Tag: یوم پاکستان

  • یوم پاکستان :  اعزازی شیلڈز اور دیگر تحائف کی تیاری عروج پر

    یوم پاکستان : اعزازی شیلڈز اور دیگر تحائف کی تیاری عروج پر

    یوم پاکستان کے موقع پراعزازی شیلڈز اوردیگر تحائف کی تیاریاں عروج پر ہیں ، شیلڈ اور میڈل میکرز کا کہنا ہے کہ پورا سال انتظار کرتے ہیں کہ یوم پاکستان آئے اور ہم اپنا فرض سرانجام دیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان کےموقع پر اعزازی شیلڈزاوردیگرتحائف کی تیاری جاری ہے، 23 مارچ کے خصوصی موقع پر اعزازی شیلڈز، تحائف اور پریزیڈنٹ کیرج انتہائی محنت سے تیار کیے جاتے ہیں۔

    یوم پاکستان کی خصوصی پریڈ میں استعمال ہونے والی اشیاء کی تیاری میں پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین حصہ لیتے ہیں۔

    یوم پاکستان کی پریڈ میں اپنا خاص کردار ادا کرکے تمام ماہرین انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں، شیلڈ بنانے والے ماہرین نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم 23 لوگ کام کررہے ہیں اور ہم پورا سال انتظار کرتے ہیں کہ یوم پاکستان آئے اور ہم اپنا فرض سرانجام دیں۔

    شیلڈ میکر حمزہ علی کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنے والدین کے ساتھ ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ صدر پاکستان ہمارے تیار کیے ہوئے کیرج میں بیٹھے ہیں تو ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔

    میڈل میکرمحمد اسحاق نے کہا کہ 23 مارچ کے لیے شیلڈ بنا کر یوم پاکستان کا حصہ بن کر ہمیں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے، ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھوں کا بنا ہوا کام ٹی وی پر پوری دنیا دیکھ رہی ہے، پاکستان زندہ۔

  • یوم پاکستان  ، سبزہلالی پرچم کی تیاریاں عروج پر

    یوم پاکستان ، سبزہلالی پرچم کی تیاریاں عروج پر

    یوم پاکستان 23 مارچ کے موقع پر سبزہلالی پرچم کی تیاری جاری ہے، پرچم کو تیارکرنے میں پاکستان کے تمام صوبوں سے ماہرین اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    یوم پاکستان کےخصوصی موقع پرسبزہلالی پرچم کی تیاریاں عروج پر ہیں ، پاکستان کے پرچم کو تیارکرنے میں پاکستان کے تمام صوبوں سے ماہرین اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    23 مارچ کےلیےخصوصی پرچم تیار کرنے والے ٹیلر ماسٹر فضل غنی نے اپنے جذبات کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، یہ جھنڈا ہے تو ہم ہیں، یہ جھنڈا نہیں تو ہم بھی نہیں۔

    فضل غنی کا کہنا تھا کہ جب سبز حلالی پرچم بنانے کا دن آتا ہے تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے کیونکہ ہم اس دن کا پورا سال انتظار کرتے ہیں،فضل غنی، اس پرچم کی تیاری میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے حصہ لیتے ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہوا پرچم جب ہم گراؤنڈ میں لے کرجاتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے، آ رہے ہیں 23 مارچ کو پاکستان کا پرچم بلند کرنے کے لیے، پاکستان، زندہ آباد۔

  • ایوان صدر میں آج ہونے والی  یومِ پاکستان کی فوجی پریڈ منسوخ کردی گئی

    ایوان صدر میں آج ہونے والی یومِ پاکستان کی فوجی پریڈ منسوخ کردی گئی

    اسلام آباد : خراب موسمی حالات کے باعث آج ہونے والی یومِ پاکستان کی پریڈ منسوخ کردی گئی ، 23 مارچ کو بھی پریڈ موسم کی خرابی کے باعث موخر کی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان کی آج ہونے والی پریڈ منسوخ کردی گئی، پریڈ تئیس مارچ کو موسم کی خرابی کے باعث موخر کی گئی اور آج پچیس مارچ کو بھی پریڈ موسمی حالات کے باعث ایوان صدر میں نہیں ہوسکے گی۔

    خیال رہے ملک بھر میں یومِ پاکستان تئیس مارچ کو مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا چکا ہے۔

    مزید پڑھیں : ایوان صدر میں ہونے والی یوم پاکستان کی فوجی پریڈ ملتوی کردی گئی

    کفایت شعاری پالیسی کے تحت محدود پیمانے پر ایوان صدر میں پریڈ ہونا تھی، جو اب خراب موسم کے باعث منسوخ کردی گئی ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک فوج ملک کے مشکل وقت میں پوری قوم کے ساتھ کھڑی ہے، ملک کی ترقی میں پاک فوج اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔

  • پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    جب سے پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے، ہمارے دانشور پاکستانی تہذیب اور اس کے عناصرِ ترکیبی کی تشخیص میں مصروف ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا پاکستانی تہذیب نام کی کوئی شے ہے بھی یا ہم نے فقط اپنی خواہش پر حقیقت کا گمان کر لیا ہے اور اب ایک بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر ریاست قومی ریاست ہوتی ہے اور ہر قومی ریاست کی اپنی انفرادی تہذیب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہیے۔

    لیکن پاکستانی تہذیب پر غور کرتے وقت ہمیں بعض امور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔ مثلاً جرمن قوم ان دنوں دو آزاد ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی حال کوریا اور ویت نام کا ہے۔ مگر جب ہم جرمنی اور کوریا یا ویت نام کی قومی تہذیب سے بحث کریں گے تو ہمیں مشرقی اور مغربی جرمنی، جنوبی اور شمالی کوریا اور جنوبی اور شمالی ویت نام کو ایک تہذیبی یا قومی وحدت ماننا پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں ہیں جو 14 اگست 1947ء کو تھیں۔ مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔

    تیسری بات یہ ہے کہ بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اطالوی قوم اور فرانس میں فرانسیسی قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں۔ جیسے کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔ چیکو سلوواکیہ میں چیک اور سلاف، عراق میں عرب اور کُرد، سویت یونین میں روسی، اُزبک، تاجک وغیرہ۔ جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہوتی ہے وہاں ریاستی تہذیب اور قومی تہذیب ایک ہی حقیقت کے دو نام ہوتے ہیں، لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوں وہاں ریاستی تہذیب کی تشکیل و تعمیر کا انحصار مختلف قوموں کے طرز عمل، طرز فکر اور طرز احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔

    اگر اتفاق اور رفاقت کی قوتوں کو فروغ ہو تو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی تہذیب تشکیل پاتی ہے اور اگر نفاق اور دشمنی کی قوتوں کا زور بڑھے، مختلف قومیں صنعت و حرفت میں، زراعت و تجارت میں، علوم و فنون میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے ایک دوسرے پر غلبہ پانے یا ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی کوشش کریں، یا ایک دوسرے سے نفرت کریں، اگر ملک میں باہمی اعتماد کے بجائے شک و شبہ اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو جائے تو مختلف تہذیبی اکائیوں کی سطح اونچی نہیں ہوسکتی اور نہ ان کے ملاپ سے کوئی ریاستی تہذیب ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔

    تہذیب کی تعریف
    کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات اور اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسوں، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔

    انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے ’’کلچر‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ہیں، ’’زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی، کھیتی باڑی کرنا۔‘‘

    اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا، چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی ، ’’آراستن پیراستن، پاک و درست کردن و اصللاح نمودن‘‘ ہیں۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور پر شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا مہذب یا تہذیب یافتہ ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ شخصِ مذکور کی بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کا طریقہ ہمارے روایتی معیار کے مطابق ہے۔ وہ ہمارے آدابِ مجلس کو بڑی خوبی سے ادا کرتا ہے اور شعر و شاعری یا فنونِ لطیفہ کا ستھرا ذوق رکھتا ہے۔

    تہذیب کا یہ مفہوم دراصل ایران اور ہندوستان کے امراء و عمائدین کے طرز زندگی کا پرتو ہے۔ یہ لوگ تہذیب کے تخلیقی عمل میں خود شریک نہیں ہوتے تھے اور نہ تخلیقی عمل اور تہذیب میں جو رشتہ ہے، اس کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے۔ وہ تہذیب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا تو جانتے تھے، لیکن فقط تماشائی بن کر، ادا کار کی حیثیت سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب کا تخلیقی کردار ان کی نظروں سے اوجھل رہا اور وہ آدابِ مجلس کی پابندی ہی کو تہذیب سمجھنے لگے۔ وہ جب’’تہذیبِ نفس‘‘ یا ’’تہذیب اخلاق‘‘ کا ذکر کرتے تھے تو اس سے ان کی مراد نفس یا اخلاق کی طہارت یا اصلاح ہوتی تھی۔

    تہذیب کی اصطلاح اردو تصنیفات میں ہمیں سب سے پہلے تذکرۂ گلشن ہند صفحہ 129 (1801ء) میں ملتی ہے۔ ’’جوان مؤدب و باشعور اور تہذیبِ اخلاق سے معمور ہیں۔‘‘ اسی زمانہ میں مولوی عنایت اللہ نے اخلاقِ جلالی کا ترجمہ جامعُ الاخلاق کے نام سے کیا۔ مولوی عنایت اللہ کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے خواصِ مخلوقات کو زیورِ تہذیبُ الاخلاق سے مہذب اور عوامِ موجودات کے تئیں ان کی بیعت سے ماَدب کیا۔‘‘ اسی نوع کی ایک اور تحریر کبیر الدین حیدر عرف محمد میر لکھنوی کی ہے۔ وہ ڈاکٹر جانسن کی کتاب تواریخِ راسلس کے ترجمہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’زبانِ اردو میں ترجمہ کیا کہ صاحبانِ فہم و فراست کو تہذیبِ اخلاق بخوبی ہو۔‘‘ (1839ء)

    ان مثالوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انیسوی صدی کے وسط تک ہمارے صاحبانِ علم و فراست کے ذہنوں میں تہذیب کا وہی پرانا تصور تھا جو فارسی زبان میں رائج تھا۔

    سر سید احمد خاں غالباً پہلے دانشور ہیں جنہوں نے تہذیب کا وہ مفہوم پیش کیا جو 19 ویں صدی میں مغرب میں رائج تھا۔ انہوں نے تہذیب کی جامع تعریف کی اور تہذیب کے عناصر و عوامل کا بھی جائزہ لیا۔ چنانچہ اپنے رسالے’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے سر سید پرچے کی پہلی اشاعت (1870ء) میں لکھتے ہیں کہ، ’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن (Civilisation) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے (سویلائزڈ) مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہووے اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں۔

    سویلائزیشن انگریزی لفظ ہے جس کا تہذیب ہم نے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعالِ ارادی، اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقۂ تمدن اور صرفِ اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکین و وقار اور قدر و منزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘
    (منقول از دبستانِ تاریخِ اردو مصنّفہ حامد حسن قادری 1966)

    سرسید نے کلچر اور سویلائزیشن کو خلط ملط کردیا ہے لیکن اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ خود بیشتر دانیانِ مغرب کے ذہنوں میں اس وقت تک کلچر اور سویلائزیشن کا تصور واضح نہیں ہوا تھا۔

    سرسید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ انہوں نے ہمیں تہذیب کے جدید مفہوم سے آشنا کیا۔ تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ ’’جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہشِ تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سویلائزیشن ہے۔‘‘ (مقالاتِ سر سیّد )

    سرسید احمد خاں نے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں اب سے سوسال پیشتر ایسی معقول باتیں کہی تھیں جو آج بھی سچی ہیں اور جن پر غور کرنے سے تہذیب کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    تہذیب کی خصوصیات
    تہذیب اور انسان لازم اور ملزوم حقیقتیں ہیں۔ یعنی انسان کے بغیر تہذیب کا وجود ممکن نہیں اور نہ تہذیب کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ تہذیب انسان کی نوعی انفرادیت ہے۔ یہی انفرادیت اس کو دوسرے جانوروں سے نوعی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے۔ گویا ان میں بعض ایسی نوعی خصوصیتیں موجود ہیں جو دوسرے جانوروں میں نہ ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں اور انہی خصوصیتوں کے باعث انسان تہذیبی تخلیق پر قادر ہوا ہے۔

    مثلاً انسان ریڑھ کی ہڈی کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں پر سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل آزاد رہتے ہیں۔ اس کے شانوں، کہنیوں اور کلائیوں کے جوڑوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ پورے ہاتھ کو جس طرح چاہے گھما پھرا سکتا ہے، ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں جو تین تین جوڑ ہیں ان کی وجہ سے انگلیاں بڑی آسانی سے مڑ جاتی ہیں اور انسان ان انگلیوں سے طرح طرح کے کام لے سکتا ہے مثلاً وزنی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور نئی نئی چیزیں پیدا کرنا۔ ان فطری اوزار کی بدولت ہی انسان ہر قسم کے آلات و اوزار بنانے پر قادر ہوا ہے۔ دوسرے جانور اپنے آلات و اوزار، پنجے، دانت، چونچ، کانٹے وغیرہ کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکتے۔ انسان اپنی تمام تخلیقات کو اپنے جسم سے الگ کر لیتا ہے۔ خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔ دوسری جسمانی خصوصیات جو انسان کو اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اس کی دو آنکھیں ہے جن کا فوکس ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو فاصلے کا تعین کرنے، آلات و اوزار بنانے، شکار کرنےاور چھلانگ لگانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    انسان واحد حیوان ہے جس میں گویائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی فطری یا خداداد صلاحیت نہیں ہے بلکہ انسان نے دماغ، زبان، دانت، تالو، حلق اور سانس کی مدد سے اور آوازوں کے آہنگ سے بامعنی الفاظ کا ایک وسیع نظام وضع کر لیا ہے۔

    زبان انسان کی سب سے عظیم الشّان سماجی تخلیق ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان اپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور چیزوں کا رشتہ زمان و مکان سے جوڑتا ہے یعنی وہ دوسروں سے ماضی، حال، مستقبل اور دور و نزدیک کے بارے میں گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اس طرح آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب کا نہایت بیش بہا قیمت اثاثہ چھوڑ جاتا ہے۔

    انسان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور حقیقی معنی میں سماجی حیوان بھی نہیں ہے۔ بھیڑوں کے گلّے، ہرنوں کی ڈاریں اور مرغابیوں کے جھنڈ بظاہر سماجی وحدت نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی سماجی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ اکائیاں ہیں۔ وہ نہ مل کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور نہ ان کی زندگی کا مدار ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے طبعی اوصاف یہی ہیں۔

    اسی طرح جانور کسی چیز یا واقعے کو کوئی مخصوص معنی نہیں دے سکتے۔ یعنی وہ علامتوں کی تخلیق سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان اشیاء اور واقعات کو نئے نئے معنی دیتا رہتا ہے۔ مثلاً جانور کے نزدیک چشمے کے پانی اور چاہِ زم زم کے پانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ کروڑوں انسانوں کے نزدیک آبِ زَم زَم نہایت مقدس پانی ہے۔ یہی حال عید، بقرعید، شبِ برأت، محرّم اور دوسرے تاریخی دنوں کا ہے کہ انسان کے لیے ان کی ایک خاص اہمیت ہے جب کہ جانوروں کے لیے سب دن یکساں ہوتے ہیں۔ جانور آپس میں خاندانی رشتے بھی قائم نہیں کرسکتے۔ ان میں دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، بھائی بہن کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ والدین اور ا ولاد کا رشتہ بھی بچّوں کے بڑے ہوجانےکے بعد بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔

    جانوروں کے جنسی تعلقات کی نوعیت بھی انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جانور بھی جوڑا نبھاتے ہیں مگر ان میں جوڑا کھانے اور بچّے پیدا کرنے کا مخصوص موسم ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح وہ ہر موسم میں جنسی تعلقات قائم کرنے یا نسلی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کا جنسی عمل کسی سماجی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ اس عمل میں وقت اور جگہ کی تبدیلی سے کوئی فرق آتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کے جنسی ضابطے برابر بدلتے رہتے ہیں۔

    انسان کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں دیوی، دیوتا، بھوت پریت، جن، شیطان، جنت، دوزخ، جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ کا بھی رواج نہیں ہے۔ اسی طرح جانور نہ تو خودکشی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں موت کا شعور ہوتا ہے۔

    یہ انسان کی خالص نوعی خصوصیات ہیں جو دوسرے کسی جانور میں موجود نہیں ہیں اور نہ وہ تربیت سے اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔

    انسان کے نوعی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے سر سیّد احمد خاں لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے اعضا اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اس کو یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کرسکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں سے لے سکتا ہے جو اس کے بڑے مطیع کار پرداز ہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آرام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مرتبہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے۔‘‘ (مقالات سرسید، لاہور 1963ء)

    تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ طبعی ماحول کے تابع تھا۔ وہ نہ تو اس ماحول پر قابو پانے کی قوت رکھتا تھا اور نہ اس میں اپنے ماحول کو بدلنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تھی لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے مجبور ہو کر اپنے طبعی ماحول کو بدلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ چنانچہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان کی پوری تاریخ طبعی ماحول یا قدرت کی تسخیر کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ چنانچہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنے طبعی ماحول کو اب اتنا بدل دیا ہے کہ اگر دو ہزار سال پہلے کا کوئی باشندہ دوبارہ زندہ ہو کر آئے تو وہ اپنی جائے پیدائش کو بھی پہچان نہیں سکے گا۔

    پتھر کی تہذیب ہو، یا کانسی، لوہے کی، بہرحال انسانوں ہی کی جسمانی اور ذہنی محنتوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ انہی کے ذہنی اور جسمانی قویٰ کے حرکت میں آنے سے وجود میں آتی ہے، لہٰذا کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی سے کس حد تک کام لیا ہے۔

    اگر کوئی معاشرہ روحِ عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، اگر نئے تجربوں، تحقیق اور جستجو کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اس کی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل ان کے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجامِ کار فنا ہو گئیں۔

    (نام وَر ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سیّد سبط حسن کے فکری و علمی مضمون سے اقتباسات)

  • امریکی کانگریس کی تاریخ میں  پہلی  بار 23 مارچ کو یوم پاکستان  منانے کی قرارداد پیش

    امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی بار 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کی قرارداد پیش

    واشنگٹن :امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی بار 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کی قرارداد پیش کی گئی، رکن کانگریس جمال بومین نے قرارداد ایوان میں پیش کی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ایوان نمایندگان میں پاکستان پر تاریخی قرارداد متعارف کرادی گئی، امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی بار 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کی قرارداد پیش کی گئی۔

    قراد اد نیویارک سے منتخب امریکی نمایندے گان رکن کانگریس جمال بومین نےایوان میں پیش کی ، جس میں جمال باومین نے 23 مارچ کو یوم پاکستان قرار دینے کی درخواست کی۔

    قرارداد میں کہا گیا کہ امریکہ کے لیے یہ مناسب اور مطلوب ہے کہ وہ ان لوگوں کو تسلیم کرے اور انہیں خراج تحسین پیش کرے جو نسلی تفاخر کو فروغ دیتے ہیں اور ثقافتی تنوع کے پروفائل کو بڑھاتے ہیں جس سے ریاستہائے متحدہ کی کمیونٹیز کے تانے بانے کو تقویت ملتی ہے

    امریکی رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی ملک کی تعمیر ترقی میں اہم کردار ادا کرر ہے ہیں۔

    بعد ازاں امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کانگریس رکن جمال بومین کا اس اقدام پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بھی مدد ملے گی۔

  • صدر مملکت اور وزیراعظم کا یوم پاکستان پر اپنے بانیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش

    صدر مملکت اور وزیراعظم کا یوم پاکستان پر اپنے بانیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش

    اسلام آباد : صدر مملکت عار ف علوی اور وزیراعظم شہباز شریف نے یوم پاکستان پر اپنے بانیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان آج ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے ، صدر ڈاکٹرعارف علوی نے یوم پاکستان کے موقع پرپیغام میں کہا کہ یوم پاکستان پر پوری پاکستانی قوم کومبارکبادپیش کرتاہوں اور بانیاں پاکستان کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

    عارف علوی کا کہنا تھا کہ آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کاجائزہ لینے کی بھی یاد دہانی کراتاہے، چیلنجز کے باوجود ہم نے مسلسل محنت اورقابلیت سےشاندار کامیابیاں حاصل کیں۔

    صدر مملکت نے کہا کہ ہم نے ریاستی ادارے قائم کئے،اپنے دفاع کو ناقابل تسخیربنایا، جوہری صلاحیت حاصل کی،دہشت گردی اور کورونا پر قابو پایا اور قدرتی آفات کے دوران قربانی اور تعاون کےجذبے کا مظاہرہ کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون کی حکمرانی ،جمہوریت کی مضبوطی،معاشرے میں عدم مساوات کو کم کرنے کیلئے، دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے،سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے مزید کام کرنا ہوگا۔

    عارف علوی نے مزید کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ ہم پاکستان کو درپیش چیلنجزپرقابوپانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں ، اتحاد،ایمان اور نظم وضبط کے ساتھ پاکستان کو مضبوط اور خوشحال ملک بناسکتے ہیں۔

    دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے یوم پاکستان پرپیغام میں کہا کہ 23مارچ ہماری قومی تاریخ کاعہدسازدن ہےجوہمیں ماضی کی یاددلاتاہے، آج کادن موجودہ حالات پرغوروفکر کی دعوت اور خوشحال مستقبل کی تعمیر کی تحریک دیتاہے۔

    شہبازشریف کا کہنا تھا کہ 23مارچ 1940کوبرصغیرکےمسلمانوں نےایک علیحدہ وطن کےقیام کی قراردادمنظورکی تھی ، پاکستان کاقیام یقیناً 20ویں صدی کا ایک معجزہ ہے۔

    وزیراعظم نے بتایا کہ ہمارے پچھلے75سالوں کے سفر نے ہمیں جنگوں سے نبردآزماہوتےدیکھا، قدرتی آفات سمیت بہت سے بحرانوں سے لڑتے دیکھا ہے، کئی مواقع ایسے آئےجب ہم نےمشکلات پرقابوپالیا اورکئی سنگ میل حاصل کئے ، پاکستان نےانسانیت کودرپیش مسائل کےحل اورعالمی امن کیلئےذمہ دار قوم کا کردار ادا کیا۔

    انھوں نے یوم پاکستان پر اپنے بانیوں کی قربانیوں کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہمیں ان چیلنجز کونظراندازنہیں کرنا چاہیئے جو ہمارے سامنے ہیں، آج ہمیں سیاسی ومعاشی عدم استحکام کا سامنا ہے۔

    شہبازشریف نے بتایا کہ پاکستان سیاسی اور آئینی جدوجہد کے نتیجےمیں معرض وجود میں آیا تھا، پاکستان کامستقبل آئین پراس کی روح کے مطابق عمل کرنے میں مضمر ہے، پاکستان کا مقدر عظیم کامیابیاں اوربلندیاں حاصل کرنا ہے۔

    وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد اوراپنے آپ کو قومی مقصد سے آراستہ کرنا ہوگا، ہمیں اپنے اسلاف کی میراث کے مطابق جدوجہد کرنے کاعزم کرناہوگا، آیئے آج کے دن ہم خود احتسابی کریں تاکہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کاازالہ کرسکیں۔

  • یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

    بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

    آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

    نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

    آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

    عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

    آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

    عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

    آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

    نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

    آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

    آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

    مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

    رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

    آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

    حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

    آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
    عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

    آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

    ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

    آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

    حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

    آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

    عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

    آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

    آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

    ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

    آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

    حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

    آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

    نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

    آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
    اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

    ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

    آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

    (بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)

  • پی آئی اے کا یوم پاکستان پر عام تعطیل کا اعلان

    پی آئی اے کا یوم پاکستان پر عام تعطیل کا اعلان

    کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) نے یوم پاکستان پر عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

    پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی سرکلر کے مطابق 23 مارچ کو ہیڈ آفس سمیت تمام دفاتربند رہیں گے، لیکن ایئرپورٹس سمیت مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے ملازمین کام جاری رکھیں گے۔

    یاد رہے کہ ’یوم پاکستان‘ پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    قرارداد پاکستان کی بنیاد پر ہی مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کیلئے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

    اسی قرار داد کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

  • تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور قیامِ پاکستان کو 75 سال بیت چکے ہیں۔ برصغیر کے عوام نے انگریزوں‌ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے شمار قربانیاں‌ دیں‌ اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر مسلمانوں نے آزاد وطن کی جدوجہد کی۔ اس میں‌ خواتین بھی شامل تھیں جن کے تذکرے کے بغیر آزادی کی جدوجہد اور قیامِ پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان خواتین میں‌ مسلمان اکابرین اور زعما کے گھرانوں اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل تھیں جنھوں نے جلسے جلوس اور احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے علاوہ گرفتاریاں اور جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے بعد ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

  • جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    ایک بار لاہور میں‌ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنے وقت کی نہایت عالم فاضل شخصیات اکٹھی ہوئیں۔ ان میں سیاست سے ادب تک اپنے نظریات اور فن و تخلیق کی بدولت ہندوستان بھر میں مقام و مرتبہ پانے والے شامل تھے۔ اس موقع پر ایک جذباتی منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کو جیّد صحافی، شاعر اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک نے اپنی خود نوشت سوانح "سرگزشت” میں یوں بیان کیا ہے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔

    آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدّین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلّمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے بھی نہیں اتری، محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سَر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدّین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔”

    یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے لیے اس زمانے کے اکابرین کس قدر پرخلوص اور دردمندانہ طریقے سے اجتماعات اور چندہ اکٹھا کرنے کی مہمّات میں‌ شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اختلافِ رائے، کسی راہ نما یا کارکن کے اقدام اور فیصلے پر ناراضی اور مؤقف سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل ان کے از حد خلوص اور بے نہایت دردمندی کا مظہر تھا۔ یہ ذاتی رنجش، بغض اور انفرادی فائدے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے ہرگز نہ ہوتا تھا۔