Tag: یوم وفات

  • علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    ہندوستان میں اردو ادب، ترقی پسند تحریک کا عروج، پھر تقسیمِ ہند سے قبل انقلاب کی گونج میں جن اہلِ قلم نے شہرت اور نام و مقام پایا، علی سردار جعفری انہی میں سے ایک ہیں۔

    علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کی ترویج و تبلیغ تمام عمر کرتے رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی امن، ہندوستان میں بھائی چارے اور عالمی سطح پر انسان دوستی کا پرچار کیا۔ وہ فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور ہر خاص و عام نے ان کے کلام کو سراہا۔ آج علی سردار جعفری کا یومِ وفات ہے۔

    یہ بھی پڑھیے: اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    انقلاب آفریں نغمات کے خالق علی سردار جعفری نے اپنے تخلیقی وفور اور قلم کے زور پر ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اس دور کے نئے قلم کاروں کو متاثر کیا۔ وہ شاعر، نقّاد اور ایسے مضمون نگار تھے جن کے قلم سے کئی توصیفی اور تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے ہی نہیں نکلے بلکہ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی تذکروں پر مبنی تحریریں‌ بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    بنیادی طور پر علی سردار جعفری نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت نگاری بھی کی جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ علی سردار جعفری درد مند اور انسان دوست مشہور تھے اور ان اہلِ قلم میں سے ایک تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی اور ترقی کا خواب دیکھا اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور یکم اگست 2000ء کو ممبئی میں انتقال کیا۔

    ممتاز شاعر علی سردار جعفری نے ایک انٹرویو میں اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت اور اپنے ادبی سفر کا احوال یوں بتایا تھا: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔

    انھوں‌ نے اپنی تعلیم اور مشاغل و معمولاتِ نوعمری سے متعلق بتایا، سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔

    ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    وقت گزرا تو جہاں انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنایا اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے، وہیں آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلمی سفر درجہ بہ درجہ جاری تھا اور اسی دوران وہ شاعری اور کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مگن تھے، وہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔

    لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔

    1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    ان کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنتے تھے جب کہ ممبئ سے چھپنے والا سہ ماہی "نیا ادب” ان کے زیرِ ادارت شایع ہوتا تھا۔ علی سردار جعفری ایک بہترین مترجم بھی تھے اور شیکسپئر کی چند تحریروں کے علاوہ دوسرے قلم کاروں کی تخلیقات کے تراجم بھی کیے۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ انھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور فلم کی دنیا میں بطور مصنّف بھی جگہ بنائی۔

    بھارت میں علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے پدم شری ایوارڈ جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ علی سردار جعفری کو خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں عطا کیا گیا تھا۔ 1997ء میں بھارت نے انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ بھی دیا تھا۔

  • راس مسعود: ممتاز ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف

    راس مسعود: ممتاز ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف

    سیّد راس مسعود کا نام اور ان کا تذکرہ ہمیشہ کیا جاتا رہے گا کہ وہ ہندوستان کی تاریخ اور مسلم تہذیب کا ایک معتبر حوالہ اور قد آور شخصیت ہیں، لیکن نوجوانوں کو بالخصوص ان کی علمی خدمات سے واقف ہونا چاہیے۔ متحدہ ہندوستان کی متعدد درس گاہوں اور جامعات کے لیے راس مسعود نے بحیثیت مدرس اور منتظم کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے انھیں ملک بھر میں بڑی عزّت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

    راس مسعود، مصلح قوم اور ماہرِ تعلیم سر سید احمد خاں کے خاندان کے گلِ سرسبد تھے۔ ان کے والد مشہور ماہر قانون جسٹس سید محمود تھے۔ راس مسعود ان کے اکلوتے بیٹے اور سر سیّد احمد خاں کے پوتے تھے۔ سر سیّد نے اپنے پوتے کی ابتدائی تعلیم کا خوب اہتمام کیا۔ 1899ء راس مسعود کے والد انتقال کرگئے۔ راس مسعود نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا نہیں تھا کہ حکومت ہند کی طرف سے ان کا تعلیمی وظیفہ لگ گیا۔وہ برطانیہ روانہ ہو گئے جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔ وہاں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل تھیوڈور موریسن کا گھر ان کا مستقر ٹھہرا۔ یہ ان شخصیات میں سے تھے جو راس مسعود کے دادا کے شریکِ کار اور ان کی علمی خدمات کے بڑے معترف بھی تھے۔ آکسفورڈ میں داخلہ کے لیے لاطینی کا امتحان پاس کرنا لازمی تھا۔ جس کے لیے ای ایم فورسٹر ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ اس طرح مسعود اور فورسٹر میں رفاقت کا آغاز ہوا اور وہ اچھے دوست بھی بنے۔ راس مسعود نے 1907 کو نیو کالج آکسفورڈ میں تعلیم کا آغاز کیا۔ تین سال بعد 1910 میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر لنکنز اِن سے بیرسٹری کی سند لے کر 1912 میں ہندوستان واپس لوٹے۔ یہاں پٹنہ میں وکالت شروع کی۔ لیکن پھر اگلے سال ملازمت ملنے پر پٹنہ میں کالج کے پرنسپل کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ یہ تعلیم و تدریس کا شعبہ انھیں‌ بہت بھایا اور اپنی صلاحیتوں اور محنت و لگن کے ساتھ راس مسعود نے حیدرآباد دکن میں ڈائریکٹر ایجوکیشن، علی گڑھ میں وائس چانسلر اور بھوپال میں بطور وزیرِ تعلیم جو خدمات انجام دیں وہ ناقابلِ‌ فراموش ہیں۔ 1916 سے 1928 تک حیدر آباد دکن میں ان کا بڑا نام و مقام رہا۔ حضور نظام نے انھیں مسعود جنگ کے خطاب سے نوازا تھا۔راس مسعود پرائمری کی تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ 1921 میں پوری ریاست میں تعلیم مفت قرار دی گئی۔ انھوں نے پوری ریاست میں تعلیمی اداروں کا گویا جال بچھا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کتابوں‌ کی اشاعت اور ان کی ترویج کا بڑا کام کیا۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے نظامِ دکن نے خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے دل کھول کر رقم خرچ کی اور کلیہ جامعہ عثمانیہ کے پرنسپل راس مسعود مقرر ہوئے۔ متعدد عہدوں پر کام کرتے ہوئے جب جامعہ کے دستور کی تیاری کا موقع آیا تو اس میں بھی راس مسعود نے بڑا ہاتھ بٹایا اور جامعہ کا آئین اور قواعد و ضوابط مرتب کیے۔

    وہ جب علی گڑھ میں وائس چانسلر کے عہدہ سے مستعفی ہوئے تو انگلستان چلے گئے اور واپس آنے پر نواب صاحب ریاست بھوپال نے ان کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔ تادم آخر اس عہدہ پر فائز رہے اور خدمات انجام دیں۔ جس زمانہ میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے حکومت برطانیہ کی طرف سے ان کو نائٹ ہڈ کا خطاب عطا ہوا۔

    راس مسعود نے خرابی صحت کی بناء پر حیدر آباد کی ملازمت سے 1928 میں استعفیٰ دیا تھا اور بغرضِ‌ علاج انگلستان روانہ ہو گئے تھے۔ بعد میں‌ بہ سلسلۂ علاج جب وہ جرمنی میں مقیم تھے تو ان کو دو متضاد عہدوں کی پیش کش ہوئی۔ حیدر آباد میں پولیٹیکل سیکرٹری کا عہدہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وائس چانسلر کا۔ لیکن انھوں نے علی برادران کے کہنے پر علی گڑھ میں 1929 میں وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے تنِ مردہ میں راس مسعود نے دل سوزی اور دل جمعی سے نئی روح پھونک دی اور پانچ سالہ دور میں وہاں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

    سَر راس مسعود کے حالاتِ زندگی جاننے سے پہلے ان کے بارے میں‌ یہ تحریر پڑھیے جو اردو کے ایک صاحبِ طرز ادیب سیّد یوسف بخاری دہلوی کی کتاب ”یارانِ رفتہ“ سے لی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سر راس مسعود کی شخصیت اور اُن کی زندگی کے کارنامے جو جریدہ عالم پر ثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔ اکتوبر 1935 میں اپنے عزیز دوست پروفیسر محمد اختر انصاری علیگ کے ہاں علی گڑھ میں مہمان تھا۔ اسی مہینے کے آخری ہفتہ میں مولانا حالی مرحوم کا صد سالہ جشن (سال گرہ) پانی پت میں ہونے والا تھا۔

    وہ جذبہ تھا یا صوتِ حالی، اسی خیالی رو میں اختر کے ہمراہ بہہ کر پانی پت میں جا نکلا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ رضا کار جلسہ گاہ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں خیموں کی ایک عارضی بستی میں لے گئے۔ باقی رات ہم نے ایک خیمے میں گزاری۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نواب صاحب بھوپال کے استقبال کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔

    میں گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا کہ ناگاہ میرے کانوں میں ”یوسف“ کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرے قریب میرے عم بزرگوار شمس العلما سید احمد، امام جامع مسجد دہلی کھڑے تھے۔ فرمایا ”تم بھی جلسے میں آئے ہو؟“

    ”جی ہاں“ میں نے جواباً عرض کیا۔ فرمانے لگے۔ ”سنو نواب حمید اللہ خاں کے ہمراہ راس مسعود بھی آرہے ہیں، میرے ساتھ رہنا، موقع پاکر تمہیں اُن سے بھی متعارف کرا دوں گا۔ یہ مسعود رشتے میں میرا بھتیجا ہے۔“

    یہ ہم رشتہ ہونے کی بات پہلے بھی میرے کانوں میں پڑچکی تھی۔ لیکن اُس کی کڑیاں آج تک پوری طرح نہیں ملیں۔ خیر میں تو اس لمحے کا پہلے ہی سے متمنی تھا۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا۔

    ”میں نواب سَر راس مسعود کو اپنی کتاب ’موتی‘ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے اُن کو اپنا رومال دکھایا جس میں وہ کتاب لپٹی ہوئی تھی۔

    ”اچھا! تو تم اس لیے یہاں آئے ہو۔“ معاً گاڑی آگئی۔ والیِ بھوپال کے شان دار استقبال اور اُن کی روانگیِ جلسہ گاہ کے بعد امام صاحب نے راس مسعود سے میرا تعارف کرایا،

    ”مسعود! یہ میرے چھوٹے بھائی حامد کا بڑا لڑکا یُوسف ہے۔ یہ تمہیں اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہے۔“ سَر راس مسعود نے یہ سُن کر میرا سلام لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا، ”ہاہا! میرے بھائی کا بچہ یوسف ثانی! آؤ جانی میرے گلے لگو۔“

    پھر کتاب لے کر فرمایا، ”میں اسے کلکتہ سے واپس آکر اطمینان سے پڑھوں گا۔ بھوپال پہنچ کر تمہیں اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔“

    اس کے بعد ہم دونوں جلسہ گاہ میں گئے۔ امام صاحب آگے آگے میں اُن کے پیچھے پیچھے، جب اسٹیج کے قریب آئے تو امام صاحب کو اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میں فرش پر پہلی قطار میں ایک خالی کرسی پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ سَر راس مسعود نے اپنی گردن کے اشارے سے مجھے اوپر بلایا۔ پھر اُنگلی سے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس کے مصداق یہ جگہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔

    اس ایک روزہ اجلاس کی تمام کارروائی مقررہ نظام کے مطابق انجام پذیر ہوئی۔ اس نشست میں ان آنکھوں کو ڈاکٹر اقبال کا پہلا اور آخری دیدار نصیب ہوا۔

    وہیں میرے کانوں میں وہ نوائے سروش بھی گونجی جس کی مجھے ایک مدّت سے تمنا تھی۔ وہ خطبہ حمیدیہ بھی سُنا جو والیِ بھوپال نے ارشاد فرمایا تھا اور وہ اعلان عطیہ بھی جو مرحوم راس مسعود نے والیِ بھوپال کے ایما پر کیا تھا۔

    جلسے کے اختتام سے قبل راس مسعود نے حاضرین اسٹیج میں سے بعض کو وہ رقعات بھی تقسیم کیے جو جلسے کے بعد ظہرانہ کے متعلق تھے۔ رقعات دیتے وقت جب وہ میرے قریب آئے تو بااندازِ سرگوشی فرمایا، ”یوسف! تم بھی جلسے کے بعد ہمارے ہی ساتھ کھانا کھانا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کاش اُس دعوت کا وہ فوٹو مجھے حاصل ہوتا جس میں، میں امام صاحب کے پہلو میں اور اُسی صف میں یکے بعد دیگرے نواب صاحب بھوپال، سر راس مسعود اور ڈاکٹر اقبال جیسے اکابرِ وقت شریک طعام تھے۔

    سر راس مسعود 15 فروری 1889ء کو پیدا ہوئے تھے اور گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا، پانچ سال کے ہوئے تو اسکول جانے لگے۔ بعد میں ان کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا اور والد کی وفات کے بعد راس مسعود کی تعلیم و تربیت انھوں نے ہی کی۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے حق کے لیے انھوں نے اپنی تعلیمی مصروفیات سے وقت نکال کر تحریر و تقریر سے خوب کام لیا، لیکن ان کی پہچان ایک سیاسی مدبر کی نہیں ہے۔ راس مسعود کی تصنیف و تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ 1933ء میں آپ افغانستان کے دورہ میں اقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے ان کی اچانک وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے نظم بھی لکھی تھی۔ راس مسعود 30 جولائی 1938ء کو وفات پاگئے تھے۔

  • انگمار برگمین:‌ عالمی سنیما کا معتبر نام

    انگمار برگمین:‌ عالمی سنیما کا معتبر نام

    عالمی سنیما کی تاریخ کے چند عالی دماغ اور باکمال ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار فلمیں برگمین نے ہی سنیما کو دی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ اس ہدایت کار کے فن و تخلیق میں انفرادیت کا ثبوت ہیں۔

    سنیما سے پہلے انگمار برگمین نے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں بھی اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کو منوایا تھا۔ ان کی فلموں کا موضوع عام حالات، ازدواجی زندگی کے مسائل اور مذہبی فکر پس منظر رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور وہ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

    انگمار برگمین 14 جولائی 1918 کو سویڈن کے ایک شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن برگمین نے اس ماحول اور والد کی خواہشات کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

    برگمین کی نے اسی مذہبی سوچ اور مخصوص فکر کے حامل افراد، ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، انسانوں کی محرومیوں کو بڑے پردے پر کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ ہی نہیں ڈائریکشن بھی انگمار برگمین کی تھی۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی ہے، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ 1937 میں انھوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور یہاں تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع رہا جس نے ان کے ذہن کو مزید سوچنے، کھوجنے اور سوالات قائم کرنے پر اکسایا۔ یہیں انگمار برگمین اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ لکھنے لگے۔ 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

    عالمی سنیما کا یہ بڑا نام 30 جولائی 2007ء کو منوں مٹی تلے جا سویا۔ انھیں انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔ تین مرتبہ انگمار برگمین کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970ء وہ آسکر ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے جب کہ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی انگمار برگمین کے حصّے میں‌ آئے اور وہ سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت شمار کیے گئے۔

  • راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں کا نام تو شاید فن و ادب کے شیدائیوں نے سنا ہوگا، لیکن نئی نسل کے قارئین بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کے قلم کی روانی اور جولانیِ طبع سے بہت کم واقف ہوں‌ گے۔ انھیں بیسویں صدی کا منفرد مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور دلوں پر اثر کرنے والے گیتوں کا شاعر مانا جاتا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں‌ میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ راجہ صاحب زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں‌ آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں‌ انھوں نے بھارت میں‌ لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔

  • فرینک میکورٹ: ایک خوش قسمت قلم کار

    فرینک میکورٹ: ایک خوش قسمت قلم کار

    فرینک میکورٹ ایسے خوش نصیب تھے جس نے گویا راتوں رات شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کرلیے اور ان کی اوّلین تخلیقی کاوش ہی شاہکار تسلیم کی گئی۔ اس قلم کار کی پہلی تصنیف نہ صرف ’بیسٹ سیلر‘ ثابت ہوئی بلکہ فرینک میکورٹ پلٹزر انعام کے حق دار بھی ٹھہرے۔

    عالمی شہرت یافتہ مصنّف فرینک میکورٹ کی اس کتاب کا نام ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) ہے جو دراصل ان کے بچپن کے واقعات اور یادوں پر مبنی ہے۔ میکورٹ وہ خوش نصیب تھے جن کی یہ روداد امریکی قارئین کی دل چسپی اور توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کام یاب رہی اور بالخصوص امریکہ اور آئرلینڈ میں‌ اشاعت کے بعد فرینک میکورٹ کی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔

    فرینک میکورٹ نے 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا اور وہاں عوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میکورٹ کا خاندان آئرلینڈ منتقل ہوگیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے یہ کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور اپنی ہجرت کے واقعات کو دردمندی سے بیان کیا اور ساتھ ہی ایک نئی سرزمین پر اپنی نوعمری کے دنوں کی منظر کشی نہایت خوب صورتی سے کی۔ 19 جولائی 2009ء کو انتقال کرنے والے فرینک میکورٹ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔

    فرینک کا خاندان آئرلینڈ کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا اور فرینک نے وہاں اپنے والدین کو غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ والدین کی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی جدوجہد اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے بھاگ دوڑ نے فرینک کو بہت متأثر کیا اور وہ دن انھیں خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز کے اس مصنّف نے انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کیا اور ایک کہانی لکھ ڈالی۔ وہ اپنی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچانے گئے اور ادبی اعزازات اپنے نام کیے۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا لوٹ آئے۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔ فرینک میکورٹ کی اس تصنیف پر مبنی ایک فلم 1999ء میں ہالی وڈ بنائی گئی تھی۔ میکورٹ کی اس تصنیف کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔ مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے امریکہ کے مشہور شہر نیویارک میں گزرے ہوئے اپنے روز و شب کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا تھا۔

    فرینک میکورٹ اپنے ہم عصروں میں شہرت اور مقبولیت کے اعتبار سے زیادہ خوش قسمت اور کام یاب قلم کار تصوّر کیے جاتے ہیں۔ وہ 78 سال کی عمر میں‌ چل بسے تھے۔

  • موسیقار خلیل احمد کا تذکرہ جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوگئے تھے

    موسیقار خلیل احمد کا تذکرہ جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوگئے تھے

    موسیقی کی دنیا میں خلیل احمد کا نام ان کے ملّی نغمات ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ کی وجہ سے ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان خوب صورت ملّی نغموں کے ساتھ خلیل احمد کی دھنوں میں کئی فلمی گیت بھی مقبول ہوئے۔

    موسیقار خلیل احمد 1934ء میں یوپی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام خلیل احمد خاں یوسف زئی تھا۔خلیل احمد نے آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور 1952 ء میں پاکستان آگئے۔ یہاں وہ موسیقی کے میدان میں مہدی ظہیر کے شاگرد ہوئے۔ بعد میں فلمی دنیا میں بحیثیت موسیقار قدم رکھا اور 1962 ء میں فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوگئے اور خلیل احمد کا شمار پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب موسیقاروں میں کیا جانے لگا۔ موسیقار خلیل احمد کی مشہور فلموں میں دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، ایک مسافر ایک حسینہ، آنچ، داستان، آج اور کل کے نام سرفہرست ہیں۔ خلیل احمد نے 40 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ لیکن اس دور میں اکثر فلم ساز انھیں چربہ اور دوسرے موسیقاروں کی دھنیں سرقہ کرنے پر اصرار کرنے لگے تو خلیل احمد نے فلم کی دنیا سے دور رہنے کو ترجیح دی اور کام چھوڑ دیا۔ وہ ایک حقیقی تخلیق کار تھے اور خود دار انسان بھی جس نے فلم سازوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے سے انکار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیل احمد نے زندگی کے آخری کئی برس تقریباً گمنامی میں گزارے۔

    اسّی کی دہائی میں وہ ریڈیو اور پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کا بھی حصّہ رہے۔ انھوں نے بچوں کے ایک مقبول پروگرام ’’آنگن آنگن تارے‘‘ کی میزبانی بھی کی جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ خلیل احمد نے ٹیلی ویژن کے لیے متعدد نغمات کی موسیقی دی جو ان کے ملّی نغمات کی طرح بہت مقبول ہوئے۔

    21 جولائی 1997ء کو موسیقار خلیل احمد وفات پا گئے تھے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • زیڈ اے بخاری کا تذکرہ جو نئی منزلوں کی تلاش میں‌ رہتے تھے!

    زیڈ اے بخاری کا تذکرہ جو نئی منزلوں کی تلاش میں‌ رہتے تھے!

    ذوالفقار علی بخاری کو قدرت نے بڑی سخاوت اور فیاضی سے فنون و ادب میں امتیاز و اعتبار بخشا وہ متعدد زبانیں‌ جانتے تھے اور اردو زبان و بیان کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے اور تلفظ و ادائی سے متعلق ان کا کہا سند سمجھا جاتا تھا۔ انھیں عام طور پر زیڈ اے بخاری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاعر و ادیب، بہترین صدا کار اور ماہرِ نشریات زیڈ اے بخاری 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

    پشاور کے زیڈ اے بخاری کے ایک بھائی احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری تھے جنھیں خاص طور پر طنز و مزاح کے حوالے سے شہرت ملی اور وہ تقسیم سے قبل برطانوی ہند میں‌ ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی تھے۔ بعد میں وہ پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے اور اقوامِ متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ زیڈ اے بخاری، پطرس کے چھوٹے بھائی جو براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں ایک اساطیری کردار کے طور ابھرے۔

    زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    ذوالفقار علی بخاری بی بی سی اردو سروس کے اوّلین بانی ہیں۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے تو انہیں لندن بلایا گیا اور بی بی سی کی اردو سروس شروع کی گئی جس کے وہ بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ ان کا کام اور ان کی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ زیڈ اے بخاری کے بھائی پطرس بخاری برطانوی دور کے دہلی ریڈیو سے وابستہ رہے تھے۔ پطرس جب اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے تو اس وقت زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن چکے تھے۔ اس زمانے میں ان بھائیوں کی ریڈیو پر گویا اجارہ داری تھی۔ دونوں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ‘ریاست بہت مقبول تھا اور اس میں خاص طور پر حکومت، اشرافیہ اور نواب اور راجاؤں کے خلاف مضامین شایع ہوتے تھے۔ اس بڑے ادیب اور مدیر دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رسا کو ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے BBC (ریڈیو) کو ”بخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مخفف لکھ دیا۔ یہ بڑی دل چسپ اور معنی خیز اصطلاح تھی جو اس زمانے میں ایک مذاق کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تو زیڈ اے بخاری اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اردو زبان و بیان اور تلفظ کی درست ادائی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت ان کے زیرِ سایہ ہوئی۔

    بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری کا تذکرہ ہم کرچکے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری کی اور ان کے کردار سننے والوں کے دل پر نقش ہوگئے۔ شاعری اور مضمون نگاری بھی کی جب کہ فنِ موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں تھا اس فن کے اسرار و رموز بھی جانتے تھے اور اس فن پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ زیڈ اے بخاری ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے تھے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

    ’’سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری کی وہ خود نوشت ہے جس میں قاری کو خاص طور پر ریڈیو کے ابتدائی زمانہ کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی ریڈیو کے فن کار بعد میں ٹیلی ویژن کی طرف آئے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے’’ ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بار کفر کے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔ دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار، گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔‘‘

    زیڈ اے بخاری کی یہ سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے جن میں چرچل، ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فاسٹر، جارج اورویل، بلراج ساہنی کے دل چسپ قصّے بہت لطف دیتے ہیں اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے دوست تھے۔

    بخاری صاحب نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

  • آغا ناصر: منفرد فن کار، بے مثال شخصیت

    آغا ناصر: منفرد فن کار، بے مثال شخصیت

    علم و فنون کی دنیا کے کیسے کیسے گوہرِ نایاب تھے جو ہمیں فکر و نظر کی نئی رفعتوں اور شعور کی بلندیوں تک لے گئے اور فن کی دنیا میں‌ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے شان دار کام کیا۔ آغا ناصر ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنھوں نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کو کئی پروگرام اور وہ ڈرامے دیے جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    ریڈیو پر ’حامد میاں کے ہاں‘ اور ’اسٹوڈیو نمبر 9‘ اپنے وقت کے مقبول پروگرام تھے جب کہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن کے لازوال ڈرامے ہیں جن کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ معروف براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر آغا ناصر 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ ریڈیو اور پی ٹی وی کے ابتدائی اور سنہرے دور کی تاریخ آغا ناصر کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔

    آغا ناصر نے 9 فروری 1937ء میں میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں‌ نے بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے، اور یہاں آنے کے بعد تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر ایک علمی و ادبی شخصیت تھے جن کے بارے میں‌ کشور ناہید اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے تحریر کردہ سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور اس کے ہدایت کار بھی آغا ناصر تھے۔ انھوں نے ایک خودنوشت سوانح آغا سے آغا ناصر کے عنوان سے یادگار چھوڑی۔ اس میں آغا ناصر نے اپنی یادوں، باتوں اور ملاقاتوں پر مبنی تذکرے، دورانِ ملازمت پیش آنے والے واقعات کو رقم کیا اور اس خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے سامنے آئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے آغا ناصر کو فن کی دنیا میں خدمات پر تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • قتیل شفائی:‌ بے مثال غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار

    قتیل شفائی:‌ بے مثال غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار

    قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

    پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
    حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

    قتیل شفائی بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، رچاؤ اور غنائیت ان کے شعری اوصاف ہیں۔ غزل گوئی کے ساتھ قتیل شفائی نے بطور گیت نگار اپنے فن و تخلیقی صلاحیتوں کو بلاشبہ اس طرح منوایا کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات سدا بہار اور لافانی ثابت ہوئے۔ آج بھی ان کے فلمی گیت بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری میں جمالیاتی طرزِ احساس جس بھرپور توانائی اور تنوع کے ساتھ نظر آتا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

    اردو ادب میں قتیل شفائی ایک ایسے مشہور شاعر اور کئی مقبول نغمات کے خالق ہیں جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ قتیل شفائی کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا۔

    ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تعلق رکھنے والے قتیل شفائی 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ کم سنی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘ ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

    قتیل شفائی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں متعدد بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی۔ ان کے تحریر کردہ متعدد مقبول فلمی گیتوں میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو…‘ شامل ہیں۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ان کے شعری مجموعے ’’ہریالی، گجر، جلترنگ، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن اور آموختہ کے نام سے شایع ہوئے۔ ’’مطربہ ‘‘ وہ شعری مجموعہ تھا جس پر قتیل شفائی کو آدم جی ادبی ایوراڈ دیا گیا۔

    قتیل شفائی نے پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے اور یہی فلمی دنیا میں ان کی اوّلین کاوش تھی۔ ان کے مقبولِ عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔ پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے ان کے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بطور گیت نگار عمدہ تخلیقات پر قتیل شفائی کو متعدد خصوصی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    شاعر و نغمہ نگار قتیل شفائی نے ایک آپ بیتی بھی یادگار چھوڑی، وہ اس میں‌ اپنا ماحول اور ابتدائی حالات کچھ اس طرح بتاتے ہیں، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ قتیل شفائی کے ہاں دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    11 جولائی 2001ء میں قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    ان کی غزل کا ایک مشہور شعر دیکھیے:

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی، ملاحظہ کیجیے:

    گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
    ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

    شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
    ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

    بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
    شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

    خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
    جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

    ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
    آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

  • احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی دنیائے ادب کے ایسے قد آور تھے جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور اس کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ آج اردو زبان کے بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور اپنے وقت کے مقبول کالم نویس احمد ندیم قاسمی کی برسی ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور دو مرتبہ انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ 10 جولائی 2006ء کو وفات پانے والے احمد ندیم قاسمی ان شخصیات میں سے تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے نقوش کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑا۔