Tag: یوم وفات

  • شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں شمیم آرا کو ان کے فن اور پروقار شخصیت کی بدولت مقبولیت ہی نہیں بے پناہ عزت اور احترام بھی ملا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن تھیں جن کا کیریئر 30 سال پر محیط ہے۔ آج شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکارہ شمیم آرا نے ہیروئن کے بعد بطور کریکٹر ایکٹریس بھی بڑی شان سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے بعد میں بطور ہدایت کار بھی خود کو منوایا تھا۔

    شمیم آرا کا تعلق بھارت کے شہر علی گڑھ سے تھا جو ایک علمی و تہذیبی مرکز رہا ہے۔ وہ علی گڑھ سے پاکستان منتقل ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا کا اصل نام ’’پتلی بائی‘‘ تھا جنھیں پاکستانی فلموں میں فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی نے شمیم آرا کے نام سے متعارف کروایا۔ وہ اردو فلم’’ کنواری بیوہ‘‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار نظر آئیں جو ایک ناکام فلم ثابت ہوئی مگر شمیم آرا نے اپنی ابتدائی دور کی ناکامیوں کے باوجود انڈسٹری سے تعلق برقرار رکھا اور پھر وہ لاہور چلی گئیں۔ شمیم آرا کو لاہور میں نام ور ہدایت کار ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ’’ہم راز‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر کے ساتھ کاسٹ کیا اور سائیڈ رول شمیم آرا نے بھرپور پرفارمنس سے فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ فلم سازوں کو اداکارہ کے مکالمے ادا کرنے کا سادہ انداز اور بہترین اردو کا تلفظ اچھا لگا اور رفتہ رفتہ شمیم آرا کے فن و شخصیت میں نکھار آتا گیا۔

    اداکارہ کو اصل شہرت اردو زبان میں میں بننے والی فلم ’’بھابی‘‘ سے ملی۔ اس کے بعد ’’سہیلی‘‘ اور ’’فرنگی‘‘ وہ فلمیں ثابت ہوئیں جنھوں نے شمیم آرا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اردو فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ میں شمیم آرا کی پرفارمنس بہت جاندار رہی اور اس فلم نے شان دار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کے بعد شمیم آرا فلم انڈسٹری کی مصروف ترین اداکار بن گئیں۔ شمیم آرا نے مشہور رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ میں اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور باکمال اداکار سنتوش کمار کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔بعد میں شمیم آرا نے کمال، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے ساتھ بھی کام کرکے فلم بینوں کے دل جیتے۔ شمیم آرا کو فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کرنے کا بے حد شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شمیم آرا نے اداکاری کے ساتھ بطور ہدایت کار اور فلم ساز بھی کام کیا۔

    اداکارہ شمیم آرا کی ذاتی زندگی میں کئی پریشان کن موڑ آئے۔ ان کی کوئی شادی بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ اس وقت اداکار کمال اور شمیم آرا کے درمیان محبت اور شادی کا چرچا بھی ہوا۔ لیکن شمیم آرا کی نانی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ شمیم آرا کی شادی فلم ساز فرید احمد سے ہوئی جنھوں نے ’عندلیب‘، ’بندگی‘، ’سہاگ‘، ’خواب اور زندگی‘ اور ’زیب انسا‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پھر شمیم آرا فلم ساز و تقسیم کار اے مجید کی دلہن بنیں۔ آخری شادی تقریباً بڑھاپے میں دبیرالحسن نامی فلمی رائٹر سے کی تھی۔ جب شمیم آرا کا فلم انڈسٹری میں وقت ختم ہوا تو دبیر الحسن نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور تب وہ اپنے بیٹے کے پاس لندن چلی گئیں۔ لندن ہی میں 5 اگست 2016ء کو وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئیں۔

    فلم کی دنیا میں شمیم آرا نے ’ہمراز، سہیلی، دوراہا، صاعقہ، مجبور، زمانہ کیا کہے گا، سہاگ، فرنگی، چنگاری، سالگرہ سمیت 86 فلموں میں اداکاری کی۔ ان کی مشہور فلموں میں قیدی، اک تیرا سہارا، انسان بدلتا ہے، آنچل، لاکھوں میں ایک، دل بیتاب، خاک اور خون، پرائی آگ، دوسری ماں، فیصلہ، بھابھی، پلے بوائے شامل ہیں۔

    شمیم آرا انتہائی خوش اخلاق اور مؤدب خاتون مشہور تھیں اور ساتھی فن کاروں کے مطابق انھیں بہت کم غصہ آتا تھا۔ شمیم آرا انتہائی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ابتدائی عمر میں ہی ماں کی شفقت سے محروم ہوگئی تھیں اور نانی کے زیر تربیت رہیں جن کے فیصلوں کے آگے وہ بے بس تھیں۔ شمیم آرا کی پیشہ ورانہ زندگی پر ان کی نانی کی گرفت سخت رہی۔ اداکارہ کی پیدائش 1940ء کی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کے شہر کراچی آگئی تھیں اور یہاں سے لاہور منتقل ہوگئیں جو فلمی مرکز بنا ہوا تھا۔

    اداکارہ کو 1960ء میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا جب کہ بہترین نگار ایوارڈ فلم ’’فرنگی پر ملا تھا۔ شمیم آرا کو اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فلموں میں عورت کو طاقت ور اور بہادر دکھایا ہے جس کی مثال ’مس ہانگ کانگ‘، ’مس کولمبو‘، ’مس سنگاپور‘ اور ’مس بینکاک‘ جیسی فلمیں ہیں جن میں ہیروئن اور خاتون کردار کو انھوں نے ظالم اور بدمعاش سے لڑتے ہوئے پیش کیا۔

  • سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ………. یہ نام آپ نے سنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے، وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر اور ان کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے…….. جوہری سائنس داں……..حادثے میں موت…….موساد۔

    امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلمان نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

    سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ”خطرہ” تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

    سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

    1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تابکاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃ کو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تابکاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

    سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔” ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

    سمیرہ موسیٰ نے ”جوہری توانائی برائے امن کانفرنس” کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ”جوہر برائے امن” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

    سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

    اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کر کے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فل برائٹ (Fulbright) اسکالر شپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونیورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،”میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔”

    امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

    بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952 کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جا گری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہو گئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کار کے گرنے سے پہلے اس نے چھلانگ لگا دی تھی اور زندہ بچ گیا لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

    اس سانحے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

    (سمیرہ موسیٰ کے حالاتِ زندگی پر محمد عثمان جامعی کے مضمون سے اقتباس)

  • پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے اداکاروں میں محمود صدیقی کو ان کے منفرد انداز اور دلنواز لب و لہجے کی بدولت پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شمار سینئر اداکاروں میں ہوا۔ انھوں نے پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار نبھائے۔

    محمود صدیقی 2000ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے مشہور شہر سکھر سے تھا۔ محمود صدیقی نے 1944ء میں ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں‌ نے قانون کی مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ سے تعلق رکھنے والے نام ور شاعر اور ادیب شیخ ایاز بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ محمود صدیقی نے ان کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔ شیخ ایاز کی صحبت میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا محمود صدیقی شروع ہی سے انسانی حقوق کا شعور رکھتے تھے اور سیاسی و سماجی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے۔
    انھوں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر خود کو سیاسی پلیٹ فارم سے متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کا انتخاب تھی۔ وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں محمود صدیقی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر عرصہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر بھی گزارا اور قلیل مدّت کے لیے روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں نظر آئے اور اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں خاصے مقبول ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ تھا۔ اس ڈرامہ نے محمود صدیقی کو ملک گیر شہرت دی اور پھر انھیں مزید ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سبھی یادگار ثابت ہوئے۔ ان میں مشہور ڈرامہ جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں شامل ہیں۔ محمود صدیقی کو ڈرامہ کارواں میں بہترین اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سیریل نہلے پہ دہلا کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    اداکار محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا روڈ پر ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد کو فلم بینوں میں بطور گلوکار جو مقبولیت ملی تھی، وہ اپنے زمانے میں احمد رشدی، اے نیّر، مجیب عالم، عنایت حسین بھٹی اور ان جیسے چند ہی گلوکاروں کا مقدر بن سکی۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود اخلاق حمد پاکستانی فلم انڈسٹری میں وہ مقام اور جگہ نہیں پاسکے، جو ان سے پہلے یا بعد میں آنے والوں کو دی گئی۔ تاہم ان کے گائے ہوئے درجنوں گیت یادگار ثابت ہوئے۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی لاجواب گائیکی کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    مشہور فلمی گیت ’’ساون آ ئے، ساون جائے‘‘ اخلاق احمد کی آواز میں آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک انٹرویو میں اخلاق احمد نے بتایا تھا: ’’اس گیت کو مہدی حسن نے گانا تھا۔ اس زمانے میں اُن کا طُوطی بولتا تھا اور ہر موسیقار اُنہی سے اپنی فلموں کے گیت گوانا چاہتا تھا۔ اتفاق سے مہدی حسن اپنی دیگر فلمی مصروفیات کے سبب دستیاب نہ تھے، لہٰذا قرعۂ فال میرے نام نکلا۔ میں اس سے پہلے بھی متعدد فلموں کے لیے گا چکا تھا اور میری آواز کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ تاہم جب فلم ’’چاہت‘‘ کا یہ گیت ریلیز ہوا تو اس نے مجھے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا اور جس مقبولیت کا میں نے سوچا بھی نہ تھا وہ مجھے قدرت نے عطا کردی۔ اگر یہ گیت مہدی حسن گا دیتے تو ان کے لیے معمول کی بات ہوتی مگر یہ میرے لیے ایک بریک تھرو تھا‘‘۔

    گلوکار اخلاق احمد 70ء کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں آئے اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت بڑا نام پایا۔ وہ 1964ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ فلم کے لیے ان کا پہلا گیت 1973ء میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انھوں نے فلم ’’پازیب‘‘کے لیے گایا تھا۔ 1960ء میں اخلاق احمد کراچی میں اسٹیج گلوکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح فلم کے لیے پلے بیک سنگر کے طور پر جگہ بن سکے۔ اس کے لیے انھوں نے بڑی جدوجہد کی۔ اور ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ گانے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہوئی۔

    بلاشبہ قدرت نے اخلاق احمد کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بہت سریلے گلوکار تھے۔ اخلاق احمد کو شروع ہی سے گائیکی کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ ہدایت کار نذرُ الاسلام کی مشہور فلم بندش میں اخلاق احمد کا گایا ہوا گیت ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘‘ بھی برصغیر پاک و ہند کے مقبول ترین گیتوں میں شامل ہے۔ فلم ’’دو ساتھی‘‘ کے لیے اخلاق احمد کی خوب صورت آواز میں گیت ’’دیکھو یہ کون آ گیا…‘‘ شائقین نے بہت پسند کیا۔ 1980ء میں ایک اور فلم کے لیے اخلاق احمد نے ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ گایا جو فیصل پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ یہ گیت اس دور میں نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    اخلاق احمد نے 100 کے لگ بھگ گیت گائے اور اہل فن سے خوب داد پائی جب کہ ان کے مداحوں نے انھیں بہت سراہا۔ اپنے کریئر کے دوران گلوکار اخلاق احمد نے آٹھ مرتبہ بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ بعض فلمی تذکروں میں آیا ہے کہ انھیں انڈسٹری میں وہ مقام نہیں‌ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں جن میں‌ ایک تو یہ اس وقت کئی بڑے سریلے گلوکار انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے اور دوسری طرف لابنگ اور کھینچا تانی تھی جس میں اخلاق احمد جیسے گلوکار کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

    بدقسمتی سے گلوکار اخلاق احمد خون کے سرطان میں مبتلا ہوگئے۔ 4 اگست 1999ء کو اس مہلک مرض کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ لندن میں مقیم تھے اور وہیں‌ ان کی تدفین عمل میں‌ لائی گئی۔

  • فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری ایک درد مند اور انسان دوست شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ وہ ان اہلِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی و ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی انقلابی شاعری سے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری نے ہندوستان میں وہ دور دیکھا جب ترقی پسند ادب کے عروج کے ساتھ برصغیر میں آزادی اور تقسیمِ ہند کے لیے انقلابی نعروں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ وہ بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور 2000ء میں یکم آج ہی کے روز ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم تھے۔

    شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ انھوں نے اس پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے ساتھ اپنی تخلیقات کے ذریعے ہندوستان میں بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ ان کی نظمیں فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے خیالات سے آراستہ ہیں۔ علی سردار جعفری اپنے وقت کے مقبول انقلابی شاعروں میں‌ سے شامل تھے۔ ان کی نظموں کو ہندوستان بھر میں پڑھا گیا۔ نئے قلم کاروں کو متاثر کرنے والے علی سردار جعفری شاعر ہی نہیں ادبی نقّاد اور ایسے مصنف تھے جن کا قلم شخصی خاکے، تذکرے، تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے بھی لکھتا رہا اور پھر ان کی یادداشتوں پر مشتمل کئی تحریریں‌ بھی یادگار ثابت ہوئیں۔

    شاعری کی بات کی جائے تو وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن ان کی غزلیں اور گیت بھی پسند کیے گئے جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ علی سردار جعفری کے کلام وہ صوتی آہنگ ملتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں علی سردار جعفری نے اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت کے مراحل اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا تھا کہ: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔ سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    اس پس منظر اور زندگی کے مختلف ادوار کی جھلک کے بعد علی سردار جعفری پر بات کی جائےتو بجا طور پر وہ اردو ادب میں اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنانے میں کام یاب رہے اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر ان کو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ انگریزوں سے آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلیمی سفر جس زمانہ میں جاری تھا، اسی زمانہ میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کرچکے تھے اور قید یا نظر بندی بھی ان کے حصّہ میں آئی۔ یوں نوجوانی میں وہ ادب کی دنیا سے ایک نہایت فعال اور متحرک شخصیت کے طور پر بھی سب کے سامنے آتے رہے۔ سردار صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔ لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    علی سردار جعفری مزید لکھتے ہیں: 1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔ 1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    علی سردار جعفری کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنے۔ وہ ممبئ سے جاری ہونے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر بھی تھے۔ انھوں نے انگریزی سے کئی مصنفین کی تحریروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ فلم کے لیے بطور گیت نگار اور مصنّف بھی کام کیا۔

    بھارتی حکومت نے علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ اور 1997ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں انھیں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) سے نوازا گیا جب کہ روس نے خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں دیا تھا۔

  • محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    فلم کے لیے گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا تھا کہ وہ فلم اپنے گانوں کی وجہ سے ضرور ہِٹ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ محمد رفیع کو میوزک ڈائریکٹر کی جانب سے شدید اعتراض یا ڈانٹ نہیں سننا پڑی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا عروج بھی دیکھا اور پسِ پردہ گائیکی ان کے لیے چیلنج بھی ثابت ہوئی۔ مگر جب محمد رفیع کا انتقال ہوا تو وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھے۔

    بطور پس پردہ گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے محمد رفیع اپنے احباب میں ایک پُرسکون اور شائستہ انداز کے مالک اور منکسر مزاج مشہور تھے۔ موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں درج یہ واقعہ اس کی ایک جھلک دکھایا ہے:‌ ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک اسکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘

    وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہ: ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔ بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘

    دوسری طرف نرم گفتار اور منسکر مزاج محمد رفیع بھی برہم یا ناراض ہوجاتے تھے لیکن بہت کم اور بہت مختلف انداز میں وہ اس کا اظہار کرتے تھے۔ سینیئر موسیقار اومی نے اپنی کتاب ‘محمد رفیع – اے گولڈن وائس’ میں لکھا ہے: ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم ’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولے کیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘

    ’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا ’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘

    ’میں امریکہ سے اسپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟

    ’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے اسپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ اسپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اسپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ ایسے تھے رفیع صاحب‘۔

    گلوکار محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک لطف اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نام برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ 31 جولائی 1980ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کو سرحد کی لکیر اور دوسری پابندیاں کبھی نہ روک پائیں۔ وہ ہر دو ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہوئے اور انڈسٹری میں کوئی آج تک ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامع مسحور ہو جاتا۔ انھوں نے شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانوی، اور کلاسیکی موسیقی کے ساتھ مغربی طرز کے گیت بھی بڑی مہارت کے ساتھ گائے۔ رفیع کے چند مقبول ترین گیتوں میں ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، ’’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘‘ اور کئی سدا بہار گیت آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں، آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں شامل ہیں۔

    اپنے زمانہ کے اس عظیم اور مقبول ترین گلوکار نے 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں آنکھ کھولی۔ 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی۔ والد گانے بجانے کے خلاف تھے مگر رفیع کو سر اور آواز اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ والد کی غیر موجودگی میں گنگناتے اور چھپ کر گاتے۔ محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع مل گیا۔ سب نے ان کی بڑی تعریف کی۔ مگر قسمت کی دیوی 1941ء میں محمد رفیع پر مہربان ہوئی۔ انھوں نے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گایا اور پھر ہندوستان کے موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی۔ اس فلم کے لیے رفیع کی آواز میں ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اب ان کا پس پردہ گائیکی کا سفر آگے‌ بڑھا اور اگلے سال ہدایت کار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اس میں انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ دوگانا گایا۔ ان میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔

    رفیع کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرنے میں کام یاب رہے۔ رفیع نے فلم کی دنیا کے ممتاز موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ان گلوکاروں میں سے تھے جن کی آواز پر اپنے دور کے ہر بڑے ہیرو اور سپر ہٹ فلمی جوڑیوں نے پرفارم کیا۔ فلمی دنیا کے ریکارڈ کے مطابق ان کے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔

  • میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    کتنے ہی ادیب اور شاعر جو دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے نام بھی لوگوں کے حافظے سے محو ہوگئے۔ ان کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں موجود تو ہیں، لیکن کسی لائبریری کے ایک کونے میں پڑی ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم ان لوگوں کے نام اور کام سے واقف نہیں جنھوں نے کبھی ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ہمیں معیاری اور مفید سرگرمیوں میں مشغول رکھا اور ان کی تحریریں ہماری راہ نمائی اور تربیت کرتی رہیں۔

    آج میرزا ادیب کی برسی ہے۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو نسل بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھی، اس کے حافظے میں میرزا ادیب کا نام ضرور محفوظ ہوگا اور اس نام سے کئی یادیں جڑی ہوں گی۔ میرزا ادیب نے بچّوں کے لیے ہی ادب تخلیق نہیں کیا بلکہ ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری، تراجم کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین، سوانح اور سفر نامے بھی لکھے۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں شاعری بھی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت نثری ادب ہی ہے۔

    کہتے ہیں کہ بڑا اور کام یاب آدمی صرف بڑے گھر اور کسی اونچے خاندان میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذہانت، لیاقت، محنت اور لگن اسے بڑا اور اپنے شعبے میں کام یاب بناتی ہے۔ میرزا ادیب نے بھی کسی بڑے گھر میں‌ آنکھ نہیں‌ کھولی تھی، بلکہ ان کا بچپن مشکلات اور مصائب جھیلتے ہوئے گزار۔ انھوں نے کئی محرومیاں دیکھیں، مگر اپنی محنت، لگن اور تعلیم کو سہارا بنا کر ایک کام یاب زندگی گزاری اور ملک بھر میں عزت و شہرت پائی۔

    31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید نے اپنی کتاب یادوں کے گلاب میں اپنی ایک شرارت کا تذکرہ کرتے ہوئے میرزا ادیب کو سادہ اور معصوم انسان، اور شریف النفس آدمی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“ میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

    میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا۔ وہ 4 اپریل 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا، ادبی سفر کی ابتدا شاعری سے کی مگر جلد ہی نثر کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کے بچپن اور حالاتِ زیست کے بارے میں انہی کی زبانی جانیے: ’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو میں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘

    وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ ان کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے اور میرزا ادیب بتاتے ہیں کہ ایک بڑے صندوق میں ان کی کتابیں محفوظ تھیں۔ دادا کے بعد ان کے والد جو خیّاط تھے، کسی طرح‌ اس ورثہ کے اہل نہیں‌ تھے، بلکہ وہ ایک خاموش طبع، کچھ اکھڑ اور تند خُو انسان تھے اور میرزا ادیب کا بچپن بھی ان کی ڈانٹ اور مار پیٹ سہتے ہوئے گزر گیا۔ انھیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی خواہش تھی نہ فکر۔ البتہ والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی کچھ تعلیم پاسکے جب کہ ان کی بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ میرزا ادیب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘

    ’’مٹی کا دیا‘‘ میرزا ادیب کی یادوں پر مشتمل کتاب ہے جس میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر مجبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘ میرزا ادیب کا یہ احساسِ محرومی تمام عمر ان کے ساتھ رہا اور ان کی تحریروں میں بھی اس کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

    میرزا ادیب بچپن ہی میں شاعری کرنے لگے تھے اور اس کے ساتھ ان میں مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول میں چند اساتذہ ان پر مہربان رہے اور ان کی توجہ اور شفقت نے میرزا ادیب کو کتابوں کے قریب کر دیا۔ وہ ادبی جرائد خرید کر پڑھنے لگے اور اسی مطالعے نے انھیں کہانیاں‌ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کی ایک نظم کسی ہفت روزہ کی زینت بھی بن گئی اور یوں وہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ میں شاعر مشہور ہوگئے۔ میرزا ادیب نے علّامہ اقبال کا کلام بھی خوب پڑھا تھا اور اسی کے زیرِ اثر وہ اسلامی موضوعات پر نظمیں اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر شاعری کرنے لگے تھے جس کا شہرہ ہوا تو ایک استاد نے ان کی ملاقات اختر شیرانی جیسے بڑے اور مشہور شاعر سے کروا دی۔ بعد میں وہ کالج میں‌ پہنچے اور ادبی تنظیموں سے وابستگی کے ساتھ بڑے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے چلے گئے جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں میرزا ادیب نے قلم ہی کو اپنی روزی روٹی کا وسیلہ بنائے رکھا۔ انھیں کسی طرح ادبِ لطیف میں مدیر کی حیثیت سے نوکری مل گئی تھی اور بعد میں وہ متعدد ادبی رسائل کے مدیر رہے یا ان کی تدوین اور آزادانہ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ یہ وہ کام تھے جن سے میرزا ادیب کو معاشی آسودگی اور ایک بہتر زندگی نصیب نہ ہوسکی، لیکن یہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔

    میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط کو بہت شہرت ملی جب کہ صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاعِ دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض میرزا ادیب کی وہ تصانیف ہیں‌ جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی خودنوشت سوانح بھی بہت مقبول ہے۔ میرزا ادیب نے بچّوں‌ کے لیے کئی کہانیاں لکھیں اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے اور یہ کہانیاں مختلف رسائل اور روزناموں میں شایع ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1981 میں میرزا ادیب کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ رائٹرز گلڈ اور گریجویٹ فلم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • رشید جہاں: اردو افسانہ کا اہم نام جن کی کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی

    رشید جہاں: اردو افسانہ کا اہم نام جن کی کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی

    یہ تذکرہ ہے رشید جہاں کا جن کے افسانے اُس وقت کے سماج میں رائج بنیاد پرستی اور جنسی اخلاقیات کے لیے چیلنج ثابت ہوئے اور ان کی کتاب انگارے متنازع ٹھیری، اور اس کی اشاعت و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ رشید جہاں کو اردو ادب کی ایک غیر روایتی خیالات کی حامل اہم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    رشید جہاں کا پیشہ طب تھا اور نظریات و خیالات کے ساتھ قلم کی طاقت نے انھیں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے پر آمادہ کرلیا تھا۔ وہ بے باک افسانہ نگار تھیں جو خواتین کے مسائل کو دردمندی سے اپنی کہانیوں میں سموتی رہیں اور ان کا مقصد اصلاح اور تبدیلی رہا۔

    افسانہ نگار رشید جہاں‌ کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1905 اور وطن علی گڑھ تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ علی گڑھ کے مشہور ماہر تعلیم، مصنف اور مسلم گرلز اسکول اور ویمنز کالج علی گڑھ کے بانی تھے۔ ان کی والدہ بھی علم و فن کی شائق اور اپنے شوہر کی بڑی مددگار تھیں۔ رشید جہاں نے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے 1929ء میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹری کی تکمیل کے بعد وہ اترپردیش میڈیکل سروس میں منتخب ہوئیں اور سب سے پہلے کانپور اور اس کے بعد بلند شہر اور لکھنؤ میں تعینات ہوئیں۔ لیکن لڑکپن ہی سے ادب میں دل چسپی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا بھی شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اور بعد میں انھیں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر شہرت ملی۔ وہ 18 سال کی تھیں‌ جب انگریزی میں انھوں نے ایک کہانی "سلمیٰ” تحریر کی جو معاشرتی موضوع پر تھی۔ اس زمانہ میں ہندوستان کئی تبدیلیاں دیکھ رہا تھا۔ رشید جہاں کم عمری ہی سے اپنے ملک کے سماجی مسائل کو دیکھ رہی تھیں اور قومی تحریک سے بھی متاثر تھیں۔

    1931 میں وہ لکھنؤ میں تھیں جہاں‌ ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی جو ادبی ذوق کے ساتھ ترقی پسند خیالات کے حامل تھے۔ رشید جہاں اس وقت تک کئی کہانیاں لکھ چکی تھیں اور 1933 میں ان سب کے افسانوں پر مشتمل مجموعہ "انگارے” لکھنؤ سے شائع ہوا جس میں رشید جہاں کی دو کہانیوں نے روایتی ذہنوں کو بدکا کے رکھ دیا۔ اگلے برس ان کی شادی محمود الظفر سے ہوگئی۔ لکھنے لکھانے اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا اور 1942 میں رشید جہاں لکھنؤ چلی گئیں جہاں انہوں نے نادار اور محتاج لوگوں کا ایک نرسنگ ہوم کھولا۔ اس کام میں ان کو اپنے ڈاکٹر دوستوں کا مفت تعاون حاصل تھا۔

    1950 میں رشید جہاں کو سرطان تشخیص ہوا۔ ڈاکٹروں نے علاج کے لیے ماسکو جانے کا مشورہ دیا اور وہاں جانے کے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ وہ 29 جولائی 1952 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ رشید جہاں کی آخری آرام گاہ ماسکو میں ہی ہے۔

    ڈاکٹر رشید جہاں ایک رسالہ ” چنگاری “ کی بھی مدیر تھیں جس کا مقصد خواتین میں شعور پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے افسانے ہی نہیں کئی ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔

  • ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    آج اردو زبان میں لسانی مباحث، املا اور انشا کے ساتھ نقد و نظر کا میدان کسی عالم فاضل اور نکتہ بیں کا متلاشی بھی ہے اور حکومتی سرپرستی کا متقاضی بھی، مگر بدقسمتی سے نہ تو علمی و تحقیقی کام کرنے والے جامعات سے فارغ التحصیل لوگ آگے آسکے ہیں اور نہ ہی اربابِ‌ اختیار اس جانب توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جس قدر کام تقسیمِ ہند سے قبل اور بٹوارے کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران ہوا، آج اس کی ضرورت پھر محسوس کی جارہی ہے۔ اردو کا یہی نوحہ لکھتے ہوئے تھک جانے والے قلم آج کے روز ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی کو بھی یاد کرتے ہیں جنھوں نے اپنی قابلیت، علمی استعداد اور وسیع مطالعے سے زبان کی بڑی خدمت کی تھی۔

    یہ وہ کام ہے جس کے لیے لسانیات سے گہرا شغف اور تحقیق کا ذوق و شوق بھی چاہیے۔ اور اب ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی جیسے ذہین، محنتی اور لگن سے کام کرنے والے ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں۔ اگر آج ہم انہی بلند پایہ محقّق، ماہرِ لسانیات اور علم الحروف میں یکتا ڈاکٹر صدیقی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اردو کے لیے کام کریں تو اس کی ترقی اور فروغ ممکن ہے۔ صدیقی صاحب 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی کام اور ان کی تنقیدی بصیرت انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ اردو زبان پر ان کے مقالہ جات، تصانیف اور پُرمغر مضامین سے بھارت اور پاکستان میں بھی استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ایک ایسے گوہرِ نایاب تھے جن کی کاوشوں نے تحقیق کو گویا ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔

    اردو ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو کے ساتھ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر شامل رہے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ اور بعد میں پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے کام انجام دیتے رہےتھے۔ اس دوران زبان و بیان سے متعلق باریکیوں اور دوسری باتوں کو سمجھنے کے لیے بابائے اردو بھی صدیقی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ مرحوم 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور اسی زمانہ میں اپنے ذوق و شوق کے سبب متعدد یورپی زبانیں سیکھیں۔ ان کا زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ سے متعلق علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    اس دور میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل کا خوب چرچا تھا اور مشاہیر ان سے ملاقات اور گفتگو کرنے کی خواہش کرتے تھے۔ ان کے مضامین اور مقالات کئی اردو جرائد میں شائع ہوئے جنھیں یکجا تو کیا گیا مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد بہت کم ہے اور وہ بھی کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی کام میں مصروفیات تھیں اور وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے لیے بہم نہیں کرسکے اور پھر وہ محفوظ نہیں رہے۔

    عبدالستار صدیقی کا تعلق سندیلہ، ضلع ہردوئی سے تھا جہاں انھوں نے 26 دسمبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپسی کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی رہے۔

    منتخاب اللغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) ان کی تحریر کردہ مستند اور جامع لغات ہیں۔