Tag: یوم وفات

  • پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    علم و ادب کے شیدا ہر دور میں پطرس بخاری کی تحریروں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ان کے قلم کی روانی، شگفتہ بیانی اور طرزِ تحریر کا انفرادیت کے قائل رہیں گے۔ آج پطرس کا یومِ وفات ہے۔

    ایک کتاب کے دیباچہ کی حسبِ ذیل سطریں پطرس کے زورِ‌ قلم اور محاورات کے برجستہ استعمال کی خوب صورت مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: "اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔”

    پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس بخاری کو ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے جو صرف انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے خود کو ایک صحافی اور بہترین صدا کار کے طور پر بھی منوایا۔ تخلیقی کاموں کے ساتھ ان کی اپنے شعبہ اور کام پر گرفت بھی قابلِ‌ ذکر ہے۔ وہ ریڈیو کے ماہرِ نشریات اور زبردست براڈ کاسٹر تھے۔ ریڈیو پر تخلیقی کام ہی نہیں، انھوں نے انتظامی امور اور تکنیکی معاملات کو بھی سنبھالا اور اپنی ٹیم سے خوب کام لیا۔

    پطرس بخاری ان ادیبوں اور مزاح نگاروں‌ میں سے ایک تھے جو ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کرتے ہیں کہ شائستہ طنز و مزاح‌ کیا ہوتا ہے اور شگفتہ نگاری کا مطلب کیا ہے۔ وہ اپنے دور کے باکمال اور بڑے ادیبوں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی پر مشتمل کہکشاں میں شامل تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے۔ اس کا اعتراف معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے یوں کیا، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    فن و ادب کا یہ بڑا نام ایک ماہرِ تعلیم اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی ممتاز ہوا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات بیش بہا ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کو عبور حاصل تھا اور انھوں نے انگریزی سے کئی کتابوں کے اردو تراجم کیے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پطرس نے فارسی، پشتو اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان بنا تو یہاں بھی ریڈیو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ انھیں انگریزی سے کیمبرج پہنچے کے بعد بڑا لگاؤ ہوگیا تھا اور عالمی ادب کا خوب مطالعہ کیا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ اکثر بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 میں پطرس نیویارک میں سرکاری کام کی غرض سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں 5 دسمبر کو اچانک ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ انھیں امریکہ ہی میں دفن کیا گیا۔

    بخاری صاحب کو خان لیاقت علی خاں نے بطور سفارت کار منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکہ میں انہی کو اپنے ساتھ بطور ترجمان لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری نے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دیے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع پطرس بخاری کی مقبول تحریروں‌ میں‌ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں شامل ہیں۔

    پطرس کتّے کے عنوان سے اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ہلالِ امتیاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں ہم ان کے ایک رفیقِ‌ کار عشرت رحمانی کی تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

  • بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔بیدل کی مدح اور ستائش کرنے والوں‌ میں اردو اور فارسی زبان کے کئی بڑے شعراء شامل ہیں جن میں دو نام علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے لیے جاسکتے ہیں۔ فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بھی بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی اور شعرا نے ان کا طرز اپنایا۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد شعرائے ہند نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی اور ان کے کلام کی شرحیں اور شاعری پر مضامین رقم کیے گئے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا فخر اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ محققین کے مطابق ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    محققین نے ان کا یومِ وفات 5 دسمبر 1720ء لکھا ہے۔ بیدل نے اس زمانہ میں شہرت پائی جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔ اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا گیا۔

  • روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم اپنی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کے فن پر مکمل عبور رکھتی تھیں اور اسی لیے انھیں ملکہ موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پاکستان میں اپنے ہم عصر گائیکوں میں نمایاں تھیں۔

    روشن آراء بیگم 19 جنوری 1917ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام وحید النساء بیگم تھا۔ روشن آراء بیگم نے موسیقی کی تعلیم شہرۂ آفاق گائیک استاد عبد الکریم خان سے حاصل کی اور فن کی اس دنیا میں ملکۂ موسیقی کا خطاب پایا۔ تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے روشن آراء بیگم لاہور آتی تھیں اور یہاں موسیقی کی یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہوگئیں۔ یہاں موسیقی کے دلدادہ پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ان کی شادی ہوئی اور انھوں نے لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی۔ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے جن کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی، نوشاد اور تصدق حسین جیسے موسیقاروں نے ترتیب دیں۔ روشن آراء بیگم نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، روپ متی باز بہادر اور نیلا پربت میں آواز کا جادو جگایا۔

    حکومت پاکستان نے روشن آراء بیگم کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ یہ عظیم گلوکارہ 5 دسمبر 1982ء کو انتقال کر گئی تھیں۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ گلوکارہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

  • الیگزینڈر ڈوما: ناقابلِ فراموش واقعات اور پُرتجسس کہانیوں کا خالق

    الیگزینڈر ڈوما: ناقابلِ فراموش واقعات اور پُرتجسس کہانیوں کا خالق

    آپ نے کبھی ادیب کے لیے یہ سنا ہے کہ وہ "کہانیوں کا کارخانہ” ہے۔ یہ الفاظ ایک بہت بڑے فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ڈوما نے اپنے قلمی سفر کا آغاز ڈرامے لکھنے سے کیا اور پھر وہ کہانیاں تخلیق کرنے لگا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ اپنی پذیرائی اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے الیگزینڈر ڈوما نے خود کہانیاں لکھنے کے ساتھ چند اہلِ قلم سے بھی معاوضہ طے کرکے کہانیاں لکھوانا شروع کردی تھیں۔ وہ ان پر ایک نظر ڈالتا اور کہانیوں کو اپنا انداز عطا کردیتا۔ اسی لیے اسے کہانیوں کی پیدوار کا کارخانہ کہا گیا۔

    آج فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کا یومِ وفات ہے۔ اس مشہور ناول نگار کے بارے میں مسعود برکاتی لکھتے ہیں کہ ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور فرانسیسی ناول لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوئی۔ ڈوما نے پانچ سو کے قریب ناول لکھے۔ اس کی کئی کتابیں فرانس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج بھی ان کو پوری دنیا میں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ڈوما نے تاریخ کو کہانی کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈوما کی چند کتابیں ”تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ڈوما نے اپنی کہانیوں سے خوب کمایا، مگر جب وہ 1870ء میں مرا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

    الیگزینڈر ڈوما کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مقبول ہوا اور اردو میں اس کے تراجم کو قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ یقین نہیں آتا، لیکن پڑھنے والا ہر وقت آگے کیا ہوا کو جاننے کے شوق میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔ الیگزینڈر ڈوما کو فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ادیب کہا جاتا ہے جس نے بعد میں دنیا بھر میں شہرت پائی۔ وہ 5 دسمبر 1870ء کو چل بسا تھا۔ الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک قصبہ میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہوا اسے شہرت نصیب ہوئی۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں اور ان کی دل چسپی کہانی کے انجام بڑھتی جاتی ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں‌ تو اس کا باپ وہ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی مہمات میں کارنامے سرانجام دیے۔ اس کی ماں افریقی تھی۔ بعد میں فرانس میں سیاسی صورت حال بدلی اور نپولین کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تو وہاں‌ غلامی کا بھی دوبار رواج پڑا اور تعصب و نسلی منافرت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نپولین ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور چوں کہ ڈوما کا باپ ایک افریقی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اسے بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ مصنّف نے اپنے باپ کی ان تمام تکالیف کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشکلات پر مضامین بھی لکھے۔ خود الیگزینڈر ڈوما کی زندگی پر مبنی ایک فلم متنازع قرار پائی۔ انیسویں صدی کے اس افریقی فرانسیسی مصنّف کے روپ میں اس فلم میں ایک گورے کو دکھایا گیا جس پر نسل پرستی کی بحث چھڑ گئی۔ یہ 2010ء کی بات ہے اور اس فلم کا نام ” لا ائیٹو ڈیوما” تھا۔ ڈوما کا کردار ایک معروف فرینچ اداکار جراد ڈیپارڈیو کو دیا گیا اور اس کے لیے اداکار کو اپنا جسم کالا کرنا پڑا جس پر کہا گیا کہ فرینچ فلم انڈسٹری نے انیسویں صدی کے ایک عظیم ناول نگار کو دانستہ طور نیچا دکھانے کے لیے ان پر مبنی فلم میں ایک سفید فام کا انتخاب کیا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی فرینچ اور افریقی مشترکہ کردار کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

    الیگزینڈر ڈوما فرانس کے مشہور شہر پیرس میں‌ آسودۂ خاک ہے۔ اس ادیب کی کہانیوں پر درجنوں فلمیں‌ بنائی‌ جا چکی ہیں‌۔

  • "نیلی چھتری” والے ظفر عمر کا تذکرہ

    "نیلی چھتری” والے ظفر عمر کا تذکرہ

    اردو زبان میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والوں میں‌ ظفر عمر کا نام اوّلین ناول نگار کے طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔تقسیمِ ہند سے قبل ان کے کئی جاسوسی ناول مقبول ہوئے۔ اس دور میں عالمی ادب سے تراجم کو بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا اور جاسوسی کہانیاں ہندوستان بھر میں مقبول تھیں اور جب ظفر عمر کا پہلا جاسوسی شایع ہوا تو قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔

    ظفر عمر نے 1916ء میں اپنا پہلا جاسوسی ناول بعنوان "نیلی چھتری” تحریر کیا تھا، جس کا مرکزی کردار ‘بہرام’ تھا۔ اس ناول کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بعد مصنّف نے ‘بہرام کی گرفتاری’، ‘چوروں کا کلب’ اور ‘لال کٹھور’ کے نام سے مزید جاسوسی ناول تحریر کیے۔ مشہور ناقد اور ادبی کالم نگار مشفق خواجہ کے مطابق ظفر عمر کے ناولوں کا آغاز اور واقعات کا ارتقاء ڈرامائی ہوتا ہے۔ وہ تاریخی اہمیت کے حامل شہروں میں مدفون خزانوں کو اپنے ناولوں کی بنیاد بناتے ہیں۔ واقعات کے بیان میں اختصار کے ساتھ، کہانی کے تذبذب، اتار چڑھاؤ، جرائم کا ڈرامائی بیان، قاری کی دل چسپی اور انہماک میں اضافہ کرتا ہے۔

    ناول نگار ظفر عمر 1884ء کو تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر میں پیدا ہوئے۔ ایم اے او علی گڑھ سے 1902ء میں گریجویشن میں اوّل آئے۔ وہ کالج کی فٹ بال ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔ ظفر عمر بعد میں نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے اور بیگم بھوپال کے بھی پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ وہ والئ بھوپال حمید اللہ خان کے اتالیق بھی تھے۔ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ظفر عمر محکمہ پولیس سے بطور سپرنٹنڈنٹ 1937ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی دختر بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی نامور مصنفہ اور افسانہ نگار تھیں۔

    جاسوسی ناول نیلی چھتری کی شہرت اور مقبولیت کے بعد ظفر عمر نے علی گڑھ میں اپنی کوٹھی کا نام بھی نیلی چھتری رکھ دیا تھا۔ ناول نگار نے انگریزی زبان میں ایک کتاب ” دی انڈین پولیس مین ” بھی تحریر کی تھی۔ ظفر عمر نے 4 دسمبر 1949ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • صاحب زادہ عبدالقیوم: سرحد کے سرسیّد اور اسلامیہ کالج کے بانی کا تذکرہ

    صاحب زادہ عبدالقیوم: سرحد کے سرسیّد اور اسلامیہ کالج کے بانی کا تذکرہ

    ممتاز ماہرِ تعلیم اور عوام میں صوبہ سرحد کے سرسّید مشہور ہونے والے صاحب زادہ عبدالقیوم خان 4 دسمبر 1937ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    صاحب زادہ عبدالقیوم خان 1864ء میں ضلع صوابی کے ایک گاؤں ٹوپی کے مشہور لودھی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبدالرؤف تھا جب کہ ان کی والدہ گاؤں کوٹھا کے ایک عالم فاضل شخصیت حضرت صاحب کی بیٹی تھیں۔

    نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کا ایک حجرہ بھی آج ان کی یادگار کے طور پر اہمیت کا حامل ہے جہاں علمی مجالس اور سیاسی بیٹھک ہوا کرتی تھی، یہ قدیم حجرہ ایک شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس دور کی کئی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات یہاں آتی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حجرہ 1890 میں‌ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس حجرے سے ملحق ایک مسجد 1930 میں تعمیر ہوئی تھی جہاں صاحبزادہ عبدالقیوم اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ دفن ہیں۔اسلامیہ کالج کے طالب علم اور اساتذہ آج بھی صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے مدفن پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔

    تقسیمِ ہند سے قبل اس دور کے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جہاں مسلمان اکابرین اور سیاسی و سماجی راہ نما حصولِ تعلیم پر زور دے رہے تھے، وہیں صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے بھی سرحد کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا اور پشاور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی جسے آج جامعہ کا درجہ حاصل ہے۔ صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کوششیں‌ جاری رہیں‌ اور 1912ء میں انھوں نے اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔

    تقسیم سے قبل صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہندوستان کی مرکزی مجلسِ قانون ساز کے رکن رہے اور 1930 ء سے 1932ء کے دوران لندن میں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ برطانوی راج میں اس وقت کی حکومت نے صاحب زادہ عبدالقیوم خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خان بہادر، نواب اور سَر کے خطابات کے علاوہ قیصرِ ہند گولڈ میڈل بھی دیا۔ وہ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔

  • دیون ورما:‌ فلم ’انگور‘ کے ’بہادر‘ کا تذکرہ

    دیون ورما:‌ فلم ’انگور‘ کے ’بہادر‘ کا تذکرہ

    بھارتی فلم انڈسٹری دیون ورما کو بہترین کامیڈین کے طور پر جانتی ہے اور خاص طور پر شیکسپیئر کے ڈرامے ’کامیڈ ی آف ایررز‘ پر بننے والی ہندی فلم ’انگور‘ میں دیون ورما کی بے مثال اداکاری آج بھی فلم بینوں‌ کو یاد ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کا یہ مزاحیہ اداکار 2 دسمبر 2014ء کو چل بسا تھا۔

    معروف نغمہ نگار اور فلم ساز گلزار کی اس فلم میں دیون ورما نے بہادر کا کردار ادا کیا تھا۔دیون ورما کی یادگار فلموں میں‌ ’چور کے گھر کے چور‘ اور ’چوری میرا کام‘ بھی شامل ہیں جن پر انھیں بہترین کامیڈین کا فلم فيئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ دیون ورما نے اداکاری ہی نہیں بلکہ پانچ فلمیں پروڈیوس اور چار فلمیں‌ ڈائریکٹ بھی کیں۔

    بالی وڈ کے اس باکمال فن کار اور بے مثال اداکار نے بھارت کے شہر پونے میں 77 سال کی عمر میں‌ وفات پائی۔ دیون ورما دل اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ دیون ورما پونا میں پیدا ہوئے تھے اور یہیں سے تعلیمی مراحل طے کیے اور سیاسیات اور سوشیالوجی میں سند یافتہ ہوئے۔ اداکار دیون ورما نے سنہ 1961 میں فلم ’دھرم پترا‘ سے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا اور 2013ء تک ’کلکتہ میل‘ سمیت کئی فلموں میں کام کرکے خوب داد وصول کی۔ ان کی یادگار فلموں میں ” انداز اپنا اپنا“ ،’’ دل تو پاگل ہے“، ” گول مال“ ،” جدائی“ ”عشق“، ”کیا کہنا“، ” سلاخیں“، ” میرے یار کی شادی“، ” ہلچل“ اور ”کورا کاغذ“ بھی شامل ہیں۔

    کامیڈین دیون ورما نے اپنے فلمی کیرئیر میں یوں تو مختلف کردار نہایت خوبی سے نبھائے۔ لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاحیہ کردار بنے۔ ’نادان‘، ’بڑا کبوتر‘، ’بے شرم‘ اور ’دانہ پانی‘ وہ فلمیں‌ ہیں‌ جو ان کی ہدایت کاری کا ثمر ہیں۔

  • سلجوق خاندان کا سلطان برکیاروق

    سلجوق خاندان کا سلطان برکیاروق

    سلجوق خاندان کے حکم رانوں اور اس خاندان کی وفادار شخصیات کو بھی اسلامی دنیا میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں حکومت کے قیام کے بعد اس خاندان میں چوتھے حکم راں کے طور پر رکن الدّین برکیاروق نے شہرت پائی جن کا آج یومِ وفات ہے۔

    سلجوق سلطنت کے بانی نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جن کے بیٹے برکیاروق تھے۔ وہ زبیدہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے سلطنت کو تقسیم کردیا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار نے ان کی طاقت اور اثر کم کر دیا تھا۔

    تاریخ کے ماہرین اور محققین برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کا اقتدار 1104ء میں 2 دسمبر تک برقرار رہا جب ان کا انتقال ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ ملک شاہ کی دوسری بیوی ترکان خاتون اپنے نوعمر بیٹے کو تخت پر بٹھانا چاہتی تھی۔ اس نے امراء کو رام کیا اور اہم شخصیات سے معاملات طے کرنے کے بعد برکیاروق کو قید کرلیا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اشرافیہ اور دوسری بااثر شخصیات سے رابطہ کیا اور ان کی مدد سے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ انہی امراء کی مدد سے ملک شاہ کا تخت بھی حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور اسے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع نہیں‌ مل سکا۔ ادھر فوج نے برکیاروق کا ساتھ دیا اور یوں ان کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ مگر اس دوران برکیاروق کو اپنے ہی خاندان میں مزاحمت اور بغاوت کا سامنا اور کئی سازشوں اور یورشوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو کچلنے کے بعد جب تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق نے مکمل طور پر سلطنت کو سنبھالا۔ عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کیا اور خلعت سے نوازا۔ ان کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور سلطنت کے اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے ان کی حکم رانی کا اعلان کیا۔ برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کے سرداروں اور حکم رانوں کو اپنا مطیع اور تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو سنبھالتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر ان کا اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور امراء و سپاہ سے جواب دہی اور ان پر اپن اثر و رسوخ قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔ اسی عرصے میں ان کی والدہ زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ واپس ہوئے تو اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط پر تمام ہوا۔ محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی پر ایک معاہدہ کر لیا۔

    الغرض سلطان برکیاروق کا دور لڑائیوں اور بغاوتوں کو فرو کرتے گزر گیا۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوئے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

  • ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    افضال احمد نے ساٹھ کی دہائی کے آواخر میں ٹیلی ویژن اور فلمی پردے پر اپنی عمدہ پرفارمنس، ڈائیلاگ ڈیلیوری کے منفرد انداز اور رعب دار آواز کی بدولت دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ آنے والے برسوں میں ان کی پہچان ایک باکمال اور پُراعتماد فن کار کے طور پر بنی۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اپنی پرفارمنس سے یادگار بنا دیا۔ آج افضال احمد کی برسی ہے۔

    اشفاق احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’اچے برج لاہور دے‘‘ ہو یا منو بھائی کا ’’جزیرہ‘‘ افضال احمد نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک ٹی وی اور فلم کی دنیا میں‌ کام کیا۔ دو دسمبر 2022ء کو افضال احمد لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا پورا نام سید افضال احمد تھا۔ پرکشش شخصیت کے مالک افضال احمد جھنگ کے ایک صاحبِ ثروت گھرانے کے فرد تھے۔ ان کی تعلیم ایچی سن سے ہوئی۔ ٹی وی ڈراموں کے بعد انھیں فلموں کی آفر ہوگئی جن میں اردو، پنجابی اور پشتو فلمیں شامل ہیں۔ فلموں میں کام ملنے کی ایک وجہ افضال احمد کی دل کش شخصیت اور سرخ وسپید رنگت کے ساتھ ان کی بھاری آواز اور مکالمہ ادا کرنے کی وہ صلاحیت بھی تھی جس نے فلم سازوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ افضال احمد نے فلموں میں بطور ہیرو، ولن اور سائڈ ہیرو کے کردار ادا کیے۔

    اداکار افضال احمد نہایت قابل اور باصلاحیت بھی تھے اور فن سے محبت کرنے والے بھی۔ انھوں نے پاکستان میں تھیٹر کو فروغ دینے اور جدید تھیٹر کو روشناس کرانے کے لیے بہت کام کیا۔ وہ پاکستان میں تھیٹر کی ترقی و ترویج کے لیے کوششیں‌ کرنے والے چند بڑے فن کاروں میں سے ایک ہیں۔

    نام ور ڈرامہ نگار، شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد لکھتے ہیں، عابد علی، محبوب عالم اور سہیل اصغر کے بعد افضال احمد وہ چوتھا اداکار تھا جس نے میرے تین سے زیادہ سیریلز میں ہمیشہ یاد رہ جانے والے کردار ادا کیے۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ایک اپاہج کی سی زندگی گزار رہا تھا لیکن جن لوگوں نے اس کو ساٹھ کی دہائی کے آخر سے لے کر اس کے برین ہیمرج کے درمیانی تقریباً 35 برسوں میں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر جھنڈے گاڑتے دیکھا ہے، ان کے لیے وہ کسی بھی طرح ایک سپر اسٹار سے کم نہ تھا۔

    امجد اسلام امجد آگے لکھتے ہیں، اس کا سرخ و سفید رنگ جس کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا، متاثر کن شخصیت اور بارعب آواز اس کی ایسی پہچان تھی جس کا کوئی مماثل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ خاندانی طور پر مضبوط معاشی پس منظر کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج میں ایک طرح کا اعتماد شامل تھا مگر اسے غرور کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہر محفل میں فوراً گھل مل جاتا تھا اور خاص طور پر جونیئر اور معاشی طور پر کمزور فن کاروں کے لیے اس کے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا البتہ سیٹ پر ساتھی اداکاروں کے لیے اس کی شرارت پسند طبیعت سے نباہ مشکل ہو جاتا تھا۔ اپنے کام اور رول کے تقاضوں کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔

    فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی قوتِ گویائی بھی جاتی رہی تھی اور افضال احمد معذوری کے باعث وہیل چیئر پر تھے۔ اداکار کی مشہور فلموں میں شعلے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، عشق نچاوے گلی گلی اور دیگر شامل ہیں۔

  • منگھا رام ملکانی: ادبی مؤرخ، بلند پایہ نقاد اور ڈرامہ نویس

    منگھا رام ملکانی: ادبی مؤرخ، بلند پایہ نقاد اور ڈرامہ نویس

    منگھا رام ملکانی جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں‌ سے ایک تھے۔ سندھی زبان میں علمی و ادبی تحقیق کے شعبہ ان کی کتاب سندھی نثر جی تاریخ کو تنقیدی شاہ کار کہا جاتا ہے۔ آج نوجوان نسل منگھا رام ملکانی کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ مذکورہ کتاب کی بدولت ملکانی صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اسی کتاب پر 1969ء میں انھیں بھارت نے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب بھی دیا تھا۔

    منگھا رام ملکانی 1980ء میں آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔ وہ سندھی زبان کے ادبی مؤرخ، نقاد، معلم اور ڈرامہ نویس مشہور تھے۔ انھوں نے ڈی جے کالج کراچی میں انگریزی کے لیکچرار اور پھر جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ملکانی صاحب کی مذکورہ کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ان کی ایک نہایت مستند اور جامع تصنیف شمار کی جاتی ہے۔

    پروفیسر منگھا رام ملکانی 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔ منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

    وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوئے تھے۔ انھوں نے مضامین لکھے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہوئے اور منگھا رام کی شہرت کا باعث بنے۔ منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹا جو آج بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔