Tag: یکم اکتوبر برسی

  • ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد ایک فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھا۔ تاہم اُن کی پہچان منفرد موضوعات پر اُن کی فلمیں اور مکالمہ نگاری ہے۔

    ریاض شاہد 1972ء میں‌ آج ہی کے دن کینسر کے سبب وفات پاگئے تھے۔ لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے ریاض شاہد کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ انھوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل مکمل کرنے کے بعد صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا اور بعد میں فلموں کا اسکرپٹ لکھنے لگے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں ریاض شاہد کو ان منفرد اور کاٹ دار مکالمہ نگاری کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال فن کاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے چند فلمی نغمات بھی تحریر کیے تھے۔

    ’بھروسہ‘ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم تھی اور یہی فلم اُن کی وجہِ شہرت بن گئی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد کی ایک اور فلم ’شہید‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تہلکہ خیز فلم کہا جاتا ہے۔ 1962ء میں ریاض شاہد بطور ہدایت کار سامنے آئے اور اپنی پہلی فلم ’سسرال‘ بنائی۔ یہ اپنے وقت کی ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی اور ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا جب کہ 1967ء میں ایک اور فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی جو انہی کی تحریر کردہ تھی۔

    ریاض شاہد نے تاریخی فلمیں بھی بنائیں جنھیں ملک بھر میں‌ شائقین نے پسند کیا۔ ان شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی تاریخ کے موضوع پر ریاض شاہد کی ایک بہترین کاوش تھی۔ ریاض شاہد نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    ریاض شاہد خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھیں پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 11 مرتبہ دیا گیا۔ ’’زرقا‘‘ ریاض شاہد کی وہ فلم تھی جسے تین نگار ایوارڈ دیے گئے تھے۔

    ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اداکارہ نیلو سے شادی کی تھی۔ شان انہی کی اولاد ہیں جو پاکستان میں فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے اداکار ہیں۔

  • یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم کے علاوہ ٹیلی ویژن پر بھی اداکاری کی اور اپنے اسٹیج شو کے ذریعے بھی ناظرین کو محظوظ کیا۔

    سید کمال 27 اپریل 1937 کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں مختصر کردار نبھا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیاا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے جہاں ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام کرنے کا موقع دیا اور یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ان کے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    وہ اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی کار بھی تھے۔ کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار نبھائے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    اداکار کمال نے 80 سے زائد فلموں‌ میں‌ اداکاری کی۔ اردو فلموں کے علاوہ انھیں چند پنجابی اور ایک پشتو فلم میں‌ بھی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سید کمال کا شو بھی نشر ہوا جسے ناظرین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار نبھایا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں اترے، مگر کام یابی نہ ملی۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ اداکار نے قلم اٹھایا تو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔ تین بار فلم نگری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے سید کمال کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔