کیف: مشرقی یوکرین کے شہر ماریوپول کے میئر خود تو نکل گئے ہیں، تام شہر میں لاکھ سے زائد شہری سنگین حالات میں انخلا کے منتظر ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یوکرین کے شہر ماریوپول کے میئر ودائم بوئی چینکو نے شہریوں کے انخلا کے لیے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں محفوظ راستے فراہم کیے جائیں۔
ودائم بوئی چینکو نے بدھ کے روز جاپانی میڈیا این ایچ کے، کو آن لائن انٹرویو دیا، وہ خود ماریوپول سے نکل چکے ہیں اور اب ایک دوسرے شہر میں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ شہر میں پھنسے شہریوں کے انخلا کے لیے انتظامات کر رہے ہیں۔
28 مارچ کو میئر آفس نے، جب کہ بوئی چینکو خود شہر چھوڑ کر جا چکے تھے، بتایا کہ کہ شہر پر روسی قبضے کے بعد سے 90 فی صد عمارتیں تباہ اور 40 فی صد ختم ہو چکی ہیں، تقریباً 290,000 لوگ شہر چھوڑ چکے ہیں اور تقریباً 170,000 اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
میئر کا کہنا تھا کہ ماریوپول میں صورت حال الم ناک ہے، شہر میں لوگوں کو پانی، خوراک، بجلی، گرمائش اور رابطے کے ذرائع کی کمی کا سامنا ہے، انہوں نے بتایا کہ پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہ صورت حال انسانی بحران بن چکی ہے۔
بوئی چینکو نے کہا کہ سڑکوں پر لڑائی جاری ہے اور شہر کے وسطی نصف حصے پر روسی فورسز نے قبضہ کر لیا ہے۔
میئر کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد پیچھے شہر ہی میں رہ گئے ہیں، انھوں نے روسی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ امدادی سامان کی نقل و حمل اور عام لوگوں کے انخلا میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔
ماریوپول میئر نے انٹریو میں لڑائی کو کم از کم 2 ہفتوں تک روکے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، تاکہ انخلائی راستوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
کیف: اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ روس کے حملے کے بعد سے 3.8 ملین سے زیادہ لوگ یوکرین سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یو این ایجنسی نے کہا ہے کہ یوکرین چھوڑنے والے 38 لاکھ 66 ہزار 224 افراد میں سے تقریباً 90 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔
یو این ادارے نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر یوکرینی شہری پولینڈ بھاگ گئے ہیں، 2.2 ملین سے زیادہ لوگ یوکرین کے مغربی پڑوس میں داخل ہوئے ہیں، 5 لاکھ سے زیادہ رومانیہ میں داخل ہو چکے ہیں، جب کہ مالڈووا اور ہنگری میں 3 لاکھ سے زیادہ مہاجرین داخل ہوئے ہیں۔
UNHCR نے کہا ہے کہ انھوں نے ہمسایہ ممالک کے اُن شہریوں کو شمار نہیں کیا، جو یوکرین چھوڑ کر وطن واپس گئے ہیں۔
یوکرین نے شہری انخلا روک دیا
یوکرین کا کہنا ہے کہ اس نے عارضی طور پر روسی ‘اشتعال انگیزی’ کے خطرے کے پیش نظر انسانی ہمدردی کی راہداریوں کے ذریعے شہریوں کے انخلا کا عمل روک دیا ہے۔
ماریوپول کے میئر کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی بندرگاہی شہر ایک انسانی تباہی کے دہانے پر ہے، یہ شہر روس کے قبضے میں آ چکا ہے، دوسری طرف دارالحکومت کیف کا کہنا ہے کہ وہ غیر جانب دار حیثیت اختیار کرنے پر ماسکو کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
کیف ماسکو کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے نئے دور کی تیاری بھی کر رہا ہے۔
ماسکو: روس نے صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مابین براہ راست بات چیت کا امکان مسترد کر دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماسکو نے فی الحال روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ خیالات کے تبادلے کے لیے رہنماؤں کے درمیان کوئی بھی فوری ملاقات نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ بات چیت اس وقت ہونی چاہیے جب یوکرین اور روس اہم معاملات پر اتفاق رائے کر لیں، واضح رہے کہ زیلنسکی نے جنگ کو ختم کرنے کے لیے متعدد بار پیوٹن سے آمنے سامنے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر کریملن نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے حکام کے درمیان منگل کو ترکی میں مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں، پیوٹن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان نے اتوار کو ایک ٹیلی فون کال میں استنبول میں بات چیت کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا، جس سے انقرہ کو امید ہے کہ جنگ بندی ہو جائے گی۔
دوسری طرف یوکرین کے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرین کو دو الگ الگ علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ملٹری انٹیلی جنس چیف نے کہا روس یوکرین کے لیے کوریا طرز کی تقسیم پر غور کر رہا ہے، اور دارالحکومت کیف پر قبضہ کرنے اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکامی کے بعد اب چاہتا ہے کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جائے۔
دنیا کے سب بڑے طیارے ماریا انتونوو اے این-225 بنانے والی کمپنی نے تباہ شدہ طیارے کی بحالی کے لیے عالمی ہوا باز ادارے اور کمپنیوں سے مالی تعاون کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یوکرین میں دنیا کا سب سے دیوہیکل طیارہ بنانے والی کمپنی انتونوو نے تمام ممالک کے سربراہان اور ہوا بازی کے شعبے سے وابستہ عالمی کمپنیوں سے کہا ہے کہ اس طیارے کی بحالی کے منصوبے کے لیے مالی تعاون کریں۔
کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اس تاریخی طیارے کو، جدید ہوائی جہاز کی تعمیر میں اعلیٰ ترین سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کی علامت کے طور پر بحال کرنا چاہتی ہے تاہم یوکرین اور کمپنی کے پاس مشکل وقت میں اس منصوبے کے لیے رقم نہیں۔
انتونوو نے کہا ہوائی جہاز اور انتونوو برانڈ کے دیگر مصنوعات کی تیاری میں حصہ لینے والی کمپنیاں بھی مالی تعاون کریں، اے این-225 ماریا طیارہ نہ صرف یوکرین بلکہ عالمی ہوا بازی برادری کا فخر ہے، اس لیے کمپنی ہوائی جہاز کی بحالی کے منصوبے کے لیے مضبوط تعاون کی امید رکھتی ہے۔
انتونوو نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس کے لیے ہم ناقابل واپسی مالی امداد کے طور پر رقم اکاﺅنٹ میں جمع کرانے کی اپیل کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ انتونوو کمپنی نے مالی مدد کے لیے مختلف اکاﺅنٹس نمبر بھی جاری کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ ماریا اے این 225 ایک روسی حملے میں تباہ ہو گیا تھا، دنیا کے سب بڑے اور دیو ہیکل جہاز کی پاکستان سے بھی یادیں وابستہ ہیں، دیوہیکل جہاز نے دو بار کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا ہے۔
پہلی بار یہ طیارہ 20 اپریل 2018، دوسری بار 23 جون 2021 میں جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا تھا، اس کارگو جہاز کا وزن 600 ٹن ہے، جسے 1988 میں تیار کیا گیا تھا، اس کے 6 انجن تھے جن کی مدد سے یہ اڑان بھر تا تھا، اور جہاز کے پہیوں کی تعداد 32 تھی۔
کیف: یوکرین نے مقبوضہ بردیانسک بندرگاہ پر ایک روسی بحری جنگی جہاز تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یوکرین وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بردیانسک بندرگاہ پر روسی بحری جہاز پر حملہ کامیاب رہا۔
یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے حملے میں ساحلی شہر میں ایک روسی لینڈنگ بحری جہاز تباہ ہو گیا ہے جب کہ 2 دیگر بحری جہازوں کو نقصان پہنچا ہے۔
یوکرین کی فوج نے جمعرات کو علی الصبح ایک فوٹیج جاری کی اور کہا کہ روسی بحری جہاز کو اس کی افواج نے نشانہ بنایا، تاہم بی بی سی کا کہنا ہے کہ یوکرینی دعوے کے برعکس روسی بحری جہاز میں دھماکا اور آگ لگنے کی وجہ کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔
Video of the fire in #Russia|n-occupied port of #Berdyansk, south #Ukraine. There are reports that the Russian landing warship Orsk, docked in the port, is on fire.
بردیانسک بندرگاہ ماریوپول کی محصور بندرگاہ کے مغرب میں واقع ہے، اس پر روس کے یوکرین پر حملے کے چار دن بعد قبضہ کر لیا گیا تھا، روس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے فوجیوں کو سامان کی ترسیل کے لیے اس بندرگاہ کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا۔
روسی فوجی ٹی وی نے گزشتہ ہفتے بردیانسک میں اورسک نامی اس بحری جنگی جہاز کی آمد کو ایک ‘بڑا واقعہ’ قرار دیا تھا، کیوں کہ یہ وہاں لنگر انداز ہونے والا پہلا روسی جنگی جہاز تھا۔
روسی سرکاری ٹی وی کے رپورٹر مراد گزدیف کی فلمائی گئی ایک ڈرون فوٹیج جاری کی گئی تھی، جس میں اس بحری جنگی جہاز سے بندرگاہ پر بکتر بند گاڑیاں اتارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
کیا پیوٹن یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں؟ اس مہلک سوال نے عالمی سطح پر جنگوں کو ناپسند کرنے اور امن کے بارے میں سوچنے والے افراد کے اذہان کو جکڑا ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ یوکرین پر حملے کے فوراً بعد، صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی "ڈیٹرنٹ فورسز” یعنی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوج کو تیار رہنے کی ہدایت کی تھی، اسی سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ماسکو ‘طاقت ور’ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کیا ہیں؟
بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار وہ ہیں جو نسبتاً کم فاصلے پر استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور اس کے استعمال کا مقصد فوری اور مؤثر نتائج کا حصول ہوتا ہے، ان کا استعمال جارحانہ صورت میں بھی ہوتا ہے اور دفاعی صورت میں بھی۔ یہی حیثیت انھیں ‘اسٹریٹیجک’ جوہری ہتھیاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
اس کے باوجود ‘ٹیکٹیکل’ کی اصطلاح میں ہتھیاروں کی بہت سی اقسام شامل ہیں، بشمول چھوٹے بم اور میزائل جو ‘میدان جنگ’ کے ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
روس کے پاس کون سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں؟
خیال کیا جاتا ہے کہ روس کے پاس تقریباً 2000 ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں، انھیں مختلف قسم کے میزائلوں پر رکھا جا سکتا ہے، جو عام طور پر روایتی دھماکا خیز مواد پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں میدان جنگ میں توپ خانے کے گولوں کے طور پر بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔
کیلیبر میزائل (SS-N-30)
انھیں ہوائی جہاز اور بحری جہازوں کے لیے بھی تیار کیا گیا ہے، مثال کے طور پر تارپیڈو اور آبدوزوں کو نشانہ بنانے کے لیے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وار ہیڈز روس کی اسٹوریج والی عمارتوں میں رکھے گئے ہیں، یعنی جنگ کے لیے انھیں نکالا نہیں گیا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ روس نے اگر فیصلہ کیا تو بڑے اسٹریٹجک میزائلوں کے مقابلے میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرے گا۔
ان ہتھیاروں کی طاقت؟
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار سائز اور طاقت میں بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں، سب سے چھوٹا ایک کلوٹن (kiloton) یا اس سے کم ہو سکتا ہے (ایک ہزار ٹن دھماکا خیز TNT کے برابر)، اور بڑا غالباً 100 کلوٹن جتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں جس بم نے تقریباً 146,000 افراد کو ہلاک کیا تھا، وہ صرف 15 کلوٹن تھا۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ ہتھیار چلائے گے تو ان کے اثرات کا انحصار وار ہیڈ کے سائز، زمین سے ان کی بلندی اور مقامی ماحول پر منحصر ہوں گے۔ روس کے سب سے بڑے اسٹریٹجک ہتھیار کم از کم 800 کلوٹن بتائے جاتے ہیں۔
پیوٹن کے بیانات
دراصل جوہری ہتھیاروں سے متعلق پیوٹن کے بیانات نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کی، یہ بظاہر خوف کا احساس پیدا کرنے کی کوشش ہے، بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق یہ بیانات دراصل مغرب کے لیے ایک اشارہ ہیں کہ وہ یوکرین میں مزید مداخلت سے باز رہیں، اور امریکی جاسوس اسے جوہری جنگ کی منصوبہ بندی کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔
مختصر فاصلے والے جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے روس کے پاس 2 سسٹمز موجود ہیں:
کیلیبر میزائل (SS-N-30) یہ آبدوز اور بحری جہاز سے لانچ ہونے والا کروز میزائل سسٹم ہے۔ اس کا ہدف زمین یا سمندر دونوں مقامات پر ہے اور رینج 15 سو 2 ہزار 500 کلو میٹر تک ہے، میزائل کی لمبائی 6.2 میٹر ہے اور یہ کروز میزائل ہے۔
اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)، یہ موبائل گراؤنڈ بیسڈ میزائل سسٹم ہے جس کی رینج 400 سے 500 کلو میٹر تک ہے، اور زمین سے زمین پر ہدف بناتا ہے، میزائل کی لمبائی 7.3 میٹر ہے، اور یہ سولڈ فیول راکٹ ہے
تاہم دوسری طرف یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگرچہ امکانات کم ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ روس، بعض حالات میں، یوکرین میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرنے پر آمادہ ہو۔ تاہم روس کا اگر نیٹو کے ساتھ تنازع ہو تو اس کا رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتا ہے، وہ نیٹو کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اسی طرح کا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ یہ طرز عمل ڈرامائی اقدامات پر مشتمل ہوتا ہے جیسا کہ میدان جنگ میں ٹیکٹیکل ہتھیار کا استعمال، یا ایسا کرنے کی دھمکی دینا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کو اتنا ڈرایا جائے کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو۔
اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)
تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر پیوٹن کو محسوس ہوتا ہے کہ یوکرین میں ان کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے، تو وہ تعطل کو توڑنے یا شکست سے بچنے کے لیے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو ‘گیم چینجر’ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر یوکرین میں یا روس میں صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
فی الوقت جوہری ماہرین کا یہی خیال ہے کہ روسی صدر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کر کے لوگوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں، تاہم ایک امکان کے طور پر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معاملات اپنے قابو میں کرنے کے لیے وہ یوکرین کی زمین پر ایک جوہری ہتھیار چلا سکتے ہیں۔ کنگز کالج لندن کی نیوکلیئر ماہر ڈاکٹر ہیدر ولیمز کہتی ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پیوٹن کے لیے یوکرین میں ‘جیت’ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ابھی واضح نہیں ہوا، اور آخر روس کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر کیا چیز مجبور کر سکتی ہے؟ خیال رہے کہ یوکرین روس تنازع پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں حکومت کا تختہ الٹنے سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوں گے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کا استعمال خود کو شکست ہے؟
ایک پریشان کن معاملہ یہ بھی ہے کہ روس بہت قریب ہے، کیا یوکرین میں کسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کے استعمال کے بھیانک اثرات خود روس کی سرحدوں کو عبور نہیں کر سکتے، جب کہ پیوٹن کا دعویٰ بھی ہے کہ یوکرین روس کا حصہ ہے، پھر اپنی ہی زمین پر جوہری ہتھیار کے استعمال کے کیا معنی؟ بہرحال جوہری ماہرین کے آگے یہ سوال موجود ہے کہ کیا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد پیوٹن اس ‘ممنوع’ کو کر گزرنے والا پہلا رہنما بننا چاہیں گے؟ کچھ لوگ فکر مند ہیں کیوں کہ انھوں نے وہ کام کر ڈالے ہیں جن کے بارے میں دوسروں کا خیال تھا کہ وہ نہیں کریں گے، جیسا کہ یوکرین پر حملہ یا 2018 میں سیلسبری (برطانوی شہر) میں اعصابی گیس کا (مبینہ) استعمال۔ ڈاکٹر ہیدر ولیمز کا کہنا ہے کہ روس کے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہے، اور وہ ہے چین۔
روس چین کی حمایت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، جب کہ چین ‘پہلے استعمال نہ کرنے’ کے جوہری نظریہ پر عمل پیرا ہے، اس لیے ڈاکٹر ہیدر کا خیال ہے کہ اگر پیوٹن نے جوہری ہتھیار چلا دیے، تو چین کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہونا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جائے گا، اور ممکن ہے وہ چین کو کھو دے۔
کیا ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے؟
کوئی نہیں جانتا کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا استعمال کہاں تک لے جائے گا، یہ تو واضح ہے کہ پیوٹن سمیت جوہری جنگ کوئی نہیں چاہے گا، تاہم غلط حساب کتاب کی غلطی بھی ہو سکتی ہے، اگر اس کا استعمال مخالف فریق کے ہتھیار ڈالنے کے خیال سے کیا جائے تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ نیٹو پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کے اندر آ کر جواب دینے لگے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ صورت حال پر اس کی گہری نظر ہے، اس کی انٹیلی جنس روسی جوہری سرگرمیوں کو بغور دیکھ رہی ہے، جیسا کہ آیا ٹیکٹیکل ہتھیاروں کو اسٹوریج سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے، یا لانچ کی جگہوں پر صورت حال میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی، تاہم امریکا نے تاحال ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔
گورڈن کوریرا نے لکھا ہے کہ امریکا اور نیٹو کسی بھی جوہری استعمال کا جواب کیسے دیں گے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ صورت حال کو مزید بڑھانا نہ چاہیں جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگ جائے، تاہم وہ ایک لکیر کھینچنا تو ضرور چاہیں گے، یعنی ایٹمی رد عمل کی بجائے ایک روایتی لیکن سخت رد عمل، اور پھر روس کیا کرے گا؟
برطانوی نیوکلیئر سائنس دان جیمز ایکٹن کا کہنا ہے کہ ایک بار جب آپ جوہری دہلیز عبور کر لیتے ہیں، تو پھر رکنے کا کوئی واضح مقام دکھائی نہیں دیتا۔
بیجنگ: چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن کو یوکرین کے بحران کی اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرنا چاہیئے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ امریکا جو ہتھیاروں کے پیکج کیف بھیج رہا ہے اس سے تنازعہ اور بڑھے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔
کیف: یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین فوجی تنظیم نیٹو میں شامل نہیں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی زیر قیادت جوائنٹ ایکسپنڈیشنری فورس (جے ای ایف) کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر نے کہا کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، ہم نے برسوں سے سنا ہے کہ دروازے کھلے ہیں، لیکن ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ہم اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایک سچائی ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے، واضح رہے کہ یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نیٹو کی اس کی رکنیت کو غیر معینہ مدت کے لیے مسترد کر دیا جائے۔
یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، اگرچہ اس نے با رہا کہا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اس میں شامل ہونا چاہتا ہے، کیف نے منگل کو کہا کہ وہ سمجھ گیا ہے کہ اس کے پاس نیٹو کی رکنیت کے لیے کوئی کھلا دروازہ نہیں ہے، اور اس لیے اب وہ دوسری قسم کی حفاظتی ضمانتوں کی تلاش میں ہے۔
زیلنسکی نے ایک بار پھر مغربی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو جنگی طیارے فراہم کریں۔
مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگرچہ نیٹو رکنیت سمیت روس کی جانب سے حملے کے جو جواز پیش کیے گئے ہیں، اور جس قوت سے روس حملہ آور ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیوٹن یوکرین میں حکومت کی تبدیلی اور اس چھوٹے پڑوسی پر ایک ایسا مکمل غلبہ حاصل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے، جسے چیلنج نہ کیا جا سکتا ہو۔
دوسری طرف امریکا اور نیٹو کے دیگر ارکان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ روس کے حملے سے لڑنے کے لیے یوکرین کی مدد کرتے رہیں گے، تاہم نیٹو کی اپنی سلامتی کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔ سفارت کاروں اور فوجی تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ نیٹو کے اتحادیوں نے 24 فروری کو حملے شروع ہونے کے بعد سے 20 ہزار سے زیادہ ٹینک شکن اور دیگر ہتھیار یوکرین کو بھیجے ہیں۔
نیویارک: یوکرین پر روس کے حملے بعد سے اب آئی ایم ایف نے بھی ردِ عمل ظاہر کر دیا ہے، اور اسے عالمی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا، مالیاتی ادارے نے جنگ کے مضمرات کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ روس یوکرین کی جنگ دنیا کی معشیت کے لیے تباہ کن ہے، روسی حملے کے اثرات دنیا کی معیشت پر ترقی کی رفتار میں کمی کا باعث بنے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، اور یہ عالمی معیشت کو لمبے عرصے کے لیے ممکنہ طور پر ایک نئے سانچے میں ڈھال دے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھ جائے گی، خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔ نیز، جنگی صورت حال کے اثرات کاروبار میں خلل، سپلائی چینز کی بندش اور یوکرین کے ہمسایہ ممالک میں ترسیلات کی کمی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس جنگ سے دنیا بھر میں تجارت اور کاروبار بری طرح متاثر ہوں گے، سرمایہ کاروں میں غیر یقینی کی صورت حال بڑھ جائے گی، جس کا نتیجہ اثاثوں کی قیمتیں گرنے کی صورت میں نکلے گا، عالمی سطح پر لوگوں کے مالی حالات تنگی کی طرف جائیں گے اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں سرمائے کا اخراج بھی ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق روس یوکرین جنگ کے اثرات دور تک پھیلیں گے، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں خوراک کے سامان کی قلت کا بھی خدشہ ہے، جہاں مصر جیسے ممالک اپنی گندم کا 80 فی صد روس اور یوکرین سے درآمد کرتے ہیں۔
ٹوکیو: جاپان نے یوکرین کے پناہ گزینوں کے ایک سال کا ویزا دینے کا اعلان کیا ہے جس میں وہ کام بھی کرسکیں گے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی حکومت جاپان آنے والے یوکرینی پناہ گزینوں کو ایک سال کا ویزا حاصل کرنے کا اختیار دینے کی پیشکش کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں وہ کام کرنے کے اہل ہوں گے۔
سرکاری حکام نے کہا ہے کہ وہ روسی حملے سے بچ کر فرار ہونے والے یوکرینی باشندوں کو فعال طور پر قبول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اتوار کے روز تک جاپان پہنچنے والے 47 یوکرینی باشندوں کو پہلے ہی 90 دن کی مختصر مدت کے ویزے دیے جا چکے ہیں۔
وزیر انصاف فوروکاوا یوشی ہیسا نے منگل کے روز کہا کہ یوکرینی شہری اگر چاہیں تو نامزد سرگرمیوں کے ویزے کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں، جس سے انہیں جاپان میں ایک سال تک رہنے اور کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔
وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت یوکرین سے آنے والوں کے لیے ضروری اعانت فراہم کرنے کے مقصد سے انتظامی نائب وزیر کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو مجموعی طور پر وسیع پیمانے کی حامل مدد کی پیشکش کرنی چاہیئے جو ہر فرد کی مخصوص ضروریات کو پورا کرے۔