Tag: یوم وفات

  • محی الدین قادری زورؔ: ماہرِ لسانیات اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق

    محی الدین قادری زورؔ: ماہرِ لسانیات اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق

    دکن میں اردو زبان و ادب کے گیسو سنوارنے اور اسے فروغ دینے میں جن اہلِ‌ قلم نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ بہت محنت و کاوش کی، ان میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر زورؔ نے اصولِ تنقید متعارف کرایا اور اسی لیے وہ لسانیات اور تنقید کے اوّلین علمبرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

    حیدرآباد دکن کے اس صاحب طرز ادیب، ماہر لسانیات، محقق و نقاد ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ علم و ادب کی خدمت میں گزارا۔ اردو کے لیے جو انھوں نے کام کیا اسے دنیائے ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

    محی الدین قادری زور کو اپنی مٹی اور تہذیب و تمدن سے خاص لگاؤ تھا۔ ان کی تصنیفات کے بیشتر حصے دکن کی قدیم یادگاروں، دکن کی زبان، حیدرآبادی ثقافتوں اور روایتوں، ریاست اور نظام کے تذکروں سے معمور ہیں۔ وہ 25 دسمبر 1905ء کو حیدر آباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدئی تعلیم مدرسہ دارالعلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ 1927ء میں عثمانیہ کالج سے ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور ادبی لگاؤ کو دیکھتے ہوئے فرمانروائے دکن کی جانب سے وظیفہ دیا گیا اور 1929ء میں زور صاحب لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے روانہ ہوئے۔ انھوں نے آریائی زبانوں پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں فرانس میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی اور ہندوستاں لوٹے جہاں چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کے صدر مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک کشمیر کی سری نگر یونیورسٹی میں اردو اور فارسی مطالعات کے شعبے میں خدمات انجام دیتے رہے۔ سید محی الدین قادری زور کا انتقال وہیں 25 ستمبر 1962ء کو ہوا تھا۔

    ڈاکٹر زور نے کئی کتابیں لکھیں اور خاص طور پر علمی و ادبی تحقیق میں ان کا کام یادگار ہے۔ ہندوستانی لسانیات، اردو کے اسالیب بیان، ہندوستانی صوتیات، داستان حیدرآباد، متاع سخن، بادہ سخن، سیر گولکنڈہ، گولکنڈہ کے ہیرے، حیات محمد قلی قطب شاہ، کلیات محمد قلی قطب شاہ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کے علاوہ محی الدین قادری زور نے قدیم ہزاروں مخطوطات کا اشاریہ اور اس پر تذکرے لکھے جو پانچ جلدوں میں شائع ہوا۔ محی الدین قادری زورؔ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’’میں نے اسکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی جو کالج کے زمانے میں بھی جاری رہی۔ اس وقت حیدرآباد شعر و سخن کا مرکز تھا۔ حیدرآباد کے گلی کوچوں میں شعر و سخن کا چرچا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص شاعر بن سکتا ہے لیکن ادیب، نقاد اور محقق بننا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہمارے کالج کے استاد وحید الدین سلیم ہمیشہ اردو کی جدید ضرورتوں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اس لیے میں نے بھی عام راستے سے ہٹ کر نئے نئے کام کرنے اور اپنی مادر جامعہ کا نام روشن کرنے کی خاطر شاعری کی جگہ نثر اور اس میں بھی تحقیق و تنقید کی طرف خاص توجہ کی۔‘‘

  • یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    اردو افسانہ نگاری میں ہی نہیں آغا بابر نے ادبی صحافت میں بھی اپنے توانا قلم اور تخلیقی صلاحیتوں کی بناء پر منفرد پہچان بنائی اور علمی و ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ آغا بابر 1998ء میں آج ہی کے روز امریکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

    آغا بابر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا، لیکن جلد ہی نثر کی طرف مائل ہوگئے اور خاص طور پر افسانہ نگاری میں پہچان بنائی۔ وہ 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گور داس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقسیم کے بعد آغا بابر نے ہجرت کی اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے شاعری سے ہٹ کر افسانہ نگاری میں طبع آزمائی پر آمادہ کیا تو وہ کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں اردو افسانہ نگاری میں دو واضح رجحانات نظر آتے تھے جس میں ایک طرف تو افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے افسانہ نگار خواب و خیال کی رنگینیوں، رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بناتے ہوئے آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بنایا اور ان کے افسانوں میں فرد کے جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ نقادوں کے مطابق آغا بابر کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” آغا بابر کا ایک یادگار افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کے بعد ان کی تدفین ہوئی۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیشِ عشق بھی شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ مہلت نہیں دی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان: ایک نابغۂ روزگار کا تذکرہ

    ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان: ایک نابغۂ روزگار کا تذکرہ

    پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں صوبۂ سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا نام بہت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے انھیں ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔

    25 ستمبر 2005 کو ڈاکٹر صاحب اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید ان کا میدان رہا۔ کئی اہم موضوعات پر ان کے کام سے آج بھی تشنگانِ علم و ادب استفادہ کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ 1947 میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ 1936 سے 1948 کے دوران وہ ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ رہے تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ہجرت کرکے کراچی آئے۔ یہاں 1950 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو زبان و ادب کے لیے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں پر انھیں پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوباتِ سیفیہ، خزینۃُ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوباتِ معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    اردو سے متعلق ان کی کتاب ’’اردو صرف و نحو‘‘ میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ انشا کی خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اردو زبان سیکھنے اور معیاری تحریر کے حوالے سے لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور  بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا لاطینی امریکا کا وہ انقلابی شاعر تھا جس نے دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور مساوات کے پرچارک کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن کے ذریعے اس نے امن اور مساوات کا پیغام دیا ہے۔

    ہسپانوی زبان کے شاعر پابلو نرودا نے رومانوی اور کیف آگیں نغمات بھی لکھے جن میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اور ہر عمر اور طبقۂ عوام کو متاثر کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء میں آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں سیاست و سماج میں تصادم، استحصال، خوں ریزی اور خاص طور پر غریب و محنت کش عوام کو دکھی، وا ماندہ و بدحال ہی دیکھا۔ پابلو نرودا نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور یہ سب اپنی نظموں میں بیان کیا۔ 23 ستمبر 1973ء کو پابلو نرودا کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اسے قتل کہا جاتا ہے۔ اس شاعر کی پراسرار موت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے اپنے وقت کے ایک آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔

    ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

    کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

    نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔

    مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
    اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
    اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر مروں گا
    اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
    بلند قامت صنوبروں کے قریب
    وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
    اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

    اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

    کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
    ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
    آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
    میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
    روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
    میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
    کان کن، ننھی سی لڑکی
    وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
    سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
    اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
    میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
    میں تو یہاں گانے آیا ہوں
    اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ

  • پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے نعتیہ کلام کے اشعار ہیں۔ ان اشعار میں مدحتِ رسول کے ساتھ شاعر نے سوز و گداز، رقت انگیزی اور والہانہ تڑپ کے ساتھ بلاشبہ بڑے ہی سلیقے اور قرینے سے اپنے جذبات کو بیان کیا ہے۔ پروفیسر اقبال عظیم کے اس نعتیہ کلام کو اپنے دور کے مشہور و معروف نعت خوانوں نے پڑھا اور آج بھی یہ نعت اسی وارفتگی اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔

    پروفیسر قبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق تھے اور شعبۂ تعلیم میں تدریس سے وابستہ تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔ اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ یہاں بھی وہ ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے اور فن و تخلیق میں مصروف رہے۔ اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے شایع ہوئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اردو زبان کے اس شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • احمد خان کھرل: وہ باغی جس نے انگریز افسر کو گھوڑے دینے سے انکار کیا

    احمد خان کھرل: وہ باغی جس نے انگریز افسر کو گھوڑے دینے سے انکار کیا

    احمد خان کھرل کو ہندوستان کی تاریخ میں ایک مجاہد اور شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے انھیں ادائیگیِ نماز کے دوران گولیاں مار دی گئی تھیں۔ یہ 21 ستمبر 1857ء کی بات ہے جب انگریز اور سکھ سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستے نے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کو گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر گھیر لیا تھا۔ احمد خان اور ان کے ساتھی کئی روز سے انگریز فوج سے بھڑے ہوئے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ میرٹھ اور دلّی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے گوگیرہ میں تعینات اُس وقت کے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے جب قبائلی سرداروں سے گھوڑے اور جوان طلب کیے تو رائے احمد خان کھرل نے انھیں سخت لہجے میں جواب دیا کہ ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘ انگریز افسر کو یہ بات ناگوار گزری اور اسے قبائلی سردار کی جانب سے بغاوت تصوّر کیا گیا جس کے بعد لڑائی کا آغاز ہوا۔

    بغاوت سے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹوں پر مبنی دستاویزات سے ظاہر ہے کہ یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ اور پاک پتن کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور انگریزوں کو جھنگ، لیہ، گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملنے کے باوجود مزاحمت اس وقت تک ختم نہیں ہوئی جب تک رائے احمد خان کھرل کو قتل نہ کر دیا گیا۔

    رائے احمد خان کھرل کا سنہ پیدائش 1776ء بتایا جاتا ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کی اولاد تھے۔ احمد خان کھرل جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں انگریز راج کے خلاف گوگیرہ بغاوت کی قیادت کررہے تھے۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا اور یہ علاقہ اب ضلع فیصل آباد میں شامل ہے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا، کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت ہوئی اور انگریز اس بغاوت کو کسی حد تک کچلنے میں کام یاب ہوگئے تو اس نے پنجاب میں زور پکڑا۔ ہر جگہ انگریزوں کو بغاوت کا شور سنائی دے رہا تھا اور انگریز افسروں پر اسے کچلنے کے لیے دباؤ تھا۔ اس بغاوت کو مقامی سرداروں کی مدد اور ان سے کمک حاصل کیے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں تھا لیکن رائے کھرل کے جواب پر برکلے کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے کھرل اور دیگر قبائل کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور قید کے علاوہ مجاہدوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کا آغاز کردیا۔ ایک رات انھوں نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول دیا اور اپنے ساتھیوں کو قید سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز فوج کے سپاہی بھی مارے گئے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برکلے نے احمد خان کھرل کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا اور گھر کی بہو بیٹیوں کو بھی حراست میں لیا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل گرفتاری دینے پر مجبور ہوگئے، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی سخت مزاحمت کے خطرے کے پیشِ نظر احمد خان کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک نقل و حمل محدود رکھنے کا حکم دے کر چھوڑ دیا گیا۔ مگر احمد خان کھرل انگریزوں کے خلاف لڑائی کے لیے نکل آئے اور کئی روزہ لڑائی کے بعد 21 ستمبر 1857ء کو وہ انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے اور برکلے کے حکم پر گولی مار دی گئی۔

    دریائے راوی پار کر کے دائیں ہاتھ کی طرف راستے پر تقریباََ پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کی جائے تو پناہ دا کُھوہ سے کچھ آگے احمد خان کھرل کا مقبرہ موجود ہے۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ انگریز افسر برکلے نے احمد خان کا سَر قلم کروا کر نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ مقامی منتظم ایلفنسٹن نے رپورٹ کیا کہ ’اس مہم میں ہمیں شدید نقصان ہوا لیکن باغیوں کی ناقابل تلافی تباہی پر اس کا انجام ہوا۔ احمد خان تحریک کے مرکزی اکسانے والے تھے۔ پچھلی بغاوتوں میں کام یابی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے، اور راوی کے قبائل پر ان کا اثر و رسوخ بے حد تھا۔‘

    انگریز افسر برکلے احمد خان کی شہادت کو اپنی بڑی فتح سمجھا تھا اور اس نے خیال کیا کہ اب مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ لیکن فتیانوں نے اسے یہ دن دیکھنے نہ دیا اور ایک مقام پر حملہ کر کے برکلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کا سَر بھی تن سے جدا کر دیا۔ اس انگریز افسر کو بنگلہ گوگیرہ سے بخشو جندراکا جاتی سڑک پر ایک قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔

  • ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    اُردو ادب میں ہاجرہ مسرور کا نام ان کی افسانہ نویسی اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی اہلِ قلم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں جس میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ ان کی بڑی بہن اردو کی مشہور ادیب خدیجہ مستور تھیں جب کہ بھائی خالد احمد شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان برطانوی حکومت میں آرمی ڈاکٹر تھے جو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ اس کے بعد والدہ نے خاندان کو سنبھالا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ یہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ہاجرہ مسرور نے بچپن ہی میں قلم تھام لیا تھا اور ان کے تخلیقی ذہن نے بعد میں‌ کئی خوب صورت کہانیاں اردو ادب کو دیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنی ہمشیر کے ساتھ پاکستان آ گئی تھیں اور لاہور میں قیام کیا۔ یہاں ہاجرہ مسرور کی کہانیاں ادبی جرائد میں بڑی باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنتی چلی گئی۔ ہاجرہ مسرور غیر روایتی افسانے لکھتی تھیں اور تنازعات کا شکار بھی رہیں۔ مشہور ہے کہ ایک زمانے میں ان کے فیض احمد فیض کے ساتھ اختلافات ہو گئے اور اس کے بعد ان کو ادبی حلقوں‌ کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔ ہاجرہ مسرور نے اپنی وفات سے دو دہائی قبل ہی لکھنا ترک کردیا تھا یا ان کی تخلیقات منظرِ عام پر نہیں آسکی تھیں۔ ان کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی جن کی وفات کا ہاجرہ مسرور کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ سب سے دور ہوگئی تھیں۔

    ہاجرہ مسرور کے گھر میں‌ اخبار اور ادبی جرائد آیا کرتے تھے۔ ان میں ’’ادبی دنیا‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’ ساقی‘‘،’’ خیام‘‘ اور’’ عالمگیر‘‘ وغیرہ شامل تھے جو ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان کرتے اور انھیں لکھنے کی تحریک دیتے تھے۔ جب وہ ممبئی میں تھیں تو ان کے دو افسانوی مجموعے وہاں‌ شائع ہوگئے تھے۔ پاکستان میں ہاجرہ مسرور کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ہاجرہ مسرور نے سادہ مگر مؤثر نثر تحریر کی۔ ان کے استعارے اور کردار نگاری کے علاوہ ان کا ایک وصف اثر انگیز اندازِ بیاں تھا۔ ان کی اکثر کہانیاں 50 اور 60 کی دہائی میں لکھی گئیں۔

    1962ء میں مجلس ترقی ادب نے ہاجرہ مسرور کو ’’رائٹر آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کے ایک ایکٹ کے ڈراموں کے مجموعے ’’وہ لوگ‘‘ پر دیا گیا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعوں کے دیباچے فیض احمد فیض اور امتیاز علی تاج نے تحریر کیے تھے۔ ہاجرہ مسرور نے 60 کی دہائی میں ایک فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ فلم کے لیے اس واحد اسکرپٹ پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ قائم رہیں۔ انہیں 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں’’چاند کی دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری، چھپے، ہائے اللہ، چرکے، وہ لوگ‘‘ اور ’’طمع‘‘ شامل ہیں۔

    ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012ء کو 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔

  • فکر تونسوی: اردو زبان معروف طنز و مزاح نگار کا تذکرہ

    فکر تونسوی: اردو زبان معروف طنز و مزاح نگار کا تذکرہ

    رام لال نارائن نے دنیائے ادب فکر میں تونسوی کے قلمی نام سے پہچان اور طنز و مزاح کی حیثیت سے خاص شہرت پائی۔ وہ 1987ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ فکر تونسوی نے ادب کی کئی اصناف میں تحریریں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں نے طنز و مزاح‌ پر مبنی اپنی تحریروں میں‌ اس خطّے کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی اور رویوں کو بیان کیا ہے۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ اسی آبائی علاقہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ تونسوی کا لاحقہ لگایا اور یہی ان کی پہچان رہا۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے نثر اور مزاح لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    11 ستمبر کو امریکا میں ٹوئن ٹاور پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد دنیا یکسر بدل گئی اور یہ تبدیلی سیاسی ہی نہیں تھی بلکہ اس نے مختلف اقوام اور معاشروں کو سماجی اور ثقافتی سطح‌ پر بھی متاثر کیا۔ نائن الیون کے نام سے مشہور اس واقعے کے بعد امریکی اقدامات سے دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کی جو لہر آئی، اس میں پاکستان کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہےاور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔لیکن آج سے 76 سال قبل بھی قوم پر ایک سانحہ گزرا تھا جس نے ایک نئی مملکت کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان اپنی بنیاد سے ہٹ گیا۔

    ہم بات کر رہے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے سانحۂ ارتحال کی۔ آج قائداعظم کو 14 اگست کے بعد 25 دسمبر کو ان کے یوم ولادت اور 11 ستمبر کو یاد کیا جاتا ہے، ان کے مزار پر حاضری دی جاتی ہے۔ حکم راں اور قوم ان ایام میں قائداعظم کے افکار و کردار کو اپنے لیے مثالی قرار دے کر قیام پاکستان کے لیے ان کی جہدوجہد کی یاد تازہ کرتی ہے۔ سرکاری اور عوامی سطح‌ پر منعقدہ تقاریب اور جلسوں‌ میں‌ ان کے طے کردہ اصولوں پر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد قائداعظم کی تصویر والے نوٹ ضرور ہمارے پاس ہوتے ہیں مگر ان کی ہدایات کو طاق نسیاں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

    قائد اعظم کی سربراہی میں اکابرین تحریک پاکستان کی مسلسل جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے جب یہ وطن 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تو مالی، انتظامی حوالے سے حالت انتہائی خستہ تھی اور اس کے مستقبل کے بارے میں دنیا شکوک و شبہات کا شکار تھی لیکن قائداعظم کی قیادت میں آزاد مملکت نے اپنی ترقی کا سفر شروع کیا جس کو صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 میں ایک زبرست دھچکا لگا اور پھر پاکستان کا جمہوری، نظریاتی بنیادوں پر ترقی معکوس کا سفر شروع ہوا اور آج 76 سال بعد قوم کئی نازک موڑ دیکھتے ہوئے ایسے چوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے منزل کا نام ونشان نہیں مل رہا اور وہ مایوسی کے گہرے بادلوں میں ان راستوں کو دیکھ رہی ہے جن پر لسانیت، فرقہ واریت، دہشتگردی، عدم اعتماد اور کئی دیگر مسائل زہریلے ناگوں کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں اور آگے نہ جانے مزید کتنے نازک موڑ آنے ہیں اور یہ سب کسی اور کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی قوم ہمارا ہی کیا دھرا ہے جو اب سامنے آ رہا ہے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو آزاد مسلم ریاست کا تحفہ دے کر اس کے قیام کے صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو ابدی نیند سو گئے۔ ان کی موت کی وجہ تپ دق (ٹی بی) بتایا جاتا ہے، جو اس دور میں ایک موذی مرض سمجھا جاتا تھا۔ تاہم جن حالات میں بانی پاکستان کی موت ہوئی اس سے جڑے سوالات آج بھی ذہنوں میں کلبلاتے ہیں اور پراسرار ہیں۔

    ملک کا سربراہ جو اس نوزائیدہ مملکت کا بانی بھی ہو اور جس کو بالآتفاق بابائے قوم (یعنی قوم کا باپ) کا خطاب بھی دیا جا چکا ہو۔ اس کے آخری وقت میں جو کچھ ہوا وہ اب تک کئی بار مختلف مضامین میں ضبط تحریر میں لایا جا چکا ہے۔ کیسے انہوں نے جب اپنی زندگی کے آخری 60 ایام بلوچستان کے تفریحی مقام زیارت میں گزارنے کے بعد کراچی واپسی کا ارادہ کیا تو ان کا طیارہ تو کوئٹہ سے کراچی ماڑی پور ہوائی اڈے پر دو گھنٹے میں پہنچ گیا لیکن انہیں کراچی سے اپنی رہائشگاہ پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔

    گورنر جنرل ہاؤس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔ اس جاں بہ لب سربراہ مملکت جس کے پھیپھڑوں نے آخری درجے کی ٹی بی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیا تھا اس کو لینے کے لیے ایسی کھٹارا ایمبولینس بھیجی گئی جو چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو گئی اور بتایا گیا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا ہے اور یہ قافلہ ایک مرتے ہوئے انسان جو کوئی عام شخص نہیں بلکہ بانی پاکستان تھا کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں بے بسی کے عالم میں کھڑا رہا۔ خدا خدا کر کے ایک دوسری ایمبولینس آئی تو یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ قائد اعظم کا قافلہ جس میں ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح، ان کے ذاتی معالج اور عملہ شامل تھا گورنر جنرل ہاؤس پہنچا تو بانی پاکستان گہری نیند میں تھے لیکن ان کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی تھی اور کچھ دیر میں ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے لکھا ہے کہ جناح کے آخری الفاظ ’اللہ۔۔۔ پاکستان‘ تھے جبکہ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں: ’جناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

    بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چوہدری محمد حسین چٹھہ نے اپنے ایک انٹرویو میں ضمیر احمد منیر کو بتایا تھا کہ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔‘

    برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک ہالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘

    یہ وہ حقیقت ہے جس سے تقریباً ہر وہ پاکستانی جس نے تاریخ پاکستان اور قائداعظم کے آخری ایام کے حوالے سے معتبر کتب اور مضامین پڑھ رکھے ہیں، اچھی طرح واقف ہے، تاہم آج یہاں اس سب کو بیان کرنے کا مقصد نئی نسل کو باور کرانا ہے کہ قائداعظم ہمارے لیے خدا کا تحفہ تھے جن کی ایسی بے قدری کی کہ ان کا انتقال اس حال میں ہوا کہ جو کسی سربراہ مملکت بالخصوص کسی ملک کے بانی کے شایان شان قطعی نہیں تھا۔ شخصیت بھی وہ جنہوں نے اپنے جان لیوا مرض کی پروا نہ کرتے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ وطن کی جدوجہد جاری رکھی۔ اگر وہ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اپنی مصروفیات ترک کر کے صحت پر توجہ دیتے تو اس صورت تحریک پاکستان کو زک پہنچنے کا امکان تھا اور یہ انہیں کسی صورت قبول نہ تھا۔ اس کو دوسرے معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے نئے وطن کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دی اور اس بیماری کو دشمنوں سمیت دوست نما دشمنوں سے بھی چھپایا تاکہ ان کا مشن ناکام نہ ہوسکے۔ 1948 کے اس سانحہ نے پاکستان کو ہی پورا بدل دیا۔

    قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان ایک فلاحی، جمہوری ریاست ہو گی، جہاں پارلیمنٹ بالادست اور عوام کی حکمرانی ہوگی۔ جہاں ہر شخص کو بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب اس کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اظہار رائے کی آزادی ہوگی اور صرف ادارے نہیں بلکہ ہر فرد قابل عزت ہوگا۔ اگر وہ اس طرح‌ رخصت نہ ہوتے تو ملک کے آج حالات یہ نہ ہوتے۔ جس طرح نعمت خداوندی پر انعام ربانی بڑھتا ہے، اسی طرح اس کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری پر اس کا حساب بھی اس قوم کو دینا پڑتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان اور ان کے فرمودات سے روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم 25 سال سے بھی کم عرصہ میں قائداعظم کا آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور جو باقی ماندہ پاکستان ہے وہاں کا جو حال ہے وہ آج سب کے سامنے ہے کہ جس کو عالم اسلام کی ترجمانی کرنی تھی، اس کے حکمران آج کاسہ گدائی اٹھائے پورے پروٹوکول اور شاہانہ انداز کے ساتھ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ ملک ملک پھر رہے ہیں۔ انا، مفادات، حرص و لالچ نے سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے جس کو قائد کے پاکستان کی بے بس عوام نظر ہی نہیں آ رہی ہے۔

  • کنور آفتاب: پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک اہم نام

    کنور آفتاب: پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک اہم نام

    کنور آفتاب کو پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ وہ ایک باکمال پروگرام ساز اور ہدایت کار تھے جن کے کئی ڈرامے اور دستاویزی پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ ملک میں‌ پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو کنور آفتاب بھی ماہرینِ نشریات اور قابل شخصیات کے دوش بدوش کام کرنے لگے جنھیں اس میڈیم میں بنیادی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

    سنہ 2010ء میں کنور آفتاب آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ آج پی ٹی وی کے اس معمار کی برسی ہے۔ ٹی وی سے وابستہ ہونے والے فن کاروں اور ماہرینِ‌ نشریات کی کہکشاں میں شامل کنور آفتاب کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ تھی جو لاہور میں تیار ہوا، لیکن یہ کھیل سینسر کی زد میں آگیا تھا۔ بعد میں کنور آفتاب نے کئی دوسرے ڈرامے اور دستاویزی فلمیں بنائیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں۔

    کنور آفتاب کا تعلق متحدہ ہندوستان کے مشرقی پنجاب سے تھا۔ وہ 28 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے تھے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی، مگر باکس آفس پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ اپنی ناکام فلم کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ کنور آفتاب نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ مل کر شان دار کام کیا اور پی ٹی وی پر ان کے پیش کردہ ڈرامہ کو ہر خاص و عام نے پسند کیا۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    پی ٹی وی کے اس قابل اور باصلاحیت ہدایت کار نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے اور یہ ان کا بڑا اہم کام سمجھا جاتا ہے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی دستاویزی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں بھیجا گیا اور اس نے ایوارڈ حاصل کیے۔ کنور آفتاب لاہور کے ایک قبرستان میں مدفون ہیں۔