Tag: یوم وفات

  • منور رانا:‌ مقبول شاعر اور نثر نگار

    منور رانا:‌ مقبول شاعر اور نثر نگار

    کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے منور رانا ہندوستان کے ایسے شاعر تھے جو بیرونِ ملک بھی اردو شاعری پڑھنے اور سمجھنے والوں میں مقبول تھے وہ ایک کام یاب شاعر تھے جنھیں خاص طور پر مشاعروں میں حاضرین دیر تک سننا پسند کرتے تھے۔ منور رانا کی مقبول ترین نظم ’ماں‘ اور ’مہاجر نامہ‘ ہیں۔

    اردو کے معروف شاعر منور رانا کو 2014 میں ان کی نظم ’شہ دابا‘ پر ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ دیا گیا تھا، لیکن بھارت میں عدم برداشت اور بڑھتی ہوئی ناانصافی پر احتجاجاً منور رانا نے یہ ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ ان کی اردو ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2012 میں ’ماٹی ایوارڈ‘ جب کہ وہ امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ سمیت دیگر کئی ادبی ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔

    منور رانا کو ہندوستان میں اردو زبان اور شعرو شاعری کے حوالے سے ان کے بعض بیانات کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعرات کی اکثریت دوسروں سے کلام لکھواتی ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ منور رانا اس بات سے سخت نالاں تھے کہ موجودہ دور میں‌ مشاعروں کا انعقاد تجارتی سوچ کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پست اور غیرمعیاری شاعری عوام تک پہنچ رہی ہے۔ بھارت میں اردو زبان اور شاعری کے حوالے سے منور رانا کو ہر تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا اور لوگ ان کا کلام بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ منور رانا ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ منور رانا کا پہلا شعری مجموعہ ‘آغاز’ 1971ء میں شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں سرحد، مہاجر نامہ، ماں، دیگر کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ اُن کی نثر پر مشتمل کتاب ‘بغیر نقشے کا مکان’ بہت مقبول ہوئی۔ جنگلی پھول، سخن سرائے، چہرے یاد رہتے ہیں اور سفید جنگلی کبوتر بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔

    شاعر منور رانا کا اصل نام سید منور علی تھا۔ وہ 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون تھا۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی تو ان کو لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں سینٹ جانس ہائی اسکول میں مزید تعلیم پائی۔ والد کا تبادلہ ہوا تو 1968ء میں منور رانا کو بھی کلکتہ جانا پڑا اور وہاں سے ہائر سیکنڈری کی سند لی اور پھر گریجویشن کے لیے کلکتہ کا رخ کیا۔ منور رانا کے ادبی ذوق و شوق کا سبب ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی رہے اور بعد میں اسی شوق نے انھیں شاعر بنا دیا۔

    زمانۂ طالب علمی سے ہی منور رانا کو فلم اور شاعری کا شوق رہا۔ انھیں فلمی اداکاروں کی آوازوں کی نقالی میں بھی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ خاص طور پر فلم اسٹار شتروگھن سنہا کی آواز کی نقالی پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا تھا۔ منور رانا نے چند افسانے اور مختصر کہانیاں بھی لکھیں جو مقامی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    اردو شاعری میں غزل کو وسیلۂ اظہار بنانے والے منور رانا نے ابتداً منور علی آتش کے قلمی نام سے شاعری شروع کی اور ان کی پہلی تخلیق 1972ء میں کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ بعد میں تخلص شاداں رکھ لیا اور 1977ء میں ایک مرتبہ منورؔ رانا بن گئے اور بے مثال شہرت پائی۔

    منور رانا پچھلے سال 14 جنوری کو انتقال کرگئے تھے، انھیں لکھنؤ کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ 71 سالہ منور رانا 2017ء سے گلے کے کینسر، دل اور گردے کے عوارض میں مبتلا تھے اور طبیعت خراب ہونے پر انھیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ ان کا ایک شعر ہے:

    جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم
    اے زمیں اک دن تری خوراک ہو جائیں گے ہم

  • پروفیسر احمد علی:‌ اردو اور انگریزی زبان کے معروف ادیب اور نقّاد

    پروفیسر احمد علی:‌ اردو اور انگریزی زبان کے معروف ادیب اور نقّاد

    اردو میں ترقی پسند ادب کی داغ بیل ڈالنے میں بنیادی اور اہمیت کا حامل ایک نام پروفیسر احمد علی کا ہے۔ وہ اردو اور انگریزی زبان کے معروف ادیب، نقّاد اور دانش وَر تھے جنھوں نے دونوں زبانوں میں اہم موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں۔

    ادبی محاذ پر پروفیسر صاحب اپنے نظریات کے ساتھ تنقیدی مضامین، ناول اور افسانہ نگاری کے علاوہ ترجمہ کرنے کے حوالے سے پہچانے گئے۔ 14 جنوری 1994ء کو کراچی میں وفات پانے والے پروفیسر احمد علی کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 1910ء میں پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ جاری رکھا اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ بعد میں‌ اپنی تنقیدی بصیرت کا اظہار مضامین میں کیا۔ پروفیسر احمد علی نے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا ایک افسانہ، اردو افسانوں کے مشہور اور متنازع مجموعے انگارے میں بھی شامل تھا۔ اس مجموعے میں یوں تو احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر، رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے بھی شامل تھے لیکن مذہبی اور اخلاقی ضابطوں کے حوالے سے اعتراضات اور تنقید سب سے زیادہ پروفیسر احمد علی اور سجاد ظہیر کے افسانوں ہی پر ہوئی اور یہ وہ افسانے تھے جن میں مصنفین کی جرأت اور بے باکی کی جھلک واضح تھی۔ ان افسانوں نے اس وقت سماج کو چونکانے سے زیادہ جھنجھوڑنے کا کام کیا اور یہی بات خاص فکر کے حامل لوگوں کو قبول نہ تھی۔ ’’انگارے‘‘ کے خلاف رد عمل اتنا شدید تھا کہ حکومت نے قانون کی آڑ لے کر اس کتاب کو ضبط کر لیا اور اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی۔

    اردو دنیا کے ممتاز شاعر، ادیب اور جیّد صحافی چراغ حسن حسرت بھی پروفیسر احمد علی کے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ ان قد آور شخصیات کی نوک جھونک اور آپس میں ہنسی مذاق بھی بڑا لطف دیتی ہے۔ پروفیسر صاحب کی شکل و صورت پر حسرت نے ایک موقع کی مناسبت سے بڑی دل چسپ بات کی تھی جسے اردو کے نام وَر مزاح گو شاعر ضمیر جعفری نے رقم کیا ہے۔ آج پروفیسر احمد علی کی برسی پر یہ قصّہ مرحوم کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد (ضمیر جعفری چراغ حسن حسرت کو مرشد کہتے تھے) کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔ لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سو کر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔ فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    ضمیر جعفری لکھتے ہیں، پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔ بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگا پور پر چھوڑ رکھا تھا۔

    پروفیسر احمد علی نے قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی تصانیف میں ہماری گلی، شعلے اور قید خانہ کے علاوہ انگریزی زبان میں لکھی گئیںMuslim China ، Ocean of Night ،The Golden Tradition ،Twilight in Delhi اور Of Rats and Diplomats شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب نے انگریزی زبان میں ناول کے علاوہ کئی موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔

    معروف ادیب اور نقاد پروفیسر احمد علی کو ستارۂ قائداعظم عطا کیا گیا تھا۔

  • خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتش کلاسیکی اردو غزل کے ابتدائی ادوار کے سرفہرست شعراء میں سے ایک تھے۔ آتش نے اردو غزل کو علم و بیان و بدیع کے جملہ محاسنِ شعری سے مزین کیا اور ان کی شاعری میں کلاسیکی روایت سے جڑے سبھی موضوعات اور اسالیب و شعری تلازموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

    آتش کے کلام میں روایتی موضوعات سے لے کر جدید مباحث اور فکر و فلسفہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ تصوف سے گہرا لگاؤ اور اخلاقی موضوعات کے بارے میں آتش کا نکتہ نظر منفرد اور دلآویز ہے۔ آج اپنے زمانے کے ممتاز اور معتبر شاعر خواجہ حیدر علی آتش کا یوم وفات ہے۔

    مولانا محمد حسین آزاد ؔ جیسے بڑے ادیب اور نقاد نے آتش کے گزر بسر کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ”زمانے نے ان کی تصاویرِ مضمون کی قدر ہی نہیں کی بلکہ پرستش کی مگر انھوں نے اس کی جاہِ حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جاکر غزلیں سنائیں، نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس کی چھت کچھ چھپر سایہ کیے تھے، بوریا بچھا رہتا تھا۔ اسی پر لُنگ باندھے صبر و قناعت سے بیٹھے رہے اور عمرِ چند روزہ کو اس طرح گزار دیا جیسے کوئی بے نیاز فقیر تکیے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آجاتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے، امیر آتا تو دھتکار دیتے، وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے، یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بورے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے؟ یہ تو فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں؟″

    آتش کے خاندان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت تذکروں میں نہیں ملتے۔ البتہ مصحفیؔ لکھتے ہیں: ”آتشؔ کا نسب نامہ خواجہ عبداللہ احرار تک پہنچتا ہے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا، وطنِ قدیم چھوڑ کر دلّی میں آبسے اور قلعہ کہنہ میں آباد ہو گئے۔”

    خواجہ حیدر علی آتشؔ کے والد کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلّی کے باشندے تھے۔ بعد میں دلّی چھوڑ کر فیض آباد آگئے اور یہیں خواجہ حیدر علی پیدا ہوئے۔ آتش کی تاریخِ ولادت بھی درست معلوم نہیں۔ لیکن سنہ 1778ء لکھا گیا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش گورے، چٹے اور جوانِ رعنا تھے۔ تعلیم کا سلسلہ معقول حد تک چلا اور ابتدائے موزونی طبع سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے۔ آتش نے نوجوانی میں تعلیم ضروری حد تک حاصل کر لی تھی لیکن کئی ادبی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش بانکے اور آزاد منش شاعر تھے۔ نواب محمد تقی خاں کی سرکار میں ملازم ہوگئے تھے اور فیض آباد میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی فوج میں ملازمت تھی اور معلوم نہیں کہ کس سپاہ میں ملازم تھے اور کب اور کس عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ تذکرہ نگاروں نے بھی خواجہ صاحب کی زندگی کے حالات و اقعات کو اکٹھا کرنے اور کھوجنے کی کوشش بہت نہیں کی۔

    خواجہ حیدر علی آتش کی شادی کا ذکر عبدالرّؤف عشرت نے اپنے تذکرہ آبِ بقا میں اس طرح کیا ہے۔ ”نواز گنج کے قریب چوٹیوں سے آگے مادھو لال کی چڑھائی مشہور ہے۔ وہاں سے اتر کر ایک چھوٹا سا باغیچہ اور ایک کچا مکان تھا۔ وہ آتش نے خرید لیا اور اسی میں رہنے لگے۔ مکان لینے کے بعد آتش نے اپنا نکاح کسی شریف خاندان میں کر لیا۔ ”

    آتش نے فیض آباد سے ترکِ سکونت کیا اور لکھنؤ آگئے کیونکہ آصف الدولہ نے اس شہر کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔ آتش غزل گو شاعر تھے اور ان کا کمال اسی صنفِ سخن میں ظاہر ہوا۔ ادھر آتش کو لکھنؤ کی فضا میں اپنے دور کے نمائندہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    خواجہ صاحب کے اشعار میں مزاج اور اظہار کا وہ منفرد انداز واضح ہے جو کسی بھی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ ان اشعار میں ندرتِ ادا بھی ہے اور تازگی بھی اور یہی آتش کی پہچان ہے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے۔

    ایک شعر دیکھیے؎
    آئے بھی، بیٹھے بھی، اُٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

    اور یہ شعر بھی ملاحظہ ہو؎
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

    خواجہ حیدر علی آتش کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام ایک دوست نے کیا۔ آج آتش کا گھر ہے نہ ان کی قبر کا کوئی نشان۔ سنہ وفات 1847ء ہے۔ مصحفی سے لے کر عشرت تک کے تمام تذکرہ نگاروں میں آتش کو مقبول و محبوب شاعر قرار دیا ہے۔

  • جیمز جوائس: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    جیمز جوائس: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    ’’یولیسس‘‘، کے خالق کا نام جیمز جوائس تھا جس نے عالمی ادب میں پہچان بنائی اور بالخصوص اپنے اس ناول کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی۔ یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور کئی ممالک میں اس کی شاعت پر پابندی تھی، لیکن یہی ناول مصنف کی شاہکار تخلیق بھی کہلایا۔ ’’یولیسس‘‘ کو دنیا کے بہترین ناولوں کی فہرست میں‌ شامل کیا گیا اور اس کہانی پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔

    جیمز جوائس ناول نگار، افسانہ نویس اور شاعر ہی نہیں ادبی نقاد بھی تھا۔ اس نے مغربی ادب میں ’’جدیدیت‘‘ کی تحریک میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ 13 جنوری 1941ء کو جیمز جوائس چل بسا تھا۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کے ایک متمول خاندان میں جیمز جوائس نے سنہ 1882ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک ذہین طالبِ علم رہا۔ لیکن فرانس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل نہیں‌ کرسکا۔ اس کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی زمانہ آسودہ حالی اور راحت کے ساتھ گزرا لیکن بعد میں زندگی اس کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ ایک سے زائد شادیوں کے علاوہ بیٹی کی بیماری اور دوسرے مسائل نے جیمز جوائس کو ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا رکھا لیکن بطور ناول نگار اس کی شہرت اور مقبولیت بھی اسی زمانہ میں اس کی ایک کام یابی تھی۔ جیمز جوائس آئرش زبان کا سب سے مقبول ادیب کہلایا اور اس کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں کیے گئے۔

    جیمز جوائس کی پہلی کتاب ’’ڈبلنرز‘‘ افسانوں کا مجموعہ تھی۔ اس کے بعد تین ناول ’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز ینگ مین‘‘ اور ’’فنیگینز ویک‘‘ سامنے آئے اور پھر ’’یولیسس‘‘ کی اشاعت نے جیمز جوائس کی شہرت میں اضافہ کیا۔ شاعری کی بات کریں تو جیمز جوائس نے چار شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اس کی نظموں کا مجموعہ 1907ء میں شایع ہوا تھا جب کہ ’’یولیسس‘‘ (Ulysses) کی اشاعت 1922ء میں پیرس میں ہوئی۔ اسے یہ نام ’’ہومر‘‘ کی طویل نظم ’’اوڈیسی‘‘ کے ایک کردار سے متاثر ہوکر دیا گیا تھا۔ ناول کی اشاعت کے بعد جیمز جوئس پر الزامات کی بھرمار ہوگئی۔ امریکا اور برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ برطانیہ میں 1936 تک جمیز جوئس کے کام کی اشاعت ممنوع تھی۔ اس ناول میں جنسی تعلقات ہی نہیں گالیوں اور ہیجان انگیز باتوں کے علاوہ کچھ کراہت آمیز منظر پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا تعلق بیتُ الخلا یا نجی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ جب مصنّف کو معاشرہ اور ادبی دنیا میں بھی الزامات کا سامنا تھا، تو سوئٹزر لینڈ کے مشہور ماہرِ نفسیات نے اسے ایک حوصلہ افزا اور توصیفی خط لکھا۔ یہ ماہرِ نفسیات کارل گستاؤ ژونگ تھے۔ ان کا یہ خط بہت مشہور ہوا جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔

    محترم،
    آپ کے تصنیف کردہ ناول یولیسس (Ulysses) نے دنیا بھر کے سامنے ایک ایسے دردناک نفسیاتی مسئلے کو پیش کیا ہے کہ مجھ سے نفسیاتی مسائل کے ضمن میں ایک ممکنہ ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے بارہا رابطہ ہوا ہے۔

    یولیسس کی پڑھت ایک انتہائی مشکل امر ثابت ہوئی جس نے میرے ذہن کو نہ صرف خوب رگیدا بلکہ (ایک سائنس دان کے زاویہ نگاہ کے مطابق) غیر ضروری طور پر اِدھراُدھر بھٹکایا۔ آپ کی کتاب میرے واسطے کلیتاً لوہے کا چنا ثابت ہوئی اور ایک قاری کی حیثیت سے اس کتاب کو کھولنے میں مجھے تقریباً تین برس کی مستقل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ تاہم مجھے آپ کو یہ بات لازماً بتانی چاہیے کہ میں آپ کا اور آپ کے عظیم فن پارے کا نہایت گہرائی سے ممنون ہوں۔ کیوں کہ مجھے اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس بات کا دعویٰ کبھی نہیں کر پاؤں گا کہ میں اس کتاب کی پڑھت سے لطف اندوز ہوا، کیوں کہ اس کے واسطے ذہانت اور بے پناہ ذہنی مشقت درکار تھی۔ اس بات سے بھی انجان ہوں کہ آپ یولیسس پر لکھے ہوئے میرے مضمون سے لطف اندوز ہوں گے یا نہیں، کیوں کہ دنیا کو یہ بات بتانے سے میں خود کو نہیں روک سکا کہ اس پڑھت کے دوران میں نے کس قدر بیزاری کا سامنا کیا، چیخا چلاّیا، برا بھلا کہا اور تعریف کی۔ چالیس صفحوں کی لگاتار بھاگ دوڑ کا نتیجہ، درحقیقت کھرے نفسیاتی ثمرات کی صورت میں سامنے موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری بہ نسبت شیطان کی پڑنانی، عورت کی اصل نفسیات سے زیادہ آگاہ ہے۔

    خیر میں آپ کو تجویز دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے مختصر مضمون کو ملاحظہ کیجیے۔ یعنی ایک مکمل اجنبی شخص کی جانب سے ہونے والی ایک دل چسپ کاوش، جو آپ کے ناول یولیسس کی بھول بھلیوں میں بھٹکا اور شومئ قسمت سے بچ نکلا۔ میری تحریر سے آپ کو ان تمام احوال سے آگاہی مل جائے گی کہ ممکنہ طور پر ایک متوازن ماہرِ نفسیات پہ یولیسس نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔

    جناب! دل کی گہرائیوں کے ساتھ

    آپ کا وفادار
    کارل گستاؤ ژونگ

    تھیٹر پلے ’’ایگزائیلز‘‘ کے علاوہ مصنّف کے رومانوی خطوط پر مشتمل تین کتابیں بھی بہت پسند کی گئیں۔ جیمز جوائس کو بیسویں صدی کے بااثر اور اہم ترین قلم کاروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ جیمز جوائس کی کہانیوں کو آج بھی سراہا جاتا ہے اور اس کی یاد میں ادبی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔

  • عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    فنِ مصوّری کا ایک معروف نام عسکری میاں ایرانی کا ہے، جن کا خاص موضوع منی ایچر آرٹ رہا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل عسکری میاں ایرانی نے اس میڈیم میں خوب جم کر کام کیا اور ان کے فن پارے آج بھی مختلف آرٹ گیلریز کی زینت ہیں۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    مصوری کی دنیا میں عسکری میاں ایرانی کا نام ایسے پاکستانی کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے آگے بڑھایا اور فن پارے تخلیق کیے۔ اس فن سے متعلق محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس مصوری کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مصوری کی اس صنف یعنی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جا کر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے استاد بھی بہت اس زمانے میں‌ گنے چنے تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں آن بسے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے فن کار ہی نہیں ماہر مصور بھی یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے۔ یہیں سے ان کو مصوّری کا شوق ہوا۔ ابتدائی کوششوں اور اس فن میں دل چسپی لینے کے بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور پھر بسلسلۂ روزگار کراچی چلے گئے۔ اس شہر میں ان کا فنی سفر بھی جاری رہا اور عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کی۔ عسکری میاں ایرانی ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا لیکن اسی فن کو اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کر کے انھوں نے شہرت بھی پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے عسکری میاں ایرانی کو 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی دیا اور بعد از مرگ 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

    ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن پر گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم کی آواز میں نشر ہونے والی یہ غزل آج بھی ہماری سماعتوں میں تازہ ہے۔ اس کے اشعار ہمارے دل پر گویا نقش ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے اس لافانی غزل کے خالق کا نام ہے حفیظ ہوشیار پوری جو 10 جنوری 1973ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اس معروف شاعر کی برسی ہے۔

    ایک طرف تو اس غزل کے اشعار سلاست، سادگی، روانی اور سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہیں اور دوسری جانب گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم نے بھی اس کلام کو جس انداز سے گایا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    حفیظ، یکم جنوری 1912ء کو جھنگ کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئے، مگر اپنے آبائی علاقہ ہوشیار پور کی نسبت اپنے نام سے جوڑی اور حفیظ ہوشیار پوری مشہور ہوئے۔ حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبد الحفیظ سلیم تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیار پور سے حاصل کی۔ 1936ء میں فلسفے میں بی اے اور ایم اے کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے اور ممبئی اور لاہور کے ریڈیو اسٹیشنوں پر خدمات انجام دینے کے بعد تقسیمِ ہند کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی۔ حفیظ ہوشیار پوری نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں شہرت غزل سے ملی۔ مشہور اور باکمال شاعر ناصر کاظمی بھی حفیظ ہوشیار پوری کے شاگرد رہے۔

    ریڈیو سے قبل حفیظ ہوشیار پوری نے چند چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، میاں بشیر احمد کے ساتھ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری رہے۔ اپنے وقت کے مشہور رسالہ ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کی ادارت بھی کی۔ حفیظ ہوشیار پوری کو شروع سے ہی شعر و ادب سے شغف تھا اور اس کا سبب ان کے نانا تھے جن کو سیکڑوں اشعار ازبر تھے اور ان کے گھر میں کتب کے ساتھ رسائل و جرائد بھی آتے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا سب سے بڑا شعری وصف ان کی سادگی اور سلاست ہے۔ وہ چھوٹی بحر میں بڑی سادگی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی شاعری میں ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے جسے ان کے ہم عصر شعرا نے بھی سراہا ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے نظمیں بھی کہیں اور قطعاتِ تاریخِ وفات بھی، مگر ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی تھی اور غزل ہی ان کی صحیح پہچان ہے۔ بحیثیت غزل گو شاعر حفیظ ہوشیار پوری اپنے بہت سے اشعار کی بدولت ہمیشہ یاد رہیں‌ گے۔ حفیظ ہوشیار پوری کے یہ اشعار دیکھیے۔

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
    اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
    ……..

    دِل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
    بات دل میں کہاں سے آتی ہے
    ……..
    اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
    تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

  • ڈاکٹر محمد علی صدیقی: اردو ادب کا ایک گوہرِ نایاب

    ڈاکٹر محمد علی صدیقی: اردو ادب کا ایک گوہرِ نایاب

    اردو کے صفِ‌ اوّل کے نقاد اور محقق کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا تذکرہ ہمیشہ کیا جاتا رہے گا، جو پاکستان میں ترقی پسند اقدار کے ایک بڑے علم بردار بھی رہے۔ پاکستان ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی ادبی پہچان کے رکھنے والے محمد علی صدیقی اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ اور ماہرِ تعلیم بھی تھے۔

    ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی ادبی زندگی کا آغاز 1950ء کے عشرے میں ہوا اور ملکی سطح پر ہی نہیں سرحد پار بلکہ مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں بھی محمد علی صدیقی کا علمی اور ادبی کام زیرِ بحث آیا اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ آج علم و ادب کی دنیا کی اس ممتاز شخصیت کی برسی ہے۔

    محمد علی صدیقی نے جہاں‌ اردو زبان میں تنقید اور دیگر اصناف میں ادبی کام کیا، وہیں وہ انگریزی زبان کے ایک مقبول کالم نگار بھی تھے۔ ڈاکٹر صدیقی کی عمر بوقتِ مرگ 75 برس تھی۔ انھوں نے 2013ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ محمد علی صدیقی کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    اردو تنقید میں پاکستان اور بھارت میں بھی ڈاکٹر صاحب کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اور انھیں بڑا احترام حاصل رہا۔ وہ ایک ایسے اہلِ قلم اور ذی علم شخص تھے جنھیں‌ ترقی پسند ادب کے حوالے سے ایک نسل کا راہ نما بھی سمجھا جاتا ہے۔ صحافت، تدریس اور علم و ادب کے شعبوں میں ڈاکٹر صدیقی نے چالیس سال تک گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوں‌ نے کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ قائداعظم اکیڈمی کراچی، میں بہ طور ڈائریکٹر کام کیا اور مختلف جامعات میں‌ ڈین فیکلٹی رہے۔

    ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا تعلق امروہہ کی سرزمین سے تھا۔ وہ 1938ء میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا کنبہ کراچی آگیا جہاں مشنری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ڈی جے سائنس کالج سے 1953 میں انٹرمیڈیٹ کے بعد انگریزی ادب میں ماسٹر اور مطالعہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کراچی یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ ڈاکٹریٹ کے بعد ایک عرصہ گزار کر 2003 میں اسی موضوع پر ڈی لیٹ کی۔ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی اور ڈی لیٹ کرنے والے پہلے فرد تھے۔

    ڈاکٹر محمد علی صدیقی کو اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی اور مقامی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔ پاکستان اور بیرون ملک انھیں کئی اہم تعلیمی اور ادبی تنظیموں کی رکنیت حاصل رہی۔ ڈاکٹر صاحب کو برطانیہ، کینیڈا اور ناروے کی جامعات میں لیکچر کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے سو سے زیادہ ریسرچ آرٹیکلز تحریر کیے۔ وہ پاکستان کے انگریزی روزنامہ میں ’ایریل‘ کے نام سے ادبی اور سماجی کالم لکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی سولہ کتابوں میں‌ دو کتابوں توازن، اور کروچے کی سرگزشت کو سال کی بہترین کتابوں کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھیں‌ 2003 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

    ڈاکٹر محمد علی صدیقی شروع ہی سے ترقی پسند فکر کے حامل رہے اور جوانی میں باقاعدہ تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ ان کا قلمی سفر زمانہ طالب علمی میں تنقیدی مضامین سے شروع ہوا۔ وسیع المطالعہ اور انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے محمد علی صدیقی نے عالمی ادب اور مختلف ادبی نظریات اور تحریکوں کا مطالعہ کیا تھا جس نے ان کی فکر و نظر کو مختلف زاویہ عطا کیا اور قلم کو نئی توانائی دی۔ اس کی واضح جھلک ڈاکٹر صاحب کے مضامین میں دیکھی جاسکتی ہے۔ توازن، اشاریے، تلاشِ اقبال،سرسید احمد خان اور جدت پسندی، مطالعاتِ جوش، غالب اور آج کا شعور ڈاکٹر صاحب کی اہم تصانیف ہیں۔

  • سلطان راہی:‌ پنجابی فلموں کے سلطان کا تذکرہ

    سلطان راہی:‌ پنجابی فلموں کے سلطان کا تذکرہ

    گزشتہ صدی میں اسّی کی دہائی میں بڑی اسکرین پر سلطان راہی چھائے ہوئے تھے۔ گنڈاسا تھامے سلطان راہی کے مقابلے پر کوئی اور زبردست نظر ہی نہیں آتا تھا، لیکن پھر ایک حادثۂ جاںکاہ پیش آیا اور فلمی دنیا کے اس زور آور کے قدم اکھڑ گئے۔ 9 جنوری 1996ء کو اداکار سلطان راہی کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور ملک بھر میں فضا سوگوار ہوگئی۔

    پنجابی فلموں کے سلطان نے اس دنیا سے کوچ کیا تو اُن کی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سلطان راہی اور بھارت میں وریند ایکشن فلموں کی جان تھے اور دونوں ہی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ وریندر بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور ہیرو دھرمیندر کے کزن تھے۔

    فروری 1979ء میں نام وَر فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم میں دو مرکزی کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے تھے۔ سلطان راہی نے فلم میں نیک سیرت انسان اور مصطفیٰ قریشی نے ایک بدمعاش کا کردار نبھایا تھا۔ اس فلم نے کام یابی کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی انڈسٹری میں مثال نہیں ملتی۔ باکس آفس پر فلم اس قدر ہٹ ہوئی کہ مسلسل ڈھائی سال زیرِ نمائش رہی اور لوگوں‌ نے متعدد بار بڑے پردے پر فلم دیکھی۔

    مشہور فلمی رسالہ "شمع” (نئی دہلی) میں "ستاروں کی دنیا” کے عنوان سے یونس دہلوی کا مقبولِ عام کالم "مسافر” کے قلمی نام سے شایع ہوتا تھا۔ انھوں نے 1990ء کے شمارے میں اپنے اس کالم میں پاکستان کی مشہور فلم "مولا جٹ” کا ذکر کیا تھا۔ یونس دہلوی لکھتے ہیں:

    "10 مارچ 1990ء کو مسافر کا اچانک ہی لاہور جانا ہو گیا۔ دانہ پانی کا اٹھنا سنتے تھے، مگر اس روز مسافر اس محاورے پر پورا ایمان لے آیا۔ اس وقت پاکستان کے شہرۂ آفاق فلم ساز سرور بھٹی کی شہرۂ آفاق فلم "مولا جٹ” کی نمائش کا موقع تھا۔”

    pakistani film

    "ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم "شعلے” بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم "مولا جٹ” بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ ‘مولا جٹ’ لاہور میں مشترکہ 216 ویں ہفتہ میں چل رہی تھی کہ حکومتِ وقت نے اس پر پابندی لگا کر اتار دیا۔”

    "مولاجٹ 9 فروری 1979ء کو لاہور کے شبستان سنیما میں ریلیز ہوئی تھی اور 3 فروری 1981ء کو 104 ویں ہفتہ میں تھی کہ اس طرح سنیما سے اُچک لی گئی جیسے باغ میں کھلنے والا سب سے خوب صورت پھول اچک لیا جاتا ہے۔”

    "بات کورٹ کچہری تک گئی۔ ہائی کورٹ نے 27 دن کی کارروائی کے بعد 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور حکومت کے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔”

    "25 اپریل 1981ء کو "مولا جٹ” کو پھر سے کرسیاں توڑنے اور ریکارڈ توڑنے کے لیے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اچانک 18 مئی 1981ء کو مارشل لا قوانین کے تحت فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح ‘مولا جٹ’ کی آزادی ختم ہو گئی۔”

    "پاکستان سے مارشل لا گیا تو سرور بھٹی نے ‘مولا جٹ’ کی حبسِ بے جا کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور 9 مارچ 1990ء کو ایک بار پھر ‘مولا جٹ’ کا راج آ گیا۔ اس بار ‘مولا جٹ’ لاہور کے دس سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔”

    یونس دہلوی آگے لکھتے ہیں‌، "‘مولا جٹ’ چوں کہ ریکارڈ توڑ اور کرسی توڑ فلم تھی اس لیے منٹ منٹ پر تالیاں اور سیٹیاں بج رہی تھیں۔”

    سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1934 اور جائے پیدائش پاکستان کا شہر راولپنڈی ہے۔ اداکار کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ سلطان راہی نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ قرآنِ پاک مع تفسیر پڑھا۔ کم عمری میں‌ سلطان راہی کو فلموں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور یہ شوق اتنا بڑھا کہ وہ فلم میں کام کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ اسی شوق کے ہاتھوں ایک روز راولپنڈی سے لاہور چلے آئے اور اسٹیج ڈراموں سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ سلطان راہی نے جس ڈرامے میں‌ پہلی مرتبہ مرکزی کردار نبھایا وہ ’شبنم روتی رہی‘ تھا۔ اس ڈرامے کے بعد ان کی رسائی فلم نگری تک ہوئی اور وہ ایکسٹرا کے کردار نبھانے لگے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں اس وقت سنتوش کمار، درپن، لالہ سدھیر، مظہر شاہ کا بڑا نام تھا۔ ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے ہوئے سلطان راہی کو بڑے کردار کی تلاش تھی۔ باغی، ہیرسیال اور چند دیگر فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے کے بعد وہ ایم سلیم کی پنجابی فلم ’امام دین گوہاویا‘ میں ایک مختصر کردار ادا کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی زمانے میں ان کی وہ فلمیں‌ بھی ریلیز ہوئیں جن میں‌ سلطان راہی نے معمولی کردار ادا کیے تھے۔ 1971ء میں سلطان راہی کو ہدایت کار اقبال کاشمیری کی فلم ’بابل‘ میں ایک بدمعاش کا ثانوی کردار ملا اور یہی ان کی فلمی زندگی میں بڑی تبدیلی کا سبب بن گیا۔

    برصغیر پاک و ہند کی پنجابی زبان میں فلمیں لاہور کے علاوہ کولکتہ اور ممبئی میں بھی بنائی جاتی رہیں اور تقسیم سے پہلے ریلیز ہوئیں لیکن ہیر رانجھا کو لاہور میں بننے والی پہلی ناطق پنجابی فلم کہا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کی پنجابی فلمیں ہلکی پھلکی رومانوی اور نغماتی فلمیں ہوتی تھیں جو عام طور پر پنجاب کی خالص لوک داستانوں سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، سہتی مراد اور دلا بھٹی کے علاوہ ہندوؤں کی دیو مالائی داستانوں اور بدیسی قصے کہانیوں پر مبنی ہوتی تھیں۔

    پچاس کی دہائی میں پاکستان میں پنجابی فلمیں بننے لگیں جن میں عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلموں کے علاوہ معاشرتی موضوعات کو فلمایا گیا تھا۔ اس دور میں بہت بڑی بڑی پنجابی فلمیں سامنے آئیں۔ لیکن پھر زمانہ بدل گیا اور کہتے ہیں‌ کہ وحشی جٹ سے پنجابی فلموں میں گنڈاسا کلچر شروع ہوا۔

    اب سماجی اور رومانی فلموں کی جگہ پُرتشدد مناظر اور ایکشن سے بھرپور فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز بن رہی تھیں۔ 1979 میں پاکستانی فلمی صنعت میں انقلابی تبدیلی فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ کی صورت میں‌ آئی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کام یابیوں کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم کی نمائش ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ہوئی تھی جس کا ذکر یونس دہلوی کے مضمون میں‌ آیا ہے۔ سلطان راہی نے ستّر کی دہائی کے آغاز پر بشیرا اور وحشی جٹ جیسی فلموں سے اپنے کیریئر کی سمت تو گویا طے کرلی تھی لیکن یہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس کی انتہا کیا ہوگی۔ لیکن فلم مولا جٹ کی بے مثال کام یابی نے یہ طے کر دیا۔ اس کے بعد سطان راہی کی پانچ فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئیں۔ یہ 12 اگست 1981ء کی بات ہے جب شیر خان، سالا صاحب، چن وریام، اتھرا پُتر اور ملے گا ظلم دا بدلہ کے نام سے فلمیں ریلیز ہوئیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ ’شیر خان‘ اور ’سالا صاحب‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ’چن وریام‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی مکمل کی۔sultan rahi film posterصحافی اور محقق و ادیب عارف وقار لکھتے ہیں کہ اسّی کے عشرے میں پنجابی فلمیں حاوی نظر آئیں۔ اس دوران سلطان راہی کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے سبب لالی وڈ میں اردو کی 223 فلموں کے مقابلے میں پنجابی کی 370 پکچرز ریلیز ہوئیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور فلمی صنعت کا شیش محل زمین بوس ہو چکا تھا تب بھی ماضی کی اس شان دار عمارت کا کچھ حصّہ ایک مضبوط ستون کے سہارے کھڑا رہ گیا تھا۔ اور یہ ستون سلطان راہی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، جو پچاس کی دہائی میں ایک ایکسٹرا بوائے کے طور پر آیا تھا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پہلے ولن اور پھر ہیرو کے طور پر ساری صنعت پر چھا گیا تھا۔ لیکن اس کی موت سے وہ آخری ستون بھی کھسک گیا اور فلمی صنعت کی رہی سہی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔

    اداکار سلطان راہی کو لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ڈاکٹر رضی الدین صدیقی: ممتاز ریاضی داں اور ماہرِ طبیعیات

    ڈاکٹر رضی الدین صدیقی: ممتاز ریاضی داں اور ماہرِ طبیعیات

    پاکستان کے ممتاز سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کا یہ تذکرہ جہاں ایک نسل کے لیے باعثِ فخر ہے وہیں بالخصوص نسلِ نو کا ایسی باکمال اور کم یاب شخصیت اور ان کے کارناموں سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ انھیں اپنا رول ماڈل بنا سکیں۔ رضی الدین ماہرِ‌ تعلیم بھی تھے اور ادبی شخصیت بھی۔ عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے اور اسی لیے انھیں جینئس تسلیم کیا جاتا ہے۔

    وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین رضی الدین کی شخصیت ایسی تھی کہ ان کے اساتذہ بھی ان سے بہت عزّت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا انتقال دو جنوری کو ہوا لیکن انٹرنیٹ پر رفتگاں کے تذکرے میں بعض جگہ تاریخِ‌ وفات 8 جنوری لکھا گیا ہے۔

    ڈاکٹر رضی الدین صدیقی بیک وقت کئی علوم میں درجۂ کمال پر پہنچے اور ان کے علم و افکار تحریری شکل میں ایک بڑا سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب دانش ور اور ادبی شخصیت کے ساتھ اسلامی تمدن کے اسکالر بھی تھے ۔

    محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم دارالعلوم سے حاصل کی اور پھر حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے تھے۔ کیمبرج میں ڈاکٹر صاحب فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ کیمبرج ہی میں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے شاگرد بھی بنے اور پھر ماسٹرز کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی کا سفر کیا۔ وہاں وہ مشہور سائنس داں ورنر ہائزن برگ کے شاگرد رہے۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریۂ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ فزکس کے میدان میں تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ڈاکٹر رضی الدین نے اس زمانے میں آئن سٹائن کے لیکچرز میں شرکت کی اور اس عظیم سائنس داں سے بہت کچھ سیکھا۔

    ڈاکٹر صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں تحقیقی مقالے لکھے جو اس دور کے ممتاز جرنلز میں شائع ہوئے۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1937 میں انھوں نے کوانٹم مکینکس پر لیکچرز مرتب کر کے کتابی شکل دی جو ایک علمی کام تھا اور طالب علموں کے لیے یہ مفید کتاب ثابت ہوئی۔ 1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے بہترین تحقیق پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ 1940 نے انجمن ترقی اردو، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب نظریۂ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔

    ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے فنِ شاعری اور ان کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں ان کی مرتب کردہ کتاب ‘ اقبال کے تصورِ زمان و مکان’ کو بزمِ اقبال نے شائع کیا تھا۔ اردو کے علاوہ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ادب کے مختلف موضوعات اور اصناف پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں وہ ایک بہترین دماغ تھے۔ 1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے جب وہ پاکستان آئے تو پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر کی گئی۔ لیکن وہ ہندوستان جا کر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم ایک موقع ایسا آیا جب ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو پاکستان میں رہنا پڑا اور بھارت میں اُن کی جائیداد اور ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔ وہ یہاں مختلف جامعات کے سربراہ رہے اور کئی علمی اداروں کی سرپرستی کی۔ ملک میں تعلیم کے فروغ اور معیار بلند کرنے کے لیے ان کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔1952ء میں ڈاکٹر صاحب کو انٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔ 1960 میں حکومت نے رضی الدین صدیقی کو ستارۂ امتیاز دیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    بولی وڈ کی فلمی صنعت کا ایک ناقابلِ فراموش نام نوتن کا ہے جنھوں نے فلمی دنیا میں اپنے انمٹ نقش چھوڑے۔ انھیں ایک عظیم ہندوستانی اداکار کہا جاتا ہے جس کی فطری اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے۔

    نوتن نے ممبئی میں تقسیمِ ہند سے قبل 1936ء میں آنکھ کھولی۔ پہلی مرتبہ وہ 14 سال کی عمر میں فلمی پردے پر دکھائی دیں۔ اس فلم کے بعد 1951ء میں انھیں نگینہ اور ہم لوگ جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور نوتن نے اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اظہار کیا۔ بعد کے برسوں میں نوتن کو ایسی بے مثال اداکار کے طور پر پہچانا گیا جس نے مشکل اورغیر روایتی کرداروں کو بہت عمدگی سے ادا کیا اور سب پر اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔

    اداکارہ نوتن کا اصل نام نوتن سمرتھ تھا۔ اداکارہ کی پہلی فلم ان کی والدہ شوبھانا سمرتھ کی ہدایت کاری کا ثمر تھی۔ لیکن ضیا سرحدی کی فلم ہم لوگ اپنے اسکرپٹ اور مکالموں کی وجہ سے بہت پسند کی گئی۔ اس فلم میں نوتن کے ساتھ بلراج ساہنی تھے جو اپنے وقت کے بہترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ نوتن نے بھی اس فلم میں اچھا کام کیا تھا۔ 1955ء میں نوتن کی فلم سیما ریلیز ہوئی۔ اس میں بھی ان کے ساتھ بلراج ساہنی تھے۔ اس فلم میں نوتن نے غضب کی اداکاری کی اور فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ اداکارہ کو اس پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں نوتن نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ ان میں ’’سجاتا، بندنی اور ملن‘‘ شامل ہیں۔ فلم سجاتا میں نوتن ایک اچھوت لڑکی کا کردار نہایت شان دار طریقے سے نبھایا اور پھر وہ غیر روایتی کرداروں میں کاسٹ‌ کی جانے لگیں۔ وہ ہندوستان کے فلمی ناقدین کی نظر میں اپنے وقت کی باکمال اور بے مثال اداکارہ تھیں۔ ان کی دیگر قابل ذکر فلموں میں ’’اناڑی، پے انگ گیسٹ، سونے کی چڑیا، چھلیا، تیرے گھر کے سامنے، سرسوتی چندرا، انوراگ، زندگی یا طوفان، سوداگر، میری جنگ اور ساجن کی سہیلی‘‘ شامل ہیں۔

    بولی وڈ کی اس مشہور اداکارہ نے 70 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ نوتن کا کیریئر 40 سال پر محیط رہا جس میں اداکارہ نے چھے فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے۔ نوتن 1980ء کے بعد کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر فلموں‌ میں دکھائی دیں اور اپنے کرداروں کو اسی طرح نبھایا جیسے وہ جوانی میں ڈوب کر اداکاری کیا کرتی تھیں۔ 1974ء میں بھارتی حکومت نے نوتن کو پدم شری ایوارڈ دیا جب کہ فلمی دنیا کے کئی دوسرے معتبر ایوارڈ بھی نوتن کے نام ہوتے رہے۔ یہ ان کی صلاحیتوں اور فن و کمال کا اعتراف تھا۔ 1959ء میں رجیش بہل سے نوتن کی شادی ہوئی تھی۔ اداکارہ نے زیادہ تر دیوآنند، راج کپور اور سنیل دت کے ساتھ کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور کام یاب اداکار تھے۔

    فلمی ناقدین کے مطابق نوتن کی سب سے بڑی خوبی مکالموں کی ادائیگی کا جداگانہ انداز اور چہرے کے تاثرات تھے۔ اس دور میں سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں نوتن کی اداکاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ آرٹ سنیما کی فلموں میں نظر آئیں۔ 1986ء میں ہدایت کار سبھاش گھئی نے نوتن کو اپنی فلم ’’میری جنگ‘‘ میں انیل کپور کی ماں کے کردار میں کاسٹ کیا۔ باکس آفس پر یہ فلم بہت کام یاب رہی اور جذباتی مناظر میں نوتن نے بے حد متاثر کن اداکاری کی جس پر چھٹے فلم فیئر ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔ نوتن کی فنی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی کام یاب اور مقبول اداکاراؤں نے کہا کہ وہ نوتن کی اداکاری سے بہت متاثر ہیں۔

    اداکارہ نوتن 1991ء میں پھیپھڑوں کے سرطان کے سبب انتقال کرگئی تھیں۔ فلم ’’نصیب والا‘‘ اور’’ انساینت‘‘ نوتن کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھیں۔