Tag: یوم وفات

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: انشاء پرداز اور مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: انشاء پرداز اور مزاح نگار

    اردو ادب میں مرزا فرحت اللہ بیگ کا نام ایک مزاح نگار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جنھوں نے ادبی تذکرے، واقعات نگاری اور شخصی خاکے بھی لکھے۔

    مرزا صاحب کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی انھوں نے طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں بھی حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا لیا ہے۔ ان کے طنز میں شدّت نہیں ہے اور اسی لیے مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریریں مقبول ہوئیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1947ء میں ہوا۔

    بیسویں صدی کے انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح پر بھی قلم اٹھایا مگر ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • شریف نیّر: پاکستانی فلموں کے معروف ہدایت کار

    شریف نیّر: پاکستانی فلموں کے معروف ہدایت کار

    پاکستانی فلمی صنعت کے لیے ہدایت کار شریف نیّر نے بے مثال کام کیا اور شائقین کو یادگار فلمیں دیں۔ ان کا فلمی کیریئر بہت کام یاب رہا۔ آج ہدایت کار شریف نیّر کی برسی ہے۔

    شریف نیّر نے ہدایت کار نذیر کے معاون کی حیثیت سے فلم لیلیٰ مجنوں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم میں لیلیٰ کا کردار سورن لتا نے اور مجنوں کا کردار نذیر نے نبھایا تھا۔ بحیثیت ہدایت کار شریف نیرّ نے پہلی فلم یادگار بنائی۔ اس کے ہیرو بھی اداکار نذیر تھے۔ 1952ء میں ان کی فلم بھیگی پلکیں سے پاکستان میں شریف نیّر نے اپنا کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے کئی فلموں کے لیے ہدایت کاری کی جن میں محفل، معصوم، عشق پر زور نہیں، نائلہ، لاڈو، ناز، دوستی، ایک تھی لڑکی شامل ہیں۔

    شریف نیّر نے 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم نائلہ کے لیے بہترین اردو فلم اور بہترین ہدایت کار سمیت 8 نگار ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ اس کے علاوہ 1971ء میں ریلیز ہونے والی فلم دوستی نے بھی بہترین اردو فلم اور بہترین ہدایت کار کے لیے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    شریف نیّر 19 اگست 1922ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور 24 اپریل 2007ء کو اسی شہر میں‌ وفات پائی۔ ہدایت کار نے بھارتی فلموں کی معروف رقاصہ ککو کی بہن سے شادی کی تھی۔ ہدایت کار شریف نیّر لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شیکسپیئر: حیات اور ادبی کارنامے

    شیکسپیئر: حیات اور ادبی کارنامے

    برطانوی ادیب اور شاعر ولیم شیکسپیئر کے بغیر انگریزی ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔ اس زمانے میں‌ جب تھیٹر ہی تفریح کا اکلوتا اور مقبول ترین ذریعہ تھا، شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں کی بدولت لازوال شہرت پائی۔ شیکسپیئر 23 اپریل 1616ء کو چل بسا تھا۔

    ڈرامہ نویس اور شاعر شیکسپیئر کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1564ء میں برطانیہ میں پیدا ہوا۔ شیکسپیئر معمولی تعلیم حاصل کرسکا۔ اسے نوجوانی میں معاش کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں‌ ایک تھیٹر میں اسے معمولی کام مل گیا۔ اسی عرصہ میں شیکسپیئر کو لکھنے لکھانے کا شوق ہوا اور اس نے اداکاری بھی کی۔

    وہ پہلے چھوٹے موٹے کردار نبھاتا رہا اور پھر تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھنے لگا۔ اس کے قلم کے زور اور تخیل کی پرواز نے اسے 1594ء تک زبردست شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار کردیا اور وہ لندن کے مشہور تھیٹر کا حصّہ بنا۔ اسی عرصے میں اس نے شاعری بھی شروع کردی اور آج اس کی تخلیقات انگریزی ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔

    انگلستان کے شعرا میں جو شہرت اور مقام و مرتبہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا وہ بہت کم ادیبوں اور شاعروں‌ کو نصیب ہوتا ہے۔ اس برطانوی شاعر اور ڈراما نگار کی ادبی تخلیقات کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ہملٹ اور میکبتھ جیسے ڈراموں کے اردو تراجم بہت مقبول ہوئے، اس کے علاوہ شیکسپیئر کی شاعری کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔ اس نے طربیہ، المیہ، تاریخی اور رومانوی ہر قسم کے ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر پر بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں نظمیں بھی شامل ہوتی تھیں اور یہ اس مصنف اور شاعر کے طرزِ تحریر میں جدتِ اور انفرادیت کی ایک مثال ہے جس نے اس وقت پڑھنے اور ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    نقد و نظر کے ساتھ شیکسپیئر کے بارے میں بعض دل چسپ باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ مثلاً یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور دل چسپ بھی کہ ولیم شیکسپیئر کی زندگی میں ان کے ڈراموں میں عورت کا کردار بھی مرد اداکار ہی نبھاتے رہے۔ اس کی وجہ جانتے ہیں۔

    اوتھیلو شیکسپیئر کا وہ مشہور کھیل ہے جس میں‌ ایک با وفا اور نہایت محبّت کرنے والی بیوی کا کردار بھی دکھایا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو ضبطِ تحریر میں‌ آئے 60 سال بیت چکے تھے، جب پہلی مرتبہ اس ڈرامے میں بیوی کا کردار ایک خاتون نے نبھایا۔

    شیکسپیئر کی تخلیقات 1592 سے 1613 کے درمیانی عرصے کی ہیں جسے برطانیہ میں‌ جدید اسٹیج ڈراموں کا ابتدائی دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت مرد فن کار ہی عورتوں کے روپ میں ان کے کردار نبھاتے نظر آتے تھے۔

    1660 میں شیکسپیئر کے ڈراموں کے شائقین نے پہلی مرتبہ کسی عورت کو اسٹیج پر اداکاری کرتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اس زمانے میں غالباً برطانیہ میں فن کار اور عوام بھی اداکاری بالخصوص اسٹیج پرفارمنس کے لیے خواتین کو موزوں خیال نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جن کے نزدیک سماج میں‌ عورتوں کا اسٹیج پر اداکاری کرنا معیوب تھا۔ ایسا نہیں‌ تھا کہ برطانیہ میں‌ خواتین کو اس فن سے وابستہ ہونے کی اجازت نہ تھی بلکہ دیگر ممالک میں‌ عورتیں‌ اداکاری اور رقص و موسیقی سے وابستہ تھیں اور شہرت رکھتی تھیں، لیکن وہاں بہتر سمجھا جاتا تھا کہ مرد ہی ہر ڈرامے میں عورت کا کردار نبھائیں۔ تاہم اس وقت برطانوی خواتین فن کاروں کے ملبوسات کی تیّاری، ان کے لیے بہروپ سازی کا سامان، ٹکٹ اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے کا کام کرتی تھیں۔

    1899ء میں سارہ برن ہارٹ وہ اداکارہ تھیں جنہوں نے ہیملٹ کا مرکزی کردار نبھایا اور بعد کے برسوں میں‌ کئی برطانوی اداکاراؤں نے شیکسپیئر کے ڈراموں میں‌ کام کرکے نام کمایا۔

  • استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

    استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

    استاد بڑے غلام علی خاں کو برصغیر کا عظیم موسیقار اور ایسا فن کار کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے کلاسیکی موسیقی کو خواص اور عوام دونوں‌ میں متعارف کروایا اور اپنے فن کی داد پائی۔ آج استاد بڑے غلام علی خاں کی برسی ہے۔

    استاد بڑے غلام علی خاں ایک گوّیے اور موجد دونوں حیثیتوں میں مستند استاد تسلیم کیے گئے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے گانے والے اُن کے مداح رہے اور گائیکی میں انھیں استاد مانتے ہیں۔ ہندوستان میں بڑے خاں صاحب کے فن کی عظمت کا اعتراف کس نے نہیں کیا۔ اس دور میں‌ جب یہاں‌ آواز ریکارڈ کروانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بڑے خاں صاحب نے بیسیوں راگ ریکارڈ کروائے اور یہ تین، تین منٹ کے ریکارڈ تھے جنھیں گاتے ہوئے ان کے ہم عصر گویّے اکثر صبح سے شام کر دیا کرتے تھے۔ صحافی اور محقق طاہر سرور میر لکھتے ہیں: ساٹھ کی دہائی میں ہدایت کار کے آصف فلم ’مغل اعظم‘ بنا رہے تھے۔ فلم کے ایک منظر میں شاہی گویے میاں تان سین کی آواز کی ضرورت پڑی تو میوزک ڈائریکٹر نوشاد نے کے آصف سے کہا کہ تان سین کی آواز کے لیے ہمیں آج کے تان سین استاد بڑے غلام علی خاں سے درخواست کرنی چاہیے لیکن بڑے خاں صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ فلمی میوزک کو اپنے شایان شان خیال نہیں کرتے تھے۔ استاد نے کہا کہ کلاسیکی موسیقی عوام کا نہیں خواص کا فن ہے، یہ میلوں ٹھیلوں اور نوٹنکیوں کے لیے نہیں۔ اسے سننے کے لیے دو سے تین سو اہل ذوق خاص طور پر محفل سجاتے ہیں، اس پر نوشاد نے کہا کہ استاد محترم اپنے عظیم فن سے ہندوستان کے 45 کروڑ عوام ( اس وقت انڈیا کی آبادی) کو محروم نہ کیجیے۔ قصہ مختصر ’مغل اعظم‘ کے لیے استاد کی آواز ریکارڈ کرنے کا معاوضہ 25 ہزار روپے ادا کیا گیا۔ اس وقت لتا منگیشکر اور محمد رفیع جیسے مین اسٹریم سنگرز چار سے پانچ سو روپے معاوضہ وصول کر رہے تھے۔

    بڑے غلام علی خاں 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ فنِ موسیقی میں‌ مشہور پٹیالہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان سنہ پیدائش 4 اپریل 1902ء اور آبائی شہر قصور تھا۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں سے ایک تھے۔ بڑے غلام علی خاں‌ کے والد علی بخش خاں اور چچا کالے خاں پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

    استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

    استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت ان کے تجربات اور گائیکی میں بعض ترامیم ہیں جو کلاسیکی موسیقی کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خاں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا، مگر پاکستان میں ریڈیو پر بعض افسران کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر 1954ء میں بھارت چلے گئے تھے۔ وہاں استاد بڑے غلام علی خان کو بہت پذیرائی ملی اور اپنے فن کی بدولت وہ پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب و القاب سے نوازے گئے۔ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔

  • شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا تذکرہ جن کے نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں!

    شکیل بدایونی کا انتقال 20 اپریل سنہ 1970 کو ہوا تھا۔ وہ ممبئی میں باندرہ قبرستان میں پیوندِ‌‌ خاک ہوئے، مگر اب ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔

    شکیل بدایونی کے فلمی نغمات اور ان کی غزلیں‌ بھارت اور پاکستان ہی نہیں‌ جہاں‌ بھی اردو زبان و شاعری سے شغف رکھنے والے رہتے ہیں، آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔ شکیل بدایونی نے فلم’ ‘درد‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل وہ مشاعروں‌ میں‌ شرکت کرکے شہرت پاچکے تھے۔

    شکیل بدایونی 3 اگست سنہ 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ والد ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیش امام تھے۔ شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی اور خاص ماحول میں پروان چڑھے۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد بدایوں کے ایک ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کر کے سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔

    شکیل بدایونی نے علی گڑھ کے زمانے میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ جگر مراد آبادی نے ان کی سرپرستی کی اور اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے اور پھر ممبئی جو اس وقت فلمی دنیا کا مرکز تھا، وہاں شکیل کو فلموں میں گیت لکھنے کا موقع 1946 میں اس وقت ملا جب ان کے ایک دوست نے ان کی ملاقات مشہور فلم پروڈیوسر اے آر کاردار سے کروائی۔ شکیل کو کام مل گیا اور پھر انھوں نے ایک سو بھی زائد فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ آج بھی شکیل بدایونی کے یہ گیت سن کر لوگ جھومنے لگتے ہیں۔ فلم مغل اعظم کا گانا ‘پیار کیا تو ڈرنا کیا، ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی اپنے زمانے کے مقبول ترین گیت تھے۔

    فلمی دنیا میں‌ شکیل بدایونی امنگوں اور پیار بھرے جذبات سے بھرپور شاعری کی وجہ سے بے حد مصروف رہے لیکن انھوں نے غزل گوئی ترک نہ کی۔ ان کا غزلیہ کلام بھی بہت خوب صورت ہے اور ان کے شعری مجموعے نغمۂ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان کے کئی اشعار زبان زد عام ہوئے اور بہت سے فلمی گیت اپنے دور میں‌ ہر نوجوان کے لبوں‌ پر گویا مچلتے رہے ہیں۔ ایک شعر دیکھیے:

    میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
    ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

    شکیل بدایونی کی یہ غزل بہت مقبول ہوئی۔ اسے کئی بڑے گلوکاروں‌ نے گایا ہے۔

    اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
    جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
    یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی
    آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
    جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
    مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

    شکیل بدایونی نے اپنے وقت کے ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ نوشاد اور شکیل بدایونی کے اشتراک سے متعدد سپر ہٹ گیت سامنے آئے جن میں فلم ‘’میلہ‘ کا ’یہ زندگی کے میلے‘، ’سہانی رات ڈھل چکی نجانے تم کب آؤ گے‘ ، ’میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم‘، اڑن کھٹولہ شامل ہیں۔ نوشاد کے بعد شکیل نے موسیقار روی کے لیے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے،
    فلم چودھویں کا چاند کے ٹائٹل گیت’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ پر 1961 میں شکیل بدایونی کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

    شکیل بدایونی کی آپ بیتی ’میری زندگی‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی جس میں‌ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں: برخوردار، آج کے مشاعرے میں کون سی غزل پڑھو گے؟ میں(شکیل بدایونی) نے عرض کیا، ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ انھوں نے کہا، ’سناؤ تو ذرا۔‘ میں نے غزل کا مطلع پڑھا:

    اندازِ مداوائے جنوں کام نہ آیا
    کوشش تو بہت کی مگر آرام نہ آیا

    حفیظ صاحب نے فرمایا کہ ’عزیزِ من، اگر یہ غزل کسی استاد کو سنا دی جاتی تو کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔‘ میں نے کہا ’حفیظ صاحب، اگر میں اسی غزل پر مشاعرہ نہ الٹ دوں تو نام نہیں۔ چنانچہ شب کو گورنر ہیملٹ کی صدارت میں مشاعرہ ہوا اور میں نے وہی غزل پڑھ کر بے پناہ داد حاصل کی۔‘

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس مقبول نغمہ نگار کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔

  • پرنس، جس نے موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا!

    پرنس، جس نے موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا!

    کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں ایسے دھنی کہ شہرت اور مقبولیت کی دیوی گویا ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوں‌ اور وہ مسلسل کام یابیاں سمیٹتے چلے جائیں۔ پرنس انہی میں سے ایک تھا لیکن فن کی دنیا میں‌ مقام و مرتبہ پانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے اندر چھپے فن کار کو پہچانے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کرسکے۔ پرنس اس میں کام یاب ہوا اور اپنی گلوکاری اور موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔

    امریکا کا یہ مشہور اور مایہ ناز گلوکار 2016ء میں آج کے دن چل بسا تھا۔ امریکی شہر مینیسوٹا میں پرنس اپنی رہائش گاہ پر بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا اور بعد میں‌ ڈاکٹروں‌ نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ پرنس کی عمر 57 برس تھی۔

    پرنس، امریکی پاپ سنگر، منجھا ہوا موسیقار، پروڈیوسر اور مشہور اداکار بھی تھا جس کے گانوں پر مشتمل البمز معرکہ آرا ثابت ہوئے اور ان کی کاپیاں کروڑوں‌ کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ پرنس 1980ء کی دہائی میں اس وقت سپر اسٹار بنا جب 1999، پرپل رین اور سائن آف دا ٹائمز جیسے البم ریلیز ہوئے اور لوگ اس کے گانوں‌ کے دیوانے ہوگئے۔ بعد کے برسوں‌ میں پرنس کو سات بار ’گریمی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا اور ’پرپل رین‘ کے گانے نے آسکر کے ’بہترین تخلیقی کاوش‘ کے زمرے میں شامل ہو کر یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    اس گلوکار، موسیقار اور اداکار کا پورا نام روجرز نیلسن تھا اور وہ امریکا میں 7 جون 1958 کو پیدا ہوا۔ روجرز نیلسن نے 2000 میں‌ اپنے مداحوں سے کہا تھا کہ وہ انھیں پرنس کے نام سے پکاریں اور تب سے وہ ‘پرنس’ مشہور ہوگیا تھا۔ پرنس نے اپنے تقریبا سبھی گانے خود لکھے جب کہ وہ متعدد ساز بجانے میں‌ بھی مہارت رکھتا تھا۔موسیقی کی دنیا میں تین دہائیوں تک پرنس چھایا رہا۔ وہ اکثر اپنا حلیہ اور نام بھی تبدیل کر لیتا تھا اور اس کا یہ انداز بھی اس کی شہرت کا ایک سبب تھا۔

    امریکا میں موسیقی کے شائقین کے درمیان پرنس کی شہرت کا ایک سبب زندگی سے بھرپور وہ گانے تھے جن پر پرنس کے مداح والہانہ انداز میں جھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

    امریکا میں‌ پرنس کی شہرت اور مقبولیت عام لوگوں‌ تک محدود نہ تھی بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ممتاز اور نمایاں‌ شخصیات بھی اس کے فن و انداز کو سراہتے تھے اور اس کے گانے پسند کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ناگہانی موت پر امریکی اور دنیا بھر کے میڈیا پر اس کی کوریج ہے۔ پرنس کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تمام بڑے ٹی وی چینلوں نے پروگرام پیش کیے۔ پرنس کے مداح اپنے محبوب سنگر کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوگئے اور محبوب گلوکار کی یاد میں‌ دہلیز پر پھول رکھے اور شمعیں روشن کی گئیں۔ اس طرح مداحوں نے پرنس سے اپنی محبّت کا اظہار کیا۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ فن و تخلیق کی دنیا کا ایسا ستارہ تھا جس کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے اس کے مشہور گانے ’پرپل رین‘ کی مناسبت سے امریکا کے مشہور نیاگرا فالز اور پیرس کے ایفل ٹاور سمیت دنیا کی متعدد مشہور عمارتوں کو اُن برقی قمقموں سے سجا دیا گیا جن سے ’پرپل روشنی‘ پھوٹ رہی تھی۔

    روجرز نیلسن المعروف پرنس بطور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پرنس کے میگا ہٹ گانے بھی اُسی کے تحریر کردہ تھے۔ اس گلوکار کے تیس سے زائد البم سامنے آئے۔

    سنہ 2004 میں پرنس کا مومی مجسمہ بھی ’روک اینڈ رول ہال‘ میں نصب کیا گیا تھا۔

  • مارک ٹوین: امریکا کا سب سے بڑا طنز نگار

    مارک ٹوین: امریکا کا سب سے بڑا طنز نگار

    مارک ٹوین امریکا کے ایک ایسے طنز نگار تھے جن کی تحریریں اور بے لاگ تبصرے دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنے۔ حاضر جواب مارک ٹوین ادیب اور مدرّس بھی تھے جو 21 اپریل 1910ء کو چل بسے تھے۔

    طنز نگار مارک ٹوین نے اسی قلمی نام سے بچّوں کے لیے کہانیاں اور ناول بھی لکھے جنھیں بہت پذیرائی ملی۔ اس امریکی ادیب کو دنیا سے گئے ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، مگر آج بھی لوگ ان کے طنزیہ مضامین کو پڑھ کر امریکی معاشرے کی خرابیوں، طبقۂ اشرافیہ کی من مانیوں، اور فرسودہ نظام اور اس کے تضاد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مارک ٹوین 1835ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا، مگر جہانِ ادب میں انھیں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ مارک ٹوین کی طنزیہ تحریروں کے علاوہ ان کے ناول ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بھی قارئین نے بہت پسند کیا۔ ان کے یہ ناول امریکہ ہی نہیں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد بڑے شوق سے پڑھے گئے اور یہ ناول اردو زبان میں بھی قارئین تک پہنچے۔ انہی ناولوں کے تراجم کی بدولت مارک ٹوین ہندوستان میں پہچانے گئے تھے۔

    امریکی طنز نگار اور ادیب مارک ٹوین گیارہ سال کے تھے جب اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد کے بعد ان کے کنبے کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اسی وجہ سے مجبوراً مارک ٹوین کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ وہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکر ہوگئے۔ وہیں کام سیکھنے کے دوران مارک ٹوین اخبار بینی اور کتب کا مطالعہ کرنے کے عادی ہوئے اور انھیں مختلف علوم میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے وقت کے بڑے ادیبوں اور اہل قلم کی تحریروں کو خاص طور پر پڑھنے لگے۔ اس شوق کی تکمیل کے دوران مارک ٹوین کو احساس ہوا کہ وہ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس میدان میں‌ ان کی حس ظرافت اور برجستہ گوئی نے انھیں‌ کام یاب اور مقبول ترین مزاح نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آج بھی مارک ٹوین کے کئی اقوال لوگ تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف امریکی عوام میں مقبول تھے بلکہ ملک کے بڑے بڑے سیاست دان، مشہور و معروف شخصیات جن میں سرمایہ دار، اہلِ علم اور فن کار بھی شامل ہیں، ان سے متأثر تھے۔ ان شخصیات پر مشتمل مارک ٹوین کا حلقۂ احباب نہایت وسیع تھا۔ اس دور کے صاحبان فکر و فن، ناقدین اور ہم عصر شخصیات نے مارک ٹوین کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور انھیں ایک منفرد طرزِ فکر کا حامل ادیب اور بے لاگ طنز نگار کہا۔

    جس طرح اردو ادب میں مرزا غالب کو شاعری کے علاوہ ان کی شوخیٔ طبع اور حس ظرافت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘

    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

    عالمی شہرت یافتہ طنز نگار مارک ٹوین کی ذاتی زندگی کے دو بڑے المیے ان کی دو جوان بیٹیوں کی ناگہانی موت ہیں۔ مارک ٹوین کی 24 سالہ بیٹی سوزی سنہ 1896ء میں انتقال کر گئی تھی۔ بیٹی کی موت کے صدمے سے نڈھال مارک ٹوین کو چند برس بعد 1904ء میں اپنی اہلیہ اولیویا کو بھی کھونا پڑا اور وہ بہت ٹوٹ گئے۔ سنہ 1909ء میں ان کی دوسری بیٹی بھی صرف 29 برس کی عمر میں چل بسی جس کے اگلے برس مارک ٹوین بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مارک ٹوین کو بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔

  • مصطفٰی علی ہمدانی: آزادی کا مژدہ سنانے والا

    مصطفٰی علی ہمدانی: آزادی کا مژدہ سنانے والا

    یہ 1947ء کی بات ہے جب گھڑی کی سوئیوں کے 12 کے ہندسے پر آنے کے ساتھ کلینڈر پر تاریخ 14 اگست ہوئی تو ریڈیو پر ایک اعلان نشر ہوا، ‘السلامُ علیکم، پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں، 13 اور 14 اگست سنہ 47 عیسوی کی درمیانی شب ہے، 12 بجے ہیں، طلوعِ صبح آزادی۔ قیامِ پاکستان کی نوید سناتی یہ آواز صدا کار مصطفٰی علی ہمدانی کی تھی۔

    نئی مملکت کے قیام کا اعلان سننے والے مسلمانوں‌ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ ہجرت بھی شروع ہوئی جس میں‌ لاکھوں افراد جانوں سے گئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والے اب آل انڈیا ریڈیو کی جگہ ریڈیو پاکستان پر مزید خبریں، ترانے اور ضروری اعلانات سماعت کررہے تھے۔

    پاکستان کی آزادی کا ریڈیو پر اعلان کرنے والے مصطفیٰ علی ہمدانی 1969 تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے لیکن 1971 میں بھارت سے غیر علانیہ جنگ کے دوران رضا ہمدانی رضاکارانہ طور پر ریڈیو پاکستان پر قوم کا جذبہ بڑھاتے رہے لیکن سانحہ ہوگیا۔ بعد میں اس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر انہوں نے ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسر کی تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔

    آج مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا اور ایک علمی و ادبی ماحول میں رہتے ہوئے 0ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق کیسے پیدا نہ ہوتا۔ 1939ء میں وہ تقسیم سے قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے تھے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • لارڈ بائرن:‌ برطانیہ کا وہ مقبول شاعر جو بدنام بھی بہت ہوا!

    لارڈ بائرن:‌ برطانیہ کا وہ مقبول شاعر جو بدنام بھی بہت ہوا!

    لارڈ بائرن نے رومانوی عہد کے سب سے بڑے تخلیق کار کا درجہ پایا اور برطانیہ کا مقبول ترین شاعر تھا۔ تاہم وہ بعض حلقوں میں اپنے چند نظریات اور عادات کی وجہ سے بدنام بھی رہا۔ بائرن کی شخصی کم زویوں کو نظر انداز کردیا جائے تو اپنے دور کے کئی بڑے اہلِ قلم اس کے فن و تخلیق کے معترف ہیں۔

    عہد وکٹوریہ کے ممتاز شعراء میں سے ایک میتھیو آرنلڈ نے بائرن کے بارے میں کہا تھا: ’’لارڈ بائرن لکھنے پر مجبور ہے اور ہم اسے پڑھنے پر مجبور ہیں۔‘‘

    بائرن نے 22 جنوری 1788ء کو لندن میں جیک بائرن کے گھر آنکھ کھولی۔ یہ تعجب خیز بات ہے کہ بائرن نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، وہ محلّے کے لوگوں اور دیگر جاننے والوں میں خبطی، بدتہذیب مشہور تھا اور اس گھر کے افراد کو کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ برطانیہ کے اس شاعر کا باپ پاگل مشہور تھا جب کہ اس کا دادا جو بحریہ میں افسر تھا، اسے بھی عجیب و غریب آدمی کہا جاتا تھا۔ بقول ایک نوکرانی کے وہ کثرتِ مے نوشی کے بعد فرش پر لیٹ جاتا اور مخصوص آواز نکال کر حشرات کو اپنے جسم پر رینگنے کی دعوت دیتا۔ یہ عمل وہ ایک عرصہ سے کر رہا تھا اور یہ بات کس قدر تعجب خیز ہے کہ مکڑیاں، چوہے اور چھپکلیاں جیسے موذی اور کریہہ حشرات یہ آوازیں سن کر اس کے قریب آجاتے۔ جب وہ تھک جاتا تو انھیں بھگا دیتا۔ اس کے علاوہ بائرن کی ماں بھی ایک جھگڑالو اور بدزبان عورت مشہور تھی۔

    لارڈ بائرن کا ایک پاؤں پیدائشی طور پر ٹیڑھا تھا۔ وہ کچھ لنگڑا کر چلتا تھا۔ کم عمری میں‌ بائرن اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا تھا۔ اس کی ماں اسے ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس نے اس کے پیر کا غلط علاج کیا اور بائرن کی تکلیف بڑھا دیں۔ اس کے بعد وہ ساری زندگی لنگڑا کر چلتا رہا۔

    کہتے ہیں کہ بائرن کا دادا نہایت امیر آدمی تھا جس کی یہ دولت پوتے کے ہاتھ لگ گئی اور اس نے ساری دولت عیاشی میں اڑا دی۔ بائرن کو لارڈ کا خطاب ملا اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا، جہاں اس نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح‌ کیا کہ پورا لندن اس کا مخالف ہو گیا۔ اس نے دو تقریریں کیں، جن میں خطابت کے جوہر تو دکھائے، لیکن لندن کے باسیوں اور ان کے طرزِ زندگی پر کڑی تنقید بھی کی۔ اس نے اشرافیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی دوسری تقریر مزدوروں کے حق میں تھی۔ وہ صنعتی انقلاب کا بڑا مخالف ثابت ہوا اور مشینوں کو بے روزگاری کا سبب بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر مشین 50 مزدوروں کو گھر بٹھا دیتی ہے۔ بائرن کی دوسری تقریر نے برطانیہ کے مذہبی طبقے کو مشتعل کر دیا۔ لارڈ بائرن نے مذہب کو ریاست کا حصّہ بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر شخص اور مذہب کو آزادی ملنا چاہیے اور لوگوں کو اپنی مرضی سے اپنی رسومات کی ادائیگی کا حق دینا چاہیے۔ کسی ایک مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائرن کے ان نظریات نے ایک ہجوم کو اس کے خلاف اکٹھا کر دیا۔ وہ اپنی پُر زور مخالفت سے تنگ آگیا تو دنیا کی سیر کرنے کی غرض سے نکل پڑا۔ بعد میں لندن لوٹا تو اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ اس کی شاعری کے دنیا کی کئی زبانوں‌ میں تراجم کیے گئے۔

    برطانیہ میں بائرن کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں اور وہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے انگریزی شاعری میں رومانوی عہد کا بڑا شاعر کہا جانے لگا۔

    بائرن نے اپنے دور کی اشرافیہ، مذہب پرستوں ہی نہیں اہلِ‌ قلم کو بھی خود سے متنفر کیا، اس نے اس وقت کے مقبول ترین تخلیق کاروں ورڈز ورتھ اور کولرج پر تنقید کی اور ان کے چاہنے والے بائرن سے ناراض ہوگئے جس کے بعد بائرن کی کتابوں کی فروخت پر بھی منفی اثر پڑا۔

    لندن میں اپنی مخالفت اور لوگوں کی نفرت نے بائرن کو بھی بیزار کر دیا تھا۔وہ یورپ چلا گیا جہاں اسے بہت پذیرائی ملی۔ بائرن نے مختلف جانور بھی پالے۔ ان میں لومڑی، بندر، طوطا، بلّی، عقاب وغیرہ شامل ہیں‌۔ اسے سب سے زیادہ محبت اپنے کتّے سے تھی۔

    1823ء میں یونانیوں اور ترکوں کے مابین جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج نے لی پانٹو نامی قلعے پر قبضہ کر لیا تو بائرن نے بھی اس قبضے کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا۔ وہ یونان کا حامی تھا۔ اس نے یونانی جرنیل کے ساتھ مل کر قلعے کا قبضہ حاصل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا اور حملہ کردیا، جس میں بائرن زخمی ہو گیا۔ اس کا علاج شروع ہوا تو تیز بخار ہوگیا اور 19 اپریل 1824ء کو بائرن کی موت واقع ہوگئی۔

    فوج میں وہ بہت مقبول تھا اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر بائرن زندہ رہتا تو اسے یونان کا بادشاہ بنا دیا جاتا۔ بائرن کو لندن میں دفن کرنا تھا لیکن یونانی اس بات پر بضد تھے کہ اسے یونان میں دفنایا جائے چنانچہ بائرن کا دل وہیں دفن کردیا گیا۔ اس کا جسد خاکی لندن پہنچایا گیا، لیکن چوں کہ وہ مذہبی حلقوں میں ناپسند کیا جاتا تھا اور لندن کے پادری بھی اس کے سخت مخالف تھے، تو اس کی وہاں تدفین مشکل ہوگئی۔ دو دن کے بعد اسے سینٹ میری چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا۔

  • اے بی اے حلیم: ماہرِ‌ تعلیم اور تحریکِ‌ پاکستان کے سرگرم کارکن

    اے بی اے حلیم: ماہرِ‌ تعلیم اور تحریکِ‌ پاکستان کے سرگرم کارکن

    پروفیسر ابوبکر احمد حلیم معروف ماہرِ تعلیم، تاریخ داں اور تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں سے تھے۔ وہ درس و تدریس، حسنِ انتظام اور نظم و ضبط کے لیے تو مشہور ہی رہے، لیکن ساتھ ہی شرافت اور اعلیٰ اخلاق کے علاوہ اپنی خوش پوشاکی کے لیے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ان کا نام مختصراً اے بی اے حلیم بھی لکھا جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب ہندوستان میں شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سربراہ، جب کہ وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی تھے۔

    ابوبکر احمد حلیم یکم مارچ 1897ء کو ارکی، جہان آباد (بہار) میں پیدا ہوئے۔انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1921ء میں ہندوستان واپس لوٹے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معلّم کے طور پر عملی زندگی شروع کی، 1923ء میں اسی درس گاہ میں شعبہ تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر اور پھر صدر نشین بن گئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1944ء تک خدمات انجام دیں۔ 1942ء میں انھیں متحدہ ہندوستان کے انٹر یونیورسٹی بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت تک وہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے منعقدہ جلسوں اور کانفرنسوں میں‌ شرکت کرنے لگے تھے۔

    1944ء میں اے بی اے حلیم نے باقاعدہ سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور نہایت متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔ انھوں نے تحریک پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 1944ء سے 1945ء تک وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے سیکرٹری کے عہدے پر رہے۔ 1945 میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ مسلم لیگ کی تعلیمی کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھے۔ 1945ء میں شملہ کانفرنس کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انھیں اپنا آئینی مشیر بھی مقرر کیا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں انھیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا جہاں وہ 1951ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر انھیں کراچی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقرر کردیا گیا۔ یہاں‌ اے بی اے حلیم اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد موتمرِ عالم اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور آخری وقت تک منسلک رہے۔

    20 اپریل 1975ء کو پروفیسر صاحب اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ پاکستان پوسٹ نے ان کی گراں قدر خدمات پر 2003ء میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔