لازوال کردار نبھائے۔ غیور اختر نے ریڈیو کے مختلف شعبوں میں خوب کام کیا اور بطور صدا کار بھی اپنی منفرد آواز میں بہت سے پروگرام ریکارڈ کروائے۔ وہ بڑے فطری انداز میں مکالمے بولا کرتے تھے جس میں بے ساختگی ہوتی تھی۔ غیور اختر کئی دوسرے کامیڈین کی طرح اوور ایکٹنگ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ بھردیا۔

    پاکستان ٹیلی وژن پر بچّوں کے مقبول ڈرامہ عینک والا جن میں بھی غیور اختر نے سامری جادوگر کا کردار نبھایا تھا۔ غیور اختر نے اپنے فنی کیریئر میں چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم ڈائریکٹ حوالدار میں انھوں نے جیلر کا کردار ادا کیا تھا جسے فلم بینوں نے بہت سراہا۔ اداکار غيور اختر کو حکومت پاکستان نے ’’تمغائے حسنِ‌ کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا تھا۔