Tag: یوم پیدائش

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • کیا واقعی لاکھوں سعودی شہری یکم رجب کو پیدا ہوئے؟

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10 فی صد سعودیوں کے برتھ سرٹیفکیٹ میں تاریخ پیدائش یکم رجب درج ہے۔

    لیکن کیا واقعی لاکھوں سعودی شہری یکم رجب کو پیدا ہوئے؟ عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 35 لاکھ سے زیادہ سعودی شہریوں (آبادی کا تقریباً دسواں حصہ) کا یوم پیدائش یکم رجب درج کیا گیا ہے۔

    دراصل ایسے شہری جنھیں اپنا تاریخ پیدائش معلوم نہیں تھا یا وہ شہری جن کے برتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنے تھے، ان کے ریکارڈ میں تاریخ پیدائش یکم رجب تحریر کر دی گئی تھی۔

    سول افیئرز ڈیپارٹمنٹ (الاحوال المدنیہ) کے مطابق زیادہ تر سعودی پیدائش کا سال یاد رکھتے ہیں، مہینہ اور دن نہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے محکمے نے ایسے شہریوں کی تاریخ پیدائش یکم رجب درج کر رکھی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق جب 60 سال سے زیادہ عرصہ قبل مملکت میں شناختی کارڈ لازمی ہو گئے تھے، تو ان میں سے بہت سے لوگ جو رجسٹر کرنے کے لیے آگے آئے تھے ان کو اپنی صحیح تاریخ پیدائش کا اندازہ نہیں تھا۔

    سعودیوں کی پرانی نسل نے دن اور مہینے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی سالگرہ کو اپنی پیدائش کے سال کے حساب سے نشان زد کیا، اور بہت کم لوگوں کو ان کی صحیح تاریخ پیدائش کا علم تھا۔

    ایوان شاہی نے احوال مدنیہ کی تجویز پر اس مسئلے کا حل یہ دیا تھا کہ ہر ایسے شہری کا جسے اپنی پیدائش کا دن اور مہینہ یاد نہ ہو اس کی تاریخ پیدائش یکم رجب تحریر کر دی جائے۔

    سعودی عرب میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی عام ہونے کے بعد انتظامی اور تکنیکی ترقی ہو چکی ہے، اب برتھ سرٹیفکیٹ پر پیدائش کے مہینے اور دن کے علاوہ گھنٹے اور منٹ تک کا ریکارڈ موجود ہے۔

  • یومِ‌ پیدائش: علّامہ اقبال کی زندگی اور افکار

    یومِ‌ پیدائش: علّامہ اقبال کی زندگی اور افکار

    علّامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام ملّی تشخص، دینی فکر اور فلسفۂ خودی سے آراستہ ہے۔ اسی بنیاد پر انھیں پیامبر شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں ہم حکیمُ الاّمت اور شاعرِ مشرق کے نام سے بھی پہچانتے ہیں۔

    اقبال کی وجہِ شہرت
    ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کے کلام نے برصغیر میں‌ انھیں ایک خاص پہچان دی۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں‌ کے خیرخواہ، نوجوانوں کے راہ نما اور مصوّرِ پاکستان مشہور ہوئے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور افکار کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کے لیے راہ نمائی کی اور راستہ بتایا۔

    مختصر سوانح
    9 نومبر 1877ء کو محمد اقبال نے شیخ نور محمد کے گھر میں آنکھ کھولی۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اقبال نے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور 1899 میں فلسفہ میں‌ ایم اے کیا جب کہ اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1905 میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور 1907 میں جرمنی کی جامعہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1908ء میں وہ واپس لاہور آئے اور وکالت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر کی حیثیت سے بھی مصروف ہوگئے۔ علامہ اقبال کو 1923 میں برطانوی حکومت کی جانب سے "سر” کا خطاب دیا گیا تھا۔

    فکرِ‌ اقبال کا محور
    اقبال زمانہ شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کرتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے بالخصوص نوجوانوں‌ کو علم و عمل کی ترغیب دی۔

    اقبال نے مسلمانوں کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف مائل کیا۔

    شاعری کا ابتدائی دور اور مقصد
    اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

    اقبال کی شاعری میں مقصدیت کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔

    درس و پیام
    ان کی نظموں میں حب الوطنی کی نمایاں تصویر نظر آتی ہے۔ یہ شاعری اس دور کے ہندوستان اور انگریز راج میں وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات میں مسلمانوں کے لیے ایک پکار تھی، بیداری کی لہر تھی۔ علّامہ اقبال کی وہ نظمیں جن میں ہمیں حب الوطنی اور امت مسلمہ کو دعوت عمل کا درس ملتا ہے ان میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانۂ ملّی، وطنیت، خطاب بہ نوجوا نانِ اسلام، ہلالِ عید، آفتاب، تصویرِ درد، ترانۂ ہندی شامل ہیں۔

    شاعرِ مشرق کے کلام میں‌ خودی کا فلسلفہ متاثر کن ہے، انھوں نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ بتایا ہے۔ شاہین کو انھوں نے شاعری میں خاص طور پر پیغام کا ذریعہ بنایا ہے اور کئی پرندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے خاص طور پر مسلمان نوجوانوں کو فکر و عمل پر آمادہ کیا ہے۔

    علّامہ اقبال کا کلام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے کلام کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔

    علّامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز شائع ہوئے۔

  • معین اختر کے یوم پیدائش پر گوگل کا خراج تحسین

    معین اختر کے یوم پیدائش پر گوگل کا خراج تحسین

    پاکستان کے مقبول ترین فنکار معین اختر کی 71 ویں سالگرہ کے موقع گوگل نے اپنے ڈوڈل سے انہیں شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

    چار دہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرنے والے ہر دل عزیز فن کار معین اختر کا آج 71 واں یوم پیدائش ہے۔

    کراچی میں 24 دسمبر 1950 کو آنکھ کھولنے والے معین اختر چند ماہ کے تھے جب ان کے والد محمد ابراہیم محبوب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے تقسیمِ ہند کے بعد مراد آباد سے ہجرت کر کے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی اور یہاں ان کا معاش ایک کاروبار سے جڑا ہوا تھا۔

    ڈراموں اور اسٹیج پر کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے ایک میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    16 برس کی عمر میں معین اختر نے اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے، اسٹیج کے ساتھ ریڈیو پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے بعد ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔

    70 کی دہائی میں معین اختر کو پاکستان بھر میں شناخت مل چکی تھی، ان کے مقبول ترین شوز میں‌ لوز ٹاک، ففٹی ففٹی، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسے کھیل شامل ہیں۔

    معین اختر کے فن کا سفر 45 برس پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متاثر کن ہے، کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے معین اختر کو حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

  • یومِ پیدائش: اردو کا مقبول ترین شاعر جون ایلیا ‘اپنے شہر کا گرامی نام لڑکا تھا’

    یومِ پیدائش: اردو کا مقبول ترین شاعر جون ایلیا ‘اپنے شہر کا گرامی نام لڑکا تھا’

    آج اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کا یومِ پیدائش ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب کی بدولت آج لاکھوں نوجوان ان کے حلیے، مشاعرہ پڑھنے کے مخصوص انداز سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری کو بھی پسند کرتے ہیں۔

    یہ مداح اس خوش نصیب ہیں جو آج کے دور میں گوگل جیسی ‘نعمت’ کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف جون ایلیا کی شاعری آسانی سے پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لیکن چند دہائیوں پہلے جب یہ سب نہیں تھا، تب بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد جون ایلیا کی مداح تھی۔ اس وقت علم و ادب اور مطالعہ کا شوق اخبار، مختلف جرائد اور کتابوں سے پورا کیا جاتا تھا، اور پاکستانی نوجوان اپنے ‘محبوب’ شاعر کو پڑھتے اور مشاعروں‌ میں خوب جم کر انھیں سنتے تھے۔ اس زمانے میں ان کی شاعری کے دیوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی تھی جس نے ادبی پرچوں‌ میں ان کی غزلیں اور نظمیں‌ پڑھیں اور ان کی صرف تصویر ہی دیکھ سکے۔

    آج جون صاحب کے مداحوں کی اکثریت اُن کے حلیے اور کلام پیش کرنے کے اُس انداز سے متاثر ہے جس میں‌ وہ کبھی اپنا سر پیٹتے، تو کبھی بال نوچتے نظر آتے ہیں۔ شدّتِ جذبات میں اپنی رانوں پر دونوں ہاتھ مارنا، اور شعر سناتے ہوئے کوئی تذکرہ چھیڑ دینا، حاضرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔

    خیال آفرینی اور خوب صورت لفظیات کے اس شاعر کو باغی، انقلابی اور روایت شکن کہا گیا، جب کہ اپنے محبوب سے ان کا منفرد تخاطب، انوکھا اور بے تکلّف انداز شعر و سخن کے دلدادہ نوجوانوں کو بہت بھایا۔

    جون ایلیا 1931ء میں آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔ اکثر اپنے کلام اور اپنی گفتگو میں سبھی سے بیزار نظر آنے والے جون ایلیا شاید دوسروں ناراض کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ یہاں ہم ان کی ایک نظم ’’درختِ زرد‘‘ کے چند اشعار نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی ہے۔ اس نظم میں‌ وہ اپنے اکلوتے بیٹے زریون سے مخاطب ہیں۔ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    سنو میری کہانی، پَر میاں میری کہانی کیا
    میں یک سَر رایگانی ہوں، حسابِ رایگانی کیا
    بہت کچھ تھا کبھی شاید پَر اب کچھ بھی نہیں ہوں میں
    نہ اپنا ہم نفس ہوں، میں نہ اپنا ہم نشیں ہوں میں

    کبھی کی بات ہے فریاد میرا وہ کبھی یعنی
    نہیں اس کا کوئی مطلب، نہیں اس کے کوئی معنی
    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دَم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلّوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا، میں حشر انجام لڑکا تھا
    مرے ہندو مسلماں سب مجھے سر پر بٹھاتے تھے
    انہی کے فیض سے معنی مجھے معنی سکھاتے تھے

    سخن بہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
    وہ کچھ کہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
    میں اشرافِ کمینہ کار کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا
    سو میں محنت کشوں کی جوتیاں منبر پہ رکھتا تھا
    میں شاید اب نہیں ہوں وہ، مگر اب بھی وہی ہوں میں
    غضب ہنگامہ پرور خیرہ سر اب بھی وہی ہوں میں
    مگر میرا تھا اک طور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا
    مگر میرا تھا اک دور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا

    میں اپنے شہر علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہن
    مرے تلمیذِ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
    مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
    وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پُر حالی سکھاتا تھا
    وہ ہیئت داں وہ عالم نافِ شب میں چھت پہ جاتا تھا
    رصد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا نبھاتا تھا
    اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرص دولت تھی
    بڑے سے قطر کی اک دور بین اس کی ضرورت تھی
    مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلامہ
    مری ماں میری محبوبہ قیامت کی حسینہ تھی
    ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہّامہ
    تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت وہ علّامہ

    خلف اس کے خذف اور بے نہایت نا خلف نکلے
    ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شرف نکلے
    میں اس عالم ترینِ دہر کی فکرت کا منکر تھا
    میں سوفسطائی تھا، جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
    پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں

    یہ طویل نظم ہے جس کے بارے میں ادیب، شاعر، کالم نگار، مترجم اور صحافی انور احسن صدیقی نے لکھا ہے کہ انھوں‌ نے مدّتوں‌ بعد اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جس نے اُن سے بے رخی برتی اور کسی التفاف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تب جون ایلیا نے یہ شاہ کار نظم لکھی جو ان کے شعری مجموعے میں‌ شامل ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا۔

    کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
    یہ مرا طورِ زندگی ہی نہیں

  • نام وَر مصوّر اور عظیم خطّاط صادقین کا یومِ پیدائش

    نام وَر مصوّر اور عظیم خطّاط صادقین کا یومِ پیدائش

    شہرۂ آفاق مصوّر اور خطّاط صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔

    ہیں قاف سے خطّاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلّہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین کی یہ رباعی ان کے تخلیقی وفور اور ان کی فکرِ رسا کا خوب صورت اظہار ہے۔

    آج اس نادرِ روزگار شخصیت کا یومِ پیدائش ہے۔ سیّد صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ وہ 30 جون 1930ء کو امروہہ کے علم پرور اور فنون میں‌ ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا خوش نویس اور ماہر خطّاط تھے۔

    صادقین نے بھی علم و فنون کا راستہ اپنایا جن کی وجہِ شہرت اسلامی خطّاطی ہے۔ انھوں نے اس فن کو نئی جہات سے روشناس کیا اور نام وَر ہوئے۔ صادقین نے قرآنی آیات کے علاوہ مشہور اشعار کو بھی اپنے منفرد انداز اور فنی نزاکتوں کے ساتھ کینوس پر اتارا۔

    صادقین نے ابتدائی تعلیم امروہہ سے حاصل کرنے کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    اس فن کی دنیا میں صادقین کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا، وہیں‌ دنیا بھر میں ان کے فن پاروں‌ کی نمائش بجائے خود ان کا ایک اعزاز اور پذیرائی تھی۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ پیدائش

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ پیدائش

    آج پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ ولادت منایا جارہا ہے۔ وہ 14 جنوری کو متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد کئی شعرا میں سے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو قومی ترانہ منتخب کیا گیا

    حفیظ جالندھری نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شایع ہوا۔ اس کے ذریعے انھوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انھیں فردوسیِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    حفیظ جالندھری نے یہ قومی ترانہ احمد جی چاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور 1954ء میں اسے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا گیا تھا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں قابلِ ذکر ہیں۔

    حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ مینار پاکستان کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

  • سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    اپنے معاصرین میں منٹو کیوں ممتاز ہوئے، اور کیا وجہ ہے کہ آج بھی انھیں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے؟

     


    یوں تو کئی قابل، نہایت باصلاحیت لکھاری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب منٹو کے ہم عصر اور اس دور کے اہم نام شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں اردو ادب کے لیے بہت کچھ لکھا، مگر منٹو سب پر سبقت لے گئے۔

     
    منٹو کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے، اس ادیب کو صرف پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

     

     

    شاید ایسا اس لیے ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سماجی حقیقتوں، سچائیوں، تلخیوں کو بیان کیا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی۔ آج اسی ادیب کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔

     

     

    گوگل نے اپنے ڈوڈل پر منٹو کو نمایاں کیا ہے جس کا مقصد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

     

     

    منٹو کی یہ تصاویر ان کی زندگی کے مختلف برسوں کی ہیں۔

     

     

    منٹو بھی دنیا کے اسٹیج کا ایک کردار تھے، اور ہر کردار کی طرح ان کی زندگی کی کہانی بھی موت کے ساتھ مکمل ہوئی۔ 1955 ان کی وفات کا سال ہے۔

     

     

    افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • پاک فضائیہ کے پائلٹ شہید راشد منہاس (نشان حیدر) کا69واں یوم پیدائش

    پاک فضائیہ کے پائلٹ شہید راشد منہاس (نشان حیدر) کا69واں یوم پیدائش

    کراچی : کم عمری ميں نشان حيدر کا اعزاز حاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا 69واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے، راشدمنہاس کا جذبہ حب الوطنی نوجوان نسل کے ليے مثال ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹ راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا، انہوں نے جامعہ کراچی سے ملٹری ہسٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔

    مارچ 1971 میں راشد منہاس نے پاک فضائیہ میں بطور کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی، وہ ابتداء ہی سے ایوی ایشن کی تاریخ اور ٹیکنالوجی سے متاثر تھے اور ان کو مختلف طیاروں اور جنگی جہازوں کے ماڈلز جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔

    اگست1971ء میں راشد منہاس پائلٹ آفیسر بنے اور جب 20اگست1971ء کو وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ پر روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان طیارے کو رن وے پر روک کر سوار ہوگئے اور جہاز کا رخ دشمن ملک بھارت کی جانب موڑ دیا لیکن راشد منہاس نے وطن پر جان قربان کرتے ہوئےدشمن کی اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے جہاز کا رخ زمین کی جانب کردیا اور جام شہادت نوش کیا۔

    راشد منہاس شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے پہلے آفیسر تھے۔

    راشد منہاس کو ان کے عظیم کارنامے پر ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا اور  کم عمری میں نشان حیدر حاصل کرنے والے شہید کا اعزاز  اپنے نام کیا۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر پانے والے سب سے کم عمرشہید راشد منہاس کراچی کے فوجی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں جبکہ اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ، قوم کوعظیم سپوت کی قربانی اور کارنامے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔