Tag: یوم وفات

  • سید محمد تقی: ایک عالی دماغ کا تذکرہ

    سید محمد تقی: ایک عالی دماغ کا تذکرہ

    سیّد محمد تقی کو پاکستان میں ایک فلسفی، دانش ور اور صحافی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی متعدد تصانیف آج بھی بالخصوص فلسفہ کے مضمون میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے فکری راہ نمائی کا ذریعہ اور تعلیمی اعتبار سے بہت کارآمد ہیں۔

    فلسفہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی عقل کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ فلسفہ کو ’’اُمّ العلوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو کہ آج کے دور میں بھی مروجہ علوم کا ماخذ ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے مدارس اور جامعات کی سطح پر فلسفہ کی وہ اہمیت نہیں جو دیگر علوم اور فنون کو دی جاتی ہے۔ تعلیمی اعتبار سے ایک بڑا مسئلہ فلسفہ سے متعلق اردو میں مستند اور جامع کتابوں کی عدم دست یابی بھی ہے۔

    سیّد محمد تقی کو پاکستان ہی نہیں‌ عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ سیّد محمد تقی کے فلسفہ کے مختلف موضوعات پر لیکچرز اور اردو میں تحریر کردہ کتابوں کا ہماری فکر اور نظریۂ حیات کو ایک سمت دینے اور طلبہ کی تربیت کرنے اہم کردار ہے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ وہ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی اپنے والد اور خاندان کی دیگر شخصیات کی طرح علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور صحافت بھی کی۔ سید محمد تقی ایک بیدار مغز، متجسس انسان تھے جن کی قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی شروع ہی سے تھی۔ بعد میں‌ جب انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و جستجو کو قلم کی نوک پر لیا تو کئی ایسی تصانیف سامنے آئیں جنھیں آج بھی سراہا جاتا ہے۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹل کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے، لیکن اس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد جب یہ مسوّدہ ملا تو اسے بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    پاکستانی دانش ور، فلسفی اور صحافی سید محمد تقی سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    ادب کی دنیا میں مختلف نظریات اور دبستان سے وابستہ ہونے والوں نے گروہی سرگرمیوں کے لیے تنظیموں اور اداروں کی بنیاد رکھی جن میں‌ بعض‌ پلیٹ فارم ایسے تھے جن کے ذریعے نہ صرف ادب سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے نئے لکھنے والوں کی راہنمائی اور تربیت کا بھی کام کیا۔ حلقۂ اربابِ ذوق ایسا ہی ایک پلیٹ فارم تھا جس کی بنیاد رکھنے والوں میں‌ قیوم نظر بھی شامل تھے۔ لیکن پھر ادبی گروہ بندیوں کی وجہ سے قیوم نظر کو تنظیم سے دور ہونا پڑا۔ وہ اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر تھے جنھوں نے ڈرامہ بھی لکھا اور بہترین تراجم بھی کیے۔ اردو غزل گوئی میں قیوم نظر کو ایک نئے مزاج اور آہنگ کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    قیوم نظر کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    قیوم نظر نے حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے کے بعد اپنے ہم خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ مل کر ادبی سرگرمیوں‌ کو فروغ دیا اور اس بینر تلے فعال رہے۔ ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر لاہور میں‌ 7 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    اردو ادب کی خدمت کرنے والے قیوم نظر نے پنجابی زبان میں بھی قابل ذکر کام کیا۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • اعظم کریوی: ممتاز افسانہ نگار کا ‘فٹ پاتھ’

    اعظم کریوی: ممتاز افسانہ نگار کا ‘فٹ پاتھ’

    اردو میں افسانہ نگاری کے اوّلین دور میں اعظم کُریوی نے اپنی کہانیوں اور قدیم ہندی شاعری کے اردو تراجم کے سبب شہرت پائی۔ وہ پریم چند جیسے ممتاز فکشن نگار کے دبستان سے تعلق رکھتے تھے۔ اعظم کریوی نے ہندوستانی معاشرت اور لوگوں کے اخلاق و حالت پر مبنی کہانیاں لکھیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کی کہانیوں میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی نظر نہیں آتی بلکہ یہ سلاست کے ساتھ نتیجہ خیز افسانے ہیں جو انھیں ایک کام یاب افسانہ نگار بناتی ہیں۔ اعظم کُریوی کو کراچی میں‌ قتل کر دیا گیا تھا۔

    اعظم کریوی 1899ء کو متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن کُرئی ہے اور اسی مناسبت سے کُریوی اپنے قلمی نام سے جوڑا۔ افسانہ نگار کا اصل نام انصار احمد تھا۔ انھوں نے تقسیم سے قبل بطور کلرک سرکاری ملازمت اختیار کی اور اسی زمانہ میں بطور افسانہ نگار اور مترجم بھی شہرت پانے لگے۔ اُن کی تخلیقی صلاحیت پہلے پہل شعر گوئی کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ بعد میں نثر کو اپنایا، ان کی تحریریں زمانہ، نگار، عصمت، مخزن اور ہمایوں جیسے مشہور و معروف رسائل میں شایع ہوئیں۔ یہی افسانے اور تراجم کتابی شکل میں بھی بہم ہوئے۔ اعظم کریوی نے کئی شہروں میں‌ بسلسلۂ ملازمت قیام کیا اور بعد میں پاکستان میں بھی سرکاری محکمے سے وابستہ رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف اداروں سے وابستہ ہوئے۔

    22 جون 1955ء کو اعظم کریوی اپنی سائیکل پر ڈرگ روڈ اسٹیشن کے قریب سے گزر رہے تھے کہ ان کے قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ پولیس کا خیال تھا کہ کسی لٹیرے نے ان سے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر انھیں قتل کیا ہے۔ اعظم کریوی ڈرگ روڈ کے علاقہ میں ہی سکونت پذیر تھے اور اپنے گھر لوٹ رہے تھے۔ ڈاکٹر اعظم کریوی کے افسانوی مجموعوں میں شیخ و برہمن، انقلاب، پریم کی چوڑیاں، دکھ سکھ، کنول اور دکھیا کی آپ بیتی سرفہرست ہیں۔ یہاں اس معروف افسانہ نگار کی ایک تخلیق نقل کررہے ہیں جس کا عنوان فٹ پاتھ ہے۔

    یہ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے ایسے بچے کی کہانی ہے، جو ایک امیر شخص کے گھر پر اوپری کام کاج کے لیے نوکر ہونے پہنچتا ہے۔ وہ اسے نئے کپڑے دیتا ہے اور ایک کمبل بھی تھماتا ہے۔ مگر بچہ کمبل لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ بچہ اپنے مالک سے کہتا ہے کہ وہ فٹ پاتھ پر اپنے ٹھکانے سے جاکر اپنی چادر لانا چاہتا ہے۔ مالک سے اجازت لے کر یہ بچہ گھر سے نکلتا ہے اور پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    شہر میں سڑکوں کی دونوں طرف کی دنیا ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ کہیں بھرے بازار کے درمیان سڑک یوں نرمی سے بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے جیسے مشتاقوں کے ہجوم میں حسن سر محفل۔ آمدورفت کی کثرت سے کھوئے سے کھوئے چھلتے ہیں۔ کہیں شاندار رہائشی محلوں سے اس کا گزر ہوتا ہے۔ دو طرفہ نئی وضع کی کوٹھیاں، سبزہ زار احاطے، دھنک کی طرح رنگ برنکی ہنستی ہوئی کیاریاں، جدید فیشن کے لباس، ناز فرماتی ہوئی ساریاں، نغمہ زن بالا خانے اوردھومیں مچاتی ہوئی موٹریں اور کہیں مفلوک الحال حلقوں کا جگر چیرتی ہوئی یہ سڑکیں یوں تیر جاتی ہیں جیسے اپی ہوئی تلوار۔

    بڑی سڑکوں کے حاشیوں پر فٹ پاتھ کا وجود ان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ سڑکوں کی بہ نسبت فٹ پاتھ کی دنیا ذرا آہستہ خرام کرتی ہے۔ سڑک ندی کے درمیانی دھارے کی طرح ہوتی ہے اور فٹ پاتھ موج ساحل آشنا کی مثال۔ مگر فٹ پاتھ کی دنیا حرکت و سکون دونوں کے مناظر پیش کرتی ہے۔ لہٰذا زیادہ دلچسپ ہے۔ رہررؤں کے علاوہ فٹ پاتھ کی آغوش میں بہت سی ہستیاں ہوتی ہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور اشرف المخلوقات بھی، جی ہاں اشرف المخلوقات بھی جس پر حوریں رشک کریں اور جن کے سامنے فرشتے سجدے میں گریں۔
    میونسپلٹی کے ٹین اپنی الا بلا، کوڑے کرکٹ، بہارن کے ساتھ ایسے دکانداروں کے پلنگ جو صرف نفع کمانا، قانون کو دھوکا دینا اور ساری دنیا کو اپنا سمجھنا جانتے ہیں۔ صرف پلنگ ہی نہیں، بنچ، کرسیاں، ٹوکرے، دیودار کے بکس وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستانی وزیروں کی طرح موٹے تازے، ہچکتے دمکتے مگر مجبور و پا بہ گل لیٹر بکس اور حیوانات میں بکریاں، گائیں گھوڑے، گدھے، کتے اور سب کے سبھاپتی سانڈ دوسروں کی کمائی کھانا خود بیکار رہنا اور دندنانا۔ ویسے ساہو کاروں، کارخانہ داروں اور زمینداروں کی طرح، سانڈ بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ نباتات میں میوے کی بڑی دکانوں سے پھیکے ہوئے چھلکے اور ایسی ٹوکریوں کے بیر، خراب و خستہ کے لیے اور آدھی سڑی ہوئی نارنگیاں جن کی پوری کائنات ایک گوشے میں سما جاتی ہے۔ غرض یہی ہستیاں فٹ پاتھ کی رونق ہوتی ہیں۔ مگر جو اشرف المخلوقات نہ ہوتا تو آسمان و زمین، جمادات، نباتات و حیوانات کہاں ہوتے۔ فٹ پاتھ پر اشرف المخلوقات بھی ہوتے ہیں۔ مسلسل سدا لگائے ہوئے فقیر، اپاہج بھک منگے، بھنکتے ہوئے کوڑھی جو اپنے ٹھنٹہ ہاتھوں کو دکھا کر صرف سوالیہ اشارے کرتے ہیں۔ ایسے زار و نزار محتاج جو برائے نام سا چیتھڑا سامنے بچھاکر بے حس و حرکت لیٹے رہتے ہیں۔ نصف درجن سے زیادہ گندے اور ادھ موئے بچوں والی عورت جو بیر یا شکر قند، رکشا والوں اور قلیوں کے ہاتھ بیچتی ہیں۔ ایک پلہ نما بچہ ربود کُرتی سے ڈھکی، ڈھلکی ہوئی خشک چھاتیوں کو اس طرح چاٹتا ہوا جیسے کوئی غریب جو آم کے پھینکے ہوئے چھلکوں کو رس گل جانے کے بعد بھی چاٹ لینا پسند کرے۔ میلے برقعے کے اندر سے نکیاتی ہوئی سائلہ عورت۔ چائے کی پھینکی ہوئی سیٹھی سے بننے والی چائے بیچنے والے اور ان کے گرد بیکار اور تھکے ہوئے مزدور اور راتوں کو انہیں فٹ پاتھوں کے سینوں کی دبی ہوئی آگ دہک اٹھتی ہے۔ خالی خولی ہانڈیوں میں چند دانے ابلتے ہیں۔ پانی کے ابال کی آواز دھرتی کی کراہ معلوم ہوتی ہے۔ بھوکے پیٹوں کو جگا کر فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والے سونے کی نقل کرنے کے لیے زمین پر دراز ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے اور قسمت کے بہانے برداشت کر لیا جاتا ہے۔

    آج میں آپ کو فٹ پاتھ ہی سے متعلق ایک کہانی سنانے والا ہوں۔ نہ جانے کتنی بن کہی اور ان سنی کہانیاں فٹ پاتھوں سے گرد راہ کی طرح لپٹی ہوئی ہوں گی۔

    دس سال کی عمر کا ایک لڑکا میرے مکان کے سامنے سڑک کے چھوٹے سے پل پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاؤں پھیلائے ہوئے، بے پروا آزاد، کمر میں لنگوٹی کسی بے شرم کی یونہی سی لاج کی طرح چپکی ہوئی۔ گردن سے ایک میلا، ڈھیلا، ڈھالا، چور چور کسی کا اتارن کرتہ جھول رہا تھا۔ شکستہ کرتے کے چاکوں کو ایک حد تک چھپانے میں سیاہ مرزئی مدد دے رہی تھی، جو خود بھی اکثر جگہ خندۂ دنداں نما کی شکل پیدا کر رہی تھی۔ یہ مرزئی بھی یوں تھی جیسے چھوٹے تکیے کا خول پہنا دے۔ کرتا جانگھ تک آتا تھا اور سامنے پھٹے ہونے کے سبب جسم زیریں کی عریانی کو دور کرنے کی بجائے، اس کے ننگے ہونے کا پردہ فاش کر رہا تھا اور اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور اس کے سیاہ ہاتھ پاؤں پر گرد کی تہیں نمایاں طور پر جمی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ زمین کی خاک اور جسم کے پسینے نے مل کر یہ ابٹنا تیار کیا تھا۔ وہ شاید بہت دیر سے بیٹھا ہوا تھا۔ سہ پہر کی دھوپ نے جا بجا پسینہ چلا کر ابٹنے کو ہلکا کر دیا تھا۔ سر کے بال پسینے میں چپک رہے تھے۔ وہ سنہری دھوپ سے لطف اٹھا رہا تھا۔ دنیا سے لاپروا ہو کر وہ اپنی مرزئی کے اوپر کی چلٹیریں مار رہا تھا اور گاہ گاہ اپنا بدن تیزی سے کھجا لیا کرتا تھا۔

    میرا محلہ شہر کا ایک خاموش حصہ تھا۔ دو جانب کالج کے کوارٹر تھے، تیسری جانب دریا اور چوتھے جانب درمیانی اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں کے کچھ مکانات، وہ نجانے ادھر کیسے آ نکلا۔ شاید پکنک کے لیے روزمرہ کے ہنگاموں سے تنگ آکر محض یونہی آج اس کی ٹانگیں ادھر ہی اسے لے آئیں۔ جاڑے کے دن تھے۔ دسمبر کا مہینہ اسے دھوپ میں بڑے اطمینان و سکون سے بیٹھا دیکھ کر یہ اثر ہوتا تھا جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں عالم رنج و حسرت کو بھول کر آسودگی و طمانیت کے ساتھ بیٹھا ہوا ابدیت کے ساتھ رشتہ جوڑ رہا ہو۔

    میرا ملازم اسے بلا کر میرے مکان کے اندر لے آیا۔ پہلے تو اس نے پکار تک نہ سنی۔ وہ اتنا محو تھا۔ شور کرنے سے وہ چونکا، مگر شان سے پل ہی پر بیٹھا رہا۔ جب اسے اندر بلایا گیا تو اس نے بہت ہی مشکوک تیور سے ماحول کو بھانپا اور پھر چپلٹیریں مارنے لگا۔ خوشامدیں کرنے، چمکارنے اور دلاسے دینے پر مشکلوں سے وہ کشاں کشاں یوں اندر لایا گیا جیسے چھتر کے میلے سے ایک نئے اڑتے ہوئے گریزاں بچھڑے خرید کر کوئی کسان ڈراتا ہوا لیے جا رہے ہو۔

    شاید وہ کچھ بہرا بھی تھا اور اس کی دونوں آنکھوں میں پھولیاں تھیں۔ ایک میں زیادہ، دوسری میں کم۔ وہ گھر کی چار دیواری کے اندر گھبرایا گھبرایا سا معلوم ہو رہا تھا۔ نو گرفتار پرندے کی طرح، سائبان سے دوڑ کر وہ انگنائی میں چلا گیا اور کنوئیں کی منڈیر پر لاپروائی سے بیٹھ گیا۔ گردن نیچی کئے ہوئے وہ شرما کر دانت نکالے آہستہ آہستہ ہنس رہا تھا۔ اس کے دانت پیلے پیلے تھے۔ پھسی سے اٹے ہوئے جیسے دانتوں پر سونا چڑھایا جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے اسے کھانا دیا۔ وہ بہ مشکل کھانے پر راضی ہوا مگر جب کھانے لگا تو بھوکے کتے کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ صحن میں بیٹھا بیٹھا جب وہ رکابی صاف کر چکا تو تیزی سے گرسنہ بھڑیے کی طرح وہ باورچی خانے میں گھس گیا اور کھانے کی مزید چیزیں تلاش کرنے لگا۔ قاب، ہانڈیاں، پیالے، ٹکریاں سب اس نے الٹ پلٹ کرنی شروع کیں، باورچی نے اسے ڈانٹ بتائی، ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ یہ بدتمیزی ہے اور کھانا ہو تو مانگ کر کھایا کرو۔ مگر یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ وہ اس وقت تک بے چین رہا جب تک اسے کچھ اور کھانے کو نہ مل گیا۔

    دوبارہ کھا کر بھی اس کے تقاضے جاری رہے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اب رات کو کھانا پیٹ بھر پھر ملے گا۔ وہ کچھ مایوسی اور جھلاہٹ کے عالم میں رکابی سے دال اور شوربا چاٹنے لگا۔ چاٹ واٹ کر رکابی کو ایک طرف نہایت ہی بے توجہی سے سرکا دیا اور کنوئیں کی منڈیر پر جا کر بیٹھ گیا۔ بےتعلق سا، بے حس، بے فکر، وہ بہت ہی کم باتوں کا جواب دیتا تھا۔ ہم لوگوں کو گملوں اور چمن کی آبپاشی کے لیے ایک ایسے چھوکرے کی ضرورت تھی جو اوپر کے اور کام بھی کر دیا کرے، اس لونڈے کو ہم نے خداداد سمجھا۔ کم دانے گھاس میں یہ بہت سے کام کر دیتا۔ خود غرضی اور جذبۂ ترحم نے مل کر ہم میں یہ شدید خواہش پیدا کی کہ کسی طرح یہ باد آورد ہمارے ہاں ٹک جائے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ وہ نوکر ہو کر یہاں اگر رہ جائے تو اسے خوب کھانے کو ملے گا، اچھے صاف صاف کپڑے پہننے کو ملیں گے اور پیسے بھی۔ وہ چپ سنتا رہا۔ کبھی کبھار اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر ہنس دیتا۔ عجیب طرح کی بے تعلق، بے جذبے کی کھوکھلی سی ہنسی۔ ہم لوگوں نے اسے نہانے کو کہا، وہ فوراً تیار ہو گیا۔ اسے نہانے کو کپڑا دھونے والا صابن دیا گیا۔ اس نے اسے سونگھا اور منہ بنا لیا۔ پھر ہنستا ہوا نہانے کے لیے کل پر بیٹھ گیا۔ اسے ایک پرانا ہاف پینٹ اور ایک پرانی قمیص دی گئی۔ اس نے خوش خوش انہیں پہنا۔ بٹن لگاتے وقت اسے بڑا لطف آ رہا تھا۔ کئی بار بٹن کھول کھول کر انہیں لگائے۔ وہ جدت کا لطف لے رہا تھا۔ اپنے کرتے اور مرزئی میں اس قسم کی نامعقول بندشیں نہیں تھیں۔ نہا دھو کپڑے بدل کر وہ سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا اور اب کے اس نے باورچی سے بہ منت کچھ اور کھانے کو مانگا۔ چند سوکھی روٹیاں اسے دے دی گئیں اور اس نے انہیں ہفتوں کے بھوکے کی طرح دو تین لقموں میں ختم کر دیا۔ کھا کر وہ اٹھا اور اپنے پھٹے پرانے کرتے میلی چکٹ لنگوٹی اور چیلٹروں سے اٹی ہوئی مرزئی کو لپیٹ لپاٹ کر سنبھال کے آنگن کے ایک گوشے میں ٹوٹے ہوئے گھڑے پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا میرے پاس آیا۔ اور غیر متوقع جرأت سے اس نے سوال کیا۔

    ’’کتنا مشارا دو گے؟‘‘

    میں نے کہا۔۔۔ ’’ٹھکانے سے کام کر۔ کھانا، کپڑا، مشاہرہ سب ملیں گے۔‘‘

    کہنے لگا، نہیں بول دو کتنا ملے گا؟‘‘

    میں نے ہنس کر کہا، ’’ابے تو مشاہرہ لے کے کیا کرے گا؟ خوب بھر پیٹ کھایا کر اور پیسے لے لیا کر دو ایک۔‘‘

    ’’اونہہ! تب ہم نہیں رہیں گے۔‘‘

    ’’مشاہرہ بھی ملے گا تو گھبراتا کیوں ہے؟ تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔

    مجپھڑ پور جلع۔‘‘

    میں نے دریافت کیا، ’’ماں باپ ہیں؟‘‘

    اس نے کہا، ’’نہیں! کوئی نہیں!‘‘ اور نفی میں زور سے سر ہلاتا رہا۔

    ’’بھائی بہن؟‘‘

    ’’کہہ تو دیا کوئی نہیں۔‘‘ وہ بگڑ سا گیا۔

    ’’اچھا تجھے مشاہرہ دوں گا۔ میرے پاس جمع کرانا، اس سے بہت سے کپڑے بنا لینا اور مٹھائیاں کھانا۔‘‘

    ’’نہیں مشاہرہ ہاتھ میں لیں گے۔‘‘

    ’’ہاتھ میں لے کر کیا کرے گا؟ پھینک دے گا اور کیا! یا گر جائیں گے روپے کہیں۔‘‘

    ’’نہیں! ہم کو مکان بنانا ہے۔‘‘ اس نے شان و وقار کے ساتھ کہا۔ میں بھی چونک گیا اور سب لوگ ہنسنے لگے۔ اسے چوٹ سی لگی کہنے لگا۔

    ’’میرے بھی مکان ہے جی! جلجلہ میں گر گیا ہے تھوڑا۔ دو کوٹھڑی ہے! اس کے سیاہ چہرے پر خون نے دھپے ہوئے توے کا رنگ پیدا کر دیا۔

    میں نے کہا، ’’اچھا بنانا مکان۔ تیرے ہاتھ میں روپے دوں گا۔‘‘ وہ خوش ہو گیا اور ہنسنے لگا۔ اس نے یہ بھی نہ پوچھا پھر کتنا مشاہرہ ہوگا۔ اس کے دل میں بھی حسرت تعمیر اور تمنائے ملکیت تھی۔ اسی حسرت، اسی تمنا کے پورا ہونے کا تصور ہی اتنا خوش آئند تھا کہ وہ سرمست ہو گیا۔

    وہ مکان کے بیرونی احاطے میں جا کر بیٹھ رہا۔ جب اسے کسی کام کے لیے بلایا جاتا تو وہ چلا آتا اور کام کو ادھورا ہی چھوڑ کر پھر باہر احاطے میں جا بیٹھتا۔ اسے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ اپنی جگہ پر اٹل تھا۔ ہم لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ ابھی زور دینا ٹھیک نہیں چپ ہو رہے کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ اب رات ہو چلی اور وہ مزے میں صحن میں بیٹھا رہا۔ کھانا کھانے کے لیے اندر آیا اور پھر باہر چل دیا۔ بڑی دقتوں سے اسے سلانے کے لیے اندر لایا گیا۔ اب وہ کوٹھری کے اندر سونے پر رضامند نہیں۔ رات بھر وہ سائبان ہی میں سوتا رہا۔ غضب کی سردی تھی مگر وہ تو کھلی فضا کا پنچھی تھا۔ اسے اوڑھنے کے لیے ایک کمبل دے دیا گیا جسے اس نے نہایت استغنا کے ساتھ سرسری طور پر لے لیا۔

    صبح ہوتے ہی وہ احاطے میں جا پہنچا۔ صرف قمیص اور ہاف پینٹ پہنے ہوئے، اسے بلا کر چولھے کے پاس باورچی خانے میں بٹھایا گیا۔ وہاں وہ چپکا بیٹھا رہا۔ جب ہم لوگوں کے ناشتے کے بعد اسے روٹی کھانے کو مل چکی تو میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔

    ’’ہم جا کے چادر لی آویں؟‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کہاں ہے تیری چادر؟‘‘

    اس نے نہایت صفائی سے جواب دیا، ’’فٹ پاتھ پر۔‘‘

    ’’ارے فٹ پاتھ پرکہاں؟‘‘

    ’’جہاں ہم روج سوتے تھے۔ آحاطہ کے ٹٹی میں لٹکا کے رکھ دیا ہے۔‘‘ اب وہ جانے کے لیے بے چین تھا۔

    میں نے کہا۔۔۔ ’’تجھے دوسری چادر مل جائے گی مت جا!‘‘

    مگر اس نے ایک نہ سنی اور جانے پر مصر ہوا۔ ملازموں نے اسے زبردستی روکنا چاہا تو وہ زورزور سے رونے لگا۔

    میں نے آخرش اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ چھلانگ لگا کر احاطے کے اندر چلا گیا اور وہاں سے یک بیک لوٹ کر اندر آیا۔ اس نے صحن کے گوشے میں جا کر قمیص اتار دی۔ اپنا میلا سا ربود کرتہ اور مرزئی پہنی اور ہاتھ میں لنگوٹی کا چیتھڑا لے کر باہر جانے لگا۔

    میں نے اسے کہا، ’’ارے یہ کیا! اپنی چادر لے کر تو واپس نہیں آئے گا کیا؟‘‘ وہ بلا جواب دیے پھرتی سے احاطے سے باہر نکل گیا اور پھاٹک سے باہر ہوکر دوڑتا ہوا بھاگا۔ یہ جا وہ جا۔

    فٹ پاتھ اسے آواز دے رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کی آواز سن لی۔ کل کا بھولا بچہ اپنے گھر لوٹ چکا تھا۔

  • عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ کو معلوماتِ عامّہ کے میدان کی ایسی قابل و باصلاحیت شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جن کی وجہِ مقبولیت ’کسوٹی‘ بنا۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا معلوماتِ عامّہ پر مبنی پروگرام تھا۔ عبید اللہ بیگ اس پروگرام میں اپنی ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے سبب کسی شخصیت یا کسی شے کو بوجھنے میں کام یاب رہتے اور ناظرین دنگ رہ جاتے تھے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ ایک لائق فائق انسان تھے جن کی شہرت ایک شفیق اور منکسر مزاج کے طور پر بھی تھی اور یہی وجہ ہے عبید اللہ بیگ کو علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں بھی نہایت ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت ہے۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوگئے تھے جہاں بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ انھوں نے بطور ماہرِ ابلاغ نئے آنے والوں کی تربیت بھی کی۔ عبید اللہ بیگ پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ سے بھی منسلک رہے اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعہ کی عادت اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے 1951ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے عبید اللہ بیگ کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کے خاندان کے اکثر مرد شکار کے شوقین تھے اور عبید اللہ بیگ بھی اپنے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔ انھیں اس دوران فطرت کو سمجھنے کا موقع ملتا اور وہ اپنی عقل اور ذہانت سے کام لینے کے قابل ہوئے۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی عبید اللہ بیگ کے ساتھ رہیں۔ یہ تمام ہی اپنے وقت کے نہایت قابل و عالی دماغ لوگ تھے۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کے میزبان بھی رہے جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ ایک تقریبِ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی شامل ہے۔ حکومتِ پاکستان نے عبید اللہ بیگ کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے لیے بھی عبید اللہ بیگ کام کیا اور اپنی منفرد آواز کے سبب ریڈیو کے سامعین میں مقبول رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ کے نام سے بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی پروگرام شروع ہوا تھا جسے چند وجوہ کی بناء پر بند کر دیا گیا۔ پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ترجمہ کرکے نشر کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔ عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے ایک مکتب تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والا علم و حکمت کے موتی چن کر ہی اٹھتا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کی گفتگو کا انداز منفرد اور دل چسپ بھی تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ انتقال کرگئے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے انھیں پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ انھیں ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    ایک لکڑہارے کا بادشاہ بن جانا اور اپنے دور کی بڑی مضبوط اور نہایت منظّم فوج تیار کرکے خطّے میں فتوحات حاصل کرنا حیرت انگیز اور قابلِ ذکر تو ہیں، مگر ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام قتل غارت گری اور تباہی کے لیے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ قصّہ ہے مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک بڑی فوجی مہمات سَر کرنے والے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار کا۔

    مؤرخ اور مائیکل ایکسوردی (Michael Axworthy) نادر شاہ سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایران سے بے دخل کیا، روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے زیرِ تسلط علاقوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں شکست دے کر ایران کا بادشاہ بنے۔ افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی کو فتح کیا۔ وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو کیا۔‘

    ایران کا بادشاہ نادر شاہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ عہد کے مشہور شہر دلّی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی لے گیا۔ اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین کے مطابق بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر ہندوستان تک متعدد مہمات نادر شاہ کو ایک بہترین اور باتدبیر فوجی کمانڈر ثابت کرتی ہیں۔ لیکن وہ مضبوط اور مستحکم حکومت چھوڑ کر دنیا سے نہیں گیا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔

    نادر شاہ کا تعلق کسی شاہی گھرانے یا نوابی خاندان سے نہیں تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ نوعمری میں‌ لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تاکہ گزر بسر کرسکے۔ بعض کتابوں میں اسے گڈریا لکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور ایک سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ نادر شاہ باصلاحیت تھا، جس کے والد کا سایہ جلد اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ اس کے باوجود صرف تیس برس کی عمر میں نادر شاہ تاج و تخت سنبھالنے کے ساتھ ایک طاقت ور اور منظّم فوج کا سالار بن چکا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 کا زمانہ تھا جب نادر شاہ درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کی مادری زبان ترکی تھی لیکن قیاس ہے کہ جلد ہی نادر شاہ نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ کے نام کے ساتھ اکثر افشار لکھا جاتا ہے جس کی وجہ والد کا ترکمانوں کے افشر قبیلے کے جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال ہے۔ انھیں ایک چرواہا لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک باعزّت اور لائقِ اعتبار شخص تھے۔ اسی بنیاد پر بعض مؤرخین کے مطابق انھیں اپنے گاؤں کا سرپرست بنا دیا گیا تھا۔ نادر شاہ ایک دہری ثقافت میں پروان چڑھا۔ وہ ایرانی سلطنت میں ترکی زبان بولنے والا شہری تھا جس نے بعد میں فارسی ثقافت کو بھی سمجھا اور بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھا۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے غربت دیکھی مگر پھر نادر شاہ پر قسمت نے یاوری کی اور وہ ایک بااثر حکم راں اور فاتح بنا۔

    اگرچہ نادر شاہ ہندوستان میں ایک ظالم اور نہایت خود سر حکم راں مشہور ہے، لیکن مؤرخ مائیکل ایکسوردی اس کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق بادشاہ بننے کے بعد اس نے اپنی غربت کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اپنا خچر اور وہ لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں سے جذباتی انداز میں مخاطب ہوا اور کہا کہ کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق نادر شاہ پندرہ سال کی عمر سے ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سرپرستی میں رہا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے نادر شاہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا اور آنے والے برسوں میں فاتح بن کر ابھرا۔ نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اب ہم نادر شاہ کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کر کے کرنال کے مقام تک پہنچا جو دلّی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔ نادر شاہ یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بجائے بہت سا مال و زر سمیٹ کر رخصت ہوگیا تھا۔

    دلّی میں قتلِ عام کی داستان کو نامی گرامی مؤرخین اور اہلِ قلم نے تصانیف میں شامل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نادر شاہ کی فوج پر دلّی کی گلیوں میں حملوں کے بعد شروع ہوا۔ نادر شاہ نے فوج کو اپنی ہیبت اور دھاک بٹھانے کے لیے قتلِ عام کا حکم دیا، اور پھر بڑی خوں ریزی اور لوٹ‌ مار ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس وقت 30 ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔ دوسری طرف مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی سے رخصت کرتے ہوئے سونا اور چاندی اور دریائے سندھ کے مغرب میں اپنی کئی جاگیریں بھی نذر کیں۔ اسے کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے بھی تحفتاً پیش کیے گئے۔

    نادر شاہ کی مغل دربار میں آمد اور بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا احوال مرزا مہدی نے اپنی تصنیف ’تاریخِ نادری‘ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    مصنّف نے اسی کتاب میں دلّی سے نادر شاہ کی رخصتی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے، ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    1745 میں نادر شاہ نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی تھی جسے مؤرخین اس کی آخری شان دار فتح لکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کے خلاف کمربستہ رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہوتا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو بھی اندھا کروا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ رضا قلی اس کے اقتدار کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ مال و دولت کی ہوس میں‌ گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی دور میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں اور نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتا۔ بلکہ وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ غربت کی دلدل سے نکل کر ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالنے والے نادر شاہ کو محافظ دستے کے چند سپاہیوں نے قتل کر دیا تھا۔

  • میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    روسی ادب کی حیات تازہ میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ جدید انشا پردازوں میں صرف گورکی ہی ایسا ادیب ہے جو تالسٹائی کی طرح اکنافِ عالم میں مشہور ہے۔ اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے چند ممالک کے علمی طبقوں تک محدود ہے۔

    گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔

    میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکس مووخ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیشکوف ایک معمولی دکاندار تھا جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خاں میں جہاز کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نوو گورو کے ایک رنگ ساز وسیلی کیشرن کی لڑکی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے میکسم گورکی ۱۴ مارچ ۱۸۶۹ء کو پیدا ہوا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی باپ اپنے بچے کو استرا خاں لے گیا۔ یہاں گورکی نے ابھی اپنی زندگی کی پانچ بہاریں دیکھی تھیں کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے پھر سے اس کے دادا کے گھر لے آئی۔

    گورکی نے اپنے بچپن کے زمانے کی داستان اپنی ایک تصنیف میں بیان کی ہے۔ اس میں اس نے اپنے جابر دادا اور رحم دل دادی کے کرداروں کی نہایت فنکاری سے تصویر کشی کی ہے، جس کے نقوش قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ جوں جوں کم سن گورکی بڑا ہوتا گیا، اس کے گرد و پیش کا افلاس زدہ ماحول تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ اس کی ماں نے جیسا کہ گورکی لکھتا ہے، ’’ایک نیم عاقل شخص سے شادی کر لی۔‘‘ اس شخص کے متعلق گورکی کی کوئی اچھی رائے نہیں ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی والدہ بھی اسے داغ مفارقت دے گئی اور ساتھ ہی اس کے دادا نے اسے خود کمانے کے لئے اپنے گھر سے رخصت کر دیا۔ قریباً دس سال تک نوجوان گورکی روس کی سرحدوں پر فکرِ معاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کشمکش زیست کے اس زمانے میں اسے ذلیل سے ذلیل مشقت سے آشنا ہونا پڑا۔

    لڑکپن میں اس نے ایک کفش دوز کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ چھوڑ کر وہ ایک مدت تک دریائے والگا کی ایک دخانی کشتی میں کھانا کھلانے پر نوکر رہا۔ جہاں ایک بوڑھے سپاہی نے اسے چند ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور اس طرح اس کی ادبی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کتابوں میں سے جو گورکی نے تختہ جہاز پر بوڑھے سپاہی سے پڑھیں، ایک کتاب ’’اڈلفو کے اسرار‘‘ تھی، ایک مدت تک اس کے زیر مطالعہ ایسی کتب رہیں جن کے اوراق عموماً کشت و خون اور شجاعانہ رومانی داستانوں سے لبریز ہوا کرتے تھے، اس مطالعہ کا اثر اس کی اوائلی تحریروں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔

    پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے قازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، ان دنوں مفت تعلیم دینے کا رواج نہیں تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اسے بھوکوں مرنے سے بچاؤ حاصل کرنے کے لئے ایک بسکٹوں کے کارخانے میں کام کرنا پڑا۔ یہ وہی کارخانہ ہے جس کی تصویر اس نے اپنے شاہکار افسانے ’’چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ میں نہایت فن کاری سے کھینچی ہے۔ قازان میں اسے ایسے طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، جنہوں نے اس کے دماغ میں انقلابی خیالات کی تخم ریزی کی۔ قازان کو خیرباد کہنے کے بعد وہ جنوب مشرق اور مشرقی روس کے میدانوں میں آوارہ پھرتا رہا۔ اس زمانہ میں اس نے ہر نوعیت کی مشقت سے اپنا پیٹ پالا۔ اکثر اوقات اسے کئی کئی روز فاقے بھی کھینچنے پڑے۔

    ۱۸۹۰ء میں وہ نزہنی میں رنگروٹ بھرتی ہونے کے لئے آیا۔ خرابی صحت کی بنا پر اسے یہ ملازمت تو نہ مل سکی مگر وہ نزہنی کے ایک وکیل مسٹر ایم اے لینن، کا بہت احترام کرتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مسٹر ایم اے لینن کے نام سے معنون کیا ہے۔ کے یہاں منشی کی حیثیت میں نوکر ہو گیا۔ اس وکیل نے اس کی تعلیم کی طرف بہت توجہ دی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی گورکی کے ذہنی تلاطم نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ منشی گیری چھوڑ کر روس کی سرحدوں پر آوارہ پھرے۔ دراصل قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے روپوش رہے۔ خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا۔ ۱۸۹۲ء میں جب کہ وہ تفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہ ’’ماکارشدرا‘‘ جو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان تھی، مقامی روزنامہ ’’قفقاز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا۔ یہ نام اب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے۔

    کچھ عرصہ تک وہ اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے۔ مگر ’’اعلیٰ ادب‘‘ کے ایوان میں وہ اس وقت داخل ہوا، جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ ۱۸۹۵ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ فی الحقیقت روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی۔ اس کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گورکی ایک غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین انشا پرداز بن گیا۔
    گورکی کی شہرت ’’پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی۔ ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ بین الملّی شہرت بھی فوراً ہی نوجوان مصنف کی قدم بوسی کرنے لگی۔ جرمنی بالخصوص اس پر لٹو ہو گیا۔ ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۶ء کے درمیانی عرصہ میں گورکی کی شاہکار تمثیل ’’تاریک گہرائیاں‘‘ برلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک اسٹیج ہوتی رہی۔

    میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی۔ مالی نقطۂ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی تصانیف کا پیدا کردہ روپے کا بیشتر حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ ۱۹۰۰ء میں روس کی فضا سخت مضطرب تھی۔ گرفتاریوں اور سزاؤں کی بھرمار تھی، چنانچہ گورکی گرفتار ہوا اور اسے پیٹرز برگ سے نکال کر نزہنی میں نظربند کر دیا گیا۔ پہلے انقلاب میں گورکی نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ جنوری ۱۹۰۵ء میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے اکناف عالم میں گورکی کے چاہنے والے پیدا کر دیے۔ رہائی کے بعد گورکی نے ایک روزانہ اخبار شائع کیا جس کے کالم بالشویک تحریک کے نشو و ارتقاء کے لئے مخصوص تھے۔ اس روزنامے میں گورکی نے بیسویں صدی کے تمام روسی ادباء کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے مقالوں کا ایک تانتا باندھ دیا۔ ان انشاء پردازوں میں جو اس کے نزدیک فضول تھے، تالسٹائی اور دوستو وسکی بھی شامل تھے، وہ انہیں ادنیٰ سرمایہ دار کا نام دیتا ہے۔

    میکسم گورکی پر یہ پارے سعادت حسن منٹو کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں‌ مصنّف نے مختلف سیاسی اور ادبی ادوار کے ساتھ گورکی کی کہانیوں سے اقتباسات نقل کرتے ہوئے ان پر اپنی رائے دی ہے، لیکن ماں وہ ناول ہے جس نے دنیا بھر میں‌ گورکی کی عظمت اور اس کے قلم کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی یہ ناول دنیا بھر میں‌ پڑھا جاتا ہے اور گورکی زندہ ہے۔

    18 جون 1936ء کو روس کا مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی گورکی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے روس اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی اور تاریخ میں‌ اپنا نام لکھوانے میں‌ کام یاب ہوا۔

  • ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ہندوستان کی فلم نگری اور تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کو کئی بے مثال اور لازوال گیت دینے والے ناظم پانی پتی کو آج شاید ہی کوئی جانتا ہو گا لیکن ایک زمانہ تھا جب ان کے فلمی نغمات کا شہرہ اور بطور شاعر ان کی تعریف بمبئی سے لاہور تک خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ناظم پانی پتی ایک فقیر منش اور سادہ انسان تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ گیت نگار ناظم پانی پتی 18 جون 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    فلمی دنیا میں بطور گیت نگار ان کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا ہے، اور جب کہ وہ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد پاکستان چلے آئے تھے، مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں‌ انھیں یاد کیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ 1952ء میں‌ پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے جیسا مقبول گیت دیا اور ایک خوب صورت لوری چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا بھی انہی کی تحریر کردہ تھی جسے اکثر سنا جاتا تھا۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ پیدائش ان کی لاہور شہر میں‌ ہوئی مگر اپنے والد کی جائے پیدائش کی مناسبت سے پانی پت کو اہمیت دی اور اسے لاحقہ بنایا۔ وہ 15 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے ہندوستان اور بعد میں‌ لاہور سے بننے والی فلموں کے لیے کئی مقبول گیت تخلیق کیے۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے۔

    جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:

    جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر دا
    ہنسدے آں رات لنگے پتا نیئں سویر دا
    جگ والا میلہ یارو….

    یہ فلم ”لچھی” کا وہ گیت ثابت ہوا جس کی وجہ سے فلم سپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم کے بعد ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔

    ناظم پانی پتی نے بعد میں اپنے بڑے بھائی ولی کی طرح گرامو فون کمپنیوں کے لیے گیت نگاری شروع کردی تھی۔ یہاں بھی ان کو کام یابی نصیب ہوئی۔ وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    مشہور ہے کہ ناظم پانی پتی ہی تھے جنھوں نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر سعادت حسن منٹو کی میّت کو غسل اور کفن دیا۔ ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال گمنامی میں گزارے کیوں کہ اس وقت پاکستان میں‌ فلمیں بننا بہت کم ہوگئی تھیں اور نگار خانے ویران پڑے تھے۔ پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں گیت لکھنے کے ساتھ انھوں نے متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • پروفیسر آفاق صدیقی:‌ علم و ادب کے میدان کا ایک قابلِ‌ ذکر نام

    پروفیسر آفاق صدیقی:‌ علم و ادب کے میدان کا ایک قابلِ‌ ذکر نام

    تہذیب و شرافت اور حسنِ اخلاق کے ساتھ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اور ان کی راہ نمائی کرنا آفاق صدیقی صاحب کے نمایاں شخصی اوصاف میں شامل تھا۔ یہ تذکرہ ہے پاکستان میں علم و ادب اور تدریس کے شعبہ میں معروف پروفیسر آفاق صدیقی کا۔

    پروفیسر آفاق صدیقی کے علمی اور ادبی کام کی بات کی جائے تو بطور محقّق، مترجم اور بحیثیت شاعر انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ آج آفاق صدیقی کی برسی ہے۔ وہ 17 جون 2012ء کو وفات پاگئے تھے۔

    4 مئی 1928ء کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہونے والے آفاق صدیقی نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور صوبۂ سندھ کے مشہور اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر سکھر میں سکونت اختیار کرلی۔ اردو کے علاوہ آفاق صدیقی فارسی اور ہندی کے ساتھ سندھی زبان بھی جانتے تھے۔ مضمون نگاری اور شاعری کرتے ہوئے انھوں نے اپنی اس قابلیت اور علمی استعداد کے ساتھ تحقیق اور تراجم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ان کے تحقیقی مضامین اور تراجم پر مبنی تصانیف کو اردو اور سندھی ادب میں معتبر مانا جاتا ہے۔

    آفاق صدیقی کا پیشہ و مصروفیت کا شعبہ تدریس رہا۔ وہ مختلف حیثیتوں میں تعلیمی اداروں سے منسلک رہے اور ساتھ ہی اپنے علمی و ادبی مشاغل بھی انجام دیتے رہے۔ پروفیسر آفاق صدیقی نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطيف بھٹائی اور سچل سرمست کے علاوہ شيخ اياز کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    پروفیسر آفاق صدیقی نے مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس نے سکھر اور شہر کے نواح میں ایسے اسکول قائم کیے جہاں کم اور اوسط آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ شعبۂ تعلیم سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور اس شہر میں اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ایسے ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت ممکن بنانا تھا جو اس کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ 1952ء میں آفاق صدیقی نے ایک رسالہ ’کوہ کن‘ کا اجرا کیا اور اس کے اگلے برس سندھی ادبی سرکل کا قیام عمل میں لائے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کی تعداد 40 ہے جن میں ان کے مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ’تاثرات‘ (تنقیدی مضامین)، ’شاعرِ حق نوا‘(سچل سرمست پر تحقیقی کتاب)، ’جدید سندھی ادب‘(تراجم نظم و نثر)، ’سندھی ادب کے اردو تراجم‘ (تحقیق)، ’عکسِ لطیف‘(شاہ لطیف کی شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب) شامل ہیں۔ سندھی کہانیوں پر مشتمل کتاب ماروی کے دیس اور شاہ جو رسالو کا اردو ترجمہ بھی انہی کے قلم سے نکلا تھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اردو اور سندھی ادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یادِ رفتگاں: مولوی ممتاز علی کا تذکرہ

    یادِ رفتگاں: مولوی ممتاز علی کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے علم و فنون اور ادب و صحافت کی دنیا کے ایک گوہرِ نایاب کا جنھیں پیوندِ خاک ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں اور اب ان کا نام اور کارنامے بھی صرف کتابوں میں گویا قید ہیں۔ نئی نسل کو جاننا چاہیے کہ قلم کے ذریعے اردو کی خدمت اور ہندوستان میں اسلامی شناخت اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ان شخصیات نے کیا کردار ادا کیا۔ مولوی سیّد ممتاز علی کو شمسُ العلما کے خطاب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ وہ اپنے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ ان کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَرورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت نام پیدا کیا۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔ 15 جون 1935ء کو سید ممتاز علی وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے اور کئی تراجم بھی ان کے قلم سے نکلے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے۔ انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    1908ء میں محمدی بیگم کے انتقال کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور نام ور ادیب و ڈرامہ نگار تھے۔

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    برصغیر اور بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کئی نام موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی شناخت اور پہچان بنے اور ان میں سے چند نام اپنے فن کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔ مہدی حسن انہی میں سے ایک ہیں جن کی آواز کی دنیا نے مداح سرائی کی اور ان کے فن کو سراہا۔ آج مہدی حسن کی برسی ہے۔

    ریڈیو کی مقبولیت کے دور میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز ملک بھر میں سنی جانے لگی تھی۔ اس دور میں ریڈیو پر بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار ہوا کرتے تھے اور ان اساتذہ کو متاثر کرنا اور ان کی سفارش پر ریڈیو سے منسلک ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ اس وقت ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے مہدی حسن کو ریڈیو پر گانے کا موقع دیا اور بعد میں مہدی حسن فنِ گائیکی کے شہنشاہ کہلائے۔

    مہدی حسن نے غزل گائیکی سے اپنی مقبولیت کا آغاز کیا تھا اور پھر فلمی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنا دیا۔ انھوں نے غزلوں کو راگ راگنی اور سُر کی ایسی چاشنی کے ساتھ گایا کہ سننے والا سحر زدہ رہ گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہر فلم میں مہدی حسن کا گانا لازمی سمجھا جانے لگا۔ انھوں نے فلمی غزلیں بھی گائیں اور ان کی گائی ہوئی تقریباً ہر غزل اور گیت مقبول ہوا۔ مہدی حسن کے گیت سرحد پار بھی بہت ذوق و شوق سے سنے گئے اور ان کی پذیرائی ہوئی۔ کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور انفرادیت نے مہدی حسن کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا اور ان کے شاگردوں نے بھی انہی کے رنگ میں آوازوں کا جادو جگا کر سننے والوں سے خوب داد سمیٹی۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہی فیض جیسے بڑے شاعر کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے…اور میر صاحب کا کلام ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے….‘‘ گا کر مہدی حسن نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ بعد میں وہ میر تقی میر، غالب، داغ دہلوی اور دیگر اساتذہ کا کلام گاتے اور فلمی نغمات کو اپنی آواز میں یادگار بناتے رہے۔

    گلوکار مہدی حسن کے مقبول ترین گیتوں میں ’’اب کے ہم بچھڑے (محبت)، ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں (عظمت)، ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے (شرافت) اور کئی نغمات شامل ہیں۔ یہ گیت اپنے وقت کے مشہور اور مقبول ترین ہیروز پر فلمائے گئے۔

    اپنی ابتدائی زندگی اور اساتذہ کے متعلق مہدی حسن نے انٹرویوز کے دوران بتایا کہ وہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جے پور کے گاؤں جھنجھرو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ’’کلاونت‘‘ گھرانے سے تھا اور ان کے والد، دادا، پر دادا بھی اسی فن سے وابستہ رہے تھے۔ والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے اس فن کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ ان کے بقول ان کے بزرگ راجاؤں کے دربار سے وابستہ رہے تھے۔ 47ء میں قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن بھارت سے لاہور آگئے۔ وہاں تین چار برس قیام کے بعد کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ فلم انڈسٹری سے وابستگی کراچی میں آکر ہوئی کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر فلمیں کراچی میں ہی بنا کرتی تھیں۔

    مہدی حسن نے ابتدائی زمانہ میں کئی کام کیے، اور روزی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں محنت میں کبھی عار محسوس نہیں ہوئی۔ پیٹ پالنے کے لیے پنکچر لگائے، ٹریکٹر چلایا، موٹر مکینک کے طور پر کام کیا اور پھر انھیں ریڈیو تک رسائی حاصل ہوگئی۔ بعد میں ڈائریکٹر رفیق انور نے مہدی حسن کو فلم میں کام دلوایا اور پہلی فلمی غزل فلم ’’شکار‘‘ کے لیے گائی جس کے بول تھے۔

    ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے
    کہ آ گیا کوئی رخ زیبا لئے ہوئے‘‘

    گلوکار مہدی حسن نے پاکستانی اور غیرملکی حکومتی شخصیات اور ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور بڑی عزت اور احترام پایا۔ حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو تمغائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت دوسرے نمایاں قومی سطح کے ایوارڈز سے نوازا تھا۔

    زندگی کے آخری ایّام میں مہدی حسن فالج کے بعد بستر پر رہے اور سینے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ ان کا انتقال 13 جون 2012 کو ہوا۔