Tag: یوم وفات

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے اور اردو ادب میں بحیثیت ماہرِ لسانیات، محقّق، نقّاد شہرت پائی۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے سربراہ بھی رہے اور کولمبیا یونیورسٹی سے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ابواللیث صدیقی 15 جون 1916ء میں آگرہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ہوئی۔ 1942ء میں انھوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی سند پائی تھی۔

    ڈاکٹر صاحب ایک باصلاحیت اور نہایت قابل قلم کار تھے۔ ان کی متعدد کتابیں‌ شایع ہوئیں جن میں ایک خود نوشت بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے اس کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے: “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانۂ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    اسی خود نوشت میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ایک تحریر بھی پڑھنے کو ملتی ہے جس میں وہ اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ ”میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدةُ المالک، ملک حمیدالدّین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدّین ہندوستان آئے اور بدایوں پہنچے۔ اس وقت بدایوں کے قاضی محلّے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدّین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: فروری 1979ء میں قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایوں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلّہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلّے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پر کبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چند ہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”

    یہ تحریر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ایک خوش حال خاندان کے فرد تھے اور اب وہ اس کا کرب محسوس کرتے ہیں، لیکن تقسیمِ‌ ہند کے ساتھ اس دور کے ہر مہاجر خاندان کو کسی ایسے ہی المیّہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنے پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جب میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستانِ شاعری” مکمل کر کے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدّین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے، بہرحال زبانی امتحان کے لیے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچا دیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلائیے۔” رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں۔” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر کہا، ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”

    اردو کے اس ممتاز ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ ان کی خود نوشت کا نام رفت و بود ہے۔ ان کے مضامین پر مشتمل تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات بھی شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر صاحب کو زمانۂ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغانِ عصر اور قابل شخصیات کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا انتقال 7 ستمبر 1994ء کو ہوا۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • اوفلاہرٹی:‌ اشتراکی نظریات رکھنے والا ناول نگار

    اوفلاہرٹی:‌ اشتراکی نظریات رکھنے والا ناول نگار

    لائم اوفلاہرٹی اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا جس کا بچپن غربت دیکھتے ہوئے اور نوعمری کا زمانہ معاشی مسائل سے لڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن اس نے بطور تخلیق کار شہرت پائی اور معاشرے میں مقام بنانے میں‌ کام یاب ہوا۔

    اوفلاہرٹی کو اپنی مادری زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ ایک ذہین اور مستقل مزاج شخص تھا۔ اوفلاہرٹی خاص طور پر آئرش تہذیب اور ادب کو فروغ دینا چاہتا تھا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی مادری زبان میں‌ خوب لکھا مگر ساتھ ہی انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا۔ وہ اپنی تخلیقات میں عام لوگوں کے نقطۂ نظر کو پیش کرتا تھا۔ اس کے افسانے عام آدمی کی زندگی کا احاطہ کرتے اور ان کے تجربات کو کرداروں کی شکل میں‌ بیان کردیتا تھا۔ یوں اوفلاہرٹی نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور ان میں‌ مقبول ہوا۔

    اوفلاہرٹی 28 اگست 1896ء کو آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔ اس نے طویل عمر پائی اور دنیا بھر میں‌ بطور ادیب پہچان بنانے میں کام یاب ہوا۔ 7 ستمبر 1984ء کو اوفلاہرٹی چل بسا تھا۔ اوفلاہرٹی نے بچپن میں غربت دیکھی تھی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کئی محرومیوں کا شکار رہا۔ اسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اس زمانے کے رواج کے مطابق اوفلاہرٹی نے مذہبی درس بھی لیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی پیشوا بن کر تبلیغ کا فریضہ انجام دے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1917ء میں اوفلاہرٹی کو آئرش گارڈز میں بھرتی ہونا پڑا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح وہ ایک محاذِ جنگ پر روانہ ہوگیا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جو لائم اوفلاہرٹی کے لیے خاصا پُرصعوبت اور مشکل ثابت ہوا۔ ایک موقع پر لڑتے ہوئے وہ زخمی ہوگیا اور خاصا عرصہ زیرِ علاج رہا۔ اگرچہ وہ ایک فوجی جوان تھا، لیکن نہ تو وہ سخت دل تھا، نہ ہی لڑاکا۔ اس کے اندر ایک فن کار چھپا تھا۔ وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا حسّاس طبع نوجوان تھا۔ جنگ اور خون ریزی اس کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ وہ مجبوراً آئرش گارڈ کا حصّہ بنا تھا۔ اس جنگ نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ 1933ء میں اسے دماغی دورہ پڑا جس کا ایک سبب جنگ اور اس میں ہونے والی وہ ہلاکتیں تھیں جو لائم اوفلاہرٹی نے دیکھی تھیں۔ تاہم جنگ کے بعد اس نے اپنا وطن آئرلینڈ چھوڑ دیا اور امریکہ منتقل ہوگیا۔ وہاں کچھ عرصہ اوفلاہرٹی نے ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔ امریکہ ہجرت کرنا لائم اوفلاہرٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی لایا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہیں اس کی ادبی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔

    1923 میں جب اوفلاہرٹی 27 سال تھا تو اس کی پہلی شارٹ اسٹوری اور ایک ناول شایع ہوچکا تھا۔ بعد میں امریکہ میں رہتے ہوئے اوفلاہرٹی نے انگریزی اور آئرش زبان میں ناول اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے متعدد ناول منظرِ‌عام پر آئے اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ 1950ء میں اوفلاہرٹی کی آخری تخلیق شایع ہوئی تھی۔

    لائم اوفلاہرٹی نے شاعری بھی کی۔ لیکن اس کی پہچان کہانیاں اور ناول ہیں۔ اس کے ناولوں میں The Black Soul، The Informer ، The Assassin ، Mr. Gilhooley و دیگر شامل ہیں جن میں سے دی انفارمر سے ماخوذ کہانی کو فلمایا بھی گیا۔

  • آغا شاہی: پاکستان کی خارجہ پالیسی کا معمار

    آغا شاہی: پاکستان کی خارجہ پالیسی کا معمار

    آغا شاہی پاکستان کے ممتاز ترین سفارت کاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے ملکی تاریخ کے نازک لمحات میں خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ سفارت کاری کے میدان میں آغا شاہی کی کاوشیں اور ملک کے لیے خدمات موجودہ دور میں ریاستی اداروں اور متعلقہ محکموں میں نئے آنے والوں کے لیے ایک مثال ہیں۔

    آغا شاہی کا کیریئر کئی اہم کام یابیوں اور مختلف امور اور مسائل کا حل نکالنے کی وجہ سے نمایاں ہے۔ ان کے سفارتی کیریئر کا آغاز 1951 میں اس وقت ہوا جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اقوام متحدہ میں ان کا کام بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت اور دنیا میں اس کے کردار کو نمایاں‌ کرنا تھا۔ انہوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران آغا شاہی نے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ سمیت متعدد ممالک میں پاکستان کے بطور سفیر ذمہ داریاں نبھانا بھی شامل تھا۔

    آغا شاہی 25 اگست 1920 کو برطانوی ہندوستان میں بنگلور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بنگلور میں حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری لینے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
    اس تعلیمی پس منظر نے انہیں عالمی سیاست اور بین الاقوامی امور سے متعلق شعور اور آگاہی دی اور اسی نے بطور سفارت کار ان کو کئی اہم معاملات میں سرگرم کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔

    آغا شاہی کا 1941 میں انڈین سول سروس (ICS) میں شمولیت سفارت کاری میں ایک شاندار کیریئر کا آغاز تھا۔ ان کی ابتدائی پوسٹنگ مختلف انتظامی کرداروں میں ہوئی، لیکن 1947 میں تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے تو فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اگلی صفوں میں جگہ بنالی۔ یہاں‌ تک کہ آغا شاہی 1973 میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ مقرر ہوئے۔ یہ دور اہم جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے بھرپور تھا۔ جس میں انڈیا کے ساتھ 1971 کی جنگ کے بعد کی صورت حال اور دونوں ممالک کے درمیان فیصلہ کن مذاکرات کا مرحلہ بھی شامل تھا۔ اس میں آغا شاہی نے پاکستانی وفد کی راہ نمائی کی اور خاص طور پر کشمیر پر اپنے مؤقف سامنے رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کردار ادا کیا۔ آغا شاہی نے ایک اور اہم اور بڑے نازک دور میں پاکستان کو اپنی ذہانت اور تجربہ کی بنیاد پر کام یابی دلوائی۔ یہ وہ وقت تھا جب سرد جنگ کے تناظر میں امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے متوازن خارجہ پالیسی کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ آغا شاہی نے اس وقت سیکرٹری خارجہ کے طور پر اہم کردار ادا کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس کے ساتھ وہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں پاکستان کی جانب سے کردار اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے فلسطینیوں اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی وکالت بھی پُر زور اور مؤثر انداز میں کرتے رہے۔ 1977 میں آغا شاہی کو پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1982 تک وہ اس منصب پر رہے۔

    6 ستمبر 2006 کو آغا شاہی 86 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔

  • ترقی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی کا تذکرہ

    ترقی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی کا تذکرہ

    ترقّی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنّف حسن عابدی نے ادب اور صحافت میں مقام بنایا تھا اور بحیثیت کالم نگار قارئین میں پہچانے جاتے تھے۔

    حسن عابدی کا اصل نام سیّد حسن عسکری تھا۔ 7 جولائی 1929 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اعظم گڑھ اور الہ آباد کے تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کیں اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ بعد میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے اور یہیں وفات پائی۔

    لاہور میں حسن عابدی نے 1955ء میں روزنامہ آفاق سے وابستگی اختیار کی اور اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کے زیرِ ادارت جریدہ لیل و نہار شایع ہوتا تھا۔ حسن عابدی اس سے منسلک ہوگئے اور وہاں‌ انھیں اپنے وقت کے کئی نام ور ادیبوں، شعراء اور اہلِ قلم سے ملاقات کا موقع ملا اور ان کی صحبت میسر آئی۔ لاہور کی ادبی مجالس اور اہلِ علم و دانش کی محافل میں شرکت کے ساتھ حسن عابدی نے اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ کراچی آئے تو یہاں بھی صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ انھوں نے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کی فکر اور زورِ‌ قلم کی گرویدہ ہوئی۔

    حسن عابدی نے اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں کے ساتھ کئی کتب کے تراجم بھی دیے۔ ان کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشتِ نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ اردو ادب میں آپ بیتی اور تذکرے و یادداشتیں بھی مقبول رہی ہیں اور خاص طور پر وہ شخصیات جنھوں نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہو، ان کے پاس کئی اہم اور دل چسپ واقعات، مختلف شخصیات کے تذکرے اور بہت سے قصائص ضرور ہوتے ہیں، اور حسن عابدی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے طویل عرصہ اس دشت کی سیاحی میں‌ گزارا تھا اور مشاہیر سے ان کی رفاقت رہی تھی۔ سو، ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب بعنوان جنوں میں جتنی بھی گزری، ادبی حلقوں اور باذوق قارئین تک پہنچی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ حسن عابدی نے ایک کتاب بھارت کا بحران کے عنوان سے بھی ترجمہ کی تھی۔

    حسن عابدی نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ کئی کہانیاں اور بچوں کے لیے نظمیں ان کے قلم سے نکلیں اور بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب شریر کہیں‌ کے شایع ہوئی۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں بھی کتابی شکل میں شایع کی گئیں۔ صحافت کے موضوع پر حسن عابدی کی ایک نہایت عمدہ کتاب اردو جرنلزم کے عنوان سے شایع ہوئی جو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں اور تمام صحافیوں کی راہ نمائی کرتی ہے۔ فاضل مصنّف نے بالخصوص طلباء کے فہم کے پیشِ نظر اس کتاب کو سادہ اور آسان زبان میں تحریر کیا ہے۔ یہ صحافت کے مختلف شعبہ جات کی باریکیوں اور مسائل پر جامع کتاب ہے۔

    اس زمانے میں جب پاکستان میں ترقی پسند ادب سے وابستہ قلم کاروں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں۔ حسن عابدی کو بھی اپنے نظریات کی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ جیل گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں حسن عابدی روزنامہ ڈان سے منسلک تھے۔

    یہاں ہم حسن عابدی کی غزل سے دو اشعار نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • خطیب بغدادیؒ: جیّد عالمِ دین، مؤرخ اور مصنّف

    خطیب بغدادیؒ: جیّد عالمِ دین، مؤرخ اور مصنّف

    خطیب بغدادیؒ کی مشہور تصنیف تاریخِ بغداد ہے جسے بالخصوص اسلامی دنیا میں ایک وقیع اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ غیرمسلم تاریخ داں اور مستشرقین بھی اسے معتبر خیال کرتے ہیں۔

    امام ابوبکر خطیب بغدادیؒ ایک جیّد عالم، مؤرخ اور کئی کتب کے مصنّف تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ خطیب بغدادی کی کتاب کے بارے میں علاّمہ ابنِ خلکان جیسی جیّد ہستی نے لکھا ہے کہ امام صاحب کی مزید تصانیف نہ بھی ہوتیں تو فقط یہی کتاب ان کے فضل و کمال کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔ ان کے علاوہ بھی اپنے وقت کے دیگر مشاہیر نے خطیب بغدادی کے علمی اور دینی علوم پر دسترس اور ان کے علم و فضل کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے۔

    اسلامی تاریخ پر مبنی کتب میں نام احمد، کنیت ابوبکر اور لقب خطیب درج ہے۔ خطیب بغدادی 1002ء میں عراق کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں بغداد کے قریب اور دریائے دجلہ کے کنارے پر آباد تھا، لیکن تحصیل علم اور تدریس و تصنیف کی غرض سے زندگی کا بڑا حصّہ اس زمانے کے علم و فنون کے مرکز بغداد میں گزارا۔ اسی شہر کی نسبت وہ بغدادی مشہور ہوئے۔ ان کے والد ایک خطیب تھے اور مؤرخین کا خیال ہے کہ انہی کی وجہ سے یہ لفظ بھی امام ابوبکر کے کے نام کا جزو بن گیا۔

    امام خطیب بغدادیؒ نے اپنے والدِ ماجد کی ترغیب و تشویق سے تحصیلِ علم کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے زمانے کے علما و آئمہ سے کسبِ فیض کیا، اس کے بعد بصرہ، کوفہ، نیشا پور، ہمدان، مکہ و مدینہ اور دمشق سے تعلیم حاصل کی اور علم و فضل میں‌ ایسے ممتاز ہوئے کہ خود ان کے کئی شاگرد علم دین و دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ حفظ و ثقاہت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کے علمی مقام و مرتبے اور قدر و منزلت کو کئی نام ور ہستیوں اور مشہور علما نے تحریر و تقریر میں بیان کیا۔ ایک صاحبِ علم کے مطابق ’’امام دار قطنی کے بعد بغداد میں خطیب بغدادی کی مثل کوئی نہیں آیا۔‘‘ اسی طرح ابو علی بردانی فرماتے ہیں، ’’شاید خطیب نے بھی اپنے جیسا صاحبِ فن نہ دیکھا ہو۔‘‘ مشہور فقیہ ابو اسحاق شیرازی لکھتے ہیں، وہ معرفتِ حدیث اور حفظِ حدیث میں امام دار قطنی اور ان کے ہم مرتبہ لوگوں کے برابر تھے۔ مؤرخین نے ابو اسحاق شیرازی کو خطیب کے اساتذہ میں شمار کیا ہے جو اپنے اس شاگرد کے نہایت مداح و معترف تھے۔

    خطیب بغدادیؒ کی حدیث میں عظمت و بلند پائیگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے فن میں یکتا اور روایت و احادیث کی شناخت و تمیز میں ماہر تھے۔ حدیثِ رجال، جرح و تعدیل اور اصول اسناد و روایات میں ان کی کئی تصانیف موجود ہیں۔ حدیث کے متعلقہ علوم میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں انھوں نے کتاب نہ لکھی ہو۔ خطیب بغدادی کو حدیث میں ان کے علم و کمال کی وجہ سے کئی القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام ذہبی نے انھیں الحافظُ الکبیر، الامام، محدث الشّام و العراق کے القابات سے یاد کیا۔ علّامہ ابنِ کثیر نے انھیں مشاہیرِ محدثین میں شمار کیا اور اسی طرح دیگر علما و فقہا نے ان کی تصنیفات کو بیش قیمت اور پُر منفعت قرار دیا ہے۔

    حدیث کے علاوہ تذکرہ و تراجم اور تاریخ بهی امام صاحب کا خاص موضوع تھا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے سوانح نگاروں نے انھیں بلند قرار دیا ہے۔ خطیب بغدادی حدیث و تاریخ اور فقہ میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر علوم یعنی فنِ قرأت و تجوید، علومِ قرآنی اور شعر و ادب میں بھی کمال رکھتے تھے۔ حافظ ابنِ کثیر نے اپنی مشہور تصنیف ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ان کی بابت لکھا، ’’خطیب اچھی قرأت، فصیح ادائیگیِ الفاظ کے ساتھ ادب کو جاننے والے تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔‘‘ خطیب بغدادی خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔

    ان کی تصانیف کی تعداد 100 کے قریب بتائی جاتی ہے جن میں اکثر کتابیں فنون حدیث کے متعلق گونا گوں مسائل و مباحث اور مفید معلومات پر مشتمل ہیں۔ صرف تاریخِ بغداد کی بات کی جائے تو اس کتاب سے امام صاحب کے علمی تبحر، وسعتِ مطالعہ اور دقتِ نظر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مصنّف اپنی اس کتاب کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ یہ مدینۃُ السّلام یعنی بغداد کی تاریخ ہے، اس میں اس کی آبادی و تعمیر کا اور یہاں کے مشاہر علما، فقہا و محدثین، اشراف اور اربابِ شعر و ادب کا تذکرہ کیا ہے۔

    خطیب بغدادی 5 ستمبر 1071ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کی آرزو تھی کہ وہ بابِ حرب میں بشر حافی کی قبر کے پہلو میں دفن ہوسکیں اور ان کی اس خواہش کا احترام کیا گیا۔

  • سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری نے بطور موسیقار ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا لیکن وہ ایک ادیب اور شاعر بھی تھے۔

    مغربی بنگال میں سلیل چودھری نے 5 ستمبر 1995 کو اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ سلیل چودھری 19 نومبر 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد آسام میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے۔ آسام ہی میں سلیل کا بچپن گزرا تھا۔ وہیں وہ وسیقی کی جانب راغب ہوئے۔ سلیل چودھری نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے بڑے بھائی آرکسٹرا میں کام کرتے تھے اور ہر طرح کے آلاتِ موسیقی سے واقف تھے۔ سلیل چودھری کو بچپن سے ہی بانسری بجانے کا بہت شوق تھا۔ بعد میں انھوں نے پیانو اور وائلن بھی بجانا سیکھا۔

    کولکتہ سے گریجویشن کرنے کے بعد سلیل چودھری ہندوستانی تنظیم سے منسلک ہوگئے۔ یہ انقلابی ترانوں کی گونج اور آزادی کی ترنگ کا دور تھا۔ اسی جدوجہد میں سلیل چودھری بھی شامل ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ان کا تخلیقی شعور اور ان کی صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں اور وہ ایک بہترین موسیقار ہی نہیں شاعر اور ادیب بھی کہلائے۔

    سلیل چودھری کے والد ڈاکٹر بھی تھے اور باذوق آدمی بھی۔ ان کے پاس موسیقی کا بڑا ذخیرہ تھا اور وہ اسٹیج ڈراموں میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سلیل چودھری نے آسام میں چائے کے باغات میں لوک گیت سنے تھے۔ مرد اور عورتوں کو کام کرتے دیکھا تھا جو گنگاتے جاتے اور اپنے کام میں‌ لگے رہتے۔ اسی زمانے میں سلیل نے بانسری بجانا شروع کیا اور یہی ان کے فنی سفر کا گویا آغاز تھا۔ سلیل کے والد بھی برطانوی راج سے نفرت کرتے تھے اور چائے کے باغات کے مظلوم مزدوروں کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والے سلیل چودھری نے جلد ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے اور پرفارمنگ آرٹ کی تحریکوں سے بھی جڑے رہے۔ اسی نے ترقی پسند سیاسی سرگرمی کو ایک تخلیقی میدان تک پہنچایا۔ اس عرصے میں سلیل نے بے شمار گیت لکھے اور ان کے ذریعے دیہات اور شہروں کے عوام کو ناانصافی اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیا۔ یہ شعور اور بیداری کے گیت تھے جو تحریکِ آزادی کا حصّہ بنے‌ اور آج بھی ان کو سنا جاتا ہے۔ سلیل کے بنگالی گانوں نے بنگالی جدید موسیقی کا رخ ہی بدل دیا تھا۔

    برطانوی راج کے زمانہ میں سلیل نے اپنے فن اور ہنر کو غیرپیشہ ورانہ انداز میں اپنے عوام کے لیے برتا۔ جب کہ ان کا پیشہ ورانہ سفر پچاس کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا۔ سلیل چودھری کو اس وقت ایک شان دار گیت نگار کے طور پر دیکھا گیا اور آزادی کے بعد وہ ایک بہت ہی پختہ اور غیر معمولی باصلاحیت موسیقار کے طور پر سامنے آئے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں فلم ‘دو بیگھہ زمین’ کے لیے سلیل بمبئی پہنچے اور موسیقی کمپوز کی۔ اس کے بعد وہ 75 سے زیادہ ہندی فلموں، 45 بنگالی اور درجنوں ملیالم، تامل، تیلگو فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دیتے رہے۔

    سلیل ہندوستانی سنیما کی دنیا کے سب سے زیادہ ورسٹائل موسیقار تھے۔ ناقدین نے انھیں غیرمعمولی ذوقِ تخلیق کا حامل فن کار کہا ہے۔ راج کپور نے ایک بار کہا تھا کہ ‘وہ تقریباً کوئی بھی آلہ بجا سکتا ہے جس پر وہ ہاتھ رکھتا ہے، طبلے سے لے کر سرود تک، پیانو سے لے کر پکولو تک’۔ سلیل کی موسیقی مشرق اور مغرب کا انوکھا امتزاج تھی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ‘میں ایک ایسا انداز بنانا چاہتا ہوں جو سرحدوں کو عبور کرے – ایک ایسی صنف جو زور دار اور چمک دار ہو، لیکن کبھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی’۔

  • حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد کی پُرسوز آواز اور مخصوص طرزِ گائیکی آج بھی ایک نسل کی سماعتوں میں تازہ ہے اور سننے والوں کو اس گلوکار کی یاد دلاتا ہے۔ حبیب ولی محمد نے غزلیں، ملّی نغمات اور فلمی گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ آج اس گلوکار کی برسی ہے۔

    4 ستمبر 2014ء کو حبیب ولی محمد انتقال کرگئے۔ وہ عرصہ سے امریکا میں مقیم تھے اور 93 سال کی عمر میں وہیں وفات پائی۔ حبیب ولی محمد نے گلوکاری کو بطور پیشہ نہیں اپنایا بلکہ وہ شوقیہ گاتے تھے۔ سامعین اور ناظرین کی فرمائش پر ان کی آواز میں غزلیں اور گیت ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے تھے۔

    گلوکار حبیب ولی محمد کا آبائی وطن برما تھا۔ انھوں نے 1921ء میں برما کے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا اور تقسیمِ ہند کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی تھے اور پاکستان میں انھوں نے کاروبار پر توجہ دینے کے ساتھ اپنے شوق کی خاطر گلوکاری کا سفر بھی جاری رکھا۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی رہی۔ بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب اور دیگر بڑے شعرا کا کلام ان کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘، ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ وہ کلام ہے جو حبیب ولی محمد کی آواز میں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے علاوہ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

    انھیں بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ حبیب ولی محمد نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انھیں فلم کے لیے گلوکاری پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نوجوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ وہ کالج کے زمانے میں موسیقی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ 1941ء میں حبیب ولی محمد نے ایک مقابلۂ گائیکی میں اوّل انعام بھی حاصل کیا تھا۔

  • مینا شوری:‌ پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن جس کی تدفین ایک فلاحی ادارے کو کرنا پڑی

    مینا شوری:‌ پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن جس کی تدفین ایک فلاحی ادارے کو کرنا پڑی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک خوب صورت چہرہ اور مقبول نام مینا شوری تھا جو قیامِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں اپنا فلمی کیریئر شروع کرچکی تھیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد پچاس کی دہائی میں مینا شوری پاکستانی فلموں میں بطور ہیروئن نظر آنے لگیں اور کام یاب رہیں۔

    مینا شوری کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ وہ اپنی بہن کے ساتھ ممبئی شفٹ ہوئیں تو وہاں ان کی ملاقات ہندوستان کے مشہور فلم میکر اور اداکار سہراب مودی سے ہوئی۔ وہ فلم ’’سکندر‘‘ بنانے کا سوچ رہے تھے۔ سہراب مودی نے مینا شوری کی چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انھیں فلم ’’سکندر‘‘ میں کاسٹ کر لیا۔ یہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور یوں مینا شوری کا یہ فلمی سفر آگے بڑھا۔

    مینا شوری نے پہلی شادی روپ کے شوری سے کی تھی لیکن جب وہ ایک موقع پر لاہور آئے تو یہاں‌ فلم سائن کرنے والی مینا شوری نے واپس ممبئی جانے سے انکار کردیا تھا۔ یوں روپ کے شوری کو مایوس لوٹنا پڑا۔ اور مینا نے یہاں فلموں میں کام شروع کردیا۔ اس وقت فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے جو پہچان ملی تھی اس کو فلم "ایک تھی لڑکی” کے شوخ گیت "لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا” نے بلندیوں پر پہنچا دیا۔ وہ لارا لپا گرل مشہور ہوگئی اور پاکستان بھر میں‌ مینا شوری کا نام سنا جانے لگا۔ یہ اداکارہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا ہوکر 3 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ مینا شوری کی ذاتی زندگی کئی مصائب اور تکالیف کا شکار رہی اور ان کا انجام بھی افسوس ناک ہوا۔ کہتے ہیں‌ کہ آخری عمر میں وہ مالی مشکلات اور تنہائی کا عذاب جھیل رہی تھیں. اس پر ان کی بیماری بھی تکلیف دہ تھی۔ المیہ دیکھیے کہ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ اور کام یاب ہیروئن کی موت کے بعد ان کے کفن دفن کا انتظام بھی ایک خیراتی ادارے کو کرنا پڑا تھا۔ مینا شوری کے تاریخ و سنہ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ لاہور میں‌ ان کے مدفن پر جو کتبہ موجود ہے، اس کے مطابق ان کی موت 1987 میں ہوئی جب کہ اکثر جگہ مہینہ فروری بھی لکھا گیا ہے۔

    اداکارہ نے 1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مینا شوری کراچی میں رہیں اور پھر لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کیں اور سب ناکام رہیں۔

    مینا شوری کی مشہور فلموں میں پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی شامل ہیں جب کہ سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان میں بھی انھوں نے بہت عمدہ اداکاری کی تھی۔ پاکستان میں مینا شوری نے 54 فلموں میں کام کیا تھا۔

  • سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    اردو ادب میں سلیم احمد ایک منفرد شخصیت کے مالک ایسے تخلیق کار کے طور پر پہچانے گئے جو نکتہ بیں، لطیف مشاہدہ اور تجزیاتی دماغ رکھتے تھے۔ انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاسکتا ہے جو بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار تھے۔ تنقید ان کا خاص میدان رہا جس میں انھوں نے اپنے لیے ستائش بھی سمیٹی اور ادب کی دنیا میں ان کی فکر اور نظریے سے کئی شخصیات نے اختلاف بھی کیا۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ یکم ستمبر 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں نام و مقام بنانے والوں میں احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جو کو بانیِ پاکستان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آج احمد سعید ناگی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔

    پاکستانی مصوّر احمد سعید ناگی کو عام طور پر اے ایس ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ وہ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی فنِ مصوّری میں موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں جہاں شائقین اور ناقدینِ فن نے ان کے کام کو سراہا۔ احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔