Tag: یوم وفات

  • بِمل رائے: ایک عظیم ہدایت کار جس نے اپنے مقصد کے آگے دولت کو اہمیت نہیں دی

    بِمل رائے: ایک عظیم ہدایت کار جس نے اپنے مقصد کے آگے دولت کو اہمیت نہیں دی

    ایک دور تھا جب متحدہ ہندوستان میں آرٹ سنیما کو کئی باکمال اور بے حد منجھے ہوئے فن کار میسر تھے۔ ان میں کئی نام ایسے تھے جو فن و تخلیق کے ساتھ بلند فکر اور اعلیٰ صفات کے حامل تھے۔ ان بلند فکر اور وسیع المشرب فلم سازوں نے ہندوستانی سنیما کو بے مثال فلمیں ہی نہیں دیں بلکہ ان کا کام انڈسٹری میں نئے آنے والوں کے لیے مِیل کا پتھر ثابت ہوا۔

    ہندوستانی سنیما میں بمل رائے نے ایک عظیم فن کار اور باکمال ہدایت کار کے طور پر شہرت پائی جو اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے۔ وہ بامقصد تفریح کے قائل بمل رائے 1966ء میں آج ہی کے روز ممبئی میں انتقال کر گئے تھے۔

    بمل رائے کا تعلق سو پور سے تھا جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔ ہدایت کار بمل رائے 1909ء میں ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد ان پر کنبے کی ذمہ داریاں آن پڑیں اور بمل رائے کو معاش کی فکر ستانے لگی۔ وہ کام کی تلاش میں کولکتہ چلے گئے جہاں اس وقت بڑی بڑی فلمیں بنائی جارہی تھیں۔ وہاں نیو تھیٹرز لمیٹڈ کے ساتھ کیمرا اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ اور 1935 میں بننے والی فلم ’’دیو داس‘‘میں ہدایت کار پی سی بوروا کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ 1940ء کی دہائی میں کولکتہ کی فلمی صنعت کا زور ٹوٹ گیا اور بِمل رائے 1950 میں ممبئی شفٹ ہو گئے۔ بمل رائے باصلاحیت اور ذہین بھی تھے۔ ہدایت کاری سے قبل بطور فوٹو گرافر فلم انڈسٹری میں کام کا تجربہ حاصل کرچکے تھے اور جب قسمت نے یاوری کی تو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا۔ بمبئی میں بمل رائے نے اپنے فنی اور تخلیقی سفر کو منوایا اور بڑے ہدایت کاروں میں ان کا شمار ہوا۔

    بمل رائے نے اپنی علمیت اور فن کارانہ صلاحیت کا خوب تال میل بنایا اور انڈسٹری کو سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں دیں۔ وہ ایک نظریاتی آدمی تھے اور اُن کا جھکاؤ سوشلزم کی طرف تھا۔ بمل رائے کی فلموں میں پسے ہوئے طبقات اور استحصال زدہ لوگوں کی عکاسی کی گئی۔ ذات پات کے سخت مخالف بمل رائے کا شیوہ انسانیت پرستی رہی اور ان کی فلموں میں اُن کے خیالات اور نظریات کی واضح تصویریں ہم دیکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال دو بیگھہ زمین ہے۔

    دو بیگھہ زمین بِمل رائے ان کی وہ فلم تھی جس نے زمین داروں اور ساہو کاروں کے ساتھ ایک کسان کی زندگی کو پردے پر پیش کیا۔ اس فلم نے تہلکہ مچا دیا۔ انھیں‌ عالمی فلمی میلے اور مقامی فلمی صنعت کے کئی ایوارڈ دیے گئے۔ اس فلم کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ ہدایت کار بِمل رائے کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک سین کو اس وقت تک عکس بند کرواتے ہیں جب تک پوری طرح مطمئن نہ ہوجائیں۔ اس سے فلمیں اوور بجٹ ہوجاتی تھیں۔ لیکن نہایت خوب اور تکمیلیت پسندی کی اس عادت نے ان سے کئی شان دار فلمیں بنوائی ہیں۔ اس کی ایک مثال فلم ’مدھو متی‘ ہے جسے بِمل رائے نے ایک ہی سین کی کئی عکس بندیوں کی وجہ سے اوور بجٹ کردیا تھا اور مالی خسارے سے بچانے کے لیے دلیپ کمار اور ڈسٹری بیوٹروں نے بمل رائے کے لیے بڑی قربانی دی تھی۔ ’مدھو متی‘ سپرہٹ ثابت ہوئی اور اسے بہترین فیچر فلم، بہترین فلم اور بمل رائے کو بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ فلم فیئر ایوارڈ میں ’مدھو متی‘ نے 13 نام زدگیوں کے ساتھ 9 ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ’’بندنی‘‘بھی بِمل رائے کے فن و تخلیق کا ایک بیّن ثبوت ہے۔ یہ فلم بِمل رائے کے سوشلسٹ نظریات کی عکاس تھی۔ اس فلم میں یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ ایک سچا سوشلسٹ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اپنے راستے سے ہٹ سکتا ہے۔

    اس عظیم ہدایت کار نے اپنی فلموں کے ذریعے ہندوستان میں سماجی انقلاب لانے کی کوشش کی اور ناانصافیوں کی نشان دہی کرتے رہے۔ ان کا شمار فلم کی چکاچوند اور جگمگاتی ہوئی دنیا میں اپنے مقصد کو فراموش کر کے شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگنے والوں میں نہیں‌ ہوتا بلکہ پیسے سے زیادہ وہ مقصد کو اہمیت دیتے تھے۔

    اپنے وقت کے کئی فلمی ستاروں نے بمل رائے کے ساتھ کام کیا اور جو نہیں کرسکے انھیں اس بات کا ملال ضرور رہا کہ وہ اس عظیم ہدایت کار کی فلم میں کام نہ کرسکے۔ معروف بنگالی اداکارہ کانن دیوی نے ایک بار بمل رائے سے کہا تھا: ’ارے بمل دا آپ کے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔ آپ نے تو مجھے اپسرا بنا دیا۔

    پرنیتا، دیو داس، سجاتا، پرکھ، بندنی ودیگر بمل رائے کی شان دار فلمیں ہیں۔

  • دردؔ: وہ شاعر جسے  میر تقی میرؔ نے ریختہ کا "زور آور” کہا!

    دردؔ: وہ شاعر جسے میر تقی میرؔ نے ریختہ کا "زور آور” کہا!

    مرزا غالب نے میر تقی میرؔ کو استاد شاعر تسلیم کیا تھا اور میرؔ نے اپنے ہم عصر خواجہ میر دردؔ کو ریختہ کا "زور آور” شاعر کہا تھا۔ یہ تذکرہ خواجہ میر دردؔ کا ہے جن کا کلام عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن عشقِ حقیقی کے ساتھ دردؔ وارداتِ قلبی کے شاعر بھی تھے۔ دردؔ ہندوستانی موسیقی کا بھی علم رکھتے تھے۔

    مرزا لطف علی صاحب کی "گلشنِ سخن” میں‌ لکھا ہے کہ دردؔ کا کلام سراپا درد و اثر ہے۔ میر حسن نے انھیں آسمانِ سخن کا خورشید قرار دیا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔

    دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر تھے جن کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے۔ ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی۔ خواجہ میر درد کی شاعری میں بے ثباتی و بے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لا مکاں، توکل اور فقر کے مضامین بکثرت ملتے ہیں۔

    حضرت خواجہ میر درد کے اجداد بخارا کے باشندے تھے۔ سلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت خواجہ بہاء الدّین نقش بندی سے جا ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت عبدالقادر جیلانی سے۔ والد کا نام خواجہ ناصر تھا۔ جو فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ عندلیبؔ تخلص کرتے تھے۔ میر دردؔ ۱۱۱۹ء میں پیدا ہوئے۔ تصوف اور شاعری ورثے میں پائی۔ اوائل عمر سے ہی ان کا رجحان شاعری اور مذہب کی طرف تھا۔ بچپن سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں رسالہ احکام الصلوٰۃ لکھا۔ اس دور میں کم عمری میں شادی کرنے کا رواج تھا۔ والد نے ان کی شادی کر دی۔ درد ۱۷۸۵ء میں آج ہی کے روز مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

    میر دردؔ کی شاعری تصوف اور تغزل کے رنگ سے منوّر ہے۔ زبان بڑی تیکھی اور رواں دواں تھی۔ ان کے کلام میں آورد نام کو نہ تھا۔ بس آمد ہی آمد تھی۔ اس حوالے سے دردؔ لکھتے ہیں: ’’فقیر کے اشعار باوجود رتبۂ شاعری کی روایت کے، پیشۂ شاعری اور اندیشۂ ظاہری کے نتائج نہیں۔ بندے نے کبھی شعر بدون آمد کے آورد سے موزوں نہیں کیا اور بتکلف کبھی سحر شعرو سخن میں مستغرق نہیں ہوا۔ کبھی کسی کی فرمائش اور آزمائش سے متأثر ہو کر شعر نہیں کہے ‘‘

    دردؔ کی غزلیں متصوفانہ خیالات، معاملہ بندی، نزاکت، حسن خیال، شوخی اور لطافت سے معمور ہیں۔ وہ بڑی نغمگی سے بھر پور مترنم بحروں کا انتخاب کرتے تھے۔ وہ روزمرہ کی زبان بڑی بے تکلفی اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

    تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
    دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

    ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
    میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

    شمس العلماء مولوی سید امداد امام اثر ؔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ میر دردؔ کی غزل سرائی نہایت اعلیٰ درجے کی ہے۔ سوز و گداز میں ان کے جواب میں میر تھا یا آپ اپنا جواب تھے۔ واردات قلبی کے مضامین ایسے باندھتے تھے کہ سودا ان تک نہ پہونچتے تھے۔ ہر چند خواجہ کا دیوان مختصر ہے۔ مگر قریب قریب انتخاب کا حکم رکھتا ہے‘‘

    خواجہ میر دردؔ کی کتابیں یادگارِ زمانہ ہیں جن میں رسالۂ اسرار الصلوٰۃ، رسالۂ واردات، علم الکتاب، رسالۂ اربعہ، نالۂ درد، آہِ سرد، دردِ نہاں، اور فارسی اور دیوانِ اردو شامل ہیں۔

    دردؔ موسیقی کے ماہر تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بھی موسیقیت ہے۔ وہ تبھی شعر کہتے تھے جب آمد ہو۔ اسی لیے ان کا دیوان بہت مختصر ہے۔

  • تلوک چند محرومؔ: اردو شاعری کا ایک خوب صورت نام

    تلوک چند محرومؔ: اردو شاعری کا ایک خوب صورت نام

    تلوک چند محرومؔ کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے قارئین کو یہ یاد دلائے گا کہ وقت نے کیسے کیسے نام وروں اور انمول شخصیات کو ہم سے چھین لیا لیکن ان میں سے کئی کی باتیں، یادیں اور بہت سا خزانہ کتابی شکل میں‌ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ تلوک چند محرومؔ انہی شخصیات میں سے ایک ہیں جو ادبی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

    زینت اللہ جاوید لکھتے ہیں، محرومؔ نے کچھ اپنا تخلّص خود ہی پسند کیا تھا جو ان کے فطری رجحان اور شعری مزاج کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ”بلاشبہ میری طبعیت شروع ہی سے غم پسند واقع ہوئی ہے۔ اسکول کی کتابوں میں رقت آمیز مضامین پڑھ کر اکثر جماعت ہی میں آنسو نکل آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیس پچیس لڑکوں کی کلاس میں جب میں نے پہلی بار فسانۂ آزاد کا ایک مضمون ’محمود کا پھانسی پانا اور اس کے چھوٹے بچے کا بلبلانا‘ پڑھا تو میں اکیلا ہی ایسا طالب علم تھا جس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔

    تلوک چند نے تخلص محرومؔ رکھ لیا تھا، لیکن اسے فال نیک نہیں سمجھا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”جب ہائی اسکول میں پہنچا اور "زمانہ” کانپور کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن سے خط و کتابت ہوئی تو میں نے ان کو تخلص بدلنے کے متعلق اپنے ارادے سے مطلع کیا اور محرومؔ کے بجائے پروازؔ تخلص تجویز کیا۔ چند رباعیات بھی اس تخلص کے ساتھ اشاعت کے لیے بھیج دیں، لیکن انھوں نے اس تجویز کو رد کردیا۔“

    ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنے تخلّص محرومؔ پر فخر کرنے لگے۔

    پاتے ہیں درد کی تاثیر اسی نام سے شعر
    باعثِ فخر ہے محرومؔ مرا نام مجھے

    6 جنوری 1966ء کو دہلی میں تلوک چند محروم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے جگن ناتھ آزاد بھی معروف شاعر تھے۔

    اردو شاعری کی مختلف اصناف نظم، رباعی، قصیدے اور نوحے لکھنے والے تلوک چند کے شعری مجموعوں کی تعداد آٹھ ہے۔ تلوک چند یکم جولائی 1887ء کو میانوالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں موسیٰ نور زمان شاہ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ خاندان میانوالی کے ایک اور قصبے عیسیٰ خیل چلا گیا جہاں تلوک چند نے پرائمری اسکول میں داخلہ لے لیا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھے اور آٹھویں جماعت کے بعد مزید پڑھنے کے لیے بنّوں جانا پڑا جہاں‌ کا ماحول عیسیٰ خیل سے بالکل مختلف تھا۔ تلوک چند غالب اور اقبال سے شروع ہی سے متاثر تھے۔ بنوں میں چار سال کا عرصہ گزارا اور میڑک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ انھوں نے شعری ذوق کی پرورش بھی کی۔ اچھی کتابوں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے تلوک چند خود بھی شعر کہنے لگے۔ بنوں کے بعد تلوک چند اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور سینٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا اور 1908ء میں تلوک چند کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اسکول میں انگریزی کے مضمون کے استاد کی ملازمت مل گئی۔ اس ملازمت کے ساتھ شہر بھی بدلتے رہے اور تلوک چند محروم راولپنڈی کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور یہ وہ دور تھا جب راولپنڈی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وہاں کئی بڑے نام لاہور اور دیگر علاقوں سے بھی آتے جاتے اور ادبی محافل میں‌ شریک ہوتے رہتے تھے۔ یوں راولپنڈی میں مختلف شاعروں اور ادیبوں سے تلوک چند کی ملاقاتیں رہتیں لیکن عبدالحمید عدمؔ کا تلوک چند کے گھر تقریباً ہر روز کا آنا جانا تھا۔ 1943ء میں جب تلوک چند اسکول کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو راولپنڈی کے تاریخی تعلیمی ادارے گورڈن کالج میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو اور فارسی پڑھانے لگے۔ راولپنڈی میں تلوک چند محروم کا ادبی اور شعری ذوق خوب پروان چڑھا اور اس زمانہ میں تلوک چند محروم نے خوب صورت نظمیں کہیں اور کئی مشاعرے پڑھ کر نام بنایا۔ تلوک چند محروم نے بچوں کے ادب کو بھی اہمیت دی اور ان کے لیے متعدد نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل تلوک چند کی راولپنڈی میں محفلوں میں شرکت اور شعر و ادب کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاری معمول تھا کہ اسی زمانہ میں راولپنڈی شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا اور تلوک چند آریہ محلّہ میں رہتے تھے لیکن وہ گھر انھیں چھوڑنا پڑا اور پھر کسی طرح وہ دہلی پہنچ گئے۔ وہاں تلوک چند کو ایک روزنامہ میں ملازمت مل گئی اور بعد میں بطور پروفیسر 1957ء تک کام کرتے رہے۔ 1953ء میں محروم کو اپنے شہر راولپنڈی آنے کا موقع ملا اور وہ اپنے کالج بھی گئے۔ اپنی خوب صورت یادیں تازہ کیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی لوٹ گئے۔

    1962ء میں بھارت کی حکومت نے تلوک چند کو ساہتیہ شاعری کا ایوارڈ دیا۔ انھیں کئی دیگر ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا اور مختلف ادبی تنظیموں‌ کی جانب سے انھیں شعرو ادب میں اپنی تخلیقات اور خدمات پر سراہا گیا۔

  • اوم پوری: ایک باکمال اداکار اور بہترین انسان کا تذکرہ

    اوم پوری: ایک باکمال اداکار اور بہترین انسان کا تذکرہ

    آرٹ سنیما نے دنیا کو فن کی دنیا کے کئی بے مثال نام اور لازوال فلمیں دی ہیں۔ اوم پوری بھی بھارت میں آرٹ سنیما کا ایک بڑا نام تھے جن کو پاکستان میں ایسے اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جس نے ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم رکھنے کے لیے اپنی آواز بلند کی۔

    آرٹ سنیما کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے ہر شعبہ میں یعنی کہانی سے لے کر فلم سازی کے مختلف مراحل تک ہنر مند اور باکمال آرٹسٹ اور بہترین فن کاروں سے کام لیا جاتا ہے۔ اوم پوری بھی انہی فن کاروں میں شامل تھے۔ اوم پوری مشکل کردار ادا کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اسی لیے انھیں زیادہ تر آرٹ فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا موقع دیا جاتا تھا۔ وہ بالی وڈ کے ورسٹائل اداکار تھے جن کو شان دار اداکاری کی بدولت ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

    اوم پوری ایک فکر و نظریے کے حامل ایسے فن کار تھے جس نے پاکستان اور بھارت کے بارے میں یہ کہا کہ اگر دونوں ملکوں کو جنگ کرنی ہے تو غربت کے خلاف کریں۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمو‌ں میں‌ بھی کام کیا اور جب بھارت میں ان پر تنقید ہوئی تو اس کا جواب بھی اسی طرح دیا، لیکن اپنے مؤقف کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچائے۔ اوم پوری کی زندگی کی آخری فلم ’لشٹم پشٹم‘ ریلیز ہوئی تو اس فلم میں بھی وہ ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے کردار کو نبھاتے نظر آئے۔ انھوں نے پاکستانی فلموں کے علاوہ برطانوی اور ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔ اوم پوری کی آواز اور مکالموں کی ادائیگی کا انداز بہت منفرد تھا اور شائقین نے انھیں ہر کردار میں‌ بہت سراہا۔

    اداکار اوم پوری 18 اکتوبر 1950 کو ہریانہ کے علاقہ انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزارا۔ وہ چھے سات سال کے تھے جب چائے کے ایک کھوکھے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح‌ کے چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے اپنے ننھیال آکر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اداکار بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ اس کے لیے اوم پوری نے ‘فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا’ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ دہلی کے ‘نیشنل اسکول آف ڈراما’ سے بھی تربیت لے چکے تھے جہاں معروف اداکار نصیرالدین شاہ ان کے ساتھی طلبا میں سے ایک تھے۔ اور پھر انھیں ابتدا میں لوکل تھیٹر میں چھوٹے موٹے کردار ملنے لگے۔ سال 1976ء سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا، اور پہلی مرتبہ فلم ’گھاسی رام کوتوال‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اوم پوری نے اپنے کریئر میں سنجیدہ فلموں کے ساتھ ساتھ کامیڈی فلموں میں بھی لاجواب اداکاری کی۔ فلم ‘اردھ ستیہ’، ‘جانے بھی دو یارو’ اور ‘پار’ جیسی فلموں میں ان کے زبردست کردار اور شان دار اداکاری نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں اوم پوری نے کمرشل فلموں کی جانب رخ کیا اور ہندی فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی بطور اداکار نظر آئے۔

    6 جنوری 2017ء کو اوم پوری دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

  • حکیم احمد شجاع: اردو ادب اور فلم کی دنیا کا معروف نام

    حکیم احمد شجاع: اردو ادب اور فلم کی دنیا کا معروف نام

    اردو کے معروف انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر حکیم احمد شجاع 4 جنوری 1969ء میں انتقال کرگئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل حکیم احمد شجاع نے چند فلمیں‌ لکھی تھیں اور مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی۔

    حکیم احمد شجاع نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی انہی کے قلم سے نکلے تھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول کےعلاوہ اپنے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں اپنی خود نوشت اور دیگر کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سلطان علاء الدین خلجی کا تذکرہ جس نے منگولوں کو شکست دی

    سلطان علاء الدین خلجی کا تذکرہ جس نے منگولوں کو شکست دی

    علاءُ الدّین خلجی سے متعلق ہندوستان میں کئی قصّے اور داستانیں مشہور ہوئیں۔ اس حکم راں کو اگر مؤرخین نے زبردست فاتح، حلیم الطبع اور بہترین منتظم لکھا ہے تو بعض محققین اسے محسن کُش بھی بتایا ہے۔ تاریخی کتب میں ہے کہ علاءُ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت کے شاہی محل میں‌ جشن کا سماں تھا۔ وہ خلجی خاندان کا دوسرا حکم راں بنا اور سلطان کہلایا۔

    سلطان علاء الدین نے 1296ء میں زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کیا۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ علاء الدّین خلجی نے اقتدار کے لیے سازش رچی تھی اور اپنے چچا اور سسر کو قتل کروایا۔ مؤرخین نے اسے خلجی خاندان کا طاقت ور سلطان بھی لکھا ہے۔ سلطان علاء الدین کا سنہ پیدائش 1266ء اور مقام دہلی تھا۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا اور اس کی پرورش چچا نے کی جو اس وقت خلجی خاندان کے حکم راں تھے۔

    علاء الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاء الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے سلطان علاء الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔ کہتے ہیں کہ ایک جنگی مہم کے بعد علاء الدین نے سازش کرکے بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھال لیا۔ علاء الدّین نے بطور خلجی حکم راں اپنی حکومت مضبوط کیا اور کئی کام یابیاں حاصل کیں لیکن اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان نے اپنا زوال دیکھا۔

    تاریخ کی بعض کتب جو بہت بعد میں لکھی گئیں، ان میں خلجی کے دور کے بارے میں آیا ہے کہ حکومت کا بڑا دبدبہ تھا۔ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان علاء الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے اور اس کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔ 4 جنوری 1316ء کو سلطان علاء الدین خلجی اپنے سفرِ‌ آخرت پر روانہ ہوا۔

  • اوّلین عوامی ڈرامہ لکھنے والے امانت لکھنوی کا تذکرہ

    اوّلین عوامی ڈرامہ لکھنے والے امانت لکھنوی کا تذکرہ

    اودھ سلطنت کے آخری تاجدار واجد علی شاہ نے امانت لکھنوی سے فرمائش کی تو ان کے قلم نے اندر سبھا تخلیق کیا۔ اس عوامی ڈرامہ نے امانت لکھنوی کو لازوال شہرت دی اور وہ تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج امانت علی کا یومِ وفات ہے۔

    ہندوستان کی تہذیب و ثقافت، اودھ میں فنونِ لطیفہ کی ترویج اور اصلاح و ترقی کے لیے واجد علی شاہ نے جو خدمات انجام دیں، اس میں ہندوستانی ناٹک کو اندر سبھا بھی گویا واجد علیشاہ کے طفیل ملا۔ ایک دور میں ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ 1853ء میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھا تھا جسے اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ علم و فنون کے رسیا واجد علی شاہ نے امانت لکھنوی سے ایک ڈرامہ لکھنے کو کہا تھا، اور انھوں نے نواب کی فرمائش پر منظوم اندر سبھا لکھا۔ یہ سادہ اور عام انداز میں لکھا گیا ڈرامہ ہے۔ امانت لکھنوی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت یہی ڈرامہ ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔ امانت کا ڈرامہ کتابی شکل میں شایع ہونے سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں مقبول ہوگیا تھا اور بعد میں اس کے کئی نسخے ملک بھر میں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اندر سبھا کی طرز پر اس زمانے میں کئی مزید ڈرامے لکھوائے گئے اور انھیں اسٹیج کیا گیا۔ تاہم امانت لکھنوی کے اندر سبھا کو کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکا۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں آٹھ کردار سامنے لائے گئے ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    امانت لکھنوی نے بہت کم عمر پائی اور جوانی میں 3 جنوری 1859ء کو انتقال کرگئے۔

  • قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان اداکار بھی تھے، اور اسکرپٹ رائٹر بھی اور ایسے اسکرپٹ رائٹر جن کے مکالمے بہت مقبول ہوئے۔ آج بولی وڈ کے ڈائیلاگ کنگ کہلانے والے قادر خان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکار اور اسکرپٹ رائٹر قادر نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور ڈھائی سو سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے۔ انھوں نے سنہ 1973 میں راجیش کھنہ کی فلم ‘داغ’ سے بولی وڈ میں اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں ہی شہرت حاصل کرلی تھی۔ بولی کی کام یاب ترین فلمیں جن میں خون پسینہ، لاوارث، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی شامل ہیں، ان فلموں کے مکالمے بہت مقبول ہوئے اور یہ قادر خان کے قلم سے نکلے تھے۔

    اداکار کی زندگی کے ابتدائی دور کی بات کی جائے تو افغانستان ان کا وطن تھا اور تین بھائیوں کی موت کے بعد قادر خان پیدا ہوئے، تب ان کے ماں باپ نے افغانستان سے انڈیا ہجرت کی۔ لیکن ماں باپ کی طلاق ہوگئی اور قادر خان نے سوتیلے باپ کے ساتھ غربت دیکھی۔ تعلیمی سلسلہ کسی طرح جاری رکھتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا اور گریجویشن کرکے ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔ اس عرصہ میں وہ اسکرپٹ لکھنے کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔ کالج میں ایک تھیٹر کے لیے قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام ملا اور ساتھ ہی ایک فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع بھی۔ یہ فلم 1972 میں ریلیز ہوئی اور نام تھا ‘جوانی دیوانی’ جو ہٹ ہوگئی۔ قادر خان کو مزید فلمیں ملنے لگیں۔ لیکن سنہ 1974 میں فلم ‘روٹی’ کے بعد قادر خان کی لکھی فلمیں اور ڈائیلاگ ہٹ ہونے لگے۔

    قادر خان 22 اکتوبر 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد عربی زبان کی تربیت کے لئے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود عربی سیکھی اور دینی کاموں‌ میں مشغول ہوگئے۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد زیادہ تر وقت ان کا کینیڈا میں بچوں کے ساتھ بیتا۔ اور کینیڈا ہی میں 31 دسمبر 2018ء کو وفات پائی۔

    سال 1977 میں قادر خان کی خون پسینہ اور پرورش جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں اور ان کی کام یابی کے بعد قادر خان کو اچھی فلموں کی پیشکشں شروع ہوگئی۔ ان فلموں میں مقدر کا سکندر، مسٹر نٹور لال، سہاگ، عبداللہ، دواور دو پانچ ، لوٹ مار، قربانی، یارانہ شامل تھیں۔قادر خان نے کامیڈی کردار اور بطور ولن بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا اور فلم انڈسٹری میں اپنی پہنچان بنائی۔ فلم قلی 1983ء میں ریلیز ہوئی تھی جو قادر خان کے کیریئر کی سپرہٹ فلموں میں سے ایک ہے۔ 1990 میں "باپ نمبری بیٹا دس نمبری، بھی ان کی اہم فلموں میں سے ایک ہے اور اس پر قادر خان کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • سعید ملک: فنِ موسیقی کے ایک ماہر کا تذکرہ

    سعید ملک: فنِ موسیقی کے ایک ماہر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کا امتیاز یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے صدیوں سے خوشی اور غم کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس فن کو ہر دور میں شاہانِ وقت کی سرپرسی بھی حاصل رہی اور کسی نہ کسی شکل میں ہر خاص و عام موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں کلاسیکی موسیقی نے فلموں میں بھی جگہ پائی اور اس فن کے ماہر اور اس کی باریکیاں سمجھنے والے بھی موجود تھے جن میں ایک نام سعید ملک کا بھی ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں‌ معیاری فلمیں بنا کرتی تھیں اور کلاسیکی موسیقی کا رجحان تھا، لیکن پھر وقت بدل گیا اور نئے آلاتِ موسیقی کے ساتھ جدید طرزِ گائیکی نے جہاں کئی ساز اور اصنافِ موسیقی کو ماضی کا حصّہ بنا دیا، وہیں اس فن کے ماہر بھی اپنی عمر پوری کرتے چلے گئے اور آج ان کی تصانیف بطور یادگار محفوظ رہ گئی ہیں۔ سعید ملک بھی اس دنیا میں نہیں رہے اور آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک مشہور ماہرِ‌ موسیقی اور ادیب بھی تھے۔ 30 دسمبر 2007ء کو سعید ملک دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے متعدد تصنیفات یادگار چھوڑ گئے۔ سعید ملک لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ماہر موسیقی سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں‌ فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں۔ وہ ادارے کی گورننگ کونسل کے رکن رہے۔ انھوں نے 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی پر مضامین اور کالم لکھے۔ سعید ملک نے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد اس فن سے متعلق مضامین لکھے جو اس فن کی باریکیاں اور موسیقی سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے ایک خزانہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ تحریریں اور کالم پاکستانی موسیقی کی تاریخ اور ایک مستند حوالہ ہیں۔

    سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔

  • اسلم اظہر: پی ٹی وی اور شعبۂ نشریات کا بڑا نام

    اسلم اظہر: پی ٹی وی اور شعبۂ نشریات کا بڑا نام

    پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ابتدائی دور کی باکمال شخصیات اور قابل و باصلاحیت فن کاروں‌ کی فہرست مرتب کی جائے تو اسلم اظہر کا نام سرفہرست رہے گا، جن کو پاکستان ٹیلی وژن کے بانیوں میں شمار کیا جاتا۔ اسلم اظہر نشریات کے شعبہ کی ایک مثالی شخصیت تھے جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں‌ کیا جاسکتا۔ جب بھی ملک میں ٹیلی وژن کے قیام اور اس کی ترقی کی بات کی جائے گی اسلم اظہر کا نام ضرور لیا جائے گا۔

    فنونِ لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ اسلم اظہر نے 1964 میں پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز کیا تھا اور اسے معیار و کمال کی انتہا تک لے گئے۔ اسلم اظہر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ پاکستان اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    اسلم اظہر 1932 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1954 میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد چٹاگانگ میں برما آئل کمپنی میں کچھ عرصہ نوکری کی۔ نوکری میں دل نہ لگا اور 1960 میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر کراچی چلے گئے۔ وہ زرخیز ذہن اور تخلیقی سوچ کے مالک تھے اور اس زمانے کے تھیٹر جیسے مقبول میڈیم کے علاوہ انھوں نے ہندوستان میں فلم سازی اور اس کی تیکنیک سیکھنے کی خواہش میں اس دنیا میں‌ قدم رکھا جب کہ وہ طالبِ‌ علم قانون کے رہے تھے۔ تاہم زمانۂ طالبِ علمی ہی میں‌ فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے اسلم اظہر جب کراچی لوٹے تو اپنے شوق اور دل چسپی کے میدان میں کام کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے، اور اس سلسلے میں آغاز فری لانسر کے طور پر کیا۔ انھیں محکمۂ اطلاعات کے لیے چند دستاویزی فلمیں بنانے کا موقع مل گیا۔ اسلم اظہر کو زیادہ لگاؤ تھیٹر سے تھا۔ اس لیے اپنے دوست فرید احمد کے ساتھ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی قائم کی اور اس کے تحت کئی ڈرامے پیش کیے۔ اسی دور میں اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ بھی کیا جو نسرین جان سے شادی کا تھا۔ ان سے اسلم اظہر کی ملاقات تھیٹر پر ہی ہوئی تھی اور دونوں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔

    سنہ 1964 میں حکومت نے جب ٹیلی وژن کی نشریات شروع کرنے کے لیے ایک جاپانی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تو اس کی جانب سے اسلم اظہر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ اب یہ کمپنی لاہور میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے لیے کام کرنے جارہی تھی۔ اسلم اظہر اس پروجیکٹ کا حصّہ بنے اور ان کی سربراہی اور نگرانی میں یہ منصوبہ کام یاب ہوا۔ بعد میں انھیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔

    اسلم اظہر بذاتِ خود نہایت منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ صدا کاری کا فن ان کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک تخلیق کار اور اختراع ساز بھی تھے جن کے زمانے میں نت نئے آئیڈیاز اور مختلف تجربات کیے گئے اور وہ کام یاب ہوئے۔

    1982-83 میں پی ٹی وی کی پہلی ایوارڈ تقریب اور متعدد شان دار اور طویل دورانیے کی نشریات کو اسلم اظہر کا تاریخی کارنامہ ہیں۔ 1970 کے انتخابات کی طویل ٹرانسمیشن بھی اسلم اظہر کی بدولت کام یاب ہوئی اور پی ٹی وی کے شان دار ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ اسلم اظہر نے بہترین کیمرہ مینز، اداکار، ڈیزائنرز، اور رائٹرز کے ساتھ لاہور کے اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بھی ٹی وی اسٹیشن قائم کیے۔ پاکستان کی تاریخ کے مایہ ناز فن کار انہی کے دور میں پروان چڑھے۔

    سنہ 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں ان کو پاکستان ٹیلی وژن تربیتی اکیڈمی کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کا وہ واحد دور تھا جب وہ ٹی وی سے منسلک نہیں رہے، تب وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے دستک تھیٹر گروپ کا آغاز کیا اور اپنے تھیٹر کے ذریعے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا شروع کی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔

    2015ء میں آج ہی کے دن اسلم اظہر انتقال کرگئے تھے۔