Tag: یوم وفات

  • راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں کا نام فن و ادب کے شیدائیوں کے لیے نیا نہیں اور وہ لوگ جو اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، راجہ صاحب کے قلم کی روانی، اور جولانیِ طبع کے ضرور معترف ہوں گے، لیکن نئی نسل کے قارئین نے کم ہی بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کو پڑھا ہوگا۔ بیسویں صدی کے معروف مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور کئی سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی بڑی دل چسپ اور ان کی زندگی ہنگامہ خیز تھی۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی ادبی تخلیقات اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی راجہ صاحب کی شہرت خوب تھی۔ اپنے دور کے تمام بڑے اخبار و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے رشحاتِ قلم اردو داں طقبہ میں ان کی مقبولیت کا سبب تھے۔ راجہ صاحب کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ بیک وقت نثر اور نظم دونوں میدانوں میں رواں رہا اور ہر دو اصناف میں راجہ مہدی علی خاں نے خود کو منوایا۔ وہ ان قلم کاروں میں سے تھے جن کی تحریر پڑھنے کے لیے قاری ادبی پرچے خریدا کرتے تھے۔ انھیں ادبی مجالس اور حلقۂ یاراں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور ہم عصر ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے۔

    راجہ مہدی علی خاں نے اداریے بھی لکھے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریریں بھی جن کا بہت چرچا ہوا۔ ان کی ادبی چشمکیں اور معرکہ آرائیاں بھی خوب تھیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ راجہ صاحب کے ادبی جھگڑے بہت مشہور تھے۔

    راجہ مہدی علی خان غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں 1915 میں پیدا ہوئے۔ بعض ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ وہ ایک زمین دار خاندان کے فرد تھے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ والدہ علم و ادب سے وابستہ تھیں اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کی بدولت راجہ مہدی علی خان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ خالص علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے والے راجہ صاحب صرف دس برس کے تھے جب انھوں نے والدہ کی ہمّت افزائی اور مدد سے بچّوں کا ایک رسالہ جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں انھیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ اسی زمانہ میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے رفاقت پروان چڑھی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں نے بمبئی میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔

    راجہ صاحب کو جس پہلی فلم کے لیے بطور گیت نگار کام کرنے کا موقع ملا وہ ’’شہید‘‘ تھی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور یوں راجہ صاحب نے اپنی شاعری کا سکّہ سب پر جما دیا۔ فلم کا ایک مقبول نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی سدا بہار کہلایا۔ انھیں دوسری مرتبہ فلم ’’دو بھائی‘‘ کے لیے گیت نگاری کا موقع دیا گیا اور اس فلم کے بھی گیت بھی بے حد پسند کیے گئے۔ راجہ مہدی علی خاں کے مشہور فلمی گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ گیت شامل ہیں۔ یہ اس زمانہ کے وہ فلمی گیت ہیں جو آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان فلمی گیتوں کی شاعری کے علاوہ موسیقی بھی بے مثال ہے۔ راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا۔ اس عرصہ میں‌ انھوں نے 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب اور شاعر تھے جن کی تخلیقات نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں نے مزاحیہ شاعری بھی کی اور بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اور چند پیروڈیاں بہت مقبول ہوئیں۔ یہ نظمیں فرسودہ روایات اور اس چلن کا پوسٹمارٹم کرتی ہیں، جن سے اس وقت کا معاشرہ آلودہ ہورہا تھا اور بعض نظمیں منافقت اور تکلیف دہ انسانی رویوں پر چوٹ کرتی ہیں ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے راجہ صاحب نے بغرضِ اصلاح اپنی یہ نظمیں لوگوں تک پہنچائیں۔ راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے ”مضراب‘‘ اور ”اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔

    راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں مثنوی قہرالبیان، راج کماری چمپا، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے ممبئ میں وفات پائی۔

  • سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    ہندوستان کے بٹوارے سے قبل کولکتہ، ممبئی، لاہور اور دوسرے شہروں کے فلمی مراکز میں ’’فضلی برادران‘‘ بہت مشہور تھے یہ دو بھائی تھے جنھوں نے بحیثیت فلم ساز اپنی پہچان بنائی اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں جن میں پاکستان میں بنائی گئی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ ان بھائیوں میں سے ایک سبطین فضلی اسی سپرہٹ فلم کے ہدایت کار تھے۔

    تقسیم کے بعد سبطین فضلی بہت کم کام کرسکے مگر انھیں پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    جس زمانہ میں کلکتہ فلم سازی کا مرکز تھا اور انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں شخصیات اپنے فن و کمال کی بدولت نام کما رہی تھیں، سبطین فضلی نے بھی اپنے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ مل کر فلم سازی کا آغاز کیا۔ دونوں بھائی اپنے کام کی وجہ سے کلکتہ ہی میں‌ پہچان کا سفر شروع کرچکے تھے۔ بعد میں‌ فلم انڈسٹری بمبئی منتقل ہوگئی اور پھر تقسیمِ ہند کے نتیجے میں فن اور فن کار بھی سرحدوں‌ کے اِدھر اُدھر جیسے بٹ کر رہ گیا۔ البتہ اس دور میں سرحد کے دونوں اطراف آنا جانا آسان تھا اور بھارت یا پاکستان کے فن کار بھی مل کر فلموں میں کام کرتے تھے۔بٹوارے کے بعد سبطین فضلی لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور وہاں فلم سازی کا آغاز کیا۔ لیکن وہ صرف تین ہی فلمیں بنا سکے۔ ان کی یہ فلمیں نہایت کام یاب ثابت ہوئیں اور سبطین فضلی کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔

    اخبارات کے فلمی صفحات اور مختلف جرائد میں فن کاروں پر جو مضامین لکھے جاتے تھے، ان میں سبطین فضلی کا اور ان کی فلموں کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک خوش اخلاق اور خوش لباس بھی مشہور تھے۔ فضلی برادران اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

    9 جولائی 1914ء کو سبطین فضلی بہرائچ (اتر پردیش) کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا فلمی کیریئر برطانوی راج کے دوران شروع ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد بطور ہدایت کار ان کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ نے بے مثال کام یابی حاصل کی۔ اسے کلاسک کا درجہ ملا۔ اس فلم کے بعد سبطین فضلی نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو بزنس کے اعتبار سے ناکام رہیں اور فلم بینوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں، لیکن فلمی ناقدین انھیں شان دار تخلیق مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ فلمیں سبطین فضلی کی محنت اور لگن کا ثمر ہی نہیں تھیں بلکہ بطور فلم ساز ان کی فنی مہارت کا عمدہ نمونہ ہیں‌۔

    سبطین فضلی کی وفات پر اس دور کے فلمی مبصرین اور قلم کاروں نے کہا کہ ان کی فلم دوپٹہ ہی ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے۔ اس فلم میں سبطین فضلی نے گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نئے چہرے کو اجے کمار کے نام سے پردے پر متعارف کروایا تھا۔ فلم کے ایک اداکار سدھیر بھی تھے۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس اردو نغماتی فلم کو اداکار سدھیر کی پہلی بڑی فلم بھی کہا جاتا ہے جو بعد میں فلم انڈسٹری کی ضرورت بن گئے تھے اور بطور ہیرو لازوال کام یابیاں سمیٹی تھیں۔ سبطین فضلی کی فلم دوپٹہ کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے سبطین فضلی میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نیّر مسعود: ممتاز فکشن نگار، نقّاد اور مترجم

    نیّر مسعود: ممتاز فکشن نگار، نقّاد اور مترجم

    نیّر مسعود کا نام اردو ادب میں ایک فکشن نگار، نقّاد اور محقق و مترجم کی حیثیت سے لیا جاتا ہے وہ تہذیبی شناخت کے ایسے کہانی نویس تھے جن کی کہانیاں ہندوستان کے قدیم لکھنؤ کے ثقافتی تناظر میں ایک خواب ناک فضا تشکیل دیتی ہیں۔ نیّر مسعود نے اعلیٰ پائے کا افسانوی اور غیرافسانوی ادب تخلیق کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین اور سوانحی کتابیں اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    لکھنؤ کے نیّر مسعود کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی ادبی دنیا کا ایک نمایاں‌ نام تھے اور انھیں بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نیّر مسعود 1936ء میں لکھنؤ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ انھیں حکومتی سطح پر اور ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ 2017ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ نیر مسعود کی ایک تقریر جو ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں نہ صرف ان کے اسلوب اور منفرد طرزِ بیان کی عکاس ہے بلکہ نیر مسعود کی برسی کی مناسبت سے یہ پارے اُن کی زندگی کے مختلف ادوار کی جھلک بھی ثابت ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘بچپن سے لے کر انتالیس چالیس سال کی عمر تک خوشی قسمتی سے مجھے اپنے والد مرحوم پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب کا سایہ نصیب رہا۔ وہ اردو اور فارسی کے جید عالم اور ادیب تھے۔ میرے ذوق کی تربیت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا کتب خانہ ملک بھر میں مشہور تھا۔ اس میں سب کتابیں بڑوں کے پڑھنے کی تھیں، لیکن اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میں انہی کتابوں سے دل لگاتا تھا، چنانچہ میں نے دس گیارہ سال کی عمر تک ’ہماری شاعری‘،’آب حیات‘، ’الفاروق‘ اور ’دربار اکبری‘ وغیرہ پڑھ ڈالی تھیں خواہ وہ میری سمجھ میں نہ آئی ہوں۔ والد صاحب بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور نثر لکھنے میں بڑی محنت کرتے تھے۔ اکثر اظہار مطلب کے لیے مناسب لفظ کی تلاش میں کئی کئی دن سرگرداں رہتے تھے۔ میں نثر لکھنا بھی اپنے والد مرحوم ہی سے سیکھا۔

    ہمارے یہاں افسانوں کے مجموعے اور بچوں کی کتابیں نہیں کے برابر تھیں، لیکن ہمارے پڑوس میں ناول نگار الطاف فاطمہ کے یہاں ان کا اچھا ذخیرہ تھا اور وہاں مجھے بہت کتابیں پڑھنے کو ملیں۔

    بیشتر بچوں کی طرح مجھے بھی کہانیاں بنا کر سنانے کا شوق تھا۔ ان میں سے کچھ بچوں کے رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ پھر نوجوانی کے شروع میں بڑوں کے افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوتے ہوتے ادبی تحقیق میں مصروف ہو گیا اور سنہ 1970-71 تک تحقیقی مضامین لکھتا رہا۔ پھر شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ افسانے لکھے جن کا مجموعہ سیمیا کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے افسانے اور تحقیقی مضامین وغیرہ لکھ رہا ہوں۔

    سنہ 1970ء کے قریب میں نے ایک مکمل اور مربوط خواب دیکھا۔ محسوس ہوا کہ یہ تو اچھا خاصا افسانہ بن سکتا ہے۔ میں نے اس خواب کو معمولی رد و بدل کے بعد لکھ لیا۔ یہ میرا پہلا افسانہ ”نصرت“ تھا۔ افسانے میں کچھ خواب کی اور کچھ دھندلکے کی کیفیت تھی جو میرے کئی دوسرے افسانوں میں بھی محسوس کی گئی۔ مجھے خود یہ کیفیت بہت پسند نہیں ہے لیکن یہ خود بہ خود آ جاتی ہے، شاید اس لیے کہ میرے بہت سے افسانوں کی بنیاد میرے خوابوں پر ہے، مثلاً ”مارگیر“، ”اوجھل“، ”سلطان مظفر کا واقعہ نویس“، ”ندبہ“، ”اکلٹ میوزیم“، ”شیشہ گھاٹ“، ” علام اور بیٹا“، ”خالق آباد“ خوابوں پر مبنی ہیں۔

    اپنی ایک کمزوری کا بھی اعتراف کر لوں۔ میرے سب افسانے میرے شہر لکھنؤ میں اور میرے مکان ”ادبستان“ میں ہی لکھے گئے ہیں۔ باہر کسی جگہ میں نہ افسانہ لکھ سکا ہوں نہ کوئی مضمون یا کتاب۔

    کبھی کبھی مجھ سے میرے کسی افسانے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کبھی یہ کہ افسانے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا اس لیے یہ مہمل ہے۔ میں اس موضوع پر نہ نقادوں سے الجھتا ہوں نہ عام پڑھنے والوں سے۔ مجھے جو کچھ کہنا ہوتا ہے افسانے ہی میں کہہ دیتا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ اپنے افسانوں کی تاویل، تعبیر، تشریح خود کروں اور پڑھنے والوں کو بتاؤں کہ میں نے افسانے میں کیا کہنے کی کوشش کی ہے۔

    میرے اطراف میں چکن کاڑھنے والی عورتیں، حکیم، عطار، گھروں میں اوپر کا کام کرنے والیاں، راج مستری، مزدور، مٹی کے نازک کھلونے اور برتن بنانے والے کمہار، ہفتہ واری بازاروں میں نقلیں کرنے والے مسخرے اور طلسمی تیل وغیرہ بیچنے والے دوا فروش بہت تھے اور ان سب کی جھلکیاں میرے افسانوں میں موجود ہیں۔ پرانے مکانوں اور درختوں سے بھی مجھ کو بہت دلچسپی رہی ہے۔ ان میں بہت سی چیزیں پہلے تھیں، اب نہیں ہیں، ان کا ذکر کسی ناسٹلجیا کے بغیر اکثر آتا ہے، لیکن میں نے ان میں سے کسی چیز کو افسانے کا بنیادی موضوع نہیں بنایا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے ملک کی تہذیب کا جزو ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ ہمارے افسانہ نگار ادھر بھی توجہ کریں۔

    میرے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق کس زمانے اور کس جگہ سے ہے۔ ایسے افسانوں کے لکھنے کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا سوا اس کے کہ ان کا لکھنا مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے۔

  • قدرت اللہ شہاب: افسانوں سے خود نوشت تک

    قدرت اللہ شہاب: افسانوں سے خود نوشت تک

    اردو ادب میں قدرت اللہ شہاب نے بطور افسانہ نگار اپنے اوّلین تعارف کے بعد خود کو ایک ادیب اور نثر نگار کی حیثیت سے اس وقت منوایا جب اردو ادب کے افق پر کئی بڑے نام پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔ ان میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر اور ممتاز مفتی و دیگر شامل تھے جن کے درمیان شہاب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ قدرت اللہ شہاب کا پہلا افسانہ 1938ء میں چندراوتی کے نام سے شائع ہوا تھا۔

    قدرت اللہ شہاب کی ایک وجہِ شہرت ان کا بیورو کریٹ ہونا بھی ہے اور وہ ایسی ادبی شخصیت بھی ہیں جن پر کچھ الزامات بھی ہیں اور کی تخلیقات پر اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم جموں و کشمیر اور انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس جوائن کی۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران بہار اور اڑیسہ میں خدمات انجام دینے کے بعد 1943 میں بنگال میں تعینات رہے۔ 1947 کے اوائل میں ان کی قائداعظم سے بھی ملاقات ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد شہاب کی بیوروکریسی میں خدمات اور ان کے وسیع تجربہ کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ یہاں متعدد انتظامی عہدوں پر تقرری دی گئی۔ وہ آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور بطور سیکریٹری ایجوکیشن بھی رہے۔ جنرل یحیی خان کے دور میں شہاب نے سول سروس سے استعفٰی دے کر یونیسکو سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔

    قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل بھی ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اردو زبان کے دوسرے ممتاز ادیبوں اور اہل قلم کے مقابلے میں شہاب ایک نہایت بااثر شخص بھی تھے اور انھوں نے بھرپور اور نہایت مصروف زندگی بھی گزاری۔ سرکاری ملازمت اور مختلف شہروں‌ میں قیام کے سبب ان کے تجربات و مشاہدات، اور زندگی کے واقعات و تذکروں میں بھی کئی رنگ اور وسعت پائی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو شہاب نے معاصر قلم کاروں کے مقابلے میں بہت کم لکھا مگر ان کی کتابیں اردو ادب کے نثری سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ فسادات کو اس دور کے ہر ادیب نے موضوع بنایا ہے اور شہاب نے بھی فسادات پر مبنی ایک ناولٹ یاخدا یادگار چھوڑا ہے۔ یہ 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کے تین مشہور افسانوی مجموعے ان کی زندگی میں متعدد بار شائع ہوئے لیکن جس تصنیف نے قدرت اللہ شہاب کو جاودانی عطا کی وہ 1987ء میں شہاب نامہ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے قبل قدرت اللہ شہاب اس کے ابتدائی چند ابواب ادبی رسائل و جرائد میں شائع کروا چکے تھے اور جب کتاب چھپی تو اتنی مقبول ہوئی کہ ایک ہی سال میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع کرنے پڑے۔

    شہاب نامہ ایک اہم اور دلچسپ آپ بیتی ہے۔ اردو خودنوشت سوانح عمریوں میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی اہمیت مختلف حوالوں سے ہے۔ اوّلا یہ نہ صرف اردو کے غیر افسانوی ادب کا شاہ کار ہے بلکہ اپنے عہد کا ایک اہم سیاسی و تاریخی مرقع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے کئی بڑے اور اہم سیاسی و تاریخی حالات و واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ شہاب نامہ میں مصنف نے اپنی زندگی کے شب و روز اور حالات و واقعات کو بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کیا ہے۔

    بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات، ایس ڈی او، نندی گرام اور لارڈ ویول، بملا کماری کی بے چین روح، پاکستان کا مطلب کیا اورسادگی مسلم کی دیکھ شہاب نامہ کے ایسے ابواب ہیں جنھیں پڑھ کر قاری قدرت اللہ شہاب کی زندگی کو جان سکتا ہے۔ انھوں نے ان ابواب میں اس دور کے اہم حالات و واقعات کی دل چسپ معلومات بھی ہم تک پہنچائی ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب کو پاکستان کے ایوانِ صدر، اس دور کے اہم اجلاسوں میں شرکت اور بہت سی بااثر اور فیصلہ ساز شخصیات کو بھی قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ہمیں سیاست اور تاریخ کے عروج و زوال کے ساتھ بیوروکریسی اور اداروں کے بارے میں‌ بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔

  • خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد کا شمار پاکستان کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنھیں مقبول ترین ملّی نغمات کی دھنیں‌ ہمیشہ زندہ رکھیں گی تاہم بطور فلمی موسیقار بھی ان کا کام یادگار ہے۔ خلیل احمد کی موسیقی میں ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ جیسے ملّی گیت آج بھی نہایت مقبول ہیں۔

    موسیقار خلیل احمد 1934ء میں یوپی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام خلیل احمد خاں یوسف زئی تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد خلیل احمد 1952ء میں پاکستان آگئے۔ وہ شروع ہی سے گیت اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ اس وقت کے متحدہ پاکستان میں ان کا قیام ڈھاکہ میں تھا، لیکن پھر کراچی چلے آئے اور یہاں ایک ملازمت اختیار کر لی مگر جلد ہی اسے بھی ترک کردیا اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں مہدی ظہیر کی شاگردی میں موسیقی کا فن باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا اور پھر وہ لاہور چلے گئے۔ انھوں نے فلمی دنیا سے بحیثیت موسیقار وابستگی اختیار کی تو کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور اسی لیے جلد ان کو فلمی دنیا چھوڑنا پڑ گئی۔ 1962 ء میں خلیل احمد نے فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوئے اور خلیل احمد پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب موسیقاروں میں سے ایک بن گئے۔ انھوں نے فلم دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، ایک مسافر ایک حسینہ، آنچ، داستان کے گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ ایک نغمہ ’’ جب رات ڈھلی تم یاد آئے‘‘ پر انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا۔ 1976ء میں فلم ’’ آج اور کل‘‘ میں ان کا کمپوز کردہ گیت ’’پیار کا وعدہ ایسا نبھائیں…‘‘ بے حد مقبول ہوا جسے مہدی حسن اور مہناز نے گایا تھا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے کیریئر کے دوران خلیل احمد نے 40 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب اکثر فلم سازوں نے کام یابی کے لیے چربہ فلمیں اور انڈین موسیقاروں کی دھنیں چرانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور خلیل احمد سے بھی اسی پر اصرار کیا جانے لگا۔ خلیل احمد محنت اور کام کرنے پر یقین رکھنے والے فن کاروں میں سے تھے اور ایک خود دار انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انھوں نے فلم سازوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے سے انکار کردیا اور فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہی وجہ تھی کہ اس موسیقار کی زندگی کے آخری کئی برس تقریباً گمنامی میں گزرے۔

    اسّی کی دہائی میں خلیل احمد ریڈیو اور پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کا بھی حصّہ رہے۔ انھوں نے بچوں کے ایک مقبول پروگرام ’’آنگن آنگن تارے‘‘ کی میزبانی کی جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ اسی زمانہ میں انھوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد نغمات کی موسیقی ترتیب دی جو مقبول ثابت ہوئے۔

    موسیقار خلیل احمد 21 جولائی 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    فلمی دنیا میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے گیتا دَت کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، جن کی آواز میں کئی فلمی نغمات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔ ان گانوں پر اپنے زمانے کی مقبول ترین فلمی جوڑیوں نے پرفارمنس دی۔ گیتا دَت 1972ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔ ان کی شادی نام ور بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے ہوئی تھی۔

    گلوکارہ گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، اس وقت کے مغربی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور وہاں گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران ان کی ملاقات نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ہوئی۔ ان کے مابین بات چیت آگے بڑھی اور رومان کا سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔ 1957ء میں گرو دت نے انھیں اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں بطور اداکارہ بھی متعارف کروایا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ دراصل 1953 میں شادی کے بعد جب وہ دو بیٹوں کے والدین بنے تو گیتا دت یہ محسوس ہوا کہ وہ فلمی دنیا میں ناکام ہورہی ہیں کیوں اس وقت لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کو اہمیت دی جانے لگی تھی۔ ادھر گیتا کے شوہر فلم سازی میں بے انتہا مصروف ہوگئے تھے اور دوسری طرف ان کے اداکاراؤں سے افیئرز کی باتیں بھی گیتا کو سننے کو مل رہی تھیں۔ ان کے درمیان دوریاں بڑھنے لگی تھیں اور اسی دور میں گرو دت کو اداکارہ وحیدہ رحمان سے عشق ہو گیا۔

    گیتا کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ بطور گلوکارہ تیزی سے زوال نے پہلے ہی گیتا کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر شوہر کی بے اعتنائی نے بھی گیتا کو مایوس کیا۔ انھوں نے شراب نوشی شروع کردی۔ ایک روز گرو دت کی اچانک موت نے فلم انڈسٹری کو حیران کردیا۔ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ انھوں نے وحیدہ رحمان کے شادی سے انکار کرنے پر خود کشی کی ہے۔ شوہر کی ناگہانی موت کے بعد گیتا دت مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ وہ شکی اور حاسد طبیعت کی مالک تھیں۔ اسی عادت کی بنا پر فلمی دنیا میں گرو دت کے تعلقات کو سر پر سوار کرلیا تھا۔ دوسری طرف ایک اور بات ہوئی اور مشہور ہے کہ گیتا توہمات میں گھر کر بدروح یا جادو ٹونے پر یقین کرنے لگی تھیں۔ شوہر سے کشیدہ تعلقات کے دوران ہی وہ اپنے پالی ہل کے بنگلے میں شفٹ ہوئے تھے، جہاں مزید لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے نجانے کس کے کہنے پر گیتا نے بنگلے کو اپنے لیے منحوس سمجھنا شروع کردیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکیں اور پھر گرو دت کی موت واقع ہوگئی۔

    گرو دت کی موت کے بعد گیتا دت نے دوبارہ گلوکاری کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا۔ پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار نبھایا۔ انھوں نے 1971ء میں فلم ’’انوبھؤ‘‘ کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ لیکن زندگی کا وہ پیار اور سکھ ان کو نصیب نہیں ہوا جس کا لطف انھوں نے اپنے فلمی کیریئر اور گرو دت سے شادی کے ابتدائی زمانہ میں لیا تھا۔

    سب مانتے ہیں کہ ان کی آواز بلاشبہ بہت دل کش تھی۔ کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گیتا دت کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جاؤ سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے بھی گیتا دت کی یاد دلاتے ہیں۔

  • ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    عالمِ اسلام میں‌ خوش نویسی بالخصوص قرآنی آیات کی خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ فنِ خطّاطی کو باعثِ برکت و اعزاز بھی سمجھا جاتا ہے اور خوش نویس اس سے روحانی مسرّت حاصل کرتے ہیں۔ عباسی دورِ خلافت میں اس فن میں ابنِ مقلہ نے بڑا کمال حاصل کیا اور نام ور ہوئے۔ ابنِ مقلہ نے اس فن کو قواعد و ضوابط دینے کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر بھی متعارف کروائے۔

    ابنِ مقلہ کے زمانہ میں بغداد کو اسلامی دنیا کے بڑے علمی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ ابنِ مقلہ بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے جو 20 جولائی 940ء کو وفات پاگئے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ان کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب کے ساتھ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت رکھتے تھے۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا وہ اس عہد میں سیاسی امور میں‌ بھی عمل دخل رکھتے تھے۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ غیرمعروف اور ایک غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر بنائے گئے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر وہ ایک سازش کا شکار ہوئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ ان کی رسائی دربار تک ہوئی اور انھوں نے اپنا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن اس مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس بار قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ کا انتقال دورانِ‌ قید ہی ہوگیا تھا۔

    ان سرکاری عہدوں اور اثر رسوخ کے علاوہ وہ بغداد میں فن خطّاطی کے ایک ماہر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے اور ہر خاص و عام میں‌ ان کی بہت عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو مؤرخین نے عباسی دور کی ایک قابل اور معاملہ فہم شخصیت بھی لکھا ہے اور انہی خصوصیات کی وجہ سے انھیں دربار میں اہمیت دی جاتی تھی۔

    اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابوالفضل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

  • فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ ایسے خوش نصیب قلم کار ہیں‌ جن کی پہلی تخلیقی کاوش ہی شاہکار قرار پائی۔ وہ صرف ’بیسٹ سیلر‘ نہیں ثابت ہوئی بلکہ اس پر فرینک میکورٹ کو پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔

    ایک مصنّف کی حیثیت سے فرینک میکورٹ کا نام دنیا بھر میں ان کی کتاب ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) کی وجہ سے آج بھی لیا جاتا ہے جو دراصل ان کے بچپن کے واقعات اور یادوں پر مبنی ہے۔ میکورٹ کی یہ تصنیف امریکہ میں اشاعت کے بعد قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا مرکز بن گئی اور پھر اسے آئرلینڈ سے شایع کیا گیا اور وہاں بھی ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ اس زبردست پذیرائی نے نہ صرف میکورٹ کو شادمانی اور مسرت سے ہمکنار کیا بلکہ ان کی شہرت عالمی ادب میں ہونے لگی۔

    امریکی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں فرینک میکورٹ نے 19 اگست 1930ء کو آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا اور وہاں عوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میکورٹ کا خاندان آئرلینڈ منتقل ہوگیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے اپنی کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور اپنی ہجرت کے واقعات کو دردمندی سے بیان کرتے ہوئے انھوں‌ نے ایک نئی سرزمین پر اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے کے دنوں کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ فرینک میکورٹ 19 جولائی 2009ء کو چل بسے تھے۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    امریکہ چھوڑنے کے بعد فرینک کا خاندان آئرلینڈ کی ایک بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں ان کے والدین کو غربت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اپنے والدین کی زندگی اور جسم و روح کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھنے والے فرینک کو وہ دن خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز میں انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کرکے انھوں‌ نے ایک ایسی کہانی لکھی جو متاثر کن تھی۔ فرینک میکورٹ کو ان کی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچان ملی اور پلٹزر پرائز کے ساتھ انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ نیویارک لوٹ آئے جہاں وہ 30 سال تک ایک اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیتے رہے۔ اس وقت کوئی انھیں نہیں‌ جانتا تھا اور وہ ایک عام اسکول ٹیچر کے طور پر اپنے شب و روز بسر کررہے تھے۔ بعد میں ان کی کتاب شایع ہوئی اور لوگوں‌ نے ان کا ایک الگ روپ دیکھا۔

    آئرلینڈ میں میکورٹ کی اس کتاب کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا۔ فرینک میکورٹ کے اس سوانحی ناول پر 1999ء میں ہالی وڈ نے فلم بھی بنائی تھی۔ اس تصنیف کو بعد میں آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا گیا۔ اس مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں اپنی زندگی کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا۔

    ادب کی دنیا کے اس خوش قسمت اور کام یاب رائٹر نے 78 سال کی عمر پائی۔

  • راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    ایک زمانہ تھا جب بولی وڈ پر راجیش کھنہ کا راج تھا۔ فلم بینوں اور مداحوں نے ان کے لیے جس دیوانگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم فن کاروں کا مقدر بنا ہے۔ عالم یہ تھا کہ مداح لڑکیاں‌ ان کی کار پر بوسے دیتیں، چہرے اور بازو پر آٹو گراف دینے کی فرمائش کی جاتی اور راجیش کھنہ کی ایک جھلک دیکھنے کو گھنٹوں ان کے مداح سڑک پر کھڑے رہتے۔ اس اداکار کو بولی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے 1960 سے 70 کے عشرے میں راجیش کھنہ نے جس فلم میں بھی کام کیا وہ باکس آفس پر ہٹ ہوگئی اور فلم ساز ان سے وقت لینے کے لیے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے۔

    راجیش کھنہ سے پہلے بھی کئی نام مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھو رہے تھے جن میں دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور جیسے اداکار شامل تھے۔ لیکن مداحوں نے راجیش کھنہ کے لیے جس جنون اور وارفتگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

    اداکار راجیش کھنہ 29 دسمبر 1942ء کو غیر منقسم پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پہلی فلم ’آخری خط‘ تھی۔ راجیش کھنہ کو شہرت جس فلم سے ملی وہ ارادھنا تھی۔ اس سے پہلے راجیش کھنہ 1966ء میں چیتن آنند کی فلم آخری خط میں‌ کام کرچکے تھے مگر ارادھنا نے انھیں شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچایا وہ خود ان کے لیے ناقابل فراموش ثابت ہوا۔ فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ فلم میں ان کا ڈبل رول تھا اور راجیش کھنہ کی نشیلی آنکھیں‌ اور سر کو جھٹکنے کا انداز شائقین کو بہت بھایا۔ اس کے بعد انھوں نے متواتر کئی ہٹ فلمیں انڈسٹری کو دیں۔

    راجیش کھنہ کی مشہور اور ہم فلموں میں ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ شامل ہیں‌ جب کہ ’آپ کی قسم‘، ’دو راستے‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ سپر ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت کا یہ سلسلہ طویل نہیں تھا بلکہ جس تیزی سے انھوں نے شہرت کے ہفت افلاک طے کیے، اسی طرح ایک ٹھہراؤ بلکہ زوال کا آغاز بھی ہوا۔ راجیش کھنہ نے اپنے بنگلے کا نام آشیرواد رکھا تھا جس میں وہ فلم بابی کی ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کو بیاہ کر لائے تھے۔ وہ فلمی دنیا میں اور اپنے مداحوں کے درمیان بھی ’کاکا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ہیں۔ اداکار کئی عوارض کی وجہ سے جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کررہے تھے جس کے بعد ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 18 جولائی 2012ء کو راجیش کھنہ انتقال کرگئے۔ غصہ کرنا اور شراب نوشی راجیش کھنہ کی وہ خراب عادات تھیں جس نے ان کی خانگی زندگی کو بھی نقصان پہنچایا اور ٹوئنکل کھنہ بہت جلد ان سے دور ہوگئیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ گھر چھوڑ دیا جس میں وہ سپر اسٹار کی شریکِ سفر بن کر آئی تھیں۔

    راجیش کھنہ پر فلمائے گئے مقبول ترین گیتوں میں ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’کورا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘، ’یہ جو محبت ہے‘، ’یہ شام مستانی‘ اور ’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ شامل ہیں۔

    اداکار کی آخری کام یاب فلم نوّے کی دہائی میں ’سوّرگ‘ تھی۔ بعد میں انھوں نے ’آ اَب لوٹ چلیں‘، ‘کیا دل نے کہا‘ اور ’وفا‘ نامی فلموں میں بھی کام کیا مگر اب اُن کا دور ختم ہو چکا تھا۔ دلوں میں بسنے اور باہر کی دنیا میں ہر وقت سیکڑوں نگاہوں میں‌ رہنے والا یہ اداکار عمر کے آخری دنوں میں‌ تنہائی کا شکار رہا۔

  • جین آسٹن: انگریزی کی عظیم ناول نگار

    جین آسٹن: انگریزی کی عظیم ناول نگار

    ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس'(Pride and Prejudice) کو دنیائے ادب میں ایک شاہکار ناول مانا جاتا ہے جس کی مصنفہ جین آسٹن ہیں۔ انگریزی ناول نگار جین آسٹن کے ناولوں کے کردار اور کہانیوں کا رومان اب بھی برقرار ہے جب کہ جین آسٹن 1817 میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں‌۔ بوقتِ مرگ ان کی عمر محض 41 سال تھی۔

    جین آسٹن نے چھ بڑے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ مگر ان کہانیوں میں اس وقت کا سیاسی یا سماجی پس منظر کہیں نظر نہیں آتا۔ ناول نگار کے اکثر کردار بظاہر سیدھی سادی گھریلو لڑکیاں ہیں اور کسی قدر پیچیدہ اور منفرد شخصیت کی حامل ہیں۔ انھیں انگریزی ادب کی عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ جن کی وجہِ شہرت پرائڈ اینڈ پریجوڈس بنا۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بشمول اردو کئی زبانوں میں اس کے تراجم مقبول ہوئے۔

    اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں‌ جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔

    انگریزی کے کلاسیکی ادب کی اس ناول نگار کے فن و اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا ہے اور جین آسٹن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ صاحبِ اسلوب اور انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھنے والی ایسی مصنف تھیں جنھوں نے نہایت پُراثر انداز میں اپنی کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اپنے فن و اسلوب کی بنیاد پر سراہے جانے والی جین آسٹن کے اسی فن و اسلوب پر شک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی ایک تحقیق جو ناول نگار کی موت کے دو سو سال بعد سامنے آئی، اس میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ ہم ناول میں دیکھتے ہیں‌، وہ کسی مدیر کی کاٹ چھانٹ کا نتیجہ ہے یہ بات انھوں نے چند سال قبل اس مصنفہ کے دریافت شدہ مسودوں کا مطالعہ کرنے کے بعد کہی تھی ان کے ہم خیال بعض ادبی محققین نے بھی سمجھتے ہیں کہ جین آسٹن کو صاحبِ اسلوب نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ صرف اختراع پسند اور تجربات کی شائق ایسی ناول نگار ہیں جو گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔ انگریزی ادب کی محقق سودرلینڈ کا خیال ہے کہ یہ اسلوب جو جین آسٹن کی انفرادیت ہے، ان کے ایک معاون مدیر کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے والی سودرلینڈ نے کہا تھا کہ کئی جگہ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کے علاوہ ان مسودوں میں وہ سب نہیں‌ جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود انھیں ایسی ناول نگار کہنا چاہیے جو نئی سے نئی چیزوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتی تھیں۔

    جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ ان کی والد شاعری کا شوق رکھتی تھیں۔ جین آسٹن 1775ء میں‌ برطانیہ میں‌ پیدا ہوئیں۔ انھوں نے طنز و مزاح سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جس کا اردو ترجمہ بعنوان تکبر اور تعصّب بہت مقبول ہے۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ Sense and Sensibility یعنی شعور و احساس اور Northanger Abbey وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔ مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ کرتے ہوئے برطانوی سماج کے رویوں اور اخلاقی حالت کو بیان کیا۔