Tag: یوم وفات

  • خلیق انجم:‌ اردو کے سفیر، نام ور محقق اور ماہرِ‌ غالبیات

    خلیق انجم:‌ اردو کے سفیر، نام ور محقق اور ماہرِ‌ غالبیات

    ڈاکٹر خلیق انجم کا شمار ہندوستان اور اردو زبان و ادب کے صفِ اوّل کے محققین میں ہوتا تھا۔ وہ نقاد اور ماہرِ غالبیات مشہور تھے جنھوں نے مختلف اصنافِ ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر خلیق انجم سے متعلق رفعت سروش لکھتے ہیں: ’’انجمن تعمیر اردو کے جلسے ہی میں ڈاکٹر خلیق انجم سے تعارف ہوا۔ درمیانہ قد و قامت سوچتی ہوئی آنکھیں، فراخ دل چہرہ کے کشادہ خدوخال سے نمایاں آواز میں دل گداز کھوج، تیکھا لب و لہجہ مگر اس تیکھے لب و لہجے میں ہلکی سی ظرافت کی آمیزش کہ سننے والے کو ناگواری نہ ہو اور کہنے والا اپنی بات مزے سے کہہ جائے۔”

    انجمن ترقّیِ اردو (ہند) دہلی کے سابق سیکریٹری اور نائب صدر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر خلیق انجم 18 اکتوبر2016ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    خلیق انجم کے والد محمد احمد مرحوم ریلوے انجینئر تھے۔ ان کے نانا انگریزوں فارسی اور اردو کے عالم تھے اور کالج میں انگریزوں کو اردو سکھاتے تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کی والدہ نے دہلی کے فرانسیسی گرلز ہائی اسکول میں اس زمانے میں تعلیم پائی جب مسلمان لڑکی کو تعلیم کے لیے گھر سے باہر بھیجنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ غیر معمولی ذہین خاتون تھیں۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شادی ہوگئی۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ عزیزی کے نام سے اردو رسالوں میں عورتوں کے سماجی مسائل پر مضامین لکھا کرتی تھیں۔ خلیق انجم کے والد کے انتقال کے بعد والدہ نے لکھنا چھوڑ کر ملازمت شروع کر دی اور چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو کھینچنے لگیں۔ ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پہلے استانی اور پھر ہیڈ مسٹریس بن گئیں۔

    خلیق انجم کو اسکول کے زمانے سے ہی شاعری، افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول کے میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے اور علی گڑھ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’جھلک‘‘ میں ان کے افسانے شایع ہونے لگے۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد خلیق انجم کالج میں لیکچرر ہوگئے۔ خلیق انجم کی سب سے پہلی کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ تھی۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’مرزا مظہر جان جاناں‘‘ تھا۔ پھر انھوں نے رفیع سوداؔ اپنا تحقیقی مواد انجمن ترقی اردو ہند سے شائع کروایا۔ خلیق انجم کے رشحاتِ قلم پر مشتمل 80 کتابیں اور کئی علمی و ادبی مضامین منظر عام پر آئے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے خلیق انجم 1935ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ اصل نام خلیق احمد خان تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایم اے (اردو) دہلی یونیورسٹی سے کیا۔

    رضا علی عابدی نے ان کی وفات کے بعد اپنے کالم میں لکھا:
    اور خلیق انجم کے کام کا کوئی شمار ہے؟ عمر بھر لکھتے رہے اور وہ بھی تحقیق کے جابجا بکھرے ہوئے موتی بٹور کر۔ اوپر سے یہ کہ اپنی اس ساری مشقت کو اتنے سلیقے اور ہنر مندی سے کتاب کے ورق پر بکھیر گئے کہ علم کی آنکھیں بھی منور ہوتی ہیں اور ذہن کے دریچے بھی۔ ان علم و حکمت کے جواہر کی بات ذرا دیر بعد، پہلے ان لمحات کو یاد کرلیا جائے جو میں نے خلیق انجم کے ساتھ گزارے۔

    بلا شبہ خلیق انجم اردو کی تہذیبی و ثقافتی اقدار اور روایات کے علم بردار تھے۔ ان کی معروف تصانیف میں ذکر آثار الصّنادید، انتخاب خطوطِ غالبؔ، غالبؔ کا سفر کلکتہ اور ادبی معرکہ اور حسرت موہانی، مولوی عبدالحق۔ ادبی و لسانی خدمات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ غالبؔ کے مکاتیب پر انھوں نے معیاری تحقیقی کام کیا۔ اس موضوع پر ان کی اوّلین کاوش ’’غالب کی نادر تحریریں ‘‘ تھی، اس کے بعد ’’غالب اور شاہان تیموریہ‘‘ اور’ ’ غالب کچھ مضامین‘‘ منظر عام پر آئیں۔ مکاتیبِ غالبؔ پر ڈاکٹر خلیق انجم کی قابل قدر تحقیق پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔

    ڈاکٹر خلیق انجم ہندوستان کے شہر دہلی میں ضرور رہتے تھے لیکن وہ اصل میں اردو زبان و ادب کے سفیر تھے اور وہ جہاں بھی گئے اردو کی ترقّی، بقا اور فروغ کے لیے بات کی اور اس حوالے سے اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا۔

  • حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    خوب رُو، دراز قد حمید اختر کی آواز بھی خوب تھی۔ حمید اختر کو اپنی صلاحیتوں اور اپنی خوبیوں کا ادراک تھا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اداکاری اور صدا کاری کا شوق دل میں لیے قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے جو اس دور میں فلم اور شوبزنس کا مرکز تھا۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن پھر یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔ انھیں شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ وہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    حمید اختر 2011ء میں کینسر کے مرض کے باعث 17 اکتوبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے اور پھر تخلیقی سفر میں خوب نام و مقام پایا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے لکھنا شروع کیا اور حمید اختر بھی کوچۂ صحافت میں داخل ہوئے۔ جلد ہی حمید اختر انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا تھا۔ بعد میں وہ اس کے مدیر بنے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کالم نگاری شروع کی یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہو گیا۔ حمید اختر نے کالم نگاری کے ساتھ ادبی مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔ خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی نہ ہوئی، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ انھیں تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کی معروف اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • جلال الدّین سیوطی: ممتاز مفسّر، فقیہ اور مؤرخ

    جلال الدّین سیوطی: ممتاز مفسّر، فقیہ اور مؤرخ

    قرون وسطیٰ کے مسلم علما میں علاّمہ جلال الدّین سیوطی کو جو بلند مرتبہ اور احترام ہوا، وہ اس دور اور بعد میں آنے والے علماء کے لیے قابلِ رشک ہے۔ علّامہ سیوطی ایک مفسّر، محدث، فقیہ اور مؤرخ تھے جن کا وصال 1505ء میں آج ہی کے روز ہوا۔ مشہور ہے کہ وفات کے وقت آپ نے سورة یٰسین خود تلاوت کی۔

    مؤرخین کے مطابق کثیر التصانیف جلال الدّین سیوطی کا وطن مصر تھا جہاں انھوں نے ایک قدیم قصبے اسیوط میں آنکھ کھولی۔ ان کا سنہ ولادت 1445ء بتایا جاتا ہے۔ اصل نام عبد الرّحمٰن اور کنیت ابو الفضل جب کہ لقب جلال الدّین تھا۔ علّامہ سیوطی کی کتب کی تعداد 500 سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں مشہور ترین تفسیر جلالین اور تفسیر درِّمنثور کے علاوہ قرآنیات کے علم پر الاتقان فی علوم القرآن بہت مشہور ہے۔ تاریخِ اسلام کا موضوع بھی علّامہ سیوطی کی نگاہ میں اہمیت کا حامل رہا اور اس حوالے سے ان کی تصنیف تاریخُ الخلفاء بہت مشہور ہے۔

    علامہ سیوطی حافظِ قرآن تھے اور اپنے زمانے کی ممتاز اور قابل ہستیوں میں اپنے علم، حلم اور فہم و تدبّر کے سبب نمایاں ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد متعدد شیوخ سے علوم و فنون کی تکمیل کی اور اس کے بعد افتا کا کام کیا۔ ان کی مشہور تصنیف تاریخ الخلفاء اسلامی دنیا کے خلیفۂ اوّل سے لے کر بغداد کے آخری خلیفہ المستعصم باللہ کے عہد تک تاریخ وار معلومات کا بیش قیمت خزانہ ہے۔ اس نایاب کتاب کے آخرمیں دولت امویہ جو ہسپانیہ میں قائم ہوئی، دولت عبیدیہ، حکومت بنی طباطبا العلویہ الحُسینیہ، دولتِ طبرستان کا بھی مختصراً تذکرہ شامل ہے۔ اس میں ہر خلیفہ کے عہد میں وفات پانے والے علما کا ذکر اور اُس خلیفہ سے روایت کردہ احادیث بھی بیان کی گئی ہیں۔

    امام جلال الدّین سیوطی کی ایک شاہ کار تصنیف تفسیرِ جلالین ہے جسے مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کتاب کو ہر دور میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ صدیوں سے متداول و مقبول تفسیر ہے۔ عربی زبان میں نہایت مختصر اس تفسیرِ قرآن کے شریک مفسّر امام جلال الدین محلی تھے۔ یہ تفسیر اختصار و جامعیت، صحت و مفہوم اور توضیحِ مطالب کی وجہ سے علما و طلبہ میں مقبول ہے۔ آپ کو قاہرہ میں حوش قوصون (‘کیسون) میں دفن کیا گیا۔

  • نظامُ الملک طوسی: اسلامی دنیا کی سیاسی تاریخ کا ایک جوہرِ قابل

    نظامُ الملک طوسی: اسلامی دنیا کی سیاسی تاریخ کا ایک جوہرِ قابل

    دنیا کے مختلف خطّوں میں اسلامی ادوارِ حکومت اور سلطنتوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو خلیفہ ہارون الرّشید کا دور اور برامکہ کا تذکرہ ضرور پڑھنے کو ملے گا اور اسی طرح سلجوقیوں کا دور نظامُ الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔

    سلجوقی حکومت میں نظامُ الملک طوسی کو اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے جس نے اصلاح و تعمیر کے ساتھ بہبودِ عامّہ اور فوجی انتظام سے متعلق اہم کام کیے اور اداروں کا انتظام بخوبی چلایا۔ نظامُ الملک طوسی کا پورا نام ابوعلی حسن ابن علی بن اسحاق تھا جو سلجوق خاندان کے سب سے مشہور بادشاہ ملک شاہ سلجوق کا وزیرِ اعلیٰ اور معتمد خاص تھا۔ آج طوسی کا یومِ وفات ہے۔ اس باصلاحیت وزیر کے بارے میں ممتاز مؤرخ فلپ کے ہیٹی نے کہا کہ ’’یہ اسلام کی سیاسی تاریخ کا ایک ہیرا ہے۔‘‘ ایک اور تاریخ داں امیر علی نے طوسی کو یحییٰ برمکی کے بعد دوسرا قابل ترین ایشیائی منتظم قرار دیا۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلجوقی حکومت میں تین ہم مکتب مشہور ہوئے۔ یہ نظام الملک طوسی، عمر خیام اور حسن بن صباح تھے۔ نظام الملک نے حکومتی سطح پر اعلیٰ خدمات اور تعلیم و ادب کو فروغ دیا۔ عمر خیام نے شعر و ادب اور علم جغرافیہ و ارضیات کے ماہر کی حیثیت پائی اور حسن بن صباح نام نہاد جنّت اور اپنے فرقہ کے لیے مشہور ہوا۔نظامُ الملک طوسی 10 اپریل 1018ء کو طوس کے قریب رد خان نام کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ غزنوی بادشاہوں کا ریونیو ملازم تھا۔ اس نے سلجوق شہزادے الپ ارسلان کے پاس 1054 میں ملازمت اختیار کر لی۔ الپ ارسلان کی تخت نشینی کے بعد اس کا وزیر مقرر ہوا۔ اس کا معتمد اور خاص آدمی تھا اور ارسلان کے ساتھ ہر مہم اور ہر سفر میں شریک رہا۔ وہ فوجی اور جنگی مہمات کا بھی انچارج رہا، منزگرد اور استغر کی مہم اس کی سربراہی میں سر ہوئی تھی۔ سلجوقی حکومت میں لگ بھگ بیس سال نظام الملک طوسی نے مکمل اختیارات کے ساتھ منظم و موثر انداز میں انتظامات سنبھالے اور زندگی کے بیش تر شعبوں خصوصاً درس و تدریس میں لا تعداد خدمات انجام دیں۔ سلجوقی نظم و نسق اور مستحکم حکومت کے پس پردہ نظام الملک طوسی کی ذہانت، صلاحیت اور مہارت تھی جس کے باعث مملکت میں امن وامان اور خوش حالی تھی۔ طبعاً وہ خوش مزاج اور ہنس مکھ تھا لیکن انتظامی امور میں سخت گیر مشہور تھا۔ تعلیم کا رسیا اور عالموں، ادبا و شعرا کا قدر دان تھا۔ اس نے 1066 میں اسلامی دنیا کی پہلی عظیم نظامیہ یونیورسٹی نیشا پور میں قائم کی۔ حکومتی معاملات، عوامی اور فوجی اصلاحات و انتظامات میں مصروف رہا۔

    ایک اہم کتاب جو طوسی سے منسوب ہے وہ حکومت کے انتظامی امور، رموزِ مملکت اور سیاسی داؤ پیچ سکھاتی ہے جس کے پچاس ابواب ہیں اور تاریخی نوعیت کی اس کتاب کا نام ’’سیاست نامہ‘‘ ہے۔ یہ طوسی نے 1091ء میں تحریر کی جس میں اس کے ذاتی تجربات شامل تھے۔ نظام الملک طوسی کی معاشرتی سماجی دینی اور مذہبی اصلاحات نے مسلمانوں کو بہت فائدے پہنچائے۔ مؤرخین کے مطابق نظام الملک کا ایک اور بڑا کارنامہ ملک بھر میں خصوصاً سیاسی، انتظامی، حکومتی اور افواج میں جاسوسی و مخبری کے نظام کو رائج کر کے اسے جدید اور عصری خطوط پر آراستہ کرنا ہے۔ محققین کے مطابق نظام الملک طوسی کو 14 اکتوبر 1092ء کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ سفر پر تھے۔

  • ژاک دریدا:‌ مسترد کیے جانے والا فلسفی

    ژاک دریدا:‌ مسترد کیے جانے والا فلسفی

    فلسفہ، تنقید اور لسانیات کے یگانۂ روزگار کی حیثیت سے مشہور ژاک دریدا کو ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور دریدا کے وطن فرانس میں اسے عظیم فلسفی اور دانش ور سارتر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دریدا کے فلسفے اور نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے ہر شعبہ کو متأثر کیا اور اسے عالمی سطح پر شہرت ملی مگر اس فلسفی نے جس دور میں‌ اپنے افکار اور خیالات کو بیان کیا، اس دور میں وہ صاحبِ علم شخصیات اور اہلِ قلم کی مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنا۔ دریدا کے خیالات کو لایعنی اور اس کے فلسفے کو بے معنی کہہ کر مسترد کیا گیا۔ لیکن بعد میں‌ دنیا نے اسے ایک دانش ور تسلیم کیا۔

    علم و ادب کی دنیا کے بعض ناقدوں اور خاص طور پر برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کے اساتذہ اس کے بعض مباحث کو لایعنی کہہ کر مسترد کرتے رہے تھے، جس میں دریدا کا یہ فلسفہ کہ معنیٰ، متن سے ماورا ایسی تہ داری رکھتے ہیں جو تہذیبی اور تاریخی عمل سے نمو پاتی ہے، بھی شامل تھا۔ بعد میں دریدا کے اسی فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبعیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس فلسفی کے لسانیات اور ادبیات پر اثرات کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان کا فرد تھا، اس نے 1930ء میں آنکھ کھولی اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر 9 اکتوبر 2004 کو چل بسا۔ ژاک دریدا نے جس زمانے میں آنکھ کھولی اس وقت الجزائر پر فرانس کا غلبہ تھا اور وہاں ایک عرصہ تک آزادی کی تحریک بھی چلتی رہی تھی۔ ژاک دریدا کے افکار اور اس کا فلسفہ اکثر تورات کے زیرِ‌ اثر نظر آتا ہے۔ ابتدائی تعلیم تو اس نے الجزائر میں مکمل کی تھی لیکن بعد میں فرانس منتقل ہوگیا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہاورڈ اور سوربون میں فلسفہ پڑھانے لگا اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے افکار کو جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع سمجھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ فرانس میں شہرت حاصل کرنے لگا اور اس کے افکار کو قبول کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمبرج ہی نے 1992ء میں دریدا کو اعزازی ڈگری دی۔ اس نے فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم بھی چلائی جب کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کا مخالف اور نیلسن منڈیلا کا بڑا حامی رہا۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے اس کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے فلسفے اور افکار کو فرانس میں در و قبول کی مشکل پیش آرہی تھی، اپنا آپ منوا چکا تھا اور اس کے فلسفے کو علم و ادب کے مختلف شعبہ میں اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے نئی نسل کو بھی متأثر کیا۔ اس کے متنوع افکار کی ہمہ گیری اور ان کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر اس کے اسلوب کی تفہیم کی کوشش کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ژاک دریدا کی ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں‌ میں کیے گئے اور ان پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ Husserl’s geometry 1962 میں، Speech and phenomena 1973 میں اور اس کے بعد دو مشہور تصانیف Of Grammatology اور Writing and Difference کے عنوان سے سامنے آئیں۔

  • قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا کلام عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین سے آراستہ ہے۔ ان کی شاعری ندرت و خوش سلیقگی اور موضوعات کی رنگا رنگی کا ایسا نمونہ ہے جس نے امیر مینائی کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔ امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آ لیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کر گئے۔ امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔ امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • انور کمال پاشا: پاکستانی فلم انڈسٹری کا باکمال ہدایت کار

    انور کمال پاشا: پاکستانی فلم انڈسٹری کا باکمال ہدایت کار

    ایک دور تھا جب پاکستانی فلم انڈسٹری میں انور کمال پاشا جیسے تعلیم یافتہ، قابل و باصلاحیت لوگ موجود تھے جنھوں نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار یادگار کام کیا اور اپنی شناخت بنائی۔ ان کا اندازِ گفتگو، مخصوص چال اور دانش مندی بھی فلمی دنیا میں ان کی وجہِ شہرت رہی۔ آج انور کمال پاشا کا یومِ وفات ہے۔

    انور کمال پاشا 23 فروری 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ باکمال شاعر اور مشہور ادیب حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔ انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ شروع میں فلم ”شاہدہ‘‘ میں انھوں نے بطور معاون ہدایت کار کام کیا۔ بعد میں انور کمال پاشا اسکرپٹ رائٹر، فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے آگے بڑھے اور نام و مقام بنایا۔ فلم انڈسٹری میں ان کا طرۂ امتیاز سماجی موضوعات پر وہ فلمیں تھیں جن میں اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ افلاس، محبت، اخلاقی انحطاط، سماجی رویے اور عورت ان کی فلموں کے موضوعات تھے۔ انور کمال پاشا نے کئی اداکاروں کی تربیت کی اور بہت سے نئے چہرے متعارف کرائے۔ ان فن کاروں میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، اسلم پرویز، نیّر سلطانہ اور بہار بیگم شامل ہیں۔ انور کمال پاشا نے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبداللہ کو بھی فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ ان کی فلموں کے اسکرپٹ ان کے والد حکیم احمد شجاع کے زورِ قلم کا نتیجہ ہوتے تھے۔

    سعادت حسن منٹو بھی انور کمال پاشا کی شخصیت اور فن پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں، انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے، ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔

    انور کمال پاشا نے مجموعی طور پر 24 فلمیں بنائیں۔ جن فلموں نے زیادہ شہرت حاصل کی ان میں ”شاہدہ، دو آنسو، گمنام، انتقام، دلُاّ بھٹی، چن ماہی، سرفروش، انارکلی، گمراہ، عشق پر زور نہیں‘‘ شامل ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ”عشق پر زور نہیں‘‘ کی ہدایات شریف نیر نے دی تھیں لیکن نگرانی انور کمال پاشا نے کی تھی۔ ان کی فلم ”دو آنسو‘‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جو 7 اپریل 1950ء کو ریلیز ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش کمار کی جوڑی کو شہرت سے ہمکنار کرانے میں انور کمال پاشا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی فلموں کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ ان کی موسیقی نغمات اور مکالمے بہت جاندار ہوتے تھے۔

    انور کمال پاشا نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کی دوسری اہلیہ اپنے وقت کی معروف اداکارہ شمیم بانو تھیں جنھوں نے شمیم کے فلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔ پاشا صاحب کی فلموں میں مستقل کام کرنے والوں کو ”پاشا کیمپ‘‘ کے لوگ کہا جاتا تھا۔ 1987ء میں انور کمال پاشا 62 برس کی عمر میں عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ پاشا صاحب کو خدمات پاکستانی فلمی صنعت کا محسن کہا جاتا ہے۔

  • عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک اردو کے معروف شاعر، صحافی اور اپنے وقت کے مقبول کالم نگار تھے۔ انھوں نے زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور بعد میں متعدد رسائل کی ادارت کی اور اپنے اداریوں اور فکاہیہ کالموں کی بدولت پہچانے گئے۔

    1959 میں‌ عبدالمجید سالک آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو عبدالمجید سالک نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘ اس کا پس منظر یہ کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ مولانا عبدالمجید سالکؔ خوش مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔ ان کی مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بلندی اور دلآویزی موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ ان کے مزاح کو صاحب علم بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ان کے کالم ’’ افکار و حوادث‘‘ کے نام سے 27 سال تک شایع ہوتے رہے۔ یہ نہ صرف صحافت میں بلکہ لطف بیان کے اعتبار سے اردو ادب میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

    سالک صاحب کا نام عبدالمجید، اور سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے جب کہ 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    صحافت کے ساتھ شعر گوئی، تنقید بھی ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

  • معروف مؤرخ اور محقق نصیر الدّین ہاشمی کا تذکرہ

    معروف مؤرخ اور محقق نصیر الدّین ہاشمی کا تذکرہ

    جہانِ علم و ادب کے کئی نام ایسے ہیں جن سے آج ہمارے نوجوان شاید واقف نہ ہوں، لیکن وہ اپنی کئی تصانیف اور بے شمار موضوعات پر تحریروں کی صورت میں اردو زبان کو مالا مال کرگئے ہیں۔ یہ ایسے نام ہیں جن کی کتابوں سے اکثر جامعات کی سطح پر طالبِ علم استفادہ کرتے ہیں۔ ہم تذکرہ کررہے ہیں نام وَر مصنّف، مؤرخ، محقق اور ماہرِ دکنیات نصیر الدّین ہاشمی کا۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدّین ہاشمی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ دکن میں اردو اور یورپ میں دکھنی مخطوطات ان کی شاہکار تصانیف مانی جاتی ہیں۔

    دکن، شروع ہی اردو کا گہوارا رہا ہے۔ بہمنی، قطب شاہی ادوار میں اردو نے ارتقائی مراحل طے کیے تو آصف جاہی خاندان کے حکم رانوں نے اردو زبان و ادب کی خوب سرپرستی کی۔ اسی دور میں نصیر صاحب نے بھی اپنے علمی و تحقیقی کام کی بدولت شہرت پائی۔ متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں تاریخ و ثقافت کے مختلف موضوعات پر لکھنے پڑھنے اور تحقیق کرنے والوں نے نصیر الدّین ہاشمی کا نام سن رکھا ہوگا۔ وہ 15 مارچ 1895ء کو ریاست حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد نصیر الدین عبد الباری تھا، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر ریاست حیدرآباد کے سرشتۂ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔ والد کا انتقال جب ہوا تو نصیر الدّین کی عمر بارہ برس تھی۔ قرآن و دینیات کے ساتھ اردو، فارسی، ریاضی اور خوش نویسی کی تربیت بھی لی۔ مزید تعلیم کے لیے مدرسہ دار العلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کے شاگرد ہوئے۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ پھر خانگی طور سے مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں ادبی سرگرمیوں سے بھی دل چسپی تھی۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا جس نے لکھنے کی جانب راغب کیا۔ ملازمت کے ساتھ قلم سے تعلق جوڑے رکھا۔ کئی اہم کتابیں ان کی یادگار ہیں جن میں خاص طور پر دکن کی تاریخ اور ثقافت پر ضخیم کتابیں شامل ہیں۔

    ہاشمی صاحب کی مطبوعہ کتابوں میں دکن میں اردو، نجم الثّاقب، رہبرِ سفرِ یورپ، یورپ میں دکنی مخطوطات، ذکرِ نبیؐ، حضرت امجد کی شاعری، مدراس میں اردو، خواتینِ دکن کی اردو خدمات، فلم نما، تذکرۂ دارُالعلوم، تاریخِ عطیاتِ آصفی، حیدر آباد کی نسوانی دنیا، عہد آصفی کی قدیم تعلیم، تذکرۂ حیات بخشی بیگم، دکھنی ہندو اور اردو، دکھنی کلچر و دیگر شامل ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ 26 ستمبر 1964ء کو حیدرآباد( بھارت) میں وفات پائی۔

  • ونگاری ماتھائی: کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون کا تذکرہ

    ونگاری ماتھائی: کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون کا تذکرہ

    وَنگاری ماتھائی (Wangarĩ Maatha) فطرت کی دلدادہ اور قدری ماحول سے پیار کرنے والی ایسی خاتون تھیں‌ جن کو درختوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے وہ پہلی افریقی خاتون بھی ہیں جن کو نوبیل انعام دیا گیا تحفظِ ماحول کی سرگرم کارکن ونگاری ماتھائی سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھیں اور 2011ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔

    کینیا کی وَنگاری ماتھائی نے ایک پسماندہ علاقہ کے انتہائی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ وہ ایک ایسے کام کی بدولت دنیا میں‌ ممتاز ہوئیں جو زمین اور انسانوں کی بقا اور بھلائی کے لیے ضروری تھا۔انھوں‌ نے تحفظِ ماحول کی غیر سرکاری تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ذریعے وہ تین دہائیوں تک درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ انھیں‌ 2004ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنے ملک میں‌ غریب عورتوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنا کر لگ بھگ تیس ملین درخت لگائے۔ وہ کمرشل بنیادوں‌ پر درختوں کی کٹائی اور سبزے کی پامالی کے جواب میں‌ ویران اور قابلِ کاشت رقبے پر درخت لگانے اور مختلف پیڑ پودوں کی افزائش میں‌ مصروف رہیں۔ انھیں‌ ماحول مخالف سرگرمیوں‌ اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کے راستے میں‌ ایک رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنی زندگی کے حالات اور اپنی جدوجہد کو اپنی کتاب ’ناقابلِ شکست‘ میں‌ رقم کیا ہے، جس سے ہم یہ پارے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں، اس کے مترجم بُش احمد ہیں۔ ونگاری ماتھائی لکھتی ہیں، میری عُمر سات آٹھ سال تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ ونگاری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘

    دیَریتُو اس وقت تیرہ سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جواب دیا، ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘

    اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا، لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہو گی کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ پرائمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن مونیکا پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیہ تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔ میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی، ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے ونگاری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مگر میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔

    میں بہت شکر گزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ فیصلہ میں خود سے نہ کر پاتی۔ اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دیَریتُو نے یہ سوال نہ پُوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے، لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دنوں ایک دن کی دیہاڑی سے ساٹھ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

    پرائمری اسکول میں میرا پہلا دن مجھے آج تک یاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی، چند اورق پر مشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن آٹھ سال کی بچّی کے لیے تین میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن میرا کزن جونوتھن جس کو سب جونو کہتے تھے وہ صبح سویرے مجھے لینے آ گیا۔ عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بُلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا۔ ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں! میں نہیں جانتی۔‘‘میں نے سر ہلاتے جواب دیا۔ ’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متأثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے لیکن میں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔

    ’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔

    ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر کریون نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میں اس کی مہارت سے بہت متأثر ہوئی۔

    اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دن میں نہیں بھولی۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ میں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا میں کبھی رکی نہیں۔ کیونکہ میں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔

    ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولھے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندّی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گَرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسُّو جیسے حشراتُ الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہو گی۔

    ونگاری ماتھائی نے 71 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون تھیں۔