Tag: یوم وفات

  • مظفر علی سید:‌ یادوں کی سرگم کا سَر ورق

    مظفر علی سید:‌ یادوں کی سرگم کا سَر ورق

    اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم مظفّر علی سیّد کے ادبی دنیا میں کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیم احمد، انتظار حسین اور مشفق خواجہ جیسی شخصیات ان کی قدر داں تھیں۔ ان کے علمی ذوق و شوق اور مطالعہ کی شہرت بھی ایسی تھی کہ کالج میں بھی طلبا فنونِ لطیفہ سے متعلق کوئی سوال اور گفتگو انہی سے کرتے تھے۔ آج مظفر علی سیّد کی برسی ہے۔

    مصنّف اور معروف ادبی شخصیت مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ 1929ء میں‌ پیدا ہونے والے مظفر علی سیّد نے تنقید کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے نام بنایا اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابلِ ذکر کام کیا۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مظفر علی سید نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے عنوان سے مرتب کیے۔

    خاکہ نگاری مظفر علی سید کا ایک نمایاں حوالہ ہے اور ان کے خاکوں‌ کا مجموعہ ‘یادوں کی سرگم’ کے نام سے موجود ہے۔ انھوں نے معلوماتِ عامّہ پر بھی کتاب تصنیف کی تھی۔ ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ فکشن، فن اور فلسفہ کے نام سے کیا اور سید عابد علی عابد کی ایک کتاب پر تنقید بھی لکھی۔

    کہتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی مطالعہ کرتے ہوئے گزری۔ یعنی بہت کم ایسا ہوا کہ مظفر علی سید نے کسی روز کوئی کتاب نہ کھولی ہو اور پڑھا نہ ہو۔ وہ ایک آزاد منش انسان تھے جس نے اپنی تحریروں کو سنبھال کے نہیں‌ رکھا، لیکن خاکوں کی شکل میں ان کی جو تحریریں‌ ہم تک پہنچیں وہ انھیں ایک بے باک اور منہ زور قلم کا حامل مصنّف ثابت کرتی ہیں تاہم مظفر علی سید کا وصف یہ ہے کہ اپنے خاکوں میں انھوں نے کسی کی شخصی کم زوری اور اس کی خامیوں کو نہیں اچھالا بلکہ وہ شخصیات کو اپنے قلم سے اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ مظفر علی سید کو دکھائی دیے۔ یہ کہا جانا چاہیے کہ مظفر علی سید نے بِلا کم و کاست اپنے ممدوحین کو قاری کے سامنے پیش کیا۔

    مظفر علی سید کو لاہور کے کیولری گراؤنڈ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • این میری شمل: ایک جرمن مستشرق کا تذکرہ

    این میری شمل: ایک جرمن مستشرق کا تذکرہ

    جرمن مستشرق این میری شمل نے اردو کے علمی و ادبی سرمائے کو اپنی علمی استعداد اور بصیرت کی بنیاد پر ترجمہ کرکے شعر و ادب کی ترویج اور ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان میں مشہور ہوئیں۔

    جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے کئی اردو ادبا اور شعرا کی تخلیقات کو جرمن زبان میں‌ منتقل کیا۔ این میری شمل کے علاوہ بھی مشرقی علوم و فنون میں دل چسپی رکھنے والے کئی غیرملکی محققین نے بالخصوص ہندوستان میں اردو زبان سیکھنے کے بعد یہاں کے قدیم اور جدید تہذیبی اور ادبی سرمائے اور مشاہیر کی زندگی کے اوراق کو اپنی مادری زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے۔ این میری شمل نے بھی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے علاوہ غالب اور کئی مشاہیرِ ادب کی تخلیقات پر تحقیق کام کیا اور اس مقصد کے لیے پاکستان بھی آتی جاتی رہیں۔ آج اس جرمن مستشرق کا یومِ وفات ہے۔

    ڈاکٹر این میری شمل 1922ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    انھوں نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی خاصی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    این میری شمل نے متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزرا۔ وہ 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    26 جنوری 2003ء کو این میری شمل انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان سے موسوم ہے۔

  • ضیا سرحدی: عظیم فلمی ہدایت کار اور مکالمہ نگار

    ضیا سرحدی: عظیم فلمی ہدایت کار اور مکالمہ نگار

    بلند فکر اور تخلیقی اپچ رکھنے والے ضیا سرحدی کا نام فلم کی دنیا میں ایک عظیم ہدایت کار اور کہانی و مکالمہ نویس کے طور پر لیا جاتا ہے جو مارکسی نظریات سے متاثر تھے اور انہی نظریات کے زیرِ اثر ان کی کئی فلمیں شاہ کار ثابت ہوئیں۔ ضیا سرحدی نے اپنے سماج کے مختلف چہروں اور طبقاتی تضاد کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

    ضیا سرحدی کو بچپن ہی میں فلموں کا شوق پیدا ہوگیا تھا جو نوعمری میں‌ ان کا عشق بن گیا اور جب وہ مارکسی فلسفے سے آشنا ہوئے تو زندگی کو الگ ہی انداز سے دیکھنے لگے۔ تب لگ بھگ 20 سال کی عمر میں انھوں نے پشاور سے بنگال کا سفر کیا اور وہاں جاکر ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر اور اداکار کے طور پر قسمت آزمائی۔ بعد میں‌ بمبئی فلم انڈسٹری میں‌ کام کیا اور اپنے فن کی بنیاد پر نام و مقام بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تھیٹر کے بعد سنیما کا بڑا زور تھا اور متحرک فلموں نے شائقین کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔

    ضیا سرحدی کا نام لیا جائے تو تقسیم سے قبل ان کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ یاد آ جاتی ہے جس کا مشہور مکالمہ تھا، ’’جس دیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار (حق) ہے پارو۔‘‘ یہ فلم 1951ء میں ہندوستان میں ریلیز ہوئی تھی اور پاکستان میں بھی اس کی نمائش کی گئی۔ بعد میں ’’فٹ پاتھ‘‘ جیسی لاجواب فلم بنائی جس میں مینا کماری اور دلیپ کمار نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

    27 جنوری 1997ء کو پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں انھوں‌ نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ خاندانی نام فضل قادر سیٹھی تھا اور بعد میں ضیا سرحدی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند اور مشہور موسیقار رفیق غزنوی ضیا صاحب کے داماد تھے۔

    1933ء میں ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد بمبئی چلے گئے۔ وہاں اپنے وقت کے عظیم ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے کام شروع کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلمیں‌ کے لیے ہدایت کاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کی۔ 1958ء میں وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی آخری فلم ’’راہگزر‘‘ تھی اور جب یہ فلم مکمل ہوئی تو ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ اس کے بعد سنسر کی قینچی چلی جس نے ضیا سرحدی کو بھی گویا ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان میں ان کی باقی فلموں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ ایک نظریاتی اور سچے تخلیق کار تھے اور اس کے بعد بہت دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ تاہم 1966ء میں ضیا سرحدی نے رضا میر کی فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کے مکالمے لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک ہے اور آج بھی اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

    انھوں نے فلم غنڈہ، اور نیا سورج کی کہانی بھی لکھی تھی، لیکن یہ مکمل نہ ہوسکیں۔ انھوں نے جن فلموں کی ہدایات دیں ان میں ’’بھولے بھالے، مدھر ملن، نادان، یتیم، اور آواز‘‘ قابل ذکر ہیں۔ اسکرین رائٹر کی حیثیت سے ان کی معروف فلموں میں ’’من موہن، جاگیردار، سیوا سماج، انوکھی ادا اور فٹ پاتھ‘‘ شامل ہیں جب کہ مکالمہ نگاری کے حوالے سے ’’جاگیر دار، گرامو فون، سنگر، جیون ساتھی اور بیجو باورا‘‘ کا تذکرہ ضرور ہوگا۔

    جنرل ضیاء الحق کا دور ہدایت کار ضیا سرحدی کے لیے بھاری ثابت ہوا۔ ان پر غداری کا الزام لگا اور گرفتاری کے بعد قید ہوگئی۔ اس کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے۔ بعد میں اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں دمِ آخر تک ان کا قیام رہا۔

    ضیا سرحدی پشاور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اللہ رکھا خان جنھوں نے قائدِاعظم کے سامنے فنِ موسیقی کا جادو جگایا

    اللہ رکھا خان جنھوں نے قائدِاعظم کے سامنے فنِ موسیقی کا جادو جگایا

    معروف سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ آج نہ تو وہ شخصیات رہیں اور نہ ہی وہ سارنگی باقی بچی جس کے بے روح وجود کو ایک ماہر اپنے فن و مہارت سے گویا زندہ کرنا جانتا تھا۔

    پاکستان کے معروف سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 27 جنوری 2002ء کو وفات پاگئے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں‌ کلاسیکی موسیقی کے عروج کے دور میں مختلف سازوں اور ان کے بجانے والوں کو بھی بڑی عزّت اور احترام حاصل رہا ہے اور ان کی شہرت دور دور تک ہوتی تھی۔ استاد اللّہ رکھا خان بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وقت گزرا تو یہ ساز بھی متروک ہوگئے اور سازندے دنیا سے ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے۔ آج نہ تو سارنگی کی شکل ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے اور نہ ہی وہ فن کار جنھیں موسیقی کی دنیا میں کبھی اہمیت اور مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف موجودہ دور میں موسیقی پر مبنی کسی پروگرام میں اس فن اور اس سے وابستہ ان ناموں کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا جو کبھی ہاتھوں کی جنبش اور سانس کے زیر و بم سے سُر اور موسیقی چھیڑا کرتے تھے۔ شاید اسی کا نام گردشِ دوراں ہے۔ مگر ہندستانی موسیقی، اور تقسیم کے بعد سرحد کے دونوں اطراف بسے ان فن کاروں کا ذکر کتابوں میں اب بھی ملتا ہے اور یہ ساز اب بھی کسی میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

    ہندوستانی کلاسیکی سنگیت میں سارنگی وہ ساز تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی آواز سے سب سے زیادہ ملتا ہے۔ سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 1932ء میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن ہی میں امرتسر چلے گئے تھے، اور وہیں اپنے والد استاد لال دین سے سارنگی بجانی سیکھی۔ بعدازاں استاد احمدی خان، استاد اللہ دیا اور استاد نتھو خان جیسے ماہر سازندوں سے استفادہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے تھے۔ یہاں وہ ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوگئے اور 1992ء تک اسی سے وابستہ رہے۔

    سارنگی نواز استاد اللہ رکھا کو 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    امریکہ کے صفِ اوّل کے ناول نگار جان اپڈائیک کو بطور ادیب، شاعر اور ادبی ناقد عالمی سطح پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی زندگی پر بھی ناول لکھا تھا جس کا مسلمان باپ اپنی امریکی شہریت رکھنے والی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جان اپڈائیک نے نیوجرسی کے پس منظر میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی اپنے ایک ناول کا موضوع بنایا تھا۔

    ہم جان اپڈائیک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے یہاں کر رہے ہیں۔ اپڈائیک کے بچپن سے آغاز کرتے ہیں جس کے بارے میں انھوں نے اپنے تحریر کردہ مضامین میں لکھا اور بعض انٹرویوز میں‌ بتایا۔ ان کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ ان کے گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر ایک ٹائپ رائٹر دھرا تھا اور اپڈائیک کے مطابق یہ مشین انھیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ شروع ہی سے قلم اور کورے کاغذ کو پسند کرتے تھے اور ساتھ میں ڈاک کے ان خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے بے چین ہوجاتا تھا، جو ان کے گھر کے پتے پر موصول ہوتے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں بھی ان کے گھر میں موجود تھیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ والدہ کی زبانی اکثر علمی و ادبی موضوع پر گفتگو اور مباحث بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اسی ماحول کے زیرِ اثر جان اپڈائیک نے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچّوں کا ادب پڑھنے کے قابل ہوگئے تو دل چسپ کہانیاں‌ اور مہم جوئی پر مبنی قصّے ان کے مطالعے میں آئے۔ ان کے تخیل نے اڑان بھری اور الفاظ سے نفسِ مضمون پیدا کرنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کیا۔ اس کے بعد نوعمر اپڈائیک نے ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ والدین نے ان کی تخلیقی کاوشیں دیکھیں تو خوشی کا اظہار کیا اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے باقاعدہ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور پھر وہ امریکہ اور دنیا میں‌ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    جان اپڈائیک اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کا بچپن عام بچّوں سے کچھ مختلف تھا۔ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، لیکن والدین کی بھرپور توجہ اور پیار و محبّت نے ان کو کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک نے بڑے اعتماد سے اپنا قلمی سفر شروع کیا۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو امریکہ میں آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے اوّلین تخلیقات کے بعد جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انھوں نے اسکیچ اور کارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کر چکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ کہا گیا کہ ان کی اس تصنیف کا طرزِ تحریر ایسا تھا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    جان اپڈائیک اپنے آخری ناول کی اشاعت کے ایک برس بعد 27 جنوری 2009ء کو انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔

    (اردو ترجمہ: عارف عزیز)

  • شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی وہ ممتاز پاکستانی مصوّر تھے جنھیں تجریدی آرٹ کا بانی کہا جاتا ہے۔ روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاکر علی کے فن پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جدت کے باوصف روایت کو نبھانے میں پاکستانی مصوروں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا ہے۔ شاکر علی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے اور فنِ‌ خطاطی میں بھی اپنے ذوق و تخلیق کا اظہار کیا۔ آج اس مصور کی برسی منائی جارہی ہے۔

    لاہور میں شاکر علی کی رفاقت اپنے زمانے کے کئی مشاہیر اور اہلِ علم و فن سے رہی جنھوں نے اس مصور کے فن کو سراہا اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلوؤں کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کیا جن میں سے چند پارے آپ یہاں‌ پڑھ سکیں‌ گے۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو ہوا تھا۔

    آرٹ میں دل چسپی اور فنِ‌ مصوری کا شوق شاکر علی کو شروع ہی سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے کر حاصل کی۔ یہ سلسلہ 7 سال تک جاری رہا اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لینے کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1948ء میں لندن چلے گئے۔ لندن میں شاکر علی نے رسیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ کیا۔

    شاکر علی کا آبائی وطن رام پور تھا۔ وہ 6 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے۔ کم عمر تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، اور شاکر علی جو کہ حساس طبیعت کے مالک تھے، نہایت رنجیدہ رہنے لگے، اسی صدمے نے شاید انھیں خاموش طبع بنا دیا تھا۔ لیکن بعد میں برش اور پینٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار خوب کیا۔

    1949ء میں شاکر علی نے فرانس کا رُخ کیا اور فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ ایک سال کام کیا۔ پھر 1951ء میں پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

    شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ انھوں نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

    معروف محقق، نقاد اور مترجم مظفر علی سید ان کے دوستوں میں سے تھے اور ان کا خاکہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ رقم طراز ہیں، شاکر کی چند ایک تصویریں دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جعلی تجرید پسند نہیں ہے، نہ اینٹی کلاسیکل۔ اس کے یہاں ایک کلاسیکی طمانیت ایک جد ید شکستگی سے سر بہ گریبان نظر آتی ہے۔ یوں اس دور کی تصویروں میں تناؤ کی کیفیت بہت تھی جیسے دو برابر کی قوتیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔ عسکری صاحب نے ٦۰ء تک کی تصویریں دیکھ کر تضادات کے تصادم کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تقریباً اسی برس صفدر میر نے لکھا تھا کہ شاکر کے نقوش تجریدی صورت میں بھی با معنی ڈرامائی کیفیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ ’’میں نے ایسا کوئی فن کار نہیں دیکھا جس سے اس کے معاصرین نے اتنی ٹوٹ کر محبت کی ہو جیسی شاکر علی کو لاہور کے مصوروں اور قلم کاروں سے ملی۔‘‘

    تاہم یہ محبت فوراً کے فوراً ہی نہیں مل گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں على امام جب بھی لاہور آتے تو اپنے دوست معین نجمی سے مل کر شاکر کے ساتھ شدید بحث کرتے اور تجرید، مکعبیت اور سر رئیلزم کو بیک وقت رد کرنے کی کوشش۔ کراچی میں صادقین کی بھی ان دنوں یہی کیفیت تھی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح تاثریت کی روشنی تو دریافت کر چکے تھے لیکن اس سے زیادہ جاننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے علی امام سے پوچھا کہ شاکر سے آپ کیسے ملے؟ انہوں نے کہا کہ بڑے بھیا یعنی رضا نے پیرس سے لکھا تھا کہ شاکر لاہور میں ہے، اس سے ملتے رہا کرو۔ پھر ایک دن شاکر علی نے زچ ہو کر علی امام سے کہا کہ تم تجرید وغیرہ کو جانے دو، یہ بتاؤ کہ تمہیں تاثریت کے بعد سیزان بھی نظر آیا کہ نہیں؟ خود علی امام نے شاکر کی موت کے بعد لکھا ہے کہ اس ایک بات نے اس کے پورے رویے کو بدل کر رکھ دیا۔ تقریباً ایسی ہی کیفیت آہستہ آہستہ صادقین کے یہاں بھی نظر آئی۔ اگرچہ بعد میں صادقین شاکر علی سے خاصا مختلف ہو جاتے ہیں۔

    مظفر علی سیّد مزید لکھتے ہیں، جیسا کہ انتظار حسین نے لکھا ہے شاکر علی عسکری صاحب کی طرح بہت کم گفتگو کرتے تھے اور فن کے بارے میں دانشورانہ بحث میں تو بالکل کوئی حصہ نہیں لیتے تھے۔ یقیناً یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن جس طرح عسکری صاحب مجلسی کم سخنی کے باوجود پڑھاتے بھی تھے، اسی طرح شاکر علی تھوڑے سے لفظوں میں بہت کچھ سمجھا جاتے تھے۔ میرے ساتھ تو لگتا ہے انہوں نے خاصی شفقت برتی اور فرانسیسی سیکھنے میں میری رغبت دیکھ کر جد ید مصوری کے فن پر اپنے استاد آندرے لوت کی فرنچ کتاب بھی مجھے عنایت کر دی۔ مصوری کے مطالعے اور تفہیم کے لیے انہوں نے مجھ پر جو محنت کی اور جو وقت صرف کیا وہ میرے خیال میں خود یورپ جا کر بھی شاید ہی کہیں سے ملتا تو ملتا۔ انہوں نے مصوری کے علاوہ ادب میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل پر بھی بہت زور دیا۔،،

    خاکے کے یہ پارے ہمیں ممتاز پاکستانی مصور شاکر علی کے فن و شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شاکر علی ایسے فن کار تھے جنھیں زندگی میں کینوس کے سوا کچھ بھی شاید عزیز نہ رہا ہوگا۔ انھوں نے اپنے گھر کو بھی تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ بنا دیا تھا۔ یہ گارڈن ٹاؤن میں ان کا وہ مکان تھا جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹیں استعمال کی تھیں اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ایسی اینٹیں عام لوگ تو پھینک دیا کرتے تھے۔ مگر افسوس کہ اس گھر کو تعمیر کرنے کے بعد شاکر علی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے۔ حکومت نے بعد میں اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

    شاکر علی فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ سے بھی ایک ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور بہت متاثر کن کام کیا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہو کر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا گیا۔ مصور شاکر علی لاہور میں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آرزو: اردو کے عظیم اور استاد شعراء کے استاد کا تذکرہ

    آرزو: اردو کے عظیم اور استاد شعراء کے استاد کا تذکرہ

    استاد شعراء کے استاد، اردو اور فارسی زبانوں کے زبردست عالم، شاعر، ماہر لسانیات، نقّاد، فرہنگ نگار اور تذکرہ نویس سراج الدین علی خان آرزو کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈھائی سو سال سے زائدعرصہ گزر چکا ہے۔

    محمد حسین آزاد جیسے انشاء پرداز نے آرزو کے بارے میں لکھا، ’’خان آرزو کو اردو پر وہی دعوی پہنچتا ہے جوکہ ارسطو کو فلسفہ اور منطق پر ہے۔ جب تک کہ کُل منطقی ارسطو کے عیال کہلائیں گے تب تک اہلِ اردو خان آرزو کے عیال کہلاتے رہیں گے۔‘‘ اسی طرح مثنوی سحرالبیان کے مصنف میر حسن نے اپنے تذکرے میں کہا ہے کہ امیر خسرو کے بعد آرزو جیسا صاحبِ کمال شخص ہندوستان میں نہیں پیدا ہوا۔ خان آرزو کی صحبت اور تربیت سے مظہر جان جاناں، میر تقی میر، محمد رفیع سودا اور میر درد جیسے شعراء نے راہ نمائی حاصل کی۔ سودا خان آرزو کے شاگرد نہیں تھے مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل کیے۔ یہ وہی خان آرزو ہیں‌ جو میر تقی میر کے سوتیلے ماموں تھے اور والد کے انتقال کے بعد کچھ دن میر نے آرزو کے پاس گزارے تھے۔ خان آرزو بنیادی طور پر فارسی کے عالم اور شاعر تھے۔ انھوں نے اردو میں کوئی دیوان نہیں چھوڑا۔ ان کے اشعار تذکروں میں ملتے ہیں جن کی تعداد زیادہ نہیں لیکن جو بھی کلام دستیاب ہے وہ اردو شاعری کے ارتقاء کو سمجھنے کے حوالہ سے ایک تاریخی دستاویز ہے۔ آرزو کے دور میں فارسی کو اہمیت دی جاتی تھی اور اردو میں شاعری کو کم تر خیال کیا جاتا تھا، لیکن آرزو نے اپنے دور میں خدمت اس طرح‌ کی کہ اپنے شاگردوں کو اس زبان میں شاعری پر آمادہ کیا اور اس زبان کا وقار بڑھایا۔

    آرزو کا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہندوستانی زبان کی لسانی تحقیق کی بنیاد رکھی اور جرمن مستشرقین سے بہت پہلے بتایا کہ سنسکرت اور فارسی ہم رشتہ زبانیں ہیں۔ آرزو پہلے شخص تھے جنھوں نے دہلی میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو اردو کا نام دیا۔ ان کے زمانہ تک اردو کا مطلب لشکر تھا۔ شاہجہاں آباد کو بھی لشکر کہا جاتا تھا۔ زبان اردو سے فارسی بھی مراد لی جاتی تھی۔ خان آرزو نے پہلی بار نوادر الالفاظ میں، اس بولی کے لیے جو دہلی میں بولی جاتی تھی لفظ اردو استعمال کیا۔

    نوادرالالفاظ میرعبدالواسع ہانسوی کی "غرائب الغات” کا اصلاح شدہ ایڈیشن ہے۔ غرائب الغات غیر اردو دانوں کے لئے اک اردوفارسی لغت ہے۔

    سراج الدین علی خاں آرزو 1686 میں گوالیار میں پیدا ہوئے۔ بچپن گوالیار ہی میں گزرا۔ جوانی میں وہ آگرہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ آگرہ میں رہنے کے بعد دہلی منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ انھوں نے بارہ بادشاہوں کا زوال دیکھا۔ دہلی میں ان کو علمی اور دنیاوی ترقی ملی۔ آرزو محمد شاہ کے دربار کے اہم منصب دار تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں وہ فیض آباد چلے گئے اور وہیں آج کے روز 1756ء میں ان کا انتقال ہوا۔

  • احمد حسن دانی:‌ علمِ‌ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر

    احمد حسن دانی:‌ علمِ‌ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر

    عالمی شہرت یافتہ علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر احمد حسن دانی ایک نادرِ روزگار شخصیت تھے جنھیں پاکستان میں ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج پروفیسر احمد حسن دانی کی برسی ہے۔

    وہ تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنّف ‌تھے اور ان کی آخری تصنیف تاریخِ پاکستان کے نام سے وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی منظرِ عام پر آئی تھی۔ شمالی پاکستان اور وسط ایشیا کی قدیم تاریخ سے متعلق احمد حسن دانی کی علمی اور تحقیقی کتب بڑا سرمایہ ہیں۔ انھوں نے ساسانی بادشاہت پر بھی تحقیقی کام کیا اور جے پی موہن کے ساتھ مل کر تاریخِ انسانیت نامی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد مرتب کی تھی۔ سینئر صحافی عارف وقار لکھتے ہیں، وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں۔

    20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے و الے احمد حسن دانی نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو ان کے والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ اردو عربی اور فارسی تو اسی زمانہ میں سیکھ لی تھیں، اور پھر ناگ پور میں اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس سے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق پیدا ہوا اور بعد میں انھوں نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ احمد حسن دانی کو اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں ان کی کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔

    1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے احمد حسن دانی کی قابلیت اور ان کی تاریخ و ثقافت میں گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ میں عہدہ تفویض کردیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی اور وہ ان کے علم اور لگن سے بہت متاثر ہوئے۔ ویلر انھیں اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ بعد میں اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی احمد حسن دانی نے ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی سائٹ پر کام کیا اور دریافت و تحقیق میں حصّہ لیا۔ بعد ازاں برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے احمد حسن دانی کو ہندوستان کی شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ پروفیسر دانی سمجھتے تھے کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال‘‘ تھا۔

    1947ء سے 1949ء تک پروفیسر احمد حسن دانی محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔ جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ کی بنیاد رکھی گئی تو پروفیسر احمد حسن دانی کو سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دور میں انھوں نے پشاور، وادیٔ سوات اور دیگر علاقوں میں بعض مقامات پر کھدائی کا کام کروایا اور بہت سے نوادرات اور آثار وہاں سے برآمد ہوئے جن سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ادوار میں ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے 1980ء میں ریٹائر ہوئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِ عمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

    ڈاکٹر احمد حسن دانی 1971 میں اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے اور وہاں قائدِاعظم یونیورسٹی میں شعبۂ علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کرکے ریٹائرمنٹ تک اسی سے وابستہ رہے۔ اسلام آباد ہی میں 26 جنوری 2009ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے شعبہ جات میں احمد حسن دانی کی اعلٰی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز دیا جب کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں جامعات کی سطح پر اعلیٰ تعلیمی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہونے اور شہریت دینے کی پیشکش کی، لیکن انھوں نے پاکستان نہیں چھوڑا۔ مختلف کتب کے علاوہ احمد حسن دانی کے مضامین اور مقالہ جات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

  • منشی سجاد حسین:‌ اردو صحافت و ادب میں مزاح اور ظرافت نگاری کا بڑا نام

    منشی سجاد حسین:‌ اردو صحافت و ادب میں مزاح اور ظرافت نگاری کا بڑا نام

    اردو زبان کے معروف ناول نگار اور لکھنؤ سے نکلنے اردو کے مشہور ہفت روزہ اودھ پنچ کے مدیر منشی سجاد حسین کو آج کون جانتا ہے۔ اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا یہ نام بڑا ہی نہیں بلکہ وہ نام تھا جس کے تخلیق کردہ کرداروں کو برطانوی ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھی قارئین میں مقبولیت حاصل رہی۔

    منشی سجاد حسین ڈپٹی کلکٹر منصور علی کا کوروی کے بیٹے تھے۔ وہ 1856ء میں کاکوری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اس کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور مختلف قسم کے کام انجام دیے۔ فیض آباد چلے گئے اور کچھ دنوں تک فوجیوں کو اردو پڑھاتے رہے، پھر لکھنؤ واپس آکر 7 جنوری 1877ء میں اردو کا مشہور مزاحیہ اخبار اودھ پنچ نکالا۔ اس اخبار میں مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کے علاوہ نظمیں اور غزلیں بھی شائع ہوتی تھیں۔ اودھ پنچ نے اردو نثر میں طنز و ظرافت کی روش کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اخبار کی وجہ سے سرزمین ہند پر کئی نئے رسالوں کے لیے زمین ہموار ہوئی اور بعد میں اسی طرز پر اخبار نکالے گئے۔ اس اخبار نے مزاحیہ نگارشات کی اشاعت اور فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

    منشی سجاد حسین ایک صحافی کے علاوہ ادیب اور ناول نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی تصانیف میں حاجی بغلول، طرح دار لونڈی، پیاری دنیا، احمق الذین، میٹھی چھری، کایا پلٹ اور حیات شیح چلی نمایاں ہیں۔ منشی سجاد حسین اپنے مزاح کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور ان کے مضامین ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کرلیتے تھے۔ مگر ان کا شمار اعلیٰ پائے کے ناول نگاروں میں بھی ہوتا ہے جو مزاحیہ ہی ہیں۔ ان کی زبان لکھنؤ کی بول چال کی زبان ہے اور اسی لیے ان کے کردار بھی عوام میں گویا اجنبی نہیں‌ رہے تھے۔ ان کے تخلیق کردہ کرداروں میں مقبول ترین ان کے ناول کا کردار حاجی بغلول ہے۔

    منشی سجاد کی تحریروں میں ہمیں مقصدیت ملتی ہے اور وہ سماج میں ناہمواریوں اور بدلتے ہوئے معاشی و معاشرتی پہلوؤں کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتے رہے۔ حاجی بغلول منشی سجاد حسین کا وہ لازوال کردار ہے جسے ہر دور میں ناقدین نے سراہا اور ان کے ناولوں کو پسند کیا ہے۔

    منشی سجاد حسین فالج کی بیمای کے سبب 22 جنوری 1915ء کو انتقال کر گئے تھے۔

  • نقش لائلپوری:‌ خوب صورت فلمی نغمات کا خالق

    نقش لائلپوری:‌ خوب صورت فلمی نغمات کا خالق

    کوئی فلم کسی سنیما ہال میں بڑے پردے پر دیکھنے والا ذہن میں ہیرو ہیروئن اور ان کرداروں کو ہی یاد رکھ پاتا ہے، جن کی وجہ سے کہانی بنتی اور انجام تک پہنچتی ہے۔ وہ ان گیتوں کو بھی اکثر گنگناتا ہے جو اس فلم میں شامل رہے ہوں، لیکن نغمہ نگار کا نام یاد رکھنے یا اس کے بارے میں جاننے کی کوئی خواہش عام فلم بین نہیں‌ رکھتا۔ عام فلم بینوں کے لیے یہ اہم ہے بھی نہیں، مگر بدقسمتی سے بعض اچھے اور قابل فن کاروں کی فلم انڈسٹری میں بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی۔ نقش لائلپوری انہی میں سے ایک ہیں۔

    ہندوستان ہی نہیں پاکستان کی فلمی صنعت میں بھی کئی نغمہ نگار ایسے تھے کہ جن کے لازوال اور سدا بہار نغمات کی وجہ سے فلمیں مقبول ہوئیں۔ آج بھی ان کے لکھے ہوئے اردو زبان میں گیت برصغیر میں بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں اور ایک نسل کے لیے وہ گیت خاص کشش اور لطف رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے نقش لائل پوری بولی وڈ کے ایسے ہی نغمہ نگار تھے جس کا انداز سب سے الگ تھا۔ آج وہ ایک بھولا بسرا نام بن کر رہ گئے ہیں، مگر ان کے گیتوں کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔

    ہندوستان اور پاکستان میں فلمی گیت، یہ ملاقات ایک بہانہ ہے…. بہت مقبول ہوا اور دل جلے تو کوئی کیا کرے، الفت میں زمانے کی…، فلم کال گرل کے مقبول گیت تھے جب کہ چوری چوری کوئی آئے…فلم نوری اور مقبول ترین گیت نجانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا… فلم درد میں‌ شامل تھا جو نقش لائلپوری کا تحریر کردہ تھا۔ 22 جنوری 2017ء کو غزل گو شاعر اور فلمی نغمہ نگار نقش لائلپوری چل بسے تھے۔

    وہ انجمنیں جو فلم اور سنیما کے عظیم اور بے مثال فن کاروں اور آرٹسٹوں کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز کا اجرا کرتی ہیں، انھوں نے بھی اکثر نغمہ نگاروں کو نظر انداز کیا اور فلمی ناقدین کا خیال ہے کہ نقش لائلپوری کو بعد از مرگ یاد نہیں رکھا گیا جو کہ افسوس ناک بات ہے۔

    نقش، 24 فروری 1928ء کو لائل پور میں پیدا ہوئے، جسے اب ہم فیصل آباد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ انھوں نے ایک مکینیکل انجینئر کے گھر میں آنکھ کھولی۔ اصل نام جسونت رائے شرما تھا۔ شاعری کا آغاز کرنے کے بعد ہر شاعر کی طرح غزلیں کہنے والے نقش لائلپوری کی وجہِ شہرت نغمہ نگاری بنی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ والد ان کو انجینئر بنانا چاہتے تھے، مگر نقش لائلپوری نے ان سے اختلاف کیا اور دونوں باپ بیٹا کے تعلقات خراب ہو گئے۔ نقش لائلپوری کی والدہ اس وقت چل بسیں جب ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ والد نے دوسری شادی کر لی اور پھر نقش لائلپوری والد سے دوری اختیار کرتے چلے گئے۔ وہ لاہور آگئے اور کام کی تلاش شروع کر دی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اور ان کا خاندان لکھنؤ چلا گیا۔ 1950ء میں نقش لائلپوری نے فلمی گیت لکھنے کے لیے ممبئی کا رخ کیا۔ یہاں ان کی ملاقات جگدیش سیٹھی سے ہوئی اور ان کی اگلی فلم ’’جگو‘‘ کے نغمات لکھنے سے بطور گیت نگار اپنا سفر شروع کیا۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوگئے اور خاص طور پر یہ نغمہ ’’اگر تیری آنکھوں سے آنکھیں ملا دوں‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ 1970ء تک نقش لائلپوری بولی وڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ موسیقار جے دیو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ٹی وی سیریل کا گیت لکھیں۔ یہ کام بھی انھوں نے خوب جم کر کیا۔ اس کے علاوہ 50 پنجابی فلموں کے نغمات بھی لکھے۔ بعد میں نقش لائلپوری کی معروف ہدایت کار بی آر چوپڑا کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ ان کی فلم ’’چیتنا‘‘ کے گیت نقش لائلپوری نے تحریر کیے۔ یہ 1970 ء کی بات ہے۔ اگلے برسوں میں انھوں نے کئی کام یاب فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو بہت پسند کیے گئے، لیکن آج نقش لائلپوری ایک بھولا بسرا نام ہیں۔