Tag: یوم وفات

  • پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    عورت ذات کی زندگی کے المیوں، دکھوں اور کرب کو بیان کرنے اور رومانوی شاعری سے ملک گیر مقبولیت حاصل کرنے والی پروین شاکر کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ایسی شاعرہ تھیں جن کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور رنجشوں کے سبب بے رنگ اور یاسیت کا شکار رہی۔

    شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی کل کائنات اکلوتا بیٹا مراد تھا۔ نوجوانی میں پروین شاکر نے طلاق کے بعد اپنی زندگی کا مشکل وقت دیکھا، لیکن بیٹے دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ شعر و شاعری اور ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئیں اور زندگی کا سفر جاری رکھا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ زیادہ عرصہ اپنے بیٹے کے ساتھ نہ رہ سکیں اور عین جوانی میں ٹریفک حادثہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہاں ہم پروین شاکر کے مشہور اشعار اور ان کی زندگی کے حالات مختصراً پیش کررہے ہیں۔

    حادثہ اور ماہِ تمام

    26 دسمبر 1994ء کو پروین شاکر اسلام آباد میں صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر ان کی کار موڑ کاٹتے ہوئے کسی تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ شدید زخمی پروین شاکر کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ انھیں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ پروین شاکر کی ناگہانی موت پر شعرو ادب کی دنیا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداح اشک بار نظر آئے۔

    یہ بھی پڑھیے: پہلے مقبول ترین شعری مجموعے میں شامل وہ غزل جو پروین شاکر کی پہچان بنی

    ابتدائی حالاتِ زندگی

    اردو زبان کی اس مقبول شاعرہ نے 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔ اسی نام کو پروین نے اپنایا اور پروین شاکر مشہور ہوئیں۔ وہ ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ زمانہ طالبعلمی میں مباحث میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ کم عمر تھیں جب شعر گوئی کا آغاز کیا اور جلد ہی ملک بھر میں‌پہچانی جانے لگیں۔

    تعلیم

    پروین شاکر نے انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کے بعد انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے مزید تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

    شادی اور علیحدگی

    1976ء میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ پروین شاکر ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ لیکن ازدواجی زندگی تلخیوں‌ کا شکار رہی اور 1987ء میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

    خاندانی حالات

    پروین شاکر کی والدہ کا نام افضل النساء تھا ۔ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پروین شاکر کاخاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ پروین شاکر اور ان کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا۔ پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت خاتون تھیں جنھیں معاشرے کے رویے اور گھٹن کا شکار ہونے کے بعد شادی ختم ہونے سے بھی شدید رنج ہوا۔ ایک حساس طبع اور شاعرہ نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کے ساتھ خود کو منوانے کے لیے بہت جد و جہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔

    شاعری اور ادبی سفر

    پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شائع ہوا تو اس وقت شاعرہ کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس مجموعہ کو ملک گیر پذیرائی ملی اور پروین شاکر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعراء نے کی اور انھیں بہت سراہا۔ پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعے 1980ء میں صد برگ، 1990ء میں خود کلامی، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء میں ماہ تمام( کلیات) کے عنوان سے شائع ہوئے۔

    نمونۂ کلام

    نظم: ضد
    میں کیوں اس کو فون کروں!
    اس کے بھی تو علم میں ہوگا
    کل شب
    موسم کی پہلی بارش تھی!

    چند مشہور اشعار
    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
    دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

    وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
    برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

  • بشیر احمد: ایک ہمہ جہت شخصیت کا تذکرہ

    بشیر احمد: ایک ہمہ جہت شخصیت کا تذکرہ

    پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات کا تذکرہ کیا جائے تو احمد بشیر بھی ان میں شامل ہوں‌ گے۔ ناول اور افسانہ نگاری کے ساتھ خاص طور پر بطور خاکہ نگار انھوں نے اردو ادب کو یادگار تحریریں دی ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ ترقّی پسند ادب سے وابستہ اور ایک صحافی کے طور پر مشہور تھے۔

    معروف ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ خستہ حال اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ وہ ایک ایسے ادیب اور دانش وَر تھے، جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے امید اور روشن امکانات کے چراغ روشن رکھے۔‘‘

    1923ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے احمد بشیر کی ذاتی زندگی بھی انقلاب آفریں تھی۔ ان کا نام شیخ بشیر حسین رکھا، لیکن شاعری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو احمد بشیر کے نام سے متعارف کروانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول سے اوّلین تعلیمی مدارج طے کیے۔ اُن کے والد کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اور بطور ہیڈ ماسٹر سری نگر تبادلہ ہوا تو ان کا کنبہ کشمیر چلا گیا اور وہیں احمد بشیر نے بی اے کا امتحان جمّوں یونیورسٹی، سری نگر سے پاس کیا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں انھیں مطالعہ کا شوق کتب خانوں میں لیے جانے لگا اور خاص طور پر کالج کی لائبریری سے احمد بشیر نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں ترقّی پسند مصنّفین کی تحریروں نے احمد بشیر کو بہت متاثر کیا۔ اسی زمانہ میں احمد بشیر نے اپنی فکر و نظر کو نکھارنے کے ساتھ عملی زندگی میں غیر روایتی راستہ اپنانا شروع کردیا۔ بعد میں‌ کشمیر چھوڑنا پڑا اور ملازمت کے لیے دہلی چلے گئے، جہاں فوج کے ریکروٹمنٹ شعبہ سے منسلک ہوئے۔ بعد ازاں ان کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا اور وہاں 1944ء میں ان کی ملاقات ممتاز مفتی سے ہوئی۔ ان میں دوستی کا یہ تعلق تا حیات قائم رہا۔ پھر دونوں ہی لاہور آ گئے۔ یہاں ریڈیو اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا تھا اور احمد بشیر کو یہاں کئی ذی علم اور اہلِ قلم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کے درمیان رہتے ہوئے احمد بشیر کی تخلیقی صلاحیتیں خوب پروان چڑھیں۔ وہ ممتاز مفتی کے ساتھ فلم کے حوالے سے ہندوستان میں تھے کہ ہندو، مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور پھر تقسیم عمل میں آئی۔ یہ دونوں لاہور کے ہو رہے۔

    احمد بشیر کا صحافت میں پہلا پڑاؤ ’’اِمروز‘‘ تھا۔ یہاں اُن کی ملاقات مولانا چراغ حسن حسرت سے ہوئی اور انہیں احمد بشیر کی بے باکی، صاف گوئی اور ہم درد طبیعت بہت پسند آئی۔ احمد بشیر نے بھی انھیں استاد کا درجہ دیا۔ چراغ حسن حسرت جب کراچی آئے، تو احمد بشیر کو بھی ساتھ لیتے آئے، جہاں انھوں نے ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور مشکل وقت دیکھنے کے بعد احمد بشیر نے پبلک سروس کمیشن کا انٹرویو دے کر انفارمیشن آفیسر کی مستقل ملازمت حاصل کرلی۔ بعد ازاں ان کو ایک قانون کے تحت ایک محکمے میں بھیج دیا گیا جس کے توسّط سے احمد بشیر کو ’’امریکن ایڈ پروگرام‘‘ کے تحت امریکا میں فلم میکنگ کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان لوٹے تو اپنی فلم ’’نیلا پربت‘‘ بنائی لیکن وہ ناکام ثابت ہوئی۔ 1965ء میں احمد بشیر کراچی سے لاہور چلے گئے، اور بعد ازاں ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر انچارج کے طور پر اس پرچے سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے ادبی تخلیقات میں ’’جو مِلے تھے راستے میں‘‘ (خاکے)، ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ (مضامین کا مجموعہ)، ’’ڈانسنگ وِد وُلوز‘‘(انگریزی کالمز کا مجموعہ)، ’’دِل بھٹکے گا ‘‘(ناول)، ’’خطوں میں خوش بُو‘‘ (مکاتیب)، ’’خون کی لکیر‘‘ اور ’’دل بھٹکے گا‘‘ (ناول) یادگار چھوڑے۔ ان کی دو بیٹیاں مصنّفہ جب کہ بشریٰ انصاری پاکستان کی مقبول ترین فن کار ہیں۔

    25 دسمبر 2004ء کو احمد بشیر لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

  • ہیرلڈ پنٹر: اعلیٰ پائے کا شاعر، نثر نگار اور سیاسی ناقد

    ہیرلڈ پنٹر: اعلیٰ پائے کا شاعر، نثر نگار اور سیاسی ناقد

    ہیرلڈ پنٹر نے جنگ اور ہر طرح‌ جبر و تشدد کی مخالف کی اور اقتدار کے لیے سیاست اور دوسری قوموں پر عالمی قوتوں کے جبر کی حرکیات بیان کرتے ہوئے ان کے بڑے ناقد مشہور ہوئے۔ ہیرلڈ پنٹر نوبل انعام یافتہ اور بیسویں صدی کےعظیم ڈرامہ نگار اور شاعر تھے۔

    2002ء میں کینسر کی تشخیص کے بعد ہیرلڈ پنٹر 24 دسمبر 2008ء کو چل بسے تھے۔ ہیرلڈ پنٹر نے سرد جنگ میں سرمایہ دار بلاک کی مخالفت کی۔ 1991ء اور پھر 2003ء میں عراق پر لشکر کشی کی مذمت کی۔ انھوں نے یوگو سلاویہ میں نیٹو کی بمباری اور 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے پر کڑی تنقید کی۔ ہیرلڈ پنٹر کا مؤقف تھا کہ لکھنے والا اپنے منصب سے اس وقت انصاف کرسکے گا جب وہ اپنے معاشرے اور اپنے گروہ میں موجود ناانصافی پر آواز اٹھانے کی جرأت کرے۔

    مصنّف اور شاعر ہیرلڈ پنٹر کی معرکہ آرا تخلیقات میں ہوم کمنگ، بِیٹریل، دی کیئر ٹیکر، اور برتھ ڈے پارٹی شامل ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ہیرلڈ پنٹر نے نوجوانی میں شاعری کا آغاز کیا وار بعد میں اداکاری، ہدایت کاری، اسکرین رائٹنگ میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اُنھوں نے سیاست اور اقتدار کو اپنی فکری اور تنقیدی بصیرت سے اس طرح لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ ان کی تحریروں کی بدولت عام آدمی پر فکر اور سوچ کے نئے در کھلتے گئے۔ ہیرلڈ پنٹر کو انسانی حقوق اور وقار کے علم بردار کے طور پر دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔

    ہیرلڈ پنٹر نے نثر نگاری میں اپنے اسلوب کی وہ دھاک بٹھائی کہ آج اگر اُن کی تحریر کا خاص انداز کسی بھی ملکی یا غیرملکی شاعر اور ڈرامہ نگار کے ہاں جھلکتا ہے تو ادبی ناقدین اسے پنٹریسک اسٹائل (Pinteresque) کہتے ہیں اور یہ اصطلاح آکسفورڈ ڈکشنری میں بطور اسمِ توصیف شامل ہے۔ یہ خاص انداز دراصل ہیرلڈ پنٹر کے کرداروں کی مکالمہ کی ادائیگی کے درمیان میں لمبی خاموشی ہے۔ ہیرلڈ پنٹر نے تیس سے زائد ڈرامے لکھے ہیں۔

    ہیرلڈ پنٹر سیاسی سوچ کے حامل نثر نگار اور شاعر تھے جو اپنی زندگی کے آخری عشرے میں بالخصوص اپنی سیاسی تحریروں کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز رہے۔ وہ برطانیہ میں لندن کے علاقے ہیکنی میں 1930ء میں پیدا ہوئے۔ پنٹر روشن فکر اور بائیں بازو کی سوچ رکھتے تھے جن کو امریکہ اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے بڑے نقادوں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر نے عراق پر دو بڑے اتحادیوں امریکہ اور برطانیہ کی چڑھائی کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ انھیں جب 2005ء میں نوبل پرائز دیا گیا تو اپنی تقریر میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر بش اور ٹونی بلیئر پر عالمی عدالتِ انصاف میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔

    ہیرلڈ پنٹر نہ صرف اعلیٰ پائے کے شاعر تھے بلکہ شاعری اور نثر نگاری کے ساتھ انھوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ ہیرالڈ پنٹر کو بعد از مرگ خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں معروف اہلِ قلم ہی نہیں اہم حکومتی شخصیات اورسیاست دان بھی شامل تھے۔

  • اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی پاکستان ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری کے ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بہت کم عرصہ میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اسکرین پر کئی یادگار کردار نبھائے۔ اظہار قاضی کو امیتابھ بچن کا ہم شکل کہا جاتا تھا۔ خوب رو اور باکمال اداکار اظہار قاضی 23 دسمبر 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    اپنے وقت کے اس مقبول اداکار کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ انھوں‌ نے کراچی میں 15 ستمبر 1959ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں‌ سے حاجی عبداللہ ہارون سیکنڈری اسکول سے پاس کیا۔ اظہار قاضی نے ایس ایم کالج سے اوّل پوزیشن میں گریجویشن کی اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ انھوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ وہ پاکستان اسٹیل ملز میں ایڈمن منیجر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ اظہار قاضی کی اچانک موت نے شوبز انڈسٹری اور ملک بھر میں ان کے مداحوں کو سوگوار کردیا۔ وہ ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    ٹی وی پر ممتاز ڈرامہ نویس بجیا نے اظہار قاضی کو سب سے پہلے ایک کردار سونپا تھا اور پھر اظہار قاضی فلموں میں بطور ہیرو بھی نظر آنے لگے۔ انھیں چند مختصر دورانیے کے ڈراموں میں کام کرنے کے بعد ڈراما سیریل ’’انا‘‘ میں کردار دیا گیا اور اسی کردار کی بدولت اظہار قاضی نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔

    80 کی دہائی میں ٹی وی کی اسکرین سے سفر شروع کرنے والے اظہار قاضی نے دائرہ، تھکن، گردش جیسے ڈراموں میں‌ کام کیا اور پھر ہدایت کار نذر شباب نے انھیں اپنی فلم روبی میں سائن کرلیا۔ یہ فلم 1986ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب رہی جس کے بعد اظہار قاضی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھتے گئے۔ اسی سال اظہار قاضی کی ہدایت کار جان محمد کے ساتھ پہلی فلم بنکاک کے چور بھی ریلیز ہوئی۔ 1987ء میں وہ فلم لو اِن نیپال میں دکھائی دیے۔ اور یہی وہ سال ہے جب اداکار اظہار قاضی نے پہلی پنجابی فلم دُلاری میں کام کیا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ 2002ء میں اظہار قاضی کی پنجابی فلم بالی جٹی ریلیز ہوئی اور یہ بھی خوب کام یاب رہی۔ 2004ء میں اظہار قاضی کی واحد فلم دامن اور چنگاری ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔

    اظہار قاضی نے اداکاری کے ساتھ گلوکاری کے شعبہ میں بھی خود کو آزمایا۔ ان کی 2 آڈیو کیسٹس بھی ریلیز ہوئیں۔ لیکن انھیں اس میدان میں زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ اظہار قاضی نے پچاس سے زائد فلموں میں مرکزی اور معاون اداکار کے طور پر کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں عالمی جاسوس، سر کٹا انسان، گھائل اور خزانہ کے نام بھی شامل ہیں۔

  • قدیر غوری: فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں مستند فلمی ہدایت کار تسلیم کرلیا گیا

    قدیر غوری: فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں مستند فلمی ہدایت کار تسلیم کرلیا گیا

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کو جو بڑے فن کار میسر آئے اور اداکاری سے موسیقی اور فلم سازی کے مختلف شعبوں‌ تک نام و پہچان بنائی، ان میں‌ قدیر غوری بھی شامل ہیں۔ قدیر غوری ایک انتہائی قابل اور تجربہ کار فلمی ہدایت کار تھے جو اصل شہرت اور ستائش امریکی فلم بھوانی جنکشن کے لیے غیرملکی ڈائریکٹر کے فرسٹ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرکے ملی تھی۔

    قدیر غوری تقسیم سے قبل ممبئی میں معروف ہدایت کار اور مصنّف منشی دل کے معاون تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب قدیر غوری نے امریکی فلم کے معاون ہدایت کار کے طور پر کام کیا تو انھیں مستند ہدایت کار کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ فلم کے لیے شان دار کارکردگی پر ہالی وڈ کے مذکورہ فلم ڈائریکٹر نے قدیر غوری کو تعریفی سند بھی دی تھی۔

    پاکستان کے اس مشہور فلمی ہدایت کار کی آج برسی ہے۔ وہ 22 دسمبر 2008ء وفات پاگئے تھے۔ قدیر غوری کو موسیقی اور فلم سازی میں‌ شروع ہی سے دل چسپی تھی اور اسی دنیا میں انھوں نے اپنے فن و کمال کی بدولت پہچان بنائی۔ 4 مئی 1924ء کو گجرات میں پیدا ہونے والے قدیر غوری نے استاد فیاض خان سے موسیقی اور منشی دل سے ہدایت کاری سیکھی تھی۔

    1955ء میں فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں‌ فلم انڈسٹری میں‌ خوب کام ملا اور قدیر غوری کی ہدایت کاری میں جو فلمیں بنیں ان میں ناجی، غالب، دو راستے، موسیقار، دامن، جانِ آرزو، انسان، دنیا گول ہے، نیکی بدی اور گلیاں دے غنڈے شامل ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار نے فلم دامن پر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ انھوں نے جہاں سیٹ پر اپنی مہارت اور کمال دکھایا، وہیں‌ نئے آرٹسٹوں کو فلم اور ہدایت کاری سکھانے کی غرض سے ایک کتاب بھی لکھی اور اس میں‌ فلم سازی کی تکنیک اور مہارت و مسائل کا ذکر کیا۔ قدیر غوری لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    معروف پاکستانی شاعر عبید اللہ علیم کی ایک غزل آپ نے بھی سنی ہوگی جس کا ایک شعر ہے:

    ‘کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‌،
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا!

    یہ کلام کلاسیکی گائیکی کے لیے مشہور بلقیس خانم کی آواز میں‌ بے حد مقبول ہوا۔ گلوکارہ بلقیس خانم 21 دسمبر 2022ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی برسی کی مناسبت سے ہم یہاں ان فن و شخصیت اور حالاتِ زندگی کی جھلک پیش کررہے ہیں۔

    بلقیس خانم سِتار نواز استاد رئیس خان کی اہلیہ تھیں۔ لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر 2017ء میں وفات پاگئے تھے۔ معروف انٹرویو نگار اقبال‌ خورشید نے 2013ء میں بلقیس خانم سے جو گفتگو کی تھی، وہ گلوکارہ کے حالاتِ زیست کی تفصیل کچھ یوں بتاتی ہے: انھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی تھیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

    کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ’’وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔‘‘

    وہ استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔ اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ’’تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔‘‘ آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ’’لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔‘‘ ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔

    سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ’’ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔‘‘

    اس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔

    آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ’’تصویر‘‘ کے لیے اُنھوں نے گانا ’’بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ’’گیت کے بول مناسب نہیں!‘‘ جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ’’بی بی‘‘ نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ’’میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت ’اچھی‘ تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔‘‘

    فلم انڈسٹری سے دوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔

    ’’انوکھا لاڈلا‘‘ استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ’’سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‘‘ ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

  • ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    اردو زبان و ادب میں پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی کو ان کی تصنیف اردو تنقید کا ارتقاء نے بے مثال شہرت دی، لیکن یہی ایک کتاب نہیں بلکہ متعدد اصنافِ ادب میں ان کی کتابیں‌ ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ وہ نقاد بھی تھے، جیّد محقق، خاکہ نویس اور سفر نامہ نگار بھی۔ لیکن ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے اور انھیں صفِ اوّل کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آج ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے اور اس مناسبت سے ہم ان پر بھیّا کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی شخصیت ہم پر کھلتی ہے۔ "وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ ان کی نیکی، ہمدردی، خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے۔ دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔ آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلۂ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔ وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلو عریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۴۴ء کا دور تھا۔”

    ڈاکٹر صاحب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے پر پاکستان آئے تھے اور یہاں‌ لاہور میں‌ اورینٹل کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ گیارہ سال یہاں گزارنے کے بعد ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان ان کے سامنے آئے۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔ ۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے اور ۱۹۸۰ء میں ان کی ملازمت ختم ہوئی۔

    ان کا سنہ پیدائش 14 اگست 1920ء تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خاندانی نام عبادت یار خان رکھا گیا اور اردو ادب میں انھوں نے عبادت بریلوی کے نام سے پہچان بنائی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب عبادت بریلوی کو ادب کا شوق ہوا تو مطالعہ شروع کیا اور پھر تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ انھیں کئی بڑے ادیبوں اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے علمی و تحقیقی کام شروع کرنے والے عبادت بریلوی کی تصانیف میں غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید’ کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے جن میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے علاوہ ان کی ایک آپ بیتی بعنوان یادِ عہدِ رفتہ شامل ہیں۔ یہ کتابیں عبادت بریلوی کی کئی سال کی محنت، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہیں اور انھیں اردو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

    ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1998ء کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • عذرا شیروانی: پی ٹی وی کی بے مثال اداکارہ

    عذرا شیروانی: پی ٹی وی کی بے مثال اداکارہ

    قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک میں ریڈیو اور پھر ٹیلی وژن نشریات کا آغاز ہوا تو جو فن کار سامنے آئے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اپنی الگ پہچان بنائی، ان میں‌ عذرا شیروانی بھی شامل ہیں۔ ان کی منفرد آواز، لب و لہجہ اور مکالموں کی ادائیگی میں مہارت نے انھیں فن کاروں کے جھرمٹ میں نمایاں کیا۔

    19 دسمبر 2005ء کو پی ٹی وی کی مایہ ناز اداکار عذرا شیروانی انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی تدفین عمل میں‌ لائی گئی۔ پی ٹی وی کی تاریخ کے متعدد یادگار ڈراموں میں عذرا شیروانی نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئیں۔ آج ماضی کی اس مقبول اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ ایک دور تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے اور مختلف پروگرام اس شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ لوگ ہر کام چھوڑ کر اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ ٹی وی پر تفریحی پروگرام نشر ہوتے تو شہر کی سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ عذرا شیروانی ٹی وی کے اسی سنہرے عہد میں اسکرین پر یوں ‘ڈرامہ’ کرتی تھیں کہ ان کے کرداروں پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ ان کی فطری اور بے ساختہ اداکاری نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے انکل عرفی میں غازی آپا کا کردار نبھایا تھا۔ یہ کردار بھی انھوں نے اپنی بے مثال اداکاری سے یادگار بنا دیا۔ تنہائیاں وہ ڈرامہ تھا جس میں انھیں ایک سخت گیر خاتون کے طور پر دیکھا گیا جنھیں گھر میں سب آپا بیگم پکارتے تھے۔ دھوپ کنارے میں انھوں فضیلت کا کردار ادا کر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تنہائیاں حسینہ معین کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جس میں آپا بیگم کا کردار بلاشبہ عذرا شیروانی کے کیریئر کا سب سے بہترین اور مشہور کردار تھا۔ اس ڈرامے میں جمشید انصاری کے کردار کے ساتھ ان کے مکالمے بہت پسند کیے گئے۔

    آنگن ٹیڑھا میں اداکارہ عذرا شیروانی نے مرکزی کردار محبوب احمد (اداکار شکیل) کی ساس عرف سلیہ بیگم کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے ایک اور مقبول کھیل ستارہ اور مہرالنّساء میں بھی ماں کا کردار نبھایا تھا۔ انا، افشاں، گھر اک نگر جیسے ڈراموں میں بھی ان کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا۔ اس دور میں‌ لاہور اور کراچی میں ٹی وی اسٹیشنوں کے درمیان معیاری ڈرامے اور شان دار پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے کے لیے گویا ایک دوڑ لگی رہتی تھی۔ اسی دور میں عذرا شیروانی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    وہ 1940ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ عذرا شیروانی نے 35 سال تک ٹی وی سے تعلق جوڑے رکھا۔ بعد میں وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکا چلی گئی تھیں۔

  • علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز نے اسٹیج، ٹیلی ویژن اور فلم میں بطور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ان فن کاروں میں شامل ہیں جن کی اداکاری اس قدر بے ساختہ اور عمدہ ہوتی ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگے۔ علی اعجاز ہر میڈیم میں یکساں طور پر کام یاب رہے اور ریڈیو کے لیے بھی ڈرامے کیے۔ انھیں عجوبۂ روزگار فن کار کہا جاسکتا ہے۔

    آج اداکار علی اعجاز کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2018ء میں آج ہی کے روز طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ علی اعجاز نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام "ندائے حق” سے کیا تھا۔ بعد میں تھیٹر اور پھر فلم میں بطور اداکار شہرت پائی۔ علی اعجاز کی پہلی فلم، پہلا فلمی سین اور پہلا فلمی گیت بھی اداکار ننھا کے ساتھ تھا جو ان کے قریبی دوست بھی رہے۔ علی اعجاز ان کے ساتھ بینک میں کام کرتے تھے اور دونوں کو اداکاری کا شوق تھا۔ علی اعجاز 1941 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور ننھا کے ساتھ فلم ’انسانیت‘ سے اپنا سفر شروع کیا لیکن شہرت ان کو فلم ’دبئی چلو‘ سے ملی۔ علی اعجاز نے 80 کی دہائی میں منور ظریف، ننھا اور رنگیلا کی موجودگی میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ اداکار نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا لیکن فلم اسٹار ممتاز کے ساتھ ان کے کئی گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اداکار علی اعجاز کو فلم کی دنیا میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ 1979ء تک وہ ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں عام مزاحیہ اداکاری کے علاوہ ولن اور ملے جلے کردار کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ٹی وی پر بھی کام کرتے رہے جہاں ‘خواجہ اینڈ سنز’ اور ‘شیدا ٹلی’ وغیرہ ان کے مشہور ڈرامے ثابت ہوئے۔ یہ ستر کی دہائی تھی جب ایک ڈرامے "دبئی چلو” میں علی اعجاز نے لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور پھر اس ڈرامے سے متاثر ہوکر ہدایت کار حیدر چوہدری نے اسی نام پر فلم بنائی اور علی اعجاز کو وہی کردار دیا جو انھوں نے ٹی وی ڈرامے میں کیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے اس فلم میں اپنے کردار کو یادگار بنا دیا۔ اسّی کی دہائی میں علی اعجاز ایک بڑے فلمی ہیرو اور ٹی وی کے مقبول اداکار بن چکے تھے۔ علی اعجاز نے جہاں فلمی دنیا میں اپنا عروج دیکھا وہیں انھوں نے فلمی صنعت اور شائقین کے رجحانات بدل جانے کے بعد اپنی شہرت کا گراف نیچے جاتا ہوا بھی دیکھا اور یہ کوئی انہونی نہ تھی۔ ایک عرصہ تک اپنے مداحوں کو مزاحیہ اور سنجیدہ کرداروں سے بہلانے والے علی اعجاز نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ بننے والی فلموں میں بے مثال اداکاری کی۔ ان میں دلبر جانی، یملا جٹ، جی او جٹا، دبئی چلو، عشق پیچاں اور دوستانہ ان کی یادگار فلمیں ہیں۔

  • ابن النفیس: مسلمان ماہرِ طب جس نے دورانِ خون کا نظریہ پیش کیا

    ابن النفیس: مسلمان ماہرِ طب جس نے دورانِ خون کا نظریہ پیش کیا

    عالمِ اسلام میں کئی نام اپنے علمی و تحقیقی کاموں‌ کی بدولت ممتاز ہوئے اور آج جدید سائنس اور غیرمسلم بھی ان کے کارناموں‌ کا اعتراف کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں دورانِ خون کا جدید نظریہ ولیم ہاروے سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن صدیوں پہلے ابن النفیس نے اس پر اپنی تحقیق کے بعد اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔

    انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں‌ کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ‌ معیار قائم ہوا اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و فنون لطیفہ میں‌ بے مثال کام ہوا۔

    محققین کے مطابق ابن النفیس کا انتقال 17 دسمبر 1288ء کو ہوا تھا۔ آج دنیائے طبّ کے اس عالم فاضل کا یومِ وفات ہے۔ تاہم یہ وہ شخصیت ہیں جن کی علمیت اور کام سے یہ دنیا پچھلی صدی میں‌ واقف ہوئی ہے۔ وہ دمشق میں سنہ 1210ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن النفیس کو اپنے دور کا ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کا ماہر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ دمشق میں‌ بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کرنے والے ابن النفیس بعد میں قاہرہ چلے گئے جو اس دور میں عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر مشہور تھا۔ وہاں اس وقت طبّ و جراحی کے کئی ماہر اور حیاتیات کے مضمون میں عالم فاضل شخصیات موجود تھیں جن سے استفادہ کرنے والوں‌ میں ابن النفیس بھی شامل ہیں۔

    ابن النفیس کی طبّ میں‌ دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔ ابن النفیس نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے۔ مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس نے امراضِ چشم پر بھی تحقیق کی اور ایک تصنیف یادگار چھوڑی۔ کہتے ہیں کہ اس کا نسخہ بھی یورپ میں محفوظ ہے۔

    مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا چرچا پچھلی صدی میں اس وقت ہوا، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کیا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے دورانِ خون سے متعلق چند اہم انکشاف بھی کیے تھے۔ مصنّف نے اپنے مقالے میں لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انھوں نے ابن النفیس کا نام نہیں‌ لیا۔ دنیا کو اس مسلمان ماہرِ طبّ کے نظریۂ دورانِ خون کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اُس دور میں نہیں‌ ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے یہ ماہرین کی نظروں میں نہیں آ سکا تھا۔

    طبیب و محقق ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی شامل ہے۔ ایک جگہ ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن النفیس طویل القامت اور دبلے پتلے تھے، لیکن صاحبِ مروّت اور علم و فن کی قدر دان مشہور تھے۔ انھوں نے شادی شدہ نہیں کی تھی اور اپنا گھر، ذاتی کتب خانہ اور اپنی جمع پونجی بھی طبّی تحقیق کے لیے دے دی تھی۔ ابن النفیس کا انتقال قاہرہ میں ہوا۔