Tag: یوم وفات

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • یادِ رفتگاں:‌ نجم الغنی خاں نجمی

    یادِ رفتگاں:‌ نجم الغنی خاں نجمی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں کا نام اب صرف ادبی تذکروں‌ میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ نئی نسل کے لیے وہ ایک نامانوس شخصیت بھی ہیں‌ اور شاید ہی کسی نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، لیکن یادِ رفتگاں‌ کے ذیل میں اس نادرِ روزگار شخصیت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ نجم الغنی خان یکم جولائی 1941ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے ممتاز محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر بھی تھے۔

    ان کی وجہِ شہرت علمی و ادبی کام ہی نہیں بلکہ وہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا جاتا ہے۔ نجمی ان کا تخلّص تھا اور تعلق رام پور سے تھا جس کے سبب وہ اپنے نام کے آگے رام پوری بھی لکھتے تھے۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں نجم الغنی خاں‌ کو شروع ہی سے وہ ماحول ملا جس میں وہ مطالعہ کے عادی بنے اور پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    نجم الغنی خان کے والد جب رام پور سے نکلے اور ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو وہیں اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ 23 برس کی عمر میں‌ نجم الغنی خاں اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کی غرض سے رام پور منتقل ہوگئے۔ وہاں مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا اور 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ کیا۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں بہت سا علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ انھیں تاریخ سے خاص شغف تھا۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ پر مبنی کتب تحریر کیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتابوں اور مختصر رسالوں کے ساتھ علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کی شاعری بھی دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علم و ادب کے علاوہ نجم الغنی خان نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اپنائے رکھا اور اس میدان میں‌ اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں یکجا کیا تاکہ اس پیشے کو اپنانے والے استفادہ کرسکیں۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    نجم الغنی خاں نجمی کی علمی و تاریخی موضوعات پر مبنی کتابوں میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض) اور مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    ہندوستان پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جس طرح یہاں سے اجناس اور اشیاء کی تجارت اور کاروبار سے خوب خوب مالی فوائد سمیٹے ویسے ہی قدرتی وسائل سے مالا مال ریاستوں کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جس میں انگریزوں‌ نے اپنے مفاد کو ترجیح دی اور وہاں کے لوگوں کا سودا کردیا۔

    جموں کا ہندو راجہ گلاب سنگھ جو اپنی رعایا پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے مشہور ہے، آج ہی کے دن چل بسا تھا۔ وہ سکھ سلطنت کے بانی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مہربانی سے جموں کا حاکم بنا تھا۔ اس کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    پنجاب میں قدم جمانے کے بعد انگریزوں نے گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ جموں و کشمیر کا مہاراجہ بن کر گلاب سنگھ نے سفاکی اور قتل و غارت گری کا ایک باب رقم کیا اور اس کے دور میں لوگوں سے غیرانسانی سلوک کی بدترین مثالیں سامنے آتی رہیں۔ گلاب سنگھ کے مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج کے اپنی بہن کے نام لکھے گئے ایک خط میں ملتا ہے جو دو مارچ 1846 کو ارسال کیا گیا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کو وصول کرنے کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے علاوہ ڈوگرا دور میں بیگار کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    پنجاب میں سکھ حکم راں رنجیت سنگھ نے اپنے ایک منتظم گلاب سنگھ کو اپنے لیے خدمات انجام دینے کے صلے میں جمّوں کا راجا بنایا۔ گلاب سنگھ کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا انتظام دیکھتا رہا تھا اور اس کی موت کے بعد گلاب سنگھ کو یہ ذمہ داری منتقل ہوئی تھی جس میں وہ کام یاب رہا اور مہاراجہ کا اعتماد حاصل کرلیا۔ بعد میں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اس نے اپنی سلطنت قائم کر لی تھی۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ پیدائش 1792ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کی موت 1857ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ انگریز افسران اور برطانوی امراء کے علاوہ متعدد برطانوی مؤرخین نے بھی گلاب سنگھ کی سفاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت علّامہ اقبال اور دیگر مسلمان اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • ناؤروجی: ایک دیانت دار اور راست گو انسان

    ناؤروجی: ایک دیانت دار اور راست گو انسان

    متحدہ ہندوستان میں تجارت اور کاروبار کے ساتھ ملکی سیاست میں سرگرم شخصیات میں دادا بھائی ناؤروجی اپنے دور کی ممتاز شخصیت تھے۔ وہ سماج کے ایک بڑے نباض بھی تھے۔ انھوں نے رفاہِ عامّہ کے ساتھ مختلف خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ہندوستان کے عوام میں بڑا مقام و و مرتبہ پایا۔

    دادا بھائی ناؤروجی کو تاریخ کے اوراق میں ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں کے ساتھ عوام کا خیر خواہ لکھا گیا ہے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے سیاست کے میدان میں اس بات کو اچھالا کہ برطانیہ تجارت کی آڑ میں‌ ہندوستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کررہا ہے اور عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہونے والے دادا بھائی ناؤروجی 30 جون 1917ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے استفادہ کیا اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے کاروبار جمانے کے ساتھ برطانوی دور کی سیاست میں ممتاز ہوئے۔ وہ نیک صفت اور دیانت دار اور راست گو مشہور تھے۔ مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا اور خودداری بھی ان کی صفات میں شامل تھی۔ ناؤروجی نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا۔ اور جب وہ مالی طور پر مستحکم ہوئے تو تعلیم سمیت مختلف دوسرے شعبہ جات میں خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ناؤروجی نے اس دور میں برطانیہ میں تعصب اور نسل پرستی کا سامنا کیا، اور اسے مسترد کرتے ہوئے امتیازی سلوک اور سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ انھیں چھوٹی عمر ہی سے سچ اور حق گوئی کے ساتھ دوسروں سے محبت اور صلۂ رحمی کی عادت پڑ گئی۔ والد اس وقت وفات پاچکے تھے جب دادا بھائی ناؤروجی زندگی اور موت کی حقیقت سے بھی ناآشنا تھے۔ والدہ نے ان کی تربیت بہترین انداز سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ ناؤروجی نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارا اور فلاح و بہبود کے کاموں پر توجہ دی۔ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے بھی بڑے داعی تھے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں ںاؤروجی نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمجھ دار لوگوں نے بڑی تعداد میں اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔ اس کام یابی نے ناؤروجی کو بہت حوصلہ دیا اور کئی دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ناؤروجی ہندوستان کی ان باشعور اور نڈر شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے صنفی مساوات کو اہمیت دی اور عورتوں کو تمام بنیادی حقوق دیے جانے کے ساتھ تعلیم کے علاوہ ہر شعبے میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کر دیا۔ انھوں نے اس کتاب میں تفصیل سے لکھا کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔ یہ 1855ء کی بات ہے جب ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور وہاں دولت کی فروانی اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس کے لیے معاشی جائزہ لیا اور مالی تجزیہ کرنے پر کام کرنے لگے۔ ناؤروجی نے انکشاف کیا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے۔ یہ سچ سامنے لانے پر برطانوی حکومت مشتعل ہوگئی۔ ناؤروجی کو حکومت کا باغی اور سرکش کہا گیا، لیکن ناؤروجی کی باتیں ہندوستانیوں کے دل میں کھب گئی تھیں۔ دوسری طرف دادا بھائی ناؤروجی کے خیالات اور افکار نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبِ فکر کی اہم شخصیات سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو بھی متاثر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا بہت ساتھ دیا اور تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت سیاست میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہی کے لیے آواز اٹھائی۔ انھوں نے ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اقدامات اور کارآمد اصلاحات کا مطالبہ کیا جس نے سنجیدہ طبقات کو ناؤروجی کی جانب متوجہ کیا۔ مگر دوسری طرف یہی افکار اور مطالبات برطانیہ کی نظر میں‌ ناؤروجی کا وہ جرم بن گئے جس کے بعد مفاد پرست برطانوی سیاست دانوں نے ناؤروجی کو تحقیر آمیز الفاظ سے پکارنا شروع کردیا تاکہ ان کے حوصلے پست کیے جاسکیں۔ وہ برطانوی سیاست میں انتخابی عمل کے ذریعے قدم رکھنے لگے تو ان کی مخالفت کرتے ہوئے برطانیہ اور متحدہ ہندوستان میں ان سے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا، مگر یہ حربے ناکام ہوگئے۔ 1892ء میں ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی اکھاڑے میں‌ اترے، مگر اس مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں رکنِ پارلیمان منتخب کیا گیا تھا۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا بلکہ اپنے مقصد پر نظر رکھی اور منزل کی سمت قدم بڑھاتے چلے گئے۔

  • یادِ رفتگاں: کلاسیکی رقص کے ماہر غلام حسین کتھک

    یادِ رفتگاں: کلاسیکی رقص کے ماہر غلام حسین کتھک

    رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف جیسے موسیقی اور پینٹنگ کی طرح انسانی جذبات اور احساسات کے اظہار کی ایک نہایت لطیف اور پُرکشش صورت ہے۔ رقص، آرٹ کی وہ قدیم شکل بھی ہے جس نے دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت کو متاثر کیا ہے۔ آج ہم اسی فن کے بادشاہ مہاراج غلام حسین کی یاد تازہ کررہے ہیں جو کلاسیکی رقص میں پاکستان کی پہچان بنے۔

    ہندوستان میں کئی باکمال اور ماہر رقاص گزرے ہیں جنھوں نے اس فن کو نیا آہنگ، انداز اور قرینہ عطا کیا اور اسے نکھارا۔ پاکستان میں کلاسیکی رقص میں غلام حسین کتھک کو ایک امتیاز اور مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ 29 جون 1998ء کو لاہور میں وفات پانے مہاراج غلام حسین کتھک کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ انھوں نے فنِ رقص کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے والوں سے خوب داد وصول کی۔

    مہاراج غلام حسین کتھک 4 مارچ 1899ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علم و ادب اور آرٹ میں نام وَر رابندر ناتھ ٹیگور کے احباب میں سے ایک تھے جن کے مشورے پر اپنے بیٹے کو مصوّری اور اداکاری سیکھنے پر آمادہ کیا اور بعد میں کلاسیکی رقص کی تربیت دلوائی۔ غلام حسین نے لکھنؤ کتھک اسکول کے بانی اچھن مہاراج سے اس فن کی تربیت لی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1950ء میں مہاراج غلام حسین کتھک ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں پہلے کراچی میں اور بعد میں لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ شائقین کو کلاسیکی رقص کی تربیت دیتے رہے۔ پاکستان میں ان کے کئی شاگردوں نے کلاسیکی رقص میں اپنی مہارت اور انداز سے شائقین کو محظوظ کیا۔ غلام حسین کتھک کے مشہور شاگردوں میں ریحانہ صدیقی، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، جہاں آرا اخلاق شامل ہیں۔

    مہاراج غلام حسین کتھک نے ایک فلم سرگم میں بھی کام کیا اور فلم کے بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کرنے میں کام یاب رہے۔ حکومتِ پاکستان نے رقص کے فن میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ مہاراج غلام حسین میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    برِصغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں اور علاقوں میں بہت سے ہندو راجا اور حاکم بھی ہو گزرے، لیکن سکھ مذہب کے پیروکاروں میں صرف رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے اپنی حکومت قائم کی اور پنجاب پر راج کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کا دور ہندوستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ چل بسا تھا جس کے بعد اگلے دس برس ہی سکھوں کا اقتدار برقرار رہ سکا۔ کہتے ہیں‌ کہ اس وقت پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو اسی سکرچکیا مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا جو آگے چل کر رنجیت سنگھ کے نام سے مشہور ہوا اور سکھ سلطنت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں وہ فتوحات کے بعد کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی سلطنت کو پھیلا چکا تھا۔ 19 سالہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور کو فتح کر کے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔

    رنجیت سنگھ کی دلیری اور بہادری کے ساتھ مؤرخین نے اس کی طرزِ‌ حکم رانی کو بھی شان دار قرار دیا ہے۔ رنجیت سنگھ کو شیرِ پنجاب بھی لکھا گیا ہے۔ مہاراجا نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی تھی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ”بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ یہ 1811ء کی بات ہے اور 1839ء تک یہ سپاہ چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ رنجیت سنگھ کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام پر فائز رہے، لیکن بعض مؤرخین نے اقلیتوں کے لیے مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ برصغیر میں بدقسمتی سے کئی بادشاہوں کو قوم و ملّت اور مذہب کی بنیاد پر مطعون بھی کیا گیا اور تعصب کی وجہ سے کئی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان میں کسی ایک نسل اور مذہب کے ماننے والے شامل نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلا اس نے کوئی بات کسی سے منسوب کردی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ مہاراجا کے دربار میں کسی کو رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھی گئی تھی۔

    رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور وہ کانا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے کہا ‘رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے۔ ‘ یہ واقعہ کرتار سنگھ دوگل کی کتاب ‘ رنجیت سنگھ ، دی لاسٹ ٹو لے آرم’ (Maharaja Ranjit Singh: The Last to Lay Arms) میں درج ہے۔ فقیر عزیز الدین کی طرح کئی اور مسلمان مہاراجہ رنجیت کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جنھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔

    مہاراجہ رنجیت کا عقیدہ گروہ گرنتھ صاحب پر تھا اور وہ ایک پکا سکھ تھا، اس کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رحجان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں دیکھا گیا۔

    انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحید الدّین و دیگر نے بھی رنجیت سنگھ کے دور حکومت پر تحقیقی مضامین سپردِ‌ قلم کیے اور ان کی کتابیں‌ رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کرتی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں۔ اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیس بیویوں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی کئی داشتائیں بھی تھیں۔ محققین کے مطابق رنجیت سنگھ حسن و شباب کا رسیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے بھی کرتا رہا۔

    مؤرخین کے مطابق اس نے سات مسلمان لڑکیوں سے شادی کی اور ان میں سے ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں تھی جسے سب سے زیادہ شہرت ملی۔ رنجیت سنگھ نے 1802ء میں موراں سے شادی کی اور موراں اس کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق موراں سے شادی کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے رقاصہ کے والد کی کئی شرائط قبول کیں۔ مشہور ہے کہ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ مہاراجا کو موراں کے گھر آکر وہاں پھونکوں سے آگ جلا کر دکھانا ہوگی اور یہ شرط بھی مہاراجا نے پوری کی۔

    مہاراجا کی موراں سے چاہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے موراں کے کہنے پر کئی فلاحی کام کیے، مساجد و باغ اور یادگاریں تعمیر کروائیں اور اس دور کی ایک مسجد آج بھی اندرونِ لاہور میں موجود ہے۔ موراں خود بھی ایک سخی اور مہربان عورت مشہور ہوئی۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی۔ اسی سبب عام لوگوں نے اسے موراں سرکار کہنا شروع کردیا تھا۔ موراں سے اپنی چاہت جتاتے اور محبت نبھاتے ہوئے رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر فریفتہ ہوگیا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی اور مشہور ہے کہ گل بہار بیگم سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔ لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔

    مصنّف آروی اسمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی کے آخری برسوں میں بڑھتی عمر، اپنی بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا اور افیون کا عادی ہوگیا تھا۔ شراب نوشی کی کثرت اور فالج رنجیت سنگھ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان مذاہب میں عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ ہی ستی ہوجاتی تھیں اور رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویوں سمیت سات داشتائیں بھی اسی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔

    رنجیت سنگھ کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں اس ستی کا احوال یوں رقم کیا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    مارٹن ہونی برجر مزید لکھتے ہیں، ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    جنازہ اٹھنے کا منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    لاہور میں 1847ء میں رنجیت سنگھ کی سمادھی تعمیر کر لی گئی اور وہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ کی راکھ اور چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ محفوظ کردی گئی۔

    رنجیت سنگھ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں‌ کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس کے اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے ایک ہزار گھوڑے مہاراجا کے لیے مخصوص تھے۔ لیلیٰ‌ ان میں سب سے خاص گھوڑی تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے سپاہیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ اس گھوڑی کو پانے کے لیے خوب رقم بھی خرچ کی۔ تب مہاراجا اسپِ لیلیٰ کا مالک بنا اور اسے ہیروں اور سونے سے مزین کیا۔ اس جانور سے رنجیت سنگھ کی انسیت کا خوب چرچا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لیلیٰ‌ کی موت پر اتنا رویا کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔

  • چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے نثر اور نظم نگاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنے نام کا سکہ جمایا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے نام تو سرفہرست ہیں ہی، لیکن چراغ حسن حسرت بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ آج حسرت کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    چراغ حسن حسرت جیّد صحافی اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ مزاحیہ کالم نگاری میں ان کا مقام قابل رشک ہے۔ بدقسمتی سے آج حسرت کے فن و شخصیت کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتب بینی اور مطالعہ کا رجحان کم ہوجانا ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی دل چسپی ادب اور ادبی مضامین میں نہ ہونا بھی ہے۔ اردو کتابیں اور اخبار پڑھنے والے پرانے لوگ حسرت کے نام اور ان کی تحریروں سے خوب واقف ہیں جو اب ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر حسرت کے کالم لوگ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ 26 جون 1955ء کو چراغ حسن حسرت لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    حسرت نے کئی ماہ ناموں اور یومیہ بنیاد پر شایع ہونے والے مؤقر اخبارات کی ادارت کی اور مضامین بھی لکھے۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اور فوج میں ملازمت کی وجہ سے اکثر ساتھی ان کو میجر حسرت بھی کہا کرتے تھے۔

    چراغ حسن حسرت 1904 ء میں بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں شاعری کی طرف مائل ہوئے اور لکھنے لکھانے کا شوق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز مختلف اسکولوں میں اردو اور فارسی پڑھانے سے کیا۔ اور پھر صحافت سے منسلک ہوگئے۔ اپنے دور کے کئی روزناموں‌ میں ادارت کے ساتھ قلمی ناموں سے کالم بھی شایع کروانے لگے۔ ان میں ’’کولمبس، کوچہ گرد اور سند باد جہازی‘‘ کے نام سے ان کے کالم اور تبصرے بھی بہت پسند کیے گئے۔ کلکتہ میں اپنا قلمی سفر شروع کرنے کے بعد 1920ء میں وہ شملہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے جہاں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی اور ان کا حسرت کے ذہن اور قلم پر بہت اثر نظر آتا ہے۔ کئی اخبارات میں کام کرنے کے بعد مولانا ظفر علی خان کی دعوت پر حسرت صاحب لاہور آگئے اور ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ہندوستان میں ان کا قلم اپنا زور دکھا کر کئی مداح بنا چکا تھا جن میں مشاہیر بھی شامل تھے۔ بعد میں لاہور آکر بھی انھیں کئی نابغۂ روزگار شخصیات کی رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے حسرت کو بہت سراہا۔

    چراغ حسن حسرتؔ کا شمار بیسویں صدی کے ان مشاہیر میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور میں ادب اور صحافت کے شعبہ پر گہرا اثر چھوڑا۔ شاعری پر وہ توجہ بہت کم دے سکے مگر اردو نثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایا جسے سبھی نے سراہا ہے۔ چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    حسرتؔ کی نثر میں متین و سنجیدہ، خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ تحریریں سبھی شامل ہیں۔ فکاہیہ مضامین کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تنقیدی تبصرے اور مضامین بھی حسرت کے قلم سے نکلے۔ ان کی تخلیقات پر مشتمل کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن کو جدید دور کا ایک ایسا ساحر کہیے کہ جس نے اپنی آواز اور انداز سے سماعتوں کو مسخّر کیا اور دلوں پر راج کرتا رہا۔ وہ ایک ایسا فن کار تھا، جسے معاشرے نے اس کی بے راہ روی پر مطعون بھی کیا اور اس پر عدالت میں مقدمہ بھی چلا، لیکن یہ سب اس کے پرستاروں کی تعداد نہ گھٹا سکا۔ 25 جون 2009ء کو مائیکل جیکسن کی موت پر دنیا افسردہ تھی۔

    "کنگ آف پاپ میوزک” کہلانے والے مائیکل جیکسن کی موت کے ساتھ ہی گویا پاپ میوزک کا ایک پُرشکوہ باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کے حامل مائیکل جیکسن نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے بلاشبہ لازوال شہرت پائی اور راتوں رات مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔ مائیکل جیکسن نے اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دیا۔ اس کی نجی زندگی کئی نشیب و فراز اور رنج و الم سے بھری ہوئی ہے۔ مائیکل جیکسن کے اوراقِ زیست الٹیے تو معلوم ہو گا کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں برقی قمقموں کی جگمگ جگمگ اور محفل کی رونق نے اسے ایک فن کار کی حیثیت سے توانائی سے بھر دیا اور اس نے دل فتح‌ کیے۔

    مائیکل جیکسن کی خوبی اس کی بے مثال گائیکی کے ساتھ وہ غیر معمولی رقص اور اکثر وہ انوکھی اسٹیج پرفارمنس ہے، جس نے مائیکل جیکسن کو عالمی شہرت دی۔ اس کے علاوہ مائیکل جیکسن کو اپنی پُراسرار شخصیت اور انوکھے طرزِ زندگی کی وجہ سے بھی خوب شہرت ملی۔

    مائیکل جیکسن 1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم کے بعد دنیا میں متعارف ہوا اور اسی البم کی بدولت راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو بچپن ہی سے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا۔ وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ بنا کر پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم جاری کیا جس نے ہر طرف اس کے نام کی دھوم مچا دی۔ ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا اور یہ بھی مقبول البم ثابت ہوا۔

    اس امریکی گلوکار کو شہرت اور مقبولیت کے ساتھ کئی تنازعات نے بھی دنیا بھر میں‌ توجہ کا مرکز بنایا۔ لوگ اسے ہم جنس پرست اور نشہ آور اشیا کے استعمال کا عادی سمجھتے تھے۔ نوّے کی دہائی میں مائیکل جیکسن پر ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام عائد کیا گیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل بھی وہ بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مقدمہ لڑ رہا تھا جس میں اسے بری کردیا گیا تھا۔ دوسری طرف کئی قصے اس گلوکار سے منسوب تھے اور کہا جاتا تھا کہ اسے اپنی کالی رنگت سے نفرت تھی۔ وہ ایک سیاہ فام تھا جو اپنی جلد کو سفید دیکھنے کے علاوہ چہرے کو خوب صورت بنانا چاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی تھی۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن کی شادی ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلے کی بیٹی سے ہوگئی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔ آخری ایام زیست میں‌ مائیکل جیکسن کو تنازعات کے علاوہ مالی مشکلات نے بھی گھیر لیا تھا۔

    شہرۂ آفاق گلوکار مائیکل جیکسن کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ موت سے ڈرتا تھا اور خواہش تھی کہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے۔ سیاہ فام اور غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو اپنے ماضی سے بھی نفرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس کا بچپن لڑائی جھگڑوں اور والد کے تشدد کی وجہ سے کئی نفسیاتی پیچیدگیوں میں گھرا ہوا تھا جو بعد میں محرومیوں کی شکل میں‌ اس کے ساتھ رہیں۔

  • بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کرنے والوں میں بہادر یار جنگ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان راہ نما، ایک مدبر اور ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی کا مقصد تحریکِ آزادی کی کام یابی رہا۔

    بہادر یار جنگ نے بہت کم عمر پائی اور مشہور ہے کہ انھیں‌ زہر دیا گیا تھا۔ وہ 1905ء میں پیدا ہوئے اور 25 جون 1944ء میں انتقال کرگئے۔ لیکن اسی مختصر عمر میں بہادر یار جنگ نے بڑا نام و مقام، عزّت و مرتبہ پایا اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بھی اپنے علم اور لیاقت و ذہانت کو منوایا۔

    بہارد یار جنگ مسلم لیگ کے سرگرم راہ نما تھے جنھیں خطیبِ سحرُ البیان کہا جاتا ہے۔ وہ قلم کے دھنی اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ یہاں ہم بانیٔ کُل ہند مجلسِ تعمیرِ ملّت کے اہم رکن سید خلیل اللہ حسینی کی ایک تحریر نقل کر رہے ہیں‌ جو ایک عرصہ بہادر یار جنگ کے ساتھ رہے۔ سید خلیل اللہ حسینی لکھتے ہیں، "بہادر خاں اگر صرف خطیب ہوتے تو اپنی ساری مشّاقیِ خطابت اور مقررانہ عظمت کے باوجود پھر بھی قائدِ ملّت نہ ہوتے۔ اگر ان کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کی تعریف مقصود ہے تو بلاشبہ اس میدانِ اجتماعی میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، لیکن تنظیمی صلاحیت ان کی عظمت کا راز نہ تھی۔”

    "اگر ان کی دل موہ لینے والی قد آور شخصیت کی ستائش کی جاتی ہے تو بھی بے جا ہے کہ ایک عظیم اور پُراسرار شخصیت اپنے دلربا تبسم سے دلوں کو مٹّھی میں لے لیتی ہے اور دلوں کو مسخّر کرنے کا ان کا فن خوبانِ شہر کے لیے بھی باعثِ صد رشک و حسرت تھا لیکن یہ دلآویزیِ طبع بجائے خود عظمتِ بہادر خاں کی کلید نہیں ہے۔”

    "بہادر خان کی عظمت کا راز یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے، انسانوں کی دنیا میں انسان تھے اور یہی بڑی غیر معمولی بات ہے!”

    "لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز، چھوٹوں سے محبت، اور بڑوں کا ادب، ان صفات کا پیکر میں نے تو صرف بہادر خان کو دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت کا تو میں بھی گواہ ہوں۔ میں ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے درسِ اقبال کی محفلوں میں جاتا اور کسی کونے میں بیٹھ جاتا۔”

    "ایک مرتبہ وہ میرے قریب آئے۔ نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں سوال کیا اور ہمّت افزائی کے چند کلمات کہے، بات آئی گئی ہو گئی۔”

    "اب اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ وہ موٹر میں جارہے ہوں اور میں سائیکل پر، لیکن سلام میں پہل ہوتی موٹر میں سے۔ پہلی مرتبہ جب دار السلام روڈ پر ایسا سابقہ ہوا تو جواب دینے میں غالباً میرے دونوں ہاتھ اٹھ گئے اور میں سائیکل سے گرتا گرتا بچا۔”

    "ایک چپراسی صاحب، بہادر خان کے بڑے اعتماد کے کارکن تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ملنے گئے اور کمرہ میں بلا لیے گئے تو بچارے ٹھٹک سے گئے۔ کیوں کہ اس وقت بہادر خان سے ان کے ناظم صاحب مصروفِ تکلم تھے۔ بہادر خان نے بات کو تاڑ لیا اور کہا کہ آپ چپراسی ہوں گے دفتر میں، میرے پاس تو سب برابر ہیں بلکہ آپ تو میرے رفیق ہیں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے بازو صوفہ پر بٹھا لیا۔”

    "ایسے واقعات کا انبار لگایا جا سکتا ہے اور ایسا واقعہ بہادر خان کی شرافت، خلوص، انسانی محبت اور جذبۂ خدمت کا ثبوت دیتا رہے گا۔ بہادر خاں کا حال پہاڑ کی بلند چوٹی کا سا تھا۔ دور سے دیکھیے تو جاہ و جلال کا منظر، قریب ہوتے جائیے تو آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو طراوت اور طبیعت کو تازگی ملتی۔ پھر دنیا کا منظر ہی کچھ اور حسین نظر آتا۔”

    پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے ان کی برسی کے موقع پر ایک مضمون پڑھا تھا جس کے چند پارے پیشِ‌ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں بہادر یار جنگ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضا کار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    سیاست میں ان کے ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔ دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔

    بہادر یار جنگ کی تحریر بھی زبردست ہوا کرتی تھی جس کا اندازہ "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے اس عظیم راہ نما کے مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1942ء میں شایع ہوا تھا۔ بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    دبستانِ لکھنؤ کے صفی لکھنوی اردو کلاسیکی شاعری کے آخری اہم شعراء میں سے ایک تھے جو اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس کا سبب ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت اور سادہ طرزِ بیان بھی ہے۔ صفی لکھنوی 25 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی کی شاعری اس وقت کے علم و ادب میں‌ ممتاز شہر لکھنؤ کی خاص فضا اور ماحول کی عکاس ہے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا اور باذوق افراد اس شعر کو ابتدائے شوق ہی میں‌ پڑھ چکے ہوتے ہیں۔

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
    ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ان کا مضمون انگریزی تھا۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہر صنفِ‌ سخن میں‌ خوب خوب لکھا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے فنِ‌ شاعری سے لکھنؤ کی بزمِ ادب کو رونق بخشی اور بطور شاعر ممتاز ہوئے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ صفی نے روایت و جمالیات کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، اور یہی ان کی انفرادیت و امتیاز ہے۔ مولانا حسرت موہانی جیسی علم و ادب میں ممتاز شخصیت انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتی تھی۔

    اگرچہ وہ دور غزل کی مقبولیت کا تھا، لیکن صفی نے غزل گوئی کے ساتھ بالخصوص نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے اس طرح سجایا اور ایسے موضوعات پر کلام لکھا جن پر بہت کم شعرا توجہ دے رہے تھے۔ صفی لکھنوی نے اس دور میں قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ غزل اور نظم کے علاوہ اردو شاعری کی رائج اصناف جیسے قصیدہ، رباعی اور مثنوی میں بھی صفی نے طبع آزمائی کی ہے۔

    صفی لکھنوی نے شعر و ادب کا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو، دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے، آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو