Tag: یوم وفات

  • شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    سید شوکت حسین رضوی تقسیمِ ہند سے قبل ہی ایک کام یاب فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ ’’زینت‘‘ ان کی وہ فلم تھی جسے ہندوستان بھر میں کام یابی ملی۔ 1945ء میں جب سید شوکت حسین رضوی اپنی اس فلم کے لیے قوّالی پیش کرنے کا ایک منظر عکس بند کروا رہے تھے تو حاضرین میں اسکول کی چند طالبات میں خورشید اختر نام کی ایک لڑکی بھی شامل تھی۔ شوکت حسین رضوی کی نظر اس پر پڑی تو انھوں نے اسے بھی قوالی کے اسٹیج پر بٹھا دیا۔ وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی اور خورشید اختر نے مستقبل میں شیاما کے نام سے بطور اداکارہ سفر شروع کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس قوالی کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اتفاقاً فلم کے ایک منظر کا حصہ بننے والی خورشید اختر کا لاہور شہر کے علاقہ باغبان پورہ سے تھا۔ شیاما کے فلمی نام سے اداکارہ نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلمیں کیں اور خوب شہرت پائی۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ آنکھ کھولنے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا اور وہیں انھیں‌ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شیاما نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ اپنے دور کی چند کام یاب اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ شیاما نے نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان بڑے اعتماد سے اپنا کردار نبھا کر فلم سازوں کو متاثر کیا تھا۔ خورشید اختر کو شیاما کا نام معروف ہدایت کار وجے بھٹ نے 1953ء میں دیا۔ بعد میں وہ اسی نام سے پہچانی گئیں۔ اداکارہ شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ فلم بینوں کے دل جیتنے والی شیاما نے اپنے دور کے کام یاب فلم سازوں کو بھی متاثر کیا اور یہی وجہ تھی کہ انھیں بمبئی میں مسلسل کام ملتا رہا۔ نام وَر ہدایت کار اے آر کاردار اور گرو دَت بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو شیاما کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آر پار’ میں کاسٹ کیا اور اس فلم نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم اپنے نغمات کی وجہ سے بھی کام یاب ثابت ہوئی اور شیاما کی اداکاری کو بھی شائقین نے بے حد سراہا۔

    فلمی دنیا کی ایک معروف اور قابل شخصیت ضیا سرحدی نے فلم ‘ہم لوگ’ بنائی تھی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ شیاما نے کام کیا تھا۔ اس اداکارہ پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت پسند کیا گیا۔ شیاما کی فلموں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔ 1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    اداکارہ شیاما 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اداکارہ آخری مرتبہ فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ 82 سال کی عمر میں‌ انتقال کرنے والی شیاما ممبئی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔ وہ 14 نومبر 2017ء کو انتقال کرگئی تھیں۔

  • قطب الدین ایبک:‌ ایک سخی غلام جس نے ہندوستان میں سلطنت کی بنیاد رکھی

    قطب الدین ایبک:‌ ایک سخی غلام جس نے ہندوستان میں سلطنت کی بنیاد رکھی

    قطب الدّین ایبک کو برصغیر کے ایسے حکم راں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے ہندوستان میں پہلی مسلمان ریاست کی بنیاد رکھی جس کا انجام بہادر شاہ ظفر کی معزولی اور جلاوطنی پر ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایبک سے پہلے کئی مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان پر حملہ کیا مگر اس سرزمین کو کسی نے مستقل سلطنت کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔

    قطب الدین ایبک ایک فراخ دل، سخی انسان مشہور تھا اور بادشاہ غوری کے غلاموں میں سے ایک تھا۔ اس کا تذکرہ غوری دور کے تاریخ داں منہاج السراج (ابو عثمان منہاج الدین بن سراج الدین) نے اپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ میں بھی کیا ہے۔ انھوں نے نہ قطب الدین ایبک کا دور بھی دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ محمد غوری کو ایبک کی فراخ دلی نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے ایبک کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا، اور انھیں تخت گاہ اور ایوان دربار کے اہم کام سونپے جانے لگے۔ یہاں تک کہ وہ سلطنت کے بڑے سردار اور کار پرداز بن گئے۔ انھوں نے اپنی لیاقت سے اس قدر ترقی کر لی کہ انھیں امیر آخور بنا دیا گیا۔ امیر آخور اس زمانے میں شاہی اصطبل کے سردار کا عہدہ ہوتا تھا اور اس کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔

    25 جون سنہ 1206ء کو لاہور کے قلعے میں ایبک کی تاج پوشی ہوئی۔ لیکن انھوں نے سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کا حکم دیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے نام سے کوئی خطبہ بھی پڑھایا گیا تھا۔ بعد میں وہ ہندوستان کے سلطان بنے۔ سلطان بننے کے بعد ایبک کا زیادہ تر وقت لاہور میں گزرا۔ کہتے ہیں کہ 14 نومبر کو وہ چوگان یعنی پولو کھیل رہے تھے کہ گھوڑے کی زین ٹوٹ گئی اور سلطان زمین پر آ رہے۔ منہاج السراج نے اس کے متعلق اس طرح لکھا ہے کہ ‘جب موت آئی تو 607 ہجری (1210ء) میں چوگان کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا، گھوڑا اس پر آ گرا، زین کے سامنے کا اوپر اٹھا ہوا حصہ قطب الدین کے سینے میں پیوست ہو گیا اور اس نے وفات پائی۔’

    قطب الدین ایبک کو لاہور میں دفن کیا گیا۔ ان کا مقبرہ معروف انار کلی بازار میں واقع ہے جہاں ہر سال عرس بھی منعقد ہوتا ہے۔

    طبقات ناصری کے مصنّف لکھتے ہیں‌ کہ ‘اگرچہ ایبک قابلِ ستائش اوصاف اور برگزیدہ محاسن کا مالک تھا لیکن اس کی ایک کمزوری کے سبب اسے ‘ایبک شل’ کہا جاتا تھا یعنی ایسا شخص جس کی ایک انگلی کمزور ہو۔ درحقیقت ان کی ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی۔ ایبک اور اس کے جانشینوں کو عموماً خاندان غلاماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض محققین اسے درست نہیں سمجھتے۔ ایبک کے ابتدائی حالات کے متعلق زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ لیکن بعضوں نے انھیں ایک ترک غلام بتایا ہے۔ بعد میں وہ کسی طرح‌ دربار تک پہنچے اور اپنی سخاوت کی وجہ سے بادشاہ کی نظروں میں آئے۔

    محققین کے مطابق ایبک عہد وسطی کے دوسرے کسی بھی مسلم حکمراں کی طرح فن تعمیر کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے غوری حکم رانوں‌ کی کئی یادگار دہلی میں تعمیر کروائیں اور خاص طور پر قطب مینار کے ساتھ قوت الاسلام مسجد کی بھی بنیاد رکھی۔ قطب مینار کو ان کے بعد شمس الدین التتمش کے زمانے میں مکمل کیا جا سکا تھا جب کہ مسجد کی باقیات آج بھی قطب مینار کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔

  • اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    برصغیر بالخصوص پاک و ہند میں‌ثقافتی و تہذیبی مشغلوں میں موسیقی اور گلوکاری نمایاں اور اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ کلاسیکی گائیکی، غزل اور فلمی گیتوں کی بات کی جائے متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد کئی نام لیے جاسکتے ہیں جن کی سحر انگیز آواز نے کئی نسلوں‌ کو متاثر کیا اور آج بھی ان کو بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اے نیّر پاکستان کے انہی گلوکاروں میں سے ایک تھے۔

    فلموں‌ کے پسِ پردہ گلوکار کے طور پر اے نیّر کا نام ہمیشہ بہترین گلوکاروں میں لیا جائے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ اے نیّر 11 نومبر 2016ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    70ء کی دہائی میں بطور پلے بیک سنگر اے نیّر نے بڑی شہرت اور نام پایا۔ وہ غزل گائیکی کے بھی ماہر تھے۔ وہ ان فن کاروں میں‌ شامل ہیں‌ کہ جو کیریئر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی کام یابیوں‌ کا سفر طے کرلیتے ہیں۔ 1974ء میں اے نیر نے فلم ”بہشت‘‘ کے لیے پہلا گیت گایا اور راتوں رات مشہور ہوگئے۔

    گلوکار اے نیر 17 ستمبر 1950ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ فن کی دنیا میں انھوں نے اے نیّر کے نام سے شہرت پائی۔ انھیں بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا، لیکن وہ جس گھرانے کے فرد تھے وہاں‌ یہ سب معیوب بھی سمجھا جاتا تھا اور اے نیر کو بڑوں کی مخالفت کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے تھے۔ انھیں‌ سن کر خود بھی اسی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن پھر یہ ڈر اور مخالفت بہت پیچھے رہ گئی اور اے نیّر پاکستان کی فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکار بن گئے۔

    گلوکار کا پہلا فلمی گیت ”یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ تھا جس میں‌ گلوکارہ روبینہ بدر نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ 1974ء میں بہشت ریلیز ہوئی اور یہ گانا بہت مقبول ہوا۔ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم ”خریدار‘‘ کا تھا جس کے بول تھے، ”پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔‘‘

    اے نیّر نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں کریم شہاب الدین، نثار بزمی، اے حمید، ایم اشرف، نوشاد اور ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ کام کیا۔ ان کے گائے ہوئے کئی گیت اداکار ندیم اور وحید مراد پر عکس بند ہوئے اور اے نیّر نے تقریباً 80 فلموں کے لیے اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔ 1980 میں اے نیّر اپنے کریئر کے عروج پر تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ان کے گائے ہوئے گیت روز نشر ہوا کرتے تھے۔ اے نیّر کے دیگر مقبول گیتوں میں ”بینا تیرا نام‘‘، ” یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ”ایک بات کہوں دلدارا‘‘، ”میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘، ”جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے‘‘ شامل ہیں۔ انھیں پانچ مرتبہ نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ اے نیّر کے مقبول ترین گیت ہیں‌ جنھیں‌ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    اے نیّر مشہور گلوکار احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔ اے نیّر کی سریلی آواز پاکستانی فلم انڈسٹری اور دنیا بھر میں‌ موجود فن و ثقافت کے دلدادہ اور باذوق سامعین کبھی فراموش نہیں کرسکیں‌ گے۔

  • راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

    بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

    بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔

  • درپن: پاکستانی فلموں کے ایک مقبول ہیرو کا تذکرہ

    درپن: پاکستانی فلموں کے ایک مقبول ہیرو کا تذکرہ

    1961ء میں اداکار درپن نے اپنی فلم ’’گلفام‘‘ بنائی تھی جس میں ٹائٹل رول بھی انہی کا تھا۔ فلم میں ہیروئن مسرّت نذیر تھیں۔ یہ درپن کی ایک کام یاب فلم ثابت ہوئی جس میں‌ عرب معاشرت اور ثقافت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ لیکن درپن اس سے پہلے ہی فلم بینوں میں خوبرو ہیرو کے طور پر مشہور تھے۔ اس دور میں درپن کی فلمیں پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔

    اداکار درپن نے بعد میں‌ کیریکٹر رول بھی نبھائے اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ وجیہ اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک ایسے اداکار تھے جن کے بھائی سنتوش کمار کو بھی بطور فلمی ہیرو شہرت اور مقام حاصل ہوا۔ آج پاکستانی فلموں کے ہیرو درپن کی برسی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ متحدہ صوبہ جات آگرہ اور اودھ سے تعلق رکھنے والے درپن 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد عشرت عباس تھا۔ سنتوش کمار کے علاوہ ان کے ایک بھائی ایس سلیمان بھی فلم سازی سے وابستہ تھے۔ فلم کی دنیا میں عشرت عباس نے قدم رکھا تو درپن کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا فلمی کریئر تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں فلم امانت سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فلمی تعلق خاصا مضبوط تھا اور ان کی بنائی ہوئی فلموں‌ کی نمائش بھی دونوں ممالک میں عام تھی۔ درپن نے پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد ممبئی کا رخ کیا اور وہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ درپن پاکستان لوٹ آئے اور یہاں کئی کام یاب فلمیں کیں جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    درپن کی بطور ہیرو آخری اور کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ مجموعی طور پر درپن نے 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ درپن نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور یہ کام یاب شادی ثابت ہوئی۔

    درپن نے بہترین اداکاری پر دو مرتبہ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ فلم ساز کے طور پر گلفام کے علاوہ درپن نے بالم، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے بھی فلمیں بنائی تھیں۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا کو اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کا مقبول شاعر تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن وہ بطور شاعر اور نثر نگار بھی اپنے منفرد لب و لہجے اور طرزِ بیان کی وجہ سے اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جون ایلیا اپنے ہی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    آج جون ایلیا کی برسی ہے جنھیں شاعری میں روایت کا باغی اور بے باک شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے اشعار میں وہ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ تو اُن کو نہیں رہا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے روز یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر اور انشائیہ نگار تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ جون ایلیا زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں، "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصغر نقوی ان کا نام رکھا گیا لیکن قلمی نام سے شہرت پائی۔ وہ جس گھرانے کے فرد تھے اس میں سب علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال لوگ تھے۔ جون ایلیا کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے۔ ایک بھائی رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر اور صحافی گزرے ہیں۔ جون صاحب کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک ہر موضوع پر بات کی جاتی تھی۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید کے عنوان سے شایع ہوا جس کا پیش لفظ اس قدر مقبول ہوا کہ ان کے مداح آج بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جون ایلیا رومان پرور انسان تھے اور ان کی خیالی محبوباؤں سے الفت اور کلفت کا سلسلہ سخن میں‌‌ ڈھلتا رہا۔ جون ایلیا اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں: "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    معروف کالم نگار اور مصنفہ زاہدہ حنا ان کی شریکِ سفر رہیں۔ ان کی تین اولادیں ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ ملّا عبد القادر بدایونی کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جنھیں علومِ معقول و منقول دونوں‌ میں کامل دست گاہ تھی۔ انہی عبدالقادر بدایونی کی ایک کتاب منتخبُ التّواریخ بہت مشہور ہے جو اصلاً فارسی زبان میں ہے اور متعدد جلدوں میں اس کے اردو تراجم موجود ہیں۔

    ملّا عبد القادر بدایونی کا سنہ پیدائش 1540ء بتایا جاتا ہے۔ انھیں اپنے دور کا ایک ادیب اور انشا پرداز لکھا گیا ہے جو ہند فارسی مؤرخ اور مترجم کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے۔ ملا عبدالقادر 1605ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ملّا عبدالقادر بدایونی کی مؤلفہ فارسی کتاب بعنوان منتخب التواریخ میں سلطنتِ غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدّین سبکتگین کی تخت نشینی سے لے کر عہدِ اکبری تک کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کتاب کے مخطوطات برٹش میوزیم اور ہندوستان کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی اس کی وجہِ تصنیف بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

    "بنی نوع انسان کے اِس دعاگو عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی نے 999ھ کے اوائل میں حضرت خلیفہ زماں ظل اِلہٰی اکبر بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں انتخابِ تاریخ کشمیر کا ہندی سے فارسی زبان میں ترجمہ کرنے سے فراغت پائی۔ مجھے چوں کہ بچپن سے بڑھاپے تک اِس علم تاریخ سے انسیت رہی ہے، اِس لیے اِس عرصہ میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ میں اِس علم کے مطالعہ یا تحریر میں مشغول نہیں رہا، خواہ اپنی رغبت سے تھا یا کسی دوسرے کے حکم کی تعمیل میں، چنانچہ بارہا میرے دل میں آیا کہ دارالسلطنت دہلی کے بادشاہوں کے بارے میں اِختصار سے کچھ لکھا جائے یعنی ابتدائے اسلام کے زمانہ سے لے کر اِس زمانِ تحریر تک مختصراً لکھا جائے تاکہ ہر بادشاہ کے احوال کی وہ ایک ایسی اجمالی یادداشت ہو جو احباب کے لیے تذکرہ کا کام دے اور اربابِ بصیرت کی نظر میں اُسے تبصرہ کی حیثیت حاصل ہو۔”

    یہ سطور کتاب کے موضوع و ابواب کی وضاحت کرتی ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصہ میں اُن مشاہیر کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عہدِ اکبری میں گزرے۔ ان میں علمائے کرام، شعرا و ادبا، اُمرائے وقت اور دانا و بیدار مغز لوگ شامل ہیں جو مشہور بھی تھے۔ لیکن کہتے ہیں‌ کہ پانچ سال میں‌ پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی اس کتاب کا کوئی نسخہ اکبر بادشاہ کے دور میں سامنے نہیں آیا جس کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ عہدِ جہانگیری میں 1616ء تک محققین و مؤرخین اِس کتاب سے لاعلم رہے۔

    محققین کے مطابق عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی شاعر بھی اور فنِ تاریخ نویسی میں نام و مرتبہ پایا۔ وہ کئی علوم جانتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تربیت کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھا اور عربی کی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی۔ اس دور میں رسمی تعلیم کے طریقے کے مطابق قصیدہ بردہ شریف اور فقہ کے چند اسباق بھی پڑھے۔ بعد ازاں استاد مبارک ناگوری سے مختلف علوم کی تعلیم لی۔

    ملّا عبدالقادر نے اپنے علم و فن کے سبب جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ جگہ پائی اور علمی کام میں مشغول رہے۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے کئی کتب کا فارسی ہندی ترجمہ کیا۔ وہ عربی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ ملّا عبدالقادر بدایونی نجوم اور ریاضی جیسے علوم کے علاوہ راگ راگنیوں سے بھی واقف تھے۔

  • بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ایک ستون مانا جاتا ہے۔ بلدیو راج جنھیں عام طور پر بی آر چوپڑا پکارا جاتا ہے، ایسے فلم ساز تھے جس نے عام روش سے ہٹ کر فلمیں بنائیں اور فلم بینوں‌ کو اپنی فلموں سے متاثر کیا۔ بی آر چوپڑا 5 نومبر 2008ء کو چل بسے تھے۔

    94 سال زندہ رہنے والے بی آر چوپڑا 1914ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اور جوانی لاہور میں‌ گزری۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بی آر چوپڑا بھارت چلے گئے اور دہلی میں‌ قیام کیا، مگر پھر ممبئی منتقل ہوگئے۔

    یہ بھی پڑھیے:
    جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    بی آر چوپڑا کو انگریزی زبان و ادب کے ساتھ شروع ہی سے اردو ادب سے بھی لگاؤ رہا۔ وقت کے ساتھ فنونِ لطیفہ میں ان کی دل چسپی بڑھتی گئی۔ فلم بینی کا شوق ہوگیا اور اس قدر بڑھا کہ فلم سازی کی تکنیک، اور کہانی وغیرہ کے بارے میں اپنے علم اور بنیادی معلومات کے حصول کے بعد انھوں نے فلموں پر تبصرے کرنا شروع کردیے۔ اس دور کے انگریزی ماہ نامے میں ان کے فلمی تبصرے شایع ہونے لگے اور یہی آغاز فلم انڈسٹری میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کے کیریئر کی بنیاد بنا۔ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم نے انھیں جو تخلیقی شعور دیا تھا، اسی نے بی آر چوپڑا کو فلموں کا تنقیدی جائزہ لینے پر آمادہ کرلیا۔ وہ اس میدان میں کام یاب ہوئے۔ اس دور کی فلموں اور ان کے اسکرپٹ کی کم زوریوں اور خامیوں پر تبصروں نے بی آر چوپڑا کو بطور فلمی نقّاد مشہور کردیا۔ ان کی یہ قابلیت اور تنقیدی بصیرت ممبئی اُس وقت خود اُن کے کام آئی جب بی آر چوپڑا نے خود فلم سازی اور ہدایت کاری کا آغاز کیا۔

    1955ء میں انھوں نے بی آر فلمز کے نام سے باقاعدہ فلم کمپنی قائم کر لی۔ اس سے قبل وہ دو فلمیں بنا چکے تھے۔ بی آر چوپڑا تخلیقی انفرادیت کے قائل تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کیا۔ اسی روایت شکنی اور انفرادیت نے انھیں باکمال فلم ساز بنایا۔ بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور اداکاری بھی کی۔ 1949ء میں بی آر چوپڑا نے ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا تھا جو فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ 1951ء میں ان کی بطور ہدایت کار فلم ’افسانہ‘ سامنے آئی اور یہ ان کی پہلی کام یاب فلم بھی تھی۔ بی آر فلمز کے بینر تلے ان کی پہلی فلم ’نیا دور‘ تھی۔ فلم بینوں نے اسے بہت سراہا اور اس فلم نے کام یابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنیں جن میں‌ لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ بی آر چوپڑا نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا اور یہ تھا نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ بی آر چوپڑا فلم ’گھر‘ میں بطور اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔

    بھارت کے اس معروف فلم ساز اور ہدایت کار کے دل سے لاہور اور یہاں‌ جیون کے سہانے دنوں کی یاد کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بی آر چوپڑا کو فلم نگری میں اور بھارتی حکومت کی جانب سے کئی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے والے بی آر چوپڑا کو اس سے قبل فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی کو ایک عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلمی صنعت اور سنیما کی ترقّی و ترویج میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ شباب کیرانوی کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری ہے۔

    شباب کیرانوی ایک فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر بھی تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی وفات پاگئے تھے۔

    1925ء میں شباب کیرانوی نے کیرانہ، ضلع مظفر نگر (اُترپردیش، انڈیا) میں ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ شاعری کرنے لگے۔ اسی زمانہ میں شباب کیرانوی نے شاعری کے ساتھ ساتھ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینا شروع کردی۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کر کے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کر دیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔

    ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔ 1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    شباب کیرانوی نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔ لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وہ اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • ریشماں: پُرسوز آواز کی مالک مشہور لوک گلوکارہ

    ریشماں: پُرسوز آواز کی مالک مشہور لوک گلوکارہ

    پاکستان میں اردو نغمات، فلمی گیتوں کے ساتھ اگر لوک گائیکی کی بات کی جائے کئی پسماندہ علاقوں یا دور دراز قصبوں اور دیہات میں رہنے والے مرد اور خواتین گلوکاروں کے نام لیے جاسکتے ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے۔ آج لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی ہے۔ وہ 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔

    ریشماں کی آواز نہایت درد انگیز اور پُر سوز تھی۔ انھیں بلبلِ صحرا بھی کہا جاتا تھا۔ ریشماں کو گلے کے سرطان کا مرض لاحق تھا۔ گلوکارہ ریشماں کا سنہ پیدائش 1947ء ہے۔ وہ راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تعلق رکھتی تھیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا۔ ریشماں نے کم عمری میں صوفیانہ کلام گانا شروع کر دیا تھا۔ مشہور ہے کہ بارہ برس کی ایک بچّی کو ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر سنا اور اسے ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ یوں ریشماں پاکستان بھر میں لوک گلوکارہ کے طور پر متعارف ہوئیں اور بعد کے برسوں میں مقبولیت حاصل کی۔

    گلوکارہ کی آواز میں یہ گیت آپ نے بھی سنا ہوگا، ”چار دناں دا پیار او ربّا، بڑی لمبی جدائی“ یہی وہ گیت ہے جس نے ریشماں کو ملک ہی نہیں سرحد پار بھی شہرت اور پہچان دی۔ لوک گلوکارہ ریشماں نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ یہ ان پر خدا کی خاص مہربانی تھی۔ ان کی آواز میں بڑا درد تھا اور اسی وصف کی بنا پر ریشماں کو عام لوگوں کی صف میں سے آگے آنے کا موقع ملا اور شہرت ان کا مقدر بنی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے کئی لوک گیت گائے۔ گلوکارہ نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت ریکارڈ کروائے تھے۔ ریشماں کی شہرت سرحد پار بھی تھی اور معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے ان سے اپنی فلم کے لیے گانا بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ ریشماں نے فلم ’ہیرو‘ کا گانا ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی پاک و ہند میں مقبول ہے اور نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    لوک گلوکارہ ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں ’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔ ریشماں کو ستارۂ امیتاز اور لیجنڈز آف پاکستان جیسے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔