Tag: یوم وفات

  • سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    جو لوگ وجد صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رقص، مصوری اور موسیقی سے ان کو بے پناہ لگاؤ رہا ہے اور یہی وجہ ہے ان کی شاعری اکثر تصویریت اور نغمگی سے معمور نظر آتی ہے۔ وسیع المطالعہ اور فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کے شناسا وجد نے کئی خوب صورت نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔

    سکندر علی ان کا نام اور تخلّص وجد تھا۔ ان کے قریبی دوستوں نے انھیں آتش مزاج بھی لکھا، انا پرست بھی۔ لیکن وہ خوش مزاج اور وضع دار بھی مشہور تھے۔ وجد نفیس شخصیت کے مالک، تہذیب یافتہ اور بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور گانے کے ساتھ وجد کو اداکاری کا شوق بھی تھا۔ شاعری کے میدان میں سکندر علی وجد کی نظمیں خاص طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    نظم نگار کی حیثیت سے دکن کے دامن میں پوشیدہ تہذیبی خزانے یعنی اجنتا اور ایلورا کے غاروں پر ان کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا۔ تاہم وجد کا کلام اسلوب یا کسی خوبی اور لفظیات کے تعلق سے متاثر کن نہیں ہے۔ وجد کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ایک موقع پر انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا، "ہر آرٹ کی طرح شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے، مجھے اکثر اس تشنگی کا احساس ہوا ہے، میں‌ اپنی شاعری کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھتا۔ میں اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس حقیقت کا بھی شدید احساس ہے کہ یہ شاعری وقت کی ضرورتوں، حوصلوں اور آرزوؤں کی پوری ترجمانی نہیں کرتی۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اندازِ فکر، اسلوب، سخن اور زبانِ شعر میں‌ انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔”

    سکند علی وجدؔ نے 1914ء میں اورنگ آباد میں آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کام یاب ہو کر سرکاری ملازم ہوگئے، وہ ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ، آفتابِ تازہ، اوراقِ مصور، بیاضِ مریم کے نام سے ان کی شاعری کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ وجد 16 جون 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو بہت خوب صورتی سے وجد نے نظموں میں پیش کیا لیکن ان کی نظموں کے موضوعات محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وجدؔ کہتے ہیں، ’’میں نے اظہارِ خیال کے لیے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارِ سحر، خانہ بدوش، معطر لمحے سکندر علی وجد کی دل کش نظمیں ہیں۔

    سکندر علی وجد کی یہ نظم اجنتا کے غاروں کی بہترین عکاسی کرتی ہے:

    بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا

    اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا

    چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا

    سکھایا گر اسے جذبات کی آئینہ داری کا

    دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی

    جگر داروں نے بنیاد جہان جاوداں رکھ دی

    یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں

    مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں

    گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا

    یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا

  • ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انیسویں میں اس شاعرہ نے جس طرح موضوعات کے برتاؤ کے ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی کی شاعری بناتی ہے۔ ایملی ڈکنسن کی نظموں‌ میں یاسیت کا گہرا رنگ نظر آتا ہے جب کہ وہ خود بھی تنہائی پسند اور اپنی ذات میں گم رہنے والی لڑکی تھی۔

    امریکہ کی اس عظیم شاعرہ کو مقامی لوگ اس کی خلوت پسندی اور عام میل جول نہ رکھنے کی وجہ سے سنکی عورت کہتے تھے۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد انھوں نے ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں پر اپنا اثر چھوڑا۔ لیکن ایملی ڈکنسن کی شہرت اور دنیا بھر میں پہچان کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ 10 دسمبر 1830ء میں ایملی ڈکنسن امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے والد اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا اور بعد میں اسے ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں بھیجا جہاں 7 برس کے دوران ایملی ڈکنسن نے دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی مگر ایک عرصہ تک اس کے قریبی لوگ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک تخلیق کار ہے۔ ایملی ڈکنسن کو مکتوب نگاری کا بھی شوق تھا اور شاید یہ سب لکھنے لکھانے میں دل چسپی اور قلم سے محبت کی وجہ سے تھا۔ بہرحال، اس نے قلمی دوستیاں کیں اور خط کتابت کے ذریعے علمی و ادبی شخصیات سے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کا انتقال ہوگیا اور تب اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا تو ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔ یہ 1890 کی بات ہے۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال تک ادبی رسائل میں اس شاعرہ سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ کہیں نیلامی کے دوران ایک تصویر میں‌ کسی مداح نے ایملی ڈکنسن کو پہچان کر وہ تصویر خرید لی۔ لیکن دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے جس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر اس وقت بنائی گئی جب ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔ یوں اب امریکہ میں انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ کہلانے والی ایملی ڈکنسن دو تصویریں دست یاب ہیں۔ دوسری تصویر 1859ء میں کھینچی گئی تھی۔

  • حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    یہ تذکرہ ہے حسرتؔ موہانی کا جن کی فکر اور فن کی کئی جہات ہیں اور ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں بلکہ مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ حسرتؔ موہانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 13 مئی 1951ء کو حسرتؔ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    چھوٹا سا قد، لاغر بدن، گندمی رنگت پر چیچک کے داغ، چہرہ پر داڑھی، سر پر کلا بتونی ٹوپی، پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا، تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ یہ حسرتؔ کا حلیہ تھا جو ادبی محافل اور سیاسی اجتماعات میں نظر آتے تھے۔ حسرتؔ ایک محقّق، نقّاد اور تذکرہ نگار بھی تھے۔

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

    حسرتؔ کے یہ اشعار دیکھیے اور اردو کے ممتاز شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کی حسرت کے کلام پر ایک مضمون سے چند سطور پڑھیے؛ "معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فن کار (Born Master) کا ہے۔ یہ شاعری قدرِ اوّل سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اوّل کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہلِ لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔”

    ترقّی پسند تحریک کے سرداروں میں شامل سیّد سجّاد ظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں حسرتؔ کا ذکر یوں کیا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلّف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیں گے، سچّی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، تو وہ حسرتؔ موہانی کی ہستی تھی۔‘‘

    حسرتؔ کے والد کا نام سیّد ازہر حسن اور والدہ شہر بانو تھیں۔ حسرتؔ کی پیدایش کے سال میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن بیش تر تذکرہ نویسوں‌ نے جنوری 1880ء اور وطن موہان بتایا ہے۔ اُن کا نام سیّد فضل الحسن رکھا گیا۔ خوش حال گھر کے فرد تھے جس کی فضا عمومی طور پر مذہبی تھی اور حسرتؔ بھی ابتدا ہی سے نماز روزہ اور دیگر دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگے تھے۔ حسرتؔ کی والدہ اور نانی دونوں ہی فارسی اور اُردو پر نہ صرف قدرت رکھتی تھیں بلکہ شعری و ادبی ذوق بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔ چوں کہ ان دو خواتین کی زیرِ تربیت حسرتؔ کا ابتدائی وقت گزرا، لہٰذا اُن میں بھی شعر و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ طبیعت میں ذہانت اور شوخی بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اُس زمانے کے رواج کے عین مطابق حسرتؔ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا۔ قابل اساتذہ نصاب کے مطابق عربی، فارسی درسیات اور اُردو اسباق کے لیے گھر آ کر تعلیم دیا کرتے۔ ان کی تعلیم اور صحبت کا اثر یہ ہوا کہ حسرتؔ کو نو عمری ہی سے فروعِ دین کا شوق پیدا ہوگیا۔ قرآنِ پاک کی تکمیل کر لی اور پھر فتح پور، ہسوہ کے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ حسرتؔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے بہرہ وَر ہونے لگے۔ مڈل کے امتحان میں حسرتؔ نے اوّل درجے میں کام یابی حاصل کی اور ان کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ چوں کہ اُس وقت موہان میں مڈل سے آگے کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا، لہٰذا حسرتؔ کو 1893ء میں میٹرک کی تعلیم کے لیے فتح پور بھیجا گیا۔ فتح پور میں حسرتؔ نے کم و بیش پانچ برس گزارے۔ اس دوران قابل اساتذہ اور ادبی شخصیات سے اُن کا میل جول رہا اور حسرت نے جو شاعری شروع کرچکے تھے، ان کی صحبت سے خوب فیض اٹھایا۔ 1899ء میں حسرتؔ گورنمنٹ ہائی اسکول، فتح پور سے عربی، فارسی، اُردو اور ریاضی میں امتیازی شان کے ساتھ درجۂ اوّل میں کام یاب ہوئے اور ایک بار پھر سرکاری وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ حسرتؔ کی کام یابی کی یہ خبر گزٹ میں شایع ہوئی۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی شادی بھی انجام پا گئی۔ بیوی سمجھ دار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی کے بعد حسرتؔ علی گڑھ چلے گئے جہاں صحبتوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سیّد سجّاد حیدر یلدرمؔ اور مولانا شوکت علی سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا۔ 1901ء میں حسرتؔ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی اور دو سال بعد ایک ادبی رسالہ، ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ جاری کیا جس میں ان کی اہلیہ نے اُن کا ہاتھ بٹایا اور اسی زمانے میں حسرتؔ جو عملی سیاست میں یک گونہ دل چسپی محسوس کرنے لگے تھے کالج کی سطح پر طلباء سرگرمیاں انجام دینے لگے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کو لے کر مطالبات اور احتجاج میں اتنا آگے چلے گئے کہ کالج انتظامیہ نے ان کو تین بار ہاسٹل سے نکالا۔ ان کی سرگرمیاں انھیں کسی انقلابی تبدیلی کا خواہاں ظاہر کرتی تھیں۔ اسی اثنا میں حسرت نے گریجویشن کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ 1904ء میں حسرتؔ نے پہلی بار کانگریس کے کسی اجلاس میں شرکت کی اور یوں باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کا سفر شروع ہوا۔ حسرتؔ نے اسی زمانے میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام کے باوجود اس جماعت کا ساتھ نہ دیا۔ یہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کا معاملہ تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی حسرتؔ نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ ادھر ان کے رسالے میں ایک مضمون میں‌ انگریز حکومت کی حکمتِ عملی پر جارحانہ انداز میں تنقید کے بعد حسرتؔ کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر غدّاری کا مقدّمہ بن گیا۔ حکومت نے کتب خانہ اور پریس ضبط کر لیا۔ مقدّمہ چلا اور حسرت کو دو برس قید اور جرمانہ 500 روپے کیا گیا۔

    1909ء میں حسرتؔ نے ایک بار پھر ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ کا اجراء کرنا چاہا، مگر کوئی پریس رسالہ چھاپنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا تھا۔ تب انھوں نے خود اس کام کا آغاز کیا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر پریس کے سارے کام خود کرنے لگے۔ ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ اپنی روش پر گام زن رہا۔ مگر ایک اور موقع وہ آیا کہ رسالہ پھر عتاب کا شکار ہو گیا۔ حسرتؔ نے ہمّت ہارنے کے بجائے عجب قدم اٹھایا۔ وہ دکان کھول کر بیٹھ گئے جہاں علاوہ سودیشی کپڑوں کے دیگر اشیاء بھی موجود ہوتیں۔

    حسرتؔ کا سیاسی نظریہ بہت واضح تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ 1913ء ہی میں ’’مسجدِ کانپور‘‘ کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں بہت سی جانیں ضایع ہوئیں۔ اسی پر ایک تحریک چلی، اور اس تحریک کے راہ نماؤں میں حسرتؔ بھی شامل تھے۔1916ء میں حکومت نے جوہرؔ اور ابوالکلام آزاد کو حراست میں لیا، تو حسرتؔ میدان میں نکلے، مگر ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت حسرتؔ کی شہرت سے خائف بھی تھی اور یہ بھی سمجھتی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دونوں کا حسرتؔ کو یکساں قدر کی نگاہ سے دیکھنا، خطرے سے کم نہیں۔ بالآخر مئی 1918ء میں حسرتؔ کی سزا کی مدّت پوری ہوئی اور وہ رہا کیے گئے۔ 1919ء میں’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا۔ حسرتؔ کا برطانوی حکومت کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کا سلسلہ جلسے، جلوس، کانگریس اور مسلم لیگ سے اتفاق اور اختلاف کے ساتھ جاری تھا کہ 1922ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور اس کا سبب کانگریس کی خلافت کانفرنس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں باغیانہ تقاریر تھیں۔ انھیں قیدِ بامشقّت سنائی گئی۔ دو سال بعد رہائی ملی اور 1925ء میں‌ سال کے آخر میں کانپور میں ’’آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی پشت پر حسرتؔ موجود تھے۔ اب انھوں نے خود کو ’’مسلم اشتراکی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اس سیاسی سفر کے علاوہ 1936ء میں ’’انجمنِ ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حسرتؔ نے لکھنؤ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں حسرتؔ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور پھر خاندان کی ایک بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد مغربی ممالک کے دورے پر گئے۔ وہاں برطانوی سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، ہاؤس آف کامنز کے جلسے میں تقریر کی اور وہاں ہندوستانیوں کی آواز بنے رہے۔ یہاں‌ تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور حسرتؔ نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔ 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری اور تیرہواں حج ادا کرنے والے حسرت بیماری کے سبب اگلے سال انتقال کرگئے۔

    حسرتؔ کی تصنیفات و تالیفات میں ’’متروکاتِ سُخن‘‘، ’’معائبِ سخن‘‘، ’’محاسنِ سخن‘‘، ’’نوادرِ سخن‘‘،’’نکاتِ سخن‘‘،’’دیوانِ غالبؔ(اردو) مع شرح‘‘، ’’کلّیاتِ حسرتؔ‘‘، ’’قیدِ فرنگ‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ اور کئی مضامین شامل ہیں۔

  • فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    مشہور نقاد اور شاعر ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ ’’جو فلابیئر کی نثر سے واقف نہیں، اور جس نے ’’مادام بواری‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا وہ نہ اچھی شاعری کرسکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔‘‘ اس ستائش کی روشنی میں اگر فرانسیسی ادیب فلابیئر کے ناول ’’مادام بواری‘‘ کی بات کی جائے تو اسے شہرۂ آفاق ناول کہا جاتا ہے جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ ہوا۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ فلابیئر کا یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

    گستاف فلابیئر کو انیسویں صدی کا ایک حقیقت نگار کہا جاتا ہے جس نے 1880ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ 1858ء میں اپنے ناول کی اشاعت کے بعد مقدمہ میں فتح فلابیئر کی ہوئی تھی۔ فلابیئر اپنے ایک خط میں‌ لکھتا ہے: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی، لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

    فلابیئر وہ فرانسیسی ناول نگار تھا جو ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دیتا تھا۔ اسے ایک حقیقت نگار کے طور پر پہلی مرتبہ پہچانا تو گیا، مگر یہ حتمی بات نہیں ہے کہ حقیقت نگاری کا باضابطہ آغاز کس مصنّف کیا۔ محققین یہ تو مانتے ہیں کہ حقیقت نگاری کا آغاز فرانس سے ہوا تھا، لیکن اس ضمن میں متعدد ادیبوں‌ کے نام لیے جاتے ہیں۔ تاہم فلابیئر ان ناول نگاروں‌ میں شامل ہے جسے مادام بواری کی اشاعت کے بعد ادب میں بڑا نام و مرتبہ حاصل ہوا۔

    فلابیئر کے اس ناول کو شاہکار مانا جاتا ہے جس کا مرکزی خیال کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ رومان، اس ناول کی ہیروئن اور اس کے شوہر کو زوال پذیر کر دیتا ہے۔ یہ عورت کے معاشقے کی داستان ہے جو اس سماج کی نظروں میں مذہب، روایات اور عام اخلاقی قدروں کی پامالی کے مترادف تھا۔ اسی لیے مصنّف کے ساتھ اس ناول کے ناشر اور مطابع کے خلاف عدالت میں کیس دائر کردیا گیا، لیکن فریق یہ ثابت نہ کرسکا کہ ناول کا مواد کس طرح سماجی قدروں کی پامالی کا باعث، زنا کاری کی ترویج اور شادی کے بندھن کے تقدس کو پامال کررہا ہے؟ دراصل اس ناول میں جنسی اعمال و افعال کی تفصیل جس قدر کھل کر بیان کی گئی تھی، پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے اسے مصنّف کی بے باکی اور ذہنی عیاشی تصور کیا اور ناول پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس ضمن میں‌ مؤقف یہ تھا کہ مصنّف نے بدکاری کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے یہ کوئی مقدس کام ہو اور اس کے کردار کو اپنے فعل پر ندامت ہی نہیں ہے۔ یہ اُس دور کا فرانس تھا جس میں مرد اور عورت کے تعلقات کو اس قدر کھل کر بیان کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں‌ تھا۔ مگر گستاف فلابیئر نے یہ جرأت کی۔ بعد میں فلابیئر کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

    وہ ایک شاعرہ لوسی کولٹ سے طوفانی قسم کے عشق کے لیے بھی مشہور ہوا مگر اس سے شادی نہیں‌ کر سکا۔ یہ شاعرہ خود بھی ایک متنازع خاتون تھی۔ لوسی کولٹ ایک موسیقار (Colet) کی بیوی تھی جسے پیرس کے ادبی حلقوں میں شہرت حاصل تھی۔ فلابیئر سے وہ پانچ سال بڑی تھی اور پہلی ملاقات ہی میں فلابیئر اس پر فریفتہ ہوگیا تھا۔ لوسی کولٹ خود بھی فلابیئر سے مل کر اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ ان کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا مگر ان کے شہر مختلف تھے اور پھر یہ عشق ختم ہوگیا۔

    گستاف فلابیئر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ وہ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال کے ڈاکٹر کی اولاد تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ فلابیئر چوں کہ ایک خوش حال گھرانے کا فرد تھا تو اس کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ اس نے علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ تعلیم مکمل کی اور 1841 میں اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے والدین نے پیرس بھیج دیا۔ اسی زمانے میں فلابیئر کو مرگی کی تشخیص ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد اس کی ایک بہن کا بھی انتقال ہوگیا۔ فلابیئر کی ماں نے خاص طور پر بیٹے کی بیماری کا علم ہونے کے بعد اس پر بڑی توجہ دی۔

    فلابیئر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا۔ اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس سے اس کے علم اور تجربات میں‌ اضافہ ہوا۔ فلابیئر ادب کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے معیاری ادب تخلیق کرنے پر توجہ دی۔ وہ اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے میں‌ کام یاب رہا۔

    فرانس کے اس باصلاحیت ادیب نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ فلابیئر اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ایک ناول لکھ رہا تھا جو اس کی موت کی وجہ سے ادھورا رہ گیا۔

  • شمیم حنفی: ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام، ایک بہترین استاد

    شمیم حنفی: ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام، ایک بہترین استاد

    اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈرامہ نگار، شاعر اور مترجم پروفیسر شمیم حنفی چھے مئی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ نئی دہلی میں مقیم تھے۔ آج شمیم حنفی کی تیسری برسی ہے۔

    شمیم حنفی کو ان کے وطن بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی بڑی قدر و منزلت حاصل رہی اور ان کی ادبی فکر اور تخلیقات کو ہمیشہ سراہا گیا۔

    بحیثیت ادبی ناقد مشرقی شعریات پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ خصوصیت کے ساتھ شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ کے فکری مباحث کا مطالعہ انھوں نے بہت باریک بینی سے کیا تھا۔ وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے معترف تھے۔ ان کی کتاب ’اقبال اور عصرِ حاضر کا خزانہ‘ بھی ان کی یادگار ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اردو تنقید کے ساتھ ساتھ شاعری اور فنونِ لطیفہ سے بھی غیر معمولی وابستگی رکھتے تھے۔ شمیم حنفی کی کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجزیہ، اردو ثقافت اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت اور قاری سے مکالمہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

    وہ بھارت میں‌ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں استاد رہے اور پروفیسر ایمریٹس مقرر ہوئے۔ پروفیسر صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پروفیسر شمیم حنفی فروغِ اردو کے اہم ادارے ’ریختہ‘ اور ’جشنِ ادب‘ کے سرپرست بھی تھے۔ وہ 2010 سے غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔

    شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو اتر پردیش کے علاقہ سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1967 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے، 1972 میں پی ایچ ڈی اور 1976 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا تھا۔

    وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی انگریزی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی دیگر کتابوں میں منٹو: حقیقت سے افسانے تک‘، ’غالب کی تخلیقی حسیت‘، ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ‘ اور ’غزل کا نیا منظر نامہ‘ شامل ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں اور متعدد کتب کے ترجمے بھی کیے۔

  • سیّد علی بلگرامی:‌ اعلیٰ‌ پائے کے محقق اور مترجم

    سیّد علی بلگرامی:‌ اعلیٰ‌ پائے کے محقق اور مترجم

    برصغیر کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگوں اور نہایت معتبر علمی و ادبی شخصیات کا تذکرہ کیا جائے تو شمس العلماء ڈاکٹر سید علی بلگرامی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ سید علی بلگرامی اردو زبان کے نام ور مصنّف، محقق، مترجم تھے جنھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

    بلگرامی مرحوم کا سنہ پیدائش 1851ء ہے۔ لکھنؤ، پٹنہ کی جامعات اور جامعہ لندن سے تعلیم پانے والے علی بلگرامی کو علم دوست اور اشاعتِ‌ علم و فنون کا بڑا مربی اور سرپرست بھی کہا جاتا ہے جن کے قلم سے نصف درجن سے زائد تحقیقی تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ جن میں سے چند کے نام فارسی کی قدر و قیمت بہ مقابلہ سنسکرت، رسالہ در تحقیق کتاب قلیلہ و دمنہ، تمدنِ عرب (ترجمہ) اور تمدنِ ہند (ترجمہ) ہیں۔ سید علی بگرامی کی تاریخِ‌ وفات 3 مئی 1911ء ہے۔ ان کے جدِ امجد مولوی گورنر جنرل ہند کے دربار میں نواب وزیر آف اودھ کے دربار کے نمائندے تھے۔ بلگرامی صاحب کے والد زین الدّین حسن 1878 میں ریاست حیدرآباد میں کمشنر انعام بن کر آئے تھے۔ سید علی بلگرامی نے 1866ء میں فارسی و عربی کی تعلیم گھر پر ختم کی اور بعد میں اعلی تعلیم مکمل کی اور اس کے لیے انگلستان گئے۔ انھوں نے فطری ذہانت اور حافظہ سے متعدد زبانیں سیکھ لیں اور حیدرآباد میں رہتے ہوئے مرہٹی اور تیلگو بھی سیکھی۔ فرانسیسی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ چودہ زبانیں ایسے لہجے میں بولتے تھے کہ یہ سب گویا ان کی مادری زبانیں ہیں۔ انگلستان کے علاوہ یورپ میں قیام کیا اور وہاں سے واپسی پر انھیں انسپکٹر جنرل معدنیات مقرر کر دیا گیا۔ 1902ء میں وہ جامعہ کیمبرج میں مرہٹی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ سید علی بلگرامی ریاست میں تو کسی خطاب کے مستحق نہ ٹھہرے مگر گورنمنٹ آف انڈیا نے ان کی علمی خدمات کا اعتراف شمس العلماء کا خطاب 1893ء میں دے کر کیا۔ برطانوی جامعہ نے ان کو پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر آف لیٹرز (ڈی لٹ) کی ڈگریاں دیں۔ آل انڈیا ایجویشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ جو اس زمانے میں علی گڑھ میں ہوا تھا اس میں انھوں نے ایک تحقیقاتی مقالہ کلیلہ و دمنہ پڑھا۔ انھوں بڑی محنت سے پتہ چلایا تھا کہ یہ کتاب اصل میں کہاں سے نکلی، کہاں کہاں گھومی، کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی گئی اور اصل سے موجودہ نسخے کتنے مختلف ہوتے گئے۔ ڈاکٹر گستاؤ لی بان کی دو فرنسیسی تصانیف تمدنِ ہند اور تمدنِ عرب کا اردو ترجمہ ان کے شاہکار مانے جاتے ہیں۔ ایلورا کے غاروں پر بڑی چھان بین کی اور ان پر معلوماتی کتابچہ لکھا جو بعد میں پرانی یادگاروں کی تحقیق میں بڑا مفید ثابت ہوتا رہا۔

    علی بلگرامی بالکل صحت مند تھے اور ہردوئی میں ایک رات کھانا کھانے کے بعد جب وہ اپنے اہلِ خانہ سے باتیں‌ کر رہے تھے تو ناگہاں‌ حرکتِ قلب بند ہوجانے سے موت واقع ہوگئی۔

  • نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    فلم ‘راکی’ کی نمائش 7 مئی 1981ء کو ہونا تھی اور کینسر کے مرض میں مبتلا نرگس دَت اپنے بیٹے کی پہلی فلم کے پریمیئیر میں ہرحالت میں‌ شرکت کرنا چاہتی تھیں‌، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہیں دی۔ 3 مئی کو نرگس کا انتقال ہوگیا۔

    بولی وڈ اداکارہ نرگس دَت اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، "مجھے اپنی زندگی میں‌ ہمیشہ اطمینان رہا کیوں کہ جس چیز کی میں نے خواہش کی وہ حاصل ہوگئی۔ میں نے زندگی کے مختلف روپ دیکھے ہیں اور طرح طرح کے تجربات جمع کیے ہیں۔ غم اور خوشی دونوں کو میں نے پرکھا ہے اور اس سے مجھ میں‌ حیات کا عرفان پیدا ہوا ہے۔ جب زمانے کے ستائے اور درد کے ماروں سے واسطہ پڑا تو ان سے میں نے یہ سیکھا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کس پامردی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے اندر بھی ایک روحانی طاقت کا پایا جانا شرط ہے۔ اور یہ روحانی طاقت یقیناً اپنی ماں سے مجھے ورثہ میں‌ ملی ہے جس نے میرے ذہن و مزاج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں ایک بامقصد اور کام یاب زندگی گزار سکوں۔

    نرگس کا اصل نام فاطمہ رشید تھا جو سنیل دَت کی شریکِ سفر بنیں۔ سنیل دت بولی وڈ میں اداکاری کے ساتھ فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ نرگس تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن فلمی دنیا نے انھیں یہ موقع نہیں دیا۔ وہ پہلی فلم کے بعد چاہتے ہوئے بھی آفرز پر انکار نہ کرسکیں۔ لیکن بعد میں انھوں‌ نے سیاست کی دنیا میں‌ ضرور قدم رکھا اور اپنی وفات تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

    نرگس اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: قسمت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ شدّت سے چاہا تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن فلم تقدیر کے بعد پانسے ہی پلٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے میری فلمیں کام یاب ہوتی گئیں اور ڈاکٹر بننے کا پھر کبھی خیال نہیں‌ آیا، کیوں‌ کہ ایک اداکارہ جنم لے چکی تھی جو تیزی سے سرگرمِ سفر تھی۔

    نرگس دَت کی فلموں میں آمد، حسن و جمال اور ذاتی زندگی پر فلموں سے وابستہ کئی بڑے ناموں اور اہلِ قلم نے مضامین اور کتابیں‌ لکھیں۔ انہی میں اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی شامل ہیں۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں‌، نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے مصنّف نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔

    آج نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے اور ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں صرف نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ یکم جون 1929 کو نرگس کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ اَن بَن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کر دیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شاہ کار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • رشی کپور:‌ رومانوی فلموں کا مقبول ہیرو

    رشی کپور:‌ رومانوی فلموں کا مقبول ہیرو

    1973ء میں فلم ’بوبی‘ ریلیز ہوئی تھی جس میں دو نئے اداکار فلم بینوں کے سامنے تھے۔ یہ فلم کے ہیرو رشی کپور اور ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ تھے۔ اس فلم نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ بعد کے برسوں میں رشی کپور کو ان کے رومانوی کرداروں نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    بولی وڈ کے سپراسٹار رشی کپور کی کئی فلمیں کام یاب بھی ہوئیں، اور باکس آفس پر ناکامی بھی ان کا مقدر بنی لیکن رشی کپور شائقین کے دلوں پر راج کرتے رہے۔ رشی کپور کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 2020ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بھارتی اداکار رشی کپور نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ وہ 4 ستمبر 1952ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے۔ پشاور اُن کا آبائی شہر ہے جہاں آج بھی ڈھکی نعلبندی میں رشی کپور کی خاندانی اور تاریخی حویلی موجود ہے جو 1918ء میں چار سال کے عرصہ میں تعمیر ہوئی تھی۔ رشی کپور کے والد راج کپور اسی حویلی میں پیدا ہوئے تھے جسے اُن کے والد پرتھوی راج کپور نے تعمیر کروایا تھا۔ اداکار رشی کپور نے بھی 1990ء میں پشاور میں اپنی آبائی حویلی میں چند گھنٹے گزارے تھے۔

    ’بوبی‘ وہ فلم تھی جس نے ہندوستان بھر میں‌ رشی کپور کو شہرت دی اور اس فلم کے بعد انھیں انڈسٹری میں کردار آفر ہونے لگے۔ ان کا گھرانا ہندی فلموں میں اپنے فنِ اداکاری کے لیے بڑی پہچان اور مقام رکھتا تھا۔ یہ خاندان پنجابی ہندو کھتری تھا۔

    رشی کپور ایک صاف گو انسان مشہور تھے اور اداکاری کے علاوہ وہ اپنی طبیعت اور مزاج کی وجہ سے بھی لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ 2017 میں ان کی آپ بیتی ’کھلم کھلا‘ کے نام سے سامنے آئی تھی اور یہ کتاب بھی میڈیا میں‌ زیر بحث رہی کیوں کہ اس آپ بیتی میں رشی کپور نے اپنی زندگی کے کئی واقعات اور بہت سے معاملات پر واقعی کھل کر لکھا تھا۔ اپنے والد کی رنگین مزاجی کے علاوہ انھوں نے انڈسٹری میں اپنے کیریئر سے متعلق بھی کسی ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے بغیر کچھ واقعات تحریر کیے ہیں۔ رشی کپور نے اپنے اس ایوارڈ کا قصّہ بھی لکھا ہے جو ان کے بقول خریدا گیا تھا اور اس کے لیے انھوں نے 30 ہزار روپے دیے تھے۔

    رشی کپور کی شریکِ‌ حیات نیتو سنگھ تھیں جن کے ساتھ وہ فلموں میں‌ کام کرچکے تھے۔ نیتو سنگھ اپنے زمانے کی مشہور ہیروئن تھیں۔ انھوں نے 1980 میں شادی کی اور ان کا بیٹا رنبیر کپور بھی بولی وڈ اداکار بنا۔ رشی کپور کی ایک بیٹی ردھیما ہیں۔

    رشی کپور نے اپنے ہی فلمی بینر تلے 420 اور میرا نام جوکر جیسی فلموں میں‌ چائلڈ ایکٹر کے طور پر کام کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں‌، لیکن 1980 اور 1990 کی دہائی میں وہ زیادہ مقبول ہوئے۔ اداکار رشی کپور کی آخری فلم ‘دی باڈی’ تھی۔ اپنی موت سے قبل رشی کپور نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دیپکا پاڈوکون کے ساتھ اپنے نئے فلمی پروجیکٹ کا اعلان کیا تھا جو ہالی وڈ کی ایک فلم کا ہندی ری میک تھی۔

    خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد رشی کپور علاج کی غرض‌ سے امریکا کے شہر نیویارک چلے گئے تھے اور 2019ء میں‌ ایک سال علاج کے بعد بھارت لوٹے تھے۔

    رشی کپور کی چند مشہور فلمیں ‘امر اکبر انتھونی’، ‘لیلیٰ مجنوں’، ‘رفو چکر’، ‘سرگم’، ‘قرض’ اور ‘بول رادھا بول’ ہیں۔

  • سلطان محمود غزنوی: الزامات اور قصّے کہانیوں‌ میں گم کردہ شخصیت

    سلطان محمود غزنوی: الزامات اور قصّے کہانیوں‌ میں گم کردہ شخصیت

    محمود غزنوی کو تاریخ کا پہلا حکم راں کہا جاتا ہے جس نے اپنے لیے سلطان کا لفظ استعمال کیا۔ مؤرخین نے اُسے سلطنتِ‌ غزنویہ کا پہلا مطلق العنان اور آزاد حکم ران بھی لکھا ہے۔

    محمود کا دورِ سلطانی 999ء سے شروع ہوتا ہے جو 1030ء میں اس کی وفات پر تمام ہوا۔ محمود غزنوی ایک بیماری میں مبتلا ہو کر آج ہی کے دن اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات کے ابتدائی دور کی بات ہو تو سلطان محمود غزنوی کا ذکر سومناتھ میں ہندوؤں کے عظیم معبد پر سترہ حملوں کے ساتھ اس طرح کیا جاتا ہے کہ ایک طرف محمود غزنوی مثالی مسلمان حکم راں اور فاتح کے طور پر نظر آتا ہے، اور دوسری جانب اسے ہندوؤں‌ میں ایک متشدد، لٹیرا اور بربریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کو مسلمان ایک ایسا فاتح اور حکم راں‌ کہتے ہیں جس کے دربار میں علم و فضل کا بڑا چرچا تھا اور وہ قابل شخصیات کی قدر دانی اور ان پر اپنی مہربانیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ اسی سلطان کو اپنے ایک غلام ایاز کی وجہ سے بھی شہرت ملی اور محمود و ایاز کے کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم تاریخ کی نہایت معتبر اور مستند کتب کے علاوہ اکثر مشہور واقعات اور قصّوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ البیرونی جیسی علمی شخصیت بھی سلطان کے دربار سے وابستہ رہی اور اسے سلطان کی علم دوستی سے جوڑا جاتا ہے۔

    سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے اقتدار میں آکر اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور اس کے استحکام کے لیے کئی فوجی مہمّات انجام دیں اور زیادہ تر معرکوں میں کام یابی نے اس کے قدم چومے۔ سلطان نے غیرمسلم ریاستوں کو ہی نہیں ان علاقوں پر بھی لشکر کشی کی جہاں کا حاکم مسلمان تھا۔ اس نے غزنی کے ایک طرف ‘کاشغر کی ایل خانی حکومت کو، دوسری طرف خود اپنے آقا سانیون کی سلطنت، تیسری طرف ویلمیوں اور طبرستان کی حکومت آل زیاد کو مشرقی سمت میں غوریوں کی سرزمین کو جن میں سے کچھ مسلمان ہو چکے تھے، پھر اسی مشرقی سمت میں ملتان اور سندھ کی حکومتوں کو، لاہور اور ہندوستان کے بعض دوسرے راجاﺅں کی حکومت کو ختم کر کے غزنی میں اپنے اقتدار کو عظمت اور دوام بخشا۔

    تاریخ کے اوراق میں اس حکم راں کا نام یمین الدّولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی لکھا ہے۔ اس کا سنہ پیدائش 971ء ہے۔ سلطان کی تاریخِ‌ وفات 30 اپریل ہے اور اس وقت سلطان کی سلطنت ایک وسیع فوجی سلطنت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ غزنوی شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ محمود کی آخری مہم 1027ء میں سندھ کے کنارے جاٹ قبائل کے خلاف تھی اور اس کے بعد اس نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آخری مرتبہ سلطان نے ایرانی علاقے رے میں فتح حاصل کی تھی۔

    محمود کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں تاہم اس کو خدا نے دو بیٹے عطا کیے جن میں ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام مسعود رکھا۔ افغانستان کے صوبے غزنی میں سلطان محمود غزنوی کا مدفن موجود ہے۔

  • اے حمید: اردو ادب کا ایک مقبول نام

    اے حمید: اردو ادب کا ایک مقبول نام

    پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اے حمید نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کیا اور خوب شہرت پائی۔ یہ اپنے وقت کا وہ مقبول کھیل تھا جسے بچوں ہی نہیں بڑوں نے بھی پسند کیا۔ یہ اے حمید کا ایک حوالہ ہے۔ وہ پاکستان کے ایک بڑے ادیب تھے جنھوں‌ نے نثر کی مختلف اصناف کو اپنایا اور شہرت پائی۔

    اے حمید نے کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا اور انھیں اپنے خوب صورت انداز میں اپنی تخلیقات میں سمویا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔معروف ادیب اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ وہ 2011ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

    "یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

    "والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

    "ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

    "لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
    ’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

    "میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

    "پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

    "پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

    انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔