Tag: یوم وفات

  • ماؤنٹ بیٹن: تقسیمِ ہند کا اعلان کرنے والا وائسرائے جو بم دھماکے میں ہلاک ہوا

    ماؤنٹ بیٹن: تقسیمِ ہند کا اعلان کرنے والا وائسرائے جو بم دھماکے میں ہلاک ہوا

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہاں وائسرے کے طور پر قدم رکھا اور ہندوستان کے نئے مالک و مختار کی حیثیت سے کئی اہم اور تاریخ ساز فیصلے کیے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین بھی کیا اور وہ اعلان بھی جس کے بعد ہندوستان برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوگیا۔ یہ تقسیمِ ہند کا اعلان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے فیصلے نے برصغیر میں آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو جہاں بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے وہیں سرحدوں کے دونوں اطراف لاکھوں انسانوں کی لاشیں بھی بے گور و کفن پڑی دیکھی گئیں۔ برطانوی دور کا یہ آخری وائسرائے 1979ء میں آج ہی کے دن ایک بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد چل بسا تھا۔ اسے مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا تھا اور ماؤنٹ بیٹن نے ہندوؤں سے ساز باز کرکے مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس نے بطور حکم راں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کر دیے گئے۔

    ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں‌ پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ اس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے بحریہ میں اعلیٰ ترین عہدے پر خدمات انجام دی تھیں۔ ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور اس کے فوری بعد یہاں کے تمام بااثر قائدین اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے بعد اس نے تقسیم کا وہ فیصلہ کیا جس میں جانب داری اور جھکاؤ واضح تھا۔ اکابرینِ ہند سے ملاقاتوں میں وائسرائے نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے لیے انتظامی راستہ نکالنے کی کوشش کی مگر جب اس پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ناگزیر ہے تو 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کا اعلان کردیا۔

    ماؤنٹ بیٹن کی ہلاکت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ یہ وہ دور تھا جب شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار بننے کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا۔ اس وقت ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کارروائی ہے۔ اس روز ماؤنٹ بیٹن سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ عملے کے اراکین کے علاوہ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ہمراہ اس کی بڑی بیٹی، داماد، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد بھی وہاں گئے ہوئے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے جب لکڑی کی ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس میں نصب کردہ بم پھٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن کو زندہ حالت میں پانی سے نکال لیا گیا، لیکن اس کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوچکی تھیں اور وہ زخم اور درد کو برداشت نہ کرسکا اور چل بسا۔

  • نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار نذیر کو ایک قابل و باصلاحیت فن کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جنھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی نام کمایا۔ نذیر 26 اگست 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ بطور اداکار نذیر کی وجہِ شہرت 1935ء میں ریلیز کردہ فلم ’’چانکیہ‘‘ تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام نذیر احمد خان تھا۔ نذیر نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا اور اداکاری کے شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے 1933ء میں کلکتہ چلے گئے۔ یہ شہر اس دور میں فلم انڈسٹری کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ نذیر کو ان کے فلم ساز دوست کا تعاون حاصل تھا اور وہاں انھیں فلم ’’چانکیہ‘‘ میں‌ کام مل گیا۔ اداکار نذیر نے اس فلم میں اپنی پرفارمنس سے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس نے نذیر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ بھی اسی دور میں ریلیز ہوئیں۔

    1939ء میں اداکار نذیر نے اپنا فلمی ادارہ بنایا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں بطور اداکار نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کر لی۔ وہ اپنے وقت کی ایک کام یاب اور مقبول فن کار تھیں جن کے ساتھ نذیر کو فلمی جوڑی کے طور پر بہت پسند کیا گیا۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ فلمی ناقدین کے مطابق اداکاری کے ساتھ نذیر نے فلم سازی کے شعبہ میں بھی خوب کام کیا۔

    فلمی دنیا کے اس باکمال فن کار کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    جدید شاعری میں ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے جو اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ فراز کی ستائش اور پذیرائی کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اور آج بھی فراز کو ایک ایسا شاعر کہا جاتا ہے جس نے ایک عہد کو متأثر کیا۔ فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں ان کا مزاحمتی کلام بھی بہت مشہور ہے اور ایک زمانہ میں فراز کی نظمیں سیاسی و سماجی جبر، بندشوں اور ناانصافی کے خلاف نعرہ بن کر گونجتی رہی ہیں۔ احمد فراز خواص اور عوام دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے پی ٹی وی کواپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،

    "زندگی کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ انسان خواب بھی دیکھتا ہے، تعبیریں کچھ نکلتی ہیں۔ مجھے بھی شروع میں پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس لیے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا پاکستانی پائلٹ کی یونی فارم میں، مجھے بہت اچھا لگا۔ تو میں نے سوچا کہ میں پائلٹ بنوں گا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں پہنچا تو میں نے بھی جی ڈی پائلٹ کے لیے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو ہوا، اس میں سلیکٹ ہوا۔ پھر میڈیکل بھی ہو گیا ٹھیک ٹھاک ۔ پھر مجھے بلاوا آ گیا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی۔ تو میری والدہ کو ایک طرح کی پریشانی ہوئی۔ ایک بیٹا فوج میں چلا گیا، دوسرا بیٹا ایئر فورس میں جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بہت اداس اور غم گین ہو گئیں۔ بل کہ یہاں تک کہ جب بلاوے کا کال آئی تو انھوں نے میرے کاغذات پھاڑ دیے اور بعد میں مجھے بتایا کہ بیٹا تمھیں وہاں نہیں جانا۔ والدین کی سوچ اپنی جگہ ہوتی ہے، خاص طور سے ماؤں کی۔” وہ مزید کہتے ہیں شاید مجھے شاعر بن کر شہرت کمانا تھی تو یہی ہوا۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    فراز کی مشہور غزل کا مطلع جسے مہدی حسن نے گایا تھا

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ

  • فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    آج مختلف شعبہ ہائے حیات میں ہماری تیز رفتار اور حیران کن ترقّی کے ساتھ ایجاد و صنّاعی کا یہ محیّر العقول سفر بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے مرہونِ منت ہے اور یہ تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات نہ صرف انقلاب آفریں ثابت ہوئے بلکہ اسی زمانے کی مشینیں اور دوسری ایجادات آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہورہی ہیں۔ یہ تمہید عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کا تذکرہ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے انگلستان میں 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ فیراڈے کا باپ لوہار تھا، والدین غریب تھے اس لیے وہ کسی اچھے اسکول میں نہیں پڑھ سکا اور واجبی تعلیم پائی۔ اس نے لکھنا پڑھنا اور کچھ حساب کتاب سیکھا، مگر ذہانت نے اس کی دل چسپی کے میدان میں لازوال شہرت اور جاودانی بخشی۔ اس نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ فیراڈے 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان کا انقلاب آفریں خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔ مائیکل فیراڈے نے بہت سی اہم دریافتیں کیں جن میں اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے جب عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان کا مطالعہ شروع کیا اور وہیں سے سائنسی تجربات کی جانب راغب ہوا۔ اس کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔ ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوئی جنھوں نے اسے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ رکھ لیا اور فیراڈے سائنس داں بنا۔

    1823ء میں اس نے مایع کلورین گیس تیّار کرنے والے پہلے سائنس دان کے طور پر کام یابی سمیٹی اور اس کے اگلے برس بینزین دریافت کیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کر لی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    1841ء میں فیراڈے پر فالج کا حملہ ہوا جس سے اس کے اعصاب بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کی یادداشت خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے تجربات اور ان کے نتائج کو بھول جاتا تھا۔ تین سال تک وہ کوئی کام نہیں کر سکا اور اپنی بیوی کے ساتھ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ طبیعت میں بہتر ہونے کے بعد وہ دوبارہ عملی زندگی میں مگن ہوگیا مگر یادداشت وقت کے ساتھ جواب دیتی گئی اور ایک روز مطالعہ و تحقیق کے دوران ہی چل بسا۔

    آج ہم برقی سائنس میں فیراڈے کی تحقیق و ایجاد کے طفیل ہی اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک مثالی شخصیت تھا جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔

  • ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی کو اردو زبان کا صاحبِ طرز کہا جاتا ہے اور وہ ادبی صحافت میں بھی ممتاز تھے۔ کہتے ہیں کہ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملّا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ادب اور صحافت کی دنیا کے اس نام ور نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ ملا واحدی کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 17 مئی 1888ء کو پیدا ہوئے اور دہلی شہر میں تعلیم مکمل کی۔ انھیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا۔ 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    واحدی صاحب کی زندگی بڑی منظم تھی۔ وہ بہت سویرے جب پو پھٹتی ہے بیدار ہوتے، نماز فجر سے فارغ ہوکر دو تین میل کی ہوا خوری کو نکل جاتے۔ پھر واپس آکر ناشتہ کرتے اور دفتر میں کام شروع کردیتے۔ وہ بہت ہی محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    واحدی صاحب کے بارے میں ان کے ہم عصروں کی رائے اور واقعات پر مبنی مضامین بھی قابلِ مطالعہ ہیں۔ ایک ایسے ہی مضمون میں جلیل قدوائی لکھتے ہیں، ”میری ان کی سولہ برس سے زائد ہمسائیگی و ہم نشینی رہی۔ وہ خدا ترس، خداشناس، پاک دامن، پاک نہاد، نیک سرشت، نیک نفس، نرم خو، نرم گفتار تھے۔ کسی نے ان کی زبان یا قلم سے دکھ نہیں پایا۔ وہ قول کے کھرے فرشتہ صفت انسان تھے۔ جھوٹ اور ریاکاری سے انھیں چڑ تھی”۔

    رازق الخیری صاحب کے مطابق واحدی رسالوں کی ایڈیٹری ہی نہیں کرتے تھے، دفتر کی منیجری بھی کرتے تھے۔ وہ بہت سی مقبول کتابوں کے ناشر بھی تھے۔ ان میں غیر معمولی انتظامی قابلیت تھی اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”واحدی صاحب کے والد انجینئر تھے، اپنے بعد انھوں نے بہت سی جائیداد چھوڑی جو سب کی سب واحدی صاحب نے اپنے صحافتی اور ادبی ذوق کی نذر کر دی۔

    مختار مسعود جیسے انشا پرداز نے ملا واحدی کے بارے میں لکھا، ان کے تین امتیازات ہیں۔ عبارت، ادارت اور رفاقت۔ ان کی عبادت میں ستّر برس کی مشق اور مہارت شامل ہے، ادارت کا یہ حال ہے کہ ایک وقت میں اکٹھے نو رسائل کے مدیر اور مہتمم تھے، جہاں تک رفاقت کا تعلق ہے تو وہ شہروں میں دلّی کی اور انسانوں میں خواجہ حسن نظامی سے۔ واحدی صاحب کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ہے، جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں، لکھتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے صاحبِ اسلوب اور بلند پایہ نثر نگار ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلھے شاہ کا تذکرہ جن کی جیون کہانی قصے کہانیوں میں گم ہے

    بلھے شاہ کا تذکرہ جن کی جیون کہانی قصے کہانیوں میں گم ہے

    حضرت بابا بلھے کو ہندوستان میں صوفی شاعر ہی نہیں صاحبِ کرامت شخصیت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے جن کا پیغام آفاقی جذبہ سے معمور اور بُلھے شاہ کا دربار بھی آفاقی فکر کا علم بردار ہے۔ ان کے عرس کے موقع پر ہر مذہب کو ماننے والے جمع ہوتے ہیں۔ بھانت بھانت کے عقائد اور فکر و خیال کے یہ لوگ یہاں روحانی سکون کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں اور اسے روحانی سکون کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

    بلھے شاہ 22 اگست 1757ء کو اس دارِ بقا کی جانب لوٹ گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز پاکستانی شاعر، فکشن نگار، نقّاد اور تذکرہ و تحقیق پر مبنی کتب کے مصنّف انیس ناگی کا یہ مضمون بابا بلھے شاہ کی حیات اور ان کی شاعری پر معلوماتی اور نہایت مفید ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں مصدقہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ ابھی تک جو باتیں اس کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق زبانی روایت سے ہے۔ ان زبانی معلومات کا تعلق بھی حضرت بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی اور کرامات سے ہے شاعری سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات جیسی کیسی بھی ہیں ان سے حضرت بلھے شاہ کی شخصیت کا ایک نقش قائم کیا جا سکتا ہے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کی جیون کہانی میں تسلسل نہیں ہے، اس کمی کو قیاسات اور کہیں کہیں ان کی شاعری کے حوالے سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینہ الاصفیا، نافع السالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔

    حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے۔

    روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنا دیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں مع خاندان کے منتقل ہوگئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورژن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہونا چاہئے۔

    اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سال پیدائش کے بارے میں بھی ہے۔ کسی نے تاریخ کا حتمی تعین نہیں کیا…. خزینہ الاصفیا 1858 میں شائع ہوئی تھی، اس کے مصنف مفتی غلام سرور لاہوری نے حضرت بلھے شاہ کے حالات کے بیانات میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے لیکن 1750 ان کا سن وفات بتایا ہے۔ سب سے پہلے ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680 اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ کلیات بلھے شاہ کے مرتب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں ” بلھے شاہ تے پمفلٹ دے منصف مسٹر آسبورن نیں اوہدی تاریخ پیدائش 1680 تے تاریخ وفات 1785 لخی اے ایس حساب نال اوہدی عمر اک سوپنج ورہے بن دی اے پر آسبورن صاحب کول ایس دعوے دا کوئی ثبوت نہیں“۔

    فقیر احمد فقیر نے اوسبورن کا اصل انگریزی متن نہیں دیکھا کیونکہ اصل متن میں حضرت بلھے شاہ کا سن وفات 1753 لکھا ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی عمر 78 سال بنتی ہے۔

    جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورژن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں۔

    پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کے حضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔

    حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے۔ پانڈو کے میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہیں۔ اس سے ملحقہ پانڈو خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے جو اب بھی جاری ہے۔

    حضرت بلھے شاہ پانڈو کے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈو کے میں سے گزر رہا تھا کہ اہل دیہہ نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاﺅں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ پر پتھراﺅ شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاﺅں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاﺅں واپس آجائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

    حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔

    مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی، دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔

    حضرت بلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ شاہ تھا لیکن عرف عام میں وہ بلھے شاہ کے nick name سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرف بنانا ایک عام سی بات ہے، بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لئے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر حضرت بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طور پر استعمال کیا۔اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا nick name اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔

    یہ معلوم نہیں کہ حضرت بلھے شاہ کتنا عرصہ قصور میں زیر تعلیم رہے اور وہ کب واپس اپنے گاﺅں گئے اور وہاں ان کی مصروفیات کیا تھیں۔ حضرت بلھے شاہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور دن بھر وہ مویشی چراتے رہتے۔ حضرت بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا یہ حقائق پوشیدہ ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی شاعری میں بھی ان کی شخصی زندگی کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ اس صورتحال میں حضرت بلھے شاہ کی سوانح کو چند ایک حقائق اور بہت سے مفروضات اور قیاسات کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے بارے میں قصے کہانیوں میں بھی ان کی کرامتوں اور غیر معمولی روحانی طاقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے شارحین نے بھی ان کی شاعری کی وضاحت اسی نقطۂ نظرسے کی ہے۔

    بلھے شاہ کی زندگی کے چند ایک واقعات کا بیان بھی ضروری ہے جن سے کم سے کم ان کی افتاد طبع کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک حد تک erratic بھی تھے۔ وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔ وہ نہ صرف پانڈو کی سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔

    حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہوتا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجد کے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہو کر گاﺅں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں کے لوگوں کیلئے odd man out تھے۔ حضرت بلھے شاہ کے وقائع نگار اس کی زندگی کے ہر پہلو کو معجزہ یا کرامت ثابت کرنے کیلئے اسے انسانی خصائص سے محروم کر دیتے ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں بہت قلیل مواد کے باوجود ان کے بعض رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔

    وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔ اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی۔ وہاں حضرت بلھے شاہ کس کام میں مصروف رہے اس کے بارے میں ان کی سوانح حیات خاموش ہے….

    حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو واقعات ہم تک پہنچتے ہیں ان کے مطابق اس میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد، طبیعت میں درویشی کے رجحانات نمایاں تھے۔ اسی ناطے ان کی ابتدائی کرامتوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔

  • جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

    جانثار اختر کو ان کی فلمی شاعری کے علاوہ غزل اور نظم میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں‌ نے اہم سیاسی اور ادبی تحریکوں‌ اور نئے رجحانات کو دیکھا اور کئی بڑے ناموں کے درمیان اپنی شناخت اور پہچان بنائی۔

    18 فروری 1914 کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو بیسویں صدی کا ایک اہم بھارتی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے رکن رہے اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ 19 اگست 1976 کو جانثار اختر ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    جانثار اختر کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد جانثار اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ 1943ء میں ان کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر تھے۔ آزادی کے بعد گوالیار میں فسادات پھوٹ پڑے تو جانثار اختر بھوپال منتقل ہو گئے۔ بھوپال میں انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبے سنبھال لیے۔ بعد میں ان کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ جلد ہی دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے گئے۔

    ممبئی جانثار اختر نے فلمی گیت لکھنا شروع کیا جہاں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور خاص طور پر ان کے وہ خطوط بہت مشہور ہوئے جو انہوں نے اپنی بیوی صفیہ کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط کے مجموعے 1955 میں شائع ہوئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جانثار اختر کے ہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ملتا ہے اور ان کے اشعار میں رومانویت بھی ملتی ہے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’سلاسل‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’پچھلی پہر‘‘، ’’گھر آنگن‘‘ اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔ ’’خاک دل‘‘ وہ مجموعہ ہے جس پر انہیں 1976 میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔

    اس شاعر کو اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے شہرت ملی۔ بعد میں‌ انہوں نے 1967 میں بہو بیگم کے نام سے فلم بنائی اس فلم کا اسکرپٹ بھی خود لکھا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی دوسری فلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے تھے جو بہت کام یاب رہیں۔

  • خیّام: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    خیّام: موسیقی کی دنیا کا ساحر

    ہندوستان کے چند مایہ ناز اور مقبول ترین گیتوں کے موسیقاروں میں ظہور خیام بھی شامل ہیں۔ امراؤ جان اور رضیہ سلطانہ جیسی تاریخی فلموں کے مسحور کن گیتوں کی موسیقی بھی ظہور خیام نے ترتیب دی تھی اور ان کا شمار صفِ اوّل کے میوزک ڈائریکٹروں میں کیا گیا۔

    موسیقار خیام 19 اگست 2019ء کو انتقال کر گئے تھے۔ ان کے فلمی نغمات آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے…نہایت مقبول ہوئے اور ان گیتوں کی یہ مقبولیت صرف بھارت ہی نہیں پاکستان اور برصغیر کے دوسرے ممالک میں بھی آج تک برقرار ہے۔

    خیام کا اصل نام محمد ظہور ہاشمی تھا۔ وہ 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں‌ خیام کے نام سے انھوں نے بے مثال شہرت پائی اور فلموں کے لیے بہت زبردست دھنیں ترتیب دیں۔ سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے خیام کی بطور میوزک ڈائریکٹر فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان کو شہرت ملی۔ ان کی اہلیہ جگجیت کور بھی بھارت کی نام ور گلوکارہ تھیں۔ موسیقار خیام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی تھی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔

    موسیقار خیام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی دیا گیا تھا۔

  • یاقوت الحموی: مسلمان جغرافیہ داں

    یاقوت الحموی: مسلمان جغرافیہ داں

    دنیا جب مسلمان مفکروں‌ اور اہلِ‌ علم شخصیات کا نام لیتی ہے اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کرتی ہے تو ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج ہم علم اور عمل کو ترک کر کے جستجو و سعیٔ سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ یاقوتُ الحموی عالمِ اسلام کا ایک نہایت قابل و باصلاحیت نام ہے جنھیں دنیا ایک جیّد و باکمال مؤرخ اور ماہرِ جغرافیہ مانتی ہے۔

    یاقوت الحموی کو ان کی کتاب معجمُ البلدان نے وہ بے مثال شہرت دی جس کی بدولت ان کا نام آج بھی زندہ ہے اور اس کتاب کا بشمول اردو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جغرافیہ داں یاقوتُ الحموی کی علمی و سائنسی موضوعات پر دیگر کتب بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں جن کو اسلامی دنیا سے باہر مغرب اور یورپ کے بڑے بڑے ناموں نے بھی سراہا ہے۔

    اگرچہ اس مسلمان جغرافیہ کے خاندان اور حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں تاہم محققین نے ان کا سنہ وفات 20 اگست 1229ء بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی پیدائش کا سنہ موجود نہیں‌ ہے یا پھر اس میں اختلاف ہے۔ محققین کے مطابق ان کا اصل اور مکمل نام “شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرّومی البغدادی” تھا۔ خیال ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ انھیں ایک تاجر “عسکرُ الحموی” نے خرید لیا اور اسی نسبت سے یاقوتُ الحموی پکارے گئے۔ ان کے مالک نے انھیں اس غرض سے تعلیم دلوائی کہ وہ ان کے مالِ تجارت اور نفع نقصان کا حساب کتاب کرسکیں۔ یاقوت نے اس دور کے نظامِ تعلیم کے مطابق صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے بھی سیکھے اور جب وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارت کی غرض سے کہیں‌ جاتے تو اس علاقہ اور شہر کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے، اس کے جغرافیہ، تاریخ اور تمدن کو سمجھتے اور یہ شوق اور دل چسپی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔

    انھیں ایک روز انھیں اپنے مالک کی جانب سے آزادی کا پروانہ مل گیا جس کے بعد یاقوت نے اپنے ذوق و شوق کے مطابق علمی میدان کو وسیلۂ روزگار بنایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے سابق آقا کے پاس لوٹ آئے اور تجارتی اسفار میں بطور نگران ان کی معاونت کرنے لگے۔ اس دوران یاقوت الحموی نے کئی منفرد جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں، پھر وہ حلب چلے گئے اور وہاں سے خوارزم پہنچے اور وہیں‌ قیام کیا۔ بعد میں دوبارہ حلب آئے اور وہیں وفات پائی۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر انھوں نے خصوصی باب رقم کیے ہیں۔ یاقوت الحموی نے دور دراز کے اسفار کے دوران جن مختلف مقامات پر قیام کیا اور جو شہر اور قصبات دیکھے، وہاں‌ کے لوگوں کی مدد سے ان کی تفصیل لکھی اور اپنی جغرافیہ کی مہارت سے معلومات کو اس کے ساتھ درج کرکے کتابی شکل میں معجمُ البلدان میں محفوظ کر دیا۔ اس مشہور کتاب میں انھوں‌ نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں بھی سائنسی تصورات کو بیان کیا ہے۔

  • یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    فضل حق خیر آبادی ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ فضل حق کا نام آج تاریخ کے صفحات تک محدود ہے جن کی عملی جدوجہد، سیرت و کردار کا اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہو اور اپنے اجداد پر فخر کرسکے۔ وہ ایک فلسفی، شاعر اور مذہبی عالم تھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1797ء میں علامہ فضل امام فاروق خیرآبادی صدر الصدور دہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد فضل امام اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی و حضرت عبد العزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔

    1809ء میں جب آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی اس وقت تک تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تکمیل کر لی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مصروف رہے اور 1815ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ نواب فیض محمد خاں والی جھجھر (ہریانہ) نے بعد میں انھیں‌ اپنے یہاں بلایا اور پانچ سو روپے نذرانہ پیش کرتے رہے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی جھجھر کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس وقت بہادر شاہ ظفر نے اپنا دوشالہ اتار کر آپ کو اوڑھا دیا اور نم آنکھوں سے گویا ہوئے: "چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں، میرے لیے بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کر لوں لیکن خدا جانتا ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔”

    جھجھر کے بعد آپ مہاراجہ الور کی دعوت پر ریاست الور، پھر نواب ٹونک اس کے بعد نواب رام پور میں ملازمت کی، رام پور کے بعد لکھنؤ کے صدرالصدور اور "حضورتحصیل” کے مہتمم بنائے گئے۔ سہارن پور میں بھی دو سال تک کسی بڑے عہدے پر فائز رہے۔ ایک عرصہ تک دہلی کے سر رشتہ دار بھی رہے۔ مرزا غالب سے علامہ کے پرخلوص اور گہرے تعلقات تھے، کیوں کہ دونوں بالکل ہم سن تھے، دونوں 1797ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1857ء میں لکھ چھوڑ کر ریاست الور چلے گئے۔ اس دوران آپ نے انقلاب کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ مہاراجہ الورکو آپ نے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ علامہ، الور سے مئی 1857ء میں دہلی پہنچے۔ اسی وقت میرٹھ اور دوسری فوجی چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو مسلم فوج ناراض ہو گئی۔ چپاتی اور کمبل کی تقسیم کی خاص اسکیم کے تحت گاؤں گاؤں پہلے سے ہو ہی چکی تھی۔

    10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں اچانک فوجیوں نے بغاوت کر دی، باغی فوجیں 11/ مئی 1857ء کو دہلی پہنچ گئیں، بادشاہ دہلی سرگرمیوں کا مرکز بنے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی بھی شریک مشورہ رہے۔ آپ سے جنرل بخت خاں ملاقات کے لیے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے اپنے ترکش سے آخری تیر نکالا۔

    بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی) میں علماکے سامنے تقریر کی۔ استفتاء پیش کیا۔ مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور دہلی ، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی ، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔ اس فتوی کے منظر عام پرآتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ اپنی فوج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی کرو، تو انھوں نے کہا: "افسوس تو اسی بات کا ہے سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جو ان کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں۔” (بحوالہ: غدر کی صبح شام، ص: 220)

    مولانا فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورما ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔

    بغاوت وسط مئی 1857ء میں شروع ہوئی ، جوں ہی اس کی اطلاع ملی علامہ اہلِ خانہ کو الور چھوڑ کر دہلی آ گئے اور سرگرمی سے بغاوت کی رہنمائی کی، ساتھ ہی حکومت کے دستور عمل کی ترتیب شروع کر دی۔ جولائی میں جنرل بخت خاں کے دہلی آنے پرفتوائے جہاد مرتب کر کے علماکے دستخط کرائے۔ اسی دوران راجہ الوربنے سنگھ کی خبر ارتحال پر الور چلے گئے۔ پھر ایک ماہ بعد واپس دہلی آ گئے۔

    15 دن دہلی میں قیام کر کے الور آئے اور اپنے اہل وعیال کو لے کر اوائل ستمبر میں دہلی آگئے۔ وسط ستمبر میں دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے تمام امرا و متعلقین بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر گھروں میں مال و متاع چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کے شہر چھوڑ کر چلے جانے سے شہریوں پر سراسیمگی طاری ہوگئی، وہ بھی مکان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ جب شہر خالی ہو گیا تو انگریز فوجیں ان کے مکانوں میں داخل ہوئیں اور جو بھی مال و متاع تھا لوٹ لیا۔ باغی سپاہی موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس وقت دہلی میں مولوی عبدالحق اور ان کی والدہ وغیرہ موجود تھیں۔ وہ ان سے ملے، کوئی لشکر اور شہری باقی نہ رہا۔ انگریزوں کا پوری طرح شہر پر تسلط قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے غلہ اور پانی پر قبضہ جما لیا تھا۔ پانچ روز تک اسی طرح بھوکے پیاسے گزار کر اپنی عزیز ترین متاع کتابیں، مال و اسباب چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کر کے اہل وعیال کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ علامہ اپنے وطن خیر آباد ، اودھ کی طرف چلے جا رہے تھے، راستہ خوف ناک اور دشوار تھا۔ انگریز اور اس کا لشکر دن رات علامہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ جاٹوں نے سارے ناکے بند کر دیے تھے۔ کسی گھاٹ پر کوئی کشتی نہ چھوڑی تھی۔ الله تعالی نے علامہ اور ان کے متعلقین کو محفوظ رکھ کر پل اور کشتی کی مدد کے بغیر دریاؤں کو عبور کرا دیا۔ اور اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے سائے میں وہ اپنے وطن میں احباب و رشتہ دار تک پہنچ گئے۔

    اودھ میں بیگم حضرت محل فرنگیوں کے خلاف نبرد آزما تھیں۔ ان کے لشکر کے ساتھ بھی علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ میں شریک ہوئے، لیکن قسمت فرنگیوں کے ساتھ تھی، پے در پے انھیں فتح نصیب ہوتی گئی۔ بیگم حضرت محل اس تباہی و بربادی کے بعد بچے ہوئے تھوڑے سے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹیوں کو عبور کر کے نیپال کی سرحد میں داخل ہو گئیں۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی مسافرت، غربت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے گھر، اہل وعیال تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھتے چلے جارہے تھے کہ امن و امان کا وہ پروانہ جسے ملکہ وکٹوریہ نے جاری کیا تھا اور قسموں سے مؤکد کیا گیا تھا، نظر پڑا۔ اس پروانہ پر بھروسہ کر کے وہ اہل وطن میں پہنچ گئے۔ انھیں بالکل خیال نہ رہا کہ بے ایمان کے عہد و پیان پر بھروسہ اور بے دین کے قسم و یمین پر اعتماد کسی حالت میں درست نہیں۔ تھوڑے دن بعد ہی ایک انگریز حاکم علامہ کو مکان سے بلا کر قید کر دیا اور دارالسلطنت لکھنؤ بھیج دیا۔ ان کا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کیا جو مظلوم پر رحم کرنا ہی نہ جانتا تھا اور آپ کی چغلی ایسے دو مرتد افراد نے کھائی جو آپ سے قرآن کی محکم آیت میں مجادلہ کرتے تھے۔

    انگریزوں نے علامہ کو قید کرنے کے بعد ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنا شروع کیا۔ ان کا جوتا اتار لیا، لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ زم اور بہتر بستر چھین کر خراب ، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ نہ پلیٹ، نہ لوٹا اور نہ کوئی برتن ان کو دیا۔ ماش کی دال گرم پانی کے ساتھ کھلایا جاتا۔ اس طرح جزیرہ انڈمان کے کنارے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچا دیا گیا، جہاں کی آب و ہوا ناموافق تھی۔ سورج ہمیشہ سر پر رہتا، پانی زہر ہلاہل۔

    علامہ متعدد سخت امراض میں مبتلا ہو گئے۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا تھا۔ اور 19 اگست 1861ء میں اس عظیم مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔

    علامہ کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) کی ایک بستی میں ہے جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔

    (ماخوذ از: ذرا یاد کرو قربانی)