Tag: یوم وفات

  • بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سو پچھتّر سال ہونے کو آئے ہیں‌، لیکن عالمی ادب میں اس کا نام آج بھی ایک حقیقت نگار کے طور پر زندہ ہے۔ ناول نگار اور مقبول ترین مختصر کہانیوں‌ کے خالق بالزاک نے اپنی کہانیوں میں بیک وقت کئی کردار پیش کرکے انفرادیت کا ثبوت بھی دیا۔

    بالزاک کو شروع ہی سے شہرت پسند تھی۔ وہ ایک ادیب کے طور پر ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا تھا۔ بالزاک کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ فرانس کا مقبول ناول نگار بنا۔ بعد میں دنیا بھر میں اسے پذیرائی ملی اور آج بھی ناول نگاری میں اس کی انفرادیت کا چرچا ہوتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔ 1850ء میں بالزاک آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک نے اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کیا تھا۔ انہی تجربات اور مشاہدات نے بالزاک کو لکھنے پر آمادہ کیا اور وہ ایک حقیقت نگار کے طور پر سامنے آیا۔ اسے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بالزاک کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ عظیم فرانسیسی فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بھی بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور قارئین کے بعد بڑی تعداد میں فلم بین بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس ہوگیا تھا اور مضطرب رہتا تھا۔ اپنے انہی جسمانی مسائل اور طبی پیچیدگیوں کے دوران وہ مطالعے کا عادی بن گیا اور پھر لکھنے کا آغاز کیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں بے حد سراہا گیا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کے طرزِ‌ نگارش کا ایک وصف طویل فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھا کہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک کے بارے میں‌ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ طبی مسائل اور کئی پیچیدگیوں میں‌ مبتلا ہو گیا تھا اور غالباً اسی سبب وہ حساس طبع ہونے کے علاوہ کچھ شخصی کم زوریوں اور تضادات کا شکار بھی رہا۔ یہ کم زرویاں اس کی وہ خامیاں بن گئیں جن کی وجہ سے اکثر اسے ناپسند کیا جاتا تھا۔ عقیل احمد روبی اس حوالے سے لکھتے ہیں: لین دین کے سلسلے میں بالزاک بڑا ناقابل اعتماد آدمی تھا۔ اس کا بائیو گرافر آندرے بلی کہتا ہے کہ بالزاک شرمناک حد تک واہیات نادہندہ تھا۔ بہنوں، دوستوں، واقف کاروں، پبلشروں کے ساتھ اس نے کبھی کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا حتیٰ کہ اس نے اس سلسلے میں اپنی ماں تک کو ناکوں چنے چبوا دیے۔آندرے بلی نے بالزاک کے نام اس کی ماں کا ایک خط بالزاک کی بائیو گرافی میں دیا ہے۔ چند جملے دیکھیے۔’’تمہارا آخری خط مجھے نومبر 1834ء میں ملا تھا۔ جس میں تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اپریل 1835ء سے مجھے ہر تین ماہ کے بعد دو سو فرانک خرچہ دیا کرو گے۔ اب اپریل 1837ء آ گیا ہے تم نے مجھے ایک فرانک تک نہیں بھیجا۔ بالزاک تم سوچ نہیں سکتے یہ وقت میں نے کیسے گزارا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں دونوں ہاتھ پھیلا کر کہوں ’’خدارا مجھے روٹی دو‘‘۔ اب تک میں جو کچھ کھاتی رہی وہ میرے داماد نے مجھے دیا۔ یہ کب تک چلے گا۔ میرے بچے تم فرنیچر پر، لباس پر، جیولری پر اور عیاشی پر خرچہ کرتے ہو اپنی ماں کے بارے میں بھی سوچو۔‘‘بالزاک نے خط پڑھ کر ماں کو اس خط کا جواب دیا جو ایک جملے پر مبنی تھا اور وہ جملہ یہ تھا۔’’میرا خیال ہے تم پیرس آ کر مجھ سے ایک گھنٹہ بات کرو۔‘‘

  • ایلوس پریسلے: امریکی گلوکار جس کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے

    ایلوس پریسلے: امریکی گلوکار جس کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے

    ایلوس پریسلے کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ شہرۂ آفاق گلوکار کے گیتوں کے ریکارڈز اب بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    16 اگست 1977ء کو ایلوس پریسلے چل بسے تھے۔ امریکہ میں ہر سال میمفس میں واقع ایلوس پریسلے کی جائے سکونت گریس لینڈ وِلا پہنچ کر ان کے مداح اس گلوکار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ چھے لاکھ تک پہنچتی ہے۔ ایلوس پریسلے کو ’’کنگ آف راک‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گلوکار کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں اور فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ ایلوس پریسلے 1977ء میں اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ صرف 42 سال جیے۔

    ایلوس آرون پریسلے 8 جنوری 1935ء کو ایک غریب امریکی خاندان میں پیدا ہوئے۔ پریسلے کے والدین کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا۔ وہ مسی سپی کے چھوٹے سے شہر ٹوپیلو کے میں پلا بڑھا۔ والدین اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے چرچ لے جاتے تھے جہاں ایلوس کو موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔ موسیقی سے ننھّے ایلوس کی انسیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب ’’ہارٹ بریک ہوٹل‘‘ نامی ایک گیت نے نوجوان گلوکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ گیت ایلوس پریسلے نے 1956ء میں گایا تھا۔ اس زمانے میں نوجوان نسل نے ایک نئی اور منفرد آواز سنی تھی جس میں‌ فن کار اپنے گٹار کے ساتھ جھومتا ہوا سیدھا ان کے دلوں‌ میں اتر گیا۔ سبھی اُس کے دیوانے ہوگئے۔

    امریکی نوجوانوں پر اپنا جادو چلانے والے ایلوس پریسلے نے موسیقی کے میدان میں وہ کام یابیاں سمیٹیں کہ جلد ہی پوری دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اُن کے گیتوں کے ریکارڈ بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ ایلوس پریسلے نے کئی شان دار کنسرٹس کیے۔ لیکن شہرت اور مقبولیت کے زینے طے کرتے ہوئے وہ کثرتِ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے تھے اور بالآخر گریس لینڈ میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    اس بے مثال فن کار نے اپنے کیریئر کے دوران 800 سے زیادہ گیت گائے اور 33 فلموں میں بطور ہیرو بھی جلوہ گر ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت پاپ میوزک ہے۔ ایلوس کی بیٹی لیزا میری پریسلے کی شادی 1994ء میں پاپ میوزک کے بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن کے ساتھ ہوئی تھی جو دو سال سے بھی کم عرصہ تک برقرار رہ سکی۔ وہ بھی گلوکارہ اور نغمہ نگار کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ لیزا بھی اب اس دنیا میں نہیں رہی ہیں۔

  • خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ترقّی پسند شاعر اور سینئر صحافی خالد علیگ 2007ء میں‌ آج ہی کے روز کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں راست گوئی، اصول پرستی اور ان کے اجلے کردار کی وجہ سے صحافت کی دنیا میں بہت عزّت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ نے ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ ایک خود دار انسان تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی آواز پر متحرک رکھا۔ خالد علیگ نے وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے لیے شاعری کی اور ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔ وہ کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں چھوٹے سے گھر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ خالد علیگ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اپنی عوامی جدوجہد کے دوران انھوں نے بہت سی تکالیف اور پریشانیاں بھی اٹھائیں مگر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دی۔ 1988ء میں انھیں حکومت کی جانب سے مالی امداد کے لیے رقم کا چیک بھجوایا گیا تھا، لیکن خالد علیگ نے اسے قبول نہ کیا۔ ایک مرتبہ وہ شدید علالت کے سبب بغرضِ علاج مقامی اسپتال میں داخل تھے اور حکومت نے سرکاری خرچ پر ان کے علاج کا اعلان کیا تو خالد علیگ فوراً اسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔

    خالد علیگ کو پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت سول انجینئر اپنی ملازمت کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا لیکن 1960ء میں انھوں نے ملازمت ترک کردی اور کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ملازمت ترک کرنے کا سبب طبقۂ اقتدار کے خلاف اُن کا مزاحمتی اور باغیانہ اظہار اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد تھا۔ مارشل لا کے دور میں خالد علیگ کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اُن کے لہجے اور آہنگ میں بدترین آمریت کے ادوار میں بھی کبھی دھیما پن نہیں آیا۔ اُن کی شاعری میں بھی یہی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ خالد علیگ کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    بیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ادب کی چند اہم تحریکوں میں نوکلاسیکیت، نو رومانویت، علامتیت اور سب سے بڑھ کر اظہاریت شامل تھیں جس میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ ادب کے جدید دور کا سب سے متاثر کن اور اچھوتا ڈرامہ نگار برتولت بریخت (Bertolt Brecht) تھا۔ ایک اظہاریت پسند کے طور پر اپنا ادبی سفر شروع کرنے والے برتولت بریخت نے جلد ہی ایک مخصوص انداز اپنا لیا اور اسٹیج کے ذریعے اس کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اس میڈیم کو سیاسی اور اخلاقی سطح پر شعور پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا۔

    بیسویں صدی کے معروف جرمن شاعر، ڈراما نویس اور تھیٹر ڈائریکٹر برتولت بریخت نے 14 اگست 1956 کو مشرقی برلن میں وفات پائی۔ اسے ڈراما نگاری نے عالمی سطح پر شہرت دی۔ بریخت 10 فروری 1898ء کو ریاست بویریا کے ایک قصبے میں پیدا ہوا اور نوعمری میں اس نے پہلی عالمی جنگ دیکھی۔ تمثیل نگاری اور ڈراما نویسی میں دل چسپی لینے کے ساتھ وہ میونخ یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بیسویں صدی کے یورپی ڈراما نویسوں میں اہم مقام حاصل کرنے والے بریخت نے تھیٹر کی دنیا میں نئے اور انقلابی تجربات کیے۔ اسے سراہا بھی گیا اور اس کے کام اور اسلوب پر تنقید بھی کی گئی۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر اور انسانوں سے محبّت کرنے والا ایسا تخلیق کار تھا جسے یورپ اور امریکہ میں بھی پذیرائی ملی۔

    1920ء کے بعد کے دور میں بریخت نے اظہاریت یا ایکسپریشنزم کی روایت کو اپنایا اور اپنا مشہور ڈراما ’’آدمی، آدمی ہے‘‘ لکھا۔ پھر اس نے رزمیہ تھیٹر کو ترقی دی۔ اس نے ڈرامہ کے لیے سیٹ بنانے پر توجہ دی اور اسے حقیقت سے قریب تر کیا۔ اس میں موسیقی کو بھی اہمیت دی۔ برتولت بریخت شاعر بھی تھا اور اپنے گیت خود لکھتا تھا۔ اس کا ایک ڈراما تین پینی کا اوپرا یورپ و امریکہ میں بے حد مقبول ہوا اور ایک تھیٹر میں مہینوں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ یہ ڈراما سب سے پہلے 1928ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی موسیقی کرٹ ویل نے ترتیب دی تھی۔ اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس کی فکر نمایاں ہے۔

    بریخت فاشزم کا سخت مخالف تھا چنانچہ 1932ء میں ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس نے ترک وطن کرکے پہلے ڈنمارک اور پھر امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں اس نے دو نہایت اہم ڈرامے ’’ماں کی ہمت اور اس کے بچے‘‘ اور ’’شت زوان کی عورت‘‘ لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1948ء میں بریخت مشرقی جرمنی لوٹ آیا اور ڈراموں کا ایک الگ تھیٹر قائم کرلیا۔ یہاں 1955ء میں اس نے قفقاز کے چاک کا دائرہ نامی رزمیہ پیش کیا جو اس صنف کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔ برتولت بریخت کے ڈراموں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

  • دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    پاکستان ٹیلی وژن کی سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں کرداروں کو بخوبی نبھایا وہ اپنے کیریئر کے دوران ٹی وی ہی نہیں اسٹیج اور فلم میں بھی کام کر کے اپنی پہچان بنائی۔ ان کی ناظرین میں‌ مقبولیت کا سبب ٹیلی وژن کے وہ ڈرامے ہیں جن میں انھوں نے کامیڈی کردار ادا کیے۔

    کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اداکارہ 12 اگست 2021 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    اداکارہ دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔ تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    انھوں نے آخری مرتبہ 2019 میں ڈرامہ رسوائی میں ایک کردار نبھایا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اداکارہ کو ماہرِ تعلیم کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے حکومت پاکستان نے دردانہ بٹ کو ‘تمغائے امیتاز سے نوازا تھا۔

  • ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر کا تذکرہ آج شاذ ہی کسی کتاب، کسی رسالہ میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن آج بھی نوجوان نسل کو علمی میدان میں ان کے کارناموں سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے معروف صحافی، ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق بھی تھے۔ رام چندر نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور کئی مقالے لکھے جو اس دور کے مشہور رسائل میں شایع ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس سلسلہ میں‌ ان کے ایک مضمون اور اس پر ضمیمہ کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی تھی۔

    رام چندر ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے اور 11 اگست 1880ء کو وفات پاگئے۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ رام چندر خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل تھے۔ وہ تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی ہی نہیں‌ تھے بلکہ قوتِ‌ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تربیت اور تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں رام چندر انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء میں انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسرے لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔

    ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان تک پہنچی اور ایک کتاب کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے ایک خلعت پنج پارچہ اور دو ہزار روپیہ نقد عطا کیا۔ وہ ہندوستان میں 1845ء میں ان کا ایک پندرہ روزہ علمی اخبار فوائد الناظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ محبِّ ہند جاری ہوا۔ پھر غدر مچ گیا اور اس دوران میں رام چندر نے چھپ چھپا کر زندگی بسر کی۔ تاہم غدر کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ روڑکی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک رہنے کے بعد دہلی آئے تو یہاں ڈسٹرکٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور اسی منصب سے خرابیِ صحت کی بنا پر سبک دوش ہوئے۔

    ماسٹر صاحب نے راجا مہندر سنگھ کے اتالیق کی حیثیت سے ریاست پٹیالہ کے دربار میں ملازمت بھی کی اور ریاست پٹیالہ میں سر رشتہ تعلیم کا قیام عمل میں آیا تو رام چندر اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان کے دورِ ملازمت میں پٹیالہ میں تعلیم کو بہت فروغ ملا۔

    رام چندر کی صحت کبھی اچھی نہ رہی تھی۔ وہ چالیس برس کے تھے جب خرابیِ صحت کی بنا پر پنشن کی درخواست دے دی تھی۔ رفتہ رفتہ صحت گرتی ہی گئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک مابین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی موسیقار ایسے بھی ہیں جن کی موسیقی میں مقبول ہونے والے فلمی گیتوں کی بدولت فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ ان گیتوں کو پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی پسند کیا گیا۔ ان باکمال اور صف اوّل کے موسیقاروں کے علاوہ چند ایسے باکمال فن کار بھی انڈسٹری کا حصّہ بنے جن کو وہ پذیرائی اور قدرومنزلت نہیں ملی جس کے حق دار وہ تھے، مگر فلم بینوں نے ان کے گیتوں کو سراہا۔ رحمٰن ورما ایسا ہی ایک نام ہے جو خاموش طبع اور خود دار انسان بھی تھے۔ 11 اگست 2007ء کو رحمٰن ورما لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    رحمٰن ورما ایک باصلاحیت فلمی موسیقار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں پہچانے تو گئے، لیکن بڑے بڑے فن کاروں کے درمیان خود کو منوانا ان کے لیے آسان نہیں‌ تھا۔ رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد ایک اور فلم کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار ثابت کردیا۔ ورما جی کے نام سے مشہور اس کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔ پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

    مشہور شاعر ساغر صدیقی کا ایک فلمی گیت رحمٰن ورما کی موسیقی میں بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ”ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو‘‘ فلم ”آخری نشان‘‘ کے یہ نغمات ‘ہم بھی آوارہ پنچھی تم بھی آوارہ‘‘ ”کوئی دور بجائے بانسری‘‘ ”تو ہے بے وفا اور نہ میں بے وفا‘‘ناہید نیازی نے گائے تھے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ ان کے موسیقار رحمٰن ورما ہی تھے۔ اس کے علاوہ ”آج کی شب جانے پھر آئے کہ نہ آئے‘‘ اور ”حال کیسا ہے جناب کا‘‘ بھی اپنے وقت کے مشہور فلمی گیت تھے جن کے موسیقار رحمٰن ورما ہیں۔

  • محمود درویش:‌ بے وطنی کا کرب سہنے والا شاعر

    محمود درویش:‌ بے وطنی کا کرب سہنے والا شاعر

    محمود درویش تمام عمر اپنی مٹی کے فراق کا دکھ سہتے رہے اور ایک روز اسی بے وطنی کی حالت میں زندگی کے بوجھ سے آزاد ہوگئے۔ آج محمود درویش کی برسی ہے۔

    محمود درویش ارضِ فلسطین کا نوحہ اور مظلوم فلسطینیوں‌ کی زندگی اور شہادتوں کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنانے کی وجہ سے ایک طرف تو فلسطینی عوام کے محبوب شاعر تھے اور دوسری طرف انھیں اپنے توانا جذبۂ اظہار، اپنی فکر و دانش اور منفرد تخلیقات کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت اور پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایسے تخلیق کار تھے جس نے فلسطینی علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے شاعری کی اور جدودجہد میں اپنا حصّہ ڈالا۔ محمود درویش ایک مزاحمتی شاعر کی حیثیت سے فلسطین کی آواز بنے۔

    لبنان اور مصر کے درمیان واقع علاقہ مئی 1948ء میں قیامِ اسرائیل کے اعلان سے قبل صرف فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارُالحکومت بیتُ المقدس تھا۔ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ 1967ء میں اس شہر کو بھی اسرائیل کے قبضہ میں دے دیا گیا۔ محمود درویش نے اسی ارضِ فلسطین سے اپنی دوری کا دکھ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھیں عصرِ حاضر کے عربی ادب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ تتلی کا بوجھ ان کے ایک شعری مجموعے کا عنوان تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ ایک استعارہ ہے جو انھوں ارضِ فلسطین کے لیے برتا تھا۔

    محمود درویش کو ناقدین بیسویں صدی کا ایک معتبر نام تسلیم کرتے ہیں‌ جن کی نظموں کا گویا ہر مصرع غم و اندوہ کی عکاسی اور مظلوم فلسطینیوں‌ کے کرب کا دردانگیزی سے احاطہ کرتا ہے۔ محمود درویش نے اپنی شاعری میں‌ اپنی وطن سے دوری کے ساتھ اپنے لوگوں کے لٹنے اور برباد ہوجانے، اسرائیل کے ظلم و ستم، جبر کے ماحول کی نہایت اثرانگیز جھلک پیش کی ہے۔

    اس شاعر کے لگ بھگ تیس مجموعے بازار میں آئے اور ہر کتاب مقبوضہ فلسطین کا نوحہ ہے۔ اِسی مناسبت سے محمود درویش کو فلسطین کی سانس کہا جاتا ہے۔ ان کے تخلیقی وفور کا اندازہ ان کے شعری مجموعوں کے نام سے بھی ہوتا جو نہایت مؤثر استعارہ ہیں۔ بے بال و پَر پرندے، زیتون کے پتے، انجامِ شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مَر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر وغیرہ وہ نام ہیں جو فلسطینیوں‌ کے حزن و ملال، محرومیوں کی ایک تصویر سی بنا دیتے ہیں۔ محمود درویش 19 سال کے تھے جب اپنا پہلا مجموعہ شایع کروانے کے بعد انھیں لبنان اور پھر سوویت یونین جانا پڑا، جہاں ایک سال ماسکو یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد مصر چلے گئے اور مشہور اخبار الاہرام میں ملازم بھی رہے۔ بعد میں یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او میں شمولیت اختیار کی۔

    محمود درویش نے شاعری عربی زبان میں کی جب کہ انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی بڑی روانی سے بولتے تھے۔ کئی ادبی انعامات سے نوازے گئے محمود درویش کے شعری مجموعوں‌ کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

    محمود درویش فلسطین کے قومی شاعر ہونے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر جانے اور چاہے جاتے تھے۔ وہ 1941ء میں گلیلی نامی علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ فلسطین سے دور گزرا جس کا انھیں‌ بہت ملال رہا۔ ان کا خاندان بھی 1948ء میں‌ کئی عرب فلسطینیوں‌ کی طرح لبنان اور دیگر عرب ممالک فرار ہوجانے پر مجبور ہو گیا تھا اور اس کی وجہ قابض اسرائیلیوں‌ کا عالمی طاقتوں کی حمایت سے فلسطین کی سرزمین پر اپنے قدم جمانے کے لیے وہاں کے مسلمانوں پر مظالم اور ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا، بعد میں‌ وہ یہاں‌ لوٹے تو مقبوضہ فلسطین میں‌ اسرائیل کی انتظامیہ نام نہاد دستاویز اور قانونی کاغذات نہ ہونے کی آڑ میں‌ ہر فلسطینی کی طرح ان کی نگرانی اور آنے جانے کے لیے اجازت نامے طلب کرتی تھی اور جبر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے انھیں ملک سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔

    9 اگست 2008ء میں محمود درویش امریکہ میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

  • ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر نام اور قد آور شخصیت ہیں جن کی شہرت اور شناخت ایک ماہرِ لسانیات، بلند پایہ نقّاد اور محقّق کے طور پر ہے۔ 3 اگست 2013ء کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے اور ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب کی تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اس شہر کی نسبت ہمیشہ ان کے نام سے جڑی رہی۔ اُن کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ‌ پاکستان ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل کا نام اُس وقت سے ہمارے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جب ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ آج بھی معلوماتِ عامّہ پر مشتمل سوالات ہوں یا انقلابی ایجادات کا تذکرہ کیا جائے، ٹیلی فون اور اس کے موجد گراہم بیل کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔

    مواصلاتی رابطے کے آغاز کی بات کریں تو لوگوں کو دور بیٹھے ہوئے ایک مشین یا آلے کی بدولت احباب کی آواز سننے کا موقع اسکاٹش موجد، انجینئر اور اختراع ساز الیگزینڈر گراہم بیل کی بدولت ملا اور 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون کی ایجاد نے دنیا کو بدل دیا۔ 1885ء میں گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف (AT&T) کے نام سے معروف ہوئی۔ لینڈ لائن فون سے ٹیلی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، جو آج اسمارٹ فون کی ترقی یافتہ شکل میں ہماری جیب میں موجود ہے۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں لفظ اور آواز کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ ان کے والد پروفیسر میلوِل بیل ماہرِ لسانیات تھے۔ انھوں نے’’فونیٹک الفابیٹ ‘‘ بنائے تھے۔ جب کہ والدہ ایلیزا گریس، سماعت سے محروم تھیں اور ان کے لیے آواز ایک جادوئی شے اور ایسی چیز تھی جس کے لیے وہ متجسس رہتی تھیں۔ ماں کے اسی تجسس نے گراہم بیل کو آواز کی سائنس Acoustics کے مطالعہ پر مائل کیا۔ وہ صرف سائنس میں ہی دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ والدہ کے طفیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا ذوق و شوق بھی ان میں‌ پیدا ہوا۔ اختراع اور نت نئی چیزیں بنانے کا ذوق لڑکپن سے ہی ان کے مزاج کا حصّہ رہا اور والد کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا۔

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ جس ایجاد نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، لیکن ٹیلی فون اور مواصلاتی نظام کو 1887ء میں جب برلن میں‌ عوام کے سامنے متعارف کروایا گیا تھا تو نام گراہم بیل کا ہی لیا گیا تھا۔ بعد میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ ہر جگہ نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت گیا ار اچانک لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ سامنے آیا کہ گراہم بیل سے 15 سال قبل ایک جرمن سائنس دان نے اسی موصلاتی نظام کے تحت کام کرنے والا ٹیلی فون ایجاد کیا تھا۔ یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل 1922ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کرکے امریکا جانے والے گراہم بیل باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں انھوں نے گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بنا کر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کردیا تھا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ گراہم بیل 23 برس کے تھے جب انھیں تپِ دق کا مرض لاحق ہوا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے۔ وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    گراہم بیل ایک درد مند انسان تھے اور وہ جذبۂ خدمت سے سرشار رہے۔ انھوں‌ نے تاعمر سماعت سے محروم افراد کی خوشی اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کے ذریعے آسان بنانے کی کوشش کی۔ گراہم بیل نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھی۔