Tag: یوم وفات

  • کمال احمد رضوی: ایک باکمال اور ہمہ جہت فن کار کا تذکرہ

    کمال احمد رضوی: ایک باکمال اور ہمہ جہت فن کار کا تذکرہ

    کمال احمد رضوی کا نام پاکستان کے اُن فن کاروں میں شامل ہے، جنہوں نے فنِ اداکاری سے لے کر ڈرامہ نویسی تک کئی مقبول رحجانات متعارف کرائے اور ریڈیو، اسٹیج اور ٹیلی وژن کو کئی یادگار پروگرام دیے۔ آج کمال احمد رضوی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    یکم مئی 1930ء کو متحدہ ہندوستان کی مشہور ریاست بہار کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے کمال احمد رضوی کے والد پولیس افسر تھے لیکن ادبی ذوق کے حامل تھے۔ کمال احمد رضوی نے نوعمری میں‌ کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا جو ان کے والد نے اکٹھا کررکھی تھیں۔ اردو زبان میں کلاسیکی ادب اور پھر غیرملکی ادیبوں کی تحریریں ان کی توجہ حاصل کرگئیں۔ 1951ء کمال احمد رضوی پاکستان آگئے اور کچھ عرصہ کراچی میں رہنے کے بعد لاہور منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسٹیج ڈراموں سے کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اس دور میں متعدد انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔ کمال احمد رضوی نے اردو ادب کی مختلف اصناف کا مطالعہ کیا تھا اور خاص طور پر کہانی و ڈرامہ میں بہت دل چسپی تھی۔ وہ اسٹیج پر ڈرامہ پیش کرنے کا شوق رکھتے تھے اور کئی ڈراموں کا اسکرپٹ لکھنے کے ساتھ بطور ہدایت کار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ 1958 میں انھوں نے تھیٹر شروع کیا اور لاہور میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ ان کا طنز و مزاح سے بھرپور ڈرامہ ’’الف نون‘‘ پیش کیا گیا جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس میں کمال احمد رضوی خود کو الن اور رفیع خاور کو ننھے کے روپ میں سامنے لائے۔ یہ پی ٹی کا مقبول ترین پروگرام تھا اور نشرِ مکرر کے طور پر بھی ناظرین نے اسے بہت شوق سے دیکھا۔ کمال احمد رضوی نے تھیٹر اور ٹی وی کے جن ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ان میں کھویا ہوا آدمی، چور مچائے شور، اور ہم سب پاگل ہیں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ریڈیو جو اس دور کا ایک مقبول میڈیم ہوا کرتا تھا اس کے لیے کمال احمد رضوی نے کئی ڈرامے تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے اور ان کے ترجمہ کردہ متعدد ڈرامے بھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔

    ایک زمانہ میں کمال احمد رضوی نے ’’تہذیب‘‘، ’’آئینہ ‘‘ اور ’’ شمع‘‘ نامی رسائل کی ادارت بھی کی۔ کمال صاحب نے بچوں کا ادب بھی لکھا۔ ان کی نہایت سادہ اور سلیس تحریروں میں روزہ مرہ کے مسائل پر طنز کیا جاتا تھا اور خاص طور پر ان کے ڈرامے تفریح اور ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ عام فہم ہوتے تھے۔

    تمغائے حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والے کمال احمد رضوی 17 دسمبر 2015ء کو اس عالم ناپائیدار سے رخصت ہوئے۔

  • فردوس بیگم: ‘ہیر’ کے کردار سے فلمی دنیا میں عروج پانے والی اداکارہ

    فردوس بیگم: ‘ہیر’ کے کردار سے فلمی دنیا میں عروج پانے والی اداکارہ

    فردوس بیگم کو پاکستانی فلموں کی ‘ہیر’ کے روپ میں مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکا اور آج بھی یہی کردار ان کی پہچان ہے۔ آج فردوس بیگم کی برسی ہے۔ عرصۂ دراز تک گوشۂ گم نامی میں رہنے والی فردوس بیگم 16 دسمبر 2020ء میں انتقال کرگئی تھیں۔

    19 جون 1970ء کو فلم ہیر رانجھا ریلیز ہوئی تھی جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور اسی فلم سے ہیر کا مرکزی کردار نبھا کر فردوس بیگم نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اسی فلم کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا بھی چرچا ہوا تھا اور ان کی شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947ء تھا۔ کہتے ہیں کہ فردوس بیگم لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہیں نوعمری میں رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والی فردوس بیگم کو بالآخر فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے رہتے تھے۔ انہی میں ایک بابا قلندر بھی تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اسے اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل تو نہ ہوسکی۔ لیکن بعد میں اس لڑکی کو فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار دے دیا گیا، مگر یہ فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں وہ اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار میں نظر آئیں اور ایک فلم ساز کے کہنے پر اپنا نام تبدیل کر کے فردوس رکھ لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ ان کی غلافی آنکھوں‌ اور خوب صورت نین نقش کی وجہ سے انھیں فلم ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار دے دیا گیا اور پھر اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور فلم بین ان کے مداح بن گئے۔ پنجابی زبان میں وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر مبنی یہ فلم ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اداکارہ فردوس کو اس فلم میں عمدہ پرفارمنس پر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 1973ء میں فردوس بیگم نے پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر اس کے بعد ان شہرت کا سفر جیسے تھم گیا۔ فلم انڈسٹری میں نئے چہروں کے درمیان فردوس بیگم کو نظرانداز کیا جانے لگا اور اداکارہ اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔ ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے۔ ان میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    فردوس بیگم کو انڈسٹری اور ان کے حلقۂ احباب میں ایک خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اداکارہ کا انتقال برین ہیمرج کی وجہ سے ہوا اور وہ لاہور میں آسودۂ خاک ہوئیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے کام یاب فلمی ہیرو اکمل سے شادی کی تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس اداکارہ نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور ناموں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان قابلِ ذکر ہیں۔

  • عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    افسانہ نگار، بہترین مترجم اور عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کی حیثیت سے عزیز احمد کا نام ان کی مختلف اصنافِ ادب میں عمدہ تصانیف کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ آج عزیز احمد کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد نے جہانِ ادب کے لیے اردو اور انگریزی زبانوں میں علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا۔ ایک نہایت قابل استاد اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے عزیز احمد نے کئی سال تدریس اور ادب کے شعبہ کو دیے اور 16 دسمبر 1978ء کو وفات پائی۔ حیدر آباد دکن کے ضلع تلنگانہ میں 11 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولنے والے عزیز احمد کی ابتدائی تعلیم اور بعد کے درجات کی تعلیم اس دور کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ میں مکمل ہوئی۔ عزیز احمد کے اساتذہ میں مولوی عبدالحق، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولوی وحید الدین سلیم، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور پروفیسر عبدالقادر سروری جیسے ممتاز ادبا شامل تھے۔ عزیز احمد ادب کا ذوق اپنی خاندانی فضا سے لے کر آئے تھے اور ان اساتذہ نے انہیں کندن بنا دیا۔ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے عزیز احمد کو نظامِ دکن نے مولوی عبدالحق کی سفارش پر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجا۔ عزیز احمد نے وہاں تعلیم مکمل کرنے کے دوران چند بڑے ادیبوں اور دانش وروں کے درمیان رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ای، ایم، فورسٹر ان میں سے ایک ہیں۔ انگریزی اور فارسی میں ”آنرز“ کر کے عزیز احمد دکن واپس آئے تو جامعہ عثمانیہ میں ان کو انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ 1940ء میں ان کی شادی ہوگئی اور اسی دور میں اپنی قابلیت اور لیاقت کی بنیاد پر 1942 میں وہ نظام حیدرآباد کی بہو شہزادی در شہوار کے اتالیق مقرر ہوئے۔ عزیز احمد چار سال تک اس خانوادے سے منسلک رہے۔ اس خدمت کے بعد عزیز احمد نے 1946 میں دوبارہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر 1949میں ہجرت کرکے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی آگئے۔ یہاں عزیز احمد نے محکمہ اطلاعات 1957 تک خدمات انجام دیں۔ 1958ء میں انھوں نے لندن میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا جہاں وہ اپنی وفات تک مقیم رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔ وہ ایک محقّق اور نقّاد بھی تھے اور اسلامی علوم و ثقافت پر ان کی انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی سے متعلق گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ عزیز احمد کی انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ ان کتابوں کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ انور سدید لکھتے ہیں کہ عزیز احمد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی زبان کے علمی اور ادبی سرمائے میں اضافے کے لئے دوسری زبانوں کی ممتاز کتابوں کا ترجمہ ضروری ہے۔ انہوں نے نظریاتی تنقید کی قدیم ترین کتاب ارسطو کی ”بوطیقا“ کا ترجمہ سلیس اردو میں کیا۔ ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی اور شیکسپئر کے ڈرامے رومیو جیولیٹ کے علاوہ ابسن کے ایک ڈرامے کا ترجمہ معمار اعظم کے عنوان سے کیا۔ عزیز احمد کو شاعری پر بھی تخلیقی دسترس حاصل تھی۔

  • الیاس کاشمیری: پاکستانی فلموں کا مشہور ولن جو پچھتاوے کا شکار ہوگیا!

    الیاس کاشمیری: پاکستانی فلموں کا مشہور ولن جو پچھتاوے کا شکار ہوگیا!

    الیاس کاشمیری پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام تھا جن کو بطور ولن فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور خاص طور پر ان کی پنجابی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔ 12 دسمبر 2007ء کو الیاس کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    اپنے وقت کے اس کام یاب ولن کی زندگی کا ایک المیہ یہ تھا کہ فلم سے دور ہونے کے بعد وہ نہ صرف گھر تک محدود ہوگئے تھے بلکہ احساسِ‌ گناہ کا شکار بھی تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض بھی لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوچکے تھے۔ اس پر ان کو یہ احساس ستانے لگا کہ ان بیماریوں اور جسمانی تکالیف کی وجہ ان کی فلمی دنیا سے وابستگی ہے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن ولن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل ولن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے الیاس کاشمیری نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کردار نبھائے جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    فلم نگری میں قدم رکھنے کے لیے الیاس کاشمیری نے 1946ء میں اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہ دراز قد اور خوبرو نوجوان تھے اور انھیں یقین تھا کہ فلموں میں کام مل جائے گا۔ الیاس کاشمیری کو فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے ساتھ ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا۔ الیاس کاشمیری بھی ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ بطور اداکار ان کی اُردو فلموں کی تعداد بہت کم ہے۔ 1956ء میں ’ماہی منڈا‘ الیاس کاشمیری کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    ولن کے روپ میں فلم بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے والے الیاس کاشمیری کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ایک گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • ظہیر کاشمیری: ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد کا تذکرہ

    ظہیر کاشمیری: ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد کا تذکرہ

    اردو ادب میں ظہیر کاشمیری کا نام زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک ہی شعر کافی ہے جو اکثر انقلابی اور احتجاجی جلسوں میں پڑھا جاتا ہے۔

    ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
    ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

    یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور آج بھی سیاسی و عوامی جلسوں‌ کے دوران پنڈال میں گونجتا ہے۔ یہ شعر حق اور سچ کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کا جوش و ولولہ بڑھاتا ہے۔ ظہیر کاشمیری ایک ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد تھے۔

    ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ 1919ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے غلام دستگیر کا آبائی وطن کشمیر تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگریزی میں ایم اے کیا۔ شعر گوئی کا سلسلہ گیارہ برس کی عمر سے جاری تھا۔ بعد میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مشہور رسالہ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ اس کے علاوہ روزنامہ مساوات میں بھی کام کیا۔

    ظہیر کاشمیری ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے اردو دنیا میں ممتاز ہوئے۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ ظہیر کاشمیری کو بعد از مرگ حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    فلمی دنیا میں ظہیر کاشمیری نے نغمہ نگار، مصنف اور ہدایت کار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے ایک فلم تین پھول (1961) کے نام سے بنائی تھی اور یہ بے وفائی کے موضوع پر بننے والی ایک منفرد فلم تھی۔ لیکن ناکام ثابت ہوئی، اس کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ بھی ظہیر کاشمیری کا لکھا ہوا تھا۔

    12 دسمبر 1994ء کو ظہیر کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اشوک کمار: لیبارٹری کی چلمن سے نکل کر بڑے پردے پر کام یابیاں‌ سمیٹنے والا فن کار

    اشوک کمار: لیبارٹری کی چلمن سے نکل کر بڑے پردے پر کام یابیاں‌ سمیٹنے والا فن کار

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار نے اداکار ہی نہیں بطور گلوکار بھی شہرت پائی اور ایک فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر بھی کام کیا بولی وڈ سے متعدد فلمی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    منٹو مزید لکھتے ہیں، یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے، تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے۔

    اشوک کمار نے دو مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کا سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے وصول کیا اور 1999ء میں انھیں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس کا نام اردو شاعری میں بطور مرثیہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ اس فن کے بادشاہ کہلائے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ اس صنفِ شاعری کو میر انیس کے بعد آج تک نہ تو حوالہ و سند کے لیے کسی دوسرے شاعر کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی اس صنف میں کمال و فن نے اس پائے کا کوئی شاعر دیکھا۔ مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والے میر انیس کے مراثی برصغیر میں ہر مجلس اور ہر محفل میں آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔

    آج میر انیس کی برسی ہے۔ میر انیس نے اپنے مرثیوں میں کربلا میں حق و باطل کے مابین جنگ کا نقشہ اور حالات و واقعات کا تذکرہ اس کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کی آنکھوں‌ میں اس کی تصویر بن جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان کا طرزِ بیان بہت مؤثر اور دل گداز ہے۔ انیس نے صرف جنگ کے ہی مناظر نہیں بلکہ میدان اور فطری مناظر کی ایسی لفظی تصویریں بنائی ہیں کہ آئندہ بھی اس کی مثال دی جاتی رہے گی۔

    میر انیس نے باقاعدہ شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا۔ لیکن پھر منقبت اور مرثیہ کی صنف کو اپنایا اور بڑا نام پیدا کیا۔ برصغیر کا یہ عظیم مرثیہ نگار ایک نازک مزاج اور بڑی آن بان والا بھی تھا۔ وہ امیروں اور رئیسوں کی صحبت سے دور رہے۔ چاہتے تو اودھ کے دربار میں ان پر بڑی نوازش اور تکریم ہوتی مگر وہ ایک فقیر صفت اور اپنے حال میں رہنے والے انسان تھے۔

    میر انیس کا حقیقی نام میر ببر علی تھا۔ وہ 1803ء عیسوی میں اتر پردیش کے شہر فیض آباد کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد میر مستحسن خلیق اور پر دادا میر ضاحک اپنے دور کے استاد شاعر تھے۔ دادا میر حسن اردو ادب کے معروف مثنوی گو شاعر تھے۔ یہ وہی میر حسن ہیں جنھوں‌ نے اردو ادب کو مثنوی ‘سحر البیان’ دی۔ یوں کہیے کہ شاعری میر انیس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ پانچ چھ برس کی عمر سے ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔

    میر انیس غزل گوئی اور مرثیہ گوئی میں اپنے والد میر خلیق کے شاگرد تھے۔ کبھی کبھی اپنے والد کے کہنے پر شیخ امام بخش ناسخ کو بھی اپنی غزلیں دکھا لیا کرتے تھے اور انہی کے کہنے پر انیس کا تخلص اپنایا۔

    یہاں ہم اس غزل کے چند اشعار پیش کررہے ہیں‌ جو میر انیس نے ایک مشاعرہ میں‌ پڑھی تھی اور ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ اشعار یہ ہیں۔

    اشارے کیا نگۂ نازِ دل ربا کے چلے
    ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے

    مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
    حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے

    کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
    چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

    لیکن پھر وہ مرثیہ گوئی کی طرف آنکلے اور یہی صنف ان کی لازوال پہچان بنی۔ ہندوستان کے ممتاز ادیب، نقاد اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں میر انیس کے بارے میں لکھا، "میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو۔ کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔
    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہوگیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہر مرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے لیکن میر انیس زبان پرحاوی ہے۔ معمولی مصرع بھی کہیں گے توایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔”

    اسی طرح‌ نیر مسعود جیسے بڑے ادیب اور افسانہ نگار لکھتے ہیں کہ "انیس کی مستند ترین تصویر وہ ہے جو ان کے ایک قدر دان نے کسی باکمال مصور سے ہاتھی دانت کی تختی پر بنوا کر ان کو پیش کی تھی۔ انیس کی جو تصویریں عام طور پر چھپتی رہتی ہیں وہ اسی ہاتھی دانت والی تصویر کا نقش مستعار ہیں۔ لیکن ان نقلوں میں اصل کے مو قلم کی باریکیاں نہیں آسکیں۔ اصل تصویر میں میر کی غلافی آنکھیں، آنکھوں کے نیچے باریک جھریاں، رخساروں کی ہڈیوں کا ہلکا سا ابھار، ذرا پھیلے ہوئے نتھنے اور بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ مل کر ایک ایسے شخص کا تاثر پیدا کرتے ہیں جو بہت ذکی الحس اور ارادے کا مضبوط ہے۔ دنیا کو ٹھکرا دینے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ شاید ٹھکرا چکا ہے۔ وہ کسی کو اپنے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کسی سے مرعوب نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی خاموش اور بہ ظاہر پر سکون شخصیت کی تہ میں تجربات اور تاثرات کا ایک طوفان برپا ہے۔”

    یہاں ہم ایک شعر سے متعلق وہ دل چسپ واقعہ بھی نقل کررہے ہیں جو ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔ ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔ وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں کہ کس سوچ میں ہیں؟ میر انیس نے بتایا تو بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“، میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں شامل کیا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ اور آج بھی میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

    اردو کے اس بے مثل شاعر نے 10 دسمبر 1874ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے دورِ عروج میں کئی باکمال اور بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور بے مثل اداکار ہی‌ نہیں لاجواب شاعری تخلیق کرنے والے بھی ملے جن میں ایک نام مشیر کاظمی کا ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایسے گیت نگار تھے جن کے فلمی گیت اور نغمات پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    آج مشیر کاظمی کی برسی ہے۔ وہ 8 دسمبر 1975ء میں‌ وفات پا گئے تھے۔ فلمی شاعر مشیر کاظمی کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر انبالہ سے تھا۔ 1915ء میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ ان کے والد پولیس سروس سے وابستہ تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو ترک کرکے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر شعر و ادب کی طرف مائل ہوگئے۔ مشیر کاظمی نے وہ دور دیکھا جب تقسیمِ ہند اور انگریزوں کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں اور دوسری طرف ادب اور فلم کے شعبوں میں‌ کئی بڑے نام اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ مشیر کاظمی کو بھی انقلابی ترانے، رومانوی شاعری اور فلم کی دنیا اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اس وقت کلکتہ، ممبئی اور لاہور میں بڑی شان دار فلمیں تخلیق ہو رہی تھیں۔ مشیر کاظمی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے تھے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور منتقل ہوگئے اور یہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ بطور شاعر وہ اپنا سفر شروع کرچکے تھے اور لاہور میں‌ انھوں‌ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں بننے والی فلموں کے لیے بطور گیت نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا۔ اس میدان میں کام یابی نے ان کے قدم چومے اور بطور فلمی گیت نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔

    فلم دوپٹہ کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں وہ پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔ مشیر کاظمی کے گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا نغمہ نگار بنا دیا۔ وہ چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی نظر آئے۔ بشیرا اپنے وقت کی ایک مشہور فلم تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس موقع پر معاون اداکار کے طور پر مشیر کاظمی ہیرو کے قریب ہوتے ہیں اور فلم بینوں کو پردے پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    مشیر کاظمی نے زندگی میں‌ کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ پہلی فلم اور گلوکارہ نور جہاں‌ سے ملاقات سے متعلق ایک واقعہ ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں (مشیر کاظمی کو) پہلی بار نور جہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔ وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نور جہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘

    ان کا شمار اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملّی نغمات اور فلمی گیتوں نے مشیر کاظمی کو بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مشیر کاظمی کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے ملّی نغمات لکھے جن کی گونج آج بھی وطن عزیز کی آزاد فضا میں سنائی دیتی ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدا بہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت فلم دوپٹہ میں شامل ہوا اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ مشیر کاظمی کے چند مشہور فلمی گیتوں میں تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے، شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلالپوری کا ذکر پاکستان کے ایک بلند پایہ مفکر، فلسفی اور خرد افروزی پر مبنی کتابوں کے مصنّف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان کا وقیع علمی سرمایہ اُس تحقیقی کام پر مشتمل ہے جس میں تاریخ و فلسفہ، مذہب و معاشرت بہم نظر آتے ہیں۔

    پاکستانی معاشرے میں فکر و دانش کے موتی لٹانے والے جلال پوری ایک عالم فاضل، نہایت قابل اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے جو تصنیف و تالیف کے ساتھ تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ علی عباس جلال پوری نے فارسی اور اردو دنوں زبانوں میں ایم اے کیا۔گورنمنٹ کالج، لاہور کے پروفیسر رہے۔ ان کا موضوع فلسفہ، تاریخِ فلسفہ، تاریخ اور مذہبیات رہا اور اردو زبان میں ان کے کئی مضامین اور چودہ سے زائد کتابیں شایع ہوئیں۔

    جلال پوری نے جس ماحول میں‌ آنکھ کھولی وہ اس بارے میں کہتے تھے: ”خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم و بیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچّوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ “ ہمایوں”، “زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھیں۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ ان میں، ایک ” داستان امیر حمزہ“ اور دوسری ” الف لیلیٰ، “ تھی۔”

    1914ء میں‌ پیدا ہونے والے علی عباس جلال پوری نے 1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے۔ 1934ء میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں‌ بی ٹی کا کورس کر کے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ جلال پوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز بھی رہے۔ 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ دورانِ ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا تھا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوگئے۔ بعد میں‌ فارسی میںایم اے فارسی میں کام یابی پر گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا۔ 1958ء میں جلال پوری نے فلسفے کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔

    6 دسمبر 1998ء کو وفات پانے والے علی عباس کو جلال پور شریف میں سپرد خاک کیا گیا۔

    محمد کاظم جو ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے اور قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر تھے انھوں نے اس نادرِ‌ روزگار شخصیت سے متعلق اپنی یادیں‌ اس طرح‌ بیان کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلال پوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

    علی عباس صاحب نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں‌ کے ساتھ کائنات اور انسان، خرد نامہ جلال پوری، رسوم اقوام، میرا بچپن اور لڑکپن، پریم کا پنچھی پنکھ پسارے(ناولٹ)، پنجابی محاورے اور سبد گل چیں مکمل کیں۔ یہ ان کی یادگار کتابیں‌ ہیں۔

  • فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    پاکستان میں قوالی اور صوفیانہ کلام کے گائیکوں میں عزیز میاں نے لازوال شہرت اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ عزیز میاں ایک قابل، تعلیم یافتہ اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ایسے قوال تھے جو اپنے مخصوص انداز میں سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کے مداح پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔

    عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں کہ لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    عالمی شہرت یافتہ قوال عزیز میاں نے علّامہ اقبال، قتیل شفائی اور دیگر شعرا کے صوفیانہ کلام کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ گانے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ خمریات اور عشقِ حقیقی پر مبنی اشعار کو عزیز میاں نے اپنی آواز میں جاودانی عطا کی اور کئی معروف اور غیر معروف شعرا کی شاعری کو زندگی بخشی۔

    عزیز میاں تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ شخص تھے۔ جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کرنے والے عزیز میاں فلسفہ میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ فلسفہ کے طالبِ علم ہی نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ مباحث میں حصّہ بھی لیتے اور دلیل و منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک غیر مسلم بھی عزیز میاں کو سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔ عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہونے والے عزیز میاں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اپنے منفرد اور والہانہ انداز کے سبب اپنی الگ پہچان بنائی۔ ان کی قوالیاں سننے والوں پر آج بھی وجد طاری کر دیتی ہیں۔ ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ عزیز میاں کی آواز میں کئی منقبتیں بھی سامعین میں بہت مقبول ہیں۔

    نعتیہ کلام کی بات کریں تو ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعت ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنی جاتی رہی ہے اور قلب و روح کی تسکین کا سامان کرتی ہے۔

    عزیز میاں ایران کے شہر تہران میں سرکاری سطح‌ پر ایک محفل میں مدعو تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق ان کی تدفین ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    حکومتِ پاکستان نے عزیز میاں قوال کو 1989ء میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔