Tag: یوم وفات

  • عالم لوہار:‌ بانکے سجیلے لوک فن کار کا تذکرہ

    عالم لوہار:‌ بانکے سجیلے لوک فن کار کا تذکرہ

    برصغیر پاک و ہند میں لوک موسیقی اور مقامی سازوں کے ساتھ اپنے فن کا جادو جگا کر یہاں مقبول ہونے والے فن کاروں میں کئی ایسے بھی ہیں جنھیں ان کے فن کی بدولت دنیا بھر میں شہرت ملی اور انھوں نے بیرونِ ملک اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا۔ عالم لوہار انہی میں سے ایک ہیں، لیکن ان کی پہچان ایک ایسے بانکے سجیلے فن کار کے طور پر بنی جس نے چمٹے کو بطور ساز استعمال کرتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں اور ہنر کو آزمایا اور شہرت پائی۔

    عالم لوہار کی انفرادیت ان کی خاص ثقافتی پہچان کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں‌ سُر بکھیرتا اور نغمگی کا احساس دلاتا ایک چمٹا تھا جس کے ذریعے انھوں نے بڑی مہارت سے موسیقی بکھیری۔ وہ پاکستان کے ایسے لوک فن کار تھے جن کا تعلق پنجاب کی دھرتی سے تھا۔ پنجاب جو کئی لوک داستانوں اور اپنی ثفاقت کی وجہ سے مشہور ہے، اس مٹی پر جنم لینے والے عالم لوہار کی آواز میں بہت سے گیت امر ہوگئے۔ مارچ 1928ء میں گجرات میں‌ پیدا ہونے والے عالم لوہار کو قصہ خوانی اور داستان گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ناقدینِ فن کہتے ہیں کہ عالم لوہار نے لوک داستانوں کو اس دردمندی، ذوق و شوق اور سچائی کے ساتھ گایا کہ سننے والوں کے دلوں میں اترتی گئیں۔ انھوں نے جو گیت گائے ان میں پیار محبت کا درس اور نصیحت ملتی ہے اور ان کی آواز میں‌ لوک موسیقی ایک خوب صورت پیغام بن کر سماعتوں کو معطر کرتی ہے۔

    عالم لوہار بچپن ہی سے خوش الحان تھے اور شروع ہی سے گانے کا شوق تھا۔ پنجاب کا خاص کلچر ہمیشہ سے موضوعِ بحث رہا ہے جس میں بیٹھکوں اور نجی محافل میں قصّے کہانیاں، حکایات، گیت اور کافیاں سن کر لوگ اپنا دل بہلاتے تھے۔ عالم لوہار اپنی منفرد آواز میں لوک داستانوں کو لے اور تال کے ساتھ انہی بیٹھکوں میں دوسروں کو سنایا کرتے تھے۔ یہ اس دور میں لوگوں کی تفریحِ طبع کا بہترین ذریعہ تھا جب کہ میلے ٹھیلے، اکھاڑے اور تھیٹر بھی اس دور میں بہت مقبول تھے۔ عالم لوہار نے اپنے علاقہ کے لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا اور پھر وہ میلے ٹھیلوں اور تھیٹر کے لیے بھی پرفارم کرنے لگے۔ اس وقت ان کے ہم عصروں میں عنایت حسین بھٹی، بالی جٹی، طفیل نیازی، عاشق جٹ اور حامد علی بیلا وغیرہ کے تھیڑ پنجاب کے طول و عرض میں خاصی شہرت رکھتے تھے اور لوگ ان کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ عالم لوہار نے داستان امیر حمزہ، مرزا صاحباں، داستانِ ہیر رانجھا اور سسی پنوں کے علاوہ جگنی اور مختلف گیت بھی گائے جن میں سے کچھ پنجابی فلموں کا بھی حصہ بنے تاہم ان کی گائی ہوئی جگنی ان کی وجہِ شناخت بنی اور اسے ہر جگہ سراہا گیا۔ عالم لوہار کے فرزند عارف لوہار نے بھی اسی فن کو اپنایا اور شہرت حاصل کی۔

    عالم لوہار کے ایک ساتھی فضل کریم قسائی ان کا ساتھ نبھاتے تھے اور وہ الغوزہ بجاتے تھے۔ عالم لوہار اور ان کا ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔ عالم لوہار نے زندگی کے آخری ایام میں وطن تھیٹر کے ساتھ زیادہ کام کیا اور پرفارمنس سے لوک موسیقی کے دیوانوں کو محظوظ کرتے رہے۔ عالم لوہار اکثر اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود ہی بناتے تھے۔ ان کا معروف گیت ’’واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں، کسے نے میری گل نہ سنی‘‘ انہی کا لکھا ہوا تھا اور اس کی دھن بھی عالم لوہار نے بنائی تھی۔ ان کی آواز میں ’’دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا، اپنیاں سوچا وچ آپ مر جائی دا‘‘ نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ عارفانہ کلام میں ’’ساری رات تڑف دیا لنگھ جاندی، درداں دے مارے نئی سونداے، جیڑی رات نوں سوہنا چن نہ چڑھے، اس رات نوں تارے نئی سوندے‘‘ نے عالم لوہار کو بہت شہرت دی۔

    گلوکار عالم لوہار کی شناخت ان کے شانوں تک لٹکے بال، اور کڑھائی والے کرتے ہوا کرتے تھے جس میں ان کی چھب ہی نرالی ہوتی۔ اس کے ساتھ چمٹا جسے انھوں نے بطور ساز استعمال کیا کچھ اس خوبصورتی سے ان کی شان بڑھاتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

    عالم لوہار 3 جولائی 1979ء کو مانگا منڈی کے قریب ٹریفک حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پنجاب کا یہ عظیم لوک فن کار لالہ موسیٰ میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ عالم لوہار کو حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے فن کاروں کی کہکشاں میں شامل کئی چہرے اُس نسل کی یادوں کا حصّہ ہیں جس نے گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں ہوش سنبھالا۔ انہی میں ایک فن کار حسام قاضی ہیں جو ٹی وی ڈراموں میں اپنے کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئے۔ 3 جولائی 2004ء کو اداکار حسام قاضی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    حسام قاضی نے 4 مارچ 1961ء کو کوئٹہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ زندگی نے انھیں بہت کم مہلت دی اور صرف 42 سال جیے۔ کراچی میں وفات پانے والے حسام قاضی کے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے ہوا تھا۔ یہ کوئٹہ سینٹر کی پیشکش تھی اور اس کے پروڈیوسر دوست محمد گشکوری تھے۔ اس دور میں‌ پی ٹی وی باکمال ہدایت کار کاظم پاشا کے ڈرامہ سیریل "چھاؤں” کے ایک کردار سے حسام قاضی کو ملک گیر شہرت ملی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کرنے والے حسام قاضی کامرس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ کوئٹہ کے ایک کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کے ساتھ حسام قاضی نے اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ منفرد آواز انداز اور متاثر کن شخصیت کے ساتھ اپنے خوب صورت لب و لہجہ سے حسام قاضی نے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے قابلِ ذکر فن کاروں میں سے ایک تھے۔

    اداکار حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، چاکرِ اعظم، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیرِ تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔ سنہ 2000ء میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ اداکار نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن پر حسام قاضی نے اپنے وقت کے باکمال اور سینئر فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور ان کے درمیان اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ ماروی کو حسام قاضی کے کیریئر کا ایسا کھیل کہا جاسکتا ہے جسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور حسام قاضی کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔

  • مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    ادبی دنیا کے ناقدین کا خیال ہے کہ ماریو پوزو(Mario puzo) کا تذکرہ کیے بغیر گزشتہ دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور شارٹ اسٹوری رائٹر ماریو پوزو کا جرم اور اس تاریک دنیا پر مبنی ایک ناول ‘دی گاڈ فادر’ بہت مقبول ہوا جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ماریو پوزو کے حالاتِ زندگی، ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بہترین ناول نگار ہی نہیں مختصر کہانی نویس اور اسکرین رائٹر بھی تھے اور باکمال ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ماریو پوزو کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ان کا تعلق جس کنبے سے تھا، وہ امریکہ میں مقیم تھا۔ یہاں نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو 15 اکتوبر 1920ء میں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معمولی گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو انھوں‌ نے امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کر لی لیکن معلوم ہوا کہ ماریو پوزو کی نظر کمزور ہے۔ ان کے لیے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں اسامی نکالی گئی اور وہاں تبادلہ کر دیا گیا۔ ماریو پوزو مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ دورانِ ملازمت ان کے افسانوں اور کہانیوں‌ کی شکل میں جاری رہا اور رفتہ رفتہ ماریو پوزو قارئین اور ادبی دنیا میں پہچان بنانے لگے۔

    1950ء میں نوجوان ماریو پوزو کا پہلا افسانہ شایع ہوا۔ بعد کے برسوں‌ میں ماریو پوزو نے شارٹ اسٹوریز کے ساتھ ناول نگاری بھی شروع کردی اور پھر وہ جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر اپنی کہانیوں‌ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ماریو پوزو نے گیارہ ناول لکھے جن میں سب سے زیادہ مقبول ناول گاڈ فادر ہے۔ اسی ناول نے عالمی ادب میں ماریو پوزو کو شناخت دی۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مبنی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور مضمون نگار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ اس امریکی ادیب کے افسانوں اور ناولوں نے قارئین کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر وہ جس طرح مافیا کے دھندوں اور تاریک دنیا کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، ان میں وہ اپنے تخیل اور قوّتِ مشاہدہ سے بڑا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ماریو پوزو کا نام آج بھی عالمی ادب میں ان کے قلم کے اسی وصف کی بدولت زندہ ہے۔

    ناول دی گاڈ فادر پر مبنی فلم کی بات کریں تو اس میں‌ مافیا کے سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) کو مصنّف نے ایک جہاں دیدہ شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ نیویارک شہر کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں مافیا کے مختلف خاندان علاقہ اور غیرقانونی کاروبار کی دنیا میں اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران گاڈ فادر یعنی کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف کا کمال یہ ہے کہ اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور ان کے رویے کو‌ بیان کیا ہے اور یہی تفصیل اس کہانی کو مؤثر اور دل چسپ بناتی ہے۔ ناول کے کردار دنیاوی فہم و فراست اور ذہانت سے مالا مال ہیں لیکن مصنّف کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کو فلسفہ بگھارے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس ناول پر مبنی فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس میں مارلن برانڈو نے بھی کردار ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے تھے۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک زمانہ میں ماریو پوزو مالی مسائل کا شکار تھے اور مقروض ہوچکے تھے، جب کہ ان کو اپنی تخلیقات کی اشاعت سے مالی نفع نہیں‌ مل رہا تھا۔ تب انھوں‌ نے گاڈ فادر لکھنا شروع کیا اور حیران کن طور پر اس نے ماریو پازو کو شہرت اور مالی آسودگی بھی دی۔ اس ناول کا متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    ناول میں ماریو پوزو کے بیٹے کا ایک مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ ان کے فرزند نے لکھا کہ والد کے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں 67 ہفتے تک شامل رکھا۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے شادمانی اور مسرت کا اظہار باقاعدہ بگل بجا کر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور لوگوں کو متوجہ کرکے بتایا کہ اس کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف مقبول ادیب بنا بلکہ اس نے اپنی تخلیقات پر نوبیل انعام بھی پایا۔ لیکن اس امریکی ناول نگار کی زندگی دردناک انجام سے دوچار ہوئی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کر لی تھی۔

    آج عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور مشہور صحافی ارنسٹ ہیمنگوے کا یومِ وفات ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہیمنگوے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا بھی طبعی موت نہیں مرے تھے۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کی تھی۔ ہیمنگوے نے 1961ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کی تھی۔ 21 جولائی 1899ء کو ہیمنگوے نے امریکہ کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدائی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت کے شوقین بھی تھے اور مہم جوئی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اپنے بیٹے ارنسٹ ہیمنگوے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اور اسی نوع کے دوسرے مشکل کام اور طریقے سیکھے تھے۔ یوں ہیمنگوے نے شروع ہی سے فطرت کے درمیان وقت گزارا اور مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو بھی دیکھا اور اپنے انہی تجربات کو اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی۔ ہیمنگوے نے ناول اور مختصر کہانیاں لکھیں اور امریکہ میں جلد ہی مقبولیت حاصل کرلی۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد یوں کام آیا کہ اسے ایک اخبار میں بطور رپورٹر رکھ لیا گیا۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملا۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ان تجربات کو تحریروں میں شامل کرکے انھیں دل چسپ بنا دیتا تھا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات کے لیے مضمون نویسی کی اور اپنے قارئین میں‌ مقبول ہوا۔ 1921ء میں وہ شادی کر کے پیرس منتقل ہوگیا اور وہاں‌ بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ پیرس میں‌ اس کے شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے ساتھ دوستانہ مراسم ہوگئے اور ہیمنگوے ان سے بھی اپنی تحریروں پر داد اور حوصلہ افزائی سمیٹنے لگا۔ اس نے مختصر کہانیاں‌ لکھنے کا آغاز کیا تو جلد ہی پیرس اور امریکہ میں مقبول ہوگیا۔ 1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا اور بطور ناول نگار ہیمنگوے کو بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ امریکی ناول نگار ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر بھی کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران وہ انگریزی ادب کو مسلسل شاہ کار کہانیاں دیتا رہا۔ اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے متعدد ناولوں کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم کیے گئے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے اس کے ناول قارئین تک پہنچے۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ہیمنگوے کی کچھ عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں ارنسٹ ہیمنگوے اکثر جب عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنا چاہتا یا وہ اپنی تحریر سے متعلق بہت حساسیت کا مظاہرہ کرتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا تھا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً اس طرح وہ لکھتے ہوئے پُرسکون اور یکسوئی محسوس کرتا ہو۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھا نشانہ باز تھا یا نہیں‌، مگر اس کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو نشانہ ضرور بنا چکی تھی۔ البتہ یہ کوئی نہیں‌ سوچ سکتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی کا سفر تمام کر لے گا۔

  • محمد نجم الغنی خاں:‌ ایک نہایت قابل اور علمی و ادبی شخصیت

    محمد نجم الغنی خاں:‌ ایک نہایت قابل اور علمی و ادبی شخصیت

    یہ اس نادرِ روزگار کا تذکرہ ہے جن کو برصغیر پاک و ہند میں میں ایک محقق و مؤرخ، شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے شہرت ملی۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے لیے بڑا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کی جو آج ہی کے دن 1941ء میں اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت کے طور پر ہی نہیں پہچانے جاتے بلکہ وہ طبِ یونانی کے ماہر اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی مناسبت سے اکثر انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی لکھا گیا ہے۔

    مولوی نجم الغنی خاں ریاست رام پور کے ایک علمی اور دینی گھرانے میں 8 اکتوبر 1859ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سر بر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔ والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد (دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ لکھی۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔ حکمت اور طبابت کا پیشہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا اور اس شعبہ میں اپنے علم اور تجربات و مشاہدات کو انھوں نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کی کتابیں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ کے نام سے شایع ہوئیں۔ محمد نجم الغنی خاں نجمی کی دیگر کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    تاریخ کے وہ ابواب جن میں قوم اور برادری کا فخر اور برتری کا احساس غالب رہا ہے، کئی مغالطوں اور طرح طرح کے پروپیگنڈے سے بھرے پڑے ہیں، اور جس طرح‌ حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنایا، اسے بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حقائق کو پوری طرح مسخ نہیں تو بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جہاں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی مفاد کے لیے وہ سب کیا جس میں عوام کو بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ آج کے دن اسی علاقہ جموں کا راجہ گلاب سنگھ چل بسا تھا جو عوام پر اپنے ظلم و ستم کے لیے مشہور ہے۔

    سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہندو ڈوگرا برادری کے گلاب سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب میں بھی قدم جما لیے تو گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا گیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ یوں جموں و کشمیر کے مہاراجہ بن جانے والے گلاب سنگھ کو اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھانے کا موقع ملا گیا۔ وہ اپنی سفاکی اور قتل و غارت گری میں اس حد تک بڑھ گیا کہ رعایا کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا اور لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔

    گلاب سنگھ کے دور میں جبر اور لوگوں پر مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج نے اپنے ایک خط میں کیا جو اس نے دو مارچ 1846 کو اپنی بہن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کی وصولی کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا دور میں بیگار لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ، جو اپنے پایۂ تخت لاہور میں موجود رنجیت سنگھ کا ایک منتظم کی حیثیت سے اعتماد حاصل کر چکا تھا، اب جمّوں کا راجا بنا دیا گیا۔ اس کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا منتظم رہا تھا اور گلاب سنگھ نے اپنے باپ ہی سے انتظامی امور اور سیاست سیکھی تھی۔ اسی کی موت کے بعد یہ اختیار گلاب سنگھ کو سونپا گیا تھا اور وہ کام یاب منتظم ثابت ہوا۔ بعد میں جہاں اس نے اپنے مربّی کے خلاف سازشیں کیں، وہیں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اپنی سلطنت قائم کرنے میں بھی کام یاب رہا۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ 1792ء بتایا جاتا ہے۔ جمّوں‌ میں پیدا ہونے والا گلاب سنگھ 30 جون 1857ء کو چل بسا تھا۔ کشمیر کی سرسبز وادی کا حسن پائمال کرنے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے اس حکم راں کو انگریز انتظامیہ کے افسران اور برطانوی امراء نے بھی ظالم کہا اور برطانوی مؤرخین نے بھی اس کی سفاکیوں کو رقم کیا۔

    علّامہ اقبال اور اس وقت کے دیگر مسلم اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر ظلم اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں‌ کے ساتھ وہاں ہونے والے سلوک پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    دادا بھائی ناؤروجی کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں، اور ان کا نام اور برطانوی راج میں ہندوستان کے عوام سے متعلق ان کی فکر اور دردمندی کا ذکر صرف کتابوں تک محدود ہے، مگر برطانیہ میں انھیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک قابلِ ذکر شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا نام عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے۔ وہ برطانوی راج میں‌ متحدہ ہندوستان کے ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں ہی نہیں عوام کے بڑے خیر خواہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ناؤروجی وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ لبرل پارٹی سے وابستہ تھے اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں ان کی وجہِ شہرت ہندوستان کے عوام کے ایک وکیل کے طور پر بہت زیادہ تھی۔ دادا بھائی لندن یونیورسٹی کالج میں گجراتی زبان کے استاد، ایک دانش ور کے علاوہ برطانیہ میں انڈیا کے پہلے فعال سیاست دان رہے۔ برطانیہ میں ان کو سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور پر سوسائٹی میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب دادا بھائی ناؤروجی نے 1892ء میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹرل فنس بری اسکاٹ لینڈ سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو لارڈ سالسبری سے ایک حماقت سرزد ہو گئی۔ لارڈ سالسبری تین مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب ہوا اور ایک ممتاز سیاست دان تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایڈنبرا میں ایک اجتماع میں کہا کہ انسانیت نے بلندی کی کئی منازل طے کر لی ہیں اور برطانوی سیاست بھی بڑی حد تک تعصبات سے آزاد ہو چکی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ایک سیاہ فام بھارتی کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیں۔ سالسبری کو رنگ و نسل کے اس عصب پر شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ناؤروجی کو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے انڈین رکن منتخب کیا گیا۔ وہ دیکھتے دیکھتے انڈیا میں ایک ہیرو بن گئے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک غریب پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔ ناؤروجی نے اپنے زمانے میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھایا اور اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت آگے بڑھتے چلے گئے۔ وہ ایک ایمان دار اور نیک صفت انسان ہی نہیں باشعور بھی تھے اور غربت و مالی تنگی نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا۔ ناؤروجی نے مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ انھوں نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان میں سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی نوجوانی ہی سے عوام میں ان کے حقوق کے لیے شعور اور آگاہی پھیلانے کے ساتھ فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔ ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور وہاں بھی باشعور لوگوں نے ان کی حمایت کی۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے تھے جہاں ہر طبقہ کی خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستانی عوام کے حالات پر غور کیا اور اس کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے معاشی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے تجزیہ کرکے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچی اور لوگوں نے ناؤروجی کی حمایت کی۔ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر برطانیہ کے سنجیدہ طبقات ان کے طرف دار ہوئے اور سیاسی میدان میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ تاہم دادا بھائی ناؤروجی نے اشرافیہ اور بالخصوص تخت اور اس کے وفاداروں کو مشتعل کردیا تھا۔ وہ انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے اور برطانوی سیاست داں ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب ناؤروجی پارلیمان کے رکن کا انتخاب لڑ رہے تھے تو یہ مخالفت اور پروپیگنڈا زور پکڑ گیا، لیکن 1892ء میں اس تمام مخالفت کے باوجود ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوگئے۔ ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ انھیں ایک رجائیت پسند اور باہمّت شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

  • جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    معروف شاعر جاذب قریشی 21 جون 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تدریس و ادبی صحافت سے وابستہ رہے۔ آج جاذب قریشی کی برسی ہے۔

    جاذب قریشی کا آبائی شہر لکھنئو تھا۔ لیکن جاذب صاحب نے کلکتہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 3 اگست 1940ء کو پیدا ہوئے۔ جاذب قریشی کا اصل نام محمد صابر تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو اس کنبے کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بھائی کے ساتھ کم عمری میں جاذب صاحب محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے لوہے کی ڈھلائی کا کام کیا اور سخت مشقت اور بھٹی کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ تقسیم سے قبل ہی شاعری کا شوق ہوگیا تھا اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعرہ سننے جانے لگے تھے۔ جاذب قریشی قیامِ پاکستان کے بعد لاہور ہجرت کر گئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت کی بدولت شعبۂ تدریس اور ادبی صحافت میں جگہ بنائی۔ شادی کی اور اپنے کنبے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ انھیں فلم سازی کا بھی شوق تھا اور ایک فلم بھی بنائی تھی جو ناکام ہوگئی۔ مشکل وقت دیکھنے والے جاذب قریشی ملک اور بیرونِ ملک مشاعروں میں شرکت کرتے رہے اور کئی ادبی محافل کے منتظم بھی رہے۔ انھو‌ں نے کالم نگاری بھی کی۔تاہم ان کی بنیادی شناخت بطور شاعر ہی قائم رہی۔ ’’شناسائی‘‘، ’’نیند کا ریشم‘‘،’’شیشے کا درخت‘‘،’’عکس شکستہ‘‘، ’’آشوبِ جاں ‘‘،’’عقیدتیں (حمدیں، نعتیں ،منقبت)‘‘، ’’جھرنے (نغمے، گیت)‘‘، ’’اجلی آوازیں (ہائیکو)‘‘ اور ’’لہو کی پوشاک‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔

    جاذب قریشی نے اپنی شاعری کو جدید طرزِ احساس سے آراستہ کیا اور وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں ’’تخلیقی اور عملی تجربے اگر رک جائیں تو فرسودگی اور پرانا پن سچے ادب کو اور آسودہ زندگی کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘ نئے استعارات، جدید تلازمات اور نامانوس لفظیات کے سبب انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سلیم احمد نے اُن کی شاعری کو ’’آئینہ سازی کا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ یہ آئینہ جاذب کے ہنر کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی۔‘‘ اسی طرح حسین مجروح کہتے ہیں کہ ’’ہیئت سے حسیت اور اظہار سے موضوع تک، جاذب قریشی کی شاعری نئی لفظیات اور تشکیلات کی شاعری ہے۔ جاذب قریشی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
    پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں

    سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن
    ترے سائے میں چلنا چاہتا ہوں

    مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں
    وہ مل گئے ہیں تو مل کر بچھڑ بھی سکتے ہیں

  • گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر اور ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا بے مثال نمونہ تھی۔ گلزار دہلوی ہر مکتبِ‌ فکر اور طبقہ ہائے عوام میں اپنی فراخ دلی اور بے مثال رواداری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا نام بھی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے کہ خود کو ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہندوستان میں مجاہدِ اردو، شاعرِ قوم، اور بلبلِ دلّی کے خطاب و القاب دیے گئے۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر اردو کا مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ گلزار دہلوی نے بھارت میں اردو کو اس کا مقام اور جائز حق دلانے کے لیے پُرخلوص کوششیں کیں۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ وہ 7 جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہوئے اور 1942ء میں ان کے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تا دم مرگ جاری رہا۔ گلزار دہلوی کو دنیا بھر میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی ادبی حلقوں میں مشہور تھے۔ گلزار دہلوی کو متعدد جامعات نے تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا اور ان میں پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز بھی شامل ہے۔ جب کہ غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ بھارت میں گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کی خدمت اور ثقافت کے فروغ کے لیے کوششوں پر مختلف تنظیموں کی جانب سے اعزازات دیے گئے۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

    گلزار صاحب 12 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

  • سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفیس شخصیت کے مالک اور شستہ زبان کے حامل سنتوش کمار نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل ہی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔

    اس اداکار کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور فلمی دنیا میں سنتوش کے نام سے شہرت پائی۔ اس بارے میں معروف صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 1982 کے روزنامہ امروز میں لکھتے ہیں:
    ’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیرِ اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔

    اداکار سنتوش کی پہلی پاکستانی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم کا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ ان سے سنتوش کمار نے دوسری شادی کی تھی۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ تقسیم سے قبل اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے گریجویشن کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔

    سنتوش کمار نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ پاکستان ہجرت کر کے آنے کے بعد مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا کیریئر یہاں شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ یادگار کردار ادا کیے۔ ان میں سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی شامل ہیں جن کے ساتھ سنتوش کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

    اداکار سنتوش کمار کی یادگار فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔