Tag: یوم وفات

  • صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔

    صبا صاحب اکبر آباد (آگرہ) میں 14 اگست 1908ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔ یہ 1920ء کی بات ہے جب ان کی محض بارہ برس تھی اور ایک مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے درمیان خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ کلام سنانے کا موقع ملا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔ 1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔ زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ 1991ء میں صبا اکبر آبادی آج ہی کے روز اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    (تحریر:‌ شائستہ زریں)

  • قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ قاضی عبدالستار نے ان بڑے ناموں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا اور افسانہ و تاریخی ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔

    معروف بھارتی ادیب قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں خوبی سے سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش کے علاقہ سیتا پور سے تھا۔ وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد قاضی عبدالستار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہوگئے۔ یہ 1954ء کی بات ہے۔ بعد ازاں قاضی عبدالستار اسی جامعہ کے شعبۂ اردو میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ قاضی عبدالستار کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا تھا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953ء میں بھارت میں شائع ہوا۔ جب کہ 1961ء میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962ء میں ’پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    قاضی عبدالستار چند ہفتوں سے بغرضِ‌ علاج دہلی کے سر گنگا رام اسپتال میں داخل تھے اور وہیں 29 اکتوبر 2018ء کو انتقال ہوا۔

  • شاہدہ قاضی: عملی اور تدریسی صحافت کا بڑا نام

    شاہدہ قاضی: عملی اور تدریسی صحافت کا بڑا نام

    شاہدہ قاضی پاکستان کی ایک سینئر صحافی، استاد اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے شہرت رکھتی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 28 اکتوبر 2023 کو وفات پانے والی پروفیسر شاہدہ قاضی کی پاکستان میں شعبۂ صحافت اور شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کی پہلی طالبہ، صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر اور جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کی پہلی خاتون استاد تھیں۔

    عملی اور تدریسی؛ دونوں ہی طرز کی صحافت میں پروفیسر شاہدہ قاضی نے منفرد اور مثالی کام کیا۔ سینئر صحافی اور ناول نگار اقبال خورشید کے ایک انٹرویو سے یہاں چند اقتباسات نقل کررہے ہیں، جو پروفیسر شاہد قاضی کی ذاتی زندگی، ان کے افکار و خیالات اور ان کی اپنے شعبہ میں خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ اقبال خورشید لکھتے ہیں: پوری ایک نسل نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد میدان صحافت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اُن کے افکار کا ماخذ وہ علمی و ادبی گھرانا ہے، جہاں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ وہاں کتابوں کی فراوانی تھی۔ خواتین کی تعلیم کا تصور سانس لیتا تھا۔ یہ ممتاز اسکالر، علامہ آئی آئی قاضی کا خاندان تھا۔ دادو کے قریب واقع گاؤں ”پاٹ” اُن کا آبائی وطن ہے۔ 1944 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کے بہ قول؛ تقسیم کے وقت پاٹ میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔

    والد، قاضی محمد حسن تاجر تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی سرگرم۔ وسیع المشرب۔ حلقۂ یاراں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل۔ چار بہنوں، ایک بھائی میں وہ چوتھی ہیں۔ بڑی بہن، خاندان میں ایم اے کرنے والی پہلی خاتون۔ باقی دو ڈاکٹر۔ بچپن میں خاصی کم گو اور شرمیلی ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری میں کتابوں سے تعلق قائم ہوگیا۔ پریوں کی کہانیوں، الف لیلہ کے قصّوں سے ابتدا ہوئی۔ تیزی سے سفر طے کیا۔ ڈکنز اور جین آسٹن کو کم سنی میں پڑھ ڈالا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول توجہ کا محور رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اُکسایا۔ پانچویں جماعت میں جب پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھا، تو پنڈت جواہر لعل نہرو کا چناؤ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    سینٹ لورنس کانونٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹ جوزف کالج سے 63ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ شوق مطالعہ کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ وہاں شریف المجاہد، انعام الرحمان، محسن علی اور زکریا ساجد جیسے اساتذہ کی سرپرستی میسر آئی۔ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے ”بیج” کا حصہ تھیں۔ اکلوتی طالبہ۔ مشکلات پیش آئی، البتہ اساتذہ کی شفقت نے حوصلہ دیا۔ 65ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا۔

    سینئر صحافی اقبال خورشید پروفیسر صاحبہ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں، ابتدا میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے نے اپنی سمت کھینچا۔ چند اداروں میں انٹر شپ بھی کی، مگر خود کو ماحول سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں گزرا۔ اس دوران انگریزی اخبارات و رسائل میں مضامین شایع ہوتے رہے۔ ایک روز ”ڈان” میں اپنا مضمون دینے گئیں، تو سٹی ایڈیٹر، شمیم احمد نے بہ طور رپورٹر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ خواتین کا رپورٹنگ میں آنے کا تصور ناپید تھا۔ تھوڑا گھبرا گئیں، مگر والد کی حوصلہ افزائی نے مشکل آسان کردی۔ 65ء میں ”ڈان” سے منسلک ہوگئیں۔ دو برس بعد پی ٹی وی میں اسامیوں کا اعلان ہوا۔ قسمت آزمائی۔ بہ طور نیوز پروڈیوسر انتخاب ہوگیا۔ پی ٹی وی کے ذیلی ادارے ”ایشین ٹیلی ویژن سروس” سے سفر شروع کیا۔ پھر نیوز روم کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی وی میں اٹھارہ برس گزرے۔ علیحدگی کے سمے سینئر نیوز ایڈیٹر تھیں۔

    ٹیچنگ کی جانب آنے کا فیصلہ تدریسی صحافت کے جگت گرو، زکریا ساجد کے اصرار پر کیا۔ 85ء میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ذمے داریاں سنبھالیں۔ 97ء میں چیئرپرسن بنیں۔ 2004 میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کے بعد جناح یونیورسٹی فور ویمن، ناظم آباد میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ہوگئیں۔ وہاں یہ شعبہ نیا نیا تھا۔ اُسے مستحکم کیا۔ جامعہ کراچی میں بھی شام کے اوقات میں کلاسیں لیتی رہیں۔ 2010 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ 2014 میں جامعہ کراچی لوٹ آئیں۔ تدریسی صحافت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شاہدہ صاحبہ کے مطابق صحافت کے طلبا کی نظری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ کلیہ اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی باعث شعبۂ ابلاغ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اُن ہی افراد کو تدریس کے لیے چُنا، جو عملی تجربے کے حامل تھے۔ جرنلزم کے استاد کے لیے وہ کم از کم دس برس کا تجربہ لازمی ٹھہراتی ہیں۔

    حقوق نسواں کی وہ الم بردار، مگر شکایت ہے کہ آج اِن سرگرمیوں نے فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیرکبیر گھرانوں کی خواتین، منہگے ہوٹلز میں اکٹھی ہوتی ہیں، مسائل پر بات کرتی ہیں، اور لنچ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ جس طبقے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک خواتین سے زیادہ سماج کے مردوں میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

    پروفیسر صاحبہ نے اپنی پہلی کتاب میں ”ٹیلی ویژن جرنلزم” کا احاطہ کیا۔ وہ اِس موضوع پر کسی پاکستانی کے قلم سے نکلی اولین نصابی کتاب تھی۔ "Pakistan Studies in Focus” اگلی کتاب، جو ایک نجی ادارے کے طلبا کے لیے لکھی گئی۔ "Black White and Grey” مطبوعہ مضامین کا مجموعہ۔

    زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے، جن کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ مثبت سوچ اُن کا اصول۔ کینہ، بغض اور حسد سے خود کو دُور رکھتی ہیں۔ تلخ واقعات بھول جانے پر یقین رکھتی ہیں۔ لمحۂ موجود سے محظوظ ہونے کا طریقہ کھوج نکالا ہے۔ شعرا میں غالب، فیض اور راشد کی مداح۔ قرۃ العین حیدر کی معترف۔ روسی ادب کی دل دادہ۔ دوستوفسکی کا ”جرم و سزا” پسندیدہ ناول۔ پاؤلو کوئلیو کی ابتدائی تحریریں اچھی لگیں، مگر اُن کے نزدیک اب وہ فقط پیسے کے لیے لکھ رہے ہیں۔ کشور کی آواز بھاتی ہے۔ ”پیاسا” اور ”کاغذ کے پھول” پسندیدہ فلمیں۔ گرودت کو سراہتی ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں ضمیر نیازی اور منہاج برنا کا نام لیتی ہیں۔

  • علّامہ دمیری کا تذکرہ جن کی کتاب حیات الحیوان دنیا بھر میں مشہور ہے

    علّامہ دمیری کا تذکرہ جن کی کتاب حیات الحیوان دنیا بھر میں مشہور ہے

    “حیاتُ الحیوان” علّامہ کمال الدّین دمیری کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے۔ علّامہ دمیری کی اس تصنیف کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں، مگر دنیا بھر میں‌ علمی تحقیق اور مشاہدات کی بنیاد پر لکھی گئی کتابوں میں یہ کتاب آج بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ علم و فضل میں اپنے زمانے کی اس ممتاز شخصیت کو دنیا ماہرِ حیوانات کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

    مصر کے دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا آبائی علاقہ دمیرہ تھا۔ اسی نسبت سے وہ دمیری مشہور ہیں۔ علامہ دمیری 1349ء میں پیدا ہوئے۔ شعبۂ تاریخ سے متعلق محققین نے علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر جو معلومات اکٹھی کیں، ان کے مطابق علّامہ نے قاہرہ میں‌ تعلیم مکمل کی اور جامعہ ازہر میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ انھیں اپنے وقت کے ایک پرہیزگار اور عالم فاضل شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ دمیری کو کسبِ علم و شوقِ تحقیق نے وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ مکّہ میں بھی رہے اور وہاں‌ درس و تدریس میں وقت گزارا۔

    علامہ دمیری نے اپنے وقت کی باکمال علمی شخصیات استفادہ کیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین طالبِ علم تھے جس نے غور و فکر اور مشاہدے کی پختہ عادت کے سبب ایک زبردست تصنیف یادگار چھوڑی جو جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی اس میں بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب علّامہ کی تحقیق و ریاضت بہترین نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل اور جامع کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کے بارے میں علّامہ دمیری نے علمی و تحقیقی مباحث چھیڑے ہیں۔

    اپنے وقت کے اس عظیم محقق کی تاریخِ وفات 27 اکتوبر 1405ء ہے۔ علّامہ دمیری کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور وہ مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • اداکارہ نیّر سلطانہ کا تذکرہ جنھیں ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا

    اداکارہ نیّر سلطانہ کا تذکرہ جنھیں ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا

    پاکستان فلم انڈسٹری میں اداکارہ نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، لیکن آج وہ ایک فراموش کردہ نام ہیں تاہم فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ان کا نام ضرور محفوظ ہے۔ نیّر سلطانہ نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار نہایت خوبی سے نبھایا اور وہ اپنے دور کی مقبول اداکارہ تھیں۔

    آج اداکارہ نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔ نیر سلطانہ 1937ء میں علی گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام طیبہ بانو تھا۔ وومین کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا۔ ایک موقع پر نیر سلطانہ کی لاہور میں نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملاقات ہوئی اور ان کے کہنے پر نیر سلطانہ نے فلم میں کام کرنے کا آغاز کیا۔ نیر سلطانہ حسن و جمال کے ساتھ اردو ادب میں دل چسپی رکھتی تھیں اور ان کی زبان بہت شستہ تھی۔ انور کمال پاشا نے نیر سلطانہ کو اپنی فلم ’’قاتل‘‘ میں کاسٹ کیا۔ 1955 میں ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں نیر سلطانہ کو کام کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد وہ 40 برس تک فلمی دنیا میں ہیروئن اور دوسرے کردار ادا کرتی رہیں۔

    70ء کی دہائی کے آغاز سے نیر سلطانہ کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ دونوں طرح کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اور اسی لیے وہ ملکۂ جذبات مشہور ہوئیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ نیر سلطانہ کو سرطان کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور 27 اکتوبر 1992ء کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی کو اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار، ناول نویس، خاکہ نگار پہچانا گیا جب کہ ان کے تحریر کردہ انشائیے اور سفر نامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے موضوعات کی سطح پر نئے امکانات اور اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے اصنافِ‌ ادب کو ایک نئی معنویت سے آشنا کیا۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب تخلیق کیا اور ان کی تصانیف کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے سے ممتاز مفتی کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی اور بے تکلفی سے اجاگر کیا جس کی مثال نثر کے میدان میں بہت کم ملتی ہے۔ ممتاز مفتی ایسے ادیب تھے جس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور اسے خوبی سے نبھایا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جو انھیں اردو زبان کے ادیبوں سے جدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ان کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔

    ان کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی متعدد اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’الکھ نگری‘‘ ان کے وہ ناول تھے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے جب کہ ان کا سفر نامہ ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ بھی قارئین نے بہت پسند کیے۔ شخصی خاکوں اور تذکروں کی بات کی جائے تو ممتاز مفتی کی تصانیف پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے جب کہ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں بھی شایع ہوا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی انتقال کرگئے تھے۔ انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد‌ خاک کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • ابراہیم جلیس: باکمال ادیب، بے باک صحافی اور درد مند انسان

    ابراہیم جلیس: باکمال ادیب، بے باک صحافی اور درد مند انسان

    ابراہیم جلیس طنز و مزاح پر مبنی اپنی تحریروں اور فکاہیہ کالموں کی بدولت اردو ادب کے قارئین میں خاصے مقبول تھے، لیکن ادبی حلقوں میں بطور افسانہ نگار اور صحافی بھی پہچانے جاتے تھے۔ ابراہیم جلیس اپنے دور کے مشہور اہلِ‌ قلم تھے جن کا انتقال 26 اکتوبر 1977ء کو ہوا۔

    ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ لیکن ان کی جائے پیدائش بنگلور ہے۔ انھوں نے بنگلور میں‌ 11 اگست 1922ء کو آنکھ کھولی۔ ابراہیم جلیس کا خاندان بعد میں‌ نقل مکانی کر کے دکن چلا آیا، اور وہاں گلبرگہ میں ابراہیم جلیس نے تعلیم و تربیت پائی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد ابراہیم جلیس نے قلم کار کی حیثیت سے خود کو متعارف کروایا۔

    1948ء میں ابراہیم جلیس پاکستان چلے آئے اور یہاں ادبی مشاغل کے ساتھ مختلف اخبارات سے منسلک رہے اور صحافت میں اداریہ نویسی کے علاوہ اپنے کالموں سے قارئین کو اپنا مداح بنا لیا۔ ابراہیم جلیس رونامہ امروز، حریت اور مساوات سے وابستہ رہے۔ بحیثیت مدیر روزنامہ مساوات میں کام کرتے ہوئے انھوں نے مارشل لاء کا دور بھی دیکھا اور اس دوران طرح‌ طرح کے جبر اور سنسر شپ کے خلاف آواز بلند کی۔

    ابراہیم جلیس کا افسانہ پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ کے شمارے میں شایع ہوا۔ وہ طنز و مزاح کی طرف آئے تو ان کی تحریریں کئی مؤقر روزناموں اور معتبر رسائل میں شایع ہوئیں اور خاص طور پر ان کے کالم قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے بیرونِ ملک سفر کیا تو وہاں‌ جو کچھ دیکھا اور واقعات پیش آئے ان کو اپنے سفر نامے کی صورت میں شایع کروایا، اس کے علاوہ ان کے مضامین، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ابراہیم جلیس نے فلم اور ریڈیو کے لیے اسکرپٹ اور ڈرامے بھی لکھے۔ مارشل لاء کے دور میں‌ انھیں مختصر عرصہ قید و بند کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور اس کی روداد بھی انھوں نے رقم کی ہے۔ ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے۔

    پاکستان کے اس ممتاز قلم کار کی وفات کے بعد ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے ان پر ایک مضمون سپردِ‌ قلم کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:‌”ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

    وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔ اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔ ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔”

    مارشل لاء کے دوران 1977ء میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں‌ صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ابراہیم جلیس صحافیوں کے حق میں آواز بلند کررہے تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی جو حالات بگڑنے کے بعد پارٹی کی جانب سے میدانِ عمل قدم رکھ رہی تھیں۔ ابراہیم جلیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں وہ دباؤ کا شکار تھے اور ایک روز دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان نے ابراہیم جلیس کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • مرزا ہادی رسوا کا تذکرہ جن کا ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک ادبی شاہکار ہے

    مرزا ہادی رسوا کا تذکرہ جن کا ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک ادبی شاہکار ہے

    برصغیر پاک و ہند میں اردو ناول نگاری کی تاریخ ڈیڑھ سو برس پرانی ہے، اور اردو میں ناول نگاری کے ابتدائی دور میں، جن چند مصنّفوں کو عوامی سطح پر خاصی شہرت ملی، ان میں مرزا ہادی رسوا بھی شامل ہیں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ ان کا وہ ناول ہے جسے ہندوستان بھر میں‌ مقبولیت ملی اور اس کا برصغیر کی علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ بشمول انگریزی دنیا کی چند دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔

    مرزا ہادی رسوا نے کئی ناول لکھے، جن میں ذات شریف، شریف زادہ اور اختری بیگم شامل ہیں، لیکن 1899ء میں شائع ہونے والے ناول’’امراؤ جان ادا‘‘ لازوال ثابت ہوا۔ ہادی رسوا کا ایک اور منفرد علمی پہلو مذہبی تحقیق و تدوین بھی ہے، انھوں نے متعدد مقالے لکھے اور کتابیں مرتب کیں لیکن اس حوالے سے بہت کم بات کی گئی ہے۔

    ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک طوائف کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، جو تہذیب یافتہ اور زبان و ادب کے حوالے سے بھی مشہور تھی۔ یہ طوائف جو ایک عورت بھی ہے، اس کے جذبات و احساسات اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز پر یہ ناول اردو کی مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس مشہورِ زمانہ ناول پر کئی فلمیں بنیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر سب سے پہلی فلم 1972 میں پاکستان میں بنی۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار حسن طارق نے اس میں امراؤ جان ادا کا کردار اداکارہ رانی سے کروایا، اور اس کے بعد بھارت میں 1981 میں اسی ناول پر ایک فلم بنائی گئی۔ مظفر علی کی اس فلم میں مرکزی کردار بھارت کی مقبول اداکارہ ریکھا نے ادا کیا۔

    ناول نگار کا نام محمد ہادی، اور قلمی شہرت رسوا کے نام سے ہوئی۔ وہ لکھنؤ کے محلّہ ’’بگٹولہ‘‘میں 1858ء میں پیدا ہوئے۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ فارسی کی درسیات اور ریاضی و نجوم کا علم اپنے والد سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی جانب متوجہ ہوئے۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ متعدد درسگاہوں سے وابستہ رہے اور پھر 1919 ء کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ کئی زبانیں جانتے تھے جن میں عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت شامل ہیں۔ مختلف مشرقی و دنیوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔

    مرزا صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار ہی ان کی شہرت ہوئی۔ 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد دکن میں مرزا ہادی رسوا کا انتقال ہوگیا اور وہیں قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار میں دفن ہوئے۔

  • نادر کاکوری: اردو شاعری کا ایک فراموش کردہ نام

    نادر کاکوری: اردو شاعری کا ایک فراموش کردہ نام

    نادر کاکوری اردو زبان کے نام وَر شاعر تھے جن کا تذکرہ آج شاذ ہی ہوتا ہے۔ نادر کاکوری بہترین شاعر اور مترجم بھی تھے۔

    ادبی تذکروں کے مطابق ان کا پیدائشی نام شیخ نادر علی تھا۔ لیکن مالک رام نے پورا نام قاضی نادر علی خان عباسی لکھا ہے۔ تذکرۂ ماہ و سال میں ان کا سنہ پیدائش 1887ء درج ہے۔ لیکن ان کے مجموعہ کلام ’’جذباتِ نادر‘‘ کے مقدمہ میں 1857ء لکھا گیا ہے۔ تاہم ان پر اختلاف پایا جاتا ہے اور زیادہ درست 1867ء معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بوقتِ وفات نادر کی عمر 45 یا 46 سال تھی۔ نادر کی وفات مرضِ خناق کے باعث 20 اکتوبر 1912ء کو ہوئی تھی۔

    نادر کاکوری پڑھے لکھے تھے، وہ انگریزی جانتے تھے۔ پاکستان کے مشہور نقاد و محقق ممتاز حسن رقمطراز ہیں: ’’نادر اردو شاعری کی نئی تحریک میں ایک خاص مقام رکھتے ہے۔ یہ تحریک حالیؔ اور آزاد کی نیچرل شاعری سے شروع ہوتی ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اردو شاعری کو زندگی کے حقائق اور واقعات سے قریب لایا جائے اور تصنع اور تکلف کو ترک کردیا جائے۔ یہ اہم کام نادرؔ اور سرورؔ نے کیا ہے ۔ دونوں کی شاعری مشاہدات فطرت اور قومی اور انفرادی جذبات سے مالا مال ہے‘‘۔

    شیخ نادر علی خاں عباسی المعروف نادرؔ کاکوروی ضلع لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ حامد علی عباسی تھے۔ نادرؔ کی شادی شریف النساء بیگم عرف بندہ بی بی سے ہوئی جن سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹاپیدا ہوئے۔ نادر نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم مکمل کی۔ انہیں بچپن سے شاعری کا شوق تھا۔ ان کا کلام اس زمانہ کے مشہور اخبار و رسائل میں شائع ہوتا تھا۔ نادر کاکوروی کو جدید خیالات، ملکی حالات اور سیاست سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل اور ترقی پسند سوچ کے حامل تھے۔ انھوں نے انگریزی نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے۔

    ان کے بارے میں اپنے وقت کے بڑے ادیب اور ناول نگار عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں:
    ’’اردو شاعری کی دنیا میں نادر کاکوروی کی شاعری سب سے جداگانہ چیز ہے جس کے خیالات بالکل نئے اور جس کا اثر خاص قسم کا ہوگا۔ حضرت نادر نے کوشش کی ہے کہ انگریزی شاعری کے لطیف مذاق کو اردو میں پیدا کریں۔‘‘

    اس خرابے سے کوئی گزرا ہے نادرؔ نام بھی
    جابجا دیوار پر اشعار ہیں لکھے ہوئے

  • سلیم ناصر:‌ ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ کا تذکرہ

    سلیم ناصر:‌ ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی وژن کے یادگار اور بے حد مقبول ڈرامے ‘آنگن ٹیڑھا’ میں ‘اکبر’ کا کردار سلیم ناصر نے ادا کیا تھا جس کے بعد انھیں ملک گیر شہرت ہی نہیں بلکہ بہت پیار اور عزّت بھی ملی۔ اداکار سلیم ناصر 19 اکتوبر 1989ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    سلیم ناصر متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر ناگپور میں 15 نومبر 1944ء کو پیدا ہوئے، قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ یہیں سلیم ناصر نے تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کیے۔ اداکار سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے ’’لیمپ پوسٹ‘‘ سے کیا تھا۔ کراچی میں انھوں نے چھوٹی اسکرین پر مختلف ڈراموں میں کردار نبھائے اور اپنے بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ انداز کے سبب ناظرین کے دلوں میں بَس گئے۔ سلیم ناصر نے اپنے وقت کے مقبول ڈراموں دستک، نشان حیدر، آخری چٹان، یانصیب کلینک، بندش اور ان کہی میں کام کیا جب کہ انور مقصود کا تحریر کردہ آنگن ٹیڑھا وہ ڈرامہ تھا جس نے انھیں بے پناہ شہرت دی۔ اس ڈرامے میں سلیم ناصر نے اکبر کا وہ کردار نبھایا تھا جو نسوانیت سے بھرپور انداز کے ساتھ اپنے مزاحیہ مکالموں کی وجہ سے ناظرین کو بہت بھایا۔ سلیم ناصر اس زمانے کے فن کار تھے جب پی ٹی وی کے ڈرامے نہایت معیاری اور سبق آموز ہوا کرتے تھے اور آج تک ان کی مثال دی جاتی ہے۔ کہانی سے لے کر پروڈکشن تک اور اداکاری کے اعتبار سے وہ پی ٹی وی کا سنہرا دور تھا۔ سلیم ناصر اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے تھے۔

    اداکار سلیم ناصر نے چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سلیم ناصر کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔