Tag: یوم وفات

  • عبد الحلیم شررؔ: ایک بلند پایہ ادیب کا تذکرہ

    عبد الحلیم شررؔ: ایک بلند پایہ ادیب کا تذکرہ

    اردو نثر نگاروں میں عبد الحلیم شررؔ بیسوی صدی کا ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر نام ہے۔ وہ بلند پایہ ادیب، ناول نگار، ڈرامہ نویس اور بہترین مترجم تھے۔ عبدالحلیم شرر کو لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے اور اس کا ثبوت ان کی وہ تصانیف ہیں‌ جو لکھنؤ سے متعلق ہیں۔ انھیں منظوم ڈرامہ نگاری کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اردو شعر و ادب میں متعدد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کروایا یا انھیں اپنی تخلیقات میں اعتبار و امتیاز بخشا۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انھوں نے دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہیدِ وفا‘‘(1890) لکھ کر قارئین اور ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ایسے منظوم ڈرامے اس سے قبل نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ہی ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہُ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔

    شرر کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ بسیار نویس تھے۔ انھوں‌ نے سماجی اور تاریخی ناول، انشائیے، سوانح و تاریخ، سفر نامہ، ڈرامہ اور شاعری کے ساتھ تراجم میں اپنا کمال دکھایا۔ شرر کو ان کے تاریخی ناولوں اور علمی و ادبی موضوعات پر ان کے مضامین کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔

    عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور پیشہ کے اعتبار سے وہ حکیم تھے۔ شررؔ لکھنؤ میں پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو انھیں مٹیا برج بھیج دیا گیا جہاں‌ عربی، فارسی اور طب کی تعلیم حاصل کی، لیکن وہاں‌ امرا کی اولادوں سے دوستانہ بڑھا لیا اور بگڑنے لگے تو والد نے انھیں لکھنؤ واپس بھیج دیا اور بعد میں دہلی جاکر انگریزی بھی پڑھی اور 1880ء میں دہلی سے زاہدِ خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشور کے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بے شمار مضامین لکھے۔ چند اور ملازمتیں اور مختلف شہروں میں‌ قیام کے بعد لکھنؤ لوٹے اور اپنا رسالہ ’’دل گداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم ان کا معرکہ آرا ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ تھا۔

    ’’دل گداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کیے اور اردو داں طبقے کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ شرر یکم دسمبر 1926ء کو وفات پاگئے تھے۔

  • احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، ادبی تذکرے، سوانح، شعری مجموعے اور غیرملکی زبانوں کے اردو تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں اور خالص علمی خزانے کوچۂ علم و فنوں میں قدم رکھنے والوں کے لیے یادگار چھوڑ گئے۔ تخلیقی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ وہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔

    احمد عقیل روبی نے تمام عمر عقل و دانشِ یونان کی ترویج کی اور خاص طور پر یونانی فلاسفہ کے بارے میں لکھا ہے، جب کہ اپنے ناولوں، ڈراموں اور افسانوں میں بھی وہ یونانی فلسفے کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر احمد عقیل روبی 23 نومبر 2014ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی کی شاعری بھی بہت خوب صورت ہے اور فلمی دنیا کے لیے ان کے کئی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ انھیں فلمی شاعری پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور فلسفہ و اساطیر پر ان کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احمد عقیل روبی کی تحریروں سے بھی علمیت اور فکر و دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    ان کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • شوکت کیفی: خون سے لکھا گیا خط اور دوپٹے رنگنے کا شوق

    شوکت کیفی: خون سے لکھا گیا خط اور دوپٹے رنگنے کا شوق

    شوکت کیفی ایک روشن خیال خاتون تھیں جنھیں فلم اور تھیٹر کی مایہ ناز آرٹسٹ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ شوکت کیفی کو مشہور فلم ’گرم ہوا‘، ’امراؤ جان‘ اور فلم ’بازار‘ میں ان کی بہترین اداکاری کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

    اداکارہ شوکت کیفی اردو زبان کے معروف شاعر کیفی اعظمی کی رفیقِ حیات تھیں۔ ان کی بیٹی شبانہ اعظمی بھی بھارت میں خاص طور پر فیچر فلموں میں اپنی لاجواب اداکاری کے سبب پہچانی جاتی ہیں۔

    شوکت کیفی 22 نومبر 2019ء کو ممبئی میں جوہو میں واقع اپنے گھر میں انتقال کر گئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔ بھارتی اداکارہ شوکت کیفی نے ریاست حیدر آباد دکن میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو نہ صرف شعر و ادب کا قدر دان تھا بلکہ انتہائی امیر اور مہذب تصور کیا جاتا تھا۔ شوکت کیفی نے محبت کی شادی کی تھی۔ وہ ایک پروقار اور جاذبِ نظر خاتون تھیں۔ شوکت کیفی بتاتی تھیں کہ وہ بناؤ سنگھار اور لباس پر دل کھول کر خرچ کرتی تھیں، اور ہر محفل میں اپنی پُرکشش شخصیت کی بنا پر مرکزِ نگاہ بن جاتی تھیں۔ ادھر کیفی صاحب جن کی فلمی شاعری اور مکالمے بھی ہندوستان بھر میں مقبول تھے،
    مردانہ وجاہت کا پیکر تھے۔ وہ مشاعرے میں اشعار پڑھتے تو ان کا اندازِ بیان دلوں میں گھر کر لیتا۔

    اپنے عشق اور شادی سے متعلق شوکت کیفی بتاتی تھیں کہ جب گھر والوں کو ان کی اس محبت کا علم ہوا تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کی لڑکی تھیں اور والد کا کہنا تھا کہ ’تم ایک شاہانہ زندگی گزارنے کی عادی ہو جب کہ کیفی تو صرف ایک شاعر ہیں جو صرف 45 روپے کماتے ہیں، جس میں تمہارا گزارا ناممکن ہے۔‘ مگر شوکت کیفی نے گھر والوں سے بغاوت کی۔ گھر والوں کے انکار کے بعد ایک روز انھیں کیفی صاحب کا ایک خط ملا جو انھوں نے اپنے خون سے لکھا تھا۔ شوکت کیفی کے مطابق وہ بہت ڈر گئیں مگر پھر خط والد کے سامنے رکھا گیا تو وہ خوب ہنسے اور کہا کہ ’دیکھو بیٹا یہ شاعر لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں۔ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ جیسے بہت تکلیف میں ہیں۔ اپنا ہاتھ کاٹ کر خط لکھ رہے ہیں جب کہ حقیقت میں درخت کے نیچے لیٹ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھاتے ہوئے بکرے کے خون میں قلم ڈبو کر خط لکھتے ہیں۔‘ لیکن شوکت صاحبہ کی ضد کے آگے گھر والوں نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ شوکت کیفی اعظمی بن کر وہ سسرال چلی گئیں اور ساری زندگی اپنا رشتہ نبھایا۔ کیفی اعظمی ان سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔ شوکت کیفی نے 91 سال کی عمر پائی۔

    شوکت کیفی نے اپنی یادوں پر مشتمل ایک کتاب میں بڑا دل چسپ واقعہ لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔ چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔

    مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔ میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔

    حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔ حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔ میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔

  • آوارہ اور مفلس جیک لندن جسے بحیثیت ناول نگار اور صحافی عالمی شہرت ملی

    آوارہ اور مفلس جیک لندن جسے بحیثیت ناول نگار اور صحافی عالمی شہرت ملی

    جیک لندن امریکہ کے اُن اوّلین اہلِ قلم میں شامل ہے جنھیں عالمی سطح پر پذیرائی اور پہچان ملی۔ ادب اور صحافت کی دنیا میں جیک لندن نے شہرت ہی نہیں دولت بھی پائی۔ وہ اپنے وقت میں امریکہ کے مقبول ترین ناول نگاروں‌ میں شامل تھا۔

    کام یابیوں اور شہرت و مقبولیت کا سفر شروع ہونے سے پہلے جیک لندن کو کٹھن وقت اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ حال یہ تھا کہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرتا پھرتا تھا۔ قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ جیک لندن سے آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہو جاتے۔ اسے فن و تخلیق کے شعبے میں عالمی سطح پر سراہا گیا۔

    امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والا جیک لندن 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ اس کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر وہ کام کیا جو اس کے پیٹ کی آگ بجھا سکتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ غربت سے نجات پانے کے لیے جیک لندن نے چوروں اور الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ ان کے ساتھ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کرتا رہا۔ وہ مال دار بننے کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کرنے کو تیار تھا۔

    17 برس کی عمر میں جیک لندن ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے اس سفر میں‌ بہت کچھ سیکھا اور اپنے تجربات کی روشنی میں کئی سنسنی خیز اور انوکھے کام بھی کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ وہ اپنے بارے میں کہتا تھا کہ اس نے کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، اس کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزارتا۔ جیک لندن ایک ذہین نوجوان تھا۔ اس کا حافظہ قوی تھا۔ اس نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ جیک لندن نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا تھا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ اس وقت تک وہ مطالعہ اور لکھنے کی مشق سے بہت کچھ سیکھ چکا تھا اور اپنی ذہانت سے واقعات کو بیان کرنے اور رنگ آمیزی پر قادر ہوچکا تھا۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کر لیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل کہانی نویس کے طور پر اس نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ اسے ایک حیرت انگیز شخص کہا جاسکتا ہے جس نے نہایت مختصر عمر پائی۔ جیک لندن ایک بے چین روح تھی جس نے جب کچھ کرنے کی ٹھانی تو کر گزری۔ اس نے مفلسی دیکھی، مزدوری کی، سمندر کی دنیا دیکھی اور اپنے تجربات و مشاہدات قلم کار کی حیثیت سے کتابوں میں پیش کردیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس 1900ء میں جیک لندن کی پہچان کا سفر شروع ہوا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہوئیں جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ ہی نہیں امریکہ سے باہر بھی سراہا گیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے کو ایک وفادار جانور کے طور پر اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا تھا۔ جیک لندن نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی تھی۔

    1916ء میں‌ امریکی مصنّف اور صحافی جیک لندن آج ہی کے روز انتقال کرگیا تھا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ امریکی مصنّف جیک لندن کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں اور کئی زبانوں‌ میں ان کے تراجم بھی مقبول ہوئے۔

  • جان ایف کینیڈی کا تذکرہ جنھیں ایک ‘جذباتی نوجوان’ نے قتل کر دیا تھا!

    جان ایف کینیڈی کا تذکرہ جنھیں ایک ‘جذباتی نوجوان’ نے قتل کر دیا تھا!

    دنیا کی کئی اہم سیاسی شخصیات اور اعلیٰ ترین عہدے داروں کی پُراسرار حالات میں موت یا ان کا قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل بھی انہی واقعات میں سے ایک ہے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں پیش آنے والے ایسے اکثر واقعات کے بعد ان ملکوں کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں قیاس آرائیاں اور کئی دہائیوں بعد بھی مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان کی بات کی جائے تو ملک کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کا قتل ہی نہیں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کرنے کے دوران ایمبولینس کا خراب ہونا بھی متنازع رہا ہے۔ اسی طرح کئی دوسرے سانحات پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹس کبھی منظر عام پر نہیں آسکیں۔ ان واقعات نے ملکی تاریخ کا رخ بدل دیا، لیکن کسی کو نہیں معلوم ہوسکا کہ پراسرار حالات میں‌ موت یا یہ قتل کسی بڑی سازش کا شاخسانہ تھے یا کسی چھوٹے گروہ کی کوئی کارروائی یا ایک فرد کا انفرادی فعل تھے۔

    حال ہی میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں‌ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مرتبہ صدر منتخب کیا گیا ہے۔ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار تھے جنھوں نے اپنے حق میں دست بردار ہونے والے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر سے اپنی ایک تقریر کے دوران وعدہ کیا کہ وہ سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے منسلک دستاویزات جاری کریں گے۔

    جان ایف کینیڈی کو 22 نومبر 1963ء کو قتل کیا گیا تھا، تاہم پُراسرار حالات میں اس قتل کا معمہ کبھی حل نہ ہوسکا۔ اس وقت اور آج بھی بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس قتل کے پیچھے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ تھی۔

    اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب دنیا سرد جنگ کا ایک انتہائی نازک دور دیکھ رہی تھی۔ سابق صدر کو ریاست ٹیکساس کے علاقے ڈلاس میں عین اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک کاررواں کی صورت میں شہر کی سڑک سے گزر رہے تھے۔

    سابق صدر کے قاتل کا نام لی اوسوالڈ تھا جس نے ایک عمارت کی بالائی منزل سے صدر جان ایف کینیڈی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس قاتل کو بعد میں ایک سینما ہال سے گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اسے عدالت میں پیشی کے لیے جیل سے باہر لے جانے کے موقع پر مافیا سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص نے قتل کر دیا تھا۔ سابق صدر کے قاتل کی ہلاکت کے بعد جان ایف کینیڈی کی موت کے ذمہ دار بھی سامنے نہیں آسکے۔

    اس وقت دنیا بھر میں سیاسی اور عوامی حلقوں میں جان ایف کینیڈی کے قتل کو روس اور کیوبا کی ایسی سازش کہا گیا جس میں امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے اور ایف بی آئی بھی شریک تھے۔ لیکن یہ صرف قیاس آرائی نہیں تھی بلکہ اس کی ٹھوس وجہ موجود تھی۔ دراصل اس وقت امریکی صدر جانشین لندن بی جانسن نے کینیڈی پر قاتلانہ حملے سے پہلے یہ کہا تھا کہ اگر روس امریکہ پر حملہ کرے گا تو اس کی ابتدا صدر کینیڈی کے قتل سے کرے گا۔ تاہم یہ باتیں اس قتل کے بعد درست ثابت نہیں ہوئیں، لیکن کینیڈی کے قتل کی سازش کس نے تیار کی، اس میں کون شریک تھا اور اس کے محرکات کیا تھے، یہ سامنے نہیں آسکا۔ البتہ امریکہ میں سرکاری مؤقف یہی رہا کہ انھیں ایک جذباتی نوجوان نے قتل کر دیا، جو خود کو کمیونسٹ کہتا تھا، جس کی بیوی کا تعلق روس سے تھا، اور جو کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کا بھی مداح تھا۔ اس کے بعد جان ایف کینیڈی کا قتل آج تک سازشی مفروضوں کا مرکز رہا ہے۔

    جان ایف کینیڈی 1917ء میں بروکلین میں پیدا ہوئے۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہوئے اور سنہ 1963ء میں ڈیلاس اور ٹیکساس جان ایف کینیڈی کی سیاسی جماعت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ان کے صدارتی دور کو ایک کام یاب دور کہا جاتا ہے، لیکن ان کی صدارت کے ایک ہزار سے زائد دنوں میں بہت سے کام اور وعدے ادھورے ہی رہے۔

  • اطہر نفیس: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    اطہر نفیس: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    معروف گلوکارہ فریدہ خانم نے 60 کی دہائی میں جب ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تو کئی مشہور شعراء کا کلام ان کی آواز میں سنا گیا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں، گیت بہت پسند کیے گئے، لیکن ایک غزل نے فریدہ خانم کو ملک گیر شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ شاعر تھے اطہر نفیس اور اس غزل کا مطلع تھا:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    آج اردو زبان کے اسی معتبر غزل گو شاعر اور صحافی اطہر نفیس کی برسی ہے۔ وہ 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔ اطہر نفیس نے اپنی منفرد شاعری اور لب و لہجے سے ادبی حلقوں اور باذق قارئین میں اپنی شناخت بنائی اور پاکستان کے معروف شعراء میں سے ایک ہیں۔ فریدہ خانم کی مدھر آواز میں اطہر نفیس کی غزل اس قدر مقبول ہوئی کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہر پروگرام میں باذوق سامعین اور ناظرین اسے سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ گلوکارہ فریدہ خانم جب میڈیا اور نجی محفلوں میں غزل سرا ہوتیں تو ان سے یہی غزل سنانے پر اصرار کیا جاتا تھا۔

    ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی اطہر نفیس کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے۔‘‘

    شاعر اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ ادبی صفحہ کے نگراں رہے اور اس کام کے ساتھ ان کی مشقِ سخن بھی جاری رہی۔ اطہر نفیس نے شادی نہیں کی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب سے ہم عصر تخلیق کاروں کے درمیان اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ اپنے تخلیقی وفور اور دل کش اندازِ‌ بیان کے سبب ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول تھے۔ اطہر نفیس نے اردو غزل کو خیال آفرینی اور اس کے ساتھ ایک خوب صورت، لطیف اور دھیما لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔

    اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
    اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

  • اسلم پرویز کا تذکرہ جنھیں ‘‘قاتل’’ نے پہچان دی!

    اسلم پرویز کا تذکرہ جنھیں ‘‘قاتل’’ نے پہچان دی!

    پچاس کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار اسلم پرویز نے قدم رکھا تو کوئی نہیں‌ جانتا تھا کہ بطور ہیرو ہی وہ مقبول نہیں‌ ہوں گے بلکہ ایک ولن کے روپ میں بھی فلم بین انھیں بہت پسند کریں گے۔ اسلم پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز فلم ‘‘قاتل’’ سے کیا تھا اور بعد کے برسوں میں ورسٹائل اداکار کے طور پر پہچانے گئے۔

    شہرت اور مقبولیت کی دوڑ میں اسلم پرویز نے جلد ہی فلم انڈسٹری کے کئی ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مگر اسی تیز رفتاری سے موت نے بھی ان کی زندگی کو مات دے دی۔ اسلم پرویز 1984ء میں آج ہی کے دن ایک ٹریفک حادثے میں چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ اسلم پرویز ایک فلم کی شوٹنگ کے بعد ساتھی فن کار اقبال حسن کے ساتھ گھر لوٹ رہے تھے کہ سڑک پر حادثہ پیش آیا۔ اقبال حسن موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسلم پرویز لاہور کا دل کہلانے والے مال روڈ پر ایک کوٹھی میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ ایک خوش حال گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم ایک انگریزی اسکول میں ہوئی جہاں تعلیم کے ساتھ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے علاوہ ڈرامہ اور میوزک کے حوالے سے بھی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ اسی نے فنون لطیفہ سے اسلم پرویز کی دل چسپی پیدا کی۔ لیکن حالات بدلے تو اس کنبے کو مال روڈ کا گھر چھوڑ کر انڈس ہوٹل کے عقب میں واقع وکٹوریہ پارک کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ اب وہ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ کے طالب علم بن گئے۔ اسلم پرویز کے گھر والوں نے 1953ء میں ان کی شادی کر دی جب کہ ان کی فلم ’’قاتل‘‘ 1955ء میں‌ ریلیز ہوئی۔ گھر والوں اور اسلم پرویز کی زوجہ کو فلم میں ان کا کام کرنا پسند نہ تھا۔ لیکن اسلم پرویز اپنی آنکھوں‌ میں کچھ خواب سجا چکے تھے اور قسمت ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ انھوں نے اگلے برسوں میں مزید فلمیں کیں۔ اسلم پرویز کی فلم نگری میں آمد نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا کی بدولت ہوئی جنھوں نے اسلم پرویز کو معروف فلم ساز آغا جی اے گل سے ملوایا تھا۔ اس وقت وہ فلم قاتل کے لیے کسی نئے چہرے کو آزمانا چاہتے تھے اور یوں پہلی بار اسلم پرویز نے ہیرو کے روپ میں کیمرے کا سامنا کیا۔ اس فلم کے بعد انھیں مزید آفرز ہونے لگیں اور پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کا یہ باکمال اداکار بہ طور ہیرو فلم پاٹے خان، کوئل، شیخ چلی، چھومنتر، نیند اور عشق پر زور نہیں میں نظر آیا اور فلم بینوں سے خوب داد سمیٹی۔ وہ ایک باکمال اداکار تھے اور بعد میں سلور اسکرین پر انھوں نے ولن کے روپ میں بھی بے مثال اداکاری کی اور خود کو ورسٹائل فن کار کے طور پر منوایا۔ اداکار اسلم پرویز نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔

  • سلام مچھلی شہری: ایک مقبول رومانوی شاعر

    سلام مچھلی شہری: ایک مقبول رومانوی شاعر

    اردو ادب میں بحیثیت رومانوی شاعر سلام مچھلی شہری نے اپنا مقام بھی بنایا اور وہ ان شعراء میں سے ایک تھے جن کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اس کا سبب سلام مچھلی شہری کا طرزِ سخن ہے۔ نثر نگاری بھی سلام مچھلی شہری کا ایک حوالہ ہے۔

    آج شاذ ہی سلام مچھلی شہری کا ذکر ہوتا ہے اور نئی نسل ان سے ناواقف ہے، لیکن متحدہ ہندوستان میں سلام مچھلی شہری نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو نئے طرز کے رومانوی شاعر کے طور پر نوجوانوں میں خاصے مقبول تھے۔ سلام مچھلی شہری ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں نظم ان کا خاص میدان رہا۔ نظم نگاری کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی اپنا زورِ قلم دکھایا اور ڈرامہ و ناول جیسی اصناف میں ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران سلام مچھلی شہری نے کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا لکھے۔ ان کا ایک ناول ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے عنوان شایع ہوا تھا۔

    یکم جولائی 1921ء کو وہ جونپور کے مچھلی شہر میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے مچھلی شہری ان کے نام سے جڑا رہا۔ سلام مچھلی شہری کی تعلیم کا سلسلہ ہائی اسکول سے آگے نہیں‌ بڑھ سکا لیکن کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی تھی اور اسی وابستگی نے انھیں شعر و ادب کی دنیا میں بحیثیت شاعر اور ادیب نام بنانے کا موقع دیا۔ کتب خانے میں انھوں‌ نے اپنی رسمی تعلیم کی کمی اور مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ لائبریری میں سلام مچھلی شہری کو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے اور ادب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویس کے طور پر کام کرنے لگے۔ بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے ان کا تبادلہ سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی کے ریڈیو اسٹیشن میں بطور پروڈیوسر تقرری ہوگئی۔ ان ملازمتوں کے دوران کئی اہلِ علم ہستیاں، قلم کار اور آرٹسٹوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ نشستوں نے بھی ان کی فکر اور خیال کو پختہ کیا اور سلام مچھلی شہری ایک منفرد شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ بھارت کے اس مشہور شاعر کو ’پدم شری ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔ سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ کے عنوان سے شایع ہوئے۔

    سلام مچھلی شہری نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ یہاں ہم اس شاعر کا ایک کلام نقل کررہے ہیں۔ یہ ایک نظم ہے جسے مشہور گلوکاروں‌ نے گایا اور یہ اپنے وقت کی ایک مقبول نظم تھی۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • ہیرا بائی: موسیقی اور گائیکی کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    ہیرا بائی: موسیقی اور گائیکی کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    فنِ موسیقی کی کئی اصناف آج ناپید ہوچکی ہیں اور وہ سنگیت کار بھی نہیں رہے جو راگ راگنیوں اور سُروں کے عاشق تھے۔ یہ گلوکار نہ صرف موسیقی کے اسرار و رموز جانتے تھے بلکہ گلوکاری کے فن میں بھی بے مثال تھے۔ ہندوستان کی بات کریں تو کلاسیکی گائیکی کی مقبولیت کے زمانہ میں خیال، ٹھمری، غزل، بھجن و دیگر اصنافِ موسیقی کو پسند کیا جاتا تھا اور ہیرا بائی نے انہی اصناف میں خوب نام کمایا۔

    آج ہیرا بائی کو کوئی نہیں جانتا اور موجودہ نسل کلاسیکی موسیقی سے بہت دور ہے، لیکن یہ فن اور اس سے جڑے ہوئے کئی نام آج ہمارے فن و ثقافت کی ایک تاریخ ہیں۔ ہیرا بائی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بھارت کی پہلی خاتون گلوکارہ تھیں جن کو سننے کے لیے باذوق افراد نے باقاعدہ ٹکٹ خریدے۔ ہیرا بائی نے مختلف فلموں میں بھی کام کیا جن میں سورن مندر، جاناں بائی اور میونسپلٹی شامل ہیں۔

    ہیرا بائی بڑودکر 30 مئی 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقہ مراج میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق اس وقت کے مشہور کیرانہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام چمپا کلی تھا۔ 20 نومبر 1989ء کو ہندوستانی کلاسیکی گلوکارہ ہیرا بائی انتقال کرگئی تھیں۔ ہیرا بائی کے والد استاد عبد الکریم خان تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں استاد عبد الکریم خان ریاست وڈودرا کے شاہی موسیقار و گلوکار تھے۔ عبدالکریم خان کو ہندوستان میں سنگیت رتن کا خطاب دیا گیا تھا اور وہ کیرانہ گھرانے کی پہچان تھے۔ ہیرا بائی کو موسیقی کی ابتدائی تعلیم تو استاد عبدالوحید خان نے دی تھی، لیکن بعد میں خالص کلاسیکی موسیقی کی تعلیم اپنے والد عبدالکریم خان سے حاصل کی۔ کہتے ہیں‌ کہ 1920ء یا 1921ء میں ہیرا بائی نے پہلی بار عوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہیرا بائی کی موسیقی اُن کے فن کے ابتدائی دور میں ہی ریکارڈ کی جانے لگی تھی۔ وہ عاجزی و انکسار کا پیکر تھیں۔

    اعزازات کی بات کی جائے تو ہیرا بائی کو موسیقی اور گلوکاری کے فن میں کمال کی بنیاد پر 1965ء میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور 1970ء میں بھارتی حکومت نے ایک شہری اعزاز پدم بھوشن بھی دیا۔ ہیرا بائی کا انتقال ممبئی میں ہوا تھا۔

  • غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستان کی علمی و ادبی شخصیات میں‌ ایک بڑا نام غلام رسول مہرؔ کا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنھیں انشا پرداز، ادیب، شاعر، جید صحافی، نقاد و مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔

    ممتاز علمی و ادبی شخصیت غلام رسول مہرؔ نے 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اساتذہ باکمال ملے، جیسے مولانا اصغر علی روحیؒ جو عربی اور فارسی کے اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ خواجہ دل محمد ریاضی دان، پروفیسر ہنری مارٹن جیسے پرنسپل جو انگریزی پڑھاتے تھے۔ طلبا میں ایسے ساتھی ملے جنھوں نے عملی زندگی میں بہت نام کمایا۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسن اسلامیہ کالج میں مولانا کے ساتھی تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور رسائل کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی، علامہ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین بھی اسلامیہ کالج کے دوستوں میں سے تھے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    تصنیف و تالیف اور قلم سے مولانا غلام رسول مہر کا تعلق پوری زندگی قائم رہا۔ نومبر 1921 میں زمیندار میں پہلا اداریہ لکھا اور اس کے بعد پچاس سال تک مسلسل لکھتے ہی رہے۔ اداریے لکھے، نظمیں کہیں، کتابیں تصنیف کیں، مضامین لکھے، تراجم کیے۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار کی زینت بنے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان کتابوں میں‌ تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام بہت مشہور ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر نے ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی اور اسے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔