Tag: یوم وفات

  • رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رحمان، پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور اداکار تھے جنھوں نے رومانوی اور میوزیکل فلموں میں‌ اداکاری سے پہچان بنائی اور بطور ہیرو مقبول ہوئے۔ اردو کے علاوہ انھوں نے بنگالی فلموں میں بھی یادگار کردار نبھائے۔ پاکستانی فلمی صنعت کے زوال کے بعد رحمان بنگلہ دیش چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    اداکار رحمان کا پورا نام عبدالرحمان تھا۔ انہی کے زمانہ کے ایک ہم نام بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکار بھی بہت مشہور تھے جو کئی فلموں میں بطور ہیرو کام نظر آئے مگر ان کا انتقال پاکستانی اداکار رحمان سے بہت پہلے ہوا تھا۔ پاکستانی اداکار رحمان 27 فروری 1937 کو مشرقی ہندوستان کے پنچ گڑھ کے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔ وہ سب سے پہلے ہدایت کار احتشام کی بنگالی فلم ’’ایہہ دیش تمارامر‘‘ میں بطور ولن سامنے آئے تھے۔ یہ فلم 1959 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد انھیں بنگالی اور اردو فلموں میں ہیرو کے طور پر لیا جانے لگا۔ رحمان اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شبنم کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ انھوں نے 1958 سے لے کر 1970 کے آخر تک کراچی، ڈھاکہ اور لاہور کی فلموں میں کام کیا۔ رحمان نے کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ رحمان کی سپرہٹ اردو فلموں میں ’’چندا (1962)، تلاش (1963)، بہانہ (1965)، درشن (1967)، دوستی (1971) اور چاہت (1974)‘‘کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    اداکار رحمان مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں یکساں طور پر فلم بینوں میں مقبول تھے۔ ان کی رومانوی اور میوزیکل فلمیں یادگار ثابت ہوئیں اور ہیرو رحمان پر بڑے شاندار نغمات عکس بند کیے گئے۔ اداکار نے 1974 میں ایک سسپنس فلم ’’دھماکہ‘‘ میں کام کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فلم ابنِ صفی کے ناول سے ماخوذ تھی، لیکن فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور فلم سازوں نے مان لیا کہ رحمان صرف رومانوی اور میوزیکل فلموں کے لیے ہی موزوں ہیں۔

    متحدہ پاکستان کے دور کے اس اداکار نے 60 کی دہائی میں بطور ہدایت کار بھی کام یابیاں سمیٹیں۔ اسی زمانہ میں‌ وہ ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ فلم ’’پریت نہ جانے ریت‘‘ کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثہ میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے اور انھیں مصنوعی ٹانگ لگوانا پڑی۔ رحمان نے دوبارہ فلم انڈسٹری میں‌ کام شروع کیا اور کام یابیوں کا سفر جاری رکھا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد رحمان نے ایک عرصہ پاکستان میں رہے، مگر 90 کی دہائی میں بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔

    رحمان کو ایکشن فلموں میں کام کرنا پسند نہیں تھا۔ ان کی اداکاری کا سب سے بڑا وصف فطری پن تھا۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں مکالمے بولتے تھے جسے شائقین نے سراہا۔ وہ گانے بھی بڑی عمدگی سے عکس بند کراتے تھے کیوں‌ کہ وہ خود بھی موسیقی اور گائیکی کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ ان کی فلموں کے کئی گیت ہٹ ہوئے جن میں یہ موسم یہ مست نظارے (درشن)، تمہارے لیے اس دل میں اتنی محبت ہے (درشن)، پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ایسے وہ شرمائے (دو ساتھی)، دیکھو یہ کون آ گیا (دو ساتھی) اور دوسرے گیت شامل ہیں۔

    بنگلہ دیش جانے کے بعد رحمان نے وہاں بنگالی فلموں میں کام کیا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔ وہ 18 جولائی 2005 کو طویل علالت کے بعد ڈھاکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

  • انتون چیخوف: عالمی شہرت یافتہ یافتہ روسی ادیب

    انتون چیخوف: عالمی شہرت یافتہ یافتہ روسی ادیب

    روسی ادیب انتون چیخوف کو اس کی کہانیوں نے نہ صرف ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا بلکہ اس کی چند کہانیاں‌ وہ شاہ کار ثابت ہوئیں‌ جن کی بدولت چیخوف دنیا بھر میں‌ پہچانا گیا۔ افسانہ نگار انتون چیخوف کے تخلیقی جوہر اور فنی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے ناقدین نے کیا ہے۔

    انتون چیخوف ایک افسانہ نگار ہی نہیں باکمال ڈرامہ نویس بھی تھا جس کی کئی کہانیوں کو شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے افسانوں کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ہوئے اور کتابی شکل میں قارئین تک پہنچے۔ چیخوف 15 جولائی 1904ء کو چل بسا تھا۔ ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی چیخوف کو نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ اس کے فن و تخلیق کو موضوع بحث بھی بنایا جاتا ہے۔

    روسی ادیب انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سخت گیر انسان تھا جب کہ ماں ایک بہترین قصّہ گو عورت تھی۔ وہ اپنے سب بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ انتون چیخوف بچپن ہی سے ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے تھیٹر کا شوق ہوگیا۔ اس نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا۔ چیخوف کے قلم سے جو کہانیاں نکلیں وہ قارئین نے بہت پسند کیں اور روس میں اسے بہت شہرت ملی۔ بعد میں اس کے افسانے دنیا بھر میں‌ پڑھے جانے لگے۔

    چیخوف نے مالی مسائل اور غربت دیکھی تھی۔ اسے بچپن ہی میں کام کرنا پڑا اور ساتھ ہی اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ اس نے پرندے پکڑ کر بھی بازار میں بیچے اور روزی روٹی کمانے کی کوشش کی۔ پھر اس نے کسی کے توجہ دلانے پر اسکیچ بنانا سیکھ لیا اور ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام شروع کر دیا۔

    بچپن سے کہانیاں‌ سننے والے چیخوف ادب کا مطالعہ بھی کرنے لگا اور اسی مطالعہ نے اس کے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا۔ 1879ء میں چیخوف نے میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا جس کی فیس دینے کے لیے اسے زیادہ محنت کرنا پڑی۔ وہ ہر اس کام کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدنی ہوسکتی تھی کیوں‌ کہ فیس کے ساتھ اسے گھر کے اخراجات بھی پورے کرنا پڑتے تھے۔ چیخوف اس دور میں بھی اسکیچز بناتا رہا اور یہ زیادہ تر طنز و مزاح کے موضوع پر ہوتے تھے۔ ان کے ذریعے وہ عوامی مسائل اور معاشرتی خامیوں‌ کو اجاگر کرتا۔ چیخوف کے ان اسکیچز نے اسے ایک پہچان دی اور وہ وقت بھی آیا جب اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کر دی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس دوران وہ مختلف جرائد کے لیے کہانیاں‌ بھی لکھنے لگا تھا۔ لیکن جب اس نے تھیٹر کے لیے ڈرامہ تحریر کیا تو خاصی پذیرائی ملی اور اسے پسند کیا گیا۔ ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف اپنی تعلیم مکمل کرتے ہوئے 1884ء میں ڈاکٹر بن گیا۔

    وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کر دیا۔ لیکن کچھ سال بعد یہ سلسلہ ترک کردیا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف کو شہرت اور پسندیدگی تو مل چکی تھی لیکن جب اس کی کہانیاں کتابی شکل میں شایع ہوئیں تو روس کے مقبول ترین ادیبوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اور ادبی میدان میں اپنی کام یابیوں‌ سے مسرور ہوتے ہوئے اسے تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور اس وقت اس مرض کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا۔ چیخوف روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے ہاتھوں موت کا شکار بن گیا۔

    روس میں چیخوف کی پذیرائی اور اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کی عکاسی تھا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ صرف 44 برس تک زندہ رہا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • حمایت علی شاعر: ہمہ جہت ادبی شخصیت

    حمایت علی شاعر: ہمہ جہت ادبی شخصیت

    اردو ادب میں حمایت علی شاعر کا نام ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف تمام مقبول اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی بلکہ ثلاثی کے نام سے تین مصرعوں کی ایک صنف بھی ایجاد کی۔ فلم کی دنیا سے بھی ان کا تعلق بہت مضبوط رہا ہے اور وہ کئی مقبول نغمات کے خالق ہی نہیں فلمی ہدایت کار اور مصنّف بھی تھے۔ حمایت علی شاعر نے ایک بھرپور زندگی بسر کی اور اپنے تخلیق سفر میں کئی کام یابیاں سمیٹیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میر حمایت علی تھا اور ادب کی دنیا میں حمایت علی شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے شاعری اور ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھنے کے ساتھ فلم کے مختلف شعبوں میں کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ تقسیم کے بعد 1950ء کے اوائل میں حمایت علی شاعر کراچی آئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی۔ 60ء کے عشرے میں بطور فلمی نغمہ نگار اپنا سفر شروع کیا اور ان کے لکھے ہوئے کئی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ حمایت علی شاعر کو متعدد ادبی اور فلمی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ فلم ’’آنچل‘‘ اور ’’دامن‘‘ کے گیتوں پر وہ دو بار نگار ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔ 1966ء میں حمایت علی شاعر نے فلم ’’لوری‘‘ پروڈیوس کی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے لیے تحریر کردہ گیتوں نے بھی دھوم مچائی اور فلم نے کراچی میں گولڈن جوبلی بھی منائی۔ ’’لوری‘‘ کے علاوہ دو اور فلمیں ’’گڑیا‘‘ اور ’’منزل کہاں ہے تیری‘‘ بھی حمایت علی شاعر نے بنائی تھیں۔ حمایت علی شاعر نے تذکرے بھی لکھے، تدوین و تالیف کا کام بھی کیا اور دکن، ممبئی اور کراچی میں قلمی ناموں سے کالم بھی تحریر کیے۔ انھوں نے منظوم ڈرامے بھی لکھے۔

    پاکستان میں منعقدہ مشاعروں میں وہ ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے اور مشاعروں کے کام یاب شاعر تھے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے بھی شایع ہوئے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’آگ میں پھول‘‘ 1956ء میں شائع ہوئی اور 1958ء میں اسے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’’مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، اور ’’ہارون کی آواز‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا شعری مجموعہ ’’حرف حرف روشنی‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے بھی تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

    حمایت علی شاعر اردو ادب کی تاریخ کے واحد شاعر ہیں جن کی خودنوشت بھی منظوم ہے اور 3500 اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک غزل کو فلم میں بھی شامل کیا گیا تھا جس کا مطلع بہت مشہور ہے

    ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
    دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

    بنیادی طور پر انھیں ایک رومانوی شاعر کہا جاسکتا ہے لیکن ان کی غزلوں میں ہمیں معروضی حالات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ ناقدین کے مطابق حمایت علی شاعر کے اشعار میں ہمیں شعری طرزِ احساس اور جدید طرزِ احساس کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔

    بطور فلمی گیت نگار ان کا کلام معیاری اور ادبی چاشنی سے بھرپور ہے جو ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ حمایت علی شاعر کے زیادہ تر فلمی نغمات کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی۔ خلیل احمد کے ساتھ ان کی دیرینہ دوستی تھی۔ ان کے گیتوں سے مزین فلموں میں ’جب سے دیکھا ہے تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، اک تیرا سہارا، خاموش رہو، کنیز، میرے محبوب، تصویر، کھلونا، درد دل اور نائلہ شامل ہیں۔ ان کے مقبول ترین فلمی نغمات میں چند کے بول یہ ہیں: جب رات ڈھلی، تم یاد آئے، ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ، نہ چھڑا سکو گے دامن، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، نوازش کرم، شکریہ مہربانی ……

    حمایت علی شاعر نے ملی نغمات بھی لکھے جن میں‌ سب سے مشہور نغمہ ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ ہے۔ یہ نغمہ 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’مجاہد‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا۔

    15 جولائی 2019ء کو حمایت علی شاعر کینیڈا میں انتقال کرگئے اور وہیں ان کی تدفین کی گئی۔

  • یادِ رفتگاں: ’’انوکھی‘‘ کا مقبول ترین فلمی گیت اور شیلا رامانی

    یادِ رفتگاں: ’’انوکھی‘‘ کا مقبول ترین فلمی گیت اور شیلا رامانی

    تقسیمِ ہند کے بعد ابتدائی برسوں میں جہاں پاکستانی فلم انڈسٹری میں شان دار کام ہوا اور معیاری فلمیں بنائی گئیں، وہیں اس دور میں سرحد پار سے بھی فن کاروں کو پاکستانی فلموں میں کام کرنے اک موقع ملا اور انھوں نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کی۔ ممبئی کی فلم انڈسٹری کی ایک اداکارہ شیلا رامانی بھی انہی میں سے ایک تھیں۔

    وہ لوگ جو زندگی کی ساٹھ سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اور سنیما کے شوقین رہے ہیں، انھوں نے شیلا رامانی کی وہ پاکستانی فلم ضرور دیکھی ہوگی جس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘ یہ فلم ’’انوکھی‘‘ کا گیت تھا۔ اس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ فلم کی ہیروئن شیلا رامانی تھیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں، اور بعد میں ہجرت کرکے بھارت چلی گئی تھیں جہاں وہ ممبئی کی فلم نگری سے وابستہ رہیں۔ فلم انوکھی میں شیلا رامانی کے مدمقابل اداکار شاد نے کام کیا تھا۔ اس فلم کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے بلاشبہ عمدہ کام کیا۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    شیلا رامانی 2015ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہونے والی شیلا رامانی کو چیتن آنند نے بولی وڈ میں متعارف کرایا تھا۔ 1954ء میں اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور ریلیز ہوئی تو انھیں بڑے پردے کے شائقین نے بہت سراہا۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔ اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ شادی کے بعد شیلا رامانی امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    اداکارہ نے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستگی کے دوران ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کیا۔

  • زیڈ اے بخاری: علم و فنون اور ادب کی دنیا کا ایک گوہرِ نایاب

    زیڈ اے بخاری: علم و فنون اور ادب کی دنیا کا ایک گوہرِ نایاب

    مشاہیرِ فن و ادب میں تقسیمِ ہند کے بعد جو نام اپنے اپنے شعبہ میں پاکستان کی پہچان بنے، ان میں ذوالفقار علی بخاری شامل ہیں۔ قدرت نے ان کے ساتھ بڑی سخاوت اور فیاضی کی کہ وہ متعدد زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے۔ اردو زبان و بیان کی باریکیوں، تلفظ و ادائی پر ان کا کہا مستند سمجھا جاتا تھا۔ وہ ماہرِ‌ مدرس، اور ماہرِ نشریات ہی نہیں تھے بلکہ بحیثیت شاعر اور ادیب بھی ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    12 جولائی 1975ء کو ذوالفقار علی بخاری جنھیں‌ عام طور پر زیڈ اے بخاری کہا جاتا ہے، وفات پاگئے تھے۔ ان کے بھائی احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری بھی اردو مزاح میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اسے بخوبی نبھایا۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    ذوالفقار علی بخاری بی بی سی اردو سروس کے اوّلین بانی ہیں۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے تو انہیں لندن بلایا گیا اور بی بی سی کی اردو سروس شروع کی گئی جس کے وہ بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ ان کا کام اور ان کی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ زیڈ اے بخاری کے بھائی پطرس بخاری برطانوی دور کے دہلی ریڈیو سے وابستہ رہے تھے۔ پطرس جب اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے تو اس وقت زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن چکے تھے۔ اس زمانے میں ان بھائیوں کی ریڈیو پر گویا اجارہ داری تھی۔ دونوں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ‘ریاست بہت مقبول تھا اور اس میں خاص طور پر حکومت، اشرافیہ اور نواب اور راجاؤں کے خلاف مضامین شایع ہوتے تھے۔ اس بڑے ادیب اور مدیر دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رسا کو ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے BBC (ریڈیو) کو ”بخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مخفف لکھ دیا۔ یہ بڑی دل چسپ اور معنی خیز اصطلاح تھی جو اس زمانے میں ایک مذاق کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تو زیڈ اے بخاری اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اردو زبان و بیان اور تلفظ کی درست ادائی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت ان کے زیرِ سایہ ہوئی۔

    بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری کا تذکرہ ہم کرچکے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری کی اور ان کے کردار سننے والوں کے دل پر نقش ہوگئے۔ شاعری اور مضمون نگاری بھی کی جب کہ فنِ موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں تھا اس فن کے اسرار و رموز بھی جانتے تھے اور اس فن پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ زیڈ اے بخاری ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے تھے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

    ’’سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری کی وہ خود نوشت ہے جس میں قاری کو خاص طور پر ریڈیو کے ابتدائی زمانہ کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی ریڈیو کے فن کار بعد میں ٹیلی ویژن کی طرف آئے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے’’ ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بار کفر کے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔ دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار، گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔‘‘

    زیڈ اے بخاری کی یہ سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے جن میں چرچل، ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فاسٹر، جارج اورویل، بلراج ساہنی کے دل چسپ قصّے بہت لطف دیتے ہیں اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے دوست تھے۔

    بخاری صاحب نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

  • سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    شاعری سیف الدین سیف کا بنیادی حوالہ اور ان کا تعارف ہے، لیکن بطور فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ان کی فلم کرتار سنگھ (1959ء) انھیں ایک قابل اور باکمال فن کار ثابت کرتی ہے۔ سیف ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی فکر اور خیالات سے زندگی کو آسودگی بخشی اور اظہار و ابلاغ کی نئی نئی راہیں بھی تراشی ہیں۔

    سیف الدین سیف 12 جولائی 1993ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا جہاں وہ 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض تھے ان عالی دماغ اور بلند قامت شخصیات کی قربت نے سیف الدین سیف میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    سیف الدین سیف کو شروع ہی سے شاعری سے لگاؤ تھا اور کالج کے زمانے میں وہ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا فلمی دنیا سے بطور گیت نگار تعلق جڑ گیا تھا، مگر اتفاق ہے کہ وہ فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے لکھنا شروع کیے۔ یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا، لیکن شہرت اور مقبولیت بحیثیت گیت نگار پائی۔ وہ ایک عمدہ غزل گو شاعر بھی تھے اور مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ رباعی اور طویل و مختصر نظمیں کہنے والے سیف الدین سیف کو ذاتی طور پر غزل گوئی پسند رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے…. ان کے مقبول ترین فلمی گیت ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔ ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے سیف الدین سیف کو سب سے زیادہ شہرت فلم ’’گمنام‘‘ کے گیت ’’تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘ سے ملی جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔

    سیف الدین سیف لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں‌ ادب و فنون کی دنیا میں جن قابل اور باصلاحیت شخصیات نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف شعبہ جات میں اپنے منفرد کام کی بدولت نام و مقام پایا، ان میں آغا ناصر بھی شامل ہیں۔ وہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ جیسے پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے ہدایت کار اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔

    آغا ناصر کی شہرت بطور پروڈیوسر، ہدایت کار، براڈ کاسٹر ہی نہیں‌ بلکہ وہ ٹیلی ویژن کی ایسی شخصیت بھی تھے جن کا تذکرہ کیے بغیر اس مقبول میڈیم کے ابتدائی برسوں کی تاریخ مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔ آغا صاحب 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ انتقال کر گئے تھے۔

    9 فروری 1937ء میں آغا ناصر نے میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ یہاں انھوں‌ نے تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر کا ایک حوالہ ادب بھی ہے اور کشور ناہید اس سے متعلق اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کو آغا ناصر نے بہ طور ہدایت کار پی ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور یہ بھی مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر ہی تھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘ اور’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    آغا ناصر نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور اپنی خودنوشت سوانح بعنوان آغا سے آغا ناصر بھی یادگار چھوڑی۔ اس میں انھوں نے اپنی یادوں، باتوں اور مشاہیر و احباب سے ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دورانِ ملازمت پیش آنے والے کچھ اہم اور یادگار واقعات کو بھی رقم کیا ہے۔ خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    آغا ناصر کو سرکاری سطح پر تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    محمد مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی شعر گوئی ہی نہیں ان کی سخن فہمی بھی مشہور ہے۔ وہ شعر و سخن کا ایسا اعلٰی مذاق رکھتے تھے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی ان سے پسندیدگی کی سند لے کر اپنے دیوان میں کوئی شعر شامل کرتے تھے۔ آج اردو کے معروف شاعر اور غالب کے اس محسن کی برسی ہے۔

    نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم ہی نہیں زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ شیفتہ قادرُالکلام شاعر تھے۔ ان کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی ہے۔ شیفتہ کو اردو اور فارسی زبان میں کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے بھی شیفتہ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا جو اپنے علمی و تحقیقی کاموں اور ادبی تخلیقات کے سبب ہندوستان میں مشہور ہیں۔

    غالب کی وفات کے چند ماہ بعد 1869ء میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ بھی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحاب میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ مرزا غالب کے علاوہ بھی معاصر شخصیات شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف رہی ہیں۔

    شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور الطاف حسین حالی کو غالب سے انھوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

    ان کا سفرنامۂ حجاز ایک مقبول کتاب رہی ہے اور خاص طور پر وہ واقعات جو اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی سے جڑے ہیں کہ جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا لیکن حادثہ میں تمام مسافر زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اوّلین سفر ناموں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ شیفتہ کی اس کتاب کو پڑھ کر ایک طرف تو اس دور کے حجاز کے مقامات مقدسہ اور یمن کے حالات، معاشرت اور ثقافت سے آگاہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف بحری جہاز کی تباہی کے بعد مسافروں‌ کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے پر پناہ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی سبق آموز ہیں۔ شیفتہ نے لکھا ہے کہ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر ہمّت کر کے مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل کی تلاش میں نکلے اور کئی روز بعد امداد پہنچی اور سب کو بخیریت جزیرے سے نکال لیا گیا۔

    نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    اسلامی خلافتِ عباسیہ میں جہاں‌ ہارون الرشید کا نام علم و فنون کے دلدادہ حکم راں کے طور پر مشہور ہے، وہیں‌ ان کی نہایت مال دار اور باثروت شریکِ حیات زبیدہ بنتِ جعفر کو بھی اسلامی دنیا میں بہت عزّت اور احترام حاصل ہے۔ اس کی وجہ زبیدہ کے وہ فلاحی کام ہیں جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں‌ کی ترقی و خوش حالی سے تھا۔ ان میں نہرِ زبیدہ بھی شامل ہے جس نے مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں‌ کو پانی کی قلت سے نجات دی۔

    زبیدہ کا اصل نام تو امۃ العزیز تھا مگر کہتے ہیں کہ انھیں ان کے دادا ’زبیدہ‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ یہی نام ان کی پہچان بنا۔ زبیدہ 762 عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئی تھیں اور 10 جولائی 831ء کو بغداد میں وفات پائی۔ انھیں مقبرہ خیزران میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج ملکہ زبیدہ کی برسی ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ایک خوش شکل، نرم مزاج اور رحم دل عورت تھیں۔ ان کے والد ایک مال دار شخص تھے جن کے کاروبار اور جائیداد بعد میں زبیدہ کو منتقل ہوئیں۔ ان کی شادی اپنے چچا زاد ہارون الرشید سے ہوئی اور وہ پانچویں عباسی خلیفہ بنے۔ زبیدہ نے اپنی جائیدادوں سے آمدن اور متعدد کاروباری منصوبوں کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھا۔ اس کے لیے انھوں نے تجربہ کار معاون رکھے۔ مصنّف ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’ہارون الرشید کی سب سے مشہور ملکہ، زبیدہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں جو تقریباً تیس سال تک دربار میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کام یاب رہیں۔‘

    السیوطی نے ’تاریخِ خلفا‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کو والد کی طرف سے قیمتی جائیدادیں، پیسہ، زمین اور ملازمائیں ملی تھیں۔

    زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کے لیے مشہور تھیں۔ انھوں نے خاص طور پر لوگوں کو خوراک اور رہائش فراہم کرنے کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اس کے علاوہ سلطنت میں کئی تعمیراتی منصوبوں اور فلاحی اداروں کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اسی طرح وہ علم و فنون کی سرپرستی میں بھی پیش پیش رہیں۔ انھوں نے بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیرے کے لیے مشہور ’زبیدیہ لائبریری‘ کی تعمیر کے لیے مالی مدد کی۔ تاریخ داں کہتے ہیں کہ زبیدہ کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

    فلاحی کاموں کی بات کی جائے تو زبیدہ نے عراق سے مکّہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنوائی، جسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ حاجیوں اور مسافروں کے لیے کئی سرائیں تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ ابنِ بطوطہ نے بھی ملکہ زبیدہ کے ان کاموں کا حوالہ دیا ہے جو لوگوں‌ کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیے گئے۔ تبریز نامی شہر کی دوبارہ آباد کاری کے علاوہ مصر کے تاریخی شہر اسکندریہ کی ازسر نو تعمیر کے ساتھ کئی پل، نہریں وغیرہ انھوں نے خطیر رقم خرچ کرکے بنوائیں۔ وہ کئی یتیم خانوں اور اسپتالوں کی مالی سرپرستی کرتی رہیں۔

    مشہور ہے کہ ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں تو اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی قلت سے رنجیدہ ہوئیں اور ان کے حکم پر اس وقت کے ماہرین نے سخت مشکلات کے باوجود ایک نہر کھودی اور کہتے ہیں کہ اس موقع پر جب انجینئروں نے دشواریوں اور رکاوٹوں کا اظہار ان کے سامنے کیا تو ملکہ نے کہا کہ ہر قیمت پر نہر کھودی جائے گی۔ اس کام کے لیے جتنا بھی خرچ آئے پروا نہ کرو، حتّی کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو ادا کی جائے۔