Tag: یو این وومین

  • خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس

    اسلام آباد: اقوام متحدہ اور جاپانی سفارت خانے نے خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے خصوصی ٹرانسپورٹ کے منصوبے پر باہمی اشتراک سے کام شروع کرنے کے لیے متعلقہ دستاویزات پر دستخط کردیے ہیں۔

    دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں اکنامک افیئرز ڈویژن، کمیشن برائے منصوبہ بندی پاکستان، خیبر پختونخوا کے شعبہ ٹرانسپورٹ اور پاکستان میں تعینات اقوام متحدہ کے مختلف نمائندگان نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    صوبے بھر میں چلائی جانے والی یہ بسیں صرف خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔

    یہ منصوبہ اقوام متحدہ کے پروجیکٹ سروسز ادارے یو این او پی ایس، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین اور خیبر پختونخواہ کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے اشتراک سے شروع کیا جارہا ہے جبکہ اس کے لیے مالی معاونت جاپانی حکومت کی جانب سےفراہم کی جائے گی۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات اقوام متحدہ کے کو آرڈینیٹر نیل بنہی نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ سروس برائے خواتین کا مقصد خواتین کو محفوظ اور آرام دہ سفری سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ’اس اقدام سے انہیں گھر سے باہر ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچایا جاسکے گا‘۔

    یو این او پی ایس کے پاکستان میں تعینات نمائندہ محمد حیدر رضا کا کہنا تھا کہ مخلوط سفری سہولیات میں کام کرنے والی خواتین اور طالبات کو مرد مسافروں، بس ڈرائیوروں اور کنڈکٹرز کی جانب سے ںامناسب رویے کا سامنا ہوتا ہے جبکہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شرح بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے شروع کیے جانے والے اس منصوبے میں شرکت یو این او پی ایس کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

    خیبر پختونخواہ کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ خیبر پختونخواہ میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔ ’ہمیں خوشی ہے کہ ہم خواتین کو علیحدہ اور محفوظ سفری سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوسکیں گے‘۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں بس سروس شروع کی جائے گی۔

  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    نیویارک: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے خواتین پر تشدد کے خلاف اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔

    یو این وومین کی جانب سے منعقد کی گئی اس تقریب کا مقصد دراصل خواتین پر تشدد کے خلاف پچھلے 20 سال سے جاری اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ تقریب کا شریک میزبان ادارہ یو این ٹرسٹ فنڈ تھا جس نے شرکا پر زور دیا کہ وہ خواتین پر تشدد کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مالی تعاون کریں۔

    تقریب میں فلم ’دا آورز‘ میں بہترین اداکاری پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی اداکارہ نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔ نکول اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں جو دنیا بھر میں صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    دائیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی اہلیہ، بائیں ۔ یو این وومین کی سربراہ

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 10 سال قبل اقوام متحدہ کی جانب سے سفیر مقرر ہونے کے بعد انہوں نے پہلا دورہ کوسوو کا کیا تھا۔ ’وہاں میں ایسی لڑکیوں اور خواتین سے ملی جنہوں نے بدترین تشدد کا سامنا کیا تھا لیکن وہ سروائیو کرنے میں کامیاب رہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئیں تاہم اقوام متحدہ نے ان ذہنی صحت اور سماجی رتبے کی کی بحالی کے لیے بہت کام کیا۔

    نکول کڈمین نے ان خواتین سے ملاقات کو اپنی زندگی بدلنے والا تجربہ قرار دیا۔ ’میں سمجھتی ہوں کے اقوام متحدہ کی سفیر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لڑکیوں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے خلاف اقدامات میں حصہ لوں‘۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    واضح رہے کہ عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

  • عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    دنیا بھر میں خواتین پر جنسی حملوں اور عوامی مقامات پر ان کے ساتھ ہراسمنٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس نے خواتین اور ان کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی متعدد رپورٹس کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے ایک خاتون کو کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہے جو صرف جنس کی بنیاد پر اس سے کی جاتی ہے۔ ان میں گھورنے سے لے کر خطرناک جنسی حملوں تک کے واقعات شامل ہیں اور اس میں ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی کوئی قید نہیں۔

    harrasment

    دنیا بھر میں ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بسوں میں پینک بٹن نصب کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

    خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن *

    یہ پینک بٹن بس میں دروازے کے اوپر لگایا جائے گا جسے دباتے ہی قریبی پولیس اسٹیشن میں ایک ہنگامی پیغام جائے گا اور اس کے بعد پولیس بس میں نصب کیمرے کی براہ راست فوٹیج دیکھ سکے گی۔

    تاہم ان اقدامات کی ایک بہترین مثال جنوبی امریکی ملک ایکواڈور کے دارالحوکمت کیٹو میں دیکھی گئی جہاں شہری ترقیاتی کے لیے ’کیٹو سیف سٹی پروگرام‘ کا آغاز کیا گیا اور اس میں سرفہرست شہر کو خواتین کے لیے محفوط بنانے کا ہدف رکھا گیا۔

    اس منصوبے کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کی جانب سے ایک سروے کیا گیا تھا جس میں دیکھا گیا کہ 12 ماہ کے دوران شہر کی 68 فیصد خواتین نے عوامی مقامات پر کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

    quito-3

    یو این وومین نے اس کے بعد شہری حکومت، خواتین کے لیے سرگرم عمل متعدد اداروں، اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔

    جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر *

    اس منصوبے کے تحت شہر میں جابجا رضا کارانہ خدمات انجام دینے والی خواتین کو تعینات کیا گیا۔ ان خواتین کو باقاعدہ اتھارٹی دی گئی جس کے بعد یہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے اہم طاقت بن گئیں۔

    رضاکارانہ خدمات انجام دینے والی ان اہلکاروں کو اس قسم کے واقعات کی اطلاع بھی دی جا سکتی ہے جس کے بعد سنگین نوعیت کے کیسز میں یہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینے کی مجاز ہوں گی۔

    کیٹو کے میئر ماریشیو روڈز کا کہنا ہے کہ شہر کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس ضمن میں شہری حکومت کے تحت 4 شعبوں میں کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ سڑکوں کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا، گھریلو تشدد کے واقعات کا سدباب، آفات اور خطرات میں خواتین کو سہولیات کی فراہمی، اور تمام شعبوں میں خواتین کی شراکت داری۔

    quito-2

    انہوں نے بتایا کہ کیٹو کے سیف سٹی منصوبے کے تحت اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کن مقامات پر خواتین کو ہراسمنٹ کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ان مقامات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں محفوط بنانے کے لیے اقدامات کیے جیسے وہاں روشنیاں نصب کی گئیں اور وہاں کا ماحول بہتر بنایا گیا۔

    زیادتی کا شکار مختاراں مائی کی ریمپ پر واک *

    ایکواڈور میں یو این وومین کی نمائندہ مونی پیزانی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد کے واقعات اور اس کے سدباب کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی از حد ضرورت ہے تاکہ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا حصہ نہ سمجھیں۔

    ماہرین نے کیٹو میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کو بے حد سراہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام شہروں میں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں۔

  • پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

    لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔

    پناہ گزین بچوں کے خواب *

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔

    اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔

    مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔

    یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

    1
    حوا

    مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

    2

    یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔

    4
    اردو فدیماتو

    اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔

    5
    یایا دیا آدما

    یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔

    یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

    6
    اوسینا حمادو

    اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔

    7
    نینی داؤدا

    نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔

    اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔

    8

    کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔

  • امریکا میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہ مرد ڈاکٹرز سے کم

    امریکا میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہ مرد ڈاکٹرز سے کم

    میامی: ایک سروے کے مطابق امریکا میں مرد ڈاکٹرز کے برابر قابلیت رکھنے والی خواتین ڈاکٹرز کو کم تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں 12 ریاستوں کے 24 سرکاری طبی اداروں میں کام کرنے والے طبی ماہرین کی تنخواہوں کا موازنہ کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد طبی ماہرین کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔

    سروے سے حاصل ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ مرد طبی ماہرین کی تنخواہ سالانہ ڈھائی لاکھ ڈالر سے زائد تھی جبکہ خواتین کی 2 لاکھ کے قریب تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    سروے میں مرد و خواتین کو ملنے والی سہولیات کا جائزہ بھی لیا گیا جن کی مقدار برابر تھی البتہ تنخواہ میں 50 ہزار ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔

    سروے کے سربراہ ہارورڈ میڈیکل اسکول کے پروفیسر انوپم جینا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’سروے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی شعبہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور مرد و خواتین کے بیچ تفریق کو ختم کیا جائے‘۔

    مزید پڑھیں: گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    دوسری جانب ایک اور سروے میں دیکھا گیا کہ خواتین پروفیسرز مرد پروفیسرز سے صرف ایک فیصد زیادہ کماتی ہیں اور دونوں کی تنخواہوں میں 2 سے 4 ہزار ڈالر سالانہ کا فرق ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

  • ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    مشہور ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے کو اقوام متحدہ (خواتین) کی خیر سگالی سفیر مقرر کردیا گیا ہے۔ وہ نکول کڈمین اور ایما واٹسن کے بعد تیسری ہالی وڈ اداکارہ بن گئی ہیں جو اقوام متحدہ کے ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔

    فلم ’لیس مزر ایبل‘ میں معاون اداکارہ کے طور پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی این ہیتھ وے خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔ ہالی وڈ اداکارہ ایما واٹسن اور نکول کڈمین کے علاوہ تھائی لینڈ کی شہزادی بھی اس مشن میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔

    این ہیتھ وے کا شعبہ ’کام کے دوران ماؤں کو دی جانے والی سہولیات‘ کا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فمزلے مالمبو کے مطابق یو این وومن آفسز میں خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کے خلاف کام کر رہی ہے اور این کی تقرری اسی مقصد کی ایک کڑی ہے۔

    اس موقع پر این نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تقرری پر بہت فخر محسوس کر رہی ہیں اور صنفی امتیاز کے خاتمے پر کام کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ مختلف مقاصد کی تشہیر اور فروغ کے لیے مختلف اداکار و اداکاراؤں اور دیگر شعبوں کی مشہور شخصیات کو اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کر چکا ہے۔

    اس سے قبل ایما واٹسن بھی یو این وومن کے ساتھ صنفی برابری کے لیے ’ہی فار شی یا خواتین کے لیے مرد‘ مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ نکول کڈمین یو این وومین کے ساتھ مل کر خواتین پر تشدد کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

    جیمز بونڈ کا کردار ادا کرنے والے اداکار ڈینیئل کریگ بارودی سرنگوں کے نقصانات سے بچاؤ، جبکہ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کلائمٹ چینج کے خلاف اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر ہیں۔

    مشہور اداکارہ انجلینا جولی بھی جنگ زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ہیں۔

    این ہیتھ وے اس سے قبل بھی ایک ادارے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی خود مختاری پر کام کر چکی ہیں جبکہ انہوں نے جنسی تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے کینیا کا سفر بھی کیا تھا۔

    انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی جانب سے بنائی جانے والی ڈاکومنٹری ’گرل رائزنگ‘ میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔