Tag: یو کے

  • برطانیہ میں پیر کے دن گرمی کتنی شدید رہی؟

    برطانیہ میں پیر کے دن گرمی کتنی شدید رہی؟

    لندن: گلوبل وارمنگ کے باعث یورپ کی طرح برطانیہ بھی شدید گرم موسم کا سامنا کر رہا ہے، پیر کا دن ملک میں سال کا گرم ترین دن رہا۔

    بی بی سی کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ روز (پیر) سال کا گرم ترین دن رہا، میٹ آفس کے مطابق کیمبرج میں درجہ حرارت 34.8 (95F) ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو گیا۔

    محکمہ موسیات نے بلیو وارننگ جاری کرتے ہوئے لندن سمیت کئی علاقوں میں آئندہ چند روز موسم گرم رہنے کی پیش گوئی ہے۔ زیادہ درجہ حرارت وسطی اور جنوبی برطانیہ تک محدود ہے جہاں لاکھوں لوگوں کے لیے یلو ہیٹ ہیلتھ الرٹ جاری کیا گیا۔

    برطانیہ کے دوسرے علاقوں میں دن کی شروعات بارش سے ہوئی، اور مزید شمال میں موسلادھار بارش برسی، اور وہاں یلو طوفان کی وارننگ دی گئی تھی جو اب ختم کر دی گئی ہے۔

    ماہرین نے پہلے ہی پیر کے دن کے لیے شدید گرمی کی پیشگوئی کی تھی، پیر کو دوپہر تک دارالحکومت میں درجہ حرارت پہلے ہی 30C سے تجاوز کر چکا تھا، اور کئی دیگر سائٹس پر درجہ حرارت 32C سے بڑھ گیا تھا، لندن کے کچھ حصے 33 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچے۔

    میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ درجہ حرارت مسلسل بڑھنے کے سبب سخت چیلنجز درپیش ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے زمین خطرناک نشان کے قریب پہنچ رہی ہے، اس گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں قدرتی ماحول میں بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق یورپ میں پچھلے برس گرمی سے 47 ہزار اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔

  • برطانیہ کا کرونا پابندیوں کے خاتمے کا اعلان، غیر ملکی مسافروں کے لیے بڑی خوشخبری

    برطانیہ کا کرونا پابندیوں کے خاتمے کا اعلان، غیر ملکی مسافروں کے لیے بڑی خوشخبری

    لندن: برطانیہ نے کرونا پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ نے ایسٹر سے قبل تمام کرونا پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    جمعہ 18 مارچ سے برطانیہ میں مسافروں کے لیے کرونا وائرس سے متعلق تمام بین الاقوامی سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی، مسافروں کے لیے ویکسینیشن کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق جنھوں نے ویکسین نہیں لگوائی، ان کو سفر سے پہلے کرونا ٹیسٹ بھی نہیں کروانا پڑے گا، اور نہ ہی مسافروں کو لوکیٹر فارم جمع کروانے کی ضرورت ہوگی۔

    ہوٹلوں میں قرنطینہ انتظام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مارچ سے وہ بھی مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا، اس طرح برطانیہ پہلی بڑی معیشت والا ملک بن جائے گا جو کرونا کے بین الاقوامی سفری پابندیوں کا خاتمہ کرے گا، اور یہ مسافروں، سفر اور ہوا بازی کے شعبے کے لیے ایک تاریخی لمحہ بھی ہوگا۔

    برطانوی وزیر ٹرانسپورٹ گرانٹس شاپس نے کہا کہ سفری پابندیاں ختم کرنے کا مطلب ہے کہ لوگ پرانے وقت کی طرح دوبارہ سفر کر سکیں گے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ میں 86 فی صد آبادی کو کرونا ویکسین کی دوسری ڈوز ملی ہے اور 67 فی صد آبادی بوسٹر یا تیسری ڈوز بھی لے چکی ہے۔

  • برطانوی آرمی چیف کا فوج میں روبوٹ آرمی شامل کرنے کا اعلان

    برطانوی آرمی چیف کا فوج میں روبوٹ آرمی شامل کرنے کا اعلان

    لندن: برطانوی جنرل نک کارٹر کا کہنا ہے کہ آئندہ دس برسوں میں 30 ہزار روبوٹ فوجی 90 ہزار برطانوی فوج کے شانہ بشانہ ہوں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی فوج میں 30 ہزار روبوٹ فوجی شامل کیے جائیں گے، اس سلسلے میں برطانوی آرمی چیف نک کارٹر نے یوم یادگار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 2030 تک روبوٹ فوج میں شامل ہو جائیں گے۔

    انھوں نے کہا دنیا ایک اور جنگ عظیم کے خطرے سے دو چار ہے، جو روبوٹ فوج میں شامل کیے جا رہے ہیں وہ 90 ہزار سپاہیوں کا ساتھ دیں گے، وزارت خزانہ سے اس کے لیے فنڈز کے سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے۔

    برطانوی آرمی چیف نے ٹی وی انٹرویو میں کہا فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے، اب روبوٹ فوجی بھی انسانوں کے ساتھ مل کر فرنٹ لائن پر کام کریں گے۔

    چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نک کارٹر

    چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے کہا جو فوج تیار کی جا رہی ہے اس میں ایسی مشینیں شامل ہوں گی جو یا تو خود کار ہوں گی یا پھر دور سے انھیں کنٹرول کیا جا سکے گا۔

    واضح رہے کہ روبوٹوں کی جنگ میں سرمایہ کاری برطانوی پانچ سالہ مربوط دفاعی جائزے کی منصوبہ بندی کا بنیادی حصہ تھا، تاہم اس منصوبے کا مستقبل اس وقت شکوک و شبہات کی نذر ہو گیا جب چانسلر رشی سونک نے حکومتی اخراجات کا جائزہ ملتوی کر دیا۔ جس پر برطانوی آرمی چیف نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو وعدے کے مطابق پانچ سالہ دفاعی جائزے پر آگے بڑھنا چاہیے۔

    برطانوی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج نے موجودہ تربیت یافتہ قوت 73،870 کے ساتھ کئی برسوں سے بھرتیوں کے سلسلے میں بھی جدوجہد کی ہے، جو معمولی 82،050 کے ہدف سے بھی کم ہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ مربوط جائزے میں اس ہدف کو مزید کم کر کے 75،000 کر دیا جائے گا، اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ دوسری طرف برطانیہ کی تمام مسلح افواج چھوٹے ڈرونز یا دور سے کنٹرول کیے جانے والی زمین پر یا پانی کے اندر چلنے والی گاڑیوں پر مشتمل تحقیقی منصوبوں کے سلسلے میں مصروف ہیں۔

    ’قاتل روبوٹ ختم کرو‘ مہم کے نتیجے میں برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ صرف انسان ہی ہتھیاروں سے فائر کریں گے، تاہم دوسری طرف پابندیوں سے آزاد روبوٹ جنگ کے امکانی خطرے سے متعلق تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

    اس وقت جو ٹیکنالوجی بنائی جا رہی ہے اس میں آئی 9 ڈرون شامل ہے، جو 6 روٹرز کے ذریعے چلے گا، اور اس میں 2 شاٹ گنز ہیں، اور اسے دور سے کنٹرول کیا جائے گا، اسے عمارتوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، یعنی شہری جنگ کی صورت حال کے لیے جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

  • شمالی برطانیہ میں مسلم شہری آج عید پر ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں‌ گے

    شمالی برطانیہ میں مسلم شہری آج عید پر ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں‌ گے

    مانچسٹر: برطانیہ میں آج بروز جمعہ عید الاضحیٰ منائی جا رہی ہے، شمالی برطانیہ میں اس موقع پر جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر شمالی برطانیہ میں جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے، دوسری طرف آج برطانیہ بھر میں بقر عید منائی جا رہی ہے۔

    بریڈ فورڈ، مانچسٹر، ہالیفیکس، لنکا شائر، بلیک برن اور گرد و نواح میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے، آج رات بارہ بجے کے بعد سے گھروں میں ایک دوسرے سے ملنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

    جزوی لاک ڈاؤن والے علاقوں میں ایشیائی کمیونٹی کی بڑی تعداد مقیم ہے، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہنکاک کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کیسز میں اضافے کے باعث لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا، شہریوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے، وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔

    جزوی لاک ڈاؤن کے باعث ان علاقوں میں رہنے والے افراد دوسروں گھروں میں رہنے والے افراد سے نہیں مل سکیں گے، مقامی کونسلوں کو لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کے لیے ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔

    واضح رہے کہ جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید پر برطانیہ کے مسلمان شہری عزیز و اقارب سے نہیں مل سکیں گے۔

  • برطانیہ میں جان بوجھ کر کھانسنا جرم قرار

    برطانیہ میں جان بوجھ کر کھانسنا جرم قرار

    لندن: برطانیہ میں جان بوجھ کر کھانسنا جرم قرار دے دیا گیا، برطانوی حکومت نے تنبیہہ جاری کی ہے کہ جان بوجھ کر کھانسنے والے کو 2 سال قید کی سزا ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت نے ملک میں جان بوجھ کر کھانسنے کو جرم قرار دے کر 2 سال قید کی سزا کا عندیہ دے دیا، پولیس افسران اور طبی عملے کی طرف کھانسنے والے اب قانون کے شکنجے میں آئیں گے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ میل جول سے دوری کے حکومتی احکامات کی خلاف ورزی پر بھی جرمانے ہوں گے، پہلی بار خلاف ورزی پر 60، غلطی دہرانے پر 120 پاؤنڈ جرمانہ ہوگا۔

    ادھر اسکاٹ لینڈ پولیس کو اضافی اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں، پولیس کسی بھی شخص سے گھر سے باہر نکلنے کی وجہ دریافت کر سکے گی، معقول وجہ نہ بتانے پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، پولیس کے پاس غیر ضروری کاروبار بند کرانے کا بھی اختیار ہوگا۔

    این ایچ ایس کی خدمات پر برطانوی عوام کا خراج تحسین

    خیال رہے کہ برطانیہ میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 11,658 ہو گئی ہے، وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 578 تک پہنچ گئی، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 113 ہلاکتیں ہوئیں، این ایچ ایس اب تک 104,866 افراد کے ٹیسٹ کر چکا ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 2129 نئے کیسز سامنے آئے، طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آیندہ 2 سے 3 ہفتوں میں وائرس کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پر بڑھے گا۔

    ادھر کرونا وائرس کے سبب برطانوی حکومت نے 350 غیر قانونی تارکین وطن کو بھی رہا کر دیا ہے، تارکین وطن کو ڈیٹینشن سینٹرز میں رکھا گیا تھا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے مزید قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

    دوسری طرف برطانیہ بھر میں این ایچ ایس (برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس) کے عملے کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر یا کھڑکیوں سے ایک منٹ کے لیے تالیاں بجائیں، اس کا مقصد عملے کو بتانا تھا کہ ہم اُن کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ کمپین ایک یوگا ٹیچر کی جانب سے سوشل میڈیا پر شروع کی گئی تھی جو وائرل ہو گئی۔

  • مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں: برطانوی وزیر خارجہ

    مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں: برطانوی وزیر خارجہ

    لندن: برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے برطانوی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا، انھوں نے کہا کہ انھیں کشمیر کی صورت حال پر شدید تشویش ہے۔

    ڈومینک راب نے کہا کہ انسانی حقوق کا مسئلہ پاک بھارت نہیں عالمی مسئلہ ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں، عالمی سطح پر طے انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔

    انھوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو رسائی دی جائے، کشمیر میں موجود تناؤ کم کیا جانا چاہیے، مسئلہ کشمیر کو یو این قراردادوں یا شملہ معاہدے کے مطابق حل کریں۔

    یہ بھی پڑھیں:  مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے ایک ماہ مکمل

    واضح رہے آج آرٹیکل 370 اے ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے، مہینے بھر سے وادی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات معطل ہیں۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مواصلاتی نظام کی معطلی، مسلسل کرفیو اور سخت پابندیوں کے باعث لوگوں کو بچوں کے لیے دودھ، جان بچانے والی ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

  • برطانوی پارلیمنٹ سے مشکوک پارسل برآمد

    برطانوی پارلیمنٹ سے مشکوک پارسل برآمد

    لندن: برطانیہ میں مشکوک پارسل ملنے کا سلسلہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، پولیس نے پارسل قبضے میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہاؤس آف لارڈز میں بھی مشکوک پارسل موصول ہوا ہے جسے میٹروپولیٹن پولیس نے قبضے میں لے کر تحقیقات شروع کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پارسل کے ملنے سے چند گھنٹے پہلے گلاسگویونیورسٹی میں بھی ایسے پارسل کو دھماکا کرکے تلف کیا گیا تھا۔

    یونیورسٹی کے مشکوک پارسل کو ڈسپوزل اسکواڈ نے اپنی نگرانی میں تلف کیا، تحقیقاتی اداروں نے معاملے کی باریکی سے جانچ پرتال کے لیے خصوصی اقدامات شروع کردیے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ پارسل میں موجود دھماکا خیز مواد جانی نقصان نہیں کرسکتا البتہ شہری زخمی ہوسکتے ہیں، پارسل بھجوانے والے شخص کی تلاش جاری ہے، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    لندن کے مختلف مقامات سے بم برآمدگی کا معاملہ، پولیس نے تفتیش شروع کردی

    خیال رہے کہ گذشتہ روز برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے ریلوے اسٹیشن، ہیتھرو اور لندن سٹی ایئرپورٹ سے دھماکا خیز مواد کے چھوٹے سائز کے تین پیکٹ بم برآمد ہوئے تھے جس کے بعد پولیس نے تینوں مقامات کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی تھی۔

    یاد رہے کہ ایک ماہ قبل لندن کے انٹرنیشنل گیٹ وک ایئرپورٹ پر دو مشکوک ڈرونز کی پروازوں کے باعث مسلسل 36 گھنٹے تک پروازیں منسوخ رہی تھیں، جس کے باعث ڈیڑھ لاکھ مسافر متاثر ہوئے تھے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق مشکوک ڈرونز کو کنٹرول کرنے پولیس کی ناکامی کے بعد حکومت نے فوج کی خدمات حاصل کی تھیں۔

  • برطانیہ میں مریض 62 گھنٹے ایمبولینس کاانتظار کرتا رہا

    برطانیہ میں مریض 62 گھنٹے ایمبولینس کاانتظار کرتا رہا

    لندن: برطانیہ میں فوری طبی امداد فراہم کرنے والی ایمبولینس سروس کا نظام زوال کا شکار ہے ، ایک مریض 62 گھنٹے طبی امداد ملنے کا انتظار کرتا رہا۔

    تفصیالت کے مطابق جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہورہا ہے کہ برطانیہ میں مریضوں اور حادثے کا شکار لوگوں کو طبی امداد فراہم کرنے کا نظام کمزور پڑرہا ہے، برطانیہ میں عموماً پہلی کال کے آدھے گھنٹے میں ایمبولینس پہنچ جایا کرتی تھی تاہم اب اس میں تاخیر ہورہی ہے۔

    اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ تاخیر کچھ کیسز میں بہت زیادہ ہی ہوگئی ہے یہاں تک کہ گزشتہ سال 4 مریضوں کو 50 گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑا، جن میں سے ایک کا انتظار 62 گھنٹے طویل تھا، یہ ریکارڈ ویلش ایمبولنس نے قائم کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق چار ایمبولنس سروس فراہم کرنے والے ٹرسٹ ایسے ہیں جنہوں نے 999 ایمرجنسی کالز پر ردعمل دینے میں 24 گھنٹے سے زائد وقت لگایا۔

    BBC
    اعدادو شمار – بشکریہ بی بی سی

    ویلش ایمبولنس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ اعداد وشمار عمومی نہیں ہیں بلکہ یہ کسی ہنگامی حالات کی صورت میں کیا جانے والا انتظار ہے۔ اس معاملے پر مریضوں کی ایسوسی ایشن نے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

    سال 2017 سے 2018 کے دوران چار ایمبولینس سروس ایسی ہیں جنہوں نے مریض تک پہنچنے میں 24 گھنٹے سے زائد وقت لگایا۔ ان میں سے کچھ مریضوں کو سانس کی تکالیف اور ذہنی صحت کے مسائل درپیش تھے جو کہ ہائی ایمرجنسی لسٹ میں شامل ہیں۔ تاہم ٹرسٹس کا موقف ہے کہ طویل دورانیہ ان لوگوں کے لیے تھا جن کی نوعیت سنگین نہیں تھی اور انہیں بعض صورتحال میں ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔

    کیرولین ہارڈیکر کی والدہ جن کی عمر79 سال ہے اپنے کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھیں اور اس کے بعد انہیں راستے پر ساڑھے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ کیرولین کے مطابق یہ خوفناک تھا ، تکلیف سے میری والدہ کا برا حال تھا اور ہم نے اسکول میں سنا تھا کہ ایمبولینس آٹھ منٹ میں آجاتی ہے ، تاہم جب ہمیں ضرور ت پڑی تو ہمیں چھ بار کال کرنا پڑی تب بھی اسے آنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگ گئے۔

    ایمبولنس سروسز نے ان مریضوں کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں جنہیں طبی امداد کے حصول کے لیے 50 گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑا، جس کے سبب ان کا موقف سامنے نہیں آسکا۔

  • ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    لندن: برطانیہ میں ضائع شدہ غذائی اشیا سے سجی پہلی سپر مارکیٹ کا افتتاح کردیا گیا۔ اس سپر مارکیٹ میں وہ غذائی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جو مختلف ہوٹلوں اور سپر اسٹورز کی جانب سے ضائع کردی جاتی ہے یا پھینک دی جاتی ہے۔

    برطانوی شہر لیڈز میں کھولی گئی اس سپر  مارکیٹ کو، جسے ویئر ہاؤس کا نام بھی دیا گیا ہے، رئیل جنک فوڈ پروجیکٹ نامی تنظیم نے قائم کیا ہے جو ضائع شدہ خوراک کو قابل استعمال بنانے پر کام کر رہا ہے۔

    sm-1

    sm-2

    مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کی جگہ ’پے ایز یو فیل‘ کا ٹیگ لگا ہے یعنی آپ خوراک کے لیے جو قیمت مناسب سمجھیں وہی دے دیں۔

    یہ سپر مارکیٹ ان افراد کو مفت اشیائے خورد و نوش بھی فراہم کر رہی ہے جن کی آمدنی کم ہے اور جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز

    ان ہی میں سے ایک کرسٹی رہوڈز بھی ہے۔ کرسٹی اور اس کا شوہر کم تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا ان کی آمدنی بے حد کم ہے۔ اس آمدنی میں وہ اپنی اور اپنے 3 بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے اور ایسے میں یہ ویئر ہاؤس ان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔

    sm-3

    sm-4

    کرسٹی کا کہنا ہے کہ اسے یہاں سے تازہ پاستہ، جوس، مٹھائیاں، سبزیاں اور سلاد مل جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے غریب افراد کو پھلوں سے جام بنانا بھی سکھائے گی جو اس نے ایک بار اپنے گھر پر بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پروجیکٹ کے سربراہ ایڈم اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اسٹور پورے ملک میں کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سے لوگ کم قیمت یا مفت خوراک حاصل کرسکیں۔

    sm-5

    sm-6

    واضح رہے کہ خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔