Tag: یوم وفات

  • ذہین طاہرہ:‌ پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ کی برسی

    ذہین طاہرہ:‌ پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ کی برسی

    ایک زمانہ تھا جب ملک میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر معیاری تفریحی پروگرام اور ڈرامے نشر ہوتے تھے اور اس دور کے فن کاروں سے گویا ہر چھوٹا بڑا اپنے کنبے کے کسی فرد کی طرح مانوس ہوتا تھا۔ ذہین طاہرہ نے بھی اسی دور میں اپنے مداحوں سے بڑا پیار اور احترام پایا۔ آج سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی ہے۔

    ذہین طاہرہ کا فنی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے لگ بھگ سات سو ڈراموں‌ میں کام کیا اور ناظرین کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اداکارہ کے کیریئر کا آغاز 1960ء میں ہوا تھا۔ اسٹیج اور ریڈیو کے بعد انھیں ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع ملا اور ذہین طاہرہ نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

    ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا ریکارڈ ساز ڈرامہ ہے۔ 1974 میں اداکارہ ذہین طاہرہ نے اسی ڈرامے میں مرکزی کردار نبھایا اور ہر خاص و عام کو اپنا مداح بنا لیا۔ یہ ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ ذہین طاہرہ نے پاکستانی فلموں میں بھی اداکاری کی اور ٹیلی ویژن کے لیے بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی قسمت آزمائی۔ ان کے چند مشہور ڈراموں میں منزل، مراد، آنگن ٹیڑھا، کرن کہانی، عروسہ، دستک، دیس پریس، وقت کا آسمان، شمع، وغیرہ شامل ہیں۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ وہ 1930ء میں پیدا ہوئیں اور ان کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگیا تھا۔ اداکارہ کو جولائی کے مہینے میں‌ دل کا دورہ پڑنے کے باعث کراچی کے ایک نجی اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، لیکن ان کی طبیعت نہیں سنبھل سکی اور 9 جولائی 2019ء وہ اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئیں۔ 2013 میں ذہین طاہرہ کو تمغائے امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

    50 کی دہائی میں ذہین طاہرہ کی شادی ہوگئی تھی۔ ان کے شوہر نے ان کے فن کی حوصلہ افزائی کی اور ٹی وی پر کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ وہ شوہر کی رضامندی اور معاونت سے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھنے میں کام یاب ہوئیں اور اردو کالج (وفاقی اردو یونیورسٹی) سے گریجویشن کیا۔ ان کے والد فوج میں شعبۂ طب سے وابستہ تھے۔ ذہین طاہرہ کو بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ سے جذباتی وابستگی رہی، بالخصوص گلوکاری اور رقص میں دل چسپی تھی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں انھیں ریڈیو پاکستان پر پہلی مرتبہ پروگرام بزمِ طلبا میں شرکت کرنے کا موقع ملا اور بعد میں وہ ریڈیو کے ڈراموں میں بطور اداکارہ کام کرنے لگیں اور پھر ٹیلی ویژن پر ہر طرح کے کردار نبھائے۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے سماجی ناہمواریوں، معاشرتی رویوں اور عام گھریلو کہانیوں سے متعلق تھے جن میں سے بیشتر میں ذہین طاہرہ کا کردار بہت طاقت ور تھا۔ ذہین طاہرہ نے ان کرداروں کو بخوبی نبھایا اور اپنے فنِ اداکاری سے ان میں‌ حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ ذہین طاہرہ گلوکاری کا بھی شوق رکھتی تھیں۔ انھوں نے کئی مواقع پر اپنے احباب کی فرمائش پوری کی اور اپنی آواز میں گیت سنائے۔ حلقۂ احباب بالخصوص ساتھی فن کار ذہین طاہرہ کو انتہائی نفیس، شفیق اور شگفتہ مزاج خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

    ان کی ذاتی زندگی کا ایک بڑا صدمہ اپنی بیٹی کی کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں‌ موت اور پھر بہو کا انتقال تھا۔ ذہین طاہرہ عام زندگی میں بھی نہایت خوش اخلاق اور اعلیٰ اقدار کی حامل خاتون کے طور پر مشہور تھیں اور ساتھی فن کاروں‌ اور جونیئرز کے لیے خاص طور پر وہ ایک استاد کا درجہ رکھتی تھیں۔

  • خاطر غزنوی:‌ اردو اور ہندکو کا معروف شاعر اور ادیب

    خاطر غزنوی:‌ اردو اور ہندکو کا معروف شاعر اور ادیب

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج اردو اور ہندکو کے اسی نام ور شاعر اور ادیب کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ خاطر غزنوی 7 جولائی 2008 کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    شاعر اور ادیب خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ 5 نومبر 1925 کو اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے خاطر غزنوی کی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے ہوا۔ بعدازاں اپنے شہر کی یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ 1984 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ شامل ہیں۔ وہ ڈرامہ نگار، ماہر لسانیات اور محقق کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے۔

    بطور شاعر خاطر غزنوی نے معیاری کلام تخلیق کیا جن میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ خاطر غزنوی کی غزل جدید طرز احساس کی نمائندہ غزل ہے۔ انھوں نے غم جاناں اور غم دوراں کو خوبصورتی سے اپنے اشعار میں‌ پیش کیا۔ حکومتِ پاکستان نے خاطر غزنوی کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

  • مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    آج کے دن مائی بھاگی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ لوک گلوکارہ نے پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اپنے مخصوص انداز اور طرزِ گائیکی کے سبب لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

    بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔ لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

    مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل میں‌ ان کی موت کا جو پروانہ موجود تھا، اس پر تاریخ 7 جولائی تھی۔ مائی بھاگی حج کے لیے نہیں‌ جاسکیں اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    شرلاک ہومز وہ سراغ رساں تھا جس نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا اور یہ خیالی کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا۔ جاسوسی ادب میں شرلاک ہومز جیسا مقبول کردار متعارف کروانے والے آرتھر کونن ڈوئل 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل نے اپنی کہانی اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) میں پہلی مرتبہ شرلاک ہومز کو متعارف کروایا تھا اور اِس کردار کو اپنے چار ناولوں اور پچاس سے زائد کہانیوں میں نہایت پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے واقعات کو اپنی ذہانت اور مہارت سے حل کرتے ہوئے دکھایا۔ اس کردار کو وہ قارئین کے سامنے محدب عدسہ تھامے، کسی مشکل کیس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کے دوران پائپ کے کش لگاتے ہوئے پیش کرتے تھے اور قاری کی بیتابی بڑھ جاتی تھی کہ یہ شاطر اور ذہین جاسوس کب اور کس طرح مجرم تک پہنچے گا اور کوئی راز ان پر کب کھلے گا۔ شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب فروخت ہوئے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • چیتن آنند:‌ فلم نیچا نگر نے انھیں‌ عالمی سنیما میں‌ پہچان دی

    چیتن آنند:‌ فلم نیچا نگر نے انھیں‌ عالمی سنیما میں‌ پہچان دی

    فلم نیچا نگر کے ہدایت کار چیتن آنند تھے اور 1946ء میں‌ اس فلم کی بدولت انھیں عالمی سنیما میں بھی پہچان ملی۔ چیتن آنند نے کانز کے مشہورِ زمانہ فلمی میلے میں بہترین فلم کا ایوارڈ اسی فلم پر حاصل کیا تھا۔ 6 جولائی 2007ء میں چیتن چل بسے تھے۔ آج بھی ان کا ذکر اپنے دور کے کام یاب فلم ساز اور رائٹر کے طور پر کیا جاتا ہے۔

    1940ء کے اوائل میں جب چیتن آنند تاریخ کے مضمون کی تدریس سے منسلک تھے، تب انھوں نے ایک فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    نوجوانی میں‌ چیتن کو تھیٹر اور فلم میں دل چسپی پیدا ہوئی اور فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے بعد بطور ڈائریکٹر ان کی پہلی کاوش ان کی وجہِ شہرت بن گئی۔ ’نیچا نگر‘ بھارت میں رجحان ساز ثابت ہوئی۔ اس فلم کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے وہاں کے فلم ساز سماجی حقیقت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے بعد چیتن آنند نے افسر، آندھیاں، ٹیکسی ڈرائیور، ارپن، حقیقت، آخری خط اور ہیر رانجھا جیسی فلمیں ریلیز کیں جو کام یاب ہوئیں۔ ان فلموں میں دیو آنند بھی اپنے بھائی کے معاون رہے۔ دراصل انھوں نے مل کر 1950ء کے اوائل میں فلم سازی کا فیصلہ کرکے ایک ادارہ بنام نوکتن فلمز شروع کیا تھا۔ چیتن آنند تو ہدایت کار اور فلمی مصنّف کے طور پر جانے گئے، لیکن ان کے چھوٹے بھائی دیو آنند نے بطور اداکار ہندی سنیما میں خوب نام کمایا وہ ہر قسم کے کردار خوبی سے نبھاتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کے سدا بہار فن کار مشہور ہوئے۔

    چیتن آنند نے اپنی ایک فلم میں‌ شملہ کی ایک لڑکی کو متعارف کروایا تھا جس کا نام پریا راج ونش (Priya Rajvansh) اور فلم کا نام حقیقت تھا۔ پریا راج ونش اور ہدایت کار چیتن آنند کی عمر میں‌ 20 برس کا فرق تھا۔ یہ فیچر فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی جو پروڈیوسر اور ہدایت کار چیتن آنند کی ایک اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم نے بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ اپنے نام کیا۔ جس زمانے میں پریا سے ہدایت کار چیتن کی ملاقات ہوئی، وہ اپنی بیوی سے الگ ہوچکے تھے۔ ان کے دو بچّے بھی تھے، مگر چیتن آنند اس نوعمر لڑکی پریا جو فلم کی دنیا میں نوارد بھی تھی، پر فدا ہوگئے اور پریا نے بھی ان کی محبّت کو قبول کر لیا۔ ان دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور ایک جگہ رہے، مگر شادی نہیں‌ کی۔ چیتن کے فلمی سفر کے ساتھ اُن کا اپنی محبّت یعنی پریا سے تعلق برقرار رہا۔ پریا وہ اداکارہ تھی جس نے صرف چیتن آنند کی فلموں‌ میں کام کیا اور کبھی کسی اور بینر تلے نظر نہیں‌ آئی۔ نوکتن فلمز نے 1970ء میں فلم ہیر رانجھا ریلیز کی جس میں‌ مرکزی کردار (ہیر) پریا نے نبھایا اور لاجواب اداکاری کی۔

    چیتن آنند بطور ہدایت کار اپنی کام یابیوں اور خوشی و غم میں شریک پریا سے اپنے تعلق کو تاعمر کوئی نام نہیں دے سکے جس سے انھیں سماج میں عزّت اور اعتبار حاصل ہوتا، اور چیتن کی موت کے بعد وہ درد ناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ 1937ء میں پیدا ہونے والی پریا راج ونش کو ممبئ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ 27 مارچ 2000ء کا واقعہ ہے۔ ابتدائی طور پر اسے حادثہ سمجھا گیا، لیکن پھر سامنے آیا کہ اس قتل میں چیتن کے دونوں بیٹے ملوث ہیں جنھیں گرفتار کرلیا گیا اور انھیں سزا ہوئی۔ معلوم ہوا کہ قتل کی وجہ وہ جائیداد اور دولت تھی جسے چیتن آنند نے اپنی وصیت میں‌ پریا راج ونش کے نام کیا تھا۔

    چیتن آنند کا آبائی شہر لاہور تھا جہاں انھوں نے 1915ء میں‌ آنکھ کھولی، والد نے انھیں روایتی مذہبی اور مخصوص نظامِ تعلیم کے تحت پڑھنے کے لیے بھیج دیا، بعد میں چیتن آنند نے لاہور سے انگریزی کے مضمون میں‌ گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اداکار دیو آنند ان کے بھائی تھے۔

  • مشہور فلمی اداکار ساون کا تذکرہ جسے غرور اور لالچ لے ڈوبا

    مشہور فلمی اداکار ساون کا تذکرہ جسے غرور اور لالچ لے ڈوبا

    فلمی دنیا کے کئی ستارے ایسے ہیں‌ جنھوں نے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ اپنے فلمی کیریئر میں خوب دولت بھی سمیٹی، لیکن بددماغی اور لالچ انھیں لے ڈوبی۔ اداکار ساون نے پاکستان کی فلمی صنعت کے عروج کے زمانہ میں بے مثال شہرت پائی اور حیرت انگیز کام یابیاں حاصل کیں۔ وہ ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کیریکٹر ایکٹر تک صفِ اوّل کے اداکاروں‌ میں شمار کیے گئے، لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

    اداکار ساون دراز قد اور تنو مند ہی نہیں تھے بلکہ گرج دار آواز کے مالک بھی تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے بھی فلم میں ان کا کردار لکھا جاتا تھا۔ وقت بدلا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ 60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کو بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔

    ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں‌ ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں‌ کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بد دماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں‌ سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں‌ کئی کام یاب فلمیں‌ دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں‌ اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں جدید افسانہ نگاری کا وہ نام ہے جسے مختصر کہانی اور افسانے کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ موپساں کو فطرت نگاری اور سماجی حقیقت پسندی میں کمال حاصل تھا۔ اسی وصف کی بنیاد پر آج بھی دنیائے ادب میں موپساں عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

    مشہور ہے کہ موپساں صاف گو، جرأت مند تو تھا ہی، لیکن ضدی اور انا پرست بھی تھا۔ موپساں زندگی کی فقط 42 بہاریں دیکھ سکا اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچا۔ موپساں نے انسان کی بے بسی اور بے کسی کی تصویریں اس طرح کھینچی ہیں کہ اس کا قاری ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

    موپساں کا اندازِ بیان بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔ اس کے افسانے ابلاغ کی قوّت سے بھرپور ہیں جن میں‌ اکثر موپساں انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے مشاہدے اور تجربات سے حالات کی ستم ظریفی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے اسلوبِ نگارش کی ایک خوبی کلائمکس ہے۔ موپساں کے اکثر افسانوں کا انجام حیران کن ہوتا ہے۔ اس کا پہلا افسانہ بال آف فیٹ (Ball of fat) تھا جسے شاہ کار مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے افسانے بھی بہت پسند کیے گئے۔ موپساں نے جدید افسانوی ادب میں متعدد رجحانات متعارف کرائے اور بعد میں آنے والوں نے اس کی تقلید کی۔ عالمی ادب میں موپساں نے اپنے طرزِ‌ نگارش اور نظریۂ ادب کی وجہ سے منفرد مقام بنایا۔

    وہ 17 سال کا تھا جب اس کی ماں نے اپنے دور کے بلند پایہ ادیب فلابیئر کو کہا کہ وہ اس کے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھ لے اور اسے لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ معروف ادبی نقاد احمد عقیل روبی لکھتے ہیں، فلابیئر کی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتا تو ایک کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ کھانا کھاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کمرے میں جا کر کوٹ اتارتا، جوتے اتار دیتا۔ بنیان قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دیتا۔ پھر شراب پیتا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتا جب کھا کر مدہوش ہو جاتا اور لڑکھڑانے لگتا تو اس کو سہارا دے کر گھر حفاظت سے لانے کا فریضہ اُس کا ہونہار شاگرد ادا کرتا تھا۔ یہ شاگرد کوئی اور نہ تھا۔ سترہ سالہ موپساں تھا۔ موپساں کی ماں اور اس کے باپ کے مزاج اور عادات میں بڑا فرق تھا۔ موپساں کی ماں ادبی اور شعری ذوق رکھتی تھی، پیرس کے ادیبوں اور شاعروں سے اس کا ملنا جلنا تھا۔ انگریزی کلاسیک ادب سے شد بد رکھتی تھی۔ شیکسپیئر اُس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ موپساں کا باپ ایک اسٹاک بروکر تھا۔ دونوں خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مگر موپساں کا باپ سب کچھ رکھتے ہوئے ادبی ذوق اور حسِ لطیف سے دور تھا۔ موپساں کی ماں اس کے باپ کے دو بچّوں کی ماں بنی مگر پھر اس کے ساتھ گزارا مشکل سمجھا۔ وہ ایک آزاد خیال عورت تھی۔ عورت کا خاوند سے طلاق لینا اس زمانے میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس نے یہ معاشرتی اور سماجی بدنامی مول لی اور طلاق لے لی۔ اسے ماں نے فلابیئر کی شاگردی میں دے دیا۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ وہ 1893ء میں چل بسا تھا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت کی بدولت تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں نے شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی اس کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔ اور چھے جولائی 1893ء میں‌ انتقال کرگیا۔ انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں شایع ہوئے۔

    احمد عقیل روبی مزید لکھتے ہیں، موپساں نے بہت مختصر زندگی پائی مگر مختصر کہانی اور افسانے کا امام کہلایا۔ کہتے ہیں یہ سب فلابیئر کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھا۔ فلابیئر اس کا گرو اور گاڈ فادر تھا۔ لکھنے اور کہانی کہنے کے دنگل میں اس نے موپساں کو عملی اور فکری تربیت دی۔ جملے کی ساخت اور الفاظ کے استعمال کے گر سکھائے، کہانی شروع کرنے اور اسے احسن طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ سجھایا اور قدم قدم پر اس کی راہنمائی کی…الفاظ سے تصویر بنانے کا فن، الفاظ کو برمحل استعمال کرنے کا گُر اور سادہ طرزِ تحریر، جملے کا اختصار۔ فلابیئر کی بتائی ہوئی یہ باتیں اس نے پلے باندھ لیں اور پھر اپنی محنت اور لگن سے وہ دنیا کا بڑا افسانہ نویس بن گیا۔ پہلی بار ایک اسکول میں داخل ہوا تو مذہب کے بارے میں اپنے منفی خیالات کی بنا پر اسکول سے نکال دیا گیا۔ دوسرے اسکول میں جا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شاعری میں دل چسپی لی اور ادب کا مطالعہ کیا۔ بی۔ اے کرتے ہی فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑ گئی۔ موپساں نے رضا کارانہ طور پر جنگ میں اپنا نام لکھوا دیا… 1871ء میں جنگ سے فارغ ہو کر پیرس آ گیا اور نیوی کے محکمے میں دس سال کلرکی کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلابیئر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ادب اور صحافت کے میدان کا کام یاب کھلاڑی بنا دیا۔ 1880ء کی دہائی کا زمانہ موپساں کے تخلیقی عروج کا زمانہ ثابت ہوا۔ اس نے اپنا پہلا ناول Boule de Suif اسی زمانے میں لکھا جسے فلابیئر نے زندہ رہنے والا شاہ کار قرار دیا۔ ’’مادام فی فی ‘‘ اور Mother Savage جیسی کہانیاں لکھیں۔ موپساں نے چھ ناول لکھے۔ اس کی بے شمار کہانیوں کی فہرست دینا ممکن نہیں۔ اس کی 60 سے زیادہ کہانیاں شاہ کار تصور کی جاتی ہیں۔

  • ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل کا تذکرہ

    ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل کا تذکرہ

    ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کی اوّلین شناخت ہے اور بعد میں وہ اردو ادب میں ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ تصنیف و تالیف، اداریہ نویسی اور معروف جریدہ نقوش کے خاص نمبر کا اجراء ادبی صحافت میں‌ محمد طفیل کا امتیاز ہیں۔ آج محمد طفیل کی برسی ہے۔

    ادبی جریدہ نقوش کا اجراء محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور بعد میں اس کی ادارت بھی سنبھالی۔ وہ ایک کام یاب ادبی پرچے کے مالک اور اس کے مدیر ہی نہیں تھے بلکہ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک تھے جنھیں بطور مصنّف بھی اہلِ قلم اور باذوق قارئین نے پسند کیا۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    پروفیسر مرزا محمد منور نے محمد طفیل کے بارے میں لکھا: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    5 جولائی 1986ء کو محمد طفیل وفات پاگئے تھے۔ نقوش کی ادارت سنبھالنے کے بعد اداریہ نویسی سے محمد طفیل کی تحریروں کا سلسلہ شروع ہوا اور بعد کے برسوں‌ میں وہ ادبی تذکرے اور مضامین رقم کرنے لگے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے شخصی خاکے بھی لکھنا شروع کردیے۔ محمد طفیل کی علمی و ادبی شخصیات سے خط کتابت کا سلسلہ ایک عام بات تھی، لیکن اس میں مدیر کے نام آنے والے مشاہیر کے خطوط جو ایک طرف اپنے طرزِ نگارش کا شاہ کار تھے اور دوسری جانب ان کی بڑی علمی و ادبی اہمیت اور افادیت تھی، انھیں بھی یکجا کرکے کتابی شکل دے دی جس سے آج بھی ہمیں اپنے دور کے مشاہیر اور معروف اہلِ قلم کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    14 اگست 1923ء کو محمد طفیل نے لاہور میں آنکھ کھولی تھی۔ محمد طفیل نے مشہور و نام ور خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی سیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شروع ہی سے علم و فنون سے شغف رکھتے تھے۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے، لیکن بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے نبھائی۔ نقوش ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں ایک مقبول جریدہ تھا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور نقوش کے قارئین ملک بھر میں موجود تھے۔

    مدیر کی حیثیت سے محمد طفیل نے نقوش کے کئی خاص نمبر شایع کیے۔ انھوں نے اس جریدہ کے غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع کیے۔ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کے فن کا احاطہ کرتے شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی شمارے یادگار ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کس طرح پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    ان کے شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ محمد طفیل کی ایک خود نوشت بھی بعد از مرگ بعنوان ناچیز شایع ہوئی تھی جب کہ نقوش نے بانی مدیر محمد طفیل پر خاص شمارہ جاری کیا تھا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مسعود اشعر:‌ افسانہ نگار، صحافی اور مترجم

    یہ ستّر کی دہائی تھی جب مسعود اشعر نے اپنی کہانیوں سے ادبی دنیا میں پہچان بنائی۔ انھوں نے اپنے قارئین کے سامنے انسانی رشتوں کی الجھنیں، سماج اور لوگوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو اپنے کرداروں اور مناظر کے ساتھ مؤثر انداز میں پیش کیا۔

    مسعود اشعر کو افسانہ نگار، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 5 جولائی 2021ء کو مسعود اشعر انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا، تب وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انھیں رام پور چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ملتان چلے آئے اور پھر لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔1930ء میں پیدا ہونے والے مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ پاکستان میں انھوں نے علمی صحافت کا آغاز کیا اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لینے لگے۔ لاہور اور ملتان میں انھوں نے روزنامہ احسان، زمین دار، آثار اور امروز میں کام کیا۔ وہ ایک معروف علمی ادارے کے سربراہ بھی رہے۔ کالم نگاری بھی مسعود اشعر کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ شمیم حنفی نے مسعود اشعر کے بارے میں لکھا ہے، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش و خروش نہیں۔ مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر نے صحافت کی دنیا میں ہمیشہ حق گوئی اور جرأت سے کام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور مسعود اشعر امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس سانحے کی خبر نہ بنائی جائے۔ مسعود اشعر اس کے لیے تیّار نہ ہوئے۔ اخبار میں خبر چھپی تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بے روزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادیٔ صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

    مسعود اشعر کے افسانے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی صورت میں شایع ہونے کے بعد جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں‌ ان میں متنوع موضوعات پر مسعود اشعر نے اپنے تخلیقی وفور کا اظہار کیا ہے۔ ایک کتاب ’’سارے افسانے‘‘ اور دوسری ’’اپنا گھر‘‘ کے عنوان سے اور چند برس قبل ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

  • مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    سندھی زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کرنے والوں میں ایک نام مرزا قلیچ بیگ کا بھی ہے۔ انھوں نے سندھی میں ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کے علاوہ متعدد غیر ملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم اور مختلف موضوعات پر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مرزا قلیچ بیگ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    1929ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ صوبۂ سندھ کی اس معروف علمی شخصیت کی 400 سے زائد کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ان کی اکثر تحریریں ڈرامے سے متعلق اور ڈرامہ پر مشتمل ہیں جب کہ تراجم الگ ہیں۔ شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور آٹھ ڈراموں کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے قلیچ بیگ نے خود بھی 32 ڈرامے تحریر کیے جن کا پلاٹ اس زمانے کے رومانوی، تاریخی اور سماجی موضوعات پر بُنا گیا۔ کہتے ہیں‌ 1880 میں انھوں نے پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کیے گئے۔ مرزا قلیج بیگ کا ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ ان کی تخلیق کہلاتے ہیں جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے بتایا جاتا ہے، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نو مسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے اس زمانے میں سندھ لائے گئے تھے۔ یہاں شادی کے بعد ان کے گھر 1853ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مرزا قلیچ بیگ نے مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ قلیچ بیگ نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ ان کے بزرگوں کی زبان فارسی اور عربی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے روزنامچوں میں اپنے بزرگوں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ قلیچ بیگ نے 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ سندھ اپنے گھر واپس آگئے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے بالخصوص تراجم پر توجہ دی اور قارئین کو تاریخ، لطیفیات، شاعری، تنقید اور سائنس کے علاوہ کئی موضوعات پر عمدہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’زینت‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول کو پہلا سندھی ناول کہا جاتا ہے۔

    مرزا قلیچ بیگ ایک بیدار مغز انسان اور باشعور فرد تھے جس نے تعلیم کی اہمیت کے ساتھ ادبی کاموں اور سندھی زبان کی خدمت کو ضروری سمجھا۔ انھوں نے اپنے علمی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ سرکاری نوکری بھی کی اور مختلف عہدوں‌ پر فائز ہوئے۔ 1879 میں مرزا قلیچ بیگ ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر ہیڈ منشی بھرتی ہوگئے تھے۔ 1891 میں ایک اور امتحان پاس کر کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں انھوں نے سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔