Tag: یوم وفات

  • حسن علی آفندی: بانی سندھ مدرستہُ الاسلام

    حسن علی آفندی: بانی سندھ مدرستہُ الاسلام

    حسن علی آفندی کو تاریخ ایک مدبّر اور علم دوست شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جن کا ایک کارنامہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں عظیم الشّان درس گاہ کا قیام تھا جس کے تحت ایک نسل زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئی اور قابل اساتذہ نے ان کی راہ نمائی اور تربیت کی۔

    کراچی کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں کئی قابل و باکمال شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنھوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا اور حسن علی آفندی انہی میں سے ایک ہیں۔ سندھ مدرستہُ الاسلام کے نام سے آج ہم جس تعلیمی ادارے کو شناخت کرتے ہیں، اس کے بانی حسن علی آفندی تھے۔ انھوں نے کراچی میں فلاح و بہبود کے کئی کام کیے اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے خدمات انجام دیں۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وہ 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور غربت اور کئی مشکلات کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ اس دور کے نوجوانوں کو بھی ترقی اور کام یابی کے زینے طے کرنے کے لیے ایک درس گاہ کے ذریعے سہولت فراہم کی۔ اسی مدرسہ سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔

    حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔ وہ ہندوستان کی سیاست سے بھی وابستہ رہے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن کے طور پر کام کیا۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے علاوہ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  • نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیّرہ نور کی آواز آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رَس گھول رہی ہے اور بالخصوص ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات پہلے کی طرح اب بھی مقبول ہیں۔ جہاں ان نغمات کی بدولت 14 اگست کو جشنِ آزادی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے وہیں نیرہ نور کے مداح اگست کی 20 تاریخ کو گلوکارہ کی برسی بھی مناتے ہیں۔ نیّرہ نور 2022ء میں اسی روز انتقال کر گئی تھیں۔

    صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی پانے والی نیّرہ نور کئی برس سے گلوکاری ترک کرنے کے بعد گوشۂ گمنامی میں تھیں۔ وہ میڈیا اور دوسری تقاریب سے اگرچہ دور تھیں‌، لیکن جب بھی پاکستان کی ممتاز گلوکاراؤں‌ کا ذکر ہوتا اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تو نیّرہ نور کا نام لیے بغیر بات نہیں بنتی تھی۔ نیرہ نور کے مشہور گیتوں اور ملّی نغمات کی فہرست میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں‌ چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔

    آسام میں بچپن گزارنے والی نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی تھیں جب ہجرت کر کے ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے والد مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے اور تحریک آزادی میں پیش پیش رہے تھے۔ 1947 میں جب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آسام کا دورہ کیا تو ان کے والد نے قائد کی میزبانی کی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘

    اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور شوقیہ گاتی تھیں۔ ان کا یہ جوہر اساتذہ پر کھلا تو انھوں نے لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں نیرہ نور کو اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع دیا۔ لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو عمدہ گلوکاری پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن انھوں نے کبھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر بطور گلوکارہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گی۔ ریڈیو پاکستان سے بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی غزل’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے‘‘ نیرہ نور کی آواز میں نشر ہوئی اور یہیں سے شہرت کی دیوی گلوکارہ
    پر مہربان ہوگئی۔

    پہلی مرتبہ نیّرہ نور نے ریڈیو کے لیے باقاعدہ غزل ریکارڈ کروائی اور ان آواز سامعین تک پہنچی۔ یہ 1968ء کی بات تھی اور پھر 1971ء میں‌ وہ ٹی وی پر نظر آئیں‌۔ بطور گلوکارہ نیرہ نور کو سامعین نے بہت سراہا اور پھر وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں‌۔ ان کے گائے ہوئے نغمات اور فلمی گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوتے رہے۔ نیرہ نور نے فلموں کے لیے متعدد گیت ریکارڈ کروائے اور عمدہ گلوکاری پر نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    نیّرہ نور کا تلفظ ہی اچھا نہیں تھا بلکہ وہ ایک باذوق اور شستہ مذاق کی حامل فن کارہ تھیں جنھوں نے منتخب کلام گایا ہے۔ ان کی آواز میں فیض‌ صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت مقبولیت ملی۔ فلم فرض اور ممتا کے لیے نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کردہ ملّی نغمے `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں… بہت مقبول ہوا۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر اس کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں‌ نکھار لانے کے لیے انھوں نے بڑے گلوکاروں‌ کو سنا اور ریاض کرتی رہیں۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی اور بیگم اختر سے متأثر تھیں۔

    انھیں بلبلِ پاکستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • شاذ تمکنت: دکن کا انمول رتن

    شاذ تمکنت: دکن کا انمول رتن

    شاذ تمکنت اردو کے نظم گو شعرا میں ایک مقبول نام ہے جن کا کلام اپنے وقت کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ برصغیر کی مرفّہ الحال ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور شاعر تھے۔

    اس شاعر کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا اور ان کو شاذ تمکنت کے نام سے ادبی دنیا میں پہچان ملی۔ شاذ 31 جنوری 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں نغمات لکھے جارہے تھے اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات کا زور تھا۔ شاذ تمکنت نے اسی ماحول میں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    آج شاذ کی برسی ہے۔ وہ 18 اگست 1985ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    نظم کے ساتھ شاذ کی غزلوں میں بھی ذاتی زندگی کے تجربات اور دکھ درد ملتے ہیں، مگر ان کے اشعار میں یہ سب زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    اردو شاعری کی محبوب صنف یعنی غزل اور نظم کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ غالب اور اقبال کی غزلوں پر تضمین کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    اس شاعر کی ایک مناجات "کب تک مرے مولا ” بہت مقبول رہی ہے اور اسے ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوا تھا۔

    شاعر اور نثر نگار رؤف خیر نے اپنے خاکہ اور شخصی تذکرے پر مبنی تحریر میں بعنوان ‘دکن کا انمول رتن: شاذ تمکنت’ ان کے بارے میں لکھا ہے، اردو میں شاذ تمکنت اک ایسا نام ہے جو شعر ادب کے طالب علم کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی حیدرآباد کے سرکردہ شعراء کا ذکر چھڑے گا شاذ تمکنت کا نام ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے غزل کو اس کے لغوی معنوں سے دور ہونے نہیں دیا۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بار بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اک خوب رو عاشق خوب صورت محبوبہ کی خدمت میں خوش سخنی کے جوہر دکھا رہا ہے۔

    شاذ تمکنت خوب صورت شخصیت کے مالک تو تھے ہی خوش لباس و خوش اطوار بھی تھے۔ ان سے مل کر کوئی شخص کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاذ میں محبوبانہ ادائیں اور محبانہ صلاحیتیں دونوں متوازی چلتی تھیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ خوش گفتاری تو جیسے شاذ پر ختم تھی۔ وہ حیدرآباد ی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا۔ اور ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔ انھیں اپنے آپ سے عشق تھا۔ وہ اپنی غزل کے عاشق تھے۔ انھیں اپنی نظمیں بھی محبوب تھیں۔ اپنی ذات اور اپنی تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی۔ وہ شعر و ادب کو محض شعر و ادب سمجھتے تھے اور مقصدیت اور پروپیگنڈے سے ماوراء۔

  • بالزاک:‌ فرانسیسی سماج کا "سیکریٹری جنرل”

    بالزاک:‌ فرانسیسی سماج کا "سیکریٹری جنرل”

    اونورے بالزاک (Honoré de Balzac) شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس کے ناولوں میں کئی کردار ملتے ہیں۔ بالزاک کی خواہش تھی کہ اس کا نام اس کے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے اور یہ خواہش پوری ہوئی۔ اسے فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کیے اور پیرس میں ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ اس وقت تک وہ قلم تھام چکا تھا۔ وکیل کے پاس کام کرتے ہوئے اس نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر مکمل یکسوئی سے ادب تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالزاک نے ابتداً بطور مصنّف لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بعد کے برسوں میں اس کے قلم سے متعدد شاہکار کہانیاں نکلیں جن میں صرف اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا بشمول اردو متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک بے مثال داستان کے طور پر پڑھا گیا جس میں ایک لڑکی کو اس کے کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں‌ جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ اس کے ناولوں میں کردار نگاری اور جزئیات نگاری کمال کی ہے۔

    بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ بھی مشہور ہے کہ اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کی اس حوصلہ شکنی پر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور وہ دن آیا جب فرانس میں وہ مقبول ہوا اور بعد میں دنیا بھر میں شہرت ملی۔

    کہتے ہیں کہ وہ نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کرداروں جمع کرکے اپنی کہانی آگے بڑھاتا جاتا۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

    بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے سراہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل رہا تھا اور کہتا تھا کہ لوگ اس کی تخلیقات کو فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں‌ کا گویا پوسٹ مارٹم کرتا چلا گیا۔ اسی وصف نے بالزاک کو مقبول فرانسیسی ناول نگار بنایا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی وہ فرانس ہی نہں ہمیں اپنے معاشرے میں بھی مل جاتے ہیں۔

    اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے اس کی تخلیقات کا مجموعہ بنا اور قارئین پر کھلا کہ بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے ہیں اور وہ سب ان سے واقف ہیں، مگر بالزاک کے قلم نے ان کی جو لفظی تصویر پیش کی ہے، وہ بہت منفرد ہے، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو سامنے لاتے ہیں اور بالزاک ایک حقیقت نگار کے طور پر ابھرتا ہے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب محمد حسن عسکری نے اس کے ایک ناول کے اردو ترجمہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب بالزاک نے سستے رومانی اور سنسنی خیز ناول لکھنے کے بجائے سنجیدگی سے ادب کی طرف توجہ کی تو اس زمانے میں سائنس اور خصوصاً حیاتیات کا چرچا شروع ہوگیا تھا اور یہ رحجان پیدا ہو چلا تھا کہ انسانی زندگی پر بھی حیاتیاتی اصول عائد کیے جائیں کیونکہ انسان بھی تو بنیادی اعتبار سے جانور ہی ہے۔

    چنانچہ بالزاک کے دل میں بھی سب بڑی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے سماج کا مطالعہ ٹھیٹ علمی طریقے سے کروں اور انسانی زندگی کے ایسے اصول دریافت کروں جو حیاتیات کے اصولوں کی طرح درست اور بے لاگ ہوں۔ چنانچہ اسے فخر تھا کہ میں نہ تو رومانی ناول نگاروں کی طرح جذبات کی رو میں بہتا ہوں نہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کے کہتا ہوں بلکہ میرا ایک ایک لفظ حقیقت کے دلیرانہ مشاہدے پر مبنی ہے۔ اُسے دعویٰ تھا کہ نہ میں نے کوئی بات بڑھائی ہے، نہ گھٹائی ہے بلکہ جو کچھ دیکھا ہے اسے ہوبہو نقل کرتا چلا گیا ہوں۔ اور میرے ناول میں پورے فرانسیسی سماج کی سچی تصویر ملتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے آپ کو سماج کا سیکریٹری جنرل کا کہتا تھا۔

    بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کی تخلیقات بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے لیے بے مثال نغمات تخلیق کرنے والے تسلیم فاضلی نے فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا۔ بحیثیت نغمہ نگار جس تیزی سے انھوں نے شہرت اور مقبولیت کا سفر طے کیا، اسی تیزی سے زندگی کا ساتھ بھی چھوڑ دیا۔ تسلیم فاضلی 17 اگست 1982 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے اور ان کے گھر میں‌ اپنے وقت کے مشاہیر اور جید اہل قلم کا آنا جانا لگا رہتا تھا جن میں شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔمراد آبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ شامل تھے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر ادبی مجالس اور مشاعروں میں بھی جاتے رہتے تھے جس نے تسلیم فاضلی کو لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کیا اور وہ شعر موزوں کرنے لگے۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔

    کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد تسلیم ؔفاضلی نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے انٹر سائنس پھر اسلام آباد سے فنون میں بی اے کیا۔ اس عرصے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا پھر اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے پاکستان کی معروف فلمی اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    انھوں نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور یہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت میں ان کی ایک غزل شامل کی گئی تھی جو آج بھی بہت مقبول ہے۔ اس کا مطلع ہے:

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور یہی وہ گیت تھا جس کے بعد تسلیم فاضلی کو کئی فلموں کے لیے نغمات لکھنے پیشکش کی گئی۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا اور انھیں صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ان کے چند گیت پاکستانی فلم انڈسٹری کے کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی…..جیسے کئی فلمی گیت لازوال ثابت ہوئے اور یہ وہ نغمات ہیں جنھیں‌ ہر دور میں سنا گیا اور سراہا گیا۔

    تسلیم فاضلی اپنی اسی سدا بہار اور بے مثال شاعری کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    پاکستان میں گلوکاری کے شعبہ میں اپنے فن اور انداز کی بدولت شہرت اور بطور پاپ سنگر مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ نازیہ حسن کو گلوکاری کے میدان کی ایک ساحرہ کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں میوزک کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

    نازیہ حسن 3 اپریل 1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے والدین یاسر حسن اور منیزہ حسن کی پہلی اولاد تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی زوہیب حسن اور ایک بہن زہرہ تھیں۔ بعد ازاں یہ خاندان انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں ملازمت کی۔ وہ انتہائی قابل اور ذہین تھیں اور تعلیمی میدان سے لے کر عملی زندگی تک ان کا سفر کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھنے والی نازیہ حسن نے پاکستان بھر میں نہ صرف دلوں پر راج کیا بلکہ ان کی شہرت اور فن کو بھارت اور دنیا بھر میں چاہنے والوں نے سراہا۔

    وہ لاکھوں پاکستانیوں کی محبوب گلوکارہ تھیں جنھوں نے شوقیہ گلوکاری کا آغاز کیا تھا مگر جلد ہی اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ اسے کریئر کے طور پر اپنا لیا۔ ان کے خوب صورت اور دل موہ لینے والے گیتوں کے ساتھ مشرقی انداز اور مغربی سازوں کے امتزاج سے جو گیت سماعتوں تک پہنچے، انھوں نے دلوں کو مسخر کرلیا۔ یہ 1980ء کی بات ہے جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بھارتی اداکار فیروز خان سے ہوئی اور ان کی فلم ’’قربانی‘‘ کا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ نازیہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ حسن شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس پر نازیہ کو 1981 ء میں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین گلوکارہ تھیں۔

    زوہیب حسن کے ساتھ انھوں نے پاپ گائیکی کو نئی جہت دی اور 1981ء میں پہلا البم ریلیز ہوا جس کا نام ’’ڈسکو دیوانے‘‘ تھا۔ یہ البم اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشیائی پاپ البم قرار پایا۔ اس کے بعد 1982ء میں ’’بوم بوم‘‘، 1984ء میں ’’ینگ ترنگ‘‘ اور 1987ء میں ’’ہاٹ لائن‘‘ جیسے کامیاب البموں نے ان کے مداحوں کو ان کی آواز اور نئے طرز گائیکی کا دیوانہ بنا دیا۔

    نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1988 میں وہ معروف موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ پروگرام ’’سارے دوست ہمارے‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں بعد از مرگ نازیہ حسن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی تھی۔ نازیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں اور لندن میں دو سال اس بیماری سے لڑنے کے بعد 13 اگست 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بوقت مرگ ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • طفیل احمد جمالی:‌ ادب اور صحافت کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    طفیل احمد جمالی:‌ ادب اور صحافت کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    اردو میں فکاہیہ کالم نگاری ایک اہم ادبی و صحافتی صنف کے طور پر رائج ہے اور کئی بڑے ادیبوں اور نثر نگاروں نے اخبار اور جرائد کے لیے طنز و مزاح کے پیرائے میں معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ فکاہیہ کالم ہر خاص و عام میں مقبول رہے ہیں۔ انہی فکاہیہ نگاروں میں طفیل احمد جمالی بھی شامل ہیں جو ایک ادیب، شاعر اور صحافی بھی تھے۔

    طفیل احمد جمالی کا تذکرہ اب شاذ ہی ہوتا ہے مگر وہ اپنے وقت کے مشہور صحافی، مدیر اور بحیثیت فکاہیہ نگار خاصے مقبول تھے۔ ان کے کالم بہت پسند کیے جاتے تھے۔ طفیل احمد جمالی 12 اگست 1974ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    طفیل صاحب 1919ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کے بعد منشور دہلی سے منسلک ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے جہاں مختلف مؤقر روزناموں سے منسلک رہے۔ طفیل جمالی نے انجام، نگار، لیل و نہار اور نمکدان کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

    انھوں نے ملکی حالات اور سیاست کو موضوع بنانے کے ساتھ سماجی برائیوں اور مختلف واقعات پر فکاہیہ کالم لکھے جن کو پسند کیا گیا۔ طفیل احمد جمالی نے چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔

    وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
    

  • ہرمن ہیسے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ہرمن ہیسے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ہرمن ہیسے کو شروع ہی سے جادوئی کہانیاں اور دیو مالائی داستانیں پسند تھیں۔ وہ کہانیاں پڑھتا اور اپنے تصور میں انوکھی اور انجانی دنیا آباد کرکے لطف اندوز ہوتا رہتا۔ ان کہانیوں میں وہ اس قدر ڈوب جاتا کہ ان کے کردار اسے اپنے اردگرد نظر آنے لگتے اور ہرمن ہیسے اپنی چشمِ تصور سے پُراسرار واقعات کو رونما ہوتے دیکھتا۔ بعد کے برسوں میں وہ خود ایک ناول نگار کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا گیا اور اس کی کہانیوں کو بے پناہ مقبولیت ملی۔

    ہرمن ہیسے 19 جولائی 1877 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور ایسے گھرانے کا فرد بنا جس کا ماحول مذہبی اور روایات کا پابند تھا۔ اس کے والدین اپنے مذہب کی تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزارتے اور وہ ان کے جانے کے بعد اپنے چشمِ تصور سے ایک مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔ ہرمن ہیسے نے شعور اور آگاہی کی مسافتیں طے کیں تو خود کو لکھنے کی طرف مائل پایا۔ اس نے قلم تھاما اور اپنے تخیل کے سہارے کہانیاں لکھنے لگا۔ مگر اسے یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کی تعریف ہو گی اور اس کے ناول مقبول ہوں گے۔

    ہرمن ہیسے کو لکھنے کا شوق اس وقت ہوا جب اس نے کتابوں کی خرید و فروخت سے معاش کا سلسلہ باندھا۔ اسی دوران وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر ایک ادیب کی حیثیت سے سفر شروع ہوگیا۔

    اس جرمن ادیب نے شاعری بھی کی، مگر اس کی وجہ شہرت فکشن ہے۔ ہرمن ہیسے 25 سال کا تھا جب اس کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے پذیرائی نہ مل سکی۔ 1905 میں اس نے ایک ناول Beneath the Wheel شایع کروایا جو ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ حوصلہ افزائی نے ہرمن ہیسے کے قلم کو مہمیز دی اور اس نے کئی افسانے اور کہانیاں‌ تخلیق کیں۔ ان کا موضوع یورپ کے معاشرتی رویے اور اخلاقی قدریں تھیں جن کو اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ وہ معاشرے کا تضاد، کھوکھلا اور بگڑتے ہوئے طور طریقوں کو قارئین کے سامنے لایا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    اس کے ناول سدھارتھ کا اردو ترجمہ ہندوستان بھر میں مقبول ہوا۔ اس پر ناقدین اور اہل قلم نے تبصرہ کیا اور آج بھی اس ناول اور اس کے مرکزی کردار پر بحث کی جاتی ہے اور یہ آج بھی مقبول ناول ہے۔ ہرمن ہیسے کا یہ ناول 1922 میں شایع ہوا تھا اور 1946 میں سدھارتھ پر ناول نگار کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

    ہرمن ہیسے اپنے مذہبی اور فرسودہ سسٹم کے خلاف مختلف صورتوں میں بغاوت کرتا رہا۔ وہ ایک مشنری اسکول سے بیزار ہو کر بھاگ گیا تھا۔ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی اور سوسائٹی کی گلی سڑی روایات اور جبر کے خلاف بولتا بھی رہا۔ 1911ء میں ہرمن ہیسے نے برصغیر کا رخ کیا اور سیلون، سنگا پور، سماٹرا اور انڈیا کا سفر کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اس کو جرمن فوج میں رضا کار کے طور پر قیدیوں کی نگرانی کرنا پڑی اور وہیں اس نے جنگ اور اس کی ہولناکی کا گہرا ادراک کیا اور رزمیہ شاعری کے خلاف لکھنے لگا۔

    جرمنی میں دائیں بازو کے متعصب قلم کار ہرمن ہیسے کی مخالفت کرنے لگے اور جب اسے غدار قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی اور تو وہ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ ہرمن ہیسے نے تین شادیاں کی تھیں، مگر اس کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہی۔ بعض وجوہ کی بنا‌ پر اس نے اپنا نفسیاتی اور روحانی علاج بھی کروایا۔ دراصل ہیسے کے والد کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شدید بیمار ہوا اور اس کی بیوی پاگل ہو گئی۔ یہ سب واقعات بھی اس کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنتے رہے۔ وہ 9 اگست 1962ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    کہتے ہیں کہ آخری عمر میں وہ گوشہ نشیں ہو گیا تھا اور گھر کے صدر دروازے پر یہ تحریر چسپاں کردی تھی کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔

  • کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری اردو ادب کا ایک ایسا فراموش کردہ نام ہے جسے کبھی بطور شاعر، ادیب اور مترجم پہچانا جاتا تھا۔ رفتارِ زمانہ اور گردشِ دوراں میں جہاں کئی اور قابل و باصلاحیت شخصیات کے نام ذہن سے محو ہو گئے، انہی میں ایک کرار نوری بھی ہیں۔ اسی لیے نئی نسل کے قلم کاروں اور قارئین میں‌ سے شاذ ہی ان سے واقف ہوں گے۔ شاعری کرار نوری کا مستند حوالہ اور ریڈیو پاکستان ان کی ایک مستحکم پہچان ہے۔

    کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ایک شاگرد آگاہ دہلوی کے پَڑ پوتے تھے۔ کرار نوری کا وطن جے پور، دہلی تھا۔ وہ 30 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کرار نوری ہجرت کرکے پنجاب کے شہر راولپنڈی چلے آئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد کراچی آکر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کرار نوری نے ادبی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد اخبار و جرائد سے بھی منسلک رہے۔

    کرار نوری نے شہرِ قائد کے علمی و ادبی حلقوں‌ میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی تھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کرار نوری کا نعتیہ کلام ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ 1990ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والے کرار نوری کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) کی اشاعت کے بعد 1988ء میں فکشن کا پلٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ ان کا یہ ناول ایک ایسی ماں کی زندگی کے بارے میں ہے، جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنے سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا اذیت ناک فیصلہ کرتی ہے۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں بہت منفرد اور اعلیٰ مقام کی حامل تھیں جن کو افریقی نژاد امریکی مصنفین کی اہم ترین نمائندہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مشہور تصانیف میں ‘انتہائی نیلی آنکھیں‘، ‘سلیمان کا گیت‘، ‘انسان کا بچہ‘، ‘جاز‘ اور ‘جنت‘ شامل ہیں۔

    وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ٹونی موریسن ایک بے مثل فکشن رائٹر کے طور پر ہی نہیں بااثر سیاہ فام خاتون بھی مشہور ہوئیں۔ وہ 2019ء میں آج ہی کے دن چل بسی تھیں۔ ٹونی موریسن نے 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لیا۔ ان کا بچپن غربت اور تعصب پر مبنی سلوک دیکھتے ہوئے گزرا۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز رویہ ان کی تلخ یادوں کا حصہ رہا۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا اور ادب کے مطالعہ کا شوق اپنایا تو خود بھی لکھنے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عظیم قلم کار کے طور پر سامنے آئیں اور کئی مشاہیر اور اعلیٰ منصب دار ان کے فن و افکار سے متاثر ہوئے۔ ان میں‌ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی شامل ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ سویڈش اکیڈیمی نے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ٹونی موریسن کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ان کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا تھا، ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں وہ بے رحم ہیں۔’

    وہ امریکا کی ایک ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا اور زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا۔ وہ سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنانے والی خاتون تھیں اور ہمیشہ سیاہ فام نسل کو یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دانش ور اور اہل قلم سمجھتے ہیں کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔

    ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ انھوں نے پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ ناول تھا جس نے بلاشبہ موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ٹونی موریسن کی ایک تصنیف ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon) بھی بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اس ناول کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    ناول نگار ٹونی موریسن نیویارک میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی زندگی کا آخری دن تمام ہوا۔