Tag: یوم وفات

  • عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    ہالی وڈ کی فلموں میں اپنی بے مثال اداکاری سے عالمی شہرت پانے والے عمر شریف کی موت پر کہا گیا کہ دریائے نیل کا ایک گوہرِ نایاب پانی میں اتر گیا۔ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں‌ سے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھر دینے والے عمر شریف نے مصری فلم انڈسٹری سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 10 جولائی 2015ء کو اداکار عمر شریف دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    مصر کے مشہور شہر اسکندریہ میں 10 اپریل 1932ء کو عمر شریف نے ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا جو اسکندریہ میں آن بسے تھے۔ عمر شریف کی پرورش ایک کیتھولک مسیحی کے طور پر کی گئی۔ وہ اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہوئے۔ بعدازاں قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل لی۔ اسی زمانے میں عمر شریف کو اداکاری کا شوق ہوگیا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا۔ ’صراع فی الوادی‘ بطور اداکار ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں عمر شریف کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا۔ اس اداکارہ سے فلمی پردے کے توسط سے بننے والا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور ان دونوں نے شادی کر لی۔ فاتن حمامہ سے شادی کے ساتھ ہی عمر شریف نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    وہ دراز قد، وجیہ اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے اپنے کام کی بدولت ہالی وڈ میں بھی نام و مقام بنایا۔ اس کا سلسلہ 1960 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب عمر شریف کو مشہورِ زمانہ فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار آفر ہوا۔ بعد میں وہ متعدد فلموں‌ میں نظر آئے اور ہالی وڈ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہالی وڈ میں پہلی فلم پر انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جب کہ شریف علی نامی مشہور کردار کے لیے ان کا نام آسکر ایوارڈ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس روپ میں بھی عمر شریف نے شان دار پرفارمنس دی اور گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے کئی فیچر فلموں میں کام کیا اور ٹیلی وژن پر بھی اداکاری کی۔ 2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں نظر آئے۔ فلم میں عمر شریف نے ایک مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، اور اس مرتبہ وہ وینس کے فلمی میلے کا ایوارڈ اپنے نام کرگئے۔ عمر شریف نے 2013ء میں آخری مرتبہ ایک فیچر فلم میں کام کیا تھا۔ وہ 83 برس تک زندہ رہے اور قاہرہ میں وفات کے بعد وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ قاسمی صاحب نے کئی قابل اور باصلاحیت اہلِ قلم کو ادبی دنیا میں‌ متعارف کروایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اردو دنیا میں قاسمی صاحب کو بطور ادیب، شاعر اور نقّاد بے حد پذیرائی ملی۔ انھیں عہد ساز شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ انھوں نے مقدمات کا سامنا بھی کیا اور دو مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ قاسمی صاحب 10 جولائی 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو ادب کے لیے ان کی خدمات نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہیں۔ آج بھی ان کی کہانیاں‌، افسانے اور شاعری ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب کو سرکاری سطح پر اور کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم اور والد کے انتقال کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ دیہاتی ماحول میں‌ پروان چڑھنے والے قاسمی صاحب کا اصل نام احمد شاہ تھا جو فطرت سے بے حد قریب رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں‌ اور فکشن میں‌ دیہات کی منظر کشی اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ قاسمی صاحب کا گہرا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے چچا کی سرپرستی میں نوعمری کے دن گزار رہے تھے کہ ان کا تبادلہ شیخو پورہ ہوگیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    1931ء میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر کے لندن میں انتقال کرجانے پر احمد ندیم قاسمی نے ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے پورے صفحے پر شائع کر دی۔ اس نظم کے طفیل قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا اور ان کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ قاسمی صاحب کو دیہات کی زندگی اور مسائل نے بہت کچھ سکھایا تھا۔ شاعری کے ساتھ رسائل اور ادبی جرائد کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے افسانے اور مضامین بھی خوب پڑھے اور پھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور مصنّف کی تعریف کی۔ بعد میں منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی۔ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں قاسمی صاحب کو مدعو کیا جاتا رہا جہاں‌ ان کے مداح انھیں سنتے اور سراہتے۔ وہ اردو کے ایک سفیر کی حیثیت سے ملکوں ملکوں‌ گھومے پھرے اور خوب لکھا۔ قاسمی صاحب نے سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوئے لیکن اسے بھی ترک کردیا۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے جہاں‌ اردو ادب کے کئی بڑے نام موجود تھے جو فلم یا اخبار و ادبی جرائد سے وابستہ تھے۔ قاسمی صاحب نے یہاں ایک ادبی جریدہ فنون کی بنیاد رکھی جو ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    فنون کی ادارت سنبھال کر قاسمی صاحب نے معیاری ادب کو فروغ دیا اور نئے لکھنے والوں کو سراہتے ہوئے ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔ ان کی پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابیں شایع ہوئیں۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ قاسمی صاحب نے تنقیدی مضامین اور تراجم بھی کیے۔ ان کی تصانیف میں افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا کےعلاوہ تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابیں‌ شامل ہیں۔ میرے ہم قدم ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ تھا۔ اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کے فکاہیہ کالم اور مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ قاسمی صاحب کے افسانوں اور کہانیوں کو ڈرامے کی شکل میں بھی پیش کیا گیا اور فلم کے لیے بھی کہانی اخذ کی گئی۔ 1947ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے قومی و ملّی نغمات کے علاوہ فیچر اور ڈرامے تحریر کیے جب کہ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کو انہی کا تحریر کردہ اوّلین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا۔

  • ذہین طاہرہ:‌ پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ

    ذہین طاہرہ:‌ پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ

    آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور معلومات کے ساتھ تفریح کے مواقع بھی بہت سے ہیں، لیکن ایک دور میں لوگ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات سے محظوظ ہوا کرتے تھے اور پی ٹی وی کے اداکاروں سے ہر پاکستانی مانوس تھا۔ ذہین طاہرہ اسی دور میں پہچانی گئیں۔ ڈراموں میں ذہین طاہرہ کی بے مثال اداکاری نے ہر چھوٹے بڑے کو ان کا مداح بنا دیا تھا۔ آج ذہین طاہرہ کی برسی ہے۔

    ذہین طاہرہ کا کیریئر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ لگ بھگ سات سو ڈراموں‌ میں کام کرنے والی ذہین طاہرہ نے 1960ء میں پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کیا تھا۔ وہ اسٹیج اور ریڈیو کے ساتھ ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد مقبول تھیں۔ پی ٹی وی کے ریکارڈ ساز ڈرامہ ’خدا کی بستی‘ میں بھی ذہین طاہرہ نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔ 1974 میں نشر ہونے والا یہ ڈرامہ ناول نگار شوکت صدیقی کی کہانی سے ماخوذ تھا جسے پی ٹی وی کے سنہری دور میں‌ کلاسک کا درجہ حاصل ہوا۔ اداکارہ نے چند پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا جب کہ ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بطور اداکارہ شہرت اور مقبولیت پانے کے بعد بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ ذہین طاہرہ کے مشہور ڈراموں میں منزل، مراد، آنگن ٹیڑھا، کرن کہانی، عروسہ، دستک، دیس پریس، وقت کا آسمان، شمع، وغیرہ شامل ہیں۔ اداکارہ ذہین طاہرہ کو 2013 میں تمغائے امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ذہین طاہرہ کو دل کا دورہ پڑنے پر کراچی کے ایک نجی اسپتال لے جایا گیا تھا لیکن 9 جولائی 2019ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 1930ء میں آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ یہاں‌ وہ ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ ہوئیں۔ ذہین طاہرہ کے بارے میں سینئر اور منجھے ہوئے فن کاروں کی رائے یہ تھی کہ انھوں نے نہ صرف اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا بلکہ وہ ان میں‌ حقیقت کا رنگ بھر دیتی تھیں۔ ذہین طاہرہ شوقیہ گلوکار بھی تھیں۔

    اداکارہ کا حلقۂ احباب بالخصوص ساتھی فن کار انھیں انتہائی نفیس، شفیق اور شگفتہ مزاج خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ذہین طاہرہ کو اپنی زندگی میں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹی اور پھر بہو کے انتقال کا دکھ بھی جھیلنا پڑا تھا، لیکن انھوں نے ہمّت سے کام لیا۔ وہ نہایت بااخلاق اور اعلیٰ اقدار کی حامل خاتون تھیں اور ساتھی فن کاروں‌ خاص طور پر جونیئرز کے لیے ایک اسکول اور ادارہ تھیں جن سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔

  • ساون: پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقبول ترین ولن

    ساون: پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقبول ترین ولن

    فلمی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جن کی شہرت کو زوال آیا تو نہ صرف دوست احباب بلکہ مال و دولت بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور وہ کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ فن کار جن کی زندگی کبھی دوسروں کے لیے قابلِ رشک ہوتی تھی، عبرت کی مثال بن گئے۔ اداکار ساون بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک ایکسٹرا کی حیثیت سے فلمی پردے پر نظر آئے تھے اور پھر انھیں پاکستانی فلموں کا چوٹی ولن تسلیم کیا گیا۔ وہ بطور معاون اداکار صفِ اوّل میں نظر آئے لیکن پھر ان کی زندگی کو گویا بدقسمتی کی دھوپ لگ گئی۔

    دراز قد اور تنو مند ساون گرج دار آواز کے مالک تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے اکثر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ حالات نے پلٹا کھایا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے فلمی کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ 60 اور 70 کے عشرے میں ساون کو بہترین فلمی اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں دیکھا گیا۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ساون کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔

    ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں‌ ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں‌ کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بددماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں‌ سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں‌ کئی کام یاب فلمیں‌ دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں‌ اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • مسعود اشعر: ایک منفرد ادیب اور صحافی

    مسعود اشعر: ایک منفرد ادیب اور صحافی

    ستّر کی دہائی میں مسعود اشعر کی کہانیوں نے ادبی دنیا کو متوجہ کیا تھا۔ ان میں انسانی رشتوں کی الجھنیں، سماج اور لوگوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ ادبی حلقوں میں پہچان بنانے کے ساتھ مسعود اشعر جلد ہی قارئین میں بھی مقبول ہوگئے۔

    افسانہ نگار، مترجم اور صحافی مسعود اشعر 5 جولائی 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے مسعود اشعر لاہور میں‌ مقیم تھے۔

    تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب مسعود اشعر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انھیں رام پور چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ملتان چلے آئے اور پھر لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔ وہ 1930ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ پاکستان میں علمی صحافت کا آغاز کرنے کے بعد مسعود اشعر تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لینے لگے۔ لاہور اور ملتان میں وہ روزنامہ احسان، زمیندار، آثار اور امروز سے منسلک رہے۔ کالم نگاری بھی مسعود اشعر کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ شمیم حنفی نے مسعود اشعر کے بارے میں لکھا ہے، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش و خروش نہیں۔ مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر نے صحافت کی دنیا میں ہمیشہ حق گوئی اور جرأت سے کام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور مسعود اشعر امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس سانحے کی خبر نہ بنائی جائے۔ مسعود اشعر اس کے لیے تیّار نہ ہوئے۔ اخبار میں خبر چھپی تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بے روزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادیٔ صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

    مسعود اشعر کے افسانے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ شایع ہونے کے بعد جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں‌ ان میں متنوع موضوعات شامل ہیں۔ ان کی ایک تصنیف ’’سارے افسانے‘‘ اور دوسری ’’اپنا گھر‘‘ کے عنوان سے اور چند برس قبل ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

  • محمد طفیل: ’’نقوش‘‘ کی ادارت سے خاکہ نگاری تک

    محمد طفیل: ’’نقوش‘‘ کی ادارت سے خاکہ نگاری تک

    ایک زمانہ تھا جب اردو میں ادبی جرائد بڑی تعداد میں اشاعت کے ساتھ بہت اہمیت رکھتے تھے اور محمد طفیل اس دنیا کی ایک بلند قامت شخصیت تھے۔ ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کی بحیثیت مدیر اوّلین شناخت بنا جو ایک مقبول ترین ادبی جریدہ تھا۔ بعد میں محمد طفیل ایک قلم کار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ ان کے تحریر کردہ اداریے بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ نقوش کے خاص نمبرز ادبی صحافت میں‌ محمد طفیل کا امتیاز اور ان کی محنت و لگن کی مثال ہیں۔

    5 جولائی 1986ء کو محمد طفیل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے ادبی پرچے کی اشاعت کو کسی ایک موضوع پر خصوصی نمبر کا نام دے کر اس طرح انفرادیت بخشی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1951ء میں مدیر کی حیثیت سے نقوش کا اجراء کرنے والے محمد طفیل 1981ء تک ہر برس دو برس بعد خصوصی شمارہ سامنے لاتے رہے جو اردو ادب کی تاریخ کا حصّہ بن گئے۔ ادبی جریدہ نقوش کا اجراء محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا تھا، لیکن ادارت کی ذمہ داری بعد میں سنبھالی۔ وہ ایک کام یاب ادبی پرچے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے بھی سجایا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    پروفیسر مرزا محمد منور نے محمد طفیل کے بارے میں لکھا: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    بحیثیت مدیر اداریہ نویسی سے محمد طفیل نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس عرصہ میں جہاں مشاہیر اور قارئین کے خطوط کے جوابات دیے وہیں ادبی تذکرے، یادیں اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھنے لگے۔ محمد طفیل کی علمی و ادبی شخصیات سے خط کتابت کا سلسلہ ایک عام بات تھی، لیکن اس میں مدیر کے نام آنے والے مشاہیر کے خطوط جو ایک طرف اپنے طرزِ نگارش کا شاہ کار تھے اور دوسری جانب ان کی بڑی علمی و ادبی اہمیت اور افادیت تھی، انھیں بھی یکجا کر کے کتابی شکل دے دی جس سے آج بھی ہمیں اپنے دور کے مشاہیر اور معروف اہلِ قلم کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    محمد طفیل نے 14 اگست 1923ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مشہور خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی سیکھی اور اس سے اندازہ ہوتا ہے انھیں شروع ہی سے علم و فنون سے شغف رہا تھا۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے۔ نقوش ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں ایک اہم جریدہ تھا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور نقوش کے قارئین ملک بھر میں موجود تھے۔

    مدیر کی حیثیت سے محمد طفیل نے نقوش کے کئی خاص نمبر شایع کیے۔ انھوں نے اس جریدہ کے غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع کیے۔ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کے فن کا احاطہ کرتے شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی شمارے یادگار ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کس طرح پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    محمد طفیل کے شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے بعنوان صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی شائع ہوئے۔ ان کی ایک خود نوشت بھی بعد از مرگ بعنوان ناچیز شایع کی گئی تھی۔ محمد طفیل لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مائی بھاگی: لوک گلوکارہ کا تذکرہ

    کسی بھی خطّے اور علاقہ کی قدیم روایات اور مخصوص ثقافت کو مقامی گلوکار ہمیشہ سے لوک گیتوں کے ذریعے آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ہیں یہ لوک گیت کسی علاقہ کے لوگوں کے جذبات کا فطری اور براہ راست اظہار ہوتا ہے جو عوام کے ذہنوں میں محفوظ ایک بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو اس کی بولی سے بھی ناواقف تھا۔

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہو جاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی کا تعلق صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو سے تھا جہاں وہ 1920ء میں پیدا ہوئیں تاہم ان کے سنہ پیدائش میں اختلاف ہے۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔ جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو انھیں اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کی اجازت مل گئی۔ مائی بھاگی اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک اس لوک گلوکارہ کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا سامنا کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔ مائی بھاگی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں اور روزی روٹی کمانے کی سعی جاری رکھی۔ وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنی آواز اور فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سنی جاتی تھی، وہاں بھی مشہور ہوئیں۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 میں مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور 7 جولائی کو مائی بھاگی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو حکومت نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    شرلاک ہومز کی کہانیاں کل کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا تھا۔ کئی دہائیوں تک جاسوسی ناولوں تک محدود رہنے والے شرلاک ہومز کو بعد میں فلمی پردے پر متحرک بھی دیکھا گیا۔ ذہین اور سراغ رساں شرلاک ہومز کے خالق برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل (arthur conan doyle) تھے جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور جاسوسی میں ماہر تھا۔ کونن ڈوئل کے اس خیالی کردار نے ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور دنیا بھر میں‌ مقبول ہوا۔ کہانی پڑھنے والے اسکیچز میں شرلاک ہومز کو محدب عدسہ تھامے، پائپ کا کش لگاتے اور سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھتے اور بیتابی سے صفحات الٹتے تاکہ مجرم اور اس کے جرم کی وجہ جان سکیں۔

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔ مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    برطانوی حکومت نے آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو سَر کا خطاب دیا تھا۔ وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے۔ انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو اس سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    1885ء میں ڈوئل نے طبّ کے مضمون میں سند حاصل کرنے کے بعد پریکٹس شروع کی تھی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ بھر میں ان کو بہت سراہا گیا اور پھر انھوں نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس کے بعد ان کی شہرت سرحد پار دور دور تک پھیل گئی۔ ان کے اس خیالی کردار نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    سر آرتھر ڈوئل ایسے برطانوی مصنّف ہیں جنھیں ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔ انھیں یہ اعزاز شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا جو سبھی میں یکساں‌ مقبول تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں‌ جہاں اس مصنّف کے فن اور تخلیقات پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور اسے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • خاطر غزنوی: اردو، ہندکو کے شاعر اور نثر نگار

    خاطر غزنوی: اردو، ہندکو کے شاعر اور نثر نگار

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    جدید اردو اور ہندکو شاعری اور اردو نثر کے منفرد تخلیق کار خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج خاطر غزنوی کی برسی ہے۔ 7 جولائی 2008ء کو وفات پانے والے خاطر غزنوی پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خوب صورت شاعری اور تحقیقی و تخلیقی نثر پر مشتمل متعدد کتابوں کے مصنّف خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 5 نومبر 1925ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ خاطر غزنوی نے اردو کے ساتھ ہندکو زبان میں شاعری کے علاوہ بہت سا علمی و تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے ہوا تھا۔ بعدازاں اردو میں ایم اے کی سند کیا اور پشتو کے ساتھ چینی زبان میں‌ اسناد حاصل کیں۔ ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کاموں کے ساتھ تدریس کا پیشے اختیار کیا اور پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان پڑھانے لگے۔ خاطر غزنوی چند اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ ایک قابل اور منفرد تخلیق کار تھے جنھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ 1984 میں خاطر غزنوی اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تخلیقی سفر کی بات کی جائے تو شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ، اصناف ادب، ایک کمرہ شامل ہیں۔ خاطر غزنوی کو ڈرامہ نگار اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔

    خاطر غزنوی کی شاعری کے ساتھ شخصی خاکے بھی یادگار ہیں۔ اس صنف میں اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے انھوں نے خاص طور پر صوبۂ سرحد (خیبرپختون خوا) سے تعلق رکھنے والے شعرا اور ادیبوں کے شاہکار خاکے لکھے۔ ان شخصیات میں سیّد ضیاء جعفری، قتیل شفائی، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، غنی خان، مرتضیٰ جعفری شامل ہیں۔ خاطرؔ غزنوی کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرا اور وسیع تھا اور وہ مردم شناس بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تحریر کردہ خاکے ان کے ہم عصروں کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔

    بحیثیت شاعر خاطر غزنوی کی غزلیں اور نظمیں جدید طرز احساس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ خاطر غزنوی نے غم جاناں اور غم دوراں کو خوبصورتی سے اپنے اشعار میں‌ سمویا ہے۔ ان کا کلام سادہ اور احساسات کا نمونہ ہے۔

    ان کا ایک شعر ہے:
    قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
    دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے

  • عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پاکستان میں جہاں ادب کے قارئین میں مقبول ہوا، وہیں اس نے فکشن کے ناقدین کی توجہ بھی حاصل کی اور عبداللہ حسین کی شہرت اور پہچان کا سفر شروع ہوا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق عبداللہ حسین 2015ء میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر تھے۔ عبداللہ حسین اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے جن کا نام محمد خان رکھا گیا۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور گریجویشن کے بعد نوکری کرنے لگے۔ عبداللہ حسین نے اپنی زندگی کے کئی سال انگلینڈ میں بھی گزارے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز مختلف جرائد میں کہانیاں لکھنے سے ہوا اور پھر قلمی نام عبداللہ حسین سے اپنی شہرت کا وہ سفر شروع کیا جس میں ان کے متعدد ناول، ناولٹ اور افسانے قارئین تک پہنچتے رہے۔ 1963ء میں ان کا مشہور ناول ’’اداس نسلیں‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد افسانوی مجموعہ اور ناول ’’باگھ‘‘ و دیگر کہانیاں کتابی شکل میں سامنے آتی رہیں۔ عبداللہ حسین کو ان کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔

    ناول نگار عبداللہ حسین کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے ان کے تعلق کی کہانی بھی ایک دل چسپ قصّہ ہے۔ یہ قصہ انہی کی زبانی سنتے ہیں:

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔ یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔ لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔