Tag: یوم پیدائش

  • بلاول بھٹو کا قائد اعظم کے یوم پیدائش پرپیغام

    بلاول بھٹو کا قائد اعظم کے یوم پیدائش پرپیغام

    کراچی : چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ان اقدارکونصب العین بناناچاہیےجن پرقائداعظم عمل پیرا رہے۔

    تفصیلات کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زداری نے کہا کہ پاکستانی قوم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔

    انہوں نے کہا کہ ان اقدارکونصب العین بناناچاہیےجن پرقائداعظم عمل پیرا رہے، قائداعظم پاکستان کو حقیقی فلاحی ریاست دیکھنے کے خواہاں تھے۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہماری جدوجہد پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی مظالم برداشت کر لے گی لیکن جدوجہد ختم نہیں کرسکتی، عوم اپنے حقِ حاکمیت پرکسی مصلحت کا شکارنہ ہو۔

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے


    واضح رہے کہ ملک بھر میں آج بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا 143 واں یوم ولادت انتہائی عقیدت واحترام اور ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

  • قائداعظم کےوژن کےمطابق سماجی انصاف کوفروغ دیاجارہاہے،آرمی چیف

    قائداعظم کےوژن کےمطابق سماجی انصاف کوفروغ دیاجارہاہے،آرمی چیف

    راولپنڈی : آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ قائداعظم کےوژن کےمطابق سماجی انصاف کو فروغ دیا جارہا ہے، قائد کے فرمودات کے مطابق محفوظ و مضبوط پاکستان ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بانی پاکستان کو یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کیا۔

    میجر جنرل آصف غفور کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بانی پاکستان کے یوم پیدائش پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم کے وژن کے مطابق سماجی انصاف کوفروغ دیاجارہاہے، انسانی اقدار اورمساوات قیام پاکستان کی تحریک ہے۔

    آرمی چیف کا کہنا ہے کہ قائدکےفرمودات کےمطابق محفوظ ومضبوط پاکستان ممکن بنایاجاسکتاہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز خالقِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ جاری کیا تھا۔


    مزید پڑھیں : بانی پاکستان قائد اعظم کو آئی ایس پی آر کا خراج تحسین، نغمہ جاری


    جس میں جدو جہد آزادی پاکستان اور ہجرت جیسے کرب ناک مناظر کی عکاسی کی گئی۔

    س نغمے کو لکھا ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اکبر نے جب کہ گلوکار اور موسیقار صابر علی ہیں جنہوں مدھر دھنوں اور سندر آواز سے ملی نغمے کو زندگی بخش دی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • بانی پاکستان قائد اعظم کو آئی ایس پی آر کا خراج تحسین، نغمہ جاری

    بانی پاکستان قائد اعظم کو آئی ایس پی آر کا خراج تحسین، نغمہ جاری

    راولپنڈی : خالقِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ جاری کیا ہے۔

    پاکستان ایک طویل جدو جہد، ، بے پناہ قربانیوں اور قائد کی مدبرانہ قیادت کا تحفہ ہے جس نے کرہ ارض پر وہ سرزمین پاک دی جس میں ہم اپنی تمام تر اسلامی عبادات اور رسومات کی آزادانہ ادائیگی کرپاتے ہیں۔

    آزادی کی قدر انہیں ہی ہوتی ہے جنہوں نے غلامی کا دکھ جھیلا ہو اور برصغیر کے مسلمانوں نے تو دہری غلامی دیکھی، ایک طرف قابض برطانوی سامراج تھا تو دوسری طرف اکثریت رکھنے والے جنونی ہندو، جن کے باعث مسلمانوں کو نہ تو مذہبی آزادی حاصل تھی اور نہ ہی عزت و آبرو اور نہ جان و مال محفوظ تھیں۔

    قائد اعظم نے بے حال اور پسے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور برطانیہ کی غلامی سے ہی نہیں بلکہ ہندو بنییے کے چنگل سے آزادی دلائی۔

    آئی ایس پی آر نے عظیم کے قائد کے جنم دن کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ملی نغمہ ریلیز کیا ہے جس میں جدو جہد آزادی پاکستان اور ہجرت جیسے کرب ناک مناظر کی عکاسی کی گئی ہے۔

    اس نغمے کو لکھا ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اکبر نے جب کہ گلوکار اور موسیقار صابر علی ہیں جنہوں مدھر دھنوں اور سندر آواز سے ملی نغمے کو زندگی بخش دی ہے۔

    آیئے قائد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا نغمہ سنتے ہیں..

  • میجرشبیرشریف شہید کایوم ولادت آج منایاجارہاہے

    میجرشبیرشریف شہید کایوم ولادت آج منایاجارہاہے

    گجرات: پاک فوج کےسابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجرشبیرشریف شہید کا 74واں یوم ولادت آج منایا جارہاہے۔

    میجرشبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو گجرات میں پیدا ہوئے۔انہوں نے لاہور کےسینٹ انتھونی اسکول اور گورنمنٹ کالج جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کی۔

    میجرشبیر شریف شہید نے21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی،ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر رہے تھے۔

    انہوں نےپاک فوج کے3 اعلیٰ ترین اعزاز بھی حاصل کیے۔میجر شبیرشریف شہید نے بطورکیڈٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سےاعزازی شمشیر حاصل کی۔

    پاک بھارت1965 کی جنگ میں وہ بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شریک ہوئے ان کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔1965 کی جنگ میں بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے پر انہیں ستارۂ جرأت سے نوازاگیا۔

    میجر شبیر شریف کو 1971 کی پاک بھارت جنگ میں سلیمانکی سیکٹر میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کو اونچے بند پر قبضہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس پر پہلے ہی بھارتی فوج کا قبضہ تھا۔


    نشان حیدر پانے والے فوج کے 10 بہادر سپوت


    انہوں نےاس معرکے میں دشمن کے 43 سپاہیوں کو ہلاک اور 28 کو قیدی بنایا اس کے علاوہ دشمن کے 4 ٹینک بھی تباہ کیے۔

    ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران 6دسمبر کے دن ان کو دشمن کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے 28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔

    واضح رہےکہ میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے یوم ولادت کے سلسلے میں مختلف تقریبات میں شہید کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ان کے مزار پر فاتحہ خوانی اور پھولوں کی چادر چڑھائی جائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • فیض احمد فیض کا106واں یومِ پیدائش آج منایاجارہاہے

    فیض احمد فیض کا106واں یومِ پیدائش آج منایاجارہاہے

    اردو کےعظیم شاعر،ادیب اورمعروف صحافی فیض احمد فیض کا 106 واں یومِ پیدائش 13 فروری کو منایا جارہاہے۔

    فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے،انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن رہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی،گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی۔ وہ بھی شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اورشخصیت سے متاثرتھیں۔

    انہوں نے 1935میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئےاور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔1947میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پرفوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اورعربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔انہوں نےان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سےبراہ راست استفادہ کیا۔اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    انہوں نےجب شاعری شروع کی تواس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورپوری اور جوش ملیح آبادی جیسےقدآور شعراء موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    faiz-post-1

    اردو شاعری میں فیض کےمنفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ،شام شہریاراں سروادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    اردو کےعظیم شاعرفیض1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئےپھر1962 تک وہیں تعینات رہے۔اس کے علاوہ ادبی رسالہ ادب لطیف کےمدیراوراس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار کے مدیر اعلٰی رہے۔

    انہیں9 مارچ1951 کوفیض احمد فیض راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کےالزام میں گرفتار کیاگیا۔فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے،جبکہ دو اپریل 1955 کو انہیں رہا کردیا گیا۔

    فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں فیض کو لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔آپ کےکلام کومحمد رفیع،ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسےگلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔

    اردو کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض20نومبر 1984 کو73برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔

  • معروف قوال نصرت فتح علی خان کی آج 68 ویں سالگرہ ہے

    معروف قوال نصرت فتح علی خان کی آج 68 ویں سالگرہ ہے

    بین الاقوامی طور پرسراہے جانے والے معروف صوفی قوال اور گائیکی کی دنیا میں اپنا الگ مقام بنانے والے نصرت فتح علی خان کی آج 68 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے وہ 17 اگست 1997 میں لندن میں انتقال کر گئے تھے۔

    حضرت داتا گنج بخش کے مزار کے یوں تو کئی فیوض عام ہیں جس کا مظہر بند آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، اسی ولی اللہ کے مزار میں گونجنے والی ایک آواز کو وہ’’ نصرت‘‘ حاصل ہوئی جس نے فنِ قوالی میں نہ صرف اپنا لوہا منوایا بلکہ دنیا بھر میں صوفی ازم کی شناخت بنے۔
    nusrat-post-3

    ذکر ہورہا ہے معروف قوال اور گائیک نصرت فتح علی خان کی، جنہیں داتا گنج بخش کی ’’نصرت نے وہ ’’ فتح‘‘ دلائی جو کم ہی گائیکوں کے نصیب میں آئی۔

    ’’دم مست قلندر مست مست‘‘ سے لوگوں کو سحر میں جکڑنے والے اس کلاکار کی پیدائش 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں ہوئی،آپ نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد سے حاصل کی اور پھر سُر اور لے میں ایسا کھوئے کہ پہچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔

    rahat-used-to-be-scared-of-his-uncle-nusrat-fateh-ali-khan-99a521bda189916bf4e3e3576252aed3

    ’’علی دا ملنگ میں تے علی دا ملنگ‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والا یہ گلوکار کامیابیوں کی سیڑھیاں چلتا رہا اور معرفت کے اوج کمال ’’اللہ ہو اللہ‘‘ سے حاصل کیا،نازخیالولی کے سوال ’’تم ایک گورکھ دھندہ ہو‘‘ کو پڑھنے والے نصرت فتح علی خان علامہ اقبال کے ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ میں پناہ ڈھونڈتے نظرآتے ہیں۔

    nusrat-post-1

    حفیظ جالندھری کا شہرہ آفاق نوحہ ’’یہ بالیقیں حسین ہے‘‘ سے سینہ عزادار کے سینوں کو چیرنے والے نصرت فتح علی خان حب اہل بیت نبھاتے نظرآتے ہیں تو کہیں ’’ہلکا ہلکا سرور‘‘ دلاتے ہین اور حسن جانان کی تعریف میں آفریں آفریں کی گردان لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

    nusrat-fateh-ali-khan-1

    عروج کمال ہے یہ کہ زمین و مکان کی سرحدوں سے آزاد نصرت فتح علی خان پڑوسی ملک سمیت دنیا بھرکے اُن حصوں میں بھی سنے،سمجھے اور گائے جاتے ہیں،جہان اردو سمجھی نہیں جاتی اور قوالی کو کوئی جانتا نہیں۔

    nusrat-post-5

    موسیقی کی دنیا کا یہ ’’رشک قمر‘‘ اور’’نور نظر‘‘ 125 سئ زائد آڈیو البم ریکارڈ کروانے والا واحد گلوکار بن جاتا ہے جو کم و بیش ہر ہی مزاروں میں پڑھا جاتا اور ہر بڑی فلم میں گایا جاتا ہے۔

    نصرت فتح علی خان کی ایک حمد ’’وہ ہی خدا ہے‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی جب کہ ایک ملی نغمے ’’میری پہچان پاکستان‘‘ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت ’’جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم‘‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے بیٹھے ہیں۔

    nusrat-post-4

    محض 49 سال کی عمر میں وہ گردے کے عارضے میں مبتلا ہوگئے اور بیرون ملک دوران علاج ہی خالق حقیقی سے جا ملے یوں’’کسے دا یار نہ وچھڑے‘‘ کی تمنا رکھنے والے نصرت فتح علی خان ہم سب سے ہمیشہ کے لیے بِچھڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

     

  • قوم پرست رہنما جی ایم سید کی آج 20ویں برسی منائی جارہی ہے

    قوم پرست رہنما جی ایم سید کی آج 20ویں برسی منائی جارہی ہے

    کراچی: معروف سیاستداں و قوم پرست رہنما جی ایم سید کی آج بیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    جی ایم سید کا اصل نام غلام مرتضیٰ سید تھا اور وہ 17 جنوری 1904ءکو سن کے مقام پر پیدا ہوئے۔ جی ایم سید کا تعلق سندھ کے سادات کے مشہور گھرانے مٹیاری سادات سے تھا۔

    جی ایم سید نے ابتدائی تعلیم سن ہی میں حاصل کی۔ 1920ءمیں جب ان کی عمر سولہ برس تھی انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک خلافت سے کیا۔ 1937ءمیں وہ پہلی مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن بنے۔ 1938ءمیں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی۔ 1942ءمیں سر حاجی عبداللہ ہارون کی وفات کے بعد وہ سندھ مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ اسی حیثیت میں انہوں نے سندھ اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی قرارداد بھی پیش کی۔

    مگرکچھ ہی دنوں بعد انہیں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جی ایم سید نے حزب اختلاف کی سیاست اختیار کی۔ 1948ءمیں انہوں نے خان عبدالغفار خان کے ساتھ پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی آف پاکستان قائم کی، 1948ءمیں انہوں نے کراچی کی سندھ سے علیحدگی اور 1955ءمیں ون یونٹ کے قیام کے خلاف تحریک چلائی جس کی بنا پر انہیں قید و بند کی صعوبت برداشت کرنی پڑی۔ 1956ءمیں انہوں نے نیپ کے قیام میں فعال حصہ لیا۔ 1970ءمیں انہوں نے آخری مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اسی زمانے میں انہوں نے جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد بھی ڈالی۔

    جی ایم سید ایک کثیر المطالعہ اور کثیر التصانیف سیاستدان تھے۔ انہوں نے سندھی، اردو اور انگریزی میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔ ان کی سیاست سے اختلاف اور اتفاق رکھنے والوں کا ایک بڑا حلقہ ہمیشہ موجود رہا۔

    جی ایم سید کاانتقال 25 اپریل 1995ءکوکراچی میں ہوا ۔ وہ درگاہ پیر حیدر شاہ، سن،دادو کے مقام پر آسودہ خاک ہیں ۔

  • جی ایم سید کا آج ایک سو گیارہواں یوم پیدائش منایاجارہا ہے

    جی ایم سید کا آج ایک سو گیارہواں یوم پیدائش منایاجارہا ہے

    کراچی : قائد اعظم سے والہانہ عقیدت رکھنے والے اورسندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے میں اہم کرداراداکرنے والےجی ایم سید کا آج ایک سو گیارہواں یوم پیدائش منایاجارہا ہے۔

    سترہ جنوری انیس سو چار میں سید محمد ہاشم کے گھر آنکھ کھولنے والے سید غلام مرتضی شاہ المعروف جی ایم سید نےمارچ 1920میں آبائی شہر سن سے سیاست کا آغاز کیا۔

    انیس سو اٹھائیس میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کی تحریک شروع کی ۔وہ انیس سو سینتس میں سندھ اسمبلی کے ممبر بنے اور انیس سوبیالیس میں مسلم لیگ سندھ کی صدارت سنبھالی اورسندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے۔

    چھبیس جولائی انیس سو تینتالیس کو بمبئی میں قائد اعظم پر قاتلانہ حملے کی خبر سندھ اسمبلی پہنچی توجی ایم سید بیہوش ہوگئے اوراجلاس ایک گھنٹے کیلئے ملتوی ہوگیا۔

    جی ایم سید نے انیس سو بیالس میں پروگریسو مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جبکہ انیس سوتہتر میں ملکی سیاست سے مایوس ہوکر جئے سندھ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔

    جی ایم سید منجھے ہوئے سیاستدان ، ادیب، مفکر، فلسفی تھے، سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (60) کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت” ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔

    ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی ہیں۔

    1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو سے ” سندھو دیش” کا مطالبہ کیا تھا۔

    وہ تیس (30) سال پابند سلاسل رھے۔ 19 جنوری 1992 کو ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کی موت تک ان کا گھر "زیلی جیل” قرار دے کران کو نظر بند کردیا گیا تھا۔

    جی ایم سید طویل علالت کے بعد پچیس اپریل انیس سو پچانوے کو اکیانوے سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد  دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔

  • لیجنڈری فنکارمعین اختر کا 64 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    لیجنڈری فنکارمعین اختر کا 64 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    کراچی: چاردہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرنے والےہردلعزیزفنکارمعین اختر کا آج چونسٹھواں یوم پیدائش آج منا یا جارہاہے ۔فن کی دنیا میں مزاح سے لیکر پیروڈی تک اسٹیج سے ٹیلی ویژن تک معین اختروہ نام ہے جس کے بغیر پاکستان ٹیلیویژن اور اردو مزاح کی تاریخ نامکمل ہے۔

    چوبیس دسمبر انیس سو پچاس کو شہر قائد میں پیدا ہونے والے اس فنکار نے اُنیس سو چھیا سٹھ میں سولہ سال کی عمر میں پاکستان ٹیلیویژن سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ معین اختر نے کئی یادگار اور مثالی کردار ادا کئے جنہیں لازوال حثیت حاصل ہے۔ جن میں

    مرحوم معین اختر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول تھے،اے آر وائی کے پروگرام لوز ٹاک بھارت میں بھی بے حد مقبول تھا جو پانچ سال تک جاری رہا،جس مین انہوں نے چار سو کے قریب مختلف روپ دھارے،اوراس پروگرام سے متاثر ہوکر اسی طرز کا ایک پروگرام بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی پیش کیا گیا،

    لیجنڈ اداکار معین اخترنے ریڈیو ٹی وی اور فلم میں ادا کاری کے کئی یاد گا جوہر دکھائے،چوالیس سال تک کامیڈی اداکاری گلوکاری اور پروڈکشن سمیت شوبز کے تقریباً ہر شعبے میں ہی کام کیا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں ہاف پلیٹ، سچ مچ ،عید ٹرین میں، مکان نمبر 47، فیملی ترازو،سات رنگ بندر روڈ سے کیماڑی،بند گلاب، اسٹوڈیو ڈھائی،یس سر نو سر،انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو ودیگر شامل ہیں ۔

    اس کے علاوہ  انہوں نے مختلف پروگراموں میں میزبانی کے دوران اپنے برجستہ جملوں سے اپنے لاکھوں سننے والوں کو محظوظ کیااور زبردست شہرت پائی۔

    ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں، بچاؤ معین اخترسے، ٹارزن معین اختر، بے بیا معین اختر، بکرا قسطوں پر، بایونک سرونٹ، بس جانے دو معین اختر،قابل ذکر ہیں۔

    مزاح نگار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر فلم اور اسٹیج کے فنکا ر بھی تھے۔ انہیں متعدد اعزازا ت سے بھی نوازا گیا ۔ معین اختر اپریل دو ہزار گیارہ میں اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک عظیم فنکار سے محروم ہو گیا۔

    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
    ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے

  • گلوکارکشورکمارکا 85واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    گلوکارکشورکمارکا 85واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    برصغیرکے معروف گلوکارکشور کمارکا85 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے، کشورکمار 4اگست 1929کوپیداہوئے۔

    انہوں نے نہ صرف گائیکی کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ فنون لطیفہ کے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔وہ مقبول پلے بیک سنگرکے علاوہ نغمہ نگار، موسیقار، اداکار ،ہدایت کاراورفلم سازبھی تھے ۔کشورکمارنے مختلف زبانوں میں ہزاروں کی تعدادمیں نغمات گائے جوآ ج بھی لوگوں میں مقبول ہیں ۔وہ 13اکتوبر1987 کوانتقال کرگئے ۔