Tag: یوم وفات

  • چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    یہ چارلس ڈکنز کے قلم کی خوبی تھی کہ اُس کی کہانیوں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا اور وہ اپنے سماج کا آئینہ قرار پائیں۔ اسی وصف کی بناء پر چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا گیا ہے۔

    ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جو اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں ریاست کے نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کرتے رہے اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس نے بچّوں کے لیے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان کہانیوں کو بچے ہی نہیں ہر عمر کے لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہی ڈکنز کے اسلوب کا کمال ہے۔

    1870ء میں آج ہی کے دن چارلس ڈکنز چل بسے تھے۔ وہ ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف تھا اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔ جب والد کو جیل ہوئی تو چارلس ڈکنز کی عمر 12 سال تھی۔ ان کے جیل جانے کے بعد ڈکنز کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی اہمیت اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انیسویں صدی کا بااثر ادیب گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

    کلیئر ٹامالین نے چارلس ڈکنز کی سوانح عمری تحریر کی جس میں اس نے لکھا کہ چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کر رہا تھا۔

    رچرڈ ڈبلیو لونگ نے ایک طویل مضمون ’’انگلینڈ اور چارلس ڈکنز‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ڈکنز کے ناولوں میں انگلینڈ اور لوگوں کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے’’ڈاکٹر خود فیکٹری میں کام کرتا رہا، کلرکی کی، عدالت میں رپورٹر رہا، اخبار میں کام کیا، ہوٹلوں میں مزدوری کی، اسے چائلڈ لیبر اور بچوں کو درپیش مسائل اور زیادتیوں کا ذاتی تجربہ تھا چنانچہ اس نے اپنے ناولوں میں کھل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور (Reform Laws) کے لیے راستہ ہموار کیا‘‘۔

  • جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    پاکستان میں ٹیلی ویژن کے کئی اداکاروں کو ان کے فنی سفر کے ابتدا میں ہی وہ کردار ملے جن کی بدولت انھوں نے راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو لیا، لیکن وہ زیادہ عرصہ اس کام یابی کو برقرار نہ رکھ سکے، جب کہ کچھ ایسے فن کار بھی ہیں کہ اپنی شہرت کو آخری دَم تک نہ صرف قائم رکھا بلکہ فن کی دنیا میں لازوال پہچان بنائی۔ ان میں ایک نام اداکار جمیل فخری کا بھی ہے جنھوں نے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

    1970ء میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    جمیل فخری نے کمر عمری میں تھیٹر ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا تھا اور ستّر کی دہائی میں وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے۔ جمیل فخری نے اپنے طویل کریئر میں مزاحیہ، سنجیدہ اور منفی کردار بھی ادا کیے اور ہر رنگ میں اپنا منفرد انداز برقرار رکھا جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ جعفر حسین کے پولیس انسپکٹر کے کردار میں جمیل فخری نے ملک گیر شہرت ہی نہیں پائی بلکہ ان کا یہ کردار لازوال ثابت ہوا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہو جاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔ پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔ دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ جمیل فخری کے انتقال سے چند ماہ قبل امریکا میں اپنے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ نہایت غم زدہ اور پریشان رہنے لگے تھے۔ ایک باپ کی حیثیت سے یہ وہ صدمہ تھا جسے سہنا ان کے لیے یقیناً‌ آسان نہیں‌ تھا۔ ان کے احباب کے مطابق بیٹے کی یوں الم ناک موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔

    معروف اداکار جمیل فخری کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے دو شوخ گیت کو ایک نسل کا ایسا رومانس کہا جاسکتا ہے، جو سرحد کے دونوں‌ اطراف بستی تھی۔ بولی وڈ کی اس فلم کے گیتوں کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی زبردست مقبولیت ملی۔ باکس آفس پر دھوم مچا دینے والی یہ فلم 1998ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اس کے مقبول ترین گیت اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے تھے۔

    آج بھارتی گیت نگار اسد بھوپالی کی برسی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ فلم کے ہیرو سلمان خان اور ہیروئن بھاگیا شری تھیں۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘

    اسد بھوپالی 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ اپنی جائے ولادت بھوپال کی نسبت سے اسد بھوپالی کہلائے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے اسد بھوپالی نے بطور نغمہ نگار وہ شہرت نہیں‌ حاصل کی جو ان کے ہم عصر نغمہ نگاروں کو ملی تھی۔ لیکن ان کے کئی مقبول گیتوں میں فلم ٹاور ہاؤس کا اے میرے دل ناداں تم غم سے نہ گھبرانا، فلم دنیا کا رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آواز نہ دے بھی شامل ہیں جو ان کے فلمی کیریئر کے آغاز کی بات ہے۔ 1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے فلموں کے لیے لگ بھگ 400 نغمات تخلیق کیے۔ اسد بھوپالی کے فلم ”پارس منی“ کے لیے لکھے گئے گیتوں نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ، وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے پھر… شامل ہیں۔

    فلمی گیت نگار اسد بھوپالی نوجوانی میں ممبئی پہنچے تاکہ فلم انڈسٹری میں جگہ بنا سکیں۔ وہ 28 برس کے تھے جب ممبئی چلے گئے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو کام مل گیا۔ 1949ء میں فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ اس فلم کے لیے مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے دو گیت لکھے اور تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔ فضلی برادران کا اسد بھوپالی سے رابطہ ہوا تو اس نوجوان کو فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ پہلی فلم کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ یوں اسد بھوپالی کی ممبئی فلم نگری میں کام یابیوں کا آغاز ہوا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے اسد بھوپالی نے دو گیت لکھے۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی ان کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا۔

  • منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    15 اگست 1947ء کو قیامِ‌ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے تھے۔

    ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے…’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بانی پاکستان کو ان کی بے لوث قیادت اور علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں مقبول ہوا۔

    پاکستانی گلوکارہ منور سلطانہ 1995ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔ وہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے کیا تھا۔ منور سلطانہ نے پاکستان میں فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو ان کی وہ درس گاہ تھی جہاں انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور موسیقی کے دلدادگان نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ اردو اور پنجابی فلموں کے علاوہ منور سلطانہ نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گلوکارہ منور سلطانہ کی شادی ایوب رومانی سے ہوئی تھی جو پاکستان کے نامور شاعر، موسیقار اور براڈ کاسٹر تھے۔

  • رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کا اداکار جو امریکا کا صدر بنا

    رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کا اداکار جو امریکا کا صدر بنا

    بحیثیت امریکی صدر رونالڈ ریگن دنیا کی اہم ترین شخصیات میں شامل رہے اور ان کا آٹھ سالہ دورِ صدارت امریکا کی تاریخ میں نہایت اہمیت رکھتا ہے، لیکن سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے ریگن بطور اداکار ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرتے تھے۔

    سیاسی سفر اور بالخصوص امریکا میں عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد بطور اداکار رونالڈ ریگن کی شناخت پس منظر میں چلی گئی اور دنیا بھر میں انھیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔ وہ 1981ء سے 1989ء تک امریکا کے 40 ویں صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ رونالڈ ریگن کے دور میں سرد جنگ عروج پر رہی اور سوویت یونین اپنے افتراق کی جانب بڑھا۔ اس کے علاوہ امریکی عوام کی فلاح و بہبود، ادارہ جاتی اصلاحات اور ملک کے مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے ان کی حکومت کی پالیسیاں اور بعض اقدامات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر نہایت اثر و رسوخ کے حامل رونالڈ ریگن کا شمار بطور اداکار دوسرے درجے کے فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔

    رونالڈ ریگن امریکی عوام میں خاصے مقبول تھے۔ اس کی ایک وجہ اُن کی بذلہ سنجی بھی تھی۔ وہ دوسروں کے ساتھ نہایت سپردگی اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ رونالڈ ریگن نے اپنے اعلیٰ ترین منصب اور اپنی سیاسی حیثیت کو مسئلہ نہیں بنایا بلکہ اپنی حسّ مزاح کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ انھوں نے اپنا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں‌ کیا اور کئی مرتبہ اپنی ذات کو بھی اپنی ظرافت کا نشانہ بنایا۔

    امریکا میں الینوئے کے ایک علاقے میں رونالڈ ریگن نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1911ء میں پیدا ہونے والے ریگن کے والد جوتوں کی ایک دکان پر سیلز مین تھے۔ والد شراب کے رسیا تھے اور چاہتے تھے کہ اپنے کنبے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرسکیں اور بیوی بچّوں کی ضروریات پوری کریں، مگر ناکام رہتے۔ ریگن نے چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا جیب خرچ پورا کیا۔ اسکول میں وہ ڈرامہ اور فٹ بال کے کھیل میں دل چسپی لینے لگے تھے۔ ریگن ایک عام طالبِ‌ علم تھے جو عمر کے مدارج طے کرتے ہوئے فنونِ‌ لطیفہ اور کھیل کود کے علاوہ طلباء سیاست میں بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ کالج کا دور شروع ہوا تو انھوں نے طلباء تنظیم کے لیے اپنی سرگرمیوں کی بنیاد پر ایک پارٹی میں عہدہ بھی حاصل کرلیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک معاملے پر رونالڈ ریگن نے بطور لیڈر جب احتجاج اور ہڑتال کی اپیل کی تو پرنسپل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ یہ ایک نوجوان طالبِ‌ علم لیڈر کی بڑی کام یابی تھی۔ 1932ء میں رونالڈ ریگن نے گریجویشن کیا اور مقامی سطح پر فٹبال کے کھیل کے لیے بطور مبصّر کام شروع کیا۔ اس کے بعد 1937ء میں ریگن کیلیفورنیا منتقل ہوگئے اور ہالی وڈ میں قسمت آزمائی۔وہ 26 سال کے تھے جب وارنر برادرز کے بینر تلے بننے والی ایک فلم میں ان کو کام کرنے کا موقع ملا۔ ریگن نے اپنے فلمی کیریئر میں لگ بھگ پچاس سے زائد فلمیں کیں اور زیادہ تر ہیرو کے روپ میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔

    نینسی ریگن 1940ء کی دہائی میں ہالی وڈ میں بننے والی کم بجٹ کی فلموں کی اداکارہ تھیں اور اپنے فنی کیریئر کے دوران ہی ان کی ملاقات رونالڈ ریگن سے ہوئی تھی۔ بعد ازاں 1952ء میں دونوں نے شادی کرلی تھی۔ مسز ریگن کا اصل نام این فرانسس رابنز تھا لیکن وہ فلم کی دنیا میں نینسی ڈیوس کے نام سے معروف تھیں۔

    1966ء میں رونالڈ ریگن نے ملکی سیاست میں قدم رکھا اور کیلیفورنیا کے گورنر کے عہدے کے لیے انتخابی اکھاڑے میں‌ اترے۔ ان کے اقارب اور دوست احباب ان کے اس اقدام پر حیران بھی تھے اور ان کا خیال تھاکہ ریگن سیاست میں نامراد رہیں گے، لیکن وہ انتخاب جیت گئے اور آٹھ سال تک گورنر رہے۔ وہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ تھے اور اسی پلیٹ فارم سے امریکا کے صدر بنے۔ صدر ریگن ستّر برس کے تھے جب انھوں نے یہ منصب سنبھالا۔ اس عہدے پر دو ماہ گزرے تھے کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ریگن محفوظ رہے۔

    ریگن کو سویت یونین کا سخت مخالف سمجھا جاتا تھا، لیکن بعد میں سویت راہ نما گوربا چوف سے ان کی مفاہمت اور ایک تاریخی معاہدہ دنیا میں جوہری اسلحہ کی تخفیف کا سبب بنا جسے امریکی صدر کی حیثیت سے ریگن کی بڑی کام یابی کہا جاتا ہے۔

    Dark Victory ، All American اور Kings Row بحیثیت اداکار رونالڈ ریگن کی وہ فلمیں‌ تھیں‌ جن کو 1943ء میں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔

    سنیما کے پردے پر بطور ہیرو رونالڈ ریگن نے شائقین کی توجہ ضرور حاصل کی، مگر ایک اداکار کی حیثیت سے فلمی صنعت میں ان کو کوئی خاص مقام نہیں ملا۔

    چالیس اور پچاس کی دہائی میں ریگن نے Love Is on the Air ،Accidents Will Happen، The Bad Man، Desperate Journey، The Killers، Hong Kong جیسی فلموں‌ کے علاوہ ٹیلی ویژن کی کئی سیریز میں‌ بھی کام کیا۔

    کیلیفورنیا منتقل ہونے بعد ہی پہلی مرتبہ 1937ء میں انھیں فلم میں بطور اداکار کام مل گیا تھا، رونالڈ ریگن نے اپنے وقت کے مشہور و معروف فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔

    ‘ریگن: اے لائف اِن لیٹرز‘ سابق صدر کی وہ کتاب ہے جس میں ان کے ایک ہزار ذاتی خطوط شامل ہیں۔ یہ خطوط ریگن کی شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ رونالڈ ریگن کے افکار و خیالات، ان کی دل چسپیوں اور مشاغل کو جاننے کا موقع دیتی ہے۔

    اداکار اور امریکی صدر رونالڈ ریگن لاس اینجلس میں‌ 5 جون 2004ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ زندگی کے آخری ایّام میں الزائمر کا شکار ہوچکے تھے۔

    رونالڈ ریگن کے دور میں امریکا نے امیر اور غریب طبقہ کے درمیان خلیج بھی دیکھی۔

  • باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    بڑے پردے پر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے باسو دا کو یہ خوف محسوس نہیں‌ ہوا کہ اگر ان کی فلم ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں اس امید پر بنائیں کہ شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملے گی، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ کی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے رہے اور ان کی فلمیں شاہکار ثابت ہوئیں۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔ اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف اور مضبوط حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال کی عمر میں 4 جون 2020ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    مجنوں گورکھپوری اردو کے ممتاز نقاد، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے اپنے دور میں ترقی پسند ادب کو تنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج مجنوں کی برسی ہے۔

    مجنوں کے تمام ادبی حوالوں اور شناختوں پر ان کی تنقیدی شناخت حاوی رہی۔ انہوں نے بہت تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا اور اپنی فکر و نکتہ رسی کی بدولت اردو ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا۔ مجنوں‌ گورکھپوری 4 جون 1988ء کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے تھے۔

    مجنوں کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ ان کے والد محمد فاروق دیوانہ بھی ادیب اور مشہور شاعر تھے۔ مجنوں نے مشرقی یوپی کے ضلع بستی تحصیل خلیل آباد میں واقع پلدہ المعروف ملکی جوت میں 10 مئی 1904 کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان اعلٰی تعلیم یافتہ اور زمیں دار تھا۔ والد محمد فاروق دیوانہ نے اپنے بیٹے احمد صدیق کا داخلہ تعلیم کے لیے سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا۔ 1921ء میں میٹرک کے بعد 1927ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونیورسٹی سے مجنوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ان کی شادی 14 اکتوبر 1926ء میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مجنوں بھارت میں مقیم رہے، لیکن مئی 1968ء میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر کراچی چلے آئے۔ یہاں انھیں کراچی یونیورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔

    مجنوں گورکھپوری نے ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے‘ زندگی کی عکاسی کرنے اور اسے سماجی شعور و آگہی کا ذریعہ بنانے کے لیے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید میں فکر کا ایک نیا در کھولا۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھ پوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے۔ اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ مجنوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    اردو میں تنقید نگاری کے ساتھ مجنوں‌ گورکھپوری نے انگریزی ادب سے تراجم بھی کیے اور شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔

    ادیب اور نقاد مجنوں گورکھپوری کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام ہیں جن کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ اداکاری کیا ہوتی ہے یہ دیکھنا ہو اور اداکاری سیکھنا ہو تو کوئی انتھونی کوئن سے سیکھے۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار انتھونی کوئن کی اسلامی ممالک میں وجہِ شہرت صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور شہید عمر مختار کے کردار بنے جو انھوں نے دو مختلف فلموں‌ میں نبھائے تھے۔

    امریکا میں میکسیکو کے ایک خاندان میں 1915ء میں پیدا ہونے والے انتھونی کوئن نے ہالی وڈ کی کئی کام یاب فلموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فلموں میں زوربا دی گریگ، لارنس آف عربیہ، دی گنز آف نیوارون، دی میسج، لائن آف دی ڈیزرٹ اور لا استرادا کو بے مثال کام یابی نصیب ہوئی۔ انتھونی کوئن کو دو مرتبہ بہترین معاون اداکار کا اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اداکار انتھونی کوئن نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1936ء میں پیرول اور دی ملکی وے سے کیا تھا۔ ان کی پہلی کام یاب فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام ویوا زاپاتا تھا۔ اس فلم میں انتھونی کوئن نے مارلن برانڈو کے مد مقابل معاون کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار ایلیا کازان تھے جنھیں اپنے شعبے میں زبردست کام کی وجہ سے عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے۔ انتھونی کوئن نے اس کے لیے معاون اداکار کی حیثیت سے آسکر اپنے نام کیا تھا۔ ونسنٹ منیلی کی 1956ء کی فلم لسٹ فار لائف میں وہ ایک مرتبہ پھر معاون اداکار کی حیثیت سے نظر آئے اور اس کردار پر بھی انھیں آسکر دیا گیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ فلم میں انتھونی کوئن صرف 8 منٹ کے لیے پردے پر نظر آئے تھے اور اس دورانیہ میں ان کی لاجواب اداکاری نے سبھی کو حیران کر دیا تھا۔

    1961ء کی مشہورِ زمانہ فلم دی گنز آف نیوارون تھی جس میں انتھونی کوئن ایک یونانی مزاحمت کار کے روپ میں پردے پر جلوہ گر ہوئے۔ اس فلم نے ہر طرف تہلکہ مچا دیا۔ یہ ایک کام یاب ترین فلم تھی۔ 1962ء میں اداکار کو لارنس آف عربیہ میں ایک بدوی راہ نما عودہ ابو تایہ کے کردار میں دیکھا گیا۔ 1964ء میں فلم زوربا دی گریک نے خوب کام یابی سمیٹی اور انتھونی کوئن کو بہترین اداکار کے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا۔

    1977ء میں معروف مسلمان ہدایت کار مصطفیٰ العقاد کی اسلام کے ابتدائی دور پر بنائی گئی مشہورِ زمانہ فلم دی میسیج میں انتھونی کوئن کو صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا کردار سونپا گیا اور 1980ء میں انھوں‌ نے لیبیا میں اٹلی کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے عمر مختار کی زندگی پر بنائی گئی فلم لائن آف دی ڈیزرٹ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انتھونی کوئن کو ان کرداروں‌ نے اسلامی دنیا میں خاص طور پر شہرت دی۔

    اداکاری کے علاوہ انتھونی کوئن کو فنونِ لطیفہ سے لگاؤ ہی نہیں تھا بلکہ انھوں نے مجسمہ سازی، مصوری بھی کی اور دو آپ بیتیاں بھی رقم کیں۔ آخر عمر میں اداکار حلق کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 2001ء میں انتھونی کوئن آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 86 سالہ اداکار کی موت کا سبب نمونیہ تھا۔

  • اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اردو ادب میں یوں تو مختلف اصنافِ سخن کو ہر دور میں‌ موضوعات، اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے شکلیں بدلنے اور تجربات سے گزرنے کا موقع ملا، لیکن بالخصوص اردو نظم نے نئے تجربات کے ساتھ اپنا عروج و زوال دیکھا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید نظم نگاری میں بڑا نام پایا اور اپنے ہم عصر شعرا میں امتیاز حاصل کیا۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اردو نظم میں عہد بہ عہد مختلف تحریکات و رجحانات کے تحت میں موضوعاتی اور ہیئت کے اعتبار سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس کے زیرِ‌ اثر اپنے مطالعہ اور تخلیقی قوّت کے زور پر اختر حسین نے اپنی نظموں کو پُرشکوہ استعاروں اور خاص اسلوب سے اس طرح سجایا کہ وہ اپنے معنی اور مفہوم کی وسعت کے ساتھ مقصدیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب اور شاعر لکھتے ہیں، ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’

    3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ زندگی کا سفر تمام کرنے والے اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    اردو کے اس ممتاز نظم گو شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

    احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری کے فنِ شاعری اور ان کی نظم گوئی کے بڑے معترف رہے ہیں اور فنون وہ شمارہ تھا جس میں اختر حسین جعفری کا کلام باقاعدگی سے شایع ہوا کرتا تھا۔ اختر نے غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں مگر نظم کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ لیا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں، ان دنوں میں نے نیا نیا فنون جاری کیا تھا۔ فنون کے پتے پر مجھے ان کی ایک نظم ملی تو اس نظم کے موضوع اور پھر اس کی ڈکشن اور اس میں آباد استعاروں کی ایک دنیا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ غزل گو اگر اب نظم نگاری کی طرف راغب ہوا ہے تو کس شان سے راغب ہوا ہے۔ اس کے بعد تو فنون کا شاید ہی کوئی شمارہ ایسا ہو جس میں اختر حسین جعفری اپنی کسی نہ کسی نظم کے جمال و جلال کے ساتھ موجود نہ ہوں۔

  • مجیب عالم: پاکستانی فلمی صنعت کا مقبول ترین گلوکار

    مجیب عالم: پاکستانی فلمی صنعت کا مقبول ترین گلوکار

    60ء کی دہائی کے آخر میں گلوکار مجیب عالم کی آواز اور ان کے منفرد طرزِ‌ گائیکی نے اُس وقت کے موسیقاروں اور سُر سنگیت کے دیوانوں کو بہت متاثر کیا اور ان کے گائے ہوئے گیتوں‌ نے اس وقت کے متحدہ پاکستان میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ لیکن مجیب عالم کا یہ سفر زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور نئے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔

    آج گلوکار مجیب عالم کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 2004 کو انتقال کرگئے تھے۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کے نغمات سے مجیب عالم کی شہرت کا آغاز ہوا تھا اور اس دور میں‌ ان کا گایا ہوا یہ گیت بہت مقبول تھا، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘ اس فلم کے بعد اگلے کئی برس تک مجیب عالم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود وہ فلم انڈسٹری کی ضرورت نہیں بن سکے۔ کہا جاتا ہے کہ قسمت کی دیوی اخلاق احمد اور اے نیّر جیسے گلوکاروں پر مہربان ہوگئی جو اس زمانے میں فلم نگری میں متعارف ہوئے تھے اور مجیب عالم کو نظرانداز کیا جانے لگا۔

    مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر ان کے نغمات نشر کیے جاتے تھے۔ ایک دور تھا جب سامعین کی پُر زور فرمائش پر گلوکار ریڈیو پر مجیب عالم کے ریکارڈ سنائے جاتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے گلوکار مجیب عالم نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے اور ان پر خوب داد سمیٹی۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔

    جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔

    مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘

    مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔ مجیب عالم کی گائیکی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے نغمات یکساں مہارت سے گاتے تھے۔

    گلوکار مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔