Tag: یوم وفات

  • عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    یہ تذکرہ اُس شخصیت کا ہے جس کی وجہِ شہرت تو ادب ہے، لیکن اس کی ادب سے وابستگی اور فن و تخلیق کا محرک ایک عجیب اور دل چسپ واقعہ ہے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد گاؤں کا ہر بچّہ، بڑا بوڑھا حیران پریشان تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھا یا اس کے بارے میں سنا تھا۔ ان میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھے۔ اس وقت وہ گیارہ سال کے تھے۔ چند روز بعد حمزہ توف نے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظم لکھ دی اور یہیں سے ان کی شاعری کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ داغستان کے عوامی شاعر مشہور ہوئے۔

    گاؤں میں ہوائی جہاز کا یوں اترنا وہاں کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن رسول حمزہ توف اس گاؤں کے واحد باسی تھے جس نے اس واقعے کے بعد اپنے تخیّل کی اڑان بھر کر روسی اور مقامی ادب میں نام و مقام بنایا۔ یہ علاقہ اس زمانے میں روس کے زیرِ اثر تھا۔ رسول حمزہ توف ایک عوامی شاعر ہی نہیں خوب صورت نثر نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی علمی و ادبی حلقوں‌ میں مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، مگر عوام میں ان کی وجہِ مقبولیت ان کی شاعری ہے۔ رسول حمزہ توف 2003ء میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رسول حمزہ توف نے 8 ستمبر 1923ء کو اس وقت کے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے۔ وہ اکثر جانور چراتے ہوئے کوئی گیت گاتے جاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ رسول حمزہ توف کبھی ان کے ساتھ جاتے تو گیت سنتے رہتے۔ یہیں سے ان میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو رسول حمزہ توف کے لیے شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    داغستان کی سرحد پر جنگ کی وجہ سے رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ کچھ عرصہ منقطع رہنے کے بعد 1945ء میں دوبارہ جڑ گیا اور اب وہ ماسکو میں داخلہ لے چکے تھے۔ 1950ء میں فارغ التحصیل ہوئے اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ان کے درمیان حمزہ توف کی فکر اور فن پر نکھار آیا۔ رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں ان کے چند شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے جب کہ حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہتے ہیں‌ کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔ روسی حکومت نے اس شاعر اور ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“ جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014 ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر طبع زاد کام اور تراجم پر بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں انھوں نے عالمی ادب کا اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیا اور یہ معیاری تراجم ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جسے جدید عالمی ادبیات کی فہرست میں‌ شمار کیا گیا۔ یہ سوویت یونین کے داغستان کو جس اسلوب میں پیش کرتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اپنی زمین سے بے حد محبت، ولولہ انگیز نظمیں، زندگی کو پیش کرنے کا فن کارانہ انداز، انوکھے اور فکر انگیز خیالات، آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز، چھوٹی چھوٹی مقامی کہانیاں، کہاوتیں اس کتاب کا حسن ہیں۔ اور ناقدین کے مطابق اس کتاب کا سب سے بڑا کارنامہ اسے آوار زبان میں پیش کرنا ہے جو صرف پانچ، چھ لاکھ لوگوں کی زبان تھی۔

  • بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے شاعروں میں میرا جی کا نام بھی شامل ہے۔ میرا جی اپنی شاعری خاص طور پر نظم نگاری کے حوالے سے تو اردو ادب میں زیرِ بحث آتے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلو ایسے ہیں جو ان کی بدنامی کا باعث بنے۔ میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو ان کے دور کے کئی ادیبوں اور شعرا نے اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا ہے۔ منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    میرا جی کو مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے باغی شاعر مشہور کردیا تھا، مگر ساتھ ہی ان کی فنی عظمت کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے، بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ بحیثیت ایک فرد میرا جی کو معاشرے میں آوارہ اور ذہنی عیّاش کے طور پر دیکھا گیا۔ وہ کچھ ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جن کو یہاں بیان نہیں‌ کیا جاسکتا۔ میرا جی کو جنسی مریض‌ سمجھا گیا اور ان کے ہم عصروں نے اس پر کھل کر لکھا۔ شخصی خاکوں میں میرا جی کی زندگی کے بعض ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، جو شاید عام لوگوں کے لیے ناقابلِ‌ قبول ہیں۔ 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھنے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ وہ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر اس مطالعہ اور ادب سے گہرے شغف کی بنیاد پر میرا جی ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے ادبی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ان کے مضامین اور تراجم کو بہت پسند کیا گیا اور اس حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔ وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔ ممتاز شاعر میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں: ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ شعری مجموعوں میں میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شامل ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
    زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

    گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
    ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

    انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
    ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

    سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ امید پر
    جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی

    درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
    اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی

    سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
    ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی

  • تنویر نقوی:‌ سدا بہار اور بے مثال گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی:‌ سدا بہار اور بے مثال گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی ایک کام یاب فلمی نغمہ نگار اور معروف غزل گو شاعر تھے جنھوں نے فلم انڈسٹری کے لیے کئی سدا بہار نغمات تخلیق کیے۔ تنویر نقوی کو تقسیمِ ہند سے پہلے ہی بحیثیت فلمی شاعر شہرت مل چکی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد تنویر نقوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔

    ‘آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے…’ یہ وہ نغمہ ہے جو سرحد پار بھی مقبول ہوا اور آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی گیت تنویر نقوی کے قلم کی نوک سے نکلے اور انھیں اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں‌ کے فن اور گلوکاروں کی آواز نے لازوال بنا دیا۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں معروف ہدایت کار محبوب اور موسیقار نوشاد علی کی مشہور نغماتی فلم انمول گھڑی ریلیز ہوئی جس کے بیشتر گیتوں کے شاعر تنویر نقوی تھے۔ اس فلم کا مقبول ترین نغمہ میڈم نور جہاں اور سریندر کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔

    گیت نگار تنویر نقوی کا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ 6 فروری 1919ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ فلمی دنیا میں انھیں تنویر نقوی کے نام سے شہرت ملی۔ 15 سال کی عمر میں‌ تنویر نقوی نے شاعری کا آغاز کیا۔ 1938ء میں تنویر نقوی فلم ‘شاعر’ کے لیے بھی گیت لکھ چکے تھے۔ اس زمانے میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور تنویر نقوی نے وہاں تقریباً آٹھ سال بحیثیت گیت نگار کام کیا۔

    تنویر نقوی ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور نوا نقوی کے نام سے مشہور تھے۔ تنویر نقوی کا 1940ء میں پہلا شعری مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ قیامِ‌ پاکستان کے بعد تنویر نقوی کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ گیت تقسیم سے قبل اور پاکستان میں آنکھ کھولنے والی دو نسلوں کے لیے ہمیشہ باعثِ کشش رہے ہیں اور ان گیتوں نے اپنے وقت میں مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔ ان میں‌ ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ ، ‘مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں، تیرے لیے ہیں…. اور ‘دل کا دِیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا….’ شامل ہیں۔ 1960ء میں فلم ‘ایاز’ میں تنویر نقوی کا تحریر کردہ گیت ‘رقص میں ہے سارا جہاں…’ شامل تھا اور یہ بھی اپنے وقت کا مقبول ترین گیت ثابت ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں… یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے… اور کئی دوسرے نغمات نے دھوم مچا دی۔ تنویر نقوی ایک بہترین شاعر اور باکمال نغمہ نگار تسلیم کیے گئے۔ انھیں فلم اور ادب کی دنیا کے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں تین نگار ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    جنگِ ستمبر (1965ء) کا یہ نغمہ ‘رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو….’ اور شوخی و جذبات سے بھرا ہوا یہ گیت ‘چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے…’ کس نے نہیں‌ سنا۔ یہ بھی تنویر نقوی کے لکھے نغمات ہیں جو لازوال ثابت ہوئے۔

    ایک زمانہ تھا جب فلمی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق قوالی اور حمد و نعت بھی شامل کی جاتی تھی۔ تنویر نقوی کا نعتیہ کلام بھی پاکستانی فلموں میں شامل کیا گیا۔ ‘نورِ اسلام’ ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں یہ بے حد خوب صورت نعتیہ کلام بھی شامل تھا: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ یہ وہ کلام تھا جسے بعد میں اور آج بھی مذہبی مجالس، محفلِ نعت وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے۔ گلی گلی سوالی بن کر پھرنے والے باآوازِ بلند یہ نعت پڑھ کر لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی مشہور ہے کہ یہ نعت نعیم ہاشمی کی تخلیق تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نعیم ہاشمی نے چونکہ اسی فلم میں ایک کردار بھی ادا کیا تھا اس لیے فلم میں اس نعت کا کریڈٹ ان کو نہیں دیا گیا اور فلم کے نغمہ نگار تنویر نقوی تھے، اس لیے یہی سمجھا کیا گیا کہ نعت بھی تنویر نقوی نے لکھی ہوگی۔ فلم ‘نورِ اسلام’ 1957ء میں‌ یکم نومبر ہی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور یہی تنویر نقوی کی تاریخِ وفات بھی ہے۔

    بحیثیت شاعر تنویر نقوی نے مختلف اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور غزلوں کے علاوہ ان کے قطعات اور حمدیہ و نعتیہ کلام بھی ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہے۔

  • برج موہن دتاتریہ کیفی: اردو زبان و ادب کی ایک بے بدل شخصیت

    برج موہن دتاتریہ کیفی: اردو زبان و ادب کی ایک بے بدل شخصیت

    کشمیر النسل پنڈت برج موہن دتاتریہ اردو زبان کے ایک بڑے عاشق تھے جنھیں ہم ایک ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس، ناول نگار اور انشا پرداز کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے ان کا جذبہ اور کاوشیں قابلِ رشک ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہیں۔ برج موہن دتاتریہ اردو زبان میں‌ تحقیق، تصنیف و تالیف پر مشتمل بڑا خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔

    آج پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ایک شان دار شخصیت کے مالک اور نہایت شائستہ آداب تھے۔ ان کی خوش اخلاقی اور ملن ساری ہی‌ کی تعریف نہیں کی جاتی تھی بلکہ انھیں ہر قسم کے تعصب اور حسد سے دور رہنے والا بڑا انسان مانا جاتا تھا۔ ان کے والد پنڈت کنہیا لال ریاست نابھ میں افسر پولیس تھے۔ برج موہن دتاتریہ چھوٹے تھے جب وال چل بسے۔ برج موہن نے اپنے شوق اور محنت سے تعلیم حاصل کی اور الطاف حسین حالی کے شاگرد بنے۔

    پنڈت کیفی کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ انھوں نے کم عمری ہی سے شعر کہنا شروع کیا اور شاعری کی ابتدا رواجِ زمانہ کے مطابق غزل گوئی سے کی لیکن جدید رجحانات اور تحریکات کے زیرِ اثر نیچرل شاعری پر توجہ کی۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل اور نظم ہی ان توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

    پنڈت کیفی نے لسانیاتی موضوعات پر کئی مضامین قلمبند کیے جو کیفیہ کے نام سے سنہ 1942ء میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کو اردو لسانیات کے ابتدائی اہم کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمِ لسانیات، قواعد، محاورہ اور روز مرہ سے برج موہن دتاتریہ کو ابتدا ہی سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے انشا کی کتاب ”دریائے لطافت” ترجمہ بھی کیا اور پنڈت کیفی کا یہ ترجمہ بہت سلیس، رواں اور بامحاورہ ہے۔

    معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام(شاعری) پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلّی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    اردو زبان کے اس عاشق کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔

    پنڈت کیفی کے سانحۂ ارتحال پر ڈاکٹر زور نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ان کی وفات سے اردو دنیا ایک ایسے محسن سے محروم ہو گئی ہے جس کا بدل ملنا ممکن نہیں ہے۔ اردو میں شاعر، ادیب، ماہر لسانیات اور عروض و قواعد کے جد اجدا ماہر پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا پیدا ہو جو ان سب میں پنڈت کیفی کی طرح ایک خصوصی اہمیت کا مالک ہو۔”

  • قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    مریم جمیلہ کا نام والدین نے مارگریٹ مارکیوس رکھا تھا۔ لیکن قبولِ اسلام کے بعد نوجوان مارگریٹ مارکیوس نے اپنا نام تبدیل کرلیا۔ مریم جمیلہ کا تعلق اس یہودی خاندان سے تھا جو جرمنی سے امریکہ ہجرت کرگیا تھا، لیکن 24 مئی 1961ء کو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور پیغمبرِ اسلام کے آخری نبی ہونے کی گواہی دینے کے بعد مریم جمیلہ امریکہ سے پاکستان چلی آئیں اور یہیں 31 اکتوبر 2012ء کو وفات پائی۔ آج مریم جمیلہ کی برسی ہے۔

    22 مئی 1934ء کو امریکہ میں پیدا ہونے والی مارگریٹ مارکیوس کے آبا و اجداد کا وطن جرمنی تھا۔ ان کے بزرگ امریکہ منتقل ہوگئے اور نیوروشیل میں سکونت اختیار کی۔ یہاں ان کے والد کی شادی ہوئی اور بیٹی مارگریٹ نے جنم لیا۔ وہ اسکول میں ذہین طالبہ مشہور تھیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر مارگریٹ ایک بیماری کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی عرصہ میں‌ انھوں نے مذاہب میں دل چسپی لینا شروع کی۔ 1953ء میں مارگریٹ نے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مارگریٹ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ اسکالرز سے رجوع کیا اور کی مدد سے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا۔ 1956ء میں ایک مرتبہ پھر ان پر بیماری غالب آگئی اور مارگریٹ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار طویل علالت کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کرنے کے علاوہ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن یہودیت اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے کے دوران ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ انھیں ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ مارگریٹ قرآن کے تراجم تو پہلے بھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک موقع پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسپتال سے نکل کر وہ اپنا مذہب ترک کر دیں‌ گی۔ انھوں نے یہی کیا اور بعد میں‌ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے اسلامک سینٹر جانے لگیں۔ اپنے والدین سے یہودی تعلیمات پر الجھنے اور اسلام کی جانب جھکاؤ دکھانے پر ان کا اپنے خاندان سے اختلاف ہوگیا تھا اور 1959ء والدین نے انھیں علیحدہ کر دیا۔ نوجوان مارگریٹ کو ملازمت کرنا پڑی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی زمانے میں انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور مارگریٹ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ 1960ء کے آخر میں انھوں نے مولانا سے خط کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا۔ مارگریٹ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کے پاس گئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو مغرب میں ایک مبلغ کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں مریم جمیلہ نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آنے کے بعد وہ مکمل طور پر مسلم تہذیب اور پاکستانی معاشرت میں ڈھل گئیں۔ مریم جمیلہ نے اردو زبان بھی سیکھی۔ 1963ء میں ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔ شادی کے بعد وہ لاہور میں رہیں اور لاہور ہی میں‌ انتقال ہوا۔

    مریم جمیلہ نے یہاں تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا اور ان کا موضوع اسلام اور اس کی تعلیمات تھیں، اسلام کے مختلف پہلوؤں کو انھوں نے انگریزی زبان اجاگر کیا اور دوسروں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ مریم جمیلہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں اِز ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    اگر ہندوستان کی فلمی صنعت کے چند باکمال اور بے مثال موسیقاروں کا نام لیا جائے تو ان میں نوشاد، او پی نیر، کھیم چند پرکاش، سی رام چندر، انیل بسواس، شنکر جے کشن، سلیل چودھری، لکشمی کانت پیارے لال اور ایس ڈی برمن اس فہرست میں ضرور شامل ہوں گے۔

    یہ تذکرہ ہے سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) کا جو ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام اور اپنے وقت کے عظیم سنگیت کار تھے۔ ایس ڈی برمن 1975ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کے فلمی گیتوں کو آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے اور خاص طور پر موسیقار اور اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے والے ایس ڈی برمن کے کمالِ‌ فن کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔

    موسیقار ایس ڈی برمن کی دھنوں میں مقبول ہونے والے کئی فلمی گیت ایسے تھے جن کو فلم کی کام یابی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ ایس ڈی برمن کی وجہ سے کئی نغمہ نگاروں اور گلوکاروں‌ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ موسیقار ایس ڈی برمن کو بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون بھی کہا جاتا ہے۔

    ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ ایس ڈی برمن تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ ان کا فلمی دنیا میں سفر 1937ء میں بنگالی فلموں سے شروع ہوا اور مجموعی طور پر ایس ڈی برمن نے سو ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ وہ ایک ورسٹائل موسیقار مشہور تھے۔ ایس ڈی برمن نے موسیقی کے ساتھ گلوکاری بھی کی اور کئی بنگالی لوک گیت گائے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، منّا ڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    ابتدائی تعلیمی درجات طے کرنے کے بعد ایس ڈی برمن نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر وہ کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کی سند لینے میں کام یاب ہوگئے، مگر موسیقی کے شوق نے ان کو آگے پڑھنے نہ دیا۔ ایس ڈی برمن ایم اے نہ کر سکے اور 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے موسیقی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی لی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر کچھ عرصہ گلوکاری بھی کی اور آہستہ آہستہ ان کی موسیقی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ یہ موسیقی بنگالی لوک دھنوں اور لائٹ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بڑا شان دار امتزاج تھی۔ ایس ڈی برمن کا ریکارڈ 1932ء میں پہلی مرتبہ ریلیز ہوا۔ اس کے بعد وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور کئی بنگالی گانے گائے۔ 1934 میں ایس ڈی برمن نے الہٰ آباد یونیورسٹی کی دعوت پر آل انڈیا میوزک کانفرنس میں شرکت کی جہاں انھوں نے بنگالی ٹھمری پیش کی۔ اس کانفرنس میں وجے لکشمی پنڈت اور کیرانہ گھرانے کے عبدالکریم خان بھی موجود تھے۔ اسی سال انھوں نے بنگال میوزک کانفرنس کلکتہ میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کا افتتاح رابندر ناتھ ٹیگور نے کیا تھا۔ یہاں بھی انھوں نے بنگالی ٹھمری گائی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

    40ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا اور پھر ممبئی چلے گئے اور وہاں بھی بطور موسیقار کام شروع کیا۔ لیکن ان کی شہرت کا سفر 1947ء میں شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت مقبول ہوا ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں۔

    ایس ڈی برمن نے میرا داس گپتا سے شادی کی، اور ان کا بیٹا راہول دیو برمن (آر ڈی برمن) بھی موسیقار بنا اور اس دنیا میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔

  • ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    بھارتی فلم انڈسٹری میں ونود مہرا کو ان کی متاثر کن اداکاری کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کرنے والے ونود مہرا نے دو دہائیوں بعد فلم بینوں کو ہیرو کے روپ میں بھی اپنی اداکاری سے محظوظ کیا اور کام یابیاں سمیٹیں۔

    ونود مہرہ 13 فروری 1945ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے ونود مہرہ کی بطور چائلڈ آرٹسٹ پہلی فلم 1958ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا نام ’’راگنی‘‘ تھا اور ونود مہرہ نے کشور کمار کے بیٹے کا رول نبھایا تھا۔ یہ رول انھوں نے نہایت عمدگی سے نبھایا تھا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے تھے۔ ونود مہرا نے اپنی پہلی فلم کے بعد اپنی حوصلہ افزائی سے وہ اعتماد حاصل کیا جس نے انھیں بعد میں ایک کام یاب ہیرو بنا دیا۔ 1971ء میں ونود مہرا نے فلم ’ایک تھی ریٹا‘ میں تنوجا کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا۔ اس جوڑی کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور ونود مہرا اپنی عمدہ اداکاری کی وجہ سے مزید آفرز حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کی چند کام یاب فلموں میں ’پردے کے پیچھے‘،’امر پریم‘ اور’ لال پتھر‘ شامل ہیں۔ فلم ’لال پتھر‘ میں راج کمار، ہیما مالنی اور راکھی جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ ونود مہرا نے خوب کام کیا۔1972ء میں فلم ’’انوراگ‘‘ کو زبردست کام یابی ملی اور یہی وہ فلم تھی جس نے ونود مہرا کو فلم اسٹار بنا دیا۔ اداکار ونود مہرا نے ہیرو اور کبھی سائیڈ ہیرو کا بھی رول نبھایا اور ہر مرتبہ فلم بینوں‌ سے داد سمیٹی۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی کام یاب ترین فلموں پر اداکار ونود مہرا کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے۔

    بالی وڈ اداکار ونود مہرا نے تین شادیاں‌ کی تھیں۔ ان کا اپنے وقت کی سپراسٹار اداکارہ ریکھا کے ساتھ بھی نام لیا جاتا رہا اور مشہور ہوگیا تھا کہ دونوں نے شادی کی تھی، مگر بعد میں اداکارہ ریکھا نے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کی تھی۔ ونود مہرا 30 اکتوبر 1990ء کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

  • وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ہندوستانی سنیما کو کئی بے مثال اور یادگار فلمیں دیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت میں ان کا نام ایک عظیم ہدایت کار کے طور پر زندہ ہے۔

    فلمی دنیا میں اپنی فنی عظمت کے نقوش ثبت کرنے والے شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ وی شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔

    پروڈیوسر اور ہدایت کار وی شانتا رام نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    تین شادیاں کرنے والے وی شانتا رام بیس برس کی عمر میں‌ ویملا بائی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جو ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں۔ یملا بائی کی عمر شادی کے وقت 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، جو بے اولاد رہی۔ وی شانتا رام تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔ سندھیا کو شانتا رام نے اپنی اس فلم میں کاسٹ کیا تھا۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ یہ ایک انتہائی شان دار فلم تھی، جس نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ وی شانتا رام کو 1985ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1992ء میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • دلدار پرویز بھٹی: ایک قابل استاد اور مقبول ترین آرٹسٹ

    دلدار پرویز بھٹی: ایک قابل استاد اور مقبول ترین آرٹسٹ

    ایک دور تھا جب دلدار پرویز بھٹی بطور میزبان ریڈیو، اسٹیج اور ٹی وی پروگراموں پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ حاضر جواب، بذلہ سنج بھی تھے اور اپنے شستہ لب و لہجے میں معیاری مزاح کی وجہ سے لوگوں میں بے حد مقبول تھے۔ آج دلدار پرویز بھٹی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطور استاد کیا۔ انگریزی زبان و ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مصنّف اور ایک مقبول کالم نگار بھی تھے۔ انھوں نے ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں۔ اور پھر لاہور ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1948ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ فلاحی کاموں میں‌ بھی مصروف رہے۔ 30 اکتوبر 1994ء کو دلدار پرویز بھٹی دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت وہ امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔ دوست احباب کی نظر میں‌ وہ انوکھے، پیارے اور سچّے انسان تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی کا شمار ان آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پی ٹی وی پر مختصرعرصے میں اپنی منفرد میزبانی کے سبب عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ پُروقار انداز اور پروگرام کے دوران موقع کی مناسبت سے دلدار پرویز بھٹی اپنے دل چسپ اور شگفتہ جملوں سے اپنے مہمانوں اور ناظرین کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردیتے۔ ان کا برجستہ مذاق ناظرین میں بہت مقبول ہوا۔ دلدار پرویز بھٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے، اور اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انہی کی تجویز پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے دلدار بھٹی نے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی وحدت کالونی لاہور کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    خواجہ خورشید انور پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بطور موسیقار مشہور نام و پہچان رکھتے تھے اور بالخصوص فلمی دنیا میں ان کی دھنوں کو سراہا جاتا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے کئی نام ور شعرا کے تحریر کردہ گیتوں کو اپنی موسیقی سے لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ فلمی نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج پاکستان کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید انور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے ان کو بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کیا اور 1936ء میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، رہائی تو جلد ہی مل گئی، مگر خواجہ خورشید انور کو انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو موسیقار خواجہ خورشید انور انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق میاںوالی سے تھا جہاں انھوں نے 21 مارچ 1912 میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے اعلیٰ‌ تعلیم تو حاصل کی تھی لیکن شہرت اور مقبولیت فن موسیقی کی بدولت ملی۔ اس فن میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔ بطور موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں پہلی مرتبہ 1941 میں فلم میں شامل ہوئیں جو بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔