Tag: یوم وفات

  • محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    کیسے کیسے گوہرِ نایاب مٹی ہوگئے اور کیا نابغۂ روزگار شخصیات تھیں جو رزقِ خاک ہوئیں۔ وہ ادیب و شاعر جن کے فن کی عظمت کا تذکرہ اور قلم کی رفعت کا شہرہ کبھی ہر طرف ہوتا تھا، آج بتدریج ان کا نام ذہن سے اترتا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، بلند پایہ ادیب اور شاعر محمد حسین آزادؔ کا ہے جن کا آج یوم‌ِ وفات ہے۔ جب بھی اردو ادب کی تاریخ، اور اہلِ قلم کے فن و اسلوب کو موضوع بنایا جائے گا، اپنے زمانے کے اس بے مثل ادیب کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا۔

    بلند پایہ اور صاحبِ طرز انشا پرداز، ناقد، محقق، شاعر اور صحافی محمد حسین آزادؔ کے فن اور ان کی شخصیت پر بات کرنے کو دفتر درکار ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات اور اور زبان و ادب کے لیے خدمات کے کئی پہلو اور بہت سے گوشے تشنۂ تحقیق ہیں۔ جدید نثر کے معمار اور جدید نظم کی داغ بیل ڈالنے والے آزاد نے نیرنگِ خیال جیسی تصنیف کی شکل میں‌ اردو تنقید کو نقشِ اوّل عطا کیا۔ اپنے منفرد و بے مثل اسلوب کے ساتھ آزاد نے اس کتاب میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا ہے۔ اسے نثر کا اعلیٰ نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ آگے ہم آبِ‌ حیات و دیگر کتابوں کا تذکرہ کریں گے، لیکن پہلے ان کے حالاتِ زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    محمد حسین آزاد جنگ آزادی میں بغاوت کے بعد شہادت پانے والے پہلے ہندوستانی صحافی مولوی محمد باقر کے اکلوتے فرزند تھے۔ مولوی باقر اردو کے پہلے اخبار ‘دہلی اردو اخبار’ کے مالک اور ایڈیٹر تھے اور انگریز سامراج کے خلاف مضامین لکھتے اور شایع کرتے تھے۔ 1857 میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جھوٹے الزام میں مولوی باقر کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ محمد باقر تھا ظاہر ہے علمی و ادبی شخصیت تھے استاد ذوق کے دوست تھے۔ اور یوں آزادؔ کو ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے ذوق جیسے شاعر کی صحبت کے سایٔہ عاطفت نصیب ہوا۔ انہی سے موصوف نے شعر گوئی اور فنِ عروض سیکھا۔ عربی اور فارسی اپنے والد سے سیکھی تھی اور بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا۔ شاعری کا شوق تو بچپن ہی میں ہوگیا تھا اور ذوقؔ کے ساتھ بڑے بڑے مشاعروں میں جاتے جہاں استاد شعراء کو سنتے تھے۔ والد کی شہادت کے بعد انھیں گھر بار چھوڑنا اور دہلی سے لکھنؤ فرار ہونا پڑا۔ املاک ضبط کر لی گئی۔ اور لکھنؤ میں رشتے داروں کے پاس رہنا پڑا۔ 1864ء میں ٹھوکریں کھانے کے بعد تلاش روزگار میں لاہور کا رخ کیا۔ ایک پوسٹ آفس میں عارضی ملازمت بھی کی۔ محکمہ تعلیم میں نوکری بھی کی اور انگریزوں کو اردو بھی پڑھائی۔ برطانوی دور کی حکومتِ پنجاب نے ان سے اردو کی درسی نصابی کتابیں بھی لکھوائیں۔ آزاد پر جب قسمت مہربان ہوئی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی فارسی پڑھانے کی ذمہ داری مل گئی۔ معاشی حالات بہتر ہوئے تو آزاد کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملا اور حالی کے ساتھ آزاد کا بھی جدید نظم کے موجدوں‌ میں‌ شمار ہوا۔ انھوں نے ایران، بخارا اور کابل کا سفر بھی کیا۔

    آزادؔ کو ان کے تعلیمی و تصنیفی اور سرکاری کارناموں کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آغا محمد باقر لکھتے ہیں کہ: ‘‘۱۸۸۷ء میں مولانا آزاد ؔ کو ملکہ وکٹوریا کی جوبلی کے موقعہ پرتعلیمی اور ادبی خدمات کے صلے میں شمس العلماء کا خطاب ملا۔’’

    اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کرنے والے محمد حسین آزاد کی شاہ کار اور یادگار تصانیف کا مختصر تعارف باذوق قارئین خاص طور پر ادب کے طلبہ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    آغاز کرتے ہیں قصصِ ہند سے جو تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ اس تصنیف میں پہلا حصہ ماسٹر پیارے لال آشوب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا تیسرا حصہ کرنل ہالرائیڈ کے ایما پر سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے اراکین نے ترتیب دیا اور قصصِ ہند کا دوسرا حصہ محمد حسین آزادؔ کا پہلا ادبی اور علمی کارنامہ ہے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک آزادؔ نے کسی مستقل تصنیف کی طرف توجہ نہیں کی۔ عتیق اﷲ لکھتے ہیں کہ: ’’قصصِ ہند میں کسی خاص عہد یا ہندوستان کی مکمل و مبسوط تاریخ کو موضوع نہیں بنایا گیا ہے بلکہ محض ان چیدہ چیدہ تاریخی شخصیات ہی پر خاص توجہ کی گئی ہے۔ جو مختلف وجہ سے توجہ طلب رہی ہیں۔آزاد نے انہیں بڑی بے تکلف اور حکائی زبان میں اد اکرنے کی سعی کی ہے۔ آزاد نے بڑی حد تک معروضیت کا بھی خیال رکھا ہے ۔ ‘‘

    قصصِ ہند میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، علاء الدّین، ہمایوں، اکبر، نور جہاں، شاہ جہاں، اورنگ زیب، شیوا جی وغیرہ وغیرہ کے کچھ حالات و واقعات کا ذکر ہے۔ اس میں آزاد نے ہندوستان کے کچھ مشہور قصوں کہانیوں کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔

    اب چلتے ہیں آبِ حیات کی طرف جسے مولانا محمد حسین آزادؔ کی شاہکار اور بہترین تصنیف شمار کیا گیا۔ اس میں مشہور شعراء کے حالات مع نمونۂ کلام اور مصنّف دل چسپ انداز میں تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے قبل اس قسم کا تذکرہ کسی نے نہیں لکھا تھا۔ آب حیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے آزاد نے ایک جدید طرز کی تذکرہ نگاری کا آغاز کیا۔ گنجینۂ معلومات ہونے کے علاوہ اس کتاب کی خوبی اس کی بے مثال طرزِ عبارت ہے کہ جس کی نقل کی سب کوشش کرتے آئے ہیں۔

    آزادؔ نے اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ شاعر کے واقعاتِ حیات اور ان کی سرگزشت قلم بند کرنے میں آزاد کے پر لطف اوردل چسپ اسلوب بیان اور ان کی محاکاتی صلاحیتوں نے اسے بڑا دل پذیر بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں کہ ’’آب حیات محض اردو شاعری کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک توانا، متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز ہے جو عہد ماضی کو از سر نو زندہ کرکے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔‘‘

    ناقدین کا کہنا ہے کہ آبِ حیات کے اسلوب میں جو نزاکت اور سادگی موجود ہے وہ بہت کم انشا پردازوں سے صادر ہوئی اور اگرچہ اس میں کئی تذکرے غلط واقعات کے ساتھ ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے، مگر اس کتاب کی ادبی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    اسی طرح دربارِ اکبری کو ایک عالیشان تصنیف کہا جاتا ہے جس میں آزاد ؔ نے بادشاہ اکبر کے عہد اور ان کے اراکینِ سلطنت کا حال درج کیا ہے۔ اس کتاب میں آزاد ؔ نے عہد اکبری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر جیتی جاگتی تصاویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے۔

    اور بات کی جائے نیرنگِ خیال جو کہ محمد حسین آزادؔ کے تمثیلی مضامین کا مجموعہ ہے تو اس کا اسلوب اور طرز بیان نہایت دل نشیں ہے۔ یہ۱۸۸۰ء میں دو حصّوں میں شائع ہوا۔ ان مضامین میں آزادؔ نے تمثیل نگاری سے کام لیا ہے۔ یہ مضامین ہلکی پھلکی اور شگفتہ مضمون نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں آزاد ؔ نے انگریزی ادب سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔

    ان کے علاوہ سخندانِِ فارس آزاد کے مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جو فارسی زبان و ادب سے متعلق ہیں۔ فارسی ادب کے تعلق سے یہ کتاب بہت ہی دل چسپ ہے جس کے دو حصّے ہیں۔ ایک کتاب نگارستانِ فارس بھی ہے جو ایران اور ہندوستان کے فارسی شعراء کا ایک مختصر تذکرہ ہے۔

    آزاد نے نہ صرف اردو نثر کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی تھی۔ انھوں نے تذکرہ نگاری میں منفرد اور اچھوتا انداز اپنایا اور نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ محمد حسین آزادؔ 5 مئی 1830ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ جب چار برس کے تھے تو والدہ کا انتقال ہو گیا اور پھر والد کی شہادت ہوئی۔ بعد میں‌ لاہور میں انھیں دو بڑے صدمات مزید سہنا پڑے اور وہ مخبوط الحواس ہوگئے۔ ان کی زندگی کے آخری کئی برس جنون اور دیوانگی کی حالت میں گزرے۔ اس کی وجہ اہلیہ اور بیٹی کی ناگہانی موت کا صدمہ تھا اور 22 جنوری 1910ء کو لاہور ہی میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔

  • ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    برصغیر میں آزادی کی خاطر انگریزوں فوج سے ٹکرانے والے ہیموں کالانی کا شمار تحریکِ آزادی کے سب سے کم عمر کارکنوں میں ہوتا ہے۔ ہمیوں کالانی کو انگریز سرکار نے پھانسی کی سزا دی تھی۔

    ہیموں کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا۔ پیسو مل کالانی کے گھر پیدا ہونے والے اس بچے کو پیار سے ’ہیموں‘ پکارا جاتا تھا۔ ان کے والد ٹھیکیدار تھے۔ ہیموں 11 مارچ 1923ء کو پیدا ہوئے اور سکھر میں ان کا جیون گزرا۔ ہیموں بچپن میں کھیلوں کے شوقین تھے اور باقاعدگی سے اکھاڑے میں جاتے تھے۔ تیراکی کا شوق بھی تھا۔ ساتھ ہی ہیموں مقامی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے چچا اس وقت سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ اور ان کا مقصد فرنگیوں کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ ہیموں بھی آزادی کا خواب دیکھتے اور کارکنوں کا جوش و جذبہ دیکھتے بڑا ہورہا تھا۔ سکھر یوں بھی سیاسی طور پر ایک بیدار شہر تھا۔ جنگ عظیم، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، کرپس مشن اور اس جیسے کئی واقعات اور تحریکوں نے ہیموں کو بھی ایک جذبے سے سرشار کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اطلاع ملی کہ اسلحے سے بھری فرنگیوں کی ایک ٹرین سکھر آرہی ہے۔ طے پایا کہ پٹڑی اکھاڑ دی جائے۔ اس کام کے لیے جب آزادی کے متوالوں کی طرف دیکھا گیا تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیموں اور ان کے چند ساتھیوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ لیکن کارروائی کرنے کے بعد باقی ساتھ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے جب کہ ہیموں کو پکڑ لیا گیا۔

    ہیموں کو تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اس نے اپنے ساتھیوں کے نام نہیں‌ بتائے۔ اس کا مقدمہ اسپیشل ٹریبیونل میں چلایا گیا جہاں وکیلوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ پیش کیں۔ مگر اسپیشل ٹریبیونل نے اسے بارہ سال کی سزا سنا دی اور بعد میں اسے سزائے موت میں بدل دیا گیا۔ ہیموں نے جان کی قربانی دے کر آزادی کے متوالوں کا جوش و ولولہ بڑھا دیا اور اس کی موت کے چار سال کے اندر اندر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔

    21 جنوری کی صبح ہیموں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس نوجوان نے ابھی صرف میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہیموں کی موت کے بعد سندھ کے شہروں میں احتجاجی اجتماعات ہوئے۔ کراچی میں سوامی نارائن مندر میں سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور سادھو بیلو میں ہیموں کالانی کی تصویر لگائی گئی۔ تقسیم کے بعد ہیموں کالانی کا خاندان بھارت چلا گیا تھا۔

  • سلمیٰ ممتاز:‌ فلمی صنعت کی ایک بے مثال اداکارہ

    سلمیٰ ممتاز:‌ فلمی صنعت کی ایک بے مثال اداکارہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ سلمیٰ ممتاز کو ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا۔ انھوں نے تین دہائیوں تک بڑے پردے پر کام کیا اور بے مثال پرفارمنس سے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کرتی رہیں۔

    اداکارہ سلمیٰ‌ ممتاز کو مرکزی کرداروں کے ساتھ اردو اور پنجابی فلموں میں ماں کے روپ میں بے پناہ شہرت ملی۔ آج پاکستانی فلموں کی صفِ اوّل کی اس اداکارہ کا یومِ وفات ہے۔ 21 جنوری 2012ء کو سلمیٰ‌ ممتاز لاہور میں انتقال کرگئی تھیں۔

    اردو فلموں سے اداکاری کا آغاز کرنے والی سلمیٰ‌ ممتاز بعد میں سماجی موضوعات پر بننے والی پنجابی فلموں میں زیادہ تر ماں کے کردار نبھاتی ہوئی دکھائی دیں۔ اس کی ایک وجہ پنجابی زبان میں ایکشن فلموں کا دور دورہ تھا جس میں وہ پس منظر میں چلی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب بلند آواز سے یا خاص گھن گرج کے ساتھ فلموں میں مکالموں کی ادائیگی پر زور دیا جارہا تھا۔ اداکارہ سلمیٰ‌ ممتاز یہ نہیں کرسکیں اور انھیں انڈسٹری میں مخصوص کردار ہی دیے جانے لگے۔ اداکارہ سلمیٰ ممتاز کی خاص بات یہ تھی کہ ہیروئن کا رول نہ کرنے کے باوجود انھیں فلمی پردے پر بہت پسند کیا گیا اور ان کے کردار یادگار ثابت ہوئے۔

    لگ بھگ تین سو فلموں میں کام کرنے والی سلمیٰ ممتاز کی پہلی فلم دربار بعض کے نزدیک نیلو فر تھی۔ یہ 1958ء کی بات ہے، لیکن ان کو بریک تھرو 1963ء میں بننے والی فلم موج میلہ سے ملا۔ موج میلہ وہ فلم تھی جس میں اداکارہ ولن کی ماں کے روپ میں سامنے آئیں اور لاجواب اداکاری کی۔ فلم کا ولن وہ کردار تھا جس سے سب ڈرتے تھے، لیکن وہ اپنی ماں کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتا تھا۔ اگلے سال فلم ہتھ جوڑی آئی اور یہ بھی اداکارہ کی یادگار فلم تھی۔

    سلمیٰ‌ ممتاز نے یوں تو ماں کے روپ میں‌ کئی فلموں میں عمدہ جذبات نگاری کی، لیکن 1968ء میں ریلیز ہونے والی جگ بیتی میں ان کا کردار لازوال ثابت ہوا۔ یہ ایسی عورت کا کردار تھا جو ہر وقت سَر پر کپڑا باندھے، مصنوعی بیماری کا رونا روتی اور خاص طور پر اپنی بہو اور اپنے پچھلوں کو کوستے ہوئے دن گزارتی تھی۔ گویا یہ معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار تھا جو ہر ایک سے خفا اور شاکی تھا۔ اس عورت کا غصّہ اس وقت آسمان کو چھونے لگتا جب اس کی معصوم پوتی اپنی دادی نقل اتارتی ہے۔

    سلمیٰ‌ ممتاز 1926ء کو جالندھر میں پیدا ہوئیں۔ ان کی زندگی کئی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزری جس میں‌ تقسیم کے بعد ہجرت اور پاکستان میں‌ قیام اور معاشی حالات کے ساتھ زندگی کی کئی تلخیاں شامل ہیں، ان کا اصل نام ممتاز بیگم تھا۔ انھوں نے ریڈیو کے ڈراموں میں بھی کام کیا۔انھوں نے معاون اداکارہ کے علاوہ کیریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ انھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کا تجربہ بھی کیا۔

    اداکارہ سلمیٰ ممتاز نے محمد علی، وحید مراد، شاہد اور سدھیر کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ فلم ’ہیر رانجھا‘ میں انھوں نے ہیر کی ماں کا کردار ادا کیا تھا جس میں مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔

    وہ ایسی خاتون تھیں جسے فلم انڈسٹری میں بہت عزّت اور احترام ملا اور انھوں نے پُروقار انداز سے اپنا فنی سفر تمام کیا۔

  • رتن ناتھ سرشار: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    رتن ناتھ سرشار: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    اردو ادب رتن ناتھ سرشار کو ناول کا بنیادی تصوّر عطا کرنے والے ایک ادیب کے طور پر جانتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے دوش بہ دوش انھوں نے بھی ناول نگاری کے اوّلین دور میں اپنی تخلیقات سے ملک گیر شہرت پائی۔

    یہ 1878ء کے قریب کا وہ دور تھا جب انگریزی اثرات کے زیرِ اثر اردو ناول کا خاکہ مرتب ہو رہا تھا۔ اس دور میں سرشار کا مشہور ناول فسانۂ آزاد، اودھ اخبار میں شائع ہونا شروع ہوا۔ آج مصنّف، شاعر اور باکمال مترجم رتن ناتھ سرشار کا یومِ وفات ہے۔

    سرشار 1847ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق کشمیری برہمن خاندان سے تھا جو تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ میں آباد ہوگیا تھا۔ سرشار نے اپنے دور کے رواج کے مطابق تعلیم مکمل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ والد کا انتقال ہوا تو رتن ناتھ سرشار چار برس کے تھے۔ بعد میں اپنی قابلیت سے ایک اسکول میں مدرس ہوگئے اور لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اودھ اخبار اور مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھتے تھے اور جلد ہی شہرت حاصل کر لی۔ 1878ء میں انھیں اودھ اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ ان کے مشہور ناول یعنی فسانۂ آزاد کے لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔ کچھ عرصہ تک الہٰ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے اور مہا راجا کشن پرساد سے وظیفہ ملنے لگا۔

    سرشار کا پہلا مضمون ایک رسالہ ”مراسلہ کشمیر“ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ سرشار کے کئی مضمون ”سررشتہ تعلیم اودھ، ریاض الاخبار، اودھ پنچ“ وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ سرشار کی مشہور تصانیف میں سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار شامل ہیں۔ رتن ناتھ سرشار کا ایک کارنامہ الف لیلہ کا فصیح و بلیغ اردو ترجمہ بھی ہے۔ اس ترجمہ کو برصغیر میں بہت مقبولیت ملی۔

    فسانۂ آزاد سرشار کا وہ مشہور ناول ہے جس میں لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں تصویریں‌ ابھرتی ہیں۔ اس شہر کی سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے جسے اکثر اردو ادب میں داستان کہا گیا ہے۔ فسانۂ آزاد پر اگرچہ کئی اعتراضات کیے گئے ہیں لیکن آج بھی فسانۂ آزاد سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جسے اودھ اخبار کے لیے قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    1903ء میں رتن ناتھ سرشار آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    (بھارت کے معروف شاعر و مصنف اجمل اجملی کے ایک مضمون سے ماخوذ)

  • دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے بادشاہ کہلانے والے دلاور فگار نے ایک زمانے میں عام آدمی کے مسائل اور اس کی مشکلات کو اپنے اشعار کی صورت میں اربابِ حلّ و عقد تک پہنچانے کا کام کیا۔ ان کی شاعری گویا عوام کی آواز تھی۔

    دلاور فگار مشاعروں میں اپنے ظریفانہ کلام اور انداز کی وجہ سے خوب داد وصول کرتے تھے۔ انھیں اردو کے مزاح گو شعراء میں شہنشاہِ ظرافت کے نام سے شہرت اور امتیاز حاصل ہوا۔ دلاور فگار 21 جنوری 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    عام آدمی کے مسائل اور دکھوں کو قہقہوں کی پوشاک میں لپیٹ کر طنزیہ انداز میں حکم رانوں کے سامنے لانے والے دلاور فگار کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ایک تخلیق کار اور معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر مبنی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلاور فگار نے شباب بدایونی کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ بعنوان حادثہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ اس وقت تک وہ بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ بھارت میں قیام کے دوران ان کا تعلیمی اور ادبی سفر تھا اور پھر وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

  • جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    انڈین سول سروس سے وابستہ کنبے کے گھر میں آنکھ کھولنے والے ایرک آرتھر بلیئر کو دنیا جار آرویل کے قلمی نام جانتی ہے۔ ہندوستان میں‌ ان کی تصنیفات کا اردو ترجمہ ہوا تو یہاں انھیں بہت مقبولیت ملی۔ جارج آرویل ایک ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    آرویل کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ آرویل یہیں پیدا ہوئے۔ مگر ایک سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور پھر کبھی ہندوستان نہیں آسکے، لیکن یہاں ان کو اپنے قلمی نام سے خوب شہرت ملی۔

    جارج آرویل نے 1903ء میں برطانوی دور میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے اپنے زمانہ میں کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ ان تجربات اور مشاہدات کو آرویل نے قلم بند کیا۔ 1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں آرویل کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ شایع ہوا تو دنیا بھر میں‌ ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور بشمول اردو اور دنیا کی متعدد زبانوں میں‌ اس کا ترجمہ کیا گیا۔

    1949ء میں جارج آرویل نے ایک خیالی دنیا پر ناول بعنوان ”1984“ سپردِ قلم کیا اور یہ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ثابت ہوا۔ اس ناول میں مصنّف نے ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہیں رکھ سکتے جو سرکار کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    مطلق العنانی کس طرح انسانی سوچ کو جکڑ لیتی ہے، اس موضوع پر برطانوی مصنف جارج آرویل کا یہ ناول ہمیں دنیا کی کئی حکومتوں اور وہاں کے حالات کے تناظر میں بہت حد تک حقیقت دکھائی دیتا ہے۔

    21 جنوری 1950ء کو انتقال کرنے والے جارج آرویل شاعر بھی تھے۔

  • منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    ٹیلی ویژن ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والوں کی ایک نسل ہی نہیں‌ ان کے بعد آنے والے بھی منّو بھائی کے مداح ہوگئے اور آج بھی اس ڈرامے کو ہر طبقہ و عمر کا فرد دیکھنا پسند کرے گا۔ اس ڈرامے کے خالق منّو بھائی بھی اپنے مقبولِ عام کرداروں یعنی سونا اور چاندی کی طرح‌ ہمارے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔

    معروف ادیب، کالم نگار اور کئی مقبول کھیلوں کے مصنّف منّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں‌ نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ارد گرد پھیلی ہوئی کہانیوں کو اپنے ڈراموں‌ کا موضوع بنایا اور ان کے کردار بھی گلی محلّے میں چلتے پھرتے لوگ اور ان کے معمولات تھے۔ سونا چاندی بھی ایک سادہ لوح دیہاتی جوڑے کی کہانی ہے جو شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے اور ان کی توسط سے شہری زندگی اور معاشرے کے بہت سے تضاد اور نشیب و فراز سامنے آتے ہیں۔

    منّو بھائی کو ایک گوہرِ نایاب کہنا چاہیے کہ جن کا قلم بامقصد، تعمیری اور مفید تحریروں کے لیے متحرک رہا۔ انھیں ڈرامہ نگار اور کالم نویس کے طور پر شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے کالموں میں سماجی برائیوں اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور ساتھ ہی اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ منّو بھائی نے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میں کون‘‘ بھی تحریر کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    منّو بھائی نے صحافت بھی کی اور کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھوں‌ نے سلسلہ وار اور طویل دورانیے کے کھیل بھی لکھے۔ ان کا تحریر کردہ سلسلے وار کھیل ’’آشیانہ‘‘ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل پر مبنی تھا جب کہ مشہور ڈرامہ ’’دشت‘‘ بلوچستان کی ثقافت اور روایات کی عکاسی تھی۔ منّو بھائی نے مشہور ڈرامہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی، جسے دیہاتی زندگی اور کردار نگاری میں شان دار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ سیریل سونا چاندی کے علاوہ ان کے طویل دورانیے کے کھیل ’’خوب صورت‘‘ اور ’’گم شدہ‘‘ آج بھی ذہنوں میں‌ محفوظ ہیں۔

    6 فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں آنکھ کھولنے والے منّو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میں ملازم تھے جب کہ پنجابی زبان کے مشہور شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی نے 1947ء میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور(اٹک) چلے گئے جہاں اساتذہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا اور وہ پنجابی زبان میں‌ شاعری کرنے لگے۔ بعدازاں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور رپورٹنگ کے ساتھ کالم نویسی شروع کردی۔ وہ ’’گریبان‘‘ کے نام سے مؤقر اخبارات میں‌ لکھتے رہے۔ وہ اپنی فکاہیہ تحریروں میں معاشرے کی برائیوں اور انفرادی رویّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر اظہارِ‌ خیال کرتے تھے جنھیں قارئین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ کالم نویسی کے ساتھ انھوں نے پنجابی میں شاعری بھی جاری رکھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموں کا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔

    2007ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے اسلامی، ہندو مت، بدھ ازم کے ساتھ مغل دور اور پنجاب میں زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے اپنے فن پاروں میں پیش کیا کہ مصوّرِ مشرق مشہور ہوئے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے فن پارے دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    17 جنوری 1975ء کو عبدالرحمٰن چغتائی لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    نام ور مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق عہدِ شاہ جہانی کے مشہور معمار خاندان سے تھا، اور اس گھرانے کے ہنر مندوں نے تاج محل، جامع مسجد دہلی، اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے دادا رنجیت سنگھ کے میرِ تعمیرات بھی رہے۔ چغتائی صاحب کو مصوری کا شوق ہوا تو ابتدائی کوششوں کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور میں داخلہ لیا اور ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا، پھر استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

    وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اور ان کے افسانوں پر مشتمل دو مجموعے بھی شایع ہوئے تھے۔

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو بامقصد اور تعمیری فکر کو پروان چڑھانے کے لیے قلم سے کام لیتے تھے وہ ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت امریکی اخبار سے 40 سال بطور کالم نویس منسلک رہے۔ بکوالڈ کو امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور نکتہ بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سمجھا اور سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ قارئین تک پہنچایا۔ آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    چار دہائیوں کے دوران جہاں آرٹ بکوالڈ نے کالم نگاری کی وہیں ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ آرٹ بکوالڈ کے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات اور ان کے تیکھے جملوں نے سنجیدہ و باشعور امریکی عوام اور دنیا بھر میں اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘ ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ جلد وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

  • ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک کو بولی وڈ فلم فلم ’کہو نہ پیا ر ہے‘ سے بطور گیت نگار بے مثال شہرت ملی۔ بولی وڈ کی اس کام یاب فلم میں اداکار ریتھک روشن پہلی مرتبہ بطور ہیرو اسکرین پر نظر آئے تھے۔ فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور ابراہیم اشک کا بولی وڈ میں سفر اسی فلم کی بدولت آگے بڑھا۔

    ابراہیم اشک بھارت کے ان شاعروں اور اہلِ‌ قلم میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھا۔ وہ 16 جنوری 2022ء کو ممبئی میں کورونا کی وبا میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی تیسری برسی ہے۔ ابراہیم اشک کو ممبئی کے نواح میں قائم ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ ہفتہ بھر زیر علاج رہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    شاعری کے ساتھ ابراہیم اشک نے کہانیاں اور ٹی وی ڈراموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کا پیشہ صحافت تھا۔ وہ ہندوستان کے متعدد اردو اخبارات سے منسلک رہے۔ ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، وہ بھارت کے معروف شعرا میں سے ایک تھے۔ ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ابراہیم اشک کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا ثبوت ہیں۔

    مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک کا تعلق اجین، مدھیہ پردیش سے تھا جہاں وہ 20 جولائی 1951ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی مکمل ہوئی، بعد میں ابراہیم اشک نے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔

    وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئے تو اشک تخلّص اختیار کیا۔ بولی وڈ کی فلموں کہو نہ پیار ہے کے علاوہ کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے وہ فلمیں تھیں جن کے گیت ابراہیم اشک نے تحریر کیے اور ان فلموں کے گیت مقبول ہوئے۔ بھارتی فلم انڈسٹری اور گائیکی کی دنیا کے معروف ناموں نے ان کے تحریر کردہ نغمات گائے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    فلم کہو نہ پیار ہے، جس نے بطور نغمہ نگار ابراہیم اشک کو مقبولیت دی، اس کے گیتوں کو شاعر کی کام یابی میں اوّلین اور سرفہرست کہا جاسکتا ہے۔ اس فلم کی ہدایات ریتھک روشن کے والد راکیش روشن نے دی تھیں۔ فلم میں ریتھک روشن کے مقابل امیشا پٹیل ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوئی تھیں۔ فلم کے دوسرے کرداروں میں انوپم کھیر، جونی لیور اور فریدہ جلال شامل تھیں۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ بات فلم بینوں کے لیے دل چسپی سے خالی نہ تھی کہ ہیروئن کا کردار بولی وڈ اداکارہ کرینہ کپور کو آفر کیا گیا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد امیشا پٹیل نے اس فلم میں کام کیا۔ فلم نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔ اس سال فلم کہو نہ پیار ہے کی ریلیز کو 25 سال مکمل ہوگئے ہیں۔