Tag: یوم وفات

  • لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    2022ء میں آج ہی کے روز گلوکارہ لتا منگیشکر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان سے بہت پہلے ہندوستان کے مشہور غزل گائیک جگجیت سنگھ قیدِ حیات سے رہائی پاچکے تھے جنھوں نے ایک موقع پر لتا منگیشکر کو ان الفاظ میں‌ خراجِ تحسین پیش کیا تھا، ’20 ویں صدی کی تین چیزیں یاد رکھی جائیں گی۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوارِ برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کا پیدا ہونا۔‘

    دیکھا جائے تو فنِ موسیقی کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے بھی شاید یہ بہت مشکل رہا ہو کہ لتا جی کو کیسے سراہا جائے، ان کی تعریف میں کیا کہیں یا وہ کیا الفاظ ہوں‌ جن کا سہارا لے کر لتا جی کے فن کی عظمت کو بیان بھی کرسکیں اور اس گلوکارہ کے شایانِ شان بھی ہوں۔ لیکن پھر سب نے بڑی سہولت اور رعایت سے انھیں لتا جی اور دیدی کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور یہی ان سے عقیدت اور پیار کا بہترین اظہار ثابت ہوا۔ لتا منگیشکر 92 برس زندہ رہیں اور لگ بھگ 60 برس تک سُر، تال، ساز و آواز کی دنیا میں مشغول رہیں۔

    ہیما منگیشکر المعروف لتا منگیشکر کو لافانی گائیک بنانے کا سہرا میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقہ چونا منڈی سے تھا۔ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ سنہ 1947 کا زمانہ تھا اور فلم ‘شہید’ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اس زمانے کے نام ور میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر نے مذکورہ فلم کے ایک گیت کے لیے میرا آڈیشن لیا۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ماسٹر صاحب کو میری آواز بہت پسند آئی اور میرے کہے بغیر انھوں نے اپنے من میں یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے پروموٹ کریں گے، انھی دنوں کی بات ہے کہ فلمستان اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر شیشدھرمکھر جی نے ریہرسل میں میری آواز سُنی اور مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے۔‘ شیشدھر مکھر جی اپنے وقت کے بہت بڑے فلم ساز تھے۔ لتا منگیشکر کے مطابق ’ماسٹر غلام حیدر نے شیشدھر مکھر جی سے کہا کہ یہ لڑکی (لتا) برصغیر کی میوزک مارکیٹ میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گی لیکن وہ نہ مانے۔‘ ’شیشدھر کے انکار پر ماسٹر غلام حیدر ناراض ہو گئے اور کہا ’مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

    لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا منگیشکر بھی شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ 1949 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور یہ گانا مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس گیت کو آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیں دل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…۔‘‘ یہ نخشب جارچوی کا تحریر کردہ خوب صورت گیت تھا جس کی موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ اس گانے نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ فلم کے ہیرو اور فلم ساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن مدھو بالا تھیں۔ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے۔

    اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی دل چسپ قصہ ہے۔ مشہور ہے کہ جب یہ گیت ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کا تأثر گہرا کرنے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا جی نے چل پھر کر اسے ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لتا جی کی آواز خوشبو بن کر پھیلی اور برصغیر میں ان کا خوب شہرہ ہوا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے کریئر کا آغاز 1942 میں کیا۔ تاہم انھوں نے اردو فلموں کے لیے پہلا گانا 1946 میں ‘آپ کی سیوا’ نامی فلم کے لیے گایا۔ بولی وڈ میں ان کی شہرت کا آغاز 1948 میں فلم ‘مجبور’ کے گیت دل میرا توڑا سے ہوا اور اگلے سال فلم ‘محل’ سامنے آئی جس کے بعد لتا نے مڑ کر نہیں‌ دیکھا۔

    لتا منگیشکر کا نام 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ یہ نام 2011 تک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ رہا۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکارہ کے طور پر اہم مقام حاصل کیا۔

    گلوکارہ لتا منگیشکر کے گیتوں کا ترنم، نغمگی اور تازگی گویا سماعت پر ایک سحر سا طاری کر دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے گیت دل ميں اُتر جاتے ہیں۔ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد طبّی پیچیدگیوں کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

  • بانو قدسیہ:‌ معروف ادیبہ، ایک مقبول نام

    بانو قدسیہ:‌ معروف ادیبہ، ایک مقبول نام

    بانو قدسیہ نے ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری ہی میں نام و پہچان نہیں بنائی بلکہ خاص طور پر معاشرے میں شعور اور احساس کو اجاگر کرنے کی اپنی کوششوں کی بدولت وہ ہر عمر اور طبقۂ سماج میں مقبول ہوئیں۔ آج بانو قدسیہ کی برسی ہے۔

    4 نومبر 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں انتقال کرگئی تھیں۔ ناول نگار بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو برطانوی ہند میں ایک زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھرانا تھا تقسیمِ ہند کے بعد بانو قدسیہ لاہور آگئیں۔ انھوں نے معروف ناول نگار اور دانش ور اشفاق احمد سے شادی کی تھی۔

    بانو قدسیہ کو بچپن سے ہی اردو ادب کا بے حد شوق تھا۔ وہ بچوں کے رسالے، ادبی جرائد باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔ بانو قدسیہ نے کنیئرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کے بعد 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے پڑھنے لکھنے کے شوق کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنے کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں لکھنا شروع کردیا تھا اور پھر وہ ریڈیو کے لیے لکھنے لگیں۔ یہ اس دور میں ایک بڑا مقبول میڈیم ہوا کرتا تھا۔ لوگ بہت شوق سے ریڈیو پر ڈرامہ سنتے اور مختلف علمی و ادبی پروگرام اور موسیقی کے پروگرام سنتے تھے۔ اسی دور میں‌ بانو قدسیہ کا نام گھر گھر لیا جانے لگا۔ ڈرامے اور مختلف ریڈیو پروگراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ افسانہ نگاری اور پھر اردو ناول لکھنے کا سلسلہ بھی بانو قدسیہ نے جاری رکھا۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا وہ ناول تھا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ ’امر بیل‘ نے بھی بانو قدسیہ کو شہرت دی۔ حاصل گھاٹ بھی انہی کا ایک مقبول ناول ہے۔ بانو قدسیہ نے ریڈیو کے ساتھ اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے لیے پنجابی اور اردو زبان میں ڈراموں کے اسکرپٹ لکھے۔ ان کے ڈراموں میں ’پیا نام کا دیا‘، ’فٹ پاتھ کی گھاس‘، ’آدھی بات‘ اور دیگر شامل ہیں۔

    بانو قدسیہ کی تحریروں کا بنیادی موضوع محبت کی تلخ حقیقت، جذبات اور احساسات کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز ہوتے تھے اور ان کا مقصد وفا، برداشت، ایثار کو فروغ دینا رہا۔

    معروف ناول نگار بانو قدسیہ کو 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز اور 2010ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2012ء میں بانو قدسیہ کو کمالِ فن ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    راہِ رواں بانو قدسیہ کی ایک کتاب کا نام ہے جس سے ہم ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کر midlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجیے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے۔

    تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

    پے در پے شادیاں، معاشقے، معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں، ماں باپ سے ہیجانی تصادم، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔

    آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے، نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں۔ اب اطمینانِ قلب صرف ذکرِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے۔

  • غالب کے مخالف یاس یگانہ کا تذکرہ

    غالب کے مخالف یاس یگانہ کا تذکرہ

    کہا جاتا ہے کہ یگانہ چنگیزی یوں تو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن مرزا غالب کے بڑے مخالف تھے۔ غالب کی مخالفت نے انھیں بہت شہرت دی اور وہ غالب شکن مشہور ہوئے۔ یگانہ کا مزاج انھیں ہنگامہ خیزی پر مائل رکھتا تھا۔ وہ اپنے دور میں لکھنؤ کے شعرا سے معرکہ آرائیوں کے سبب بھی متنازع رہے۔

    غالب کی بات کی جائے تو یگانہ صرف زبانی کلامی مخالفت یا اکا دکا تنقیدی مضامین تک محدود نہیں رہے بلکہ ‘غالب شکن‘ کے نام سے ایک تصنیف بھی اردو دنیا کو دے گئے۔ اس دور میں غالب کی شخصیت کو نشانہ بنانے اور ان کی شاعری پر تنقید کرنے کا اثر مرزا غالب نے لیا یا نہیں مگر یگانہ کو ضرور شہرت ملی۔ اس کے باوجود انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یگانہ ایک قادرُ الکلام شاعر بھی تھے اور ان کا امتیاز اپنے زمانے کے رائج ادبی تصوّرات اور شعری روایات کو مسترد کرتے ہوئے جدید غزل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔

    بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کرنے والے یگانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ 17 اکتوبر 1884ء کو متحدہ ہندوستان کے صوبہ بہار کے مشہور شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں یگانہ نے آنکھ کھولی۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں یاس تخلّص کیا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچانے گئے۔ یگانہ نے ہندوستان کے متعدد شہروں میں اقامت اختیار کی اور 1904ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ ہی میں یاس یگانہ کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ابتدائی تعلیم مدرسہ واقع مغل پورہ میں حاصل کی۔ بعد میں وہ محمڈن اینگلو عریبک اسکول عظیم آباد میں داخل ہوئے اور قابلیت کی بناء پر وظیفہ بھی پاتے رہے۔ میٹرک انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ میٹرک کے بعد یگانہ کچھ عرصہ نواب کا ظم علی خان رئیس سنگی دالان عظیم آباد کے پوتے نواب ابوالحسن کو پڑھاتے رہے اور پھر میرزا محمد مقیم بہادر(مٹیا برج) کلکتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی لہٰذا خرابی صحت کی وجہ سے واپس عظیم آباد آگئے۔ عظیم آباد میں بھی صحت مسلسل خراب رہی تو لکھنؤ چلے گئے۔ یہاں طبیعت بہتر ہوئی اور لکھنؤ میں مستقل طور پر رہنے لگے اور شادی بھی یہاں کی۔ ان کی زوجہ کا نام کنیز حسین تھا۔ یگانہ کے ہاں سات اولادیں ہوئیں۔

    جب یگانہ لکھنؤ آئے تھے تو وہاں ادبی محافل اور مشاعروں کا بڑا سلسلہ تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ وہ مرزا غالب جیسے مشہور شاعر کے بڑے ناقد اور نکتہ چیں رہے۔ لیکن لکھنؤ والوں نے بھی یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن کی اہمیت کو اس کے باوصف کم نہیں‌ جانا۔ غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں یگانہ کے تجربات اور اسے آراستہ کرنے کی کوششوں کو ہمیشہ سراہا گیا۔ یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    انھیں لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
    ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

  • امّ کلثوم:‌ دنیائے عرب کی عظیم گلوکارہ کا تذکرہ

    امّ کلثوم:‌ دنیائے عرب کی عظیم گلوکارہ کا تذکرہ

    دنیائے عرب میں امّ کلثوم ایک لیجنڈری اور کئی خطاب سے سرفراز گلوکارہ تھیں۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ کہا گیا۔

    مشرقِ وسطی میں امّ کلثوم نے اپنی آواز اور اندازِ گائیکی سے نوجوانوں‌ کو اپنا مداح بنا لیا تھا اور بعد کے برسوں میں ان کا نام ایک عظیم گلوکارہ کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 3 فروری 1975ء کو امّ کلثوم انتقال کرگئی تھیں۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    امّ کلثوم کا تعلق مصر سے تھا جہاں انھوں نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے عرب کلاسیکی موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ عرب دنیا کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ایک پروگرام نشر ہوا اور اس کے بعد ان کی آواز عرب دنیا میں گونجنے لگی۔

    گلوکارہ امّ کلثوم نے بدوئوں اور دیہاتیوں کے لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اور ثقافت سے آشنا تھیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عرب کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کیا اور قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیتوں کو اپنی آواز میں‌ یوں پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔ امِّ کلثوم نے ان گیتوں کی بدولت لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے مداحوں میں مصر ہی نہیں عرب دنیا کے خاص و عام اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔ اس گلوکارہ کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    اس گلوکارہ نے علامہ اقبال کی نظموں شکوہ، جوابِ شکوہ کا عربی ترجمہ بھی گایا تھا جس پر حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس عظیم گلوکارہ کے جنازے میں‌ لاکھوں افراد شریک ہوئے۔

  • جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    اردو ادب کی قابل و باصلاحیت ہستیوں کی زندگی اور ان کے فن و تخلیق پر نقد و نظر، ممتاز اہلِ قلم کے تذکرے رقم کرنے والے جلیل قدوائی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیس سال گزر گئے ہیں‌۔ انھوں نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ غیرافسانوی ادب تخلیق کیا۔ صحافت بھی جلیل قدوائی کا ایک حوالہ ہے۔

    معروف ادیب اور نقاد جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر اناؤ(اودھ) سے تھا۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے افسانوی ادب کے علاوہ کئی موضوعات پر علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا اور کئی کتابیں‌ ان کی تالیف کردہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل کے افکار و خیالات اور ان کے مضامین کو آج بھی اسکول اور جامعات کی سطح پر طلباء میں سوجھ بوجھ کو پروان چڑھانے اور ان میں صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے پڑھایا جاتا ہے۔ برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔

    1970ء میں آج ہی کے روز برٹرینڈ رسل برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت وہ فلسفہ اور خیالات تھے جو روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی جانب متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ برٹرینڈ رسل دراصل تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھاکہ اس طرح ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔

    رسل شروع ہی سے علم و فنون کے شیدائی رہے تھے۔ وہ ریاضی کے مضمون میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ بعد میں وہ متعدد علوم پر دسترس رکھنے والے قابل و باصلاحیت فرد کے طور پر سامنے آئے۔ 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں رسل نے آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    برٹرینڈ رسل بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    اس فلسفی اور ماہر تدریس کی علمی کاوشوں اور مفید فلسفیانہ کام کی بات کی جائے تو برٹرینڈ رسل نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو ہر ایک کے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے ایک باشعور اور بیدار مغز فرد کے طور پر ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو بھی مطعون کیا۔ برٹرینڈ رسل اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہے۔

    برٹرینڈ رسل تادمِ آخر تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے افکار و خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ ایک کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔

    1950ء میں برٹرینڈ رسل کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ اس فلسفی نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیا۔ انھیں مغرب میں انسان دوست شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    اردو ادب میں محمد خالد اختر کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو شہرت اور ستائش سے بے نیاز رہے مگر اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے انھوں نے باذوق قارئین ہی نہیں بلکہ مشاہیرِ ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ آج محمد خالد اختر کی برسی ہے۔

    صاحبِ اسلوب ادیب محمد خالد اختر 2 فروری 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ 90 برس کے تھے۔ انھوں نے ناول، افسانہ اور سفرنامہ نگاری کے ساتھ تراجم بھی کیے اور خاص طور پر ان کی مزاح نگاری کو بہت سراہا گیا۔ ابنِ انشاء جیسے بڑے ادیب اور مزاح نگار نے خالد اختر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    عربی کے عالم اور انشاء پرداز محمد کاظم نے اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا۔ یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہونے والے محمد خالد اختر کو کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ انہی شخصیات اور ایسے باکمال ادیبوں کے درمیان رہتے ہوئے محمد خالد اختر نے بھی قلم سے ناتا جوڑا اور اپنے اسلوب کی بدولت سب کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے

    23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    آج پاکستان کے ایک معروف اہل قلم ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی برسی ہے۔ 2 فروری 2021ء کو انتقال کرجانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری محقّق، سوانح و تذکرہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جن کی تصانیف اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا۔ ہندوستان کے صاحبِ طرز ادیب اور سیاسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور علمی و ادبی کارناموں پر ڈاکٹر صاحب کے کام کو سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی متذکرہ نابغۂ روزگار شخصیت کی زندگی اور ان کے تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر بے مثال کام کیا۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا سنِ پیدائش 1940ء ہے اور وطن شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی)۔ والد محمد حسین خاں نے ان کا نام تصدق حسین خاں رکھا۔ لیکن علم و ادب کی دنیا میں وہ ابو سلمان الہندی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں الہندی کی جگہ ان کے آبائی علاقے کا نام جڑ گیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ’مقتدرہ‘‘ جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس سے الگ ہوگئے تھے۔

    1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صورت اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹر ابوسلمان کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا، تو وہ بجھ کر رہ گئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا تھا۔ بہت کم کسی محفل اور علمی تقریب میں جاتے تھے، لیکن گھر میں رہ کر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور اپنے تمام معمولاتِ زندگی اور معاشرتی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے بے مثال علمی کارنامے انجام دیے۔

    مولانا آزاد کے علاوہ اُن کی محبوب شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے موضوعات پر نہایت معیاری کتب یادگار چھوڑی ہیں‌ اور یہ ان کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ تحقیقی میدان میں ضروری مآخذ اور مستند حوالہ جات کے ساتھ انھوں نے مواد یک جا کیا ہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری کے قلم سے نکلی کئی کتابیں اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ وہ اپنے قلمی سفر کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ میری پہلی تحریر حضرت آزاد کی وفات پر شائع ہوئی تھی، اس کے بعد لکھتا ہی چلا گیا، لکھنے پڑھنے کے سوا نہ کوئی شوق ہے اور نہ کوئی کام آتا ہے، میرے کاموں پر بہت تحسین و آفرین ہوئی اور شدید ردعمل بھی آیا، لیکن میں نے اپنے کسی ردعمل کا جواب نہیں دیا، خود ہی سوچا کہ کہیں کسی کے بارے خلاف تہذیب یا خلاف واقعہ کوئی بات تو نہیں نکل گئی ہے، الحمد للّٰہ کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پایا، بعض مضامین و مباحث میں اُسلوب بیان کی سختی کو محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے لئے مجبور ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔ مجھے آج تک اپنی تالیفات کو گننے کا موقع نہیں ملا۔

  • ماسٹر عبداللہ:‌ فنِ موسیقی میں جداگانہ اسلوب کا حامل ایک نام

    ماسٹر عبداللہ:‌ فنِ موسیقی میں جداگانہ اسلوب کا حامل ایک نام

    لیجنڈری موسیقار ماسٹر عبداللہ ان پاکستانی موسیقاروں میں‌ سے ایک ہیں‌ جو اس فن میں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں پاکستان کی فلمی صنعت کا صاحبِ طرز موسیقار کہا جاتا ہے اور ان کے فلمی گیتوں کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں۔

    ماسٹر عبداللہ 31 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے اپنا سفر شروع کرنے والے ماسٹر عبداللہ کا اس فلم میں شامل گیت او میرے گورے گورے راجہ بہت مقبول ہوا تھا۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا وہ رچاؤ شامل تھا جس نے فلمی دنیا میں انھیں‌ شہرت اور مقام دیا۔ اگرچہ اس زمانے میں پنجابی فلموں کی کہانی کی کام یابی میں گیتوں‌ کا زیادہ عمل دخل نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ماسٹر عبداللہ نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی اور وہ ایسے باکمال فن کار تھے جنھیں اس میں بڑی کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ماسٹر عنایت حسین بھی ایک مستند اور قابلِ احترام موسیقار تھے۔ ماسٹر عبداللہ کو بریک تھرو فلم ملنگی (1965) کے سپر ہٹ گیت "ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔” سے ملا تھا۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط رہا جس میں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔ ان میں‌ اردو کی چند فلمیں اور باقی پنجابی زبان میں‌ فلمیں‌ شامل تھیں۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔ آخرالذّکر فلم کا یہ گیت تیرے نال نال وے میں رہنا اور اسی طرح ایک اور فلم دنیا پیسے دی کا یہ گانا چل چلیے دنیا دی اوس نکرے آج بھی پنجابی سنیما کے زمانۂ عروج کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں‌ کو بھی متأثر کیا اور وہ ان کی دھنوں‌ پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کے خواہش مند رہے۔ جن بڑے گلوکاروں‌ نے ماسٹر عبداللہ کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں‌ شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے نام شامل ہیں۔

    ماسٹر عبداللہ نے اعلیٰ‌ درجے کی موسیقی ترتیب دی اور فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ کی شان دار کام یابی کی ایک وجہ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی بھی تھی۔ یہ درست ہے کہ پنجابی فلمیں گیتوں کی بنیاد پر کم ہی کام یاب ہوئی ہیں، لیکن مذکورہ فلموں کے گیتوں کو بھی شائقین نے سراہا تھا۔

    فلمی صنعت نے ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب ان کا سنہری دور ختم ہوا تو کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور ماسٹر عبداللہ کے ساتھ ایسا ہی دیکھا گیا۔ وہ مالی مسائل اور دمے کے مرض کی وجہ سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے اور اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • سہراب مودی:‌ تاریخی فلموں کا رستم

    سہراب مودی:‌ تاریخی فلموں کا رستم

    اداکار، ہدایت کار اور فلم ساز آں جہانی سہراب مودی کو تاریخی فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انھیں ہندوستان میں تاریخی فلموں کا رستم بھی کہا جاتا ہے۔

    مودی صاحب اور ان کی فلموں نے کئی اعزازات اپنے نام کیے جن میں بطور فلم ساز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی شامل ہے۔ سہراب مُودی اِس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے اوّلین دس افراد میں سے ایک تھے۔ سہراب مودی 28 جنوری 1984 کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    1897 میں بھارتی ریاست گجرات میں پیدا ہونے والے سہراب مودی نے تھیٹر میں اپنے طویل عرصہ کے تجربے کو 1935ء میں فلم کی دنیا میں آزمایا اور شیکسپئر کے معروف ڈرامے ’ہیملٹ‘ پر مبنی فلم ’خون کا خون‘ ڈائریکٹ ہی نہیں کی بلکہ خود ہیملٹ کا کردار ادا کیا۔ 1938 میں اُن کی فلم ’جیلر‘ ریلیز ہوئی لیکن سہراب مودی کی وجہِ شہرت 1939 میں فلم ’پکار‘ بنی۔ اس کا موضوع عدلِ جہانگیری تھا اور یہ کام یاب فلم ثابت ہوئی۔

    1941 میں سہراب مودی نے فلم سکندر میں پرتھوی راج کپور کے مقابل راجہ پورس کا یادگار کردار ادا کیا۔ 1955 میں وکٹر ہیوگو کے معروف ناول ’لامیزرابل‘ پر مبنی فلم ’کُندن‘ پیش کی۔ جب کہ بطور اداکار 1983 میں اُن کی آخری فلم رضیہ سلطانہ تھی۔

    یہاں ہم سہراب مودی کی شہرت، فلموں اور مکالموں کی مقبولیت کا ایک واقعہ پیش کررہے ہیں جو فلم ”شیش محل“ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ فلم 1950 میں ریلیز ہوئی تھی۔ سہراب مودی خود بھی سنیما ہال میں یہ فلم دیکھ رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ سہراب مودی کو یہ بہت عجیب لگا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہے، مگر اس شخص نے آنکھیں نہ کھولیں۔ سہراب مودی کو تشویش ہوئی کہ ایسا کیوں‌ ہے۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے تھے کہ اس شخص نے فلم دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے فلم پسند نہیں آئی۔ انھوں نے سنیما ہال کے ایک ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ اس شخص کو سنیما ہال سے باہر لے جاﺅ اور ٹکٹ کے پیسے واپس کر دو۔ ملازم اس شخص کے پاس گیا اور چند لمحوں بعد سہراب مودی کے پاس حیرت کی تصویر بنا لوٹ آیا۔ اس نے سہراب مودی کو بتایا کہ وہ آدمی اندھا ہے اور صرف اس لیے آیا تھا کہ سہراب مودی کے مکالمے سن سکے۔ یوں‌ سہراب مودی پر اپنی اہمیت اور پسندیدگی کھلی اور ان کی اس فلم شیش محل سے متعلق پریشانی بھی دور ہوئی۔

    متحدہ ہندوستان اور بعد میں پاک و ہند کی فلمی دنیا میں کئی تاریخی موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں جن میں سے کچھ سپر ہٹ ثابت ہوئیں اور بعض نے ناکامی کا منہ دیکھا۔ سہراب مودی وہ فن کار اور ماہر فلم ساز تھے جو تاریخی فلمیں بنا کر کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ وہ کرداروں کے لیے نام کے انتخاب کے ساتھ ہر تاریخی کردار کا مطالعہ اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے تھے اور خود بھی تاریخی شعور رکھتے تھے۔ مودی وہ پارسی ہدایت کار اور اداکار تھے جس نے تاریخی فلمیں بنانے میں امتیاز اور انفرادیت سے کام لیا اور ساتھ ہی سماجی اور قومی مسائل پر بھی بڑی شان دار فلمیں بنائیں۔ مودی صاحب اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گوالیار میں لوگوں کو چلتی پھرتی فلمیں دکھانے اور روزی کمانے لگے تھے۔ وہ پروجیکٹر پر فلمیں دکھاتے ہوئے ایک آریا تھیٹر کمپنی قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ پھر تھیٹر پر اداکاری بھی شروع کردی اور 1935ء میں اسٹیج فلم کمپنی قائم کرلی کیوں کہ اب تھیٹر زوال پذیر تھا۔ پھر وہ کام یابی کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان کی چند فلموں نے کئی عشروں تک مقبولیت برقرار رکھی۔ فلم سازی ہی نہیں مودی بطور اداکار بھی فلم بینوں کو متاثر کرتے رہے۔ انھوں نے فلموں کے مکالمے لکھے تو یہاں بھی قسمت نے ان کا خوب ساتھ دیا اور ان کے تحریر کردہ مکالمے بہت مقبول ہوئے۔

    1953 میں سہراب مودی نے ’’جھانسی کی رانی‘‘ بنائی، جو ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی۔ لیکن خلاف توقع یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی اور اگلے سال ’’مرزا غالبؔ‘‘ جیسی فلم بنائی، جو اس سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ اس فلم کو صدارتی ایوارڈ ملا۔ کئی ناقابلِ فراموش فلمیں بنانے والے سہراب مودی کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور ان کے فن کی مثال دی جاتی ہے۔