Tag: یوم پاکستان

  • متحدہ اپوزیشن کا یوم پاکستان کے موقع پر ‘قوت اخوت عوام چارٹر’ کا اعلامیہ جاری

    متحدہ اپوزیشن کا یوم پاکستان کے موقع پر ‘قوت اخوت عوام چارٹر’ کا اعلامیہ جاری

    اسلام آباد : متحدہ اپوزیشن نے یوم پاکستان کے موقع پر ‘قوت اخوت عوام چارٹر’ جاری کردیا، جس میں عہد کیا ہے کہ عدم اعتماد کامیاب بنا کر ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی جانب سے 23 مارچ کے موقع پر قوت اخوت عوام چارٹر کا اعلامیہ کردیا ، جس میں کہا ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں پاکستان کے آئین پریقین رکھتی ہیں، پاکستان کے عوام سیاسی،معاشی ،سماجی حقوق کا ضامن ہیں۔

    اپوزیشن عوام سے عہد کرتی ہیں عدم اعتمادکامیاب بناکرایساپاکستان بنائیں گے جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو، جہاں انتظامی ادارےمنتخب پارلیمنٹ کےتابع ہوں ، عدلیہ آزاد ہو اور بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کر سکے۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ ایسا پاکستان جو جہاں میڈیا کی آزادی اظہار رائے کو تحفظ حق حاصل ہو، تمام منتخب ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں ، عوام کو اختیار ہو آزادانہ حق رائے دہی سے منتخب اور رخصت کر سکیں۔

    متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آج حکومت کی ناکام پالیسیوں،کارکردگی سےغریب متوسط طبقہ متاثر ہے، عوام آج مہنگائی ، بیروزگاری ،سماجی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔

    اعلامیے میں کہا ہے کہ 2018الیکشن میں بدترین دھاندلی کےذریعےمصنوعی نااہل قیادت کومسلط کیاگیا، موجودہ بحران سےنجات کیلئے ضروری ہے، نااہل حکومت کو فی الفور رخصت کیا جائے ، ضروری ہے عدم اعتمادکی کامیابی کے بعد شفاف الیکشن سےنمائندہ حکومت آئے۔

    متحدہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ آج کے تاریخی دن پر متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں عوام سے عہد کرتی ہیں کہ حکومت میں آکرہنگامی اقدامات کرے گی ،اعلامیہ

    اعلامیے کے مطابق غیر جمہوری عزائم کی سوچ نے ریاست کو73سال سے مستحکم نہیں ہونے دیا، غیر جمہوری عزائم سے قومی صلاحیت کی مربوط طاقت کو کمزور کیا، اس کھیل میں ہم سے آدھا ملک بھی جدا ہو گیا اور اب وقت آگیا ریاستی اسٹیک ہولڈرز آئین کی بالادستی قبول کریں۔

    متحدہ اپوزیشن نے کہا کہ عہد کرتے ہیں میرٹ ، شفافیت ،عوامی خدمت کوفروغ دیا جائے گا ، جمہوری اداروں کو قومی، صوبائی اور مقامی سطح پرمضبوط کریں گے اور آزادانہ ،منصفانہ انتخابات کیلئےاتفاق رائےسےاصلاحات کونافذ کیا جائے گا۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ آئین، 18ویں ترمیم اور بنیادی انسانی، سیاسی ،معاشی حقوق کادفاع کریں گے، ملک میں برداشت ،بھائی چارہ کو فروغ اورانتہا پسندی کاقلع قمع کریں گے ، سیاست سے ہر قسم کی غیر جمہوری مداخلت ختم کریں گے۔

    متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ آزادی اظہار اور میڈیا پرعائد پابندیاں ختم کی جائیں گی ، کالے میڈیا قوانین ختم اور غیر جمہوری مداخلت کا نظام بند کرائیں گی، 18ویں ترمیم کو مستحکم کرکے صوبائی خود مختاری کو مضبوط کریں گے۔

    اعلامیے کے مطابق صوبوں سے بااختیارمقامی حکومتوں کواختیارات منتقلی کو یقینی بنائیں گی، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گی، اقتصادی، سلامتی ،خارجہ پالیسیوں کوجامع لائحہ عمل میں ڈھالیں گے۔

    متحدہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ غریب، مزدور،کسان اوردیگرکیلئےفوری اور جامع ریلیف پالیسیاں وضع کی جائی گی ، سیکیورٹی چیلنجز کے تحت سیکیورٹی اداروں کو پروفیشنل بنیادپرمضبوط کریں گے ، اندرونی سلامتی پالیسی پرمؤثر عملدرآمد سےدہشتگردی کا قلع قمع کریں گے اور احتساب کا مؤثر،شفاف قانون ،غیر جانبدارانہ ادارہ قائم کریں گے، جوملک سےمالی کرپشن کاسدباب کرے۔

  • یوم پاکستان ، گورنر سندھ  اور وزیر اعلیٰ  سندھ کی مزار قائد پر حاضری

    یوم پاکستان ، گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کی مزار قائد پر حاضری

    کراچی : یوم پاکستان کے موقع پر گورنر سندھ عمران اسماعیل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مزار قائد پرحاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پر وقارتقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مزارقائد پر حاضری دی ، پھول چڑھائے۔

    اس موقع پر گورنرسندھ اوروزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کیے گئے۔

    اس موقع پر گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اپنے پیغام میں کہا آج کا دن بڑے جوش و جذبے سےمنایا جاتا، او آئی سی کے مہمان بھی پریڈ میں شریک ہیں، آج کی پریڈ کو40 ممالک میں دکھایا جارہا، 15 سال کے بعد او آئی سی کے جیسا ایونٹ ہورہا ہے۔

    عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ جوراستہ قائد نےدکھایا اس پر چلنے کی کوشش کررہےہیں، ہم آج کے دن کشمیری بھائیوں کو نہیں بھولیں گے، کشمیر میں غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا اللہ توفیق دے کہ پیارے وطن کا دفاع کرسکیں، ملک کافی مشکلات سے گزررہا ہے۔

    مراد علی شاہ نے سندھ حکومت کی طرف سے او آئی سی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہمیں آج کشمیری بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، ہمارے دل کشمیری بھائیوں کے ساتھ ڈھڑکتے ہیں۔

    خیال رہے آج یوم پاکستان ملی جوش اور جزبے سے منایا جار ہا ہے، دن کا آغاز وطن عزیز کی سلامتی کیلئے خصوصی دعاوں سے ہواجبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام اباد کا کیولری گرائونڈ اکتیس توپوں کی سلامی سے گونج اٹھا۔

  • یوم پاکستان پر مسلح افواج کی شاندار پریڈ ، ملکی دفاعی اور فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ

    یوم پاکستان پر مسلح افواج کی شاندار پریڈ ، ملکی دفاعی اور فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ

    اسلام آباد : وفاقی دارلحکومت میں یوم پاکستان کی پروقار مرکزی تقریب جاری ہے ، جس میں مسلح افواج نے ملکی دفاعی اور فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھرمیں آج یوم پاکستان بھرپور جوش وجذبےسےمنایا جارہا ہے ، اسلام آباد کے شکر پڑیاں پریڈ گراؤنڈ یوم پاکستان کی مرکزی تقریب جاری ہے۔

    تقریب میں صدرمملکت عارف علوی روایتی بگھی میں آئیں، صدر پاکستان سمیت مہمان خصوصی کی آمد کے بعد گراؤنڈ میں قومی ترانا پڑھا گیا اور کلام پاک کی تلاوت کی گئی۔

    بعدازاں ڈاکٹرعارف علوی کو مسلح افواج کے دستوں نے سلامی پیش کی اور صدرنے مسلح افواج کی پریڈ کا معائنہ کیا۔

    صدر پاکستان کو سلامی پیش کیے جانے کے بعد پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد کی سربراہی میں جنگی طیاروں نے صدر مملکت کو سلامی پیش کی۔

    یوم پاکستان کے موقع پر خصوصی پریڈ کی تقریب میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وفاقی وزرا اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ سمیت او آئی سی تنظیم کے وزرائے خارجہ بھی موجود ہیں۔

    فوجی دستوں نے پریڈ کمانڈر کی قیادت میں مارچ پاسٹ کیا جبکہ رینجرز، مجاہد فورس، پولیس بلوچستان لیویز اور کوسٹ گارڈ کے دستے نے پہلی بار پریڈ میں شرکت کی۔

    پاکستان کی باون فیصد خواتین آبادی کی نمائندگی کرنےوالی تینوں مسلح افواج کی خواتین نےسلامی پیش کی، تو شرکا نے دل کھول کر داد دی۔

    پاکستان کے دوست ممالک ، بحرین، ازبکستان، آزربائیجان،ترک اورسعودی عرب کے فوجی دستوں نے سلامی پیش کرکے اپنی مضبوط دوستی کا ثبوت پیش کی۔

    دشمن کو نیست ونابود کرنے کے لیے انتہائی تباہ کن ہتھیار پریڈ کا حصہ ہیں جبکہ الخالد اور الضرار ٹینک نے دشمن پر ہیبت طاری کی، اس موقع پر فتح ون راکٹ سسٹم ، شاہین ، غوری ، نصر سمیت جدید جدید آلات حرب کی نمائش کی گئی۔

    اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یوم پاکستان کے دن کا آغاز 31 توپوں جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں21،21 توپوں کی سلامی سے ہوا اور فصا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی۔

    اس موقع پر ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔

  • قراردادِ پاکستان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صدارتی تقریر

    قراردادِ پاکستان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صدارتی تقریر

    لاہور میں 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد نے مسلمانانِ ہند کو جو حوصلہ دیا اور ان میں جو جوش و ولولہ پیدا کیا، اس نے منزل کی سمت کا تعین کر دیا تھا جس کے بعد 1946ء میں منعقدہ انتخابات نے منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسی سال 9 اپریل کو دہلی کنونشن منعقد ہوا جسے لاہور کے اجلاس کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے، اس نے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہم ہر سال 23 تاریخ کو یومِ پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ اسی موقع پر وہ قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے صرف سات سال بعد ہی ہندوستان کے طول و عرض میں بسے مسلمان پاک سرزمین کی آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے۔

    برصغیر کی تقسیم ایک غیرمعمولی واقعہ اور تحریکِ پاکستان ایک عظیم الشّان تحریک تھی جس کے پس منظر میں جائیں تو آغاز محمد بن قاسم سے کیا جاسکتا ہے۔ سندھ کے راستے برصغیر میں مسلمانوں‌ کی آمد اور مختلف خاندانوں کے بعد مغلیہ سلطنت کا قیام اور بعد میں‌ انگریزوں کا قبضہ ایک طویل باب ہے جس میں ہندو لیڈروں کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح وہ مسلمانوں کو اپنا محکوم بنا سکیں اور ہندوستان پر راج کریں۔

    ہندوستان کی تاریخ کا ادنیٰ طالبِ‌ علم بھی جانتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہوئی اور انگریزوں کا ملک پر مکمل قبضہ ہو گیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی اور بادشاہ کو گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔

    اس کے بعد مسلمان راہ نماؤں نے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی اور جدید تعلیم کی طرف توجہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہندوؤں کی سازشوں سے آگاہ کرتے رہے۔ انہی اکابرین نے انڈین نیشنل کانگریس کے ارادوں سے بھی ہمیں باخبر رکھا اور وہ وقت آیا جب 1906ء میں نواب وقارُ الملک کی صدارت میں ڈھاکہ میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا اور نواب آف ڈھاکہ نواب سلیم اﷲ خان کی تحریک پر مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ قائم ہوئی۔ بعد میں جب قائداعظم محمد علی جناح نے اس کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی تو علیحدہ وطن کے حصول کی کوششیں تیز تر ہوگئیں۔

    علامہ اقبال نے 1930 ء میں الٰہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے آزاد وطن کا تصور پیش کیا۔ ہندوؤں اور کانگریس کا رویہ شروع ہی سے نامناسب تھا اور وہ مسلمانوں کو قوم کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی طرح‌ انگریز بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں کررہے تھے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔

    آخر کار مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے کی تو شیر بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کرلی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہی قرارداد اس جدوجہد اور تقسیم کے بعد قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد نے اسلامیانِ ہند کو تصورات سے نکال کر ان کی منزل کی صورت گری کر دی تھی۔ قائدِ اعظم نے اجلاس میں کہا:

    ’’ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفۂ مذہب رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے اور دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے۔ وہ دو الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔ ان کا تصور حیات اور طرزِ حیات الگ الگ ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تاریخوں سے وجدان اور ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کا رزمیہ ادب الگ ہے۔ ان کے مشاہیر الگ الگ ہیں اور ان کا تاریخی سرمایہ جدا جدا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے ہیرو دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں اور اسی طرح ان کی فتح اور شکست ایک دوسرے کے لیے مختلف حیثیت رکھتی ہے۔

    دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں جمع کر دینا جہاں ایک قوم عددی لحاظ سے اقلیت ہو اور دوسری اکثریت ہو، نہ صرف باہمی مناقشت کو بڑھائے گا بلکہ بالآخر اس نظام کی بربادی کا باعث ہو گا جو ایسے ملک کی حکومت کے لیے وضع کیا جائے گا۔ مسلمان ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں اور انہیں ان کا الگ وطن، ان کا اپنا علاقہ، اور اپنی حکومت ملنی چاہیے۔‘‘

    14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہندوستان کی آزادی کا وہ سورج طلوع ہوا جس نے انھیں پیارا وطن پاکستان دیا۔ ہم اسی لیے قراردادِ پاکستان کا جشن ہر سال مناتے ہیں اور رہتی دنیا تک ہر سال اس موقع پر اپنے راہ نماؤں کی سیاسی بصیرت پر انھیں‌ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں‌ گے۔

    آج ہم کسی کے غلام نہیں بلکہ آزاد قوم ہیں اور پاکستان میں ہر فرد اپنی مرضی اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کررہا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کے اصولوں پر عمل کر کے ہم نے اپنی منزل حاصل کی تھی اور آج ہمارا فرض ہے کہ اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے کام کریں اور آپس میں پیار محبت کی فضا کو پروان چڑھائیں، ملک میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

  • یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ کی تیاریاں زوروشورسے جاری

    یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ کی تیاریاں زوروشورسے جاری

    اسلام آباد : یوم پاکستان شایان شان طریقے سے منانے کے لیے تیاریاں جاری ہے ، تینوں مسلح افواج، سیکیورٹی اداروں کے دستوں کی ریہرسل ، جدیدترین جے ٹین جنگی طیاروں کا فلائی پاسٹ پریڈ کا حصہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ کی تیاریاں زوروشورسے جاری ہے ، 82 واں یوم پاکستان شایان شان طریقے سے منایا جائے گا۔

    تینوں مسلح افواج، سیکیورٹی اداروں کے دستے ، آرمرڈکور ،آرٹلری،ایئر ڈیفنس انجینئرز کے دستےپریڈ کا حصہ ہوں گے۔

    پریڈکی خاص بات جدیدترین جےٹین جنگی طیاروں کا فلائی پاسٹ ہے ، جے ٹین جنگی طیارےحال ہی میں پاک فضائیہ کے بیڑے کا حصہ بنے ہیں۔

    یوم پاکستان پریڈ میں میں ایوی ایشن فلائی پاسٹ بھی ہو گا اور ایس ایس جی کے کمانڈوزفری فال کا مظاہرہ پیش کریں گے جبکہ چاروں صوبوں،آزادکشمیر، گلگت بلتستان کے ثقافتی فلوٹس بھی تقریب کاحصہ ہوں گے۔

    او آئی سی اجلاس کے شرکابھی یوم پاکستان پریڈمیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے ، پریڈ میں وزرائےخارجہ سےمتعلق او آئی سی فلوٹ خصوصی طور پر شامل ہے جبکہ دوست ممالک کے دستے بھی پریڈ کا حصہ ہوں گے۔

    اس سال یوم پاکستان کا تھیم "شاد رے پاکستان” ہے ، یہ دعائیہ تھیم قومی ترانے کا حصہ "مرکز یقین شاد باد” سے لیا گیا ہے ، آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے مسحور کن ملی نغمہ بھی جاری کیا ہے۔

  • ‘شاد تھا، شاد ہے اور شاد رہے یہ پاکستان’ یوم پاکستان پر آئی ایس پی آر کا ملی نغمہ جاری

    ‘شاد تھا، شاد ہے اور شاد رہے یہ پاکستان’ یوم پاکستان پر آئی ایس پی آر کا ملی نغمہ جاری

    راولپنڈی : آئی ایس پی آر نے یوم پاکستان کی مناسبت سے نیا ملی نغمہ ‘شاد تھا، شاد ہے اور شاد رہے یہ پاکستان ‘ جاری کر دیا، یہ گیت اس ارضِ پاک کے نام ایک دعا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر 23مارچ2022 کے حوالے سے نیا ملی نغمہ جاری کردیا ، جس کا عنوان ‘شاد تھا، شاد ہے اور شاد رہے یہ پاکستان’ ہے۔

    نفرد انداز میں تیار کیا جانے والا ملی نغمہ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں جاری کیا گیا ، یہ گیت اس ارضِ پاک کے نام ایک دعا ہے ، یہ دعا جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن کر اعلان کر رہا ہے۔

    پاکستان کے معروف کمپوزر شجاع حیدر نے گیت کو لکھا، خوبصورت دھن بھی ترتیب دی جبکہ یشل شاہداورشجاع حیدرکی بہترین آوازوں نے گیت کو اور بھی خوبصورت بنا دیا ہے۔

    یہ گیت شاندار ماضی، پرعزم حال،خوشحال مستقبل جیسی نیک تمناؤں کا مظہر ہے، جس کے بول ہے۔

    چاند اورستارہ سدا یوں دمکتا رہے
    نام یہ افق پہ تیرایوں درخشاں رہے
    جان ودل اس پر قربان شاد رہے یہ پاکستان
    سب سےاونچا اس کا نام شاد رہے یہ پاکستان
    تیری میری ہےاک پہچان شاد رہے یہ پاکستان
    گونج رہی یہ آوازشادرہے یہ پاکستان

    اس سے قبل آئی ایس پی آر نے یومِ پاکستان کی مناسبت سے ‘شاد رہے پاکستان’ کے عنوان سے پرومو جاری کیا تھا، یوم پاکستان کی وطن عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی کے باعث خصوصی اہمیت ہے، 23مارچ کو 82واں یوم پاکستان بھرپور انداز میں منایا جائے گا۔

  • تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ بنگال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے عظیم راہ نما تھے جنھوں نے آزادی کی تحریک میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔

    وطنِ عزیز میں جشنَ‌ آزادی کی تیّاریاں عروج پر ہیں اور زندہ قوموں کی طرح اس موقع پر ہم اپنے ان عظیم راہ نماؤں کو یاد کررہے ہیں جنھوں نے آزادی کے راستے میں جان و مال اور ہر قسم کی قربانی دی۔ ابو القاسم فضل الحق جو تاریخ میں اے۔ کے۔ فضل الحق کے نام سے بھی معروف ہیں، 26 اکتوبر 1873ء کو متحدہ بنگال میں پیدا ہوئے۔

    پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کلکتہ یونی ورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کی ڈگری لی۔ انھوں نے پہلے 1917ء میں بحیثیت جوائنٹ سیکریٹری کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں نظریاتی اختلافات کے باعث کانگریس سے استعفا دے دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جو مسلمانوں کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔

    مولوی فضل الحق 1935ء میں کلکتہ کے مئیر رہے، 1937ء سے 1943ء تک مغربی بنگال کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ انھیں سیاسی حکومتی امور کا خاصا تجربہ تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1954ء میں مشرقی بنگال کے وزیر اعلٰی بنے۔

    انھوں نے بنگال کے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ’’کراشک پرجا پارٹی‘‘ قائم کی، جو بعدازاں ایک سیاسی جماعت بن گئی۔

    قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد جب اس کی تنظیم نو کی تو مولوی فضل الحق اس سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے تاریخی قرارداد پیش کرنے کے موقع پر اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے انھیں شیرِ بنگال کا خطاب دیا گیا۔

    مولوی فضل الحق 27 اپریل 1962ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

    تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

  • تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔

    یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑ پانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ ٕ

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

    (غالب عرفان کے طویل مضمون سے اقتباسات)